قرطبی والا واقعہ کو من گھڑت ایک ہی وجہ سے نہیں کہا جا سکتا اور وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کوئی ایسا لڑکا ہو جس کے بارے میں لوگوں کا دعوٰی ہو کہ وہ دوزخ کے حالات جانتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قرطبی نے اس کی آزمائش بیان کئے گئے طریقے سے کی ہو۔ لیکن اس واقعہ کا غیر صحیح ہونا بھی واضح ہے اور دلیل اس کی یہ ہے کہ کسی بھی حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ 70000 دفعہ کلمہ کا ثواب کسی کو بخشا جائے تو اس کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ اور صاحب کشف ہونے کا دعوی کرنے والے کے دعوی کو صحیح مان لینا بھی کسی طرح صحیح نہیں کیونکہ کوئی انسان یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ صاحب دعوی سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معجزہ اور کرامت دائمی نہیں ہوتے بلکہ مخصوص وقت تک کے لئے ہوتے ہیں اور یہ وقت کا تعین اللہ ہی کی مرضی پر ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخ اور جنت کا اکثر مشاہدہ کیا لیکن یہ مشاہدہ دائمی کبھی بھی نہیں رہا اور بعض اوقات اللہ نے قبر والوں کے حالات بھی نبی پر منکشف فرمائے لیکن ان میں بھی دوام ہرگز نہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ صاحب کشف لڑکے کو ورغلانے کے لئے شیطان نے اس کو ایک مشاہدہ کرایا ہو جس کو وہ حقیقی دوزخ سمجھ بیٹھا ہو۔ پھر اگر دیکھا جائے تو ایسے دعوے نہ تو صحابہ میں سے ہی کسی نے کئے اور نہ ہی آئمہ اور محدثین میں سے کسی نے کئے۔ ایسے دعووں کا سارا الزام زاہدوں پر ہی ہے۔
میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا کہ آپ نے اس کو حجت مانا ہے۔
آپ نے قرطبی والے واقعہ کو رد کیا ہے اور اس کے دلائل یہ دیے ہیں
پہلا اعتراض
کیوں کہ 70000 مرتبہ کلمہ پڑھنے کا ثواب حدیث سے ثابت نہیں تو یہ کشف مردود ہوگا اور واقعہ جھوٹا کہلائے گا یعنی ایسے امر کا کشف ہونا جو حدیث سے ثابت نہ ہو مردود کہلائے گا
اولا
اب ہم دوبارہ جریج والے قصہ کی طرف آتے ہیں ، جریج کو بھی معلوم تھا کہ مھد میں بچے کلام نہیں کرتے اور نہ کبھی اس امت کے نبی نے جریج کو بتایا تھا کہ تم پر ایک الزام لگے گا تو ایک مھد میں بچہ تم سے وہ الزام ہٹائے گا لیکن جریج کو کشف ہوا کہ وہ بچہ نہ صرف کلام کرے گا بلکہ سچ بولے گا تو جب جریج کا کشف مردود نہیں ہو رہا اور اس کو اپنے نبی سے بھی کچھ معلوم نہ تھا تو قرطبی والے واقعہ میں اس نوجوان کے کشف کو کیوں جھوٹا کہا جارہا ہے
ثانیا
ذکر کی فضیلت تو قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور ذکر کی طرف داعیہ پیدا کرنا اس قصہ سے مطلوب ہے ۔ اور اس سے کوئی سنت عمل ثابت نہیں کیا جارہا ہے ۔ اس بات کا اقرار آپ نے بھی کیا ہے
میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا کہ آپ نے اس کو حجت مانا ہے۔
اس لئیے بھی یہ کشف حدیث مخالف نہیں ، حدیث مخالف تب ہو جب اس کو مسنون عمل کا درجہ دیا جائے
دوسرا اعتراض
آپ نے کہا کہ دائمی کشف مردود ہوتا ہے تو اس واقعہ میں دائمی کشف آپ نے کہاں سے اخذ کیا ؟؟؟؟
اس بات کی کیا دلیل ہے کہ وہ اس کو سنت سمجھ کر عمل کر رہے تھے۔ ہو سکتا ہے انہوں نے بھی اس عمل کو صرف جائز اور انتظامی سمجھا ہو۔اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اس طریقہ سے قلم منور ہو جائے گا؟ جو موازنہ آپ نے بخاری و ترمذی کے حصص مقرر کرنے اور اذکار کی تعداد اور طرق مقرر کرنے میں کیا ہے یہ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اذکار کا طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور اس کے خلاف کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی کیونکہ وہی سنت ہے ۔ اور جو معاملہ احادیث کو سبقا سبقا پڑھنے کا ہے وہ الگ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی اصحاب صفہ قرآن اور سنت کی تعلیم حاصل کرتے تھے اور جیسے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا نزول ہوتا یا آپ سے کوئی حدیث نقل کی جاتی صحابہ اس کو یاد کرنے کی تگ و دو کرتے۔ اور قرآن بھی اللہ نے موقع و محل کی مناسبت سے اتارا سارا کا سارا ایک ساتھ نہیں نازل فرمایا۔ کتب احادیث کے حصص مقرر کرنے اور اذکار کا طریقہ مقرر کرنے کا تقابل ٹھیک نہیں ہے۔ اور پھر تعلیم کا یہ انداز اجماع سے بھی ثابت ہے جبکہ اذکار کے یہ طریقے صرف صوفیاء کے ہاں مشہور ہیں۔
اولا
بخاری و ترمذی کے حصص اور ان کی پڑھائی کا نظام جو ابھی مدارس میں رائج ہے وہ طریقہ دور نبوی میں نھیں تھا ۔ آپ ذرا اس کو ثابت تو کریں ۔ آج مدارس میں جو حصص محتص کرنے کا نظام ، پیپروں کا نظام اور سال کا نصاب و امتحانات کا طریقہ کار رائج ہے ذرا بعینہ اسی طرح کا نظام دور نبوت میں دکھائيں ۔ یہ نظام بطور انظامی امور سے متعلق ہے اور شریعت کے مقاصد کے حصول میں جو انتظامی امور یا جو ذریعہ ہوتا ہے وہ بعینہ ثابت کرنا ضروری نہیں اور وہ انتظامی امر في نفسہ سنت عمل نہیں ہوتا ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی انتطامی امر میں ذکر کی مخصوص تعداد متعین کرلے تو کیا قباحت ہے ، اس تعداد کو سنت تو نہیں سمجھا جا رہا ،
اگر دونوں امور میں تفاوت ہے تو واضح کریں یا اگر تعلیمی طریقہ کار کا بعینہ ثبوت ہے تو پیش کریں صرف دعوی نہ کریں
ثانیا
بخاری میں ایک صحابی کا واقعہ درج ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر سورہ الفاتحہ کا بطور وظیفہ پڑھ کر بغیر سنت سجھے دم کیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی نکیر نہ فرمائی تھی تو جو اذکار بطور انتظامی امور کے وظیفہ کے طور پر کیے جاتے ہیں تو کیوں اعتراض کر رہے ہیں
ثالثا
اس سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جن افراد کی سرزنش کی تھی وہ سنت سمجھ کر وہ عمل کر رہے تھے ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تو اس صحابی پر نکیر نہ کریں جس نے سورہ الفاتحہ بطور وظیفہ پڑھی اور عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابی عام افراد پر سخت نکیر کریں
رابعا
جو اذکار صحابہ سے ثابت ہوں اور حدیث سے ثابت نہ ہوں تو وہ اذکار بدعت ہوں گے ؟؟؟ آپ کی بات سے سے تو ایسی ہی لگ رہا ہے کیوں آپ ہر اس ذکر جو حدیث سے ثابت نہ بدعت قرار دے رہے ہیں1