• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک سانس میں 200 مرتبہ لا الہ الا اللہ کا ورد' میرے تبلیغی جماعت کے بھا ئیوں تم خود کوشش کیوں نہیں ؟

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
ذِکر و اذکار میں گنتی متعین کرنا!!!

دین اسلام میں ذکر الٰہی کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت ہے۔ بہت ساری نصوص میں ذاکرین کی تعریف اور ان کے لیے بہت سے سارے دنیوی و اخروی انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ذکر کرنے کے سلسلے میں دین اسلام نے ہمیں کچھ اصول بھی دئیے ہیں جن کا لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں میں صاحبان جبہ و دستار ذکر کے نام پر بدعات کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ کوئی روزانہ اکتالیس بار سورۃ یٰسین پڑھنے کو امتحان میں کامیاب ہونے کی ضمانت قرار دے رہا ہوتا ہے تو کوئی ایک ہزار مرتبہ روزانہ درود پڑھنے پر گھر بسنے کے نوید سنا رہا ہوتا ہے۔اور تو اور کئی دفعہ ایسے ذکر بھی سننے کو مل جاتے ہیں جن میں ایسے الفاظ شامل ہوتے ہیں جن کا عربی میں وجود ہی نہیں ہے۔ ذکر و اذکار میں گنتی متعین کر لینے سے متعلق حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا ایک فتویٰ نقل کر رہا ہوں جو اگرچہ مختصر سا ہے لیکن قابل غور ہے۔
حافظ صاحب سے سوال کیا گیا کہ ذکر میں اپنی طرف سے گنتی متعین کرنےکا کیا حکم ہے؟
تو آپ کا جواب تھا:
ذکر و اذکار اور ورد و وظائف کے سلسلہ میں اصل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص میں جہاں کہیں تعداد اور وقت کا تعین ہے، وہاں ان کا اہتمام ہونا چاہیےاور جس جگہ ان کو مطلق چھوڑا گیا ہے وہاں اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت کے زمرہ میں شامل ہے۔ صحیح حدیث میں ہے:
''من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد''
''جو دین میں اضافہ کرے وہ اضافہ ناقابل قبول ہے۔''
مسنون وِرد و وظائف میں گنتی سو سے زیادہ منقول نہیں ہے۔ علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں اس امر کی تصریح کی ہے۔
[ماہنامہ محدث : اگست 1999]
یہ تو آپ نے فتوی نقل کیا ۔ جو کہ امتی کا قول ہے ۔ ذرا اپنے دعوی کے مطابق قراں و حدیث سے جواب دیں
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
ذِکر و اذکار میں گنتی متعین کرنا!!!

دین اسلام میں ذکر الٰہی کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت ہے۔ بہت ساری نصوص میں ذاکرین کی تعریف اور ان کے لیے بہت سے سارے دنیوی و اخروی انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ذکر کرنے کے سلسلے میں دین اسلام نے ہمیں کچھ اصول بھی دئیے ہیں جن کا لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں میں صاحبان جبہ و دستار ذکر کے نام پر بدعات کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ کوئی روزانہ اکتالیس بار سورۃ یٰسین پڑھنے کو امتحان میں کامیاب ہونے کی ضمانت قرار دے رہا ہوتا ہے تو کوئی ایک ہزار مرتبہ روزانہ درود پڑھنے پر گھر بسنے کے نوید سنا رہا ہوتا ہے۔اور تو اور کئی دفعہ ایسے ذکر بھی سننے کو مل جاتے ہیں جن میں ایسے الفاظ شامل ہوتے ہیں جن کا عربی میں وجود ہی نہیں ہے۔ ذکر و اذکار میں گنتی متعین کر لینے سے متعلق حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا ایک فتویٰ نقل کر رہا ہوں جو اگرچہ مختصر سا ہے لیکن قابل غور ہے۔
حافظ صاحب سے سوال کیا گیا کہ ذکر میں اپنی طرف سے گنتی متعین کرنےکا کیا حکم ہے؟
تو آپ کا جواب تھا:
ذکر و اذکار اور ورد و وظائف کے سلسلہ میں اصل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص میں جہاں کہیں تعداد اور وقت کا تعین ہے، وہاں ان کا اہتمام ہونا چاہیےاور جس جگہ ان کو مطلق چھوڑا گیا ہے وہاں اپنی طرف سے متعین کرنا بدعت کے زمرہ میں شامل ہے۔ صحیح حدیث میں ہے:
''من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد''
''جو دین میں اضافہ کرے وہ اضافہ ناقابل قبول ہے۔''
مسنون وِرد و وظائف میں گنتی سو سے زیادہ منقول نہیں ہے۔ علامہ البانی نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ میں اس امر کی تصریح کی ہے۔
[ماہنامہ محدث : اگست 1999]
یعنی اگر کوئی اللہ اکبر ایک سو ایک دفعہ پڑھ لیں یا درود شریف سو سے زیادہ پڑھ لے تو بدعت ہو جائے گئی۔رہا ثنا ء اللہ صاحب کا فتوی تو میرے خیال میں آپکو وہ فتوی نقل نہیں کرنا چاہئے کیونکہ آپ کے حصولوں کیخلاف ہے ۔
آپ ایک بات کو صرف لے لیں اور اس بات کریں۔مثلاً آپ کے نزدیک سو سے زیادہ کوئی وظیفہ کرنا بدعت ہے یا کوئی وظیفہ قرآن و حدیث سے اخذ کر کے جو صراحت نبی اکرم ﷺ سے ثابت نہ بدعت ہے ،میں یہ دونوں چیزیں صحابہ تابعین سے ثابت کرونگا اور آپنے بدعت ثابت کرنا ہوگا ،نیا تھرید بنا لے ،ادھر بات ہو گی۔
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
یہ تو آپ نے فتوی نقل کیا ۔ جو کہ امتی کا قول ہے ۔ ذرا اپنے دعوی کے مطابق قراں و حدیث سے جواب دیں
تلمیذ صاحب قرآن و حدیث سے جواب دینا ان کے لئے ممکن ہوتا تو تقلید کیوں کرتے۔اس لئے تو اہل علم اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ اہل حدیث پانچویں فقہ ہے۔
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
707
پوائنٹ
120
محترم ایک واقعہ کے سلسلے میں کچھ موقف ہوتے ہیں
اول واقعہ کو صحیح سمجھنا اس صورت میں واقعہ کو حجت سمجھا جاتا ہے
دوم ظن غالب رکھنا کہ واقعہ صحیح ہو گآ
سوم سکوت یعنی واقعہ کو صحیح نہ سمجھنا ۔ لیکن اس صورت میں واقعہ کو جھوٹا بھی نہیں قرار دیا جاتا
چہارم واقعہ کو من گھڑت سمجھنا ۔
اب میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ قرطبی والے واقعہ کو کس درجہ میں رکھ رہے ہیں ، وضاحت فرمادیں

ایک بار اس کو آپ نے من گھڑت کہا تو میں نے دلیل مانگی تو آپ نے کہا
قرطبی والا واقعہ کو من گھڑت ایک ہی وجہ سے نہیں کہا جا سکتا اور وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کوئی ایسا لڑکا ہو جس کے بارے میں لوگوں کا دعوٰی ہو کہ وہ دوزخ کے حالات جانتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قرطبی نے اس کی آزمائش بیان کئے گئے طریقے سے کی ہو۔ لیکن اس واقعہ کا غیر صحیح ہونا بھی واضح ہے اور دلیل اس کی یہ ہے کہ کسی بھی حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ 70000 دفعہ کلمہ کا ثواب کسی کو بخشا جائے تو اس کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ اور صاحب کشف ہونے کا دعوی کرنے والے کے دعوی کو صحیح مان لینا بھی کسی طرح صحیح نہیں کیونکہ کوئی انسان یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ صاحب دعوی سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معجزہ اور کرامت دائمی نہیں ہوتے بلکہ مخصوص وقت تک کے لئے ہوتے ہیں اور یہ وقت کا تعین اللہ ہی کی مرضی پر ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخ اور جنت کا اکثر مشاہدہ کیا لیکن یہ مشاہدہ دائمی کبھی بھی نہیں رہا اور بعض اوقات اللہ نے قبر والوں کے حالات بھی نبی پر منکشف فرمائے لیکن ان میں بھی دوام ہرگز نہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ صاحب کشف لڑکے کو ورغلانے کے لئے شیطان نے اس کو ایک مشاہدہ کرایا ہو جس کو وہ حقیقی دوزخ سمجھ بیٹھا ہو۔ پھر اگر دیکھا جائے تو ایسے دعوے نہ تو صحابہ میں سے ہی کسی نے کئے اور نہ ہی آئمہ اور محدثین میں سے کسی نے کئے۔ ایسے دعووں کا سارا الزام زاہدوں پر ہی ہے۔

لیکن جہاں تک آپ نے اسے حجت اور دلیل کہا ہے تو یہ نتیجہ آپ نے کہاں سے اخذ کیا کہ ہم اس واقعہ سے حجت یا دلیل پکڑ رہیں ۔ ذرا بتائيں گے ہم نے کون سی فرض یا واجب یا سنت اس واقعہ سے اخذ کی ؟؟؟
میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا کہ آپ نے اس کو حجت مانا ہے۔
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
707
پوائنٹ
120
محترم جن لوگوں کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تنبیہ کی تھی انہوں نے اپنے طریق کو سنت اور شرعیت سمجھ لیا تھا اور یہاں ایک سانس میں دو سو بار ذکر کرنے کو کسی نے شریعت کا حصہ نہیں قرار دیا بلکہ یہ ایک انتظامی صورت تھی جیسا کہ پہلے وضاحت کی گئی ہے ۔
قول رسول کو جاننا شریعت کا حصہ ہے لیکن بخاری و ترمذی وغیرہ کے لغيے حصص بانٹنا اس شریعت کے حصول کو ذریعہ ہے ۔ اسی طرح ذکر کے مقرر کردہ طریق و تعداد اللہ کی یاد کو منور کو کرنے کا ذریعہ ہے سنت نہیں ، یہ انتظامی امور میں سے ہیں
اس بات کی کیا دلیل ہے کہ وہ اس کو سنت سمجھ کر عمل کر رہے تھے۔ ہو سکتا ہے انہوں نے بھی اس عمل کو صرف جائز اور انتظامی سمجھا ہو۔اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اس طریقہ سے قلم منور ہو جائے گا؟ جو موازنہ آپ نے بخاری و ترمذی کے حصص مقرر کرنے اور اذکار کی تعداد اور طرق مقرر کرنے میں کیا ہے یہ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اذکار کا طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور اس کے خلاف کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی کیونکہ وہی سنت ہے ۔ اور جو معاملہ احادیث کو سبقا سبقا پڑھنے کا ہے وہ الگ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی اصحاب صفہ قرآن اور سنت کی تعلیم حاصل کرتے تھے اور جیسے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا نزول ہوتا یا آپ سے کوئی حدیث نقل کی جاتی صحابہ اس کو یاد کرنے کی تگ و دو کرتے۔ اور قرآن بھی اللہ نے موقع و محل کی مناسبت سے اتارا سارا کا سارا ایک ساتھ نہیں نازل فرمایا۔ کتب احادیث کے حصص مقرر کرنے اور اذکار کا طریقہ مقرر کرنے کا تقابل ٹھیک نہیں ہے۔ اور پھر تعلیم کا یہ انداز اجماع سے بھی ثابت ہے جبکہ اذکار کے یہ طریقے صرف صوفیاء کے ہاں مشہور ہیں۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
قرطبی والا واقعہ کو من گھڑت ایک ہی وجہ سے نہیں کہا جا سکتا اور وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کوئی ایسا لڑکا ہو جس کے بارے میں لوگوں کا دعوٰی ہو کہ وہ دوزخ کے حالات جانتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قرطبی نے اس کی آزمائش بیان کئے گئے طریقے سے کی ہو۔ لیکن اس واقعہ کا غیر صحیح ہونا بھی واضح ہے اور دلیل اس کی یہ ہے کہ کسی بھی حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ 70000 دفعہ کلمہ کا ثواب کسی کو بخشا جائے تو اس کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ اور صاحب کشف ہونے کا دعوی کرنے والے کے دعوی کو صحیح مان لینا بھی کسی طرح صحیح نہیں کیونکہ کوئی انسان یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ صاحب دعوی سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ معجزہ اور کرامت دائمی نہیں ہوتے بلکہ مخصوص وقت تک کے لئے ہوتے ہیں اور یہ وقت کا تعین اللہ ہی کی مرضی پر ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوزخ اور جنت کا اکثر مشاہدہ کیا لیکن یہ مشاہدہ دائمی کبھی بھی نہیں رہا اور بعض اوقات اللہ نے قبر والوں کے حالات بھی نبی پر منکشف فرمائے لیکن ان میں بھی دوام ہرگز نہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ صاحب کشف لڑکے کو ورغلانے کے لئے شیطان نے اس کو ایک مشاہدہ کرایا ہو جس کو وہ حقیقی دوزخ سمجھ بیٹھا ہو۔ پھر اگر دیکھا جائے تو ایسے دعوے نہ تو صحابہ میں سے ہی کسی نے کئے اور نہ ہی آئمہ اور محدثین میں سے کسی نے کئے۔ ایسے دعووں کا سارا الزام زاہدوں پر ہی ہے۔
میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا کہ آپ نے اس کو حجت مانا ہے۔
آپ نے قرطبی والے واقعہ کو رد کیا ہے اور اس کے دلائل یہ دیے ہیں
پہلا اعتراض

کیوں کہ 70000 مرتبہ کلمہ پڑھنے کا ثواب حدیث سے ثابت نہیں تو یہ کشف مردود ہوگا اور واقعہ جھوٹا کہلائے گا یعنی ایسے امر کا کشف ہونا جو حدیث سے ثابت نہ ہو مردود کہلائے گا
اولا
اب ہم دوبارہ جریج والے قصہ کی طرف آتے ہیں ، جریج کو بھی معلوم تھا کہ مھد میں بچے کلام نہیں کرتے اور نہ کبھی اس امت کے نبی نے جریج کو بتایا تھا کہ تم پر ایک الزام لگے گا تو ایک مھد میں بچہ تم سے وہ الزام ہٹائے گا لیکن جریج کو کشف ہوا کہ وہ بچہ نہ صرف کلام کرے گا بلکہ سچ بولے گا تو جب جریج کا کشف مردود نہیں ہو رہا اور اس کو اپنے نبی سے بھی کچھ معلوم نہ تھا تو قرطبی والے واقعہ میں اس نوجوان کے کشف کو کیوں جھوٹا کہا جارہا ہے​
ثانیا
ذکر کی فضیلت تو قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور ذکر کی طرف داعیہ پیدا کرنا اس قصہ سے مطلوب ہے ۔ اور اس سے کوئی سنت عمل ثابت نہیں کیا جارہا ہے ۔ اس بات کا اقرار آپ نے بھی کیا ہے​
میں نے ایسا ہرگز نہیں کہا کہ آپ نے اس کو حجت مانا ہے۔
اس لئیے بھی یہ کشف حدیث مخالف نہیں ، حدیث مخالف تب ہو جب اس کو مسنون عمل کا درجہ دیا جائے
دوسرا اعتراض

آپ نے کہا کہ دائمی کشف مردود ہوتا ہے تو اس واقعہ میں دا‏ئمی کشف آپ نے کہاں سے اخذ کیا ؟؟؟؟

اس بات کی کیا دلیل ہے کہ وہ اس کو سنت سمجھ کر عمل کر رہے تھے۔ ہو سکتا ہے انہوں نے بھی اس عمل کو صرف جائز اور انتظامی سمجھا ہو۔اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اس طریقہ سے قلم منور ہو جائے گا؟ جو موازنہ آپ نے بخاری و ترمذی کے حصص مقرر کرنے اور اذکار کی تعداد اور طرق مقرر کرنے میں کیا ہے یہ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اذکار کا طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور اس کے خلاف کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی کیونکہ وہی سنت ہے ۔ اور جو معاملہ احادیث کو سبقا سبقا پڑھنے کا ہے وہ الگ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی اصحاب صفہ قرآن اور سنت کی تعلیم حاصل کرتے تھے اور جیسے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کا نزول ہوتا یا آپ سے کوئی حدیث نقل کی جاتی صحابہ اس کو یاد کرنے کی تگ و دو کرتے۔ اور قرآن بھی اللہ نے موقع و محل کی مناسبت سے اتارا سارا کا سارا ایک ساتھ نہیں نازل فرمایا۔ کتب احادیث کے حصص مقرر کرنے اور اذکار کا طریقہ مقرر کرنے کا تقابل ٹھیک نہیں ہے۔ اور پھر تعلیم کا یہ انداز اجماع سے بھی ثابت ہے جبکہ اذکار کے یہ طریقے صرف صوفیاء کے ہاں مشہور ہیں۔
اولا
بخاری و ترمذی کے حصص اور ان کی پڑھائی کا نظام جو ابھی مدارس میں رائج ہے وہ طریقہ دور نبوی میں نھیں تھا ۔ آپ ذرا اس کو ثابت تو کریں ۔ آج مدارس میں جو حصص محتص کرنے کا نظام ، پیپروں کا نظام اور سال کا نصاب و امتحانات کا طریقہ کار رائج ہے ذرا بعینہ اسی طرح کا نظام دور نبوت میں دکھائيں ۔ یہ نظام بطور انظامی امور سے متعلق ہے اور شریعت کے مقاصد کے حصول میں جو انتظامی امور یا جو ذریعہ ہوتا ہے وہ بعینہ ثابت کرنا ضروری نہیں اور وہ انتظامی امر في نفسہ سنت عمل نہیں ہوتا ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی انتطامی امر میں ذکر کی مخصوص تعداد متعین کرلے تو کیا قباحت ہے ، اس تعداد کو سنت تو نہیں سمجھا جا رہا ،​
اگر دونوں امور میں تفاوت ہے تو واضح کریں یا اگر تعلیمی طریقہ کار کا بعینہ ثبوت ہے تو پیش کریں صرف دعوی نہ کریں
ثانیا
بخاری میں ایک صحابی کا واقعہ درج ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر سورہ الفاتحہ کا بطور وظیفہ پڑھ کر بغیر سنت سجھے دم کیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی نکیر نہ فرمائی تھی تو جو اذکار بطور انتظامی امور کے وظیفہ کے طور پر کیے جاتے ہیں تو کیوں اعتراض کر رہے ہیں​
ثالثا
اس سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جن افراد کی سرزنش کی تھی وہ سنت سمجھ کر وہ عمل کر رہے تھے ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تو اس صحابی پر نکیر نہ کریں جس نے سورہ الفاتحہ بطور وظیفہ پڑھی اور عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابی عام افراد پر سخت نکیر کریں​
رابعا
جو اذکار صحابہ سے ثابت ہوں اور حدیث سے ثابت نہ ہوں تو وہ اذکار بدعت ہوں گے ؟؟؟ آپ کی بات سے سے تو ایسی ہی لگ رہا ہے کیوں آپ ہر اس ذکر جو حدیث سے ثابت نہ بدعت قرار دے رہے ہیں1​
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
ب
خاری میں ایک صحابی کا واقعہ درج ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر سورہ الفاتحہ کا بطور وظیفہ پڑھ کر بغیر سنت سجھے دم کیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی نکیر نہ فرمائی تھی تو جو اذکار بطور انتظامی امور کے وظیفہ کے طور پر کیے جاتے ہیں تو کیوں اعتراض کر رہے ہیں
زبردست بات ہوئی نا۔
اس سے یہ بات بھی معلوم ہو گئی کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جن افراد کی سرزنش کی تھی وہ سنت سمجھ کر وہ عمل کر رہے تھے ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تو اس صحابی پر نکیر نہ کریں جس نے سورہ الفاتحہ بطور وظیفہ پڑھی اور عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابی عام افراد پر سخت نکیر کریں
مداخلت پر معذرت ،اگر اثر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات ہے تو پہلے ثابت تو کریں یہ روایت صیح ہے۔ ذرا محدثین کی جرح دیکھ کر یہ روایت پیش کریں۔
 
شمولیت
مارچ 19، 2012
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
82
قُلۡ لَّا یَعۡلَمُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ الۡغَیۡبَ اِلَّا اللّٰہُ ؕ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ اَیَّانَ یُبۡعَثُوۡنَ ﴿۶۵﴾ ﴿027:065﴾
کہہ دیجئے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا (١) انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھ کھڑے کئے جائیں گے۔‏
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
707
پوائنٹ
120
آپ نے قرطبی والے واقعہ کو رد کیا ہے اور اس کے دلائل یہ دیے ہیں
پہلا اعتراض

کیوں کہ 70000 مرتبہ کلمہ پڑھنے کا ثواب حدیث سے ثابت نہیں تو یہ کشف مردود ہوگا اور واقعہ جھوٹا کہلائے گا یعنی ایسے امر کا کشف ہونا جو حدیث سے ثابت نہ ہو مردود کہلائے گا
اولا
اب ہم دوبارہ جریج والے قصہ کی طرف آتے ہیں ، جریج کو بھی معلوم تھا کہ مھد میں بچے کلام نہیں کرتے اور نہ کبھی اس امت کے نبی نے جریج کو بتایا تھا کہ تم پر ایک الزام لگے گا تو ایک مھد میں بچہ تم سے وہ الزام ہٹائے گا لیکن جریج کو کشف ہوا کہ وہ بچہ نہ صرف کلام کرے گا بلکہ سچ بولے گا تو جب جریج کا کشف مردود نہیں ہو رہا اور اس کو اپنے نبی سے بھی کچھ معلوم نہ تھا تو قرطبی والے واقعہ میں اس نوجوان کے کشف کو کیوں جھوٹا کہا جارہا ہے​
ثانیا
ذکر کی فضیلت تو قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور ذکر کی طرف داعیہ پیدا کرنا اس قصہ سے مطلوب ہے ۔ اور اس سے کوئی سنت عمل ثابت نہیں کیا جارہا ہے ۔ اس بات کا اقرار آپ نے بھی کیا ہے​

اس لئیے بھی یہ کشف حدیث مخالف نہیں ، حدیث مخالف تب ہو جب اس کو مسنون عمل کا درجہ دیا جائے
میرا خیال ہے میں اپنی بات آپ کو سمجھا نہیں سکا۔ قرطبی والے واقعے اور جریج والے قصے کا موازنہ کرنا غلط ہے اس کی وجوہات ہیں۔

1۔ جریج والے واقعے میں جریج کو الہام (یا کشف) ہوا کہ بچہ اس کی پاکیزگی کی گواہی دے گا لیکن عموم یہی ہے کہ بچے ایک عمر کے بعد کلام شروع کرتا ہے ۔ جریج نے اپنے الہام کی بنیاد پر اس کو ٹہوکا دیا تو وہ واقعی بول پڑا۔ تو جریج کا کشف یا الہام درست ثابت ہوا۔
2۔ قرطبی والے قصے میں نوجوان کے بارے میں کشف کا دعویٰ کیا گیا اور اس کو آزمانے کے لئے قرطبی نے ایک طریقہ اپنایا۔ لیکن کشف کی حقیقت پھر بھی ثابت نہ ہوئی کیونکہ اگر تو 70000 دفعہ کلمہ کا ثواب کسی کو بخشنے سے اس کا جنت میں جانا ثابت ہوتا تو نوجوان کے کشف کے دعوی کو دلیل ملتی۔ کیونکہ کلمہ کا ایسا ثواب ثابت نہیں اس وجہ سے کشف کے دعوی کو دلیل مہیا نہیں ہوتی۔ (اور ایصال ثواب بھی ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے جس پر بحث کا یہ موقع نہیں۔)
3۔ جریج والی قصے میں جریج (جو کہ ایک نیک انسان تھے) پر سنگین الزام لگا تو اللہ نے ان کی عصمت ثابت کرنے کے لئے بچے سے کلام کروایا۔ جبکہ قرظبی والے قصہ میں ایسی کوئی سنگین بات نہیں۔ اگر آپ کہیں گے کہ نوجوان کی ماں کا دوزخ میں جانا سنگین بات ہے تو اس طرح تو بہت سے لوگ دوزخ میں جاتے ہیں اور ہر بچہ کو اپنی ماں ایسی ہی عزیز ہوتی ہے۔

آپ نے فرمایا
اس لئیے بھی یہ کشف حدیث مخالف نہیں ، حدیث مخالف تب ہو جب اس کو مسنون عمل کا درجہ دیا جائے
اعتراض یہ ہے ہی نہیں کہ کشف خلاف حدیث ہے۔ بلکہ اعتراض تو یہ ہے کہ کشف کو صحیح کہنے کے لئے جو ثبوت دیا جا رہا ہے وہی ثابت نہیں۔

دوسرا اعتراض
آپ نے کہا کہ دائمی کشف مردود ہوتا ہے تو اس واقعہ میں دا‏ئمی کشف آپ نے کہاں سے اخذ کیا ؟؟؟؟
اس کا اندازہ ان الفاظ سے لگایا کہ نوجوان کو جنت و دوزخ کا کشف ہوتا تھا اور جب قرطبی اس کو آزمانے کے لئے گئے تو اس وقت بھی اس کو کشف ہوا۔ اس سے اگر دوام کا ندازہ نہ لگایا جا سکتا ہو تو کم از کم تواتر کا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے۔
 

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
کرامت ۔ کشف ۔ کی حقیقت کیا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
قران پاک کو سوچ سمجھ کر تلاوت کا شرف حاصل کرنے والوں پر یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ ۔
انسان کو اللہ تعالٰیٰ نے بے حساب صلاحیتوں سے نوازا ہے اور اس کی بلندی کے امکانات کو لامحدود بنا دیا ہے ۔ اسے زمین پر اپنا خلیفہ اور اشرف المخلوقات ہونے کا اعزاز عطا فرمایا ہے۔ اور اس کے درجات کو یہاں تک بلند فرما دیا ہے کہ وہ اللہ کے اوصاف کا آئینہ بن سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے شرط یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالٰیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی پیروی اس طریقہ سے کرے کہ خدا کے انعامات کا سزاوار بن سکے۔ مسلمانوں کے لئے بہترین نمونہ عمل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس سیرت مبارکہ کا مکمل طور پر پیروکار بنالے تو اللہ کے رنگ میں رنگا جائے گا اور اللہ کا پسندیدہ بندہ قرار پائے گا۔ اسلام کا حقیقی مقصود ایسے ہی انسان پیدا کرنا ہے۔
مومن کی نشانی ہے کہ اس کی ذات سے کسی مسلمان کوکوئی نقصان نہیں پہنچتا، بندہ مومن کے لئے ضروری ہے کہ کو وہ اپنی تمام تر کوششوں کو اللہ کی مرضی کے تابع رکھے احکام شریعت کی پابندی اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں۔۔۔
جو لوگ آسانی میں سختی کے موقع پر بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان نیک کاروں سے محبت کرتا ہے (سورة آل عمران 134)
اور اللہ کی یہ محبت حضرت سلیمان علیہ السلام کے صحابی کے لیئے پلک جھپکتے تخت حاضر کر دینا ممکن کر دیتی ہے ۔
جناب عمر فاروق رضی اللہ تعالی کے لیئے دوران خطبہ فرمایا گیا اک جملہ ہزاروں میل دور موجود سپہ سالار لشکر کے لیئے صدائے نصیحت بن پہنچ جاتا ہے ۔۔
کشف و کرامت کی بس صرف اک شرط کہ انسان خود کو اپنے افعال و اعمال و کردار سے اس منزل پر پہنچا دے جو کہ " اللہ کے بنائے خلیفہ " کی ہے ۔۔۔ ۔۔ اور پھر اس حدیث قدسی کا مکمل معنویت سے حقدار ٹھہرتا ہے ۔۔۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
( جس نے میرے ولی کو تکلیف دی میرا اس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ کسی چیز کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مجھے وہ اس سے بھی زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ، میرا بندہ جب نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تم میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا اور میں اس کا آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اس کا قدم بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور جب وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور جب بخشش طلب کرتا ہے تو میں اسے بخش دیتا ہوں اور جب میری پناہ میں آنا چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں )
فتح الباری حدیث نمبر (6502) اس حدیث کو امام بخاری اور امام احمد بن حنبل اور بیہقی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے
ویسے میں ٹھیک نہیں سمجھتا کہ میں بھی اس بحث میں شامل ہوں لیکن میرا سب بحث کرنے والوں سے یہ سوال ہیں کہ آپ ان احادیث کو کس ضمن میں لیں گے۔جزاک اللہ خیرا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!
''جو شخص کسی مومن سے دنیا کی کوئی سختی دور کرتا ھے،تو اللہ تعالٰی اس سے آخرت کی سختیوں میں سے ایک سختی دور کرے گا،
جو شخص مفلس کو(قرض کے لیئے) مہلت دے گا، اللہ تعالٰی اس پر دنیا و آخرت میں آسانی کرے گا۔۔
جو شخص کسی مسلمان کا عیب چھپاۓ گا تو اللہ تعالٰی دنیا و آخرت میں اس کے عیب چھپاۓ گا۔۔
اور اللہ تعالٰی بندے کی مدد میں رھتا ھے، جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد میں رھتا ھے۔۔
جو شخص دین کا علم حاصل کرنے کی راہ پر چلتا ھے اللہ تعالٰی اس کے لیئے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ھے،
جب لوگ اللہ تعالٰی کی کتاب پڑھنے اور پڑھانے کے لیئے اللہ تعالٰی کے گھروں میں سے کسی گھر مین جمع ھوتے ھین تو ان پر اللہ تعالٰی کی رحمت اترتی ھے جو انہیں ڈھانپ لیتی ھے، فرشتے انہیں گھیر لیتے ھیں اور اللہ تعالٰی فرشتوں میں ان کا ذکر کرتا ھے''
(رواہ المسلم، کتاب الذکر والدعاء 2699)
1173801_668640753164136_1765187091_n.jpg

اب اس ضمن میں 3 نمبر پر جو احادیث کے الفاظ ہیں نیک اولاد سے کیا مراد لی گئی ہے۔ مطلب اعمال پہنچتے ہیں۔ سب بھائی عقل اور فہم کا استعمال کرنا اور پھر جواب دینا۔ جزاک اللہ خیرا
 
Top