اگر چہ یہ تحریر بھی ماقبل ذریعہ ہی سے کاپی پیسٹ کی گئی ہےفضائلِ اعمال ۔۔۔ میں سے ایک واقعہ ۔۔ غور فرمائیے گا ۔۔
فضائل اعمال ۔۔ صفحہ نمبر 484 پر ابو قرطوبی فرماتے ہیں ۔۔ "کہ ہم نے سُنا کہ جو شخص ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لے اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے ۔ وہاں ایک نوجوان رہتا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اسے کشف ہو جاتا ہے اور اس کو جنت اور جہنم کے معاملات کے بارے میں خبر ہوجاتی ہے ایک دن ہمارے پاس کھانا کھاتے ہوئے اس نے رونا شروع کر دیا میں نے ان سے پوچھا کہ کہ کیوں رو رہے ہو تو اس نے کہا کہ میری ماں کو جہنم میں ڈال دیا گیا ہے ابو یزید کہتے ہیں میں نے جو ستر ہزار مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ رکھا تھا اور دل میں محفوظ کر رکھا تھا میں نے اس کی والدہ کے نام کردیا میں نے یہ سب کچھ دل ہی دل میں کیا .اس نوجوان نے مُسکرانا شروع کردیا اور فرمایا پیر صاحب میری والدہ کو جنت میں داخل کیا جا رہا ہے"
اعتراض:
"جنت اور جہنم میں کیا ہو رہا ہے ۔۔ یہ جاننے کے لیے اس نوجوان کے پاس جو سورس آف انفارمیشن تھا وہ کیا تھا ۔۔۔ ۔ اسے کس نے بتایا کہ اس کی والدہ کو جہنم میں پھر جہنم سے جنت میں ڈالا جا رہا ہے"
صاحب واقعہ نے یہ بات کہاں سے سنی تھی??
اس نوجوان کی بھی وہی سورس جس سورس سے حدیث میں مذکور قصہ سے جریج کو پتا چلا کہ بچہ مھد میں کلام کرے گا اور جس سورس سے بچہ کو پتا چلا کا اس کا باپ چراہاوہ ہے اور جس سورس سے دوسرے بچے کو پتا چلا مذکورہ عورت زانیہ نہیں
جب اس سورس کی وجہ سے نہ جریج عالم الغیب ٹھہرا اور نہ دونوں حدیث میں مذکور بچے عالم الغیب ٹھہرے تو فضائل اعمال میں مذکور نوجوان کیوں عالم الغیب ٹھہرا
غیر مقلدین کا یہ دھرا معیار احناف سے تعصب اور تبلیغی جماعت کی روز بروز بڑھتی تعداد سے حسد کے سوا کچھ نہیں
اللہ ہی سے دعا کے وہ ہمیں حق بات قبول کرنے کی توفیق دے آمین