• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک سانس میں 200 مرتبہ لا الہ الا اللہ کا ورد' میرے تبلیغی جماعت کے بھا ئیوں تم خود کوشش کیوں نہیں ؟

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
میرےبھائی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کا قصہ سنایا تھا ؟


«اللَّهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ» قَالَ: وَكَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ
میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں
میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کے وہ ان تمام مسائل کو جن کا مجموعہ دین کہلاتا ہے مجھ سے زبردستی نہیں منواتا
بلکہ ہر امر کیلئے دلیل دیتا ہے۔

علم غیب
"
علم غیب" یہ اللہ تعالی کی ایک صفت ہے اور قران میں اس کی کھلے لفظوں میں وضاحت کی گئی ہے:
"غیب کی چابیاں اللہ تعالی کے پاس ہیں ان کو کوئی نہیں جانتا مگر وہی اور وہی جانتا ہے جو کچھ خشکی میں ہے اور پانی میں ہے اور پتا حرکت نہیں کرتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور کوئی دانہ زمین کی اندھیروں میں یا کسی خشکی یا تری میں ہو تو وہ جانتا ہے۔"
( الانعام: 59)
" اللہ تعالی نے ایک اور جگہ پر نبی پاکۖ صلی الله علیہ وسلم کو اپنے متعلق عالم غیب کی نفی کرنے کا حکم فرمایا:
"کہدیجیے! میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالی کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں اور میں وحی کے سوا کسی چيز کی پیروی نہیں کرتا۔"
(الانعام: 50)
جبکہ تبلیغی جماعت اپنے بزرگوں کی بابت غیب دانی کی دعویدار ہے:
1/ " جو لوگ اہل کشف ہوتے ہیں ان کو گناہوں کا زائل ہوجانا محسوس ہوجاتا ہے جیسے امام اعظم رح کا قصہ مشھور ہے کہ وہ وضو کا پانی گرتے ہوئے یہ محسوس فرمالیتے تھے کہ کون سا گناھ اس میں دھل گیا"۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ:330، فیضی:304، قدیمی:208)
2/ " امام ابو حنیفہ کو یہ بھی معلوم ہوجاتا تھا کہ کبیرہ گناھ ہے یہ صغیرہ، مکروہ فعل ہے یا خلاف اولی- ایک دفعہ کوفہ کی جامع مسجد میں وضو خانہ تشریف فرما تھے کہ ایک جوان وضو کررہا تھا اس کے وضو کا پانی گرتے ہوئے آپ نے دیکھا۔۔۔۔اس کو چپکے سے نصیحت فرمائی کہ بیٹا وکلدین کی نافرمانی سے توبہ کرلے اس نے توبہ کرلی"-
3/ " ایک اور شخص کو دیکھا تو اس ک ونصیحت فرمائی کہ بھائی زنا نہ کیا کر بہت برا عیب ہے، اس وقت اس نے بھی توبہ کرلی۔
4/ ایک اور شخص ک ودیکھا کہ شراب خوی اور لہو و لعب کا کا پانی گرہا تھا اس کو بھی نصیحت فرمائی اس نے بھی توبہ کرلی-
الغرض اس کے بعد امام صاحب نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ اے اللہ تعالی اس چيز کو مجھ سے دور فرمادے کہ میں ہوگوں کی برائیوں سے مطلع ہونا نہیں چاہتا- اللہ تعالی نے دعا قبول فرمائی اور یہ چيز زائل ہوگئی۔
( فضائل اعمال= رحمانیہ: 648، فیضی: 560، قدیمی: 466)
غور فرمائيے!!!
1/ امام صاحب جھڑتے ہوئے گناہوں کو دیکھ کر لوگوں کو نصیحت فرماتے اور لوگ اپنی اصلاح کرلیتے- یہ ایک نفع بخش کام تھا جسے جاری رہنا چاہیے تھا مگر امام صاحب نے اس کو پسند نہیں فرمایا-
2/ جھڑتے گناھ کو دیکھنا یہ امام صاحب پر اللہ تعالی کی طرف سے انعام بھی تھا۔
3۔ مگر مام صاحب نے کفران نعمت کرتے ہوئے اللہ تعالی سے کہ دیا کہ یہ اپنی نعمت واپس لے لے مجھے اس کی ضرورت نہیں- یہ کتنی بڑی گستاخی ہے خود سوچ لیں؟
4/اب لوگوں کی اصلاح کا یہ سلسلہ نعمت کے واپس ہوتے ہی ختم ہوگیا۔
اللہ تعالی کے انبیاء اور صلحاء کی یہ صفت تھی کہ وہ اللہ تعالی کے انعامات کا شکر ادا کرتے ہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالی اور زیادا انعامات عطا فرماتا ہے- اور یہ اللہ تعالی کا واعدہ بھی ہے:
" اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر کفر کرو گے تو میرا عذاب سخت ہے"
( ابراھیم 14/7)
5/ سوچیے! جھڑتے گناھ دیکھ لینا اگر یہ نعمت تھی تو واپس کیوں کی؟؟ اور اگر لوگوں کی اصلاح ہو رہی تھی تو چھوڑی کیوں؟؟ اور اگر یہ نعمت نہیں تھی تو پھر اس کو کرامت بنا کر "فضائل اعمال" میں کیوں لکھ دیا گیا- حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بلکل غلط ہے اور اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ یہ اعزاز کسی صحابی کونہیں ملا اور نہ کبھی نبی پاک صلی الله علیہ وسلم ۖ کو کسی کے جھڑتے گناھ نظر آئے۔

" غزوہ "بنی المصطلق" سے واپسی پر ایک مہاجر اور انصاری میں جھگڑا ہوگیا- رسول اللہۖ نے دونوں میں صلح کرادی- مگر عبداللہ بن ابی منافق نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور مہاجرین اور انصاری کو بڑھاکر فتنہ پیدا کرنا چاہا اور کہا کہ یہ ذلیل مہاجر اب معززین مدینہ کو تنگ کرنے لگے ہیں ہم مدینہ پہنچ کر ان ذلیلوں کو نکال دیں گے- سیدنا زید رض جو کم عمر مگر بہت غیور تھے- انہوں نے یہ گفتگو رسول اللہۖ تک پہنچائی- عبداللہ بن ابی نے قسمیں کھائيں اور نبی پاکۖ کو یقین دلایا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی- بعض صحابہ رض نے اس کی قسموں کی وجہ سے کہا کہ زید کم عمر ہے ہوسکے بات کوصحیح نمونے سمجھ نہ سکا ہو- رسول اللہۖ خاموش ہوگئے- سیدنا زید بن ارقم رض پریشان تھے کہ سچا ہونے کے باوجود صحابہ کرام رض اور رسول اللہۖ کی نگاھ میں میری حیثیت خراب ہوگئی ہے- اللہ تعالی نے آیات نازل فرما کر سیدنا زید بن اارقم رض کی سچائی اور عبداللہ بن ابی کے جھوٹے ہونے کا اعلان کردیا-
یہ سورۃ منافقون کی آیت نمبر 8 ہے اور اس کی تفصیل کتب احادیث میں بھی موجود ہے- عبد اللہ بن ابی اور سیدنا زید بن ارقم رض بھی نبی پاکۖ کے سامنے وضو کرتے رہے- ان میں سے ایک سچا تھا اور دوسرا جھوٹا منافق تھا مگر رسول اللہۖ کو ان میں سے کسی کے وضو سے کوئی چيز نظر نہیں آئی- مگر فضائل اعمال میں یہ مقام امام ابو حنیفہ رح کو دے دیا گیا-
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
آپ نے مندرجہ ذیل واقعہ جو فضائل اعمال میں درج ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ علم الغیب جو اللہ تبارک و تعالی کی صفت ہے اسے لوگوں میں تقسیم کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے آپ نے تبلیغی جماعت کو تکفیری جماعت کہا ہے

میرا سوال صرف یہ ہے کہ کیا اللہ تبارک و تعالی ازل سے واحد عالم الغیب ہے یا معاذ اللہ کبھی علم الغیب صرف اللہ تبارک و تعالی کا خاصہ نہیں تھا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ یہ صفت صرف اللہ تبارک و تعالی کی ہوگئی ۔
غیر مقلدین کی پرانی روش کو دیکھتے ہوئے میں اپنا عقیدہ بیان کردوں ، کیوں غیر مقلدین جواب دینے سے کتراتے ہیں اور مخالف پر سوال کی بوچھاڑ کردیتے ہیں
میرا عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کے عالم الغیب ہونے میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں اور اللہ تبارک و تعالی کی یہ صفت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ، اس صفت میں کوئی اور نہ کبھی شامل ہوا اور نہ کبھی شامل ہو سکتا ہے ۔
آپ کا کیا عقیدہ اس بارے میں ، جواب دیں پھر آپ کے اعتراض پر بات شروع کرتے ہیں


فضائل اعمال میں ایک اور خلاف حقیقت واقعہ:
صوفیاء کو بھی اکثر یہ چيز مجاہدوں (مشقت کی عبادتوں) کی کثرت سے حاصہ ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ جمادات اورحیوانات کی تسبیح، ان کا کلام اور ان کی گفتگو سمجھ لیتے ہیں-
محققین مشائخ کے نزدیک چونکہ یہ چيز نہ دلیل کمال ہے نہ موجب قرب جو بھی اس قسم کے مجاہدے کرتا ہے وہ حاصہ کرلیتا ہے خواہ اے اللہ تعالی کا قرب حاصل ہو یا نہ ہو۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ:648، فیضی: 561، قدیمی: 465)
قارئین! غور فرمائیں یہ عقیدہ ہے مولانا زکریا صاحب کا اور تبلیغ والے پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سناتے ہیں- جو بھی اس قسم کے مجاہدے کرے وہ حیوانات کی بولی سمجھ سکتا ہے- یہ چيز اللہ تعالی کے مقرب بھی حاصل کر سکتے ہیں اور نافرمان بھی- یہ چيز کمال کی دلیل بھی نہیں ہے- مگر فضائل اعمال کی زینت بھی ہے۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ کیا خوب فضیلت ہے؟؟؟
جمادات و حیوانات کے متعلق اسلام تعلیمات:
اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے بطور معجزہ یا کرامت حیوانات و جمادات کی تسبیح بتادے یا سنادے مگر یہ چيز ان کے اختیار میں ہر گز نہیں ہوتی کہ مجاہدے کرنے والے جب چآہیں وہ سن لیں-

رسول اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ:
غزوہ بنی المصطلق میں دوراں سفر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کا ہار گم ہوگیا تلاش میں صحابہ کرام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کیا۔ (قریب ہی گم شدہ ہار اونٹ کے نیچے اللہ تعالی کا ذکر کرتا رہا ہوگا۔ ۔ ۔ ۔۔ نہ صحابہ نے اس کے ذکر کی آواز سنی اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوسکا) سارا قافلہ پریشان تھا، نماز کا وقت ہوچکا تھا، قریب کہیں پانی کا نام و نشان نہیں تھا، اب لوگ باتیں کرنے لگے کہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی غفلت کی وجہ سے سارا قافلہ پریشان ہے ادھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کی باتیں سن سن کر مزید پریشان ہورہے تھے اور غصہ بڑرہا تھا- بیٹی کے پاس اسی عالم میں پہنچے خوب ڈانٹا- اور عائشہ رضی اللہ عنہ کی کوکھ میں مکہ مارا۔ ۔ ۔۔ ۔ اتنے میں جبرائيل علیہ السلام تیمّم کے احکامت لے کر اترے اور اللہ تعالی کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا کہ:
" جب تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں اور تم پانی ہ نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کرلو"
(المائدہ 6/6) [ تفصیل کے لیے دیکھیے بخاری کتاب التفسیر]
قارئین! آپ خود فیصلہ کریں کا کیا صوفیاء۔ ۔ ۔ ۔۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مجاہدے کرتے ہیں کہ یہ صوفی تو جمادات کی بولی سمجھ لیں اور صحابہ رضی اللہ عنہ جن کی ساری زندگیاں ہی میدان جہاد میں گزر گئيں وہ جمادات کی بولی نہ سمجھ سکے بتائيے تبلیغی بھائیوں کے نزدیک فضیلت کس کی ثابت ہوئی؟ صوفیاء کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی اور صحابہ رضی اللہ عنہ کی؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
روٹی کی کہانی فضائل اعمال کی زبانی:
شیخ ابو الخیر اقطع فرماتے ہیں میں مدینہ منورہ میں آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔5 دن وہاں قیام کیا۔ کچھ مجھ کو ذوق و لطف حاصل نہ ہوا۔ میں قبر شریف کے پاس حاضر ہوا اور جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رض کو سلام کیا اور عرض کیا اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج میں آپ کا مہمان ہوں پھر وہاں سے ہٹ کر منبر کے پیچھے سوگیا- خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا- سیدنا ابوبکر رض آپ کے داہنی حانب اور سیدنا عمر رض آپ کے بائيں جانب تھے اور سیدنا علی رض اپ کے آگے تھے۔ سیدنا علی رض نے مجھ کو ہلایا اور فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں- میں اٹھا اور آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان چوما حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک روٹی عنایت فرمائی- میں نے آدھی کھالی اور جاگا تو آدھی میرے ہاتھ میں تھی۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی:835)
روٹی لے کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آسمان سے اتری:
1/ شاھ ولی اللہ اپنے یا اپنے والد کے متعلق لکھتے ہیں کہ ایک روز مجھے بہت ہی بھک لگی (نا معلوم کتنے روز کا فاقہ تھا) میں نے اللہ جل شانہ سے دعا کی تو میں دیکھا کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آسمان سے اتری اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک روٹی تھی گویا اللہ تعالی نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا تھا کہ یہ روٹی مجھے مرحمت فرمائيں۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی:835)

2/ ایک بھوکے کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کا پیالہ بھیجا۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی:835)

3/ اور اور قصے مین لکھا ہے کہ شاھ جی کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں روٹی دی جاگنے پر زعفران کی خوشبو آرہی تھی۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 799، قدیمی: 836)

4/ ایک قصہ اس طرح لکھا ہوا ہے کہ شاھ جی بیمار ہوگئے خواب میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " بیٹے کیسی طبیعت ہے اس کے بعد شفا کی بشارت فرمائی اور اپنی داڑھی مبارک میں سے دو بال مجھے عطا فرمائے میری اس وقت صحت ٹھیک ہوگئی اور جب میری آنکھ کھلی تو دونوں بال میرے ہاتھ میں تھے۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 798، قدیمی:835)

5/ ان واقعات کو لکھ کر مولانا ذکریا مزید کہتے ہیں کہ جب اکابر صوفیا کی توجہات معروف و متواتر ہیں تو سید الاولین و الآخرین کی توجہ کا کیا پوچھنا۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی: 834)

قارئین توجہ فرمائيں:
ان واقعات میں قبر والوں سے سوال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ سماء موتی کے عقیدے کی دعوت پیش کی گئی ہے۔
سماع موتی کا عقیدہ شرک کی طرف کھلنے والا چور دروازہ ہے- جسے تبلیغی بورگوں نے فضائل اعمال کے ذریعے کھولا ہوا ہے- یہ لوگ کہتے ہیں:
" اللہ تعالی سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیروں سے کچھ نہ ہونے کا یقین"-
مگر یہاں اس دعوی کی حقیقت کھل کے سامنے آگئی ہے ان کے عقیدے کے مطابق:
1/ نبی ۖاپنی قبر پر آنے والے ضرورتمندوں کی ضرورت کو جانتے اور ضرورتیں پوری بھی کرتے ہیں۔
2/ (اگر قبر مبارک میں راشن کی کمی ہوجائے تو) روح مبارک آسمان جگر لگا کر سائل کی ضرورت کا سامان خوراک پہنچاتی ہے اور سائل جاگتے جاگتے یہ سب منطر دیکھ رہا ہوتا ہے۔
3/ خواب میں داڑھی مبارک کے بال دیے تو جاگنے پر ہاتھ میں موجود تھے۔
4/خواب میں روٹی دی تو جاگنے پر وہ بھی ہاتھ میں تھی۔
روزی دینے والا صرف اللہ تعالی ہے:
1/ اللہ تعالی کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمہین روزی دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ رزق اللہ تعالی کے پاس تلاش کرو اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر کرو، کیونکہ پلٹ کر اسی کی طرف جانا ہے۔
(العنکبوت: 29/17)
بھوک میں صرف اللہ تعالی کھلاتا پلاتا ہے:
1/ (ابراھیم علیہ السلام نے کہا) اور وہی اللہ تعالی مجھے کھالاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں شفا بھی وہی عطا کرتا ہے۔
(الشعرا= 26/ 79-80)
2/ اگر اللہ تعالی رزق روک لے تو کوئی ہے جو تم کو روزی دے سکے۔
( ملک: 67/21)
قارئین! یہ ہے اسلامی عقیدہ جس سے صاف پتہ چلتا ہے ہے کہ پکارنے والے کی پکار، ضرورتمندوں کی ضرورتیں، بھوکوں کو رزق، بیماروں کو شفاء صرف اللہ تعالی عطا کرتا ہے اس کے علاوہ کوئی نبی، ولی، قبر والے کی پکار نہیں سن سکتے- اگر بالفرض سن بھی لیں تو مدد نہیں کرسکتے۔ لہذا اپنی ضرورتین لے کر اللہ تعالی کے سامنے پیش کرنا چاہیے نہ کہ بے اختیار قبر والوں کے پاس۔ (قبر کسی نبی کی ہو یا کسی ولی کی)
بھائیو! فضائل اعمال میں اس قسم کے بہت سے واقعات ہیں۔ یہاں میں نے صرف چند کو مثال کے طور پر بیان کیا ہے اللہ ایسے مشرکانہ عقیدے سے بچائے اور ہمیں اللہ تعالی کے حکموں اور نبی ۖ کے طریقوں پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
 

ریحان احمد

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2011
پیغامات
266
ری ایکشن اسکور
708
پوائنٹ
120
Muhammad Aamir Younus
اللہ تبارک و تعالی کی صفات ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی ان میں نہ کبھی انقطاع ہوا اور ان کبھی کوئی شریک ہوا اور نہ کوئي کبھی شریک ہوسکتا ہے
اسیطرح اللہ تبارک و تعالی کی صفت علم الغیب ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اس میں نہ کبھی انقطاع ہوا اور نہ کبھی کوئی شریک ہوا اور نہ کوئي کبھی شریک ہوسکتا ہے
مجھے یقین آپ حضرات کا بھی یہی عقیدہ ہے ۔
اب یہ حدیث پڑھیئے
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ ، عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ ، وَكَانَ جُرَيْجٌ رَجُلًا عَابِدًا فَاتَّخَذَ صَوْمَعَةً ، فَكَانَ فِيهَا فَأَتَتْهُ أُمُّهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : أَيْ رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَقَالَتْ : اللَّهُمَّ لَا تُمِتْهُ حَتَّى يَنْظُرَ إِلَى وُجُوهِ الْمُومِسَاتِ ، فَتَذَاكَرَ بَنُو إِسْرَائِيلَ جُرَيْجًا وَعِبَادَتَهُ ، وَكَانَتِ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ يُتَمَثَّلُ بِحُسْنِهَا ، فَقَالَتْ : إِنْ شِئْتُمْ لَأَفْتِنَنَّهُ لَكُمْ ، قَالَ : فَتَعَرَّضَتْ لَهُ ، فَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهَا ، فَأَتَتْ رَاعِيًا كَانَ يَأْوِي إِلَى صَوْمَعَتِهِ ، فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَقَعَ عَلَيْهَا فَحَمَلَتْ ، فَلَمَّا وَلَدَتْ ، قَالَتْ : هُوَ مِنْ جُرَيْجٍ ، فَأَتَوْهُ فَاسْتَنْزَلُوهُ وَهَدَمُوا صَوْمَعَتَهُ ، وَجَعَلُوا يَضْرِبُونَهُ ، فَقَالَ : مَا شَأْنُكُمْ ؟ قَالُوا : زَنَيْتَ بِهَذِهِ الْبَغِيِّ فَوَلَدَتْ مِنْكَ ، فَقَالَ : أَيْنَ الصَّبِيُّ فَجَاءُوا بِهِ ، فَقَالَ : دَعُونِي حَتَّى أُصَلِّيَ ، فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَى الصَّبِيَّ فَطَعَنَ فِي بَطْنِهِ ، وَقَالَ يَا غُلَامُ : مَنْ أَبُوكَ ، قَالَ : فُلَانٌ الرَّاعِي ، قَالَ : فَأَقْبَلُوا عَلَى جُرَيْجٍ يُقَبِّلُونَهُ وَيَتَمَسَّحُونَ بِهِ ، وَقَالُوا : نَبْنِي لَكَ صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ ، قَالَ : لَا ، أَعِيدُوهَا مِنْ طِينٍ كَمَا كَانَتْ ، فَفَعَلُوا ، وَبَيْنَا صَبِيٌّ يَرْضَعُ مِنْ أُمِّهِ ، فَمَرَّ رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى دَابَّةٍ فَارِهَةٍ وَشَارَةٍ حَسَنَةٍ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَ هَذَا ، فَتَرَكَ الثَّدْيَ وَأَقْبَلَ إِلَيْهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْيِهِ فَجَعَلَ يَرْتَضِعُ ، قَالَ : فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحْكِي ارْتِضَاعَهُ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ فِي فَمِهِ ، فَجَعَلَ يَمُصُّهَا ، قَالَ : وَمَرُّوا بِجَارِيَةٍ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا وَيَقُولُونَ زَنَيْتِ سَرَقْتِ وَهِيَ ، تَقُولُ : حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَتَرَكَ الرَّضَاعَ وَنَظَرَ إِلَيْهَا ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، فَهُنَاكَ تَرَاجَعَا الْحَدِيثَ ، فَقَالَتْ حَلْقَى مَرَّ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهُ ، فَقُلْتَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَمَرُّوا بِهَذِهِ الْأَمَةِ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا ، وَيَقُولُونَ : زَنَيْتِ سَرَقْتِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَقُلْت : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، قَالَ : إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ كَانَ جَبَّارًا ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَإِنَّ هَذِهِ يَقُولُونَ لَهَا زَنَيْتِ ، وَلَمْ تَزْنِ ، وَسَرَقْتِ ، وَلَمْ تَسْرِقْ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا "
.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گود میں کسی بچے نے بات نہیں کی سوائے تین بچوں کے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج ! تو وہ ( دل میں ) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں ( میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں )؟ آخر وہ نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں واپس چلی گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئی اور پکارا کہ اے جریج ! وہ بولا کہ اے اللہ ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز میں ہی رہا پھر اس کی ماں تیسرے دن آئی اور بلایا لیکن جریج نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں نے کہا کہ یااللہ ! اس کو اس وقت تک نہ مارنا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے ( یعنی ان سے اس کا سابقہ نہ پڑے )۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے، وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو آزمائش میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس کی طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانے میں آ کر پناہ لیا کرتا تھا اور اس کو اپنے سے صحبت کرنے کی اجازت دی تو اس نے صحبت کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ جب بچہ جنا تو بولی کہ بچہ جریج کا ہے۔ لوگ یہ سن کر اس کے پاس آئے، اس کو نیچے اتارا، اس کے عبادت خانہ کو گرایا اور اسے مارنے لگے۔ وہ بولا کہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تجھ سے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ جریج نے کہا کہ وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آ کر اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا کہ اے بچے تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا کہ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ جریج کی طرف دوڑے اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تیرا عبادت خانہ سونے اور چاندی سے بنائے دیتے ہیں۔ وہ بولا کہ نہیں جیسا تھا ویسا ہی مٹی سے پھر بنا دو۔ تو لوگوں نے بنا دیا۔ ( تیسرا ) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس سوار کی طرح کرنا۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یااللہ ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں ( اس وقت ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا کہ او سرمنڈے ! جب ایک شخص اچھی صورت کا نکلا اور میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ مجھے ایسا نہ کرنا اور لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ کرنا تو تو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح کرنا ( یہ کیا بات ہے )؟ بچہ بولا، وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ مجھے اس کی مثل کرنا۔

1- جریچ کو کیسے معلوم ہوا کہ مہد میں بچہ خرق عادت کلام کرے گا اور اور سچ بھی بتائے گا ، اس نے بچہ سے سوال کیوں کیا ، کیا وہ بھی اللہ کے علم میں شریک ہو گيا (معاذ اللہ ) کیوں اللہ تو اس وقت بھی اپنے علم الغیب کی صفت میں یکتا تھا ۔
جس طرح جریج اپنی اس کرامت کی وجہ سے عالم الغیب نہیں ہوا تو فضائل اعمال میں ذکر کردہ کرامت سے مذکورہ نوجوان کیسے عالم الغیب ہو گيا
2- اس بچے کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ فلاں چراوہ ہے ۔
اللہ کی علم الغیب کی صفت میں تو اس وقت بھی کوئي شریک نہ تھا یا معاذ اللہ اس حدیث کی بنیاد اس بچے کو آپ حضرات عالم الغیب مانتے ہیں ۔ اگر اس بچے کو عالم الغیب نہیں مانتے تو فضائل اعمال میں مذکورہ کرامت کی وجہ کیوں شرکیہ بتا رہے ہیں ۔
3- دوسرے بچے کو کیسے معلوم ہوا مزکورہ عورت زانی نہیں تھی ۔ کیا وہ عالم الغیب تھا ۔
اگر وہ غیبی خبر بتا کر بھی عالم الغیب نہیں بنتا تو فضائل اعمال میں کرامت والے قصے میں مزکورہ نوجوان کیسے عالم الغیب بن گيا ۔
اللہ تو ہمیشہ سے عالم الغیب ہے اور ہمیشہ عالم الغیب رہے گا نہ کبھی کوئي اس کی اس صفت میں پہلے کوئی شریک تھا اور نہ کبھی کوئی آئندہ شریک ہو گا ۔
تو کیا آپ حضرات بتانا پسند فرمائيں گے کہ جریچ کو کس نے علم عطا کیا کہ بچہ کلام کرے گا اور سچ بولے گا
اس بچہ کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ چرہاوہ ہے
دوسرے بچہ کو کیسے معلوم ہوا کہ فلاں عورت زانیہ نہیں
اگر یہ قصہ فضائل اعمال میں ہوتا تو آپ حضرات تو یہاں بھی شرک و کفر کا فتوی لگا چکے ہوتے

اگر قرآن و حدیث میں کرامت کی کوئي اہمیت نہیں تو قرآن و حدیث کرامت کا ذکر کیوں ہے ۔ کیا آپ کرامت کے منکر ہیں ؟؟؟؟؟
احناف کی ضد میں اتنے اندھے مت ہوجائيں کے ان امور کا انکار شروع کردیں جو جو امور قرآن وحدیث سے ثابت ہیں

محترم تلمیذ صاحب! جو واقعہ آپ نے بیان کیا ہے اس کی صداقت پر نبوی مہر ہے (بشرط صحت)۔ کرامت کا ہمیں انکار نہیں جیسا کہ معجزہ کا انکار نہیں۔ اور اس پر بھی ایمان ہے کہ معجزہ اور کرامت اختیاری نہیں ہوتے بلکہ اللہ کی رضا کے محتاج ہوتے ہیں۔ اب جو سوالات آپ اٹھا رہے ہیں اس پہ ہم بحث نہیں کرتے کیونکہ ہمارا اس پر ایمان ہے جو نبی نے بتایا۔

جو واقعہ فضائل اعمال میں ہے وہ ایک من گھڑت قصہ ہے جس کی کوئی سند نہیں بیان کی۔ اگر آپ کو مکمل سند معلوم ہو تو ہمیں آگاہ کیجئے۔ (ویسے تو یہ جواب بھی آپ کو غیر متعلق لگے گا۔ کیونکہ آپ ہر سوال کا اپنے ذہن میں ایک جواب پہلے سے سوچ لیتے ہیں اور اس کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا شاید ہمارے بس میں نہیں) براہ مہربانی آپ فضائل اعمال والے قصے کی سند بیان کر دیں تو ہم آپ کے سوالوں کے جواب دے دیں گے۔ ان شاء اللہ

آپ نے فرمایا
احناف کی ضد میں اتنے اندھے مت ہوجائيں کے۔۔۔۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ بھی حنفیت میں اتنا غلو نہ کریں کہ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں۔ براہ مہربانی فضائل اعمال والے واقعے کی سند بیان کر دیں تا کہ ہمیں آپ کے سوالوں کا جواب دینے میں آسانی ہو جائے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
محترم تلمیذ صاحب! جو واقعہ آپ نے بیان کیا ہے اس کی صداقت پر نبوی مہر ہے (بشرط صحت)۔ کرامت کا ہمیں انکار نہیں جیسا کہ معجزہ کا انکار نہیں۔ اور اس پر بھی ایمان ہے کہ معجزہ اور کرامت اختیاری نہیں ہوتے بلکہ اللہ کی رضا کے محتاج ہوتے ہیں۔ اب جو سوالات آپ اٹھا رہے ہیں اس پہ ہم بحث نہیں کرتے کیونکہ ہمارا اس پر ایمان ہے جو نبی نے بتایا۔

جو واقعہ فضائل اعمال میں ہے وہ ایک من گھڑت قصہ ہے جس کی کوئی سند نہیں بیان کی۔ اگر آپ کو مکمل سند معلوم ہو تو ہمیں آگاہ کیجئے۔ (ویسے تو یہ جواب بھی آپ کو غیر متعلق لگے گا۔ کیونکہ آپ ہر سوال کا اپنے ذہن میں ایک جواب پہلے سے سوچ لیتے ہیں اور اس کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا شاید ہمارے بس میں نہیں) براہ مہربانی آپ فضائل اعمال والے قصے کی سند بیان کر دیں تو ہم آپ کے سوالوں کے جواب دے دیں گے۔ ان شاء اللہ

آپ نے فرمایا


ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ بھی حنفیت میں اتنا غلو نہ کریں کہ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں۔ براہ مہربانی فضائل اعمال والے واقعے کی سند بیان کر دیں تا کہ ہمیں آپ کے سوالوں کا جواب دینے میں آسانی ہو جائے۔
جزاک اللہ خیرا ، شکر ہے کوئی موضوع سے متعلق تو جواب آیا ورنہ Muhammad Aamir Younus نے غالبا اپنے اکابر سے یہی سیکھا ہے کہ کسی کو تکفیر کرو اگر مخاطب قرآن و حدیث سے جواب دے موضوع سے ہٹ بس الزامات لگاتے جائو اور کوئی جواب نہ دو ، جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ تکنیک کہاں مستعمل ہوتی ہے
جب یہ تھریڈ شروع ہوا تو صاجب مضمون نے فضائل اعمال سے دو واقعات نقل کیے
اول ۔ ایک سانس میں دو سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہنا
دوم ایک نوجوان کا امور غیبی میں سے کچھ بیان کرنا
ان واقعات کو رد کچھ طرح سے کیا گيا
اول ۔ چوں کہ ایک سانس میں دو سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہنا ممکن نظر نہیں آتا تو یہ واقعہ جھوٹا ہوا
کسی بھی واقعہ کو رد کرنے کا یہ معیار نہیں اگر ایک واقعہ ہماری عقل کے معیار پر پورا نہ اترے تو ہم رد کردیں ، اس طرح تو احادیث میں بیان کردہ کئی واقعات رد کرنے پڑیں گے جو ہماری عقل پر پورا نہیں اترتے جیسا کہ میں نے جریج والا قصہ حدیث کے حوالہ سے نقل کیا اور دودھ پیتے بچے نے ایک عورت سے متعلق گواہی دی کہ وہ عورت زانیہ نہیں اور بات ہماری عقل میں نہیں آتی کہ ایک دودھ پیتا بچہ کس طرح ایک عورت کی پاکدامنی بیان کرسکتا ہے تو کیا ہم حدیث میں مزکور قصہ کا بھی انکار کردیں

دوم
دوسرا طریق ان واقعات کو رد کرنے کا یہ اختیار کیا گيا کہ چوں کہ قرطبی والے واقعے میں نوجوان امور غیب پر مطلع ہوا تو صاحب مضمون نے اس یہ نتیجہ اخذ کیا اس سے یہ نوجوان عالم الغیب ثابت ہوتا ہے تو اس واقعہ کو رد کیا ۔ میں نے اسی لئیے یہ جریج والا واقعہ نقل کیا تاکہ یہ بتاسکوں اس واقعہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ایک دودھ پیتا بچہ بھی امور غیب پر مطلع ہوا تو کیا اس بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کو معاذ اللہ رد کیا جائے
سوم
اس واقعہ سے یہ عقیدہ کشید کیا گيا کہ تبلیغی جماعت والے علم الغیب کی صفت میں اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ اوروں کو شریک کرتے ہیں تو وہ دودھ پیتا بچہ بھی غیب پر مطلع ہوا تو کیا وہ بھی عالم الغیب ہوا اگر وہ علم الغیب پر مطلع ہونے کی باوجود عالم الغیب نہیں ہوا تو قرطبی والے واقعہ میں نوجوان کیسے عالم الغیب ہو گيا
یہ تو ہوا ماقبل بحث کا خلاصہ

آپ کی بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے نذدیک یہ اعتراضات درست نہیں ، اس لئیے آپ نے ایک نیا اعتراض وارد کیا ہے ، چوں کہ اس واقعہ کی سند مذکور نہیں اس لئیے یہ واقعہ من گھڑت ہے ۔
محترم ایک کوئی شخص ایک واقعہ بیان کرتا ہے اور اس کی سند نہیں تو اگر کوئی شخص یہ کہے چوں کہ اس کی سند نہیں اس لئیے میں اس کی سچائی پر یقین نہیں رکھتا تو بات سمجھ آتی ہے لیکن اگر اس واقعہ کو من گھڑت کہا جائے تو اس کا مطلب ہے جس نے یہ واقعہ تحریر کیا ہے وہ واقعات گھڑتا ہے اور ایک نمبر کا جھوٹا شخص ہے ۔
آپ کی بات سے تو یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ بے سند واقعات کو من گھڑت کہتے ہیں اور من گھڑت واقعات تحریر کرنے والا جھوٹا ہوتا ہے ۔ اگر یہی آپ کا نظریہ ہے تو آپ تصدیق کردیں پھر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ کے نظریہ کے مطابق اس امت میں کون کون جھوٹا شخص گذرا ہے
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
فضائل اعمال میں ایک اور خلاف حقیقت واقعہ:

صوفیاء کو بھی اکثر یہ چيز مجاہدوں (مشقت کی عبادتوں) کی کثرت سے حاصہ ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ جمادات اورحیوانات کی تسبیح، ان کا کلام اور ان کی گفتگو سمجھ لیتے ہیں-
محققین مشائخ کے نزدیک چونکہ یہ چيز نہ دلیل کمال ہے نہ موجب قرب جو بھی اس قسم کے مجاہدے کرتا ہے وہ حاصہ کرلیتا ہے خواہ اے اللہ تعالی کا قرب حاصل ہو یا نہ ہو۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ:648، فیضی: 561، قدیمی: 465)
قارئین! غور فرمائیں یہ عقیدہ ہے مولانا زکریا صاحب کا اور تبلیغ والے پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سناتے ہیں- جو بھی اس قسم کے مجاہدے کرے وہ حیوانات کی بولی سمجھ سکتا ہے- یہ چيز اللہ تعالی کے مقرب بھی حاصل کر سکتے ہیں اور نافرمان بھی- یہ چيز کمال کی دلیل بھی نہیں ہے- مگر فضائل اعمال کی زینت بھی ہے۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ کیا خوب فضیلت ہے؟؟؟
جمادات و حیوانات کے متعلق اسلام تعلیمات:
اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے بطور معجزہ یا کرامت حیوانات و جمادات کی تسبیح بتادے یا سنادے مگر یہ چيز ان کے اختیار میں ہر گز نہیں ہوتی کہ مجاہدے کرنے والے جب چآہیں وہ سن لیں-

رسول اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ:
غزوہ بنی المصطلق میں دوراں سفر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کا ہار گم ہوگیا تلاش میں صحابہ کرام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کیا۔ (قریب ہی گم شدہ ہار اونٹ کے نیچے اللہ تعالی کا ذکر کرتا رہا ہوگا۔ ۔ ۔ ۔۔ نہ صحابہ نے اس کے ذکر کی آواز سنی اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوسکا) سارا قافلہ پریشان تھا، نماز کا وقت ہوچکا تھا، قریب کہیں پانی کا نام و نشان نہیں تھا، اب لوگ باتیں کرنے لگے کہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی غفلت کی وجہ سے سارا قافلہ پریشان ہے ادھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کی باتیں سن سن کر مزید پریشان ہورہے تھے اور غصہ بڑرہا تھا- بیٹی کے پاس اسی عالم میں پہنچے خوب ڈانٹا- اور عائشہ رضی اللہ عنہ کی کوکھ میں مکہ مارا۔ ۔ ۔۔ ۔ اتنے میں جبرائيل علیہ السلام تیمّم کے احکامت لے کر اترے اور اللہ تعالی کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا کہ:
" جب تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں اور تم پانی ہ نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کرلو"
(المائدہ 6/6) [ تفصیل کے لیے دیکھیے بخاری کتاب التفسیر]
قارئین! آپ خود فیصلہ کریں کا کیا صوفیاء۔ ۔ ۔ ۔۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مجاہدے کرتے ہیں کہ یہ صوفی تو جمادات کی بولی سمجھ لیں اور صحابہ رضی اللہ عنہ جن کی ساری زندگیاں ہی میدان جہاد میں گزر گئيں وہ جمادات کی بولی نہ سمجھ سکے بتائيے تبلیغی بھائیوں کے نزدیک فضیلت کس کی ثابت ہوئی؟ صوفیاء کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی اور صحابہ رضی اللہ عنہ کی؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جزاک اللہ خیرا ، شکر ہے کوئی موضوع سے متعلق تو جواب آیا ورنہ Muhammad Aamir Younus نے غالبا اپنے اکابر سے یہی سیکھا ہے کہ کسی کو تکفیر کرو اگر مخاطب قرآن و حدیث سے جواب دے موضوع سے ہٹ بس الزامات لگاتے جائو اور کوئی جواب نہ دو ، جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ تکنیک کہاں مستعمل ہوتی ہے
جب یہ تھریڈ شروع ہوا تو صاجب مضمون نے فضائل اعمال سے دو واقعات نقل کیے
اول ۔ ایک سانس میں دو سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہنا
دوم ایک نوجوان کا امور غیبی میں سے کچھ بیان کرنا
ان واقعات کو رد کچھ طرح سے کیا گيا
اول ۔ چوں کہ ایک سانس میں دو سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہنا ممکن نظر نہیں آتا تو یہ واقعہ جھوٹا ہوا
کسی بھی واقعہ کو رد کرنے کا یہ معیار نہیں اگر ایک واقعہ ہماری عقل کے معیار پر پورا نہ اترے تو ہم رد کردیں ، اس طرح تو احادیث میں بیان کردہ کئی واقعات رد کرنے پڑیں گے جو ہماری عقل پر پورا نہیں اترتے جیسا کہ میں نے جریج والا قصہ حدیث کے حوالہ سے نقل کیا اور دودھ پیتے بچے نے ایک عورت سے متعلق گواہی دی کہ وہ عورت زانیہ نہیں اور بات ہماری عقل میں نہیں آتی کہ ایک دودھ پیتا بچہ کس طرح ایک عورت کی پاکدامنی بیان کرسکتا ہے تو کیا ہم حدیث میں مزکور قصہ کا بھی انکار کردیں

دوم
دوسرا طریق ان واقعات کو رد کرنے کا یہ اختیار کیا گيا کہ چوں کہ قرطبی والے واقعے میں نوجوان امور غیب پر مطلع ہوا تو صاحب مضمون نے اس یہ نتیجہ اخذ کیا اس سے یہ نوجوان عالم الغیب ثابت ہوتا ہے تو اس واقعہ کو رد کیا ۔ میں نے اسی لئیے یہ جریج والا واقعہ نقل کیا تاکہ یہ بتاسکوں اس واقعہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ایک دودھ پیتا بچہ بھی امور غیب پر مطلع ہوا تو کیا اس بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کو معاذ اللہ رد کیا جائے
سوم
اس واقعہ سے یہ عقیدہ کشید کیا گيا کہ تبلیغی جماعت والے علم الغیب کی صفت میں اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ اوروں کو شریک کرتے ہیں تو وہ دودھ پیتا بچہ بھی غیب پر مطلع ہوا تو کیا وہ بھی عالم الغیب ہوا اگر وہ علم الغیب پر مطلع ہونے کی باوجود عالم الغیب نہیں ہوا تو قرطبی والے واقعہ میں نوجوان کیسے عالم الغیب ہو گيا
یہ تو ہوا ماقبل بحث کا خلاصہ

آپ کی بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے نذدیک یہ اعتراضات درست نہیں ، اس لئیے آپ نے ایک نیا اعتراض وارد کیا ہے ، چوں کہ اس واقعہ کی سند مذکور نہیں اس لئیے یہ واقعہ من گھڑت ہے ۔
محترم ایک کوئی شخص ایک واقعہ بیان کرتا ہے اور اس کی سند نہیں تو اگر کوئی شخص یہ کہے چوں کہ اس کی سند نہیں اس لئیے میں اس کی سچائی پر یقین نہیں رکھتا تو بات سمجھ آتی ہے لیکن اگر اس واقعہ کو من گھڑت کہا جائے تو اس کا مطلب ہے جس نے یہ واقعہ تحریر کیا ہے وہ واقعات گھڑتا ہے اور ایک نمبر کا جھوٹا شخص ہے ۔
آپ کی بات سے تو یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ بے سند واقعات کو من گھڑت کہتے ہیں اور من گھڑت واقعات تحریر کرنے والا جھوٹا ہوتا ہے ۔ اگر یہی آپ کا نظریہ ہے تو آپ تصدیق کردیں پھر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ کے نظریہ کے مطابق اس امت میں کون کون جھوٹا شخص گذرا ہے


روٹی کی کہانی فضائل اعمال کی زبانی:
شیخ ابو الخیر اقطع فرماتے ہیں میں مدینہ منورہ میں آیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔5 دن وہاں قیام کیا۔ کچھ مجھ کو ذوق و لطف حاصل نہ ہوا۔ میں قبر شریف کے پاس حاضر ہوا اور جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رض کو سلام کیا اور عرض کیا اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج میں آپ کا مہمان ہوں پھر وہاں سے ہٹ کر منبر کے پیچھے سوگیا- خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا- سیدنا ابوبکر رض آپ کے داہنی حانب اور سیدنا عمر رض آپ کے بائيں جانب تھے اور سیدنا علی رض اپ کے آگے تھے۔ سیدنا علی رض نے مجھ کو ہلایا اور فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں- میں اٹھا اور آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان چوما حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک روٹی عنایت فرمائی- میں نے آدھی کھالی اور جاگا تو آدھی میرے ہاتھ میں تھی۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی:835)
روٹی لے کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آسمان سے اتری:
1/ شاھ ولی اللہ اپنے یا اپنے والد کے متعلق لکھتے ہیں کہ ایک روز مجھے بہت ہی بھک لگی (نا معلوم کتنے روز کا فاقہ تھا) میں نے اللہ جل شانہ سے دعا کی تو میں دیکھا کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آسمان سے اتری اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک روٹی تھی گویا اللہ تعالی نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا تھا کہ یہ روٹی مجھے مرحمت فرمائيں۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی:835)
2/ ایک بھوکے کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کا پیالہ بھیجا۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی:835)
3/ اور اور قصے مین لکھا ہے کہ شاھ جی کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں روٹی دی جاگنے پر زعفران کی خوشبو آرہی تھی۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 799، قدیمی: 836)
4/ ایک قصہ اس طرح لکھا ہوا ہے کہ شاھ جی بیمار ہوگئے خواب میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " بیٹے کیسی طبیعت ہے اس کے بعد شفا کی بشارت فرمائی اور اپنی داڑھی مبارک میں سے دو بال مجھے عطا فرمائے میری اس وقت صحت ٹھیک ہوگئی اور جب میری آنکھ کھلی تو دونوں بال میرے ہاتھ میں تھے۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 798، قدیمی:835)
5/ ان واقعات کو لکھ کر مولانا ذکریا مزید کہتے ہیں کہ جب اکابر صوفیا کی توجہات معروف و متواتر ہیں تو سید الاولین و الآخرین کی توجہ کا کیا پوچھنا۔
(فضائل اعمال= رحمانیہ: 797، قدیمی: 834)
قارئین توجہ فرمائيں:
ان واقعات میں قبر والوں سے سوال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ سماء موتی کے عقیدے کی دعوت پیش کی گئی ہے۔
سماع موتی کا عقیدہ شرک کی طرف کھلنے والا چور دروازہ ہے- جسے تبلیغی بورگوں نے فضائل اعمال کے ذریعے کھولا ہوا ہے- یہ لوگ کہتے ہیں:
" اللہ تعالی سے سب کچھ ہونے کا یقین اور غیروں سے کچھ نہ ہونے کا یقین"-
مگر یہاں اس دعوی کی حقیقت کھل کے سامنے آگئی ہے ان کے عقیدے کے مطابق:
1/ نبی ۖاپنی قبر پر آنے والے ضرورتمندوں کی ضرورت کو جانتے اور ضرورتیں پوری بھی کرتے ہیں۔
2/ (اگر قبر مبارک میں راشن کی کمی ہوجائے تو) روح مبارک آسمان جگر لگا کر سائل کی ضرورت کا سامان خوراک پہنچاتی ہے اور سائل جاگتے جاگتے یہ سب منطر دیکھ رہا ہوتا ہے۔
3/ خواب میں داڑھی مبارک کے بال دیے تو جاگنے پر ہاتھ میں موجود تھے۔
4/خواب میں روٹی دی تو جاگنے پر وہ بھی ہاتھ میں تھی۔
روزی دینے والا صرف اللہ تعالی ہے:
1/ اللہ تعالی کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمہین روزی دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ رزق اللہ تعالی کے پاس تلاش کرو اسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر کرو، کیونکہ پلٹ کر اسی کی طرف جانا ہے۔
(العنکبوت: 29/17)
بھوک میں صرف اللہ تعالی کھلاتا پلاتا ہے:
1/ (ابراھیم علیہ السلام نے کہا) اور وہی اللہ تعالی مجھے کھالاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں شفا بھی وہی عطا کرتا ہے۔
(الشعرا= 26/ 79-80)
2/ اگر اللہ تعالی رزق روک لے تو کوئی ہے جو تم کو روزی دے سکے۔
( ملک: 67/21)


قارئین! یہ ہے اسلامی عقیدہ جس سے صاف پتہ چلتا ہے ہے کہ پکارنے والے کی پکار، ضرورتمندوں کی ضرورتیں، بھوکوں کو رزق، بیماروں کو شفاء صرف اللہ تعالی عطا کرتا ہے اس کے علاوہ کوئی نبی، ولی، قبر والے کی پکار نہیں سن سکتے- اگر بالفرض سن بھی لیں تو مدد نہیں کرسکتے۔ لہذا اپنی ضرورتین لے کر اللہ تعالی کے سامنے پیش کرنا چاہیے نہ کہ بے اختیار قبر والوں کے پاس۔ (قبر کسی نبی کی ہو یا کسی ولی کی)
بھائیو! فضائل اعمال میں اس قسم کے بہت سے واقعات ہیں۔ یہاں میں نے صرف چند کو مثال کے طور پر بیان کیا ہے اللہ ایسے مشرکانہ عقیدے سے بچائے اور ہمیں اللہ تعالی کے حکموں اور نبی ۖ کے طریقوں پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
 
Top