محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
میرےبھائی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کا قصہ سنایا تھا ؟
«اللَّهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ» قَالَ: وَكَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ
میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں
میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کے وہ ان تمام مسائل کو جن کا مجموعہ دین کہلاتا ہے مجھ سے زبردستی نہیں منواتا
بلکہ ہر امر کیلئے دلیل دیتا ہے۔
آپ نے مندرجہ ذیل واقعہ جو فضائل اعمال میں درج ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ علم الغیب جو اللہ تبارک و تعالی کی صفت ہے اسے لوگوں میں تقسیم کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے آپ نے تبلیغی جماعت کو تکفیری جماعت کہا ہے
میرا سوال صرف یہ ہے کہ کیا اللہ تبارک و تعالی ازل سے واحد عالم الغیب ہے یا معاذ اللہ کبھی علم الغیب صرف اللہ تبارک و تعالی کا خاصہ نہیں تھا لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ یہ صفت صرف اللہ تبارک و تعالی کی ہوگئی ۔
غیر مقلدین کی پرانی روش کو دیکھتے ہوئے میں اپنا عقیدہ بیان کردوں ، کیوں غیر مقلدین جواب دینے سے کتراتے ہیں اور مخالف پر سوال کی بوچھاڑ کردیتے ہیں
میرا عقیدہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی کے عالم الغیب ہونے میں کوئی اس کے ساتھ شریک نہیں اور اللہ تبارک و تعالی کی یہ صفت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ، اس صفت میں کوئی اور نہ کبھی شامل ہوا اور نہ کبھی شامل ہو سکتا ہے ۔
آپ کا کیا عقیدہ اس بارے میں ، جواب دیں پھر آپ کے اعتراض پر بات شروع کرتے ہیں
Muhammad Aamir Younus
اللہ تبارک و تعالی کی صفات ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی ان میں نہ کبھی انقطاع ہوا اور ان کبھی کوئی شریک ہوا اور نہ کوئي کبھی شریک ہوسکتا ہے
اسیطرح اللہ تبارک و تعالی کی صفت علم الغیب ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اس میں نہ کبھی انقطاع ہوا اور نہ کبھی کوئی شریک ہوا اور نہ کوئي کبھی شریک ہوسکتا ہے
مجھے یقین آپ حضرات کا بھی یہی عقیدہ ہے ۔
اب یہ حدیث پڑھیئے
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَمْ يَتَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ ، عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ ، وَكَانَ جُرَيْجٌ رَجُلًا عَابِدًا فَاتَّخَذَ صَوْمَعَةً ، فَكَانَ فِيهَا فَأَتَتْهُ أُمُّهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : يَا رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَانْصَرَفَتْ ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ وَهُوَ يُصَلِّي ، فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ ، فَقَالَ : أَيْ رَبِّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَأَقْبَلَ عَلَى صَلَاتِهِ ، فَقَالَتْ : اللَّهُمَّ لَا تُمِتْهُ حَتَّى يَنْظُرَ إِلَى وُجُوهِ الْمُومِسَاتِ ، فَتَذَاكَرَ بَنُو إِسْرَائِيلَ جُرَيْجًا وَعِبَادَتَهُ ، وَكَانَتِ امْرَأَةٌ بَغِيٌّ يُتَمَثَّلُ بِحُسْنِهَا ، فَقَالَتْ : إِنْ شِئْتُمْ لَأَفْتِنَنَّهُ لَكُمْ ، قَالَ : فَتَعَرَّضَتْ لَهُ ، فَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهَا ، فَأَتَتْ رَاعِيًا كَانَ يَأْوِي إِلَى صَوْمَعَتِهِ ، فَأَمْكَنَتْهُ مِنْ نَفْسِهَا فَوَقَعَ عَلَيْهَا فَحَمَلَتْ ، فَلَمَّا وَلَدَتْ ، قَالَتْ : هُوَ مِنْ جُرَيْجٍ ، فَأَتَوْهُ فَاسْتَنْزَلُوهُ وَهَدَمُوا صَوْمَعَتَهُ ، وَجَعَلُوا يَضْرِبُونَهُ ، فَقَالَ : مَا شَأْنُكُمْ ؟ قَالُوا : زَنَيْتَ بِهَذِهِ الْبَغِيِّ فَوَلَدَتْ مِنْكَ ، فَقَالَ : أَيْنَ الصَّبِيُّ فَجَاءُوا بِهِ ، فَقَالَ : دَعُونِي حَتَّى أُصَلِّيَ ، فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَى الصَّبِيَّ فَطَعَنَ فِي بَطْنِهِ ، وَقَالَ يَا غُلَامُ : مَنْ أَبُوكَ ، قَالَ : فُلَانٌ الرَّاعِي ، قَالَ : فَأَقْبَلُوا عَلَى جُرَيْجٍ يُقَبِّلُونَهُ وَيَتَمَسَّحُونَ بِهِ ، وَقَالُوا : نَبْنِي لَكَ صَوْمَعَتَكَ مِنْ ذَهَبٍ ، قَالَ : لَا ، أَعِيدُوهَا مِنْ طِينٍ كَمَا كَانَتْ ، فَفَعَلُوا ، وَبَيْنَا صَبِيٌّ يَرْضَعُ مِنْ أُمِّهِ ، فَمَرَّ رَجُلٌ رَاكِبٌ عَلَى دَابَّةٍ فَارِهَةٍ وَشَارَةٍ حَسَنَةٍ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَ هَذَا ، فَتَرَكَ الثَّدْيَ وَأَقْبَلَ إِلَيْهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى ثَدْيِهِ فَجَعَلَ يَرْتَضِعُ ، قَالَ : فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحْكِي ارْتِضَاعَهُ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ فِي فَمِهِ ، فَجَعَلَ يَمُصُّهَا ، قَالَ : وَمَرُّوا بِجَارِيَةٍ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا وَيَقُولُونَ زَنَيْتِ سَرَقْتِ وَهِيَ ، تَقُولُ : حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ، فَقَالَتْ أُمُّهُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَتَرَكَ الرَّضَاعَ وَنَظَرَ إِلَيْهَا ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، فَهُنَاكَ تَرَاجَعَا الْحَدِيثَ ، فَقَالَتْ حَلْقَى مَرَّ رَجُلٌ حَسَنُ الْهَيْئَةِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهُ ، فَقُلْتَ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَمَرُّوا بِهَذِهِ الْأَمَةِ وَهُمْ يَضْرِبُونَهَا ، وَيَقُولُونَ : زَنَيْتِ سَرَقْتِ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلِ ابْنِي مِثْلَهَا ، فَقُلْت : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا ، قَالَ : إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ كَانَ جَبَّارًا ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي مِثْلَهُ ، وَإِنَّ هَذِهِ يَقُولُونَ لَهَا زَنَيْتِ ، وَلَمْ تَزْنِ ، وَسَرَقْتِ ، وَلَمْ تَسْرِقْ ، فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِثْلَهَا "
.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : گود میں کسی بچے نے بات نہیں کی سوائے تین بچوں کے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام دوسرے جریج کا ساتھی۔ اور جریج نامی ایک شخص عابد تھا، اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اور اسی میں رہتا تھا۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اس کی ماں آئی اور اسے بلایا کہ اے جریج ! تو وہ ( دل میں ) کہنے لگا کہ یا اللہ میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں ( میں نماز پڑھے جاؤں یا اپنی ماں کو جواب دوں )؟ آخر وہ نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں واپس چلی گئی۔ پھر جب دوسرا دن ہوا تو وہ پھر آئی اور پکارا کہ اے جریج ! وہ بولا کہ اے اللہ ! میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں، آخر وہ نماز میں ہی رہا پھر اس کی ماں تیسرے دن آئی اور بلایا لیکن جریج نماز ہی میں رہا تو اس کی ماں نے کہا کہ یااللہ ! اس کو اس وقت تک نہ مارنا جب تک یہ فاحشہ عورتوں کا منہ نہ دیکھ لے ( یعنی ان سے اس کا سابقہ نہ پڑے )۔ پھر بنی اسرائیل نے جریج کا اور اس کی عبادت کا چرچا شروع کیا اور بنی اسرائیل میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے مثال دیتے تھے، وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو آزمائش میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس کی طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانے میں آ کر پناہ لیا کرتا تھا اور اس کو اپنے سے صحبت کرنے کی اجازت دی تو اس نے صحبت کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ جب بچہ جنا تو بولی کہ بچہ جریج کا ہے۔ لوگ یہ سن کر اس کے پاس آئے، اس کو نیچے اتارا، اس کے عبادت خانہ کو گرایا اور اسے مارنے لگے۔ وہ بولا کہ تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اس بدکار عورت سے زنا کیا ہے اور اس نے تجھ سے ایک بچے کو جنم دیا ہے۔ جریج نے کہا کہ وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس کو لائے تو جریج نے کہا کہ ذرا مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ پھر نماز پڑھی اور اس بچہ کے پاس آ کر اس کے پیٹ کو ایک ٹھونسا دیا اور بولا کہ اے بچے تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا کہ فلاں چرواہا ہے۔ یہ سن کر لوگ جریج کی طرف دوڑے اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تیرا عبادت خانہ سونے اور چاندی سے بنائے دیتے ہیں۔ وہ بولا کہ نہیں جیسا تھا ویسا ہی مٹی سے پھر بنا دو۔ تو لوگوں نے بنا دیا۔ ( تیسرا ) بنی اسرائیل میں ایک بچہ تھا جو اپنی ماں کا دودھ پی رہا تھا کہ اتنے میں ایک بہت عمدہ جانور پر خوش وضع، خوبصورت سوار گزرا۔ تو اس کی ماں اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس سوار کی طرح کرنا۔ یہ سنتے ہی اس بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور سوار کی طرف منہ کر کے اسے دیکھا اور کہنے لگا کہ یااللہ ! مجھے اس کی طرح نہ کرنا۔ اتنی بات کر کے پھر چھاتی میں جھکا اور دودھ پینے لگا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گویا میں ( اس وقت ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو چوس کر دکھایا کہ وہ لڑکا اس طرح چھاتی چوسنے لگا۔ پھر ایک لونڈی ادھر سے گزری جسے لوگ مارتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے۔ وہ کہتی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی میرا وکیل ہے۔ تو اس کی ماں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح نہ کرنا۔ یہ سن کر بچے نے پھر دودھ پینا چھوڑ دیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر کہا کہ یا اللہ مجھے اسی لونڈی کی طرح کرنا۔ اس وقت ماں اور بیٹے میں گفتگو ہوئی تو ماں نے کہا کہ او سرمنڈے ! جب ایک شخص اچھی صورت کا نکلا اور میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو ایسا کرنا تو تو نے کہا کہ یا اللہ مجھے ایسا نہ کرنا اور لونڈی جسے لوگ مارتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ ! میرے بیٹے کو اس کی طرح کا نہ کرنا تو تو کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح کرنا ( یہ کیا بات ہے )؟ بچہ بولا، وہ سوار ایک ظالم شخص تھا، میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اس کی طرح نہ کرنا اور اس لونڈی پر لوگ تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو نے زنا کیا اور چوری کی ہے حالانکہ اس نے نہ زنا کیا ہے اور نہ چوری کی ہے تو میں نے کہا کہ یا اللہ مجھے اس کی مثل کرنا۔
1- جریچ کو کیسے معلوم ہوا کہ مہد میں بچہ خرق عادت کلام کرے گا اور اور سچ بھی بتائے گا ، اس نے بچہ سے سوال کیوں کیا ، کیا وہ بھی اللہ کے علم میں شریک ہو گيا (معاذ اللہ ) کیوں اللہ تو اس وقت بھی اپنے علم الغیب کی صفت میں یکتا تھا ۔
جس طرح جریج اپنی اس کرامت کی وجہ سے عالم الغیب نہیں ہوا تو فضائل اعمال میں ذکر کردہ کرامت سے مذکورہ نوجوان کیسے عالم الغیب ہو گيا
2- اس بچے کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ فلاں چراوہ ہے ۔
اللہ کی علم الغیب کی صفت میں تو اس وقت بھی کوئي شریک نہ تھا یا معاذ اللہ اس حدیث کی بنیاد اس بچے کو آپ حضرات عالم الغیب مانتے ہیں ۔ اگر اس بچے کو عالم الغیب نہیں مانتے تو فضائل اعمال میں مذکورہ کرامت کی وجہ کیوں شرکیہ بتا رہے ہیں ۔
3- دوسرے بچے کو کیسے معلوم ہوا مزکورہ عورت زانی نہیں تھی ۔ کیا وہ عالم الغیب تھا ۔
اگر وہ غیبی خبر بتا کر بھی عالم الغیب نہیں بنتا تو فضائل اعمال میں کرامت والے قصے میں مزکورہ نوجوان کیسے عالم الغیب بن گيا ۔
اللہ تو ہمیشہ سے عالم الغیب ہے اور ہمیشہ عالم الغیب رہے گا نہ کبھی کوئي اس کی اس صفت میں پہلے کوئی شریک تھا اور نہ کبھی کوئی آئندہ شریک ہو گا ۔
تو کیا آپ حضرات بتانا پسند فرمائيں گے کہ جریچ کو کس نے علم عطا کیا کہ بچہ کلام کرے گا اور سچ بولے گا
اس بچہ کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ چرہاوہ ہے
دوسرے بچہ کو کیسے معلوم ہوا کہ فلاں عورت زانیہ نہیں
اگر یہ قصہ فضائل اعمال میں ہوتا تو آپ حضرات تو یہاں بھی شرک و کفر کا فتوی لگا چکے ہوتے
اگر قرآن و حدیث میں کرامت کی کوئي اہمیت نہیں تو قرآن و حدیث کرامت کا ذکر کیوں ہے ۔ کیا آپ کرامت کے منکر ہیں ؟؟؟؟؟
احناف کی ضد میں اتنے اندھے مت ہوجائيں کے ان امور کا انکار شروع کردیں جو جو امور قرآن وحدیث سے ثابت ہیں
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ بھی حنفیت میں اتنا غلو نہ کریں کہ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں۔ براہ مہربانی فضائل اعمال والے واقعے کی سند بیان کر دیں تا کہ ہمیں آپ کے سوالوں کا جواب دینے میں آسانی ہو جائے۔احناف کی ضد میں اتنے اندھے مت ہوجائيں کے۔۔۔۔
جزاک اللہ خیرا ، شکر ہے کوئی موضوع سے متعلق تو جواب آیا ورنہ Muhammad Aamir Younus نے غالبا اپنے اکابر سے یہی سیکھا ہے کہ کسی کو تکفیر کرو اگر مخاطب قرآن و حدیث سے جواب دے موضوع سے ہٹ بس الزامات لگاتے جائو اور کوئی جواب نہ دو ، جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ تکنیک کہاں مستعمل ہوتی ہےمحترم تلمیذ صاحب! جو واقعہ آپ نے بیان کیا ہے اس کی صداقت پر نبوی مہر ہے (بشرط صحت)۔ کرامت کا ہمیں انکار نہیں جیسا کہ معجزہ کا انکار نہیں۔ اور اس پر بھی ایمان ہے کہ معجزہ اور کرامت اختیاری نہیں ہوتے بلکہ اللہ کی رضا کے محتاج ہوتے ہیں۔ اب جو سوالات آپ اٹھا رہے ہیں اس پہ ہم بحث نہیں کرتے کیونکہ ہمارا اس پر ایمان ہے جو نبی نے بتایا۔
جو واقعہ فضائل اعمال میں ہے وہ ایک من گھڑت قصہ ہے جس کی کوئی سند نہیں بیان کی۔ اگر آپ کو مکمل سند معلوم ہو تو ہمیں آگاہ کیجئے۔ (ویسے تو یہ جواب بھی آپ کو غیر متعلق لگے گا۔ کیونکہ آپ ہر سوال کا اپنے ذہن میں ایک جواب پہلے سے سوچ لیتے ہیں اور اس کے ساتھ مطابقت پیدا کرنا شاید ہمارے بس میں نہیں) براہ مہربانی آپ فضائل اعمال والے قصے کی سند بیان کر دیں تو ہم آپ کے سوالوں کے جواب دے دیں گے۔ ان شاء اللہ
آپ نے فرمایا
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ بھی حنفیت میں اتنا غلو نہ کریں کہ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں۔ براہ مہربانی فضائل اعمال والے واقعے کی سند بیان کر دیں تا کہ ہمیں آپ کے سوالوں کا جواب دینے میں آسانی ہو جائے۔
جزاک اللہ خیرا ، شکر ہے کوئی موضوع سے متعلق تو جواب آیا ورنہ Muhammad Aamir Younus نے غالبا اپنے اکابر سے یہی سیکھا ہے کہ کسی کو تکفیر کرو اگر مخاطب قرآن و حدیث سے جواب دے موضوع سے ہٹ بس الزامات لگاتے جائو اور کوئی جواب نہ دو ، جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ تکنیک کہاں مستعمل ہوتی ہے
جب یہ تھریڈ شروع ہوا تو صاجب مضمون نے فضائل اعمال سے دو واقعات نقل کیے
اول ۔ ایک سانس میں دو سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہنا
دوم ایک نوجوان کا امور غیبی میں سے کچھ بیان کرنا
ان واقعات کو رد کچھ طرح سے کیا گيا
اول ۔ چوں کہ ایک سانس میں دو سو مرتبہ لا الہ الا اللہ کہنا ممکن نظر نہیں آتا تو یہ واقعہ جھوٹا ہوا
کسی بھی واقعہ کو رد کرنے کا یہ معیار نہیں اگر ایک واقعہ ہماری عقل کے معیار پر پورا نہ اترے تو ہم رد کردیں ، اس طرح تو احادیث میں بیان کردہ کئی واقعات رد کرنے پڑیں گے جو ہماری عقل پر پورا نہیں اترتے جیسا کہ میں نے جریج والا قصہ حدیث کے حوالہ سے نقل کیا اور دودھ پیتے بچے نے ایک عورت سے متعلق گواہی دی کہ وہ عورت زانیہ نہیں اور بات ہماری عقل میں نہیں آتی کہ ایک دودھ پیتا بچہ کس طرح ایک عورت کی پاکدامنی بیان کرسکتا ہے تو کیا ہم حدیث میں مزکور قصہ کا بھی انکار کردیں
دوم
دوسرا طریق ان واقعات کو رد کرنے کا یہ اختیار کیا گيا کہ چوں کہ قرطبی والے واقعے میں نوجوان امور غیب پر مطلع ہوا تو صاحب مضمون نے اس یہ نتیجہ اخذ کیا اس سے یہ نوجوان عالم الغیب ثابت ہوتا ہے تو اس واقعہ کو رد کیا ۔ میں نے اسی لئیے یہ جریج والا واقعہ نقل کیا تاکہ یہ بتاسکوں اس واقعہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ایک دودھ پیتا بچہ بھی امور غیب پر مطلع ہوا تو کیا اس بنیاد پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کو معاذ اللہ رد کیا جائے
سوم
اس واقعہ سے یہ عقیدہ کشید کیا گيا کہ تبلیغی جماعت والے علم الغیب کی صفت میں اللہ تبارک و تعالی کے ساتھ اوروں کو شریک کرتے ہیں تو وہ دودھ پیتا بچہ بھی غیب پر مطلع ہوا تو کیا وہ بھی عالم الغیب ہوا اگر وہ علم الغیب پر مطلع ہونے کی باوجود عالم الغیب نہیں ہوا تو قرطبی والے واقعہ میں نوجوان کیسے عالم الغیب ہو گيا
یہ تو ہوا ماقبل بحث کا خلاصہ
آپ کی بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے نذدیک یہ اعتراضات درست نہیں ، اس لئیے آپ نے ایک نیا اعتراض وارد کیا ہے ، چوں کہ اس واقعہ کی سند مذکور نہیں اس لئیے یہ واقعہ من گھڑت ہے ۔
محترم ایک کوئی شخص ایک واقعہ بیان کرتا ہے اور اس کی سند نہیں تو اگر کوئی شخص یہ کہے چوں کہ اس کی سند نہیں اس لئیے میں اس کی سچائی پر یقین نہیں رکھتا تو بات سمجھ آتی ہے لیکن اگر اس واقعہ کو من گھڑت کہا جائے تو اس کا مطلب ہے جس نے یہ واقعہ تحریر کیا ہے وہ واقعات گھڑتا ہے اور ایک نمبر کا جھوٹا شخص ہے ۔
آپ کی بات سے تو یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ آپ بے سند واقعات کو من گھڑت کہتے ہیں اور من گھڑت واقعات تحریر کرنے والا جھوٹا ہوتا ہے ۔ اگر یہی آپ کا نظریہ ہے تو آپ تصدیق کردیں پھر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ آپ کے نظریہ کے مطابق اس امت میں کون کون جھوٹا شخص گذرا ہے