• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک سوال،ایک گزارش

شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
32
http://forum.mohaddis.com/threads/اہل-تصوف-کی-کارستانیاں.15834/page-3
شراکت نمبر 29
دوم: صوفی عقیدے کے تفصیلی خطوط
ا۔ اللہ کے بارے میں
اللہ کے بارے میں اہل تصوف کے مختلف عقیدے ہیں ۔ ایک عقیدہ حلول کا ہے۔ یعنی اللہ اپنی کسی مخلوق میں اترآتا ہے۔ یہ حلاج کا عقیدہ تھا۔ ایک عقیدہ وحدۃ الوجود کا ہے۔ یعنی خالق مخلوق جدا نہیں۔ یہ عقیدہ تیسری صدی سے لے کر موجودہ زمانہ تک رائج رہا۔ اور اخیر میں اسی پر تمام اہل تصوف کا اتفاق ہو گیا ہے۔ اس عقیدے کے چوٹی کے حضرات میں ابن عربی، ابن سبعین، تلمسانی، عبدالکریم جیلی، عبدالغنی نابلسی ہیں۔ اور جد ید طرق تصوف کے عام افراد بھی اسی پر کاربند ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی صوفیوں کے مختلف عقیدے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مرتبہ و مقام کو نہیں پہنچ سکے تھے۔ اور آپ اہل تصوف کے علوم سے ناواقف تھے۔ جیسا کہ بایزید بسطامی نے کہا ہے کہ: "خضنا بحراوقف الانبیاء بساحلہ" (ہم ایک ایسے سمندر کی تہ میں پہنچ گئے جس کے ساحل پر انبیاء کھڑے ہیں) اس کے برخلاف بعض دوسرے صوفیوں کا عقیدہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ئنات کا قبہ ہیں، اور آپ ہی وہ اللہ ہیں جو عرش پر مستوی ہے۔ اور آسمان و زمین اور عرش و کرسی اور ساری کائنات آپ کے نور سے پیدا کی گئی ہے۔ آپ پہلا موجود ہیں۔ اور آپ ہی اللہ کے عرش پر مستوی ہیں۔ یہ ابن عربی اور اس کے بعد آنے والے صوفیوں کا عقیدہ ہے۔
3: اولیاء کے بارے میں
اولیاء کے بارے میں بھی صوفیوں کے مختلف عقیدے ہیں۔ بعض صوفیاء ولی کو نبی سے افضل کہتے ہیں۔ اور عام صوفیاء ولی کو تمام صفات میں اللہ کے برابر مانتے ہیں۔ چنانچہ ان کے خیال میں ولی ہی پیدا کرتا ہے، روزی دیتا ہے، زندہ کرتا، اور مارتا ہے۔ اور کائنات میں تصرف کرتا ہے۔ صوفیاء کے نزدیک ولایت کے بٹوارے بھی ہیں چنانچہ ایک غوث ہوتا ہے جو کائنات کی ہر چیز پر حکم چلاتا ہے۔ چار قطب ہوتے ہیں جو غوث کے حکم کے مطابق کائنات کے چاروں کونے تھامے ہوئے ہیں۔ سات ابدال ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک غوث کے حسب الحکم سات براعظموں میں سے کسی ایک براعظم پر حکومت کرتا ہے۔ کچھ نجباء ہوتے ہیں جو صرف شہر پر حکومت کرتے ہیں۔ ہر نجیب ایک شہر کا حاکم ہوتا ہے۔ اس طرح اولیاء کا یہ بین الاقوامی نظام مخلوق پر حکومت کرتا ہے۔ پھر ان کا ایک ایوان ہے جس میں وہ ہر رات غار حراء کے اندر جمع ہوتے ہیں ۔ اور تقدیر پر نظر ڈالتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔مختصر یہ کہ اولیاء کی دنیا مکمل خرافات کی دنیا ہے۔
اور یہ طبعی طور پر اسلامی ولایت کے خلاف ہے جس کی بنیاد دینداری، تقوٰی، عمل صالح، اللہ کی پوری پوری بندگی اور اسی کا فقیر و محتاج بننے پر ہے۔ یہاں ولی خود اپنے کسی معاملے کا مالک نہیں ہوتا، چہ جائیکہ وہ دوسروں کے معاملات کا مالک ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے:"قل انی الا املک ضرا ولا رشدا" (تم کہہ دو کہ میں نہ تمہارے کسی نقصان کا مالک ہوں۔ نہ ہدایت کا)
یہاں آپ نے جتنی باتیں نقل کی ہیں ان میں سے کسی بات کا تصوف و احسان سے تعلق نہیں۔اگر آپ بحث برائے بحث کے قائل نہیں اور مجھے امید کہ آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں۔تو میں حاضر ہوں ،آپ نے جو یہاں اعتراض پیش کئے ہیں ان میں سے ایک بات سامنے لے آئے تا کہ اس پر اچھے انداز سے گفتگو ہو سکے۔
 
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
32
http://forum.mohaddis.com/threads/اہل-تصوف-کی-کارستانیاں.15834/page-3
سے ایک اقتباس :
اسلامی بھائیو! اس مقصد کے لیے آپ کے ذہن میں تصوف کا واضح نقشہ آجائے، ہم آپ کے سامنے صوفیوں کے عقائد کا، اور دین تصوف اور دین اسلام کے بنیادی فرق کا ایک بہت ہی مختصر سا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔
اول: اسلام اور تصوف کے درمیان بنیادی فرق:
اسلام کا منہج اور راستہ تصوف کے راستے اور منہج سے ایک انتہائی بنیادی چیز میں علیحدہ ہے۔ اور وہ ہے "تلقی" یعنی عقائد اور احکام کے سلسلے میں دینی معرفت کے ماخذ۔ اسلام عقائد کے ماخذ کو صرف نبیوں اور پیغمبروں کی وحی میں محصور قرار دیتا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے ہمارے پاس صرف کتاب و سنت ہے۔
اس کے برخلاف دین تصوف میں عقائد کا ماخذ وہ خیالی وحی ہے جو اولیاء کے پاس آتی ہے۔ یا وہ مزعومہ کشف ہے جو انہیں حاصل ہوتا ہے۔ یا خواب ہیں یا پچھلے وقتوں کے مرے ہوئے لوگوں اور خضرعلیہ السلام سے ملاقات وغیرہ ہے۔ بلکہ لوح محفوظ میں دیکھنا اور جنوں سے جنہیں یہ لوگ روحانی کہتے ہیں کچھ حاصل کرنا بھی اس فہرست میں شامل ہے۔
اسی طرح اہل اسلام کے نزدیک شرعی احکام کا ماخذ کتاب و سنت اور اجماع و قیاس ہے، لیکن صوفیوں کی شریعت خوابوں،خضر اور جنوں اور مردوں اور پیروں وغیرہ پر قائم ہے۔ یہ سارے لوگ ہی شارع ہیں۔ اسی لیئے تصوف کے طریقے اور شریعتیں مختلف اور متعدد ہیں۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ مخلوق کی سانس کی تعداد کے مطابق راستے ہیں اور سب کے سب اللہ کی طرف جاتے ہیں۔ اس لیئے ہر شیخ کا اپنا ایک طریقہ اور تربیت کا اپنا ایک اصول ہے۔ اس کا اپنا مخصوص ذکر واذکار ہے، مخصوص شعائر ہیں اور مخصوص عبادتیں ہیں۔ اسی لئے تصوف کے ہزاروں بلکہ لاکھوں، بلکہ بے شمار دین اور عقیدے اور شریعتیں ہیں۔ اور سب کو تصوف کا نام شامل ہے۔
یہ ہے اسلام اور تصوف کا بنیادی فرق۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جس کے عقائد متعین ہیں۔ عبادات متعین ہیں۔ اور احکام متعین ہیں۔ اس کے برخلاف تصوف ایک ایسا دین ہے جس میں نہ عقائد کی تعیین ہے نہ شرائع اور احکام کی۔ یہ اسلام اور تصوف کے درمیان عظیم ترین فرق ہے۔
بھائی یہ کسی محقق کے الفاظ نہیں ،جس کے بھی ہیں تصوف سے بالکل نابلد ہے ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
میں لفظ تصوف سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں اس کے لیے اصل لفظ احسان و سلوک ھے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترم بھائی پہلے یہ دیکھیں کہ ہم عوام کے لئے تصوف کی اصطلاح رائج کروانا چاہتے ہیں یا علماء کے لئے
اگر عوام کے لئے تو بھائی یاد رکھیں کہ اہل حدیث عوام فقہ کو پھکہ کہتی ہے وہ کسی اہل حدیث یا اہل رائے کی فقہ کو نہیں جانتے
دوسری بات علماء کے پس منظر میں یہ کہنا ہے کہ آپ کی اوپر مثال کو تصوف پر قیاس ہی نہیں کر سکتے اسکی وجہ یہ ہے کہ فقہ میں جو اہل الحدیث کی فقہ ہے اس کے مفہوم اور تعین پر تمام اہل حدیث کا اجماع ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں پس ایک متعین چیز کو آپ فقہ اہل الحدیث کے الفاظ سے اسکو متعارف کروائیں گےتو گمراہی نہیں پھیلے گی
دوسری طرف اہل حدیث کے تصوف کے مفہوم میں نہ تو اہل حدیث کا اجماع ہے اور نہ ہی اسکا مفہوم متعین ہے پس کچھ اہل حدیث اس مفہوم میں وحدۃ الوجود کو بھی لے لیتے ہیں پس اگر کوئی ایسی صورت میں اہل حدیث کا تصوف کے الفاظ کو متعارف کروائے گا تو میرے خیال میں ابہام ہونے کی وجہ سے اہل حدیث کا گمراہ ہونا بہت آسان ہے
اہل حدیث کے تصوف میں ابہام پر میری ایک ٹھوس دلیل یہ ہے کہ میں موصوف عامر رضا سے ہر تھریڈ میں تصوف کی مثال مانگ رہا ہوں مگر وہ جواب نہیں دے رہے کیونکہ جس تصوف کو وہ ثابت کروانا چاہتے ہیں اسکی دلیل قرآن و حدیث میں نہیں اس لئے وہ بغیر تعین اسکو منوانا چاہتے ہیں جسکو ہمارے بھائی الحمد للہ سمجھ چکے ہیں من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین
محترم خضر حیات بھائی 12 منہ کی طرح یہاں بھی اگرمیری اصلاح ہو سکے تو کر دیں اللہ جزا دے امین
لفظ تصوف کے ساتھ بہت ساری غلط چیزی جڑ گئی ھیں مثلا عقیدہ حلول، وحدت الوجود اور مجزوبیت وغیرہ اس لیے اس طرح کے بدنام ھو جانے والے الفاظ جن کے ساتھ کفر و شرک نتھی ھو چکا ھے ان سے بیزاری ہی بہتر ہے
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
پہلے بھی کئی مرتبہ کہا گیا ہے کہ تصوف پر بات کرنے کیلئے بزرگوں پر کام کرنے کی بجائے کتاب وسنت کے حوالے سے بات کی جانی چاہئے۔

اہل حدیث بزرگوں کے متعلق بات تو تب کی جائے جب اہل الحدیث دیگر فرقوں کی طرح اپنے بزرگوں کو اپنا امام مانتے ہوں اور ان کی ہر جائز، ناجائز بات کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہوں۔ جب امام مالک﷫ کی زبانی ہمارا دعویٰ ہی یہ ہے کہ روضۂ مبارک والےﷺ کے علاوہ ہر ایک کی بات صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ تب پھر کتاب وسنت سے دلائل پیش کرنے کی بجائے صرف بزرگوں کی بات کرنا بحث برائے بحث ہے۔

اگر کسی کو تصوف کے موضوع پر گفتگو کرنے کا شوق ہے تو وہ تصوف کا کوئی ایک پہلو لے لے۔ اس کو کتاب اللہ یا سنتِ رسول اللہﷺ سے ثابت کرے۔ اس پر بات کو آگے بڑھانا ممکن ہو سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,479
پوائنٹ
964
یہاں آپ نے جتنی باتیں نقل کی ہیں ان میں سے کسی بات کا تصوف و احسان سے تعلق نہیں۔اگر آپ بحث برائے بحث کے قائل نہیں اور مجھے امید کہ آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں۔تو میں حاضر ہوں ،آپ نے جو یہاں اعتراض پیش کئے ہیں ان میں سے ایک بات سامنے لے آئے تا کہ اس پر اچھے انداز سے گفتگو ہو سکے۔
محترم بھائی !
’’اہل تصوف کی کارستانیاں ‘‘ یہ پوری کتاب یونیکوڈ میں فورم پر موجود ہے ۔اوپر اس کا لنک بھی دیا جا چکا ہے ۔ وہاں جائیں اقتباسات لیں اس کا رد کریں ۔
اگر آپ ہماری طرف سےگفتگو کی ابتداء چاہتے ہیں تو پھر عبدہ بھائی آپ سے جو مطالبہ کر رہے ہیں اس کو پورا فرما دیجیے اور اسی کو ایک دفعہ پھرگفتگو کا نقطہ آغاز سمجھیے ۔
اور یہ بھی ایک مشورہ ہے اس پر بھی غور و فکر فرمالیں ۔
پہلے بھی کئی مرتبہ کہا گیا ہے کہ تصوف پر بات کرنے کیلئے بزرگوں پر کام کرنے کی بجائے کتاب وسنت کے حوالے سے بات کی جانی چاہئے۔
اہل حدیث بزرگوں کے متعلق بات تو تب کی جائے جب اہل الحدیث دیگر فرقوں کی طرح اپنے بزرگوں کو اپنا امام مانتے ہوں اور ان کی ہر جائز، ناجائز بات کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہوں۔ جب امام مالک﷫ کی زبانی ہمارا دعویٰ ہی یہ ہے کہ روضۂ مبارک والےﷺ کے علاوہ ہر ایک کی بات صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ تب پھر کتاب وسنت سے دلائل پیش کرنے کی بجائے صرف بزرگوں کی بات کرنا بحث برائے بحث ہے۔
اگر کسی کو تصوف کے موضوع پر گفتگو کرنے کا شوق ہے تو وہ تصوف کا کوئی ایک پہلو لے لے۔ اس کو کتاب اللہ یا سنتِ رسول اللہﷺ سے ثابت کرے۔ اس پر بات کو آگے بڑھانا ممکن ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
32
محترم بھائی !
’’اہل تصوف کی کارستانیاں ‘‘ یہ پوری کتاب یونیکوڈ میں فورم پر موجود ہے ۔اوپر اس کا لنک بھی دیا جا چکا ہے ۔ وہاں جائیں اقتباسات لیں اس کا رد کریں ۔
اگر آپ ہماری طرف سےگفتگو کی ابتداء چاہتے ہیں تو پھر عبدہ بھائی آپ سے جو مطالبہ کر رہے ہیں اس کو پورا فرما دیجیے اور اسی کو ایک دفعہ پھرگفتگو کا نقطہ آغاز سمجھیے ۔
اور یہ بھی ایک مشورہ ہے اس پر بھی غور و فکر فرمالیں ۔
خضر حیات صاحب ! عبدہ کیساتھ بات کرنا فضول ہے ،اس کتاب میں اول تا آخر رطب ویابس ہے،ہاں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ تصوف و احسان کے اس جز پر بات کی جائے تو ہوسکتی ہے وہ آپ خود منتخب کریں۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
Top