- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
علمھا عند ربی فی کتاب لا یضل ربی ولا ینسیاب تک کتنے اہل حدیث اس تصوف کی وجہ سے گمراہ ہوے ہیں؟؟؟
علمھا عند ربی فی کتاب لا یضل ربی ولا ینسیاب تک کتنے اہل حدیث اس تصوف کی وجہ سے گمراہ ہوے ہیں؟؟؟
یہاں آپ نے جتنی باتیں نقل کی ہیں ان میں سے کسی بات کا تصوف و احسان سے تعلق نہیں۔اگر آپ بحث برائے بحث کے قائل نہیں اور مجھے امید کہ آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں۔تو میں حاضر ہوں ،آپ نے جو یہاں اعتراض پیش کئے ہیں ان میں سے ایک بات سامنے لے آئے تا کہ اس پر اچھے انداز سے گفتگو ہو سکے۔http://forum.mohaddis.com/threads/اہل-تصوف-کی-کارستانیاں.15834/page-3
شراکت نمبر 29
دوم: صوفی عقیدے کے تفصیلی خطوط
ا۔ اللہ کے بارے میں
اللہ کے بارے میں اہل تصوف کے مختلف عقیدے ہیں ۔ ایک عقیدہ حلول کا ہے۔ یعنی اللہ اپنی کسی مخلوق میں اترآتا ہے۔ یہ حلاج کا عقیدہ تھا۔ ایک عقیدہ وحدۃ الوجود کا ہے۔ یعنی خالق مخلوق جدا نہیں۔ یہ عقیدہ تیسری صدی سے لے کر موجودہ زمانہ تک رائج رہا۔ اور اخیر میں اسی پر تمام اہل تصوف کا اتفاق ہو گیا ہے۔ اس عقیدے کے چوٹی کے حضرات میں ابن عربی، ابن سبعین، تلمسانی، عبدالکریم جیلی، عبدالغنی نابلسی ہیں۔ اور جد ید طرق تصوف کے عام افراد بھی اسی پر کاربند ہیں۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی صوفیوں کے مختلف عقیدے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مرتبہ و مقام کو نہیں پہنچ سکے تھے۔ اور آپ اہل تصوف کے علوم سے ناواقف تھے۔ جیسا کہ بایزید بسطامی نے کہا ہے کہ: "خضنا بحراوقف الانبیاء بساحلہ" (ہم ایک ایسے سمندر کی تہ میں پہنچ گئے جس کے ساحل پر انبیاء کھڑے ہیں) اس کے برخلاف بعض دوسرے صوفیوں کا عقیدہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ئنات کا قبہ ہیں، اور آپ ہی وہ اللہ ہیں جو عرش پر مستوی ہے۔ اور آسمان و زمین اور عرش و کرسی اور ساری کائنات آپ کے نور سے پیدا کی گئی ہے۔ آپ پہلا موجود ہیں۔ اور آپ ہی اللہ کے عرش پر مستوی ہیں۔ یہ ابن عربی اور اس کے بعد آنے والے صوفیوں کا عقیدہ ہے۔
3: اولیاء کے بارے میں
اولیاء کے بارے میں بھی صوفیوں کے مختلف عقیدے ہیں۔ بعض صوفیاء ولی کو نبی سے افضل کہتے ہیں۔ اور عام صوفیاء ولی کو تمام صفات میں اللہ کے برابر مانتے ہیں۔ چنانچہ ان کے خیال میں ولی ہی پیدا کرتا ہے، روزی دیتا ہے، زندہ کرتا، اور مارتا ہے۔ اور کائنات میں تصرف کرتا ہے۔ صوفیاء کے نزدیک ولایت کے بٹوارے بھی ہیں چنانچہ ایک غوث ہوتا ہے جو کائنات کی ہر چیز پر حکم چلاتا ہے۔ چار قطب ہوتے ہیں جو غوث کے حکم کے مطابق کائنات کے چاروں کونے تھامے ہوئے ہیں۔ سات ابدال ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک غوث کے حسب الحکم سات براعظموں میں سے کسی ایک براعظم پر حکومت کرتا ہے۔ کچھ نجباء ہوتے ہیں جو صرف شہر پر حکومت کرتے ہیں۔ ہر نجیب ایک شہر کا حاکم ہوتا ہے۔ اس طرح اولیاء کا یہ بین الاقوامی نظام مخلوق پر حکومت کرتا ہے۔ پھر ان کا ایک ایوان ہے جس میں وہ ہر رات غار حراء کے اندر جمع ہوتے ہیں ۔ اور تقدیر پر نظر ڈالتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔مختصر یہ کہ اولیاء کی دنیا مکمل خرافات کی دنیا ہے۔
اور یہ طبعی طور پر اسلامی ولایت کے خلاف ہے جس کی بنیاد دینداری، تقوٰی، عمل صالح، اللہ کی پوری پوری بندگی اور اسی کا فقیر و محتاج بننے پر ہے۔ یہاں ولی خود اپنے کسی معاملے کا مالک نہیں ہوتا، چہ جائیکہ وہ دوسروں کے معاملات کا مالک ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے:"قل انی الا املک ضرا ولا رشدا" (تم کہہ دو کہ میں نہ تمہارے کسی نقصان کا مالک ہوں۔ نہ ہدایت کا)
بھائی یہ کسی محقق کے الفاظ نہیں ،جس کے بھی ہیں تصوف سے بالکل نابلد ہے ۔http://forum.mohaddis.com/threads/اہل-تصوف-کی-کارستانیاں.15834/page-3
سے ایک اقتباس :
اسلامی بھائیو! اس مقصد کے لیے آپ کے ذہن میں تصوف کا واضح نقشہ آجائے، ہم آپ کے سامنے صوفیوں کے عقائد کا، اور دین تصوف اور دین اسلام کے بنیادی فرق کا ایک بہت ہی مختصر سا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔
اول: اسلام اور تصوف کے درمیان بنیادی فرق:
اسلام کا منہج اور راستہ تصوف کے راستے اور منہج سے ایک انتہائی بنیادی چیز میں علیحدہ ہے۔ اور وہ ہے "تلقی" یعنی عقائد اور احکام کے سلسلے میں دینی معرفت کے ماخذ۔ اسلام عقائد کے ماخذ کو صرف نبیوں اور پیغمبروں کی وحی میں محصور قرار دیتا ہے۔ اور اس مقصد کے لئے ہمارے پاس صرف کتاب و سنت ہے۔
اس کے برخلاف دین تصوف میں عقائد کا ماخذ وہ خیالی وحی ہے جو اولیاء کے پاس آتی ہے۔ یا وہ مزعومہ کشف ہے جو انہیں حاصل ہوتا ہے۔ یا خواب ہیں یا پچھلے وقتوں کے مرے ہوئے لوگوں اور خضرعلیہ السلام سے ملاقات وغیرہ ہے۔ بلکہ لوح محفوظ میں دیکھنا اور جنوں سے جنہیں یہ لوگ روحانی کہتے ہیں کچھ حاصل کرنا بھی اس فہرست میں شامل ہے۔
اسی طرح اہل اسلام کے نزدیک شرعی احکام کا ماخذ کتاب و سنت اور اجماع و قیاس ہے، لیکن صوفیوں کی شریعت خوابوں،خضر اور جنوں اور مردوں اور پیروں وغیرہ پر قائم ہے۔ یہ سارے لوگ ہی شارع ہیں۔ اسی لیئے تصوف کے طریقے اور شریعتیں مختلف اور متعدد ہیں۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ مخلوق کی سانس کی تعداد کے مطابق راستے ہیں اور سب کے سب اللہ کی طرف جاتے ہیں۔ اس لیئے ہر شیخ کا اپنا ایک طریقہ اور تربیت کا اپنا ایک اصول ہے۔ اس کا اپنا مخصوص ذکر واذکار ہے، مخصوص شعائر ہیں اور مخصوص عبادتیں ہیں۔ اسی لئے تصوف کے ہزاروں بلکہ لاکھوں، بلکہ بے شمار دین اور عقیدے اور شریعتیں ہیں۔ اور سب کو تصوف کا نام شامل ہے۔
یہ ہے اسلام اور تصوف کا بنیادی فرق۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جس کے عقائد متعین ہیں۔ عبادات متعین ہیں۔ اور احکام متعین ہیں۔ اس کے برخلاف تصوف ایک ایسا دین ہے جس میں نہ عقائد کی تعیین ہے نہ شرائع اور احکام کی۔ یہ اسلام اور تصوف کے درمیان عظیم ترین فرق ہے۔
لفظ تصوف کے ساتھ بہت ساری غلط چیزی جڑ گئی ھیں مثلا عقیدہ حلول، وحدت الوجود اور مجزوبیت وغیرہ اس لیے اس طرح کے بدنام ھو جانے والے الفاظ جن کے ساتھ کفر و شرک نتھی ھو چکا ھے ان سے بیزاری ہی بہتر ہےمحترم بھائی پہلے یہ دیکھیں کہ ہم عوام کے لئے تصوف کی اصطلاح رائج کروانا چاہتے ہیں یا علماء کے لئے
اگر عوام کے لئے تو بھائی یاد رکھیں کہ اہل حدیث عوام فقہ کو پھکہ کہتی ہے وہ کسی اہل حدیث یا اہل رائے کی فقہ کو نہیں جانتے
دوسری بات علماء کے پس منظر میں یہ کہنا ہے کہ آپ کی اوپر مثال کو تصوف پر قیاس ہی نہیں کر سکتے اسکی وجہ یہ ہے کہ فقہ میں جو اہل الحدیث کی فقہ ہے اس کے مفہوم اور تعین پر تمام اہل حدیث کا اجماع ہے اور اس میں کوئی ابہام نہیں پس ایک متعین چیز کو آپ فقہ اہل الحدیث کے الفاظ سے اسکو متعارف کروائیں گےتو گمراہی نہیں پھیلے گی
دوسری طرف اہل حدیث کے تصوف کے مفہوم میں نہ تو اہل حدیث کا اجماع ہے اور نہ ہی اسکا مفہوم متعین ہے پس کچھ اہل حدیث اس مفہوم میں وحدۃ الوجود کو بھی لے لیتے ہیں پس اگر کوئی ایسی صورت میں اہل حدیث کا تصوف کے الفاظ کو متعارف کروائے گا تو میرے خیال میں ابہام ہونے کی وجہ سے اہل حدیث کا گمراہ ہونا بہت آسان ہے
اہل حدیث کے تصوف میں ابہام پر میری ایک ٹھوس دلیل یہ ہے کہ میں موصوف عامر رضا سے ہر تھریڈ میں تصوف کی مثال مانگ رہا ہوں مگر وہ جواب نہیں دے رہے کیونکہ جس تصوف کو وہ ثابت کروانا چاہتے ہیں اسکی دلیل قرآن و حدیث میں نہیں اس لئے وہ بغیر تعین اسکو منوانا چاہتے ہیں جسکو ہمارے بھائی الحمد للہ سمجھ چکے ہیں من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین
محترم خضر حیات بھائی 12 منہ کی طرح یہاں بھی اگرمیری اصلاح ہو سکے تو کر دیں اللہ جزا دے امین
محترم بھائی !یہاں آپ نے جتنی باتیں نقل کی ہیں ان میں سے کسی بات کا تصوف و احسان سے تعلق نہیں۔اگر آپ بحث برائے بحث کے قائل نہیں اور مجھے امید کہ آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں۔تو میں حاضر ہوں ،آپ نے جو یہاں اعتراض پیش کئے ہیں ان میں سے ایک بات سامنے لے آئے تا کہ اس پر اچھے انداز سے گفتگو ہو سکے۔
پہلے بھی کئی مرتبہ کہا گیا ہے کہ تصوف پر بات کرنے کیلئے بزرگوں پر کام کرنے کی بجائے کتاب وسنت کے حوالے سے بات کی جانی چاہئے۔
اہل حدیث بزرگوں کے متعلق بات تو تب کی جائے جب اہل الحدیث دیگر فرقوں کی طرح اپنے بزرگوں کو اپنا امام مانتے ہوں اور ان کی ہر جائز، ناجائز بات کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہوں۔ جب امام مالک کی زبانی ہمارا دعویٰ ہی یہ ہے کہ روضۂ مبارک والےﷺ کے علاوہ ہر ایک کی بات صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ تب پھر کتاب وسنت سے دلائل پیش کرنے کی بجائے صرف بزرگوں کی بات کرنا بحث برائے بحث ہے۔
اگر کسی کو تصوف کے موضوع پر گفتگو کرنے کا شوق ہے تو وہ تصوف کا کوئی ایک پہلو لے لے۔ اس کو کتاب اللہ یا سنتِ رسول اللہﷺ سے ثابت کرے۔ اس پر بات کو آگے بڑھانا ممکن ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
خضر حیات صاحب ! عبدہ کیساتھ بات کرنا فضول ہے ،اس کتاب میں اول تا آخر رطب ویابس ہے،ہاں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ تصوف و احسان کے اس جز پر بات کی جائے تو ہوسکتی ہے وہ آپ خود منتخب کریں۔محترم بھائی !
’’اہل تصوف کی کارستانیاں ‘‘ یہ پوری کتاب یونیکوڈ میں فورم پر موجود ہے ۔اوپر اس کا لنک بھی دیا جا چکا ہے ۔ وہاں جائیں اقتباسات لیں اس کا رد کریں ۔
اگر آپ ہماری طرف سےگفتگو کی ابتداء چاہتے ہیں تو پھر عبدہ بھائی آپ سے جو مطالبہ کر رہے ہیں اس کو پورا فرما دیجیے اور اسی کو ایک دفعہ پھرگفتگو کا نقطہ آغاز سمجھیے ۔
اور یہ بھی ایک مشورہ ہے اس پر بھی غور و فکر فرمالیں ۔
اب ایک(حذف ۔ انتظامیہ) خصلت اٹھے اور کہے کہ صوفیاء اہلحدیث ؒ کا فر ہیں تو ایسے لوگوں کو آپ کیا کہے گے۔
علمھا عند ربی فی کتاب لا یضل ربی ولا ینسی
خضر حیات صاحب ! عبدہ کیساتھ بات کرنا فضول ہے