• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مجلس کی تین طلاق اور خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک طلاق پڑی ہے اس سے رجوع کر لے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں گو اس کے خلاف فتویٰ دیا اور تین طلاقوں کو قائم رکھا مگر حدیث کے خلاف ہم کو نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اتباع ضروری ہے نہ کسی اورکی۔
یہ حضرت عمر رضی اللہ کا اجہتاد تھا جو حدیث کے خلاف قابل عمل نہیں ہو سکتا۔ میں ﴿میں مولانا وحید الزماں مرحوم﴾ کہتا ہوں ، مسلمانو اب تم کو اختیار ہے خواہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتوے پر عمل کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو چھوڑ دو، خواہ حدیث پر عمل کرو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتوے کا کچھ خیال نہ کرو ہم تو شق ثانی اختیار کرتے ہیں۔
اور مزید راجا بھائی سے سوال ہے کہ آپ جو بات گھما پھرا رہے ہیں وہ صحیح بخاری از داود راز میں تفصیل سے درج ہے، آپ کی فقہی موشگافیوں و مانع و قطع نظر یہ صاف صاف لکھا گیا ہے کہ یہ سراسر خلاف حدیث فتویٰ تھا جو قابل عمل نہیں؟ اس کا آپ کیا جواب دیتے ہیں؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
۵۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک کہنا سب سے پہلے رافضیت کا ہی شعار تھا اور یہ بعینہ انہی کے دلائل ہیں جو آپ دے رہے ہیں ؟ جس کا درحقیقت مجھے دکھ ہے ؟
محترم بھائی! آپ کا دعویٰ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک کہنا سب سے پہلے رافضیلت کا ہی شعار تھا۔
حالانکہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے کہ تین طلاقیں نبی کریمﷺ، عہد ابی بکر صدیق﷜ اور عہد عمر﷜ کے ابتدائی سالوں میں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ صحیح مسلم کی روایت ملاحظہ فرمائیں!َ
« كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر ، طلاق الثلاث واحدة . فقال عمر بن الخطاب : إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة . فلو أمضيناه عليهم ! فأمضاه عليهم » کہ ’’سیدنا ابن عباس﷜ سے مروی ہے کہ عہد رسالتمابﷺ اور عہد ابو بکر﷜ اور عمر فاروق﷜ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک (ایک مجلس کی) تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر﷜ نے فرمایا کہ جس معاملے (طلاق) میں لوگوں کو سوچ وبچار سے کام لینا چاہئے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، لہٰذا ہم کیوں نہ اسے نافذ کر دیں، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر لاگو کر دیا۔‘‘
اب آپ ہی بتائیے کہ سیدنا عمر﷜ کے ’مخصوص حالات‘ میں اس سیاسی حکم (اجتہاد) سے پہلے تین طلاقوں کے ایک واقع کے متفقہ موقف کے حامل صحابہ کرام - خواہ وہ مفتی ہوں یا اس فتویٰ پر اقراری اور ساکت - بشمول سیدنا ابو بکر وعمر﷢ میں سے کون کون رافضی (نعوذ باللہ) تھے؟!! (کیونکہ اوپر ترجمہ میں موجود نیلے رنگ کے الفاظ سے واضح ہورہا ہے کہ سیدنا عمر﷜ کا موقف بھی تین طلاقوں کے ایک ہی واقع ہونے کا تھا مخصوص حالات کی وجہ سے انہیں یہ سیاسی فیصلہ کرنا پڑا) اور کیا رفض کی ابتداء سیدنا عمر﷜ کے ابتدائی دورِ خلافت سے پہلے ہی ہو چکی تھی؟!! ﴿ كبرت كلمة تخرج من أفواههم ﴾
اور تو اور صحیح مسلم کی اسی حدیث مبارکہ کے مطابق عہد نبویﷺ میں بھی تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی تھی، سيدنا ابن عباس﷜ سے مروی سیدنا رکانہ﷜ والی حدیث بھی اس پر شاہد ہے اور اپنے مفہوم میں بالکل صریح ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اب دیکھیے میرے پاس دلائل کیا ہیں ؟
١۔ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلیفہ راشد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نفاذ سنت کا فیصلہ۔
۳۔ اجماع صحابہ۔
۴۔پورے دور عمر رضی اللہ عنہ اور بعد میں سکوت صحابہ۔
۵۔ خلفائے بعد عثمان و علی رضی اللہ عنہم کا عمل۔
٦۔ ائمہ اربعہ کا اجماع۔
۷۔ جمہور علمائے امت کا موقف۔
نمبر ایک
نبی کریمﷺ کی کوئی سنت (حدیث مبارکہ ) تو آپ نے پیش ہی نہیں کی۔ بلکہ ہماری پیش کی گئی احادیث مبارکہ کو قبول نہیں کیا۔
نمبر دو
سیدنا عمر﷜ کے متعلّق صحیح مسلم کی درج بالا حدیث مبارکہ میں وضاحت ہے کہ ان کا موقف بھی تین طلاقوں کے ایک ہی واقع ہونے کا تھا، مخصوص حالات کی وجہ سے انہیں یہ سیاسی فیصلہ کرنا پڑا۔
« كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر ، طلاق الثلاث واحدة . فقال عمر بن الخطاب : إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة . فلو أمضيناه عليهم ! فأمضاه عليهم » کہ ’’سیدنا ابن عباس﷜ سے مروی ہے کہ عہد رسالتمابﷺ اور عہد ابو بکر﷜ اور عمر فاروق﷜ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک (ایک مجلس کی) تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر﷜ نے فرمایا کہ جس معاملے (طلاق) میں لوگوں کو سوچ وبچار سے کام لینا چاہئے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، لہٰذا ہم کیوں نہ اسے نافذ کر دیں، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر لاگو کر دیا۔‘‘
نمبر تین اور چار
آپ کا اجماعِ صحابہ کا دعویٰ صحیح نہیں، بلکہ اوپر موجود سیدنا ابن عباس﷜ کی صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کے مطابق عہدِ ابی بکر﷜ اور عہد عمر﷜ کے ابتدائی سالوں میں اجماعِ صحابہ تین طلاقوں کے ایک واقع ہونے پر تھا، بعد میں جب سیدنا عمر﷜ نے ’مخصوص حالات‘ کی بناء پر اپنا سیاسی فیصلہ فرمایا تو اس کے بعد بھی اس پر اجماع نہیں ہوا، بلکہ ہر دور میں اہل علم اس سے اختلاف کرتے رہے۔
امام ابن تیمیہ﷫ نے مجموع فتاویٰ اور امام ابن القیم﷫ نے اعلام الموقعین میں لکھا ہے کہ تین طلاقوں کے ایک واقع ہونے کا فتویٰ سیدنا ابو بکر، عمر (ابتدائی دورِ خلافت)، علی بن ابی طالب، زبیر بن العوام، عبد الرحمٰن بن عوف، عبد اللہ بن مسعود، سیدنا ابن عباس﷢ سے بھی ثابت ہے۔
تابعین عظام اور بعد والے اہل علم میں سے طاؤس، عکرمہ، ابن اسحاق، حجاج بن ارطاۃ، امام ابو حنیفہ کے کئی اصحاب، امام مالک کے اہل قرطبہ ودیگر بعض اصحاب، امام احمد بن حنبل کے کئی اصحاب، اکثر اہل ظاہر اور محدثین، متکلّمین اور فقہاء میں کئی علماء ﷭ کا موقف ہے۔
نمبر پانچ، چھ اور سات
پہلے انہیں حجت ثابت کریں، پھر دلیل بنائیں!
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
طالب نور بھائی نے لکھا :

عمر معایہ بھائی نے لکھا ہے:

یہ جواب نہیں ہے ، اصل بات کا جواب دیجئے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں حج تمتع پر پابندی عائد کردی تو کیا اللہ اوراس کے رسول کے حلال کردہ امر کو حرام کردیا اوریہاں بھی وہ جذباتی باتیں ہوں گی جو طلاق واے مسئلہ میں ہوتی ہیں ، اگر نہیں تو کیوں ؟ اس فرق کی وجہ بتائیں۔
گو کہ پیش کردہ مسئلہ اور اعتراضات میں کوئی مماثلت نہیں، بات ہورہی تھی کہ کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ قرآن و سنت کے خلاف جا کر کوئی غلطی کر سکتے ہیں چاہے آپ کے شوگر کوٹڈ الفاظ میں اجتہادی غلطی ، اور جمہور علماء سلف و ائمہ اربعہ کا مسلک ہے کہ نہیں، مگر آپ لوگ بجائے اس پر قائل ہونے کے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر مزید الزامات کے طومار باند ھ رہے ہیں، اللہ ہدایت نصیب فرمائے، گو ان میں سے کچھ نیا نہیں ، صدیوں سے یہ الزامات دھرائے جا رہے ہیں، اور صدیوں سے ایک جماعت ان کے دفاع میں اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہوئی ہے۔
الصواعق المحرقہ صفحہ 19 پر علامہ ان حجر مکی نے تمتمع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی صفائی میں ابو داؤد کی حدیث پیش کی ہے کہ جس کی بنا پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ممانعت کرتے تھے ، اور یہ بھی یاد رہے کہ انہوں نے ایک مجلس کی تین طلاق کی طرح اور حرمت متعہ کی طرح اسے سختی سے نافذ نہیں کروایا تھا، اس حدیث سے قطع نظر خلفائے راشدہ کے فتاویٰ کی خصوصیات کیا ہیں اور کن وجوہات کی بنا پر وہ متاخرین کی تنقید و الزمامات سے محفوظ ہیں اور خلفائے راشدہ کی سنت درحقیقت سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے اس کے حق میں میں دلائل ایک مجلس کی تین طلاق کے سب سے بڑے داعی امام ابن تیمیہ رحمہ کے شاگرد رشید ابن القیم کے قلم سے اگلی پوسٹ میں موجود ہیں۔
مزید دارالسلام کی شائع کردہ سنن ابو داؤد جلد دوم
ترجمہ و فوائد : ابو عمار فاروق سعیدی
تحقیق و تخریج : حافظ زبیر علی ذئی
نظرثانی تنقیح و اضافہ :حافظ صلاح الدین یوسف
صفحہ 408 پر حدیث 1793 پڑھیں
سعید بن مسیب سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور گواہی دی کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے مرض الموت میں سنا ہے کہ آپ حج سے پہلے عمرہ کرنے سے منع فرماتے تھے۔
نیچے ملحوظہ پڑھییے، امام منذری کہتےہیں کہ سعید بن مسیب کا حضرت عمر سے سماع صحیح ثابت نہیں ہے، اس لیے یہ روایت صحیح نہیں ۔ لیکن ہمارے محقق شیخ زبیر علی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک قرار دینے والے معاملے میں سب سے بڑا حصہ آٹھویں صدی ہجری کے ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد حافظ ابن القیم کا ہے، مگر وہ بھی اس معاملے میں بحث کو منطقی اور مدلل طریقے سے نہ چلا سکے جس کا اظہار ان کی اپنی ہی تحریروں سےہوتا ہے ذیل میں اعلام الموقعین سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں، دیکھیے اس مسئلے کے سب سے بڑے وکیلوں کے دلائل خود کیسے ان ہی زبانی رد ہوتے ہیں۔ اور بجائے ایک مدلل اور مبسوط بحث کے یہ ایک بے ربط اور پریشان تحریر نظر آتی ہے کہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنے والے کے اپنے ذہن میں بھی الجھن اسی طرح برقرار ہے، یہ بحث صفحہ ۶۹ سے شروع ہوتی ہے۔

لکھتے ہیں الغرض حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ مخفی نہ تھا کہ سنت یہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کشادگی دے رکھی ہے۔
(پھر کیسے ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اللہ کے احکامات نافذ کروانے میں سخت ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اللہ کی اپنے بندوں کو دی ہوئی کشادگی چھین لیں، اور خلاف سنت فتویٰ جاری کریں، اور خود ہی اللہ تعالیٰ کے حقوق کو چھین لیں)

لکھتے ہیں لیکن جب یہ اللہ کی رخصت میں مست ہو کر حدود خداوندی کا خیال بھی بھلا بیٹھے پروردگار نے اپنی دی ہوئی نعمت ان سے اس طرح واپس لے لی کی خلیفہ کی زبان سے قانون ہی اور بنا دیا۔
(دیکھیے حافظ صاحب خود ہی تسلیم بھی کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ کی زبان سے اپنا حکم جاری کروایا، یعنی درحقیقت یہ حکم الہٰی تھا پھر حیرت ہے کہ اس حکم الہٰی کی مخالفت کی جرات بھی کرتےہیں )

لکھتے ہیں حضرت عمر نے جو کچھ کیا وہ ایک مصلحت وقت کی اقتضاء کا کام تھا نہ کہ شرعی مسئلہ۔

لکھتے ہیں نکاح اس لیے ہوتا ہے کہ وہ عورت دوسروں پر حرام ہو جائے۔
(جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس لولے لنگڑے عذر یعنی مصلحت وقت یا سیاسی اجتہاد کی وجہ سے ، وہ عورت کہ جو دوسروں پر حرام ہو چکی تھی ، دوسروں پر تو حلال ہو گئی مگر جس پر حلال تھی اس پر حرام ہو گئی)

لکھتے ہیں طلاق میں شرم گاہ کو حرام ہونا یہ حق اللہ تعالیٰ ہے۔
(تو کیا اللہ تعالیٰ کے حق کو سیدنا عمر رضی اللہ نے استعمال کیا)

لکھتے ہیں اسی طرح نکاح سے ایک شرم گاہ جو حرام تھی حلال ہوتی ہے اور حلال جو تھیں وہ حرام ہوتی ہیں مثلا سسرالی رشتے ۔
(دیکھیے حلال و حرام کا مسئلہ ہے کہ نہیں )

اب دیکھیے آگے صفحہ 409 پر صحابہ کی شان بیان کرتےہیں ، اور اوپر دیے گئے تمام دلائل کا رد کرتے ہیں۔​

اللہ کی شہادت ان پر ہے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی ان پر ہے کہ وہ خیر القرون ہیں وہ اللہ کے پسندیدہ ہیں اور اس کے چنیدہ ہیں پس محال ہے کہ ان جیسوں سے سب سے حق خطا کر جائے اور متاخرین کو مل جائے اگر ایسا ہو تو سمجھ لو کہ حقائق میں انقلاب ہو گیا پچھلے پہلوں کے امام بن گئے ان کو ان کے فتاوے اور اقوال کی طرف رجوع واجب ہو گیا، حالانکہ یہ عقلا اور حسا محال ہے اسی طرح شرعا بھی محال ہی ہے۔

بہت سی صحیح احادیث میں ہے آپ نے فرمایا بہترین زمانہ وہ ہے جس میں میں بھیجا گیا ہوں پھر اس کے بعد والا پھر اس کے بعد والا پس ۔ علی الاطلاق آپ کا زمانہ بہترین زمانہ ہے اس سے ثابت ہے کہ خیر اور بھلائی کے تمام امور میں وہ لوگ سب سے آگے ہوں ورنہ بعض وجوہ سے بہتر ہونے سے علی الاطلاق بہتری ثابت نہ ہو گی پس اگر یہ مان لیں کہ ان میں سے ایک نے غلطی کی اور کسی نے بھی صحیح فتویٰ نہیں دیا بلکہ صحیح چیز بعد والوں کے ہاتھ لگی تو ظاہر ہے کہ اس وجہ سے بعد کا زمانہ بہتر رہا پہلا زمامنہ خطاء کا تھا یہ درستگی کا ہے پھر یہ ایک ہی امر میں نہیں بلکہ بہت سے مسائل میں لازم آئے گا اس لیے کہ جن کے نزدیک قول صحابی حجت نہیں اس کے نزدیک اس کا امکان ہے کہ کل مسائل میں بعد والے درستی پر ہوں بہت سے مسائل ایسے ہیں کہ کسی صحابی نے فتویٰ دیا ہے اور کسی نے مخالفت نہیں کی اور بعد والوں نے جن کا یہ مذہب ہے کہ وہ اور ہم یکساں انسان ہیں ان میں اختلاف کیا ہے اور سمجھتے ہیں کہ حق پر وہی ہیں پس صحابہ کی خطائیں بے شمار، اور ان پچھلے فقہاء کی درست باتیں بے شمار ، اب خود ہی بتلاؤ کہ وہ زمانہ اچھا یا یہ اچھا؟ علم اور حق رسی سے بڑھ کر فضیلت اور کیا ہو گی؟ وہ صحابہ کو حاصل نہیں اور ان پچھلے فقہاء کو حاصل؟ مسلمانو! اس سے بڑھ کر تعجب کی بات اور کیا ہو گی؟ کہ صدیق و فاروق و عثمان و علی و ابن مسعود و سلمان فارسی، عبادہ بن صامت وغیرہ ان جیسے بزرگ تر صحابہ تو اکثر مسائل میں غلط بات کہیں اور ان کے زمانے میں ایک بھی اس غلطی کا سمجھنے والا اور حق بیان کرنے والا نہ ہو لیکن ان کے بعد والے حق شناس ، حق گو بن جائیں اور جو ان ائمہ سے غلطیاں ہوئی تھیں ان کی اصلاح یہ کر دیں۔

صفحہ 412 پر ہے تم میری سنت کو اور رشد و ہدایت والے خلفاء کی سنت کو میرے بعد لازم پکڑے رہو اس پر چنگل مار لو اسے دانتوں سے مضبوط تھام لو دیکھو نئے کاموں سے بچتے رہنا یاد رکھو ہر نیا کام بدعت ہے، یہ حدیث حسن ہے اس کی سند بے خوف ہے اس میں آپ نے اپنی سنت کے ساتھ خلفاء کی سنت ملا دی ہے اور حکم میں اس قدر مبالغہ فرمایا کہ کچلیوں سے مضبوط تھامنے کی ہدایت فرمائی یہ شامل ہے ان کے فتووں کو اور اسے جس کو یہ اس امت کے لیے طریقہ بنائیں گو اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ معلوم نہ بھی ہو اگر ہو تو وہ حضور کی سنت ہو گی۔ یہ شامل ہے ان کے فتوں کو بھی سب کے ہوں، اکثر کے ہوں ، بعض کےہوں۔ اس لیے کہ آپ نے اسے معلق رکھا سنت خلفاء راشدین پر اور یہ ظاہر ہے کہ خلافت کی حالت میں ان بزرگوں نے آن واحد میں طریقے نہیں بتلائے پس ہر ایک کی اس کی خلافت کے وقت جو سنت ہو وہ سنت ہے۔

صحیح سلم شریف میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر قوم ابوبکر و عمر کی اطاعت کرتے گی تو بھلائی اور نیکی اور ہدایت پائے گی، دیکھو کہ ہدایت یہاں ان کی اتباع پر موقوف ہے تو اگر ان کے فتوں کے غلط سمجھا جائے اور ان کے زمانے کے بعد کے غیر صحابہ کے فتوں کو صحیح سمجھا جائے تو ہدایت ان کے خلاف ہو جائے گی۔

صفحہ 413 پر ہے آنحضرت نے حضرت ابوبکر و عمر کی طرف دیکھ کر فرمایا یہی دونوں کان اور آنکھ ہیں یعنی میرے وجود کے لیے ، دین الٰہی کے لیے ، کیا اب بھی ہی کہا جائے گا کہ ان کے فتوے غلط اور ان کے بعد والوں کے صحیح؟

اللہ تعالیٰ نے حق کو حضرت عمر کی زبان اور دل میں رکھ دیا ہے پس ہم ان کی کیسے مان لیں ؟ جن کے نزدیک حضرت عمر جیسے کسی مسئلہ میں خطا کر جائیں اور صحابہ میں سے ایک بھی اس پر انکار نہ کرے لیکن بعد والے آئیں اور حضرت عمر رضی اللہ کی غلطی اور خطاء پر تنبیہ کریں یہ تو ظاہر ہے محال ہے۔

صفحہ 417 پر ہے سنو جب صحابی کوئی قول کہے ، کوئی حکم دے ، کوئی فتویٰ جاری کرے تو اس کے بہت سے ایسے درجے ہیں جن میں بعد والوں کی کوئی شرکت نہیں گو بعض درجے شرکت کے بھی ہیں مثلا ہو سکتا کہ اس صحابی نے یہ فتویٰ خود رسالت مآب سے سنا ہو یا کسی اور صحابی سے سنا ہواور اس نے اللہ کے نبی سے سنا ہو، سنو اور یاد رکھو کہ جس علم میں وہ منفرد تھے وہ اس سے بہت زیادہ تھا جن میں ہمیں شرکت کا موقعہ ملا ہے، جس جس نے جو جو سنا سب روایت نہیں کیا، بتلاؤ صدیق و فاروق رضی اللہ عنہم جیسے بزرگوں کی کیا ساری روایتیں ہمارے ہاتھوں میں ہیں ؟
اب مختصر سن لو ان میں سے کسی کا فتویٰ چھ وجہ سے خالی نہیں:
۱۔ ممکن ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو۔
۲۔ ممکن ہے اور صحابی سے سنا ہو اور اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو۔
۳۔ ممکن ے کسی آیت قرآنی سے سمجھا ہو لیکن ہم سے وہ سمجھ مخفی رہ گئی ہو۔
۴۔ ممکن ہے ان کی ایک جماعت کا اس فتوے پر اتفاق ہو لیکن ہم تک صرف ایک صحابی کے نام سے ہی وہ فتویٰ پہنچا ہو۔
۵۔ ممکن ہے شان نزول سامنے رکھ کر واقعہ سامنے رکھ کر لغت جان کر دلالت لفظ کو سمجھ کر حالیہ قرائن سے سوچ کر خطاب کی اونچ نیچ الفا ظ کی واقعہ سے مطابقت یا ان سب چیزوں کو سامنے رکھ کر انہوں نے ایک بات سمجھی ہو پھر کہی ہو اور ظاہر ہے کہ ہمارے سامنے یہ تمام چیزیں نہیں وہ بوقت نزول قرآن موجود تھے، وہ حدیث ، طرز حدیث، وجہ حدیث، واقعہ اور حالات سے واقف تھے، افعال ، احوال، سیرت ان کی نگاہوں کے سامنے تھی ، پس ان کے ذہن جن مقاصد اور جن باریک امور تک پہنچ سکتے تھے ہمارے ذہن ان سے قطعا خالی ہیں کیوں نہ ان کا فتویٰ حجت مانا جائے۔یہ پانچویں وجوہات وہ ہیں جن سے ان کے قول کا ماننا واجب ثابت ہوتا ہے۔

صفحہ 419 دیکھیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت میں سے ایک جماعت برابر حق پر قائم رہے گی، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں زمین کبھی ایسے لوگوں کے وجود سے خالی نہ رہے گی جو اللہ تعالیٰ کی حجت پر قائم ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کی باتیں باطن نہ ہو جائیں اگر منکرین اتباع سلف کی بات مان لی جائے تو ثابت ہو گا کہ وہ زمانہ حق والوں سے خالی تھا اس لیے کہ ایک حادثے میں ایک صحابی نے کوئی فتویٰ دیا تھا وہ غلط لیکن کسی اور نے اس کے خلاف نہ کیا سارا زمانہ غلطی پر ہی رہا معروف کا حکم کرنے والا منکر سے روکنے ولا اس وقت ایک بھی نہ تھا یہاں تک کہ وہ زمانہ گذر گیا فقہاء کا زمانہ آیا تو اب حق گر برسنے لگے۔ نعوذ باللہ منہا۔

جب صحابہ یا کوئی صحابہ کوئی قول کہے پھر ایک زمانے کے بعدکوئی فقیہ اس کے خلاف قول کہے تو یہ قول نیا ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میرے اور خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑے رہو اور اس پر اپنی کچلیاں تک مضبوط گڑ دو اور نئے امور سے بچتے رہو، ہر بدعت گمراہی ہے پس یہ نیا قول بدعت ہے اور گمراہی ہے۔
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
اور انس بھائی آپ جو حدیث پیش کر رہے ہیں اس کے جواب میں فتح الباری سے حافظ ابن حجر رحمہ کی بحث سے کچھ پیش خدمت ہے ۔

وَقَعَ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ نَظِيرُ مَا وَقَعَ فِي مَسْأَلَةِ الْمُتْعَةِ سَوَاءً أَعْنِي قَوْلَ جَابِرٍ إِنَّهَا كَانَتْ تُفْعَلُ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَصَدْرٍ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ قَالَ ثُمَّ نَهَانَا عُمَرُ عَنْهَا فَانْتَهَيْنَا فَالرَّاجِحُ فِي الْمَوْضِعَيْنِ تَحْرِيمُ الْمُتْعَةِ وَإِيقَاعُ الثَّلَاثِ لِلْإِجْمَاعِ الَّذِي انْعَقَدَ فِي عَهْدِ عُمَرَ عَلَى ذَلِكَ وَلَا يُحْفَظُ أَنَّ أَحَدًا فِي عَهْدِ عُمَرَ خَالَفَهُ فِي وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا وَقَدْ دَلَّ إِجْمَاعُهُمْ عَلَى وُجُودِ نَاسِخٍ وَإِنْ كَانَ خَفِيَ عَنْ بَعْضِهِمْ قَبْلَ ذَلِكَ حَتَّى ظَهَرَ لِجَمِيعِهِمْ فِي عَهْدِ عُمَرَ فَالْمُخَالِفُ بَعْدَ هَذَا الْإِجْمَاعِ مُنَابِذٌ لَهُ وَالْجُمْهُورُ عَلَى عَدَمِ اعْتِبَارِ مَنْ أَحْدَثَ الِاخْتِلَافَ بَعْدَ الِاتِّفَاقِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ

طلاق ثلاثہ کا مسئلہ متعہ کے مسئلے کی نظیر ہے، چنانچہ متعہ کے بارے میں حضرت جابر رضی اللہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں متعہ کیا جاتا تھا ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں اس سے منع کیا تو ہم اس سے باز آ گئے ، اور دونوں مسئلوں میں راجح قول یہ ہے کہ متعہ حرام ہے اور طلاق ثلاثہ واقع ہو جاتی ہے، اس لئے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان دونوں مسئلوں پر اجماع منعقد ہو چکا ہے اور اس کا کوئی ثبوت نہیں ہےکہ صحابہ کرام میں سے کسی ایک نے بھی ان دونوں مسئلوں میں سے اس اجماع کی مخالفت کی ہو۔ اور صحابہ کرام کے اجماع سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک کوئی ناسخ تھا، اگرچہ بعض حضرات صحابہ پر یہ ناسخ پہلے مخفی تھا، لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام کے اجماع سے ناسخ سب پر واضح ہو گیا، لہذا اس اجماع کے منعقد ہوجانے کے بعد جو شخص اس کی مخالفت کرے گا وہ اس اجماع کو توڑنے والا ہو گا، اور کسی مسئلے میں اتفاق کے ہو چکنے کے بعد کوئی شخص اس میں اختلاف کرے تو جمہور کے نزدیک اس کا اختلاف کرنا معتبر نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔

امام نووی رحمہ شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں امام شافعی و مالک و ابو حنیفہ و احمد اور جمہو ر علماء سلف و خلف میں سے ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع کے قائل ہیں۔

اور پانچ چھ کے بارے میں آپ نے کہا کہ حجت ثابت کرو تو میں نے پہلے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان پیش کر دیا تھا کہ ہمیں خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑنے ، بلکہ دانتوں سے مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے ، اس پر تحقیق یا تنقید کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ، حدیث کے الفاظ واضح ہیں اور صاف ہیں کوئی اشتباہ نہیں ، یہ نہیں کہا گیا کہ تم خلفائے راشدین کی سنت کی تحقیق کرنا بلکہ کہا گیا کہ اس کو دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لینا۔ اس حدیث کا آپ کے پاس کیا جواب ہے؟

مزید اوپر والی پوسٹ میں اعلام الموقعین سے حافظ ابن القیم کے قلم سے تمام دلائل پیش کر دیئے ہیں ۔

اور کیا بقول امام نووی رحمہ جمہو ر علماء سلف و خلف صدیوں سے خطا پر ہیں ، اور کیا احتیاط اور اتفاق کا تقاضا یہ نہیں کہ جمہور علماء سلف و خلف کی تحقیق پر بھروسہ کیا جائے، یا دوسرے لفظوں میں یہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین کے اتنے اہم معاشرتی مسئلے میں صدیوں سے جمہور سلف و خلف خطا پر ہیں اور چند لوگ حق پر ہیں ۔ کیا اتنے زمانے سے امت خطا پر گامزن ہے،
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
پھر وہی بات کہ قرآن و سنت سے ثابت کریں؟
تو کیا آپ کے خیال میں خلیفہ راشد کا فیصلہ قرآن و سنت سے ثابت نہیں؟
تو کیا آپ کے خیال میں ہر خلیفہ راشد کا ہر ہر فیصلہ قرآن وسنت سے ثابت ہے؟!! خواہ وہ اجتہادی ہی کیوں نہ ہو؟!!
پھر تو آپ کے ہاں مآخذ شریعت قرآن، حدیث، خلفاء اربعہ، اجماع اور قیاس ہوں گے؟!!
اور طالب نور بھائی
ورنہ کیا صحابہ کرام کے عدول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ معصوم تھے۔۔۔؟اور ان سے غلطی ممکن نہ تھی۔۔۔؟ تو یہ اہلسنت کا مسلک و مذہب ہرگز نہیں ۔
غلطی سے آپ کی کیا مراد ہے، کیا ایسے فیصلے کو غلطی کہا جا سکتا ہے کہ جو بے شمار صحابہ کی موجودگی میں پورے دور عمر میں جاری و ساری رہی، اور کسی کو احساس نہ ہو سکا کہ غلطی ہو گئی، اور اس کی تردید جاری کی جائے۔
گویا آپ کے نزدیک صحابہ کرام﷢ سے چھوٹی غلطی تو ممکن ہے، بڑی غلطی ممکن نہیں؟!!
یا آپ کے نزدیک صحابہ کرام﷢ سے ایسی غلطی کا صدور ممکن ہے جو چند ایک صحابہ کے سامنے ہو، بے شمار صحابہ کرام﷢ کی موجودگی میں صحابہ سے غلطی ہونا ممکن نہیں؟!!
یا آپ کے نزدیک صحابہ کرام﷢ سے ایسی غلطی کا صدور ممکن ہے جو وقتی ہو، ایسی غلطی کا صدور ممکن نہیں جو
موت تک جاری رہے؟!!
تو جنگِ جمل اور صفّین کے متعلّق کیا ارشاد فرمائیں گے؟!!

محترم بھائی! اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے پاس اس معرکۃ الآراء مسئلے میں صرف جذباتی باتوں کے علاوہ کوئی ئ ئ ئ ایک بھی دلیل نہیں۔
آپ پہلے کم از کم اپنا موقف تو بیان کریں! اپنا موقف تو بیان کیا نہیں، قرآن کریم کی آیت کریمہ پیش کی جائے، صحیح احادیث (جن میں صحیح مسلم کی روایت بھی شامل ہے) پیش کی جائے، ہر صورت میں آپ کے پاس کوئی جواب نہیں سوائے اپنی واحد جذباتی بات کے۔ حالانکہ کسی اختلافی مسئلے کا حل اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء ﴿ فإن تنازعتم في شيء فردوه إلى الله والرسول ... ﴾ میں بتایا ہے، جسے پہلے بھی کوٹ کیا گیا تھا-

اگر آپ کے نزدیک واقعی آپ کی اس جذباتی بات کی اتنی اہمیت ہے تو کم از کم اپنی اس جذباتی بات کو ڈیفائن ہی کر دیں کہ
کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے کسی قسم کی غلطی ممکن نہیں؟ یا
کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے بڑی غلطی ممکن نہیں؟ یا
کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے چھوٹی غلطی ممکن نہیں؟ یا
کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے ایسی غلطی ممکن نہیں جو چند صحابہ کرام کے سامنے ہو؟ یا
کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے ایسی غلطی ممکن نہیں جو زیادہ صحابہ کرام کے سامنے ہو؟! وغیرہ وغیرہ
پہلے اپنا موقف تو بیان کریں، تاکہ معلوم ہو کہ آپ کا یہ موقف بھی صرف جذباتیات کے تارِ عنکبوت پر قائم ہے، یا اس کے مضبوط اور مستحکم دلائل بھی ہیں؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اور انس بھائی آپ جو حدیث پیش کر رہے ہیں اس کے جواب میں فتح الباری سے حافظ ابن حجر رحمہ کی بحث سے کچھ پیش خدمت ہے ۔
وَقَعَ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ نَظِيرُ مَا وَقَعَ فِي مَسْأَلَةِ الْمُتْعَةِ سَوَاءً أَعْنِي قَوْلَ جَابِرٍ إِنَّهَا كَانَتْ تُفْعَلُ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَصَدْرٍ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ قَالَ ثُمَّ نَهَانَا عُمَرُ عَنْهَا فَانْتَهَيْنَا فَالرَّاجِحُ فِي الْمَوْضِعَيْنِ تَحْرِيمُ الْمُتْعَةِ وَإِيقَاعُ الثَّلَاثِ لِلْإِجْمَاعِ الَّذِي انْعَقَدَ فِي عَهْدِ عُمَرَ عَلَى ذَلِكَ وَلَا يُحْفَظُ أَنَّ أَحَدًا فِي عَهْدِ عُمَرَ خَالَفَهُ فِي وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا وَقَدْ دَلَّ إِجْمَاعُهُمْ عَلَى وُجُودِ نَاسِخٍ وَإِنْ كَانَ خَفِيَ عَنْ بَعْضِهِمْ قَبْلَ ذَلِكَ حَتَّى ظَهَرَ لِجَمِيعِهِمْ فِي عَهْدِ عُمَرَ فَالْمُخَالِفُ بَعْدَ هَذَا الْإِجْمَاعِ مُنَابِذٌ لَهُ وَالْجُمْهُورُ عَلَى عَدَمِ اعْتِبَارِ مَنْ أَحْدَثَ الِاخْتِلَافَ بَعْدَ الِاتِّفَاقِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ
طلاق ثلاثہ کا مسئلہ متعہ کے مسئلے کی نظیر ہے، چنانچہ متعہ کے بارے میں حضرت جابر رضی اللہ کہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں متعہ کیا جاتا تھا ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں اس سے منع کیا تو ہم اس سے باز آ گئے ، اور دونوں مسئلوں میں راجح قول یہ ہے کہ متعہ حرام ہے اور طلاق ثلاثہ واقع ہو جاتی ہے، اس لئے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان دونوں مسئلوں پر اجماع منعقد ہو چکا ہے اور اس کا کوئی ثبوت نہیں ہےکہ صحابہ کرام میں سے کسی ایک نے بھی ان دونوں مسئلوں میں سے اس اجماع کی مخالفت کی ہو۔ اور صحابہ کرام کے اجماع سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک کوئی ناسخ تھا، اگرچہ بعض حضرات صحابہ پر یہ ناسخ پہلے مخفی تھا، لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ کرام کے اجماع سے ناسخ سب پر واضح ہو گیا، لہذا اس اجماع کے منعقد ہوجانے کے بعد جو شخص اس کی مخالفت کرے گا وہ اس اجماع کو توڑنے والا ہو گا، اور کسی مسئلے میں اتفاق کے ہو چکنے کے بعد کوئی شخص اس میں اختلاف کرے تو جمہور کے نزدیک اس کا اختلاف کرنا معتبر نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
  1. محترم بھائی! اگر حافظ ابن حجر﷫ نے اجماع کا دعویٰ کیا ہے، تو ان کے سلف صالحین (امام ابن تیمیہ وابن القیم اور ان سے بھی پہلے بہت سے علماء﷭ نے اس مسئلے کئی صحابہ کرام﷢، تابعین عظام اور بعد کے ائمہ اکرام﷭ سے تین طلاقوں کا ایک واقع ہونا بھی ثابت کیا ہے، جن کے حوالے اوپر گزر چکے ہیں۔ لہٰذا دعوائے اجماع محل نظر ہے۔
  2. اجماع نہ منسوخ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی شرعی حکم کو منسوخ کرتا ہے۔ کیونکہ ناسخ منسوخ کا تعلق نبی کریمﷺ کی زندگی سے ہے، کوئی شے نبی کریمﷺ کے فوت ہونے کے بعد منسوخ نہیں ہو سکتی۔ جبکہ اجماع کا تعلّق نبی کریمﷺ کی زندگی کے بعد ہے، کیونکہ نبی کریمﷺ کے دَور میں وحی نازل ہو رہی تھی تو اجماع کی ضرورت نہ تھی، اجماع کی تعریف (هو اتّفاق مجتهدي أمة محمد ﷺ بعد وفاته في عصر من العصور على حكم شرعي اجتهادي) میں ہی یہ بات شامل ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد ہوتا ہے۔ اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ثابت کریں کہ اجماع کسی شرعی حکم کو منسوخ کر سکتا ہے؟!!
  3. آپ نے اپنی تائید میں امام ابن حجر﷫ کے قول کو پیش کیا ہے، جس سے ثابت ہوا کہ آپ کے نزدیک جس طرح پہلے متعہ کو وقتی طور پر جائز قرار دیا گیا جسے منسوخ کرکے بعد میں صریح وصحیح احادیث مبارکہ کے مطابق دائمی طور پر حرام کر دیا گیا تھا، اسی طرح ایک مجلس کی طلاقِ ثلاثہ کو بھی پہلے صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ اور حدیث رکانہ﷜ کی بناء پر ایک شمار کیا جاتا تھا، بعد میں اس حکم کو منسوخ کر کے نیا حکم (یعنی تین طلاقوں کو تین شمار کرنا) جاری کیا گیا۔
    گویا آپ کو تسلیم ہے کہ پہلے تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں، یہاں تک ہمارا اور آپ کا اتفاق ہوا۔
    اب آپ کا نیا دعویٰ ہے کہ بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا تو آپ سے گزارش ہے اور اس تھریڈ کے شروع سے ہی گزارش کی جارہی ہے کہ ازراہِ کرم قرآن کریم یا صحیح وصریح حدیث مبارکہ سے ناسخ دکھا دیں کہ تین طلاقوں کا ایک واقع ہونا منسوخ کر کے بعد میں تین طلاقوں کا تین ہی واقع ہونا لاگو کر دیا گیا تھا۔
    کیونکہ ہم صرف اجماع کی بناء پر متعہ کو منسوخ نہیں سمجھتے بلکہ صحیح وصریح حدیث مبارکہ « يا أيها الناس! إني قد كنت أذنت لكم في الاستمتاع من النساء . وإن الله قد حرم ذلك إلى يوم القيامة . فمن كان عنده منهن شيء فليخل سبيله . ولا تأخذوا مما آتيتموهن شيئا » ... صحيح مسلم کی بناء پر متعہ کو منسوخ سمجھتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
اب آپ ہی بتائیے کہ سیدنا عمر کے ’مخصوص حالات‘ میں اس سیاسی حکم (اجتہاد) سے پہلے تین طلاقوں کے ایک واقع کے متفقہ موقف کے حامل صحابہ کرام - خواہ وہ مفتی ہوں یا اس فتویٰ پر اقراری اور ساکت - بشمول سیدنا ابو بکر وعمر میں سے کون کون رافضی (نعوذ باللہ) تھے؟!! (کیونکہ اوپر ترجمہ میں موجود نیلے رنگ کے الفاظ سے واضح ہورہا ہے کہ سیدنا عمر کا موقف بھی تین طلاقوں کے ایک ہی واقع ہونے کا تھا مخصوص حالات کی وجہ سے انہیں یہ سیاسی فیصلہ کرنا پڑا)﴿ كبرت كلمة تخرج من أفواههم ﴾ اور کیا رفض کی ابتداء سیدنا عمر کے ابتدائی دورِ خلافت سے پہلے ہی ہو چکی تھی؟!!
یہ نتیجہ نکلتا ہے آپ والے موقف سے ،
جب کہ فتح الباری سے حافظ ابن حجر رحمہ اور شرح مسلم سے امام نووی رحمہ کے قلم سے اوپر پیش کر چکا ہوں کہ میرا موقف وہ ہے جو اجماعی ہے اور جو جمہور سلف و خلف کا موقف ہے ، جس کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ نے مخصوص حالات میں کوئی نیا سیاسی حکم نہیں لگایا، وہ امر جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلا آ رہا تھا اسی کو وضاحت کے ساتھ نافذ کیا ، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس امر کو تمام صحابہ نے قبول کیا، اور تمام جمہور سلف و خلف اسی کو صدیوں سے اپنائے ہوئے ہیں۔

اور یہ سیاسی حکم کی اصطلاح کیا ہے ؟ کیا قرآن و سنت سے آپ اس اصطلاح کو ثابت کر سکتے ہیں؟

ایک بہت ہی عام سی سادہ سی مثال ہے؟ یہ جو آپ اصطلاحیں نکال رہے ہیں اور سمجھا رہے ہیں ، مجھے بتائیں کہ مندرجہ ذیل ذی شان بزرگوں و احادیث کے ماہرین کو کیوں نہ سمجھ میں آ سکیں۔
١۔ امام احمد بن حنبل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث کے جانے مانے ہوئے عالم و جمع کرنے والے۔
۲۔ امام شافعی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث کے جانے مانے ہوئے عالم و جمع کرنے والے۔
۳۔ امام مالک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث کے جانے مانے ہوئے عالم اور صحیح ترین احادیث کو بصورت موطا جمع کرنے والے۔
۵۔ امام بخاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جنہوں نے صحیح بخاری میں باب باندھا اور لکھا کہ اس شخص کی دلیل کہ جو ایک مجلس کی تین طلاق کو تین سمجھتا ہے اور ساتھ الطلاق مرتان والی آیت لائے، اور اس باب کے تحت نیچے وہ تمام احادیث درج کیں جو اس شخص کی دلیل ہیں جو ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی سمجھتا ہے۔ اور اس کی مخالفت میں ایک بھی حدیث نہیں لائے۔
٦۔ شارح مسلم شریف امام نووی رحمہ جو ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی جانتے ہیں اور اسے جمہور علماء سلف و خلف کا مسلک قراردیتے ہیں۔

اور جمہور علمائے سلف و خلف کے مسلک کے تحت چونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حق شناس،حق گو، علم ، و متبع سنت ہونے کے حوالے سے اتنی بڑی تعداد میں احادیث موجود ہیں کہ ایک لمحے کے لیے بھی تصور نہیں کیا جا سکتا کہ زبان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی بڑی تعداد میں بشارات پانے والا کوئی ایسا نیا فیصلہ کرے گا کہ جس کی نظیر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ ملتی ہو۔ اس کی تائید اوپر حافظ ابن القیم کے الفاظ سے بھی کر چکا ہوں۔

سو رافضیت کا موقف ان لوگوں پر صادق آتا ہے کہ جنہوں نے فیصلہ عمر کو ان کی ایجاد و اختراع قرارد دیا اور اجماع صحابہ و جمہور علماء سلف کے موقف سے اختلاف کیا ۔

جس کی آئینہ دار یہ تحریر ہے۔ اور مجھے افسوس ہے کہ کسی ایک بھائی نے بھی اس تحریر اور اس کے شری الفاظ سے برات کا اظہار نہیں کیا ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک طلاق پڑی ہے اس سے رجوع کر لے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں گو اس کے خلاف فتویٰ دیا اور تین طلاقوں کو قائم رکھا مگر حدیث کے خلاف ہم کو نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اتباع ضروری ہے نہ کسی اورکی۔
یہ حضرت عمر رضی اللہ کا اجہتاد تھا جو حدیث کے خلاف قابل عمل نہیں ہو سکتا۔ میں ﴿میں مولانا وحید الزماں مرحوم﴾ کہتا ہوں ، مسلمانو اب تم کو اختیار ہے خواہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتوے پر عمل کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو چھوڑ دو، خواہ حدیث پر عمل کرو اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتوے کا کچھ خیال نہ کرو ہم تو شق ثانی اختیار کرتے ہیں۔ ﴿صحیح بخاری، از مولانا داؤد راز﴾
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
انس نضر بھائی السلام علیکم

تو کیا آپ کے خیال میں ہر خلیفہ راشد کا ہر ہر فیصلہ قرآن وسنت سے ثابت ہے؟!! خواہ وہ اجتہادی ہی کیوں نہ ہو؟!!
معاف کیجئے گا اس کا اثبات میں اوپر حافظ ابن القیم کی تحریر سے دے چکا ہوں ، جو کہ تلخیص ہی سمجھیں مزید تفصیل اعلام الموقعین کے مطالعے سے حاصل ہو سکتی ہے۔

گویا آپ کے نزدیک صحابہ کرام سے چھوٹی غلطی تو ممکن ہے، بڑی غلطی ممکن نہیں؟!!
غلطی کی تعریف کیا کرتے ہیں آپ ؟ میں نے اوپر عرض کیا تھا کہ ایسی بات یا فیصلہ غلطی کی تعریف میں نہیں آتا کہ جس میں قرون خیر کے تمام لوگ شامل ہوں اور جو عرصہ دس سال سے بھی زیادہ پر محتاط ہو ۔

تو جنگِ جمل اور صفّین کے متعلّق کیا ارشاد فرمائیں گے؟!!
جنگ جمل اور صفین پر اہل سنت و الجماعت کا ایک اجماعی موقف موجود ہے اور وہی میرا موقف ہے۔ ہم تمام صحابہ کو عدول سمجھتے ہیں اور جنگ جمل و صفین پر بات کرنا ہم صحابہ کے غلاموں کی دسترس سے باہر ہے۔

محترم بھائی! اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے پاس اس معرکۃ الآراء مسئلے میں صرف جذباتی باتوں کے علاوہ کوئی ئ ئ ئ ایک بھی دلیل نہیں۔
سبحان اللہ ۔ کیا میں نے کہا نہیں کہ جو دلیل خلافت عمر میں تمام صحابہ کے پاس تھی وہ میری دلیل ہے، جو دلیل امام حنبل ، امام شافعی، امام مالک، امام بخاری، اور ابن حجر عسقلانی ،اور امام نووی کی بیان کی ہیں وہ میری ہی دلیلیں ہیں۔

کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے کسی قسم کی غلطی ممکن نہیں؟
میرے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح و صاف فرمان ہے، کہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو مضبوطی سے دانتوں سے تھام لو ، پکڑ لو۔

کیا اس حدیث کے ہوتے ہوئے اس بات کی گنجائش ہے کہ میں کسی خلیفہ راشد کی کسی سنت کی تحقیق کرتا پھروں۔ میرا کام ہے نبی کے فرمان پر جب وہ صحیح ثابت ہو جائے تو بلا تامل عمل کرنا ، اور یہ ایک صحیح ، ثقہ ثابت روایت ہے۔ جسکی اوپر حافظ ابن القیم رحمہ نے کافی تفصیل سے شرح بھی کر دی ہے۔
 
Top