ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک قرار دینے والے معاملے میں سب سے بڑا حصہ آٹھویں صدی ہجری کے ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد حافظ ابن القیم کا ہے، مگر وہ بھی اس معاملے میں بحث کو منطقی اور مدلل طریقے سے نہ چلا سکے جس کا اظہار ان کی اپنی ہی تحریروں سےہوتا ہے ذیل میں اعلام الموقعین سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں، دیکھیے اس مسئلے کے سب سے بڑے وکیلوں کے دلائل خود کیسے ان ہی زبانی رد ہوتے ہیں۔ اور بجائے ایک مدلل اور مبسوط بحث کے یہ ایک بے ربط اور پریشان تحریر نظر آتی ہے کہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنے والے کے اپنے ذہن میں بھی الجھن اسی طرح برقرار ہے، یہ بحث صفحہ ۶۹ سے شروع ہوتی ہے۔
لکھتے ہیں الغرض حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ مخفی نہ تھا کہ سنت یہ ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو کشادگی دے رکھی ہے۔
(پھر کیسے ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اللہ کے احکامات نافذ کروانے میں سخت ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اللہ کی اپنے بندوں کو دی ہوئی کشادگی چھین لیں، اور خلاف سنت فتویٰ جاری کریں، اور خود ہی اللہ تعالیٰ کے حقوق کو چھین لیں)
لکھتے ہیں لیکن جب یہ اللہ کی رخصت میں مست ہو کر حدود خداوندی کا خیال بھی بھلا بیٹھے پروردگار نے اپنی دی ہوئی نعمت ان سے اس طرح واپس لے لی کی خلیفہ کی زبان سے قانون ہی اور بنا دیا۔
(دیکھیے حافظ صاحب خود ہی تسلیم بھی کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ کی زبان سے اپنا حکم جاری کروایا، یعنی درحقیقت یہ حکم الہٰی تھا پھر حیرت ہے کہ اس حکم الہٰی کی مخالفت کی جرات بھی کرتےہیں )
لکھتے ہیں حضرت عمر نے جو کچھ کیا وہ ایک مصلحت وقت کی اقتضاء کا کام تھا نہ کہ شرعی مسئلہ۔
لکھتے ہیں نکاح اس لیے ہوتا ہے کہ وہ عورت دوسروں پر حرام ہو جائے۔
(جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس لولے لنگڑے عذر یعنی مصلحت وقت یا سیاسی اجتہاد کی وجہ سے ، وہ عورت کہ جو دوسروں پر حرام ہو چکی تھی ، دوسروں پر تو حلال ہو گئی مگر جس پر حلال تھی اس پر حرام ہو گئی)
لکھتے ہیں طلاق میں شرم گاہ کو حرام ہونا یہ حق اللہ تعالیٰ ہے۔
(تو کیا اللہ تعالیٰ کے حق کو سیدنا عمر رضی اللہ نے استعمال کیا)
لکھتے ہیں اسی طرح نکاح سے ایک شرم گاہ جو حرام تھی حلال ہوتی ہے اور حلال جو تھیں وہ حرام ہوتی ہیں مثلا سسرالی رشتے ۔
(دیکھیے حلال و حرام کا مسئلہ ہے کہ نہیں )
اب دیکھیے آگے صفحہ 409 پر صحابہ کی شان بیان کرتےہیں ، اور اوپر دیے گئے تمام دلائل کا رد کرتے ہیں۔
اللہ کی شہادت ان پر ہے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی ان پر ہے کہ وہ خیر القرون ہیں وہ اللہ کے پسندیدہ ہیں اور اس کے چنیدہ ہیں پس محال ہے کہ ان جیسوں سے سب سے حق خطا کر جائے اور متاخرین کو مل جائے اگر ایسا ہو تو سمجھ لو کہ حقائق میں انقلاب ہو گیا پچھلے پہلوں کے امام بن گئے ان کو ان کے فتاوے اور اقوال کی طرف رجوع واجب ہو گیا، حالانکہ یہ عقلا اور حسا محال ہے اسی طرح شرعا بھی محال ہی ہے۔
بہت سی صحیح احادیث میں ہے آپ نے فرمایا بہترین زمانہ وہ ہے جس میں میں بھیجا گیا ہوں پھر اس کے بعد والا پھر اس کے بعد والا پس ۔ علی الاطلاق آپ کا زمانہ بہترین زمانہ ہے اس سے ثابت ہے کہ خیر اور بھلائی کے تمام امور میں وہ لوگ سب سے آگے ہوں ورنہ بعض وجوہ سے بہتر ہونے سے علی الاطلاق بہتری ثابت نہ ہو گی
پس اگر یہ مان لیں کہ ان میں سے ایک نے غلطی کی اور کسی نے بھی صحیح فتویٰ نہیں دیا بلکہ صحیح چیز بعد والوں کے ہاتھ لگی تو ظاہر ہے کہ اس وجہ سے بعد کا زمانہ بہتر رہا پہلا زمامنہ خطاء کا تھا یہ درستگی کا ہے پھر یہ ایک ہی امر میں نہیں بلکہ بہت سے مسائل میں لازم آئے گا اس لیے کہ جن کے نزدیک قول صحابی حجت نہیں اس کے نزدیک اس کا امکان ہے کہ کل مسائل میں بعد والے درستی پر ہوں بہت سے مسائل ایسے ہیں کہ کسی صحابی نے فتویٰ دیا ہے اور کسی نے مخالفت نہیں کی اور بعد والوں نے جن کا یہ مذہب ہے کہ وہ اور ہم یکساں انسان ہیں ان میں اختلاف کیا ہے اور سمجھتے ہیں کہ حق پر وہی ہیں پس صحابہ کی خطائیں بے شمار، اور ان پچھلے فقہاء کی درست باتیں بے شمار ، اب خود ہی بتلاؤ کہ وہ زمانہ اچھا یا یہ اچھا؟ علم اور حق رسی سے بڑھ کر فضیلت اور کیا ہو گی؟ وہ صحابہ کو حاصل نہیں اور ان پچھلے فقہاء کو حاصل؟ مسلمانو! اس سے بڑھ کر تعجب کی بات اور کیا ہو گی؟ کہ
صدیق و فاروق و عثمان و علی و ابن مسعود و سلمان فارسی، عبادہ بن صامت وغیرہ ان جیسے بزرگ تر صحابہ تو اکثر مسائل میں غلط بات کہیں اور ان کے زمانے میں ایک بھی اس غلطی کا سمجھنے والا اور حق بیان کرنے والا نہ ہو لیکن ان کے بعد والے حق شناس ، حق گو بن جائیں اور جو ان ائمہ سے غلطیاں ہوئی تھیں ان کی اصلاح یہ کر دیں۔
صفحہ 412 پر ہے تم میری سنت کو اور رشد و ہدایت والے خلفاء کی سنت کو میرے بعد لازم پکڑے رہو اس پر چنگل مار لو اسے دانتوں سے مضبوط تھام لو دیکھو نئے کاموں سے بچتے رہنا یاد رکھو ہر نیا کام بدعت ہے، ی
ہ حدیث حسن ہے اس کی سند بے خوف ہے اس میں آپ نے اپنی سنت کے ساتھ خلفاء کی سنت ملا دی ہے اور حکم میں اس قدر مبالغہ فرمایا کہ کچلیوں سے مضبوط تھامنے کی ہدایت فرمائی یہ شامل ہے ان کے فتووں کو اور اسے جس کو یہ اس امت کے لیے طریقہ بنائیں گو اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ معلوم نہ بھی ہو اگر ہو تو وہ حضور کی سنت ہو گی۔ یہ شامل ہے ان کے فتوں کو بھی سب کے ہوں، اکثر کے ہوں ، بعض کےہوں۔ اس لیے کہ
آپ نے اسے معلق رکھا سنت خلفاء راشدین پر اور یہ ظاہر ہے کہ خلافت کی حالت میں ان بزرگوں نے آن واحد میں طریقے نہیں بتلائے پس ہر ایک کی اس کی خلافت کے وقت جو سنت ہو وہ سنت ہے۔
صحیح سلم شریف میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر قوم ابوبکر و عمر کی اطاعت کرتے گی تو بھلائی اور نیکی اور ہدایت پائے گی،
دیکھو کہ ہدایت یہاں ان کی اتباع پر موقوف ہے تو اگر ان کے فتوں کے غلط سمجھا جائے اور ان کے زمانے کے بعد کے غیر صحابہ کے فتوں کو صحیح سمجھا جائے تو ہدایت ان کے خلاف ہو جائے گی۔
صفحہ 413 پر ہے آنحضرت نے حضرت ابوبکر و عمر کی طرف دیکھ کر فرمایا یہی دونوں کان اور آنکھ ہیں یعنی میرے وجود کے لیے ، دین الٰہی کے لیے ،
کیا اب بھی ہی کہا جائے گا کہ ان کے فتوے غلط اور ان کے بعد والوں کے صحیح؟
اللہ تعالیٰ نے حق کو حضرت عمر کی زبان اور دل میں رکھ دیا ہے
پس ہم ان کی کیسے مان لیں ؟ جن کے نزدیک حضرت عمر جیسے کسی مسئلہ میں خطا کر جائیں اور صحابہ میں سے ایک بھی اس پر انکار نہ کرے لیکن بعد والے آئیں اور حضرت عمر رضی اللہ کی غلطی اور خطاء پر تنبیہ کریں یہ تو ظاہر ہے محال ہے۔
صفحہ 417 پر ہے سنو جب صحابی کوئی قول کہے ، کوئی حکم دے ، کوئی فتویٰ جاری کرے تو اس کے بہت سے ایسے درجے ہیں جن میں بعد والوں کی کوئی شرکت نہیں گو بعض درجے شرکت کے بھی ہیں م
ثلا ہو سکتا کہ اس صحابی نے یہ فتویٰ خود رسالت مآب سے سنا ہو یا کسی اور صحابی سے سنا ہواور اس نے اللہ کے نبی سے سنا ہو، سنو اور یاد رکھو کہ جس علم میں وہ منفرد تھے وہ اس سے بہت زیادہ تھا جن میں ہمیں شرکت کا موقعہ ملا ہے، جس جس نے جو جو سنا سب روایت نہیں کیا، بتلاؤ صدیق و فاروق رضی اللہ عنہم جیسے بزرگوں کی کیا ساری روایتیں ہمارے ہاتھوں میں ہیں ؟
اب مختصر سن لو ان میں سے کسی کا فتویٰ چھ وجہ سے خالی نہیں:
۱۔ ممکن ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو۔
۲۔ ممکن ہے اور صحابی سے سنا ہو اور اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو۔
۳۔ ممکن ے کسی آیت قرآنی سے سمجھا ہو لیکن ہم سے وہ سمجھ مخفی رہ گئی ہو۔
۴۔ ممکن ہے ان کی ایک جماعت کا اس فتوے پر اتفاق ہو لیکن ہم تک صرف ایک صحابی کے نام سے ہی وہ فتویٰ پہنچا ہو۔
۵۔ ممکن ہے شان نزول سامنے رکھ کر واقعہ سامنے رکھ کر لغت جان کر دلالت لفظ کو سمجھ کر حالیہ قرائن سے سوچ کر خطاب کی اونچ نیچ الفا ظ کی واقعہ سے مطابقت یا ان سب چیزوں کو سامنے رکھ کر انہوں نے ایک بات سمجھی ہو پھر کہی ہو اور ظاہر ہے کہ ہمارے سامنے یہ تمام چیزیں نہیں وہ بوقت نزول قرآن موجود تھے، وہ حدیث ، طرز حدیث، وجہ حدیث، واقعہ اور حالات سے واقف تھے، افعال ، احوال، سیرت ان کی نگاہوں کے سامنے تھی ، پس ان کے ذہن جن مقاصد اور جن باریک امور تک پہنچ سکتے تھے ہمارے ذہن ان سے قطعا خالی ہیں کیوں نہ ان کا فتویٰ حجت مانا جائے۔یہ پانچویں وجوہات وہ ہیں جن سے ان کے قول کا ماننا واجب ثابت ہوتا ہے۔
صفحہ 419 دیکھیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت میں سے ایک جماعت برابر حق پر قائم رہے گی، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں زمین کبھی ایسے لوگوں کے وجود سے خالی نہ رہے گی جو اللہ تعالیٰ کی حجت پر قائم ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کی باتیں باطن نہ ہو جائیں اگر منکرین اتباع سلف کی بات مان لی جائے تو ثابت ہو گا کہ وہ زمانہ حق والوں سے خالی تھا اس لیے کہ ایک حادثے میں ایک صحابی نے کوئی فتویٰ دیا تھا وہ غلط لیکن کسی اور نے اس کے خلاف نہ کیا سارا زمانہ غلطی پر ہی رہا معروف کا حکم کرنے والا منکر سے روکنے ولا اس وقت ایک بھی نہ تھا یہاں تک کہ وہ زمانہ گذر گیا فقہاء کا زمانہ آیا تو اب حق گر برسنے لگے۔ نعوذ باللہ منہا۔
جب صحابہ یا کوئی صحابہ کوئی قول کہے پھر ایک زمانے کے بعدکوئی فقیہ اس کے خلاف قول کہے تو یہ قول نیا ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میرے اور خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑے رہو اور اس پر اپنی کچلیاں تک مضبوط گڑ دو اور نئے امور سے بچتے رہو، ہر بدعت گمراہی ہے
پس یہ نیا قول بدعت ہے اور گمراہی ہے۔