• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مجلس کی تین طلاق اور خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
چلیں عمر معاویہ بھائی!
جیسے آپ کی خوشی!
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
﴿ فَلِذَٰلِكَ فَادْعُ ۖ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ۖ وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِن كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ۖ اللَّـهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ اللَّـهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ ﴾ ... سورة الشورىٰکہ ’’پس آپ لوگوں کو اسی طرف بلاتے رہیں اور جو کچھ آپ سے کہا گیا ہے اس پر مضبوطی سے جم جائیں اور ان کی خواہشوں پر نہ چلیں اور کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں میرا ان پر ایمان ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم میں انصاف کرتا رہوں۔ ہمارا اور تم سب کا پروردگار اللہ ہی ہے ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہیں، ہم تم میں کوئی کٹ حجتی نہیں اللہ تعالیٰ ہم (سب) کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
جزاکم اللہ خیرا معاویہ بھائی!
ہم نے اپنا موقف واضح کردیا اور ہمیں اس پر اطمینان ہے۔ آپ نے بھی اپنا موقف واضح کردیا اور آپ کو بھی اس پر اطمینان ہے۔ مکالمہ کا مقصد کسی کو منوانا ہر گز نہیں ہوتا اور نہ ہی منوایا جا سکتا ہے۔ ہم آپ کی باتوں کے جواب دے سکتے ہیں اور آپ ہمارے باتوں کے جواب در جواب نقل کر سکتے ہیں لیکن شاید وہ سعی لاحاصل ہو گا کیونکہ دونوں طرف سے تقریبا ان کے موقف کی مکمل وضاحت بیان ہو چکی ہے اور اس سے زیادہ بحث کو جاری رکھنا میرے خیال میں مناسب نہیں ہے۔اگر ممکن ہوا تو مستقبل میں کبھی کسی مضمون میں اپنے اس موقف کو بیان کر دیں گے۔
آپ سے گزارش ہے کہ اس مکالمہ کے مابین ہم سے کوئی خطا ہوئی ہو تو درگزر فرما دیں کیونکہ بعض اوقات دوران گفتگو کچھ اونچ نیچ ہو جاتی ہے اور علمی دلائل کے ساتھ کچھ طنز بھی لاشعوی یا شعوری طور گفتگو میں شامل ہو جاتا ہے۔آپ ایک اچھے انسان ہیں اور ہمارے لیے محترم ہیں۔ ہم میں بہت کمیاں کوتاہیاں ہیں، بس ہمارے لیے دعا فرماتے رہیں ۔ مجلس کے اختتام کی دعا کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گا تا کہ اس باہمی مجلس میں ہماری طرف سے کوئی کمی کوتاہی ہوئی تو اللہ تعالی معاف فرما دے۔
سبحنک اللھم وبحمدک نشھد ان لا الہ الا انت نستغفرک ونتوب الیک۔
اللہ تعالی آپ کو دنیا وآخرت میں بھلائی عطا فرمائے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ انس بھائی کی یہ پوسٹ دیکھ کر میں نے یہ الفاظ کہنے کا ارادہ نہیں کیا تھا بلکہ کل رات مغرب کی نماز کے بعد اپنی کی ہوئی پوسٹس کے بارے کچھ اپنا محاسبہ کیا تو محسوس ہوا کہ شاید اس پوسٹ میں اس سے زیادہ اں بحث کو چلانا میری طرف سے مناسب نہیں ہے اور شاید یہ احقاق حق کی بجائے حب تفوق کی علامت نہ بن جائے کیونکہ اپنا موقف تو میں واضح کر چکا تھا اور اس سے زیادہ بحث کرنے کا مقصد شاید دوسرے کو لاجواب کرنا تھا جو دین میں مقصود نہیں ہے۔ لہذا بحث ختم کرنے کے لیے معذرت!
جزاکم اللہ خیرا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
چلیں میرا فورم کے تمام ممبران کو چیلنج ہے کہ وہ اس حدیث کو یا تو ضعیف ثابت کریں یا پھر اس کی تشریح بیان کریں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے کیا مطلب ہے کہ میری اور میرے ہدایت یافتہ صحابہ کی سنت کو دانتوں سے تھام لو۔
آپ کے جذباتی انداز میں اب چند سوالات کروں گا۔
١۔حضرت عمر رضی اللہ نے زکوۃ کی مدات کے بارے تالیف قلب کی مد کو ختم کر دیا اور کسی صحابی نے اعتراض نہیں کیا لہذا اجماع ہو گیا اور جمہور فقہاء نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اجماع کے مخالف فتوی جاری کرتے ہوئے اس اجماع کو ماننے سے انکار کر دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مولفۃ قلوبھم کے حکم پر عمل سے روک دیا تھا۔(الجوھرۃ النیرۃ فی الفقہ الحنفی، جلد ١، ص٤٦١)
٢۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کتابی عورتوں سے نکاح سے منع کر دیا تھا اور اسے نافذ کر دیا گیا لہذا اجماع ہوگیا اور جمہور فقہاء نے اس اجماع کی مخالفت کر کے اس کا انکار کیا ہے۔
٣۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھوڑوں میں زکوۃ نافذ کی، کسی نے اختلاف نہ کیا لہذا اجماع ہو گیا اور جمہور فقہاء نے اس اجماع کا انکار کر دیا۔
وعلی ھذا القیاس۔
اگر آپ کے نزدیک واقعی آپ کی اس جذباتی بات کی اتنی اہمیت ہے تو کم از کم اپنی اس جذباتی بات کو ڈیفائن ہی کر دیں کہ
کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے کسی قسم کی غلطی ممکن نہیں؟ یا
کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے بڑی غلطی ممکن نہیں؟ یا
کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے چھوٹی غلطی ممکن نہیں؟ یا
کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے ایسی غلطی ممکن نہیں جو چند صحابہ کرام کے سامنے ہو؟ یا
کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے ایسی غلطی ممکن نہیں جو زیادہ صحابہ کرام کے سامنے ہو؟! وغیرہ وغیرہ
پہلے اپنا موقف تو بیان کریں، تاکہ معلوم ہو کہ آپ کا یہ موقف بھی صرف جذباتیات کے تارِ عنکبوت پر قائم ہے، یا اس کے مضبوط اور مستحکم دلائل بھی ہیں؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!

آپ کے بقول حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوئی نیا سیاسی حکم نہیں لگایا تھا بلکہ دورنبوی سے چلے آتے حکم کو نافذ کیا تھا۔ٹھیک!
لیکن دور نبوی کے حکم کو نافذ کرنے کی ضرورت کیا پڑی تھی ۔ کیا حضرت عمر رضی اللہ نے پانچ نمازوں کو نافذ کروانے کے لیے اجماع بلوایا۔٣٠ روزوں کو نافذ کروانے کے لیے اجماع بلوایا۔ حج و عمرہ کے نفاذ کے لیے اجماع بلوایا۔ زکوۃ کے نفاذ کے لیے اجماع بلوایا۔ ایک صریح حکم شرعی کے نفاذ کی ضرورت کیا پڑ گئی تھی جبکہ آپ کے بقول اس سے کوئی اختلاف کرنے والا موجود نہ تھا؟؟؟۔ اگر اختلاف کرنے والا تھا تو اجماع نہ ہوا اور اگر اجماع تھا تو سادہ الفاظ میں اس ساری تگ ودو کی ضرورت کیا تھی؟؟؟
کتاب وسنت تو اسی دن سے نافذ تھے جس دن سے حضرت امیر المومنین خلافت سنبھالی تھی۔ اگر آپ کے بقول بعد میں انہوں نے سنت کا نفاذ کیا تھا تو صحابہ اس مجلس کے اجتماعی فیصلہ سے پہلے کیا نافذ تھا؟؟؟اگر کتاب وسنت نافذ تھا تو ایک نافذ شدہ چیز کو دوبارہ نافذ کرنا، معاف کیجیے گا، یہاں پہنچ کر آپ کے اس سارے فلسفہ کی عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے۔
ایک خاص وقت میں ہی پہلے سے نافذ شدہ سنت کے دوبارہ نفاذ کی ضرورت کیوں پڑی ؟؟؟
یہ دوبارہ نفاذ ایک ہی سنت کا کیوں کیا گیا؟ نماز، روزے، حج وزکوۃ اور دیگر شرعی احکام کا دوبارہ نفاذ کیوں نہ ہوا؟؟؟
!!!!!
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
شکریہ شاکر بھائی آپ کی پوسٹ کا قرآن و احادیث صحیحہ سے پوسٹ مذکورہ کا جواب:
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

تفسیر السعدی کے مطابق بھی ایک مجلس کی تین طلاقیں ضرر رساں اور لاگو ہوتی ہیں۔

دارلسلام کی شائع شدہ ، اردو تفسیر السعدی جلد 2 صفحہ 278 دیکھیے ۔
اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما یا یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو رجعت کا حق حاصل ہے، صرف دو مرتبہ ہے ، تاکہ اگر خاوند اپنی بیوی کو ضرر پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتا، تو اس مدت کے دوران میں طلاق دینے کے فیصلے سے رجوع کر سکتا ہے۔ رہا اس سے زیادہ مرتبہ طلاق دینا تو یہ طلاق کا محل نہیں، کیونکہ جو کوئی دو مرتبہ سے زیادہ طلاق دیتا ہے، وہ یا تو حرام فعل کے ارتکاب کی جرات کرتا ہے یا اسے اپنی بیوی کو رکھنے میں رغبت نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔

امیر المومنین فی الحدیث اما م بخاری رحمہ بھی البقرۃ کی آیت 229 سے ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع کی دلیل لیتےہیں۔اور نیچے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس دلیل کو ثابت کرتے ہیں۔ امام بخاری نے ان احادیث سے ایک مجلس کی تین طلاق کے واقع ہونے کی دلیل لی اور انہیں باب من اجازہ طلاق الثلاث میں بیان کیا۔
دیکھیے صحیح بخاری جلد ۷
امام بخاری رحمہ صحیح بخاری میں باب باندھتے ہیں۔
باب من اجاز طلاق الثلاث لقول اللہ تعالیٰ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان
باب جس نے تین طلاقو ں کی اجازت دی اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی روشنی میں کہ طلاق تو دوبار ہی کی ہے، اس کے بعد یا تو رکھ لینا ہےقاعدے کے مطابق یا پھر خوشی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
نیچے عویمر عجلانی کی لعان کے بعد طلاق والی حدیث بیان کرتےہیں۔
نیچے رفاہ قرضی کی طلاق والی والی حدیث بیان کرتے ہیں۔

اور امیر المونین فی الحدیث اپنی صحیح میں ایک اور باب باندھتے ہیں جس کا نام رکھتے ہیں۔
با ب اللعان و من طلق بعد اللعان
لعان اور لعان کے بعد طلاق دینے کا بیان
اور اس میں پھر عویمر عجلانی کی لعان والی حدیث لاتےہیں۔

اس سے امام بخاری رحمہ کا موقف بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اس حدیث کو ایک مجلس میں تین طلاق کی قطعی دلیل سمجھتےہیں اور پہلے اسے ایک مجلس کی تین طلاق کے باب میں لاتے ہیں، اور پھر الگ سے اسے لعان اور لعان کے بعد ایک ہی مجلس میں طلاق دینے والے باب میں بھی لاتے ہیں۔​
کیا آپ لوگوں کی حدیث فہمی امیرالمونین فی الحدیث امام بخاری رحمہ سے بھی بڑھ گئی ہے۔

عویمر عجلانی کی لعان والی حدیث کے بارے میں محقق اہل حدیث حافظ زبیر علی زئی موطا امام مالک صفحہ 319 پر لکھتے ہیں صحیح بخاری کی احادیث سے ثابت ہے کہ جب لعان کرنے والے نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی، لہذا جدائی کا سبب طلاق ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جدائی کا سبب لعان ہے ، لیکن یہ قول محل نظر ہے۔

اسی کتاب کے صفحہ 320 پر لکھتے ہیں۔
حالت حیض میں طلاق دینا جائز نہیں ہے لیکن اگر دی جائے تو یہ شمار ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ بدعی طلاق واقع ہو جاتی ہے اگر چہ ایسی طلاق دینا غلط ہے۔

جہاں تک آپ کے معاصر اہل حدیث علماء کےاجتہاد کا تعلق ہے اوپر میں نے حالت حیض میں طلاق کا موطا امام مالک ترجمہ و تشریح شدہ حافظ زبیر علی زئی سال طبع 2009کے قلم سے موقف دکھایا، اب صحیح بخاری از داؤد راز طبع 2004 دیکھیے صفحہ 29 پر ہےائمہ اربعہ اور اکثر فقہاء تو اس طرح گئے ہیں کہ یہ طلاق شمار ہو گی اور ظاہریہ اور اہل حدیث اور امامیہ اور ہمارے مشائخ میں سے امام ابن تیمیہ، امام ابن حزم اور علامہ ابن القیم اور جناب محمد باقر اور حضرت جعفر صادق اور امام ناصر اور اہل بیت کا یہ قول ہے کہ اس طلاق کا شمار نہ ہو گا۔ اس لیے کہ یہ بدعی اور حرام تھی، شوکانی اور محققین اہل حدیث نے اس کو ترجیح دی ہے۔ ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء نے اسی سے دلیل لی ہے اور یہ کہا ہےکہ جب ابن عمر خود کہتے ہیں کہ یہ طلاق شمار کی گئی تو اب اس کےوقوع میں کیا شک رہا، ہم کہتےہیں کہ ابن عمر کا صرف قول حجت نہیں ہو سکتا کیونکہ انہوں نے یہ بیان نہیں کیا کہ حضرت نے اس کے شمار کیے جانے کا حکم دیا۔

ایک ہی جماعت اہل حدیث میں اتنے اہم مسئلے میں اتنا بڑا تضاد کیوں ہے؟؟؟
یہ ہوتا ہے جمہور سلف و خلف کے موقف سے انحراف اور بے اعتمادی کا نتیجہ کہ ایک ہی جماعت کے محققین طلاق جیسے نازک معاملات میں صحیح موقف اپنا نہیں سکتے اور دونوں کے درمیان کچھ صدیوں کے فاصلے کی بات بھی نہیں صرف 5 سال پہلے جو چیز ازروئے احادیث صحیحہ واقع نہ ہوتی تھی وہ پانچ سال بعد ازروئے احادیث صحیحہ واقع ہو جاتی ہے۔ آپ کے نزدیک 2004 کا موقف صحیح ہے یا 2009والا۔

امام نسائی رحمہ نے بھی احادیث مبارکہ سے ایک مجلس کی تین طلاق کے واقع ہونے کی دلیل لی اور باب باندھا اور اس باب کے تحت احادیث بیان کیں۔
دیکھیے سنن نسائی جلد دوم
امام نسائی سنن نسائی میں باب باندھتے ہیں،
باب الرخصۃ فی ذالک،
یکبارگی تین طلاق دینے کی رخصت۔
اور نیچے عویمر عجلانی کی طلاق والی حدیث بیان کرتےہیں۔
اورنیچے فاطمہ بنت قیس کی طلاق والی حدیث بیان کرتے ہیں۔
امام نسائی نے آپ کی دلیل والی حدیث ابن عباس کو غیر مدخولہ کے بارے میں کہا اور طلاق غیر مدخولہ کے باب میں بیان کیا۔
باب طلاق الثلاث المتفرقۃ قبل الدخول بالزوجۃ
تین طلاق متفرق کر دینے کا بیان زوجہ کے ساتھ دخول سے پہلے
اور نیچے ابوصہبا و ابن عباس والی حدیث بیان کرتےہیں۔

امام ماجہ بھی ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع کے قائل ہیں اور مجلس واحد کی تین طلاق کا باب باندھتے ہیں اور نیچے ، امام نسائی کے نقش قدم پر بطور دلیل فاطمہ بنت قیس والی حدیث بیان کرتے ہیں۔
باب من طلق ثلاثا فی مجلس واحد
باب اس کے بارے میں جو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دے۔
اور نیچے فاطمہ بنت قیس والی حدیث بیان کرتےہیں۔

امام ترمذی بھی ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع کے قائل ہیں اور آپ کی دوسری دلیل حدیث رکانہ کو طلاق البتہ کے باب میں بیان کرتے ہیں ۔
باب ماجاء فی الرجل یطلق امراتہ البتۃ
باب جو شخص اپنی بیوی کو البتہ کےلفظ سے طلاق دے
اور نیچے حدیث رکانہ لاتے ہیں۔

سنن ابو داؤد شائع شدہ دارلسلام جلد 2 صفحہ 683پر فوائد و مسائل میں ابو عمار عمر فاروق سعیدی لکھتے ہیں۔
وہ طلاق کے صحیح طریقے سے بے خبر ہونے کی وجہ سے بیک وقت تین طلاقیں دے دیتے ہیں(حالانکہ ایسا کرنا سخت منع ہے) پھر پچھتاتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ اسے ایک طلاق شمار کیا جائے اور اسے رجوع کا حق دیا جائے۔

اگر بیک وقت تین طلاق دینے سے کچھ نہیں ہوتا ، تو پھر پچھتانے سے کیا معنی؟؟؟ اور بقول آپ کے دور نبوی اور دور صدیقی میں ایسا کام ہوتا رہا کہ جو سخت منع ہے اور پھر پچھتاتے بھی رہے؟؟؟

ابو محمد موفق حنبلی کی المغنی لابن قدامۃجلد 7 صفحہ 370 دیکھیے۔
وَإِنْ طَلَّقَ ثَلَاثًا بِكَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، وَقَعَ الثَّلَاثُ، وَحَرُمَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ، وَلَا فَرْقَ بَيْنَ قَبْلِ الدُّخُولِ وَبَعْدَهُ. رُوِيَ ذَلِكَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَالْأَئِمَّةِ بَعْدَهُمْ. وَكَانَ عَطَاءٌ، وَطَاوُسٌ، وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، وَأَبُو الشَّعْثَاءِ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، يَقُولُونَ: مَنْ طَلَّقَ الْبِكْرَ ثَلَاثَةً فَهِيَ وَاحِدَةٌ. وَرَوَى طَاوُسٌ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَرَوَى سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، وَمُجَاهِدٌ، وَمَالِكُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، خِلَافَ رِوَايَةِ طَاوُسٍ، أَخْرَجَهُ أَيْضًا أَبُو دَاوُد. وَأَفْتَى ابْنُ عَبَّاسٍ بِخِلَافِ مَا رَوَاهُ عَنْهُ طَاوُسٌ۔
ابن عباس، ابو ہریرہ ، ابن عمر، عبداللہ بن عمرو، ابن مسعود اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق واقع ہو جاتی ہیں اور عورت اس پر حرام ہو جائے گی حتی کہ کسی دوسرے مرد سے شادی کرے اور پھر بیوہ ہو یا طلاق پائے اور اس میں مدخولہ یا غیر مدخولہ کا کوئی فرق نہیں۔
اور یہی قول ہے بعد کے اکثر اہل علم کا تابعین اور ائمہ میں سےبھی۔
اور عطاء ، طاؤس سعید بن جبیر، ابو الشعثا اور عمرو بن دینار کا کہنا ہے کہ غیر مدخولہ کی اکٹھی تین طلاقیں ایک ہوں گی۔
اور طاؤس ابن عباس سے روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ کی ابتدائی خلافت میں تین طلاقیں ایک ہوتی تھیں، اور سعید بن جبیر، عمرو بن دینار، مجاہد، اور مالک بن الحارث ابن عباس سے طاؤس کی روایت کے خلاف روایت کرتےہیں، اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ بھی طاؤس کی روایت کے خلاف ہے۔

اسی حدیث کی علتیں جو سلف و خلف نے بیان کی ہیں بے شمار ہیں۔

۱۔ خبر واحدہے ، جبکہ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ ممکن ہی نہیں کہ معاشرے میں اتنا بڑا ہلچل مچا دینے والا کام ہو اور اس کو بیان کرنے والا صرف ایک راوی ہو۔
۲۔ ابن عباس کے باقی شاگرد اس کے خلاف روایت کرتےہیں۔
۳۔ اس کے معانی و مطالب میں بہت گنجائش ہے اور صرف وہی مطلب نہیں نکلتا جو آپ نکال رہے ہیں،جیسے سلف و خلف نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ غیر مدخولہ کے متعلق ہو، ہو سکتا ہے کہ یہ اس شخص کے متعلق ہو کہ جو لفظ البتہ سے طلاق دیتا ہے اور نیت ایک کی رکھتا ہے، جیسا کہ البتہ سے ایک یا تین کچھ بھی مراد ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ اس شخص کے متعلق ہو جو طلاق تو ایک دے رہا تھا مگر تاکیدا اسی کو دھرا رہا تھا۔
۴۔ سب سے بڑی بات کہ راوی یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ اس کے خلاف موجود ہے، ہو نہیں سکتا کہ جبرا لامۃ جیسے صحابی کے پاس نبی کریم ﷺ کی کوئی سنت موجود ہو اور وہ اس کے خلاف فتویٰ بھی دیں؟

اور یہ دیکھیے آپ کی دوسری دلیل حدیث رکانہ کے بارے میں سنن بیقہی سے فرق یہ ہے کہ آپ بیہقی کی اس حدیث کا حوالہ تو دیتے ہیں مگر اس حدیث پر جو حکم لگا ہے وہ بیان نہیں کیا جاتا دیکھیے پوری حدیث مع حکم کے۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: طَلَّقَ رُكَانَةُ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ طَلَّقْتَهَا؟ " قَالَ: طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا , فَقَالَ: " فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟ " قَالَ: نَعَمْ قَالَ: " فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَارْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ " فَرَاجَعَهَا فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَرَى إِنَّمَا الطَّلَاقُ عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ فَتِلْكَ السُّنَّةُ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا النَّاسُ وَالَّتِي أَمَرَ اللهُ لَهَا {فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} [الطلاق: 1] أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَارِثِ أنا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ نا مُسْلِمُ بْنُ عِصَامٍ نا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعْدٍ نا عَمِّي نا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ فَذَكَرَهُ وَهَذَا الْإِسْنَادُ لَا تَقُومُ بِهِ الْحُجَّةُ مَعَ ثَمَانِيَةٍ رَوَوْا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فُتْيَاهُ بِخِلَافِ ذَلِكَ وَمَعَ رِوَايَةِ أَوْلَادِ رُكَانَةَ أَنَّ طَلَاقَ رُكَانَةَ كَانَ وَاحِدَةً وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ
سنن بیہقی جلد ۷ صفحہ 555

یہ اسناد اس معاملے میں حجت نہیں کیونکہ 8 راوی ابن عباس سے اس کے مخالف روایت کرتے ہیں۔ اور مزید یہ کہ رکانہ کےگھر والے بھی کہتےہیں کہ رکانہ نے ایک طلاق دی تھی۔

حدیث رکانہ پر ایک اور بڑا اعتراض بھی وارد ہوتا ہے کہ جب اس عہد بلکہ ابتدائی عہد عمر رضی اللہ عنہ تک تین طلاقیں ایک ہی سمجھی جاتی تھیں، تو پھر رکانہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی، کسی ضرر کا اندیشہ تھا تو پوچھا گیا تھاناں۔ اور رکانہ ہی کے حوالے سے سنن ابو داؤد میں وارد حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین بار حلف دے کر پوچھتے ہیں کہ تمہاری مراد کیا تھی ، رجعی طلاق یا قطعی طلاق؟ وہی سوال کہ اگر ایک طہر میں تین کا محل ہی نہیں تھا تو پھر پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟

اور پیچھے ایک پوسٹ میں انس بھائی نے اغاثہ سے ایک مردود روایت رجوع عمر کے بارے میں بیان کی تھی کہ جس کی اتنی اہمیت ہے کہ سلف و خلف میں سے سوائے ابن القیم کے کسی نے اس روایت کو اپنے موقف کی دلیل میں بیان نہیں کیا۔ نیچے دیکھیے اس کے ایک راوی کے میزان الاعتدال سے حالات۔ یہ راوی کچھ نہیں، ثقہ نہیں، ضعیف بھی ہے اور صحابہ پر جھوٹ بھی بولتا تھا، اور اس کی کتابیں دفن کر دینے کے قابل ہیں۔

سیدنا عمر نے اپنے اس اجتہادی فیصلے پر آخری ایام میں اظہار ندامت بھی فرمایا تھا کہ انہیں بطور سزا یہ اقدام نہیں کرنا چاہئے تھا۔ (دیکھئے إغاثة اللهفان 1 ؍ 351)

2475 - خالد بن يزيد بن عبد الرحمن بن أبي مالك [ق] الدمشقي.
وقال أحمد: ليس بشئ.
وقال النسائي: غير ثقة.
وقال الدارقطني: ضعيف.
وقال ابن عدي، عن ابن أبي عصمة، عن أحمد بن أبي يحيى: سمعت أحمد بن حنبل يقول: خالد بن يزيد بن أبي مالك ليس بشئ.
وقال ابن أبي الحواري سمعت ابن معين يقول: بالعراق كتاب بنبغى أن يدفن تفسير الكلبي، عن أبي صالح.
وبالشام كتاب ينبغي أن يدفن كتاب الديات لخالد بن يزيد بن أبي مالك، لم يرض أن يكذب على أبيه حتى كذب على الصحابة.

امام شوکانی نیل اوطار جلد 6 صفحہ 274 میں لکھتے ہیں۔
فَذَهَبَ جُمْهُورُ التَّابِعِينَ وَكَثِيرٌ مِنْ الصَّحَابَةِ وَأَئِمَّةِ الْمَذَاهِبِ الْأَرْبَعَةِ وَطَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ مِنْهُمْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٌّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
(ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی شمار ہوتی ہیں ) یہی مذہب جمہور تابعین اور کثیر صحابہ اور ائمہ مذاہب اربعہ اور اہل بیت میں سے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے۔

اس سے پہلے جمہور و سلف و خلفہ و ائمہ اربعہ کے ایک مجلس کی تین طلاق کےتین ہی ہونے ، اور خلیفہ راشد کے فیصلے کے شرعی اور حجت ہونے کے دلائل ابن القیم کی اعلام الموقعین سے بیان کیے گئے ہیں، مزید دیکھیے علامہ ابن جوزی رحمہ کی تلبیس ابلیس سے انہی دلائل کی تشریح ۔

تلبیس ابلیس صفحہ 29 دیکھیے، ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سے دو بہتر ہیں اور تین سےچار بہتر ہیں، پس تم پر واجب ہے کہ جماعت کو لازم پکڑو کیوں کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ میری امت کو سوائے ہدایت کے جمع کرے۔

صفحہ 34 پر دیکھیے، علیکم بسنتی و سنۃ خلفاء راشدین مہدیین کی تشریح میں ہے پس ان خلفائے راشدین کی سنت بھی طریقہ نبوت میں شامل ہے کیوں کہ یہ نبوت کی خلافت تھی۔

صفحہ 38 پر دیکھیے، سنت کے معنی راہ کےہیں اور کچھ شک نہیں کہ جو لوگ اہل حدیث و آثار ہیں کہ بذرعیہ ثقات اولیا کی روایات کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے اصحاب و خلفائے راشدین کےنشان قدم کی پیروی کرتے ہیں، یہی لوگ اہل السنۃ ہیں۔ کیوں کہ یہی اس راہ طریقہ پر ہیں جس میں کوئی نئی نکالی ہوئی بات شامل نہیں ہونے پائی۔ اس لیے کہ بدعتیں اور نئے طریقے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریقہ کے بعد نکلے ہیں۔

صفحہ 156 پر دیکھیے ، واضح ہو کہ خارجی لوگ بہت عبادت کیا کرتے تھے ، مگر ان کی حماقت کا یہ اعتقاد تھا کہ وہ لوگ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر عالم ہیں اور یہی ان کا سخت مہلک مرض تھا۔
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
اور اس پوسٹ کے ساتھ ہی میں اپنے دلائل ختم کرتا ہوں۔ اللہ کمی کوتاہی معاف فرمائے۔

ابو الحسن بھائی پوسٹ نمبر ۳ میں لکھتے ہیں۔
٢۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ اختیار تھا کہ جس کو قرآن نے رجوع کا حق دیا ہے تو اس سے رجوع کا حق واپس لے لیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا اختیار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بالکل بھی نہیں تھا تو پھر ان کے اس فعل کی کیا صحیح توجیہ ہے؟
پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کے دیے ہوئے رجوع کے حق کو ختم نہیں کیا ، اگر ختم کیا ہوتا تو ایک مجلس میں ایک طلاق دینے والے کو بھی رجوع کاحق نہ ہوتا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کی صورت میں یہ اجتہاد فرمایا ہے کہ ایسے شخص کو رجوع کا حق دینے میں ایک مانع موجود ہے اور وہ مانع شریعت کا مذاق اڑانا ہے۔
پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا بالکل بھی نہیں کیا ہے کہ ایک طلاق کو تین بنا کر نافذ کر دیا بلکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن قیم رحمہ اللہ اور اہل الحدیث اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ایک ہی طلاق شمار کیا تھا لیکن ایک طلاق کے بعد مرد کے پاس جو رجوع کا حق تھا، اس پر یہ پابندی عائد کر دی تھی کہ ہم تمہیں رجوع نہیں کرنے دیں گے۔
جب یہ مان لیا جائے کہ اللہ تعالی نے دوسری طلاق کے لیے کسی دوسرے طہر کو بطور وقت مقرر کیا ہے تو جب دوسری طلاق کا وقت نہیں آیا ہے یعنی دوسرا طہر تو وہ طلاق کیسے واقع ہو جائے گی ۔
انس نضر بھائی پوسٹ نمبر 9 میں لکھتے ہیں۔
قرآن کریم کے اس اندازِ بیان سے صاف واضح ہے کہ ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دے دینا یا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرکے بیوی کو ہمیشہ کیلئے جدا کر دینا، قرآن کے مذکورہ حکم سے متصادم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد سوچنے اور نظر ثانی کا موقع اور گنجائش باقی ہے لیکن لوگ ایک ہی مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کر کے اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے موقع اور گنجائش کو ختم کر دیتے ہیں۔
لیکن کتاب وسنت کے خلاف تین طلاقیں تین ہی واقع ہونے کے فتوے کا وبال یہ پڑا اگر بعد میں مرد کو پچھتاوا ہوا (اور وہ تین طلاقیں اکٹھی دینے کی صورت میں لازما ہوتا ہے۔) تو اس کیلئے مطلقہ بیوی کو حلال کرنے کیلئے ایک ’سانڈ‘ ادھار پر لے کر حلالہ کرانے کا موقف اختیار کیا گیا،
غور سے تمام اقتباسات پڑھیے پہلے تو کالے رنگ والی عبارت والی عبارت میں کہا جا رہا ہے کہ:
سیدنا عمر کو قرآن کے دیے ہوئے حق رجوع کے واپس لینے کا اختیار بھی نہیں ہے۔

پھر دیکھیں نیلے رنگ والی عبارت میں کہا جا رہا ہے کہ :
حق رجوع کو واپس لینے کی وجہ ایک مانع ہے اور حق رجوع واپس لیا جا رہا ہے۔
حضرت عمر نے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین شمار کر کے اللہ کا دیا ہوا حق رجوع واپس نہیں لیا۔

پھر دیکھیں سرخ رنگ والی عبارت میں کہا جا رہا ہے کہ:
نص قرآنی سے یہ ثابت ہے کہ ایسی طلا ق واقع ہی نہیں ہوتی۔
ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرنا اللہ کے دیئے ہوئے موقع و گنجائش کو ختم کرنا ہے۔
یہ فیصلہ کتاب و سنت کے خلاف تھا اور ، ایک ایسا فتویٰ تھا کہ جس کا وبال بصورت حلالہ پڑتا ہے۔

اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ سارے کا سار ا موقف ساتویں صدی ہجری کے ابن تیمیہ و ابن القیم کا ہے ، جس کے حوالے ان حضرات نے خود ہی دیے ہوئے ہیں اور پھر اس کو منسوب کیا جاتا ہے، سلف و خلف کی طرف۔جبکہ بتایا جا چکا ہے کہ جمہور سلف و خلف بشمول ائمہ اربعہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی شمار ہوں گی

انس نضر بھائی پوسٹ نمبر ۲۵ میں لکھتے ہیں۔
آپ کا اجماعِ صحابہ کا دعویٰ صحیح نہیں، بلکہ اوپر موجود سیدنا ابن عباس کی صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کے مطابق عہدِ ابی بکر اور عہد عمر کے ابتدائی سالوں میں اجماعِ صحابہ تین طلاقوں کے ایک واقع ہونے پر تھا، بعد میں جب سیدنا عمر نے ’مخصوص حالات‘ کی بناء پر اپنا سیاسی فیصلہ فرمایا تو اس کے بعد بھی اس پر اجماع نہیں ہوا، بلکہ ہر دور میں اہل علم اس سے اختلاف کرتے رہے۔
انس نضر بھائی ہی پوسٹ نمبر ۳۰ میں لکھتے ہیں۔
اصولِ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اجماع نہ منسوخ ہوتا اور نہ ہی کسی شرعی حکم کو منسوخ کرتا ہے۔ اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ کسی ایک اصولِ فقہ کی کتاب سے دکھا دیجئے کہ ’اجماع‘ منسوخ ہو سکتا یا کسی شرعی حکم کو منسوخ کر سکتا ہے؟!!
دیکھیے خود ہی اجماع قدیم نقل بھی کر رہے ہیں اور پھر خود ہی اصول فقہ بھی بتاتے ہیں کہ اجماع نہ منسوخ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی شرعی حکم کو منسوخ کرتا ہے۔ پھر کیسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اجماع قدیم منسوخ بھی ہوا، اور اوپر نقل کردہ قرآن کا بیان کردہ شرعی حکم بھی منسوخ ہوا۔

انس نضر بھائی پوسٹ نمبر ۳۰ میں لکھتے ہیں۔
کیونکہ ہم صرف اجماع کی بناء پر متعہ کو منسوخ نہیں سمجھتے بلکہ صحیح وصریح حدیث مبارکہ کی بناء پر متعہ کو منسوخ سمجھتے ہیں۔
ابوالحسن علوی بھائی پوسٹ نمبر 34 میں لکھتے ہیں۔
کتاب وسنت تو اسی دن سے نافذ تھے جس دن سے حضرت امیر المومنین خلافت سنبھالی تھی۔ اگر آپ کے بقول بعد میں انہوں نے سنت کا نفاذ کیا تھا تو صحابہ اس مجلس کے اجتماعی فیصلہ سے پہلے کیا نافذ تھا؟؟؟اگر کتاب وسنت نافذ تھا تو ایک نافذ شدہ چیز کو دوبارہ نافذ کرنا، معاف کیجیے گا، یہاں پہنچ کر آپ کے اس سارے فلسفہ کی عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے۔
ایک خاص وقت میں ہی پہلے سے نافذ شدہ سنت کے دوبارہ نفاذ کی ضرورت کیوں پڑی ؟؟؟
یہ دوبارہ نفاذ ایک ہی سنت کا کیوں کیا گیا؟ نماز، روزے، حج وزکوۃ اور دیگر شرعی احکام کا دوبارہ نفاذ کیوں نہ ہوا؟؟؟
یہ دو صحیح احادیث صحیح مسلم سے نقل کر رہا ہوں کہ جن سے پتہ چلتا ہے کہ صحیح و صریح احادیث مبارکہ کی موجودگی میں عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک متعہ ہوتا رہا۔ اورپھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس نافذ شدہ حرمت متعہ کو پھر سے نافذ کرنا پڑا۔

صحیح مسلم جلد 4 صفحہ 20 پر ہے عطاء نے کہا کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عمرے کے لیے آئے اور ہم سب ان کی منزل میں ملنے کےلیے گئے اور لوگوں نے ان سے بہت باتیں پوچھیں پھر متعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا ہاں ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک اور ابوبکر و عمر کے زمانہ خلافت میں متعہ کیا ہے۔

جابر رضی اللہ عنہ کہتےتھے کہ ہم متعہ کرتے تھے یعنی عورتوں سے کئی دن کےلیےایک مٹھی کھجور اور آٹا دے کر رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر کے زمانہ میں یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے عمرو بن حریث کا قصہ میں منع کیا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
{اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ }الشورى15
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاکم اللہ خیرا عمر معاویہ بھائی!
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
شکریہ شاکر بھائی آپ کی پوسٹ کا قرآن و احادیث صحیحہ سے پوسٹ مذکورہ کا جواب:
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

تفسیر السعدی کے مطابق بھی ایک مجلس کی تین طلاقیں ضرر رساں اور لاگو ہوتی ہیں۔

دارلسلام کی شائع شدہ ، اردو تفسیر السعدی جلد 2 صفحہ 278 دیکھیے ۔
اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما یا یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو رجعت کا حق حاصل ہے، صرف دو مرتبہ ہے ، تاکہ اگر خاوند اپنی بیوی کو ضرر پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتا، تو اس مدت کے دوران میں طلاق دینے کے فیصلے سے رجوع کر سکتا ہے۔ رہا اس سے زیادہ مرتبہ طلاق دینا تو یہ طلاق کا محل نہیں، کیونکہ جو کوئی دو مرتبہ سے زیادہ طلاق دیتا ہے، وہ یا تو حرام فعل کے ارتکاب کی جرات کرتا ہے یا اسے اپنی بیوی کو رکھنے میں رغبت نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔

امیر المومنین فی الحدیث اما م بخاری رحمہ بھی البقرۃ کی آیت 229 سے ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع کی دلیل لیتےہیں۔اور نیچے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس دلیل کو ثابت کرتے ہیں۔ امام بخاری نے ان احادیث سے ایک مجلس کی تین طلاق کے واقع ہونے کی دلیل لی اور انہیں باب من اجازہ طلاق الثلاث میں بیان کیا۔
دیکھیے صحیح بخاری جلد ۷
امام بخاری رحمہ صحیح بخاری میں باب باندھتے ہیں۔
باب من اجاز طلاق الثلاث لقول اللہ تعالیٰ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان
باب جس نے تین طلاقو ں کی اجازت دی اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی روشنی میں کہ طلاق تو دوبار ہی کی ہے، اس کے بعد یا تو رکھ لینا ہےقاعدے کے مطابق یا پھر خوشی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
نیچے عویمر عجلانی کی لعان کے بعد طلاق والی حدیث بیان کرتےہیں۔
نیچے رفاہ قرضی کی طلاق والی والی حدیث بیان کرتے ہیں۔

اور امیر المونین فی الحدیث اپنی صحیح میں ایک اور باب باندھتے ہیں جس کا نام رکھتے ہیں۔
با ب اللعان و من طلق بعد اللعان
لعان اور لعان کے بعد طلاق دینے کا بیان
اور اس میں پھر عویمر عجلانی کی لعان والی حدیث لاتےہیں۔

اس سے امام بخاری رحمہ کا موقف بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اس حدیث کو ایک مجلس میں تین طلاق کی قطعی دلیل سمجھتےہیں اور پہلے اسے ایک مجلس کی تین طلاق کے باب میں لاتے ہیں، اور پھر الگ سے اسے لعان اور لعان کے بعد ایک ہی مجلس میں طلاق دینے والے باب میں بھی لاتے ہیں۔​
کیا آپ لوگوں کی حدیث فہمی امیرالمونین فی الحدیث امام بخاری رحمہ سے بھی بڑھ گئی ہے۔

عویمر عجلانی کی لعان والی حدیث کے بارے میں محقق اہل حدیث حافظ زبیر علی زئی موطا امام مالک صفحہ 319 پر لکھتے ہیں صحیح بخاری کی احادیث سے ثابت ہے کہ جب لعان کرنے والے نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی، لہذا جدائی کا سبب طلاق ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جدائی کا سبب لعان ہے ، لیکن یہ قول محل نظر ہے۔

اسی کتاب کے صفحہ 320 پر لکھتے ہیں۔
حالت حیض میں طلاق دینا جائز نہیں ہے لیکن اگر دی جائے تو یہ شمار ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ بدعی طلاق واقع ہو جاتی ہے اگر چہ ایسی طلاق دینا غلط ہے۔

جہاں تک آپ کے معاصر اہل حدیث علماء کےاجتہاد کا تعلق ہے اوپر میں نے حالت حیض میں طلاق کا موطا امام مالک ترجمہ و تشریح شدہ حافظ زبیر علی زئی سال طبع 2009کے قلم سے موقف دکھایا، اب صحیح بخاری از داؤد راز طبع 2004 دیکھیے صفحہ 29 پر ہےائمہ اربعہ اور اکثر فقہاء تو اس طرح گئے ہیں کہ یہ طلاق شمار ہو گی اور ظاہریہ اور اہل حدیث اور امامیہ اور ہمارے مشائخ میں سے امام ابن تیمیہ، امام ابن حزم اور علامہ ابن القیم اور جناب محمد باقر اور حضرت جعفر صادق اور امام ناصر اور اہل بیت کا یہ قول ہے کہ اس طلاق کا شمار نہ ہو گا۔ اس لیے کہ یہ بدعی اور حرام تھی، شوکانی اور محققین اہل حدیث نے اس کو ترجیح دی ہے۔ ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء نے اسی سے دلیل لی ہے اور یہ کہا ہےکہ جب ابن عمر خود کہتے ہیں کہ یہ طلاق شمار کی گئی تو اب اس کےوقوع میں کیا شک رہا، ہم کہتےہیں کہ ابن عمر کا صرف قول حجت نہیں ہو سکتا کیونکہ انہوں نے یہ بیان نہیں کیا کہ حضرت نے اس کے شمار کیے جانے کا حکم دیا۔

ایک ہی جماعت اہل حدیث میں اتنے اہم مسئلے میں اتنا بڑا تضاد کیوں ہے؟؟؟
یہ ہوتا ہے جمہور سلف و خلف کے موقف سے انحراف اور بے اعتمادی کا نتیجہ کہ ایک ہی جماعت کے محققین طلاق جیسے نازک معاملات میں صحیح موقف اپنا نہیں سکتے اور دونوں کے درمیان کچھ صدیوں کے فاصلے کی بات بھی نہیں صرف 5 سال پہلے جو چیز ازروئے احادیث صحیحہ واقع نہ ہوتی تھی وہ پانچ سال بعد ازروئے احادیث صحیحہ واقع ہو جاتی ہے۔ آپ کے نزدیک 2004 کا موقف صحیح ہے یا 2009والا۔

امام نسائی رحمہ نے بھی احادیث مبارکہ سے ایک مجلس کی تین طلاق کے واقع ہونے کی دلیل لی اور باب باندھا اور اس باب کے تحت احادیث بیان کیں۔
دیکھیے سنن نسائی جلد دوم
امام نسائی سنن نسائی میں باب باندھتے ہیں،
باب الرخصۃ فی ذالک،
یکبارگی تین طلاق دینے کی رخصت۔
اور نیچے عویمر عجلانی کی طلاق والی حدیث بیان کرتےہیں۔
اورنیچے فاطمہ بنت قیس کی طلاق والی حدیث بیان کرتے ہیں۔
امام نسائی نے آپ کی دلیل والی حدیث ابن عباس کو غیر مدخولہ کے بارے میں کہا اور طلاق غیر مدخولہ کے باب میں بیان کیا۔
باب طلاق الثلاث المتفرقۃ قبل الدخول بالزوجۃ
تین طلاق متفرق کر دینے کا بیان زوجہ کے ساتھ دخول سے پہلے
اور نیچے ابوصہبا و ابن عباس والی حدیث بیان کرتےہیں۔

امام ماجہ بھی ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع کے قائل ہیں اور مجلس واحد کی تین طلاق کا باب باندھتے ہیں اور نیچے ، امام نسائی کے نقش قدم پر بطور دلیل فاطمہ بنت قیس والی حدیث بیان کرتے ہیں۔
باب من طلق ثلاثا فی مجلس واحد
باب اس کے بارے میں جو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دے۔
اور نیچے فاطمہ بنت قیس والی حدیث بیان کرتےہیں۔

امام ترمذی بھی ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع کے قائل ہیں اور آپ کی دوسری دلیل حدیث رکانہ کو طلاق البتہ کے باب میں بیان کرتے ہیں ۔
باب ماجاء فی الرجل یطلق امراتہ البتۃ
باب جو شخص اپنی بیوی کو البتہ کےلفظ سے طلاق دے
اور نیچے حدیث رکانہ لاتے ہیں۔

سنن ابو داؤد شائع شدہ دارلسلام جلد 2 صفحہ 683پر فوائد و مسائل میں ابو عمار عمر فاروق سعیدی لکھتے ہیں۔
وہ طلاق کے صحیح طریقے سے بے خبر ہونے کی وجہ سے بیک وقت تین طلاقیں دے دیتے ہیں(حالانکہ ایسا کرنا سخت منع ہے) پھر پچھتاتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ اسے ایک طلاق شمار کیا جائے اور اسے رجوع کا حق دیا جائے۔

اگر بیک وقت تین طلاق دینے سے کچھ نہیں ہوتا ، تو پھر پچھتانے سے کیا معنی؟؟؟ اور بقول آپ کے دور نبوی اور دور صدیقی میں ایسا کام ہوتا رہا کہ جو سخت منع ہے اور پھر پچھتاتے بھی رہے؟؟؟

ابو محمد موفق حنبلی کی المغنی لابن قدامۃجلد 7 صفحہ 370 دیکھیے۔
وَإِنْ طَلَّقَ ثَلَاثًا بِكَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، وَقَعَ الثَّلَاثُ، وَحَرُمَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ، وَلَا فَرْقَ بَيْنَ قَبْلِ الدُّخُولِ وَبَعْدَهُ. رُوِيَ ذَلِكَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَالْأَئِمَّةِ بَعْدَهُمْ. وَكَانَ عَطَاءٌ، وَطَاوُسٌ، وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، وَأَبُو الشَّعْثَاءِ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، يَقُولُونَ: مَنْ طَلَّقَ الْبِكْرَ ثَلَاثَةً فَهِيَ وَاحِدَةٌ. وَرَوَى طَاوُسٌ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَرَوَى سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، وَمُجَاهِدٌ، وَمَالِكُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، خِلَافَ رِوَايَةِ طَاوُسٍ، أَخْرَجَهُ أَيْضًا أَبُو دَاوُد. وَأَفْتَى ابْنُ عَبَّاسٍ بِخِلَافِ مَا رَوَاهُ عَنْهُ طَاوُسٌ۔
ابن عباس، ابو ہریرہ ، ابن عمر، عبداللہ بن عمرو، ابن مسعود اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق واقع ہو جاتی ہیں اور عورت اس پر حرام ہو جائے گی حتی کہ کسی دوسرے مرد سے شادی کرے اور پھر بیوہ ہو یا طلاق پائے اور اس میں مدخولہ یا غیر مدخولہ کا کوئی فرق نہیں۔
اور یہی قول ہے بعد کے اکثر اہل علم کا تابعین اور ائمہ میں سےبھی۔
اور عطاء ، طاؤس سعید بن جبیر، ابو الشعثا اور عمرو بن دینار کا کہنا ہے کہ غیر مدخولہ کی اکٹھی تین طلاقیں ایک ہوں گی۔
اور طاؤس ابن عباس سے روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ کی ابتدائی خلافت میں تین طلاقیں ایک ہوتی تھیں، اور سعید بن جبیر، عمرو بن دینار، مجاہد، اور مالک بن الحارث ابن عباس سے طاؤس کی روایت کے خلاف روایت کرتےہیں، اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ بھی طاؤس کی روایت کے خلاف ہے۔

اسی حدیث کی علتیں جو سلف و خلف نے بیان کی ہیں بے شمار ہیں۔

۱۔ خبر واحدہے ، جبکہ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ ممکن ہی نہیں کہ معاشرے میں اتنا بڑا ہلچل مچا دینے والا کام ہو اور اس کو بیان کرنے والا صرف ایک راوی ہو۔
۲۔ ابن عباس کے باقی شاگرد اس کے خلاف روایت کرتےہیں۔
۳۔ اس کے معانی و مطالب میں بہت گنجائش ہے اور صرف وہی مطلب نہیں نکلتا جو آپ نکال رہے ہیں،جیسے سلف و خلف نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ غیر مدخولہ کے متعلق ہو، ہو سکتا ہے کہ یہ اس شخص کے متعلق ہو کہ جو لفظ البتہ سے طلاق دیتا ہے اور نیت ایک کی رکھتا ہے، جیسا کہ البتہ سے ایک یا تین کچھ بھی مراد ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ اس شخص کے متعلق ہو جو طلاق تو ایک دے رہا تھا مگر تاکیدا اسی کو دھرا رہا تھا۔
۴۔ سب سے بڑی بات کہ راوی یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ اس کے خلاف موجود ہے، ہو نہیں سکتا کہ جبرا لامۃ جیسے صحابی کے پاس نبی کریم ﷺ کی کوئی سنت موجود ہو اور وہ اس کے خلاف فتویٰ بھی دیں؟

اور یہ دیکھیے آپ کی دوسری دلیل حدیث رکانہ کے بارے میں سنن بیقہی سے فرق یہ ہے کہ آپ بیہقی کی اس حدیث کا حوالہ تو دیتے ہیں مگر اس حدیث پر جو حکم لگا ہے وہ بیان نہیں کیا جاتا دیکھیے پوری حدیث مع حکم کے۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: طَلَّقَ رُكَانَةُ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ طَلَّقْتَهَا؟ " قَالَ: طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا , فَقَالَ: " فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟ " قَالَ: نَعَمْ قَالَ: " فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَارْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ " فَرَاجَعَهَا فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَرَى إِنَّمَا الطَّلَاقُ عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ فَتِلْكَ السُّنَّةُ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا النَّاسُ وَالَّتِي أَمَرَ اللهُ لَهَا {فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} [الطلاق: 1] أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَارِثِ أنا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ نا مُسْلِمُ بْنُ عِصَامٍ نا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعْدٍ نا عَمِّي نا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ فَذَكَرَهُ وَهَذَا الْإِسْنَادُ لَا تَقُومُ بِهِ الْحُجَّةُ مَعَ ثَمَانِيَةٍ رَوَوْا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فُتْيَاهُ بِخِلَافِ ذَلِكَ وَمَعَ رِوَايَةِ أَوْلَادِ رُكَانَةَ أَنَّ طَلَاقَ رُكَانَةَ كَانَ وَاحِدَةً وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ
سنن بیہقی جلد ۷ صفحہ 555

یہ اسناد اس معاملے میں حجت نہیں کیونکہ 8 راوی ابن عباس سے اس کے مخالف روایت کرتے ہیں۔ اور مزید یہ کہ رکانہ کےگھر والے بھی کہتےہیں کہ رکانہ نے ایک طلاق دی تھی۔

حدیث رکانہ پر ایک اور بڑا اعتراض بھی وارد ہوتا ہے کہ جب اس عہد بلکہ ابتدائی عہد عمر رضی اللہ عنہ تک تین طلاقیں ایک ہی سمجھی جاتی تھیں، تو پھر رکانہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی، کسی ضرر کا اندیشہ تھا تو پوچھا گیا تھاناں۔ اور رکانہ ہی کے حوالے سے سنن ابو داؤد میں وارد حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین بار حلف دے کر پوچھتے ہیں کہ تمہاری مراد کیا تھی ، رجعی طلاق یا قطعی طلاق؟ وہی سوال کہ اگر ایک طہر میں تین کا محل ہی نہیں تھا تو پھر پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟

اور پیچھے ایک پوسٹ میں انس بھائی نے اغاثہ سے ایک مردود روایت رجوع عمر کے بارے میں بیان کی تھی کہ جس کی اتنی اہمیت ہے کہ سلف و خلف میں سے سوائے ابن القیم کے کسی نے اس روایت کو اپنے موقف کی دلیل میں بیان نہیں کیا۔ نیچے دیکھیے اس کے ایک راوی کے میزان الاعتدال سے حالات۔ یہ راوی کچھ نہیں، ثقہ نہیں، ضعیف بھی ہے اور صحابہ پر جھوٹ بھی بولتا تھا، اور اس کی کتابیں دفن کر دینے کے قابل ہیں۔

سیدنا عمر نے اپنے اس اجتہادی فیصلے پر آخری ایام میں اظہار ندامت بھی فرمایا تھا کہ انہیں بطور سزا یہ اقدام نہیں کرنا چاہئے تھا۔ (دیکھئے إغاثة اللهفان 1 ؍ 351)

2475 - خالد بن يزيد بن عبد الرحمن بن أبي مالك [ق] الدمشقي.
وقال أحمد: ليس بشئ.
وقال النسائي: غير ثقة.
وقال الدارقطني: ضعيف.
وقال ابن عدي، عن ابن أبي عصمة، عن أحمد بن أبي يحيى: سمعت أحمد بن حنبل يقول: خالد بن يزيد بن أبي مالك ليس بشئ.
وقال ابن أبي الحواري سمعت ابن معين يقول: بالعراق كتاب بنبغى أن يدفن تفسير الكلبي، عن أبي صالح.
وبالشام كتاب ينبغي أن يدفن كتاب الديات لخالد بن يزيد بن أبي مالك، لم يرض أن يكذب على أبيه حتى كذب على الصحابة.

امام شوکانی نیل اوطار جلد 6 صفحہ 274 میں لکھتے ہیں۔
فَذَهَبَ جُمْهُورُ التَّابِعِينَ وَكَثِيرٌ مِنْ الصَّحَابَةِ وَأَئِمَّةِ الْمَذَاهِبِ الْأَرْبَعَةِ وَطَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ مِنْهُمْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٌّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
(ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی شمار ہوتی ہیں ) یہی مذہب جمہور تابعین اور کثیر صحابہ اور ائمہ مذاہب اربعہ اور اہل بیت میں سے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے۔

اس سے پہلے جمہور و سلف و خلفہ و ائمہ اربعہ کے ایک مجلس کی تین طلاق کےتین ہی ہونے ، اور خلیفہ راشد کے فیصلے کے شرعی اور حجت ہونے کے دلائل ابن القیم کی اعلام الموقعین سے بیان کیے گئے ہیں، مزید دیکھیے علامہ ابن جوزی رحمہ کی تلبیس ابلیس سے انہی دلائل کی تشریح ۔

تلبیس ابلیس صفحہ 29 دیکھیے، ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سے دو بہتر ہیں اور تین سےچار بہتر ہیں، پس تم پر واجب ہے کہ جماعت کو لازم پکڑو کیوں کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ میری امت کو سوائے ہدایت کے جمع کرے۔

صفحہ 34 پر دیکھیے، علیکم بسنتی و سنۃ خلفاء راشدین مہدیین کی تشریح میں ہے پس ان خلفائے راشدین کی سنت بھی طریقہ نبوت میں شامل ہے کیوں کہ یہ نبوت کی خلافت تھی۔

صفحہ 38 پر دیکھیے، سنت کے معنی راہ کےہیں اور کچھ شک نہیں کہ جو لوگ اہل حدیث و آثار ہیں کہ بذرعیہ ثقات اولیا کی روایات کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے اصحاب و خلفائے راشدین کےنشان قدم کی پیروی کرتے ہیں، یہی لوگ اہل السنۃ ہیں۔ کیوں کہ یہی اس راہ طریقہ پر ہیں جس میں کوئی نئی نکالی ہوئی بات شامل نہیں ہونے پائی۔ اس لیے کہ بدعتیں اور نئے طریقے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریقہ کے بعد نکلے ہیں۔

صفحہ 156 پر دیکھیے ، واضح ہو کہ خارجی لوگ بہت عبادت کیا کرتے تھے ، مگر ان کی حماقت کا یہ اعتقاد تھا کہ وہ لوگ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر عالم ہیں اور یہی ان کا سخت مہلک مرض تھا۔

ذیل میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے کچھ فتاوے و اعمال دئے درج کئے جاتے ہیں اس بارے وضاحت کریں کہ احناف نظر میں یہ درست ہیں یا نہیں ؟؟؟
اگر درست ہیں تو احناف کے یہاں یہ قابل قبول کیوں نہیں اوردرست نہیں ہیں ؟؟:




١: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک امام کے پیچھے جہر وسر دونوں حالتوں میں فاتحہ کی قرات کی جائے گی۔
امام حاكم رحمه الله (المتوفى:405)نے کہا:
حَدَّثَنَاهُ أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، ثنا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، أَنْبَأَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، ثنا أَبُو كُرَيْبٍ، ثنا حَفْصٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ جَوَّابٍ التَّيْمِيِّ، وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ شَرِيكٍ، أَنَّهُ سَأَلَ عُمَرَ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ، فَقَالَ: " اقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، قُلْتُ: وَإِنْ كُنْتَ أَنْتَ؟ قَالَ: �وَإِنْ كُنْتُ أَنَا� ، قُلْتُ: وَإِنْ جَهَرْتَ؟ قَالَ: �وَإِنْ جَهَرْتُ� [المستدرك على الصحيحين للحاكم: 1/ 365]۔




امام دارقطني رحمه الله (المتوفى:385)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْقَاسِمِ بْنِ زَكَرِيَّا , ثنا أَبُو كُرَيْبٍ , ثنا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ , عَنِ الشَّيْبَانِيِّ , عَنْ جَوَّابٍ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ شَرِيكٍ , قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ , فَأَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ , قَالَ: قُلْتُ: وَإِنْ كُنْتَ أَنْتَ؟ , قَالَ: �وَإِنْ كُنْتُ أَنَا� , قُلْتُ: وَإِنْ جَهَرْتَ؟ , قَالَ: �وَإِنْ جَهَرْتُ� . هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ [سنن الدارقطني: 1/ 317]۔




٢: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک سورۃ الحج میں سجدے ہیں۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235)نے کہا:
حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صُعَيْرٍ، أَنَّهُ صَلَّى مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ �فَقَرَأَ بِالْحَجِّ، فَسَجَدَ فِيهَا سَجْدَتَيْنِ�[مصنف ابن أبي شيبة: 1/ 373]




٣: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک سجدہ تلاوت واجب نہیں۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى:256)نے کہا:
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى قَالَ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهُدَيْرِ التَّيْمِيِّ قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ رَبِيعَةُ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ عَمَّا حَضَرَ رَبِيعَةُ مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَرَأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ بِسُورَةِ النَّحْلِ حَتَّى إِذَا جَاءَ السَّجْدَةَ نَزَلَ فَسَجَدَ وَسَجَدَ النَّاسُ حَتَّى إِذَا كَانَتْ الْجُمُعَةُ الْقَابِلَةُ قَرَأَ بِهَا حَتَّى إِذَا جَاءَ السَّجْدَةَ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا نَمُرُّ بِالسُّجُودِ فَمَنْ سَجَدَ فَقَدْ أَصَابَ وَمَنْ لَمْ يَسْجُدْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَلَمْ يَسْجُدْ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ [صحيح البخاري: 2/ 504]۔




٤: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھنا چاہئے۔
امام مالك رحمه الله (المتوفى:179)نے کہا:
عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ كَتَبَ إِلَى عُمَّالِهِ: " إِنَّ أَهَمَّ أَمْرِكُمْ عِنْدِي الصَّلَاةُ. فَمَنْ حَفِظَهَا وَحَافَظَ عَلَيْهَا، حَفِظَ دِينَهُ. وَمَنْ ضَيَّعَهَا فَهُوَ لِمَا سِوَاهَا أَضْيَعُ، ثُمَّ كَتَبَ: أَنْ صَلُّوا الظُّهْرَ، إِذَا كَانَ الْفَيْءُ ذِرَاعًا، إِلَى أَنْ يَكُونَ ظِلُّ أَحَدِكُمْ [ص:7] مِثْلَهُ. وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ، قَدْرَ مَا يَسِيرُ الرَّاكِبُ فَرْسَخَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ وَالْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ. وَالْعِشَاءَ إِذَا غَابَ الشَّفَقُ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ. فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ. فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ فَمَنْ نَامَ فَلَا نَامَتْ عَيْنُهُ ". وَالصُّبْحَ وَالنُّجُومُ بَادِيَةٌ مُشْتَبِكَةٌ[موطأ مالك ت عبد الباقي: 1/ 6]۔




٥: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک عصر کا وقت ایک مثل سایہ کے بعد شروع ہوجاتاہے۔
امام ابن المنذر رحمه الله (المتوفى:319)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: ثنا حَجَّاجٌ، قَالَ: ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ أَسْلَمَ، قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنَّ وَقْتَ الظُّهْرِ إِذَا كَانَ الظِّلُّ ذِرَاعًا إِلَى أَنْ يَسْتَوِيَ أَحَدُكُمْ بِظِلِّهِ[الأوسط لابن المنذر: 2/ 328]۔




٦: عمر فارق رضی اللہ عنہ نے حج تمتع سے منع کیا۔
امام بخاري رحمه الله (المتوفى:256) نے کہا:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ حَدَّثَنِي مُطَرِّفٌ عَنْ عِمْرَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ تَمَتَّعْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَزَلَ الْقُرْآنُ قَالَ رَجُلٌ بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ.
[صحيح البخاري: 4/ 78]




٧: عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ام ولد لونڈی کی خرید وفروخت سے منع کیا۔
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى:275)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: �بِعْنَا أُمَّهَاتِ الْأَوْلَادِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ نَهَانَا فَانْتَهَيْنَا�[سنن أبي داود: 2/ 421]۔




٨: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مفقودالخبر شوہر کی بیوی چارسال انتظارکرے گی۔
امام مالك رحمه الله (المتوفى:179) نے کہا:
عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: �أَيُّمَا امْرَأَةٍ فَقَدَتْ زَوْجَهَا فَلَمْ تَدْرِ أَيْنَ هُوَ؟ فَإِنَّهَا تَنْتَظِرُ أَرْبَعَ سِنِينَ، ثُمَّ تَعْتَدُّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ثُمَّ تَحِلُّ�[موطأ مالك ت عبد الباقي: 2/ 575]۔




امام سعید بن منصور رحمه الله (المتوفى:227) نے کہا:
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا هُشَيْمٌ، قَالَ: أنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ: �تَرَبَّصُ امْرَأَةُ الْمَفْقُودِ أَرْبَعَ سِنِينَ، ثُمَّ تَعْتَدُّ عِدَّةَ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا، وَتَزَوَّجُ إِنْ شَاءَتْ� .[سنن سعيد بن منصور (1/ 449)]۔




٩:عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مروجہ نکاح حلالہ میں فریقین کے لئے رجم کی سزاء ہے۔
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى:211) نے کہا:
عَنِ الثَّوْرِيِّ، وَمَعْمَرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ جَابِرٍ الْأَسْدِيِّ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: �لَا أُوتَى بِمُحَلِّلٍ وَلَا بِمُحَلَّلَةٍ إِلَّا رَجَمْتُهُمَا�[مصنف عبد الرزاق: 6/ 265]۔




امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227)نے کہا:
أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ، نا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمُسَيِّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ جَابِرٍ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: �لَا أَجِدُ مُحِلًّا وَلَا مُحَلَّلًا لَهُ إِلَّا رَجَمْتُهُ�[سنن سعيد بن منصور: 2/ 75]۔




امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: �لَا أُوتِيَ بِمُحَلِّلٍ وَلَا مُحَلَّلٍ لَهُ إِلَّا رَجَمْتُهُمَا�[مصنف ابن أبي شيبة: 7/ 292]۔




١٠: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک بغیر ولی کے شادی شدہ جوڑے پر کوڑے لگائے جائیں گے۔
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227):
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، ثنا ابْنُ الْمُبَارَكِ، نا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ بْنَ خَالِدٍ يَقُولُ: �جَمَعَتِ الطَّرِيقُ رَكْبًا، فَوَلَّتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ أَمْرَهَا رَجُلًا، فَزَوَّجَهَا، فَرُفِعُوا إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَجَلَدَ النَّاكِحَ وَالْمُنْكِحَ، وَفَرَّقَ بَيْنَهُمَا� [سنن سعيد بن منصور: 1/ 175]۔




امام دارقطني رحمه الله (المتوفى:385) نے کہا:
نا أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ , نا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ , نا رَوْحٌ , نا ابْنُ جُرَيْجٍ , أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ شَيْبَةَ , عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ , قَالَ: جَمَعَتِ الطَّرِيقُ رَكْبًا فَجَعَلَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُمْ ثَيِّبٌ أَمْرَهَا بِيَدِ رَجُلٍ غَيْرِ وَلِيٍّ فَأَنْكَحَهَا فَبَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ �فَجَلَدَ النَّاكِحَ وَالْمُنْكِحَ وَرَدَّ نِكَاحَهَا�[سنن الدارقطني: 3/ 225]۔




١١: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک حالت احرام میں نکاح ممنوع ہے۔
امام مالك رحمه الله (المتوفى:179) نے کہا:
عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، أَنَّ أَبَا غَطَفَانَ بْنَ طَرِيفٍ الْمُرِّيَّ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ طَرِيفًا تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَهُوَ مُحْرِمٌ �فَرَدَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ نِكَاحَهُ�[موطأ مالك ت عبد الباقي: 1/ 349]۔




امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458) نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ الْمُزَكِّي , ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ , أنبأ الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ , أنبأ الشَّافِعِيُّ , أنبأ مَالِكٌ , عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ , عَنْ أَبِي غَطَفَانَ بْنِ طَرِيفٍ الْمُرِّيِّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ طَرِيفًا تَزَوَّجَ امْرَأَةً وَهُوَ مُحْرِمٌ فَرَدَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ نِكَاحَهُ [السنن الكبرى للبيهقي: 5/ 66]۔




١٢: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک غلام اپنی بیوی کو صرف دو طلاق دے سکتا ہے۔
امام شافعي رحمه الله (المتوفى: 204) نے کہا:
أخبرنا سُفْيَانُ عن محمدِ بنِ عبدِ الرحمنِ مَوْلَى آلِ طلحَةَ عن سُليمانَ ابنِ يَسَارٍ عن عبدِ اللَّهِ بن عُتْبَةَ عن عُمَرُ بنُ الخطابِ أنَّهُ قال : - ينْكِحُ العبدُ امرأتينِ ويُطَلِّقُ تَطْلِيقَتَيْنِ وتَعْتَدُّ الأَمَّةُ حَيْضَتَيْنِ فإنْ لم تكنْ تحيضُ فشهرينِ أوْ شهراً ونصفاً قال سفيانُ : وكان ثقَةً ( ومنه يؤخذ أن عدة الأمة على النصف من عدة الحرة ) [مسند الشافعي،ص: 1283]۔




امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227) نے کہا:
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ قَالَ: نا سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: " يَنْكِحُ الْعَبْدُ اثْنَتَيْنِ وَيُطَلِّقُ تَطْلِيقَتَيْنِ، وَتَعْتَدُّ الْأَمَةُ حَيْضَتَيْنِ، فَإِنْ لَمْ تَحِضْ فَشَهْرًا وَنِصْفًا أَوْ قَالَ: شَهْرَيْنِ، شَكَّ سُفْيَانُ "[سنن سعيد بن منصور: 1/ 344]۔




١٣: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک زبردستی کی طلاق مردود ہے۔
امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227)نے کہا:
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ: نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ قُدَامَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْجُمَحِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي قُدَامَةَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ رَجُلًا عَلَى عَهْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَدَلَّى بِشَتَّارٍ عَسَلًا فَأَقْبَلَتِ امْرَأَتُهُ فَجَلَسَتْ عَلَى الْحَبْلِ، فَقَالَتْ: لَتُطَلِّقَنَّهَا ثَلَاثًا وَإِلَّا قَطَعَتِ الْحَبْلَ، فَذَكَّرَهَا اللَّهَ وَالْإِسْلَامَ أَنْ تَفْعَلَ فَأَبَتْ أَوْ تَقْطَعَ الْحَبْلَ أَوْ يُطَلِّقَهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: �ارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ فَلَيْسَ هَذَا بِطَلَاقٍ�[سنن سعيد بن منصور: 1/ 313]۔




١٤: عمرفاروق رضی اللہ عنہ رکوع والا رفع الیدین کرتے اور ہرنماز کی آخری بیٹھک میں تورک کرتے تھے اوراسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بتلاتے تھے۔
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458) نے کہا:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، قال: حدثني أبو أحمد الحسين بن علي، قال: حدثنا محمد بن إسحاق، قال: حدثنا أحمد بن الحسن الترمذي، حدثنا الحجاج بن ابراهيم الازرق، أخبرنا عبد الله بن وهب، أخبرني حيوة، عن ابي عيسي سليمان بن کيسان، عن عبد الله بن القاسم، قال: بينما الناس يصلون يطلولون في القيام والقعود والرکوع والسجود اذ خرج عمر بن الخطاب فلما راي ذلک غضب وهيت بهم حتي تجوزوا في الصلاة فانصرفوا فقال عمر اقبلوا علي بوجوهکم وانظروا الي کيف اصلي بکم صلاة رسول الله صلي الله عليه وسلم التي کان يصلي فيأمر بها فقام مستقبل القبلة فرفع يديه حتي حاذا بهما منکبيه فکبر ثم غض بصره وخفض جناحه ثم قام قدر ما يقرأ بأم القرأن وسورة من المفصل ثم رفع يديه حتي حاذي بهما منکبيه فکبر ثم رکع فوضع راحتيه علي رکبتيه وبسط يديه عليهما ومد عنقه وخفض عجزه غير منصوب ولا متقنع حتي ان لو قطرة ماء وقعت في فقرة قفاه لم تنته ان تقع فمکث قدر ثلاث تسبيحات غير عجل ثم کبر وذکر الحديث الي ان قال ثم کبر فرفع رأسه فاستوي علي عقبيه حتي وقع کل عظم منه موقعه ثم کبر فسجد قدر ذلک ورفع رأسه فاستوي قائما ثم صلي رکعة اخري مثلها ثم استوي جالسا فنحي رجليه عن مقعدته والزم مقعدته الارض ثم جلس قدر ان يتشهد بتسع کلمات ثم سلم وانصرف فقال للقوم هـکذا کان رسول اله صلي الله عليه وسلم يصلي بنا.
[خلافيات البيهقي ـ نقلا عن ـ مسند الفاروق لابن کثير:1/ 166 - 164،
وهو موجود في المكتبة الشاملة، وشرح الترمذي لإبن سيد الناس: 2/ 712، مخطوط، وفيه ذكر إسناده كاملا وذكره أيضا مختصرا الحافظ ابن حجر في الدراية في تخريج أحاديث الهداية 1/ 154والزيلعي في نصب الراية 1/ 415 وإسناده حسن].





١٥: ھدم طلاق سے متعلق عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا موقف۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: سَمِعْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: سَأَلْتُ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْبَحْرَيْنِ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً أَوْ تَطْلِيقَتَيْنِ، فَتَزَوَّجَتْ، ثُمَّ إِنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا، ثُمَّ إِنَّ الْأَوَّلَ تَزَوَّجَهَا، عَلَى كَمْ هِيَ عِنْدَهُ؟ قَالَ: �هِيَ عَلَى مَا بَقِيَ مِنَ الطَّلَاقِ�[مصنف ابن أبي شيبة: 4/ 112]۔




امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے دوسری سند سے کہا:
نا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: �عَلَى مَا بَقِيَ مِنَ الطَّلَاقِ�[مصنف ابن أبي شيبة: 4/ 112]۔




امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227) نے کہا:
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: �هِيَ عَلَى مَا بَقِيَ مِنَ الطَّلَاقِ�[سنن سعيد بن منصور: 1/ 398]۔




١٦: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک اپنی بیوی کو�� أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ�� کہنے سے تین طلاقیں پڑجائیں گی۔
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى:211)نے کہا:
عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: رُفِعَ إِلَى عُمَرَ رَجُلٌ فَارَقَ امْرَأَتَهُ بِتَطْلِيقَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ قَالَ: �مَا كُنْتُ لِأَرُدُّهَا عَلَيْهِ أَبَدًا�[مصنف عبد الرزاق: 6/ 405]۔




امام سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى: 227) نے کہا:
حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، نا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، كَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ: " لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَجْعَلَ إِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ أَنْ أَجْعَلَهَا وَاحِدَةً، وَلَكِنَّ أَقْوَامًا حَمَلُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ، فَأَلْزِمْ كُلَّ نَفْسٍ مَا أَلْزَمَ نَفْسَهُ، مَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ: أَنْتِ عَلَيَّ حَرَامٌ فَهِيَ حَرَامٌ، وَمَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ: أَنْتِ بَائِنَةٌ فَهِيَ بَائِنَةٌ، وَمَنْ قَالَ: أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَهِيَ ثَلَاثٌ "[سنن سعيد بن منصور: 1/ 301]۔




١٧: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک دس دینار سے کم یعنی ربع دینار یا اس سے زائد کی چوری پرہاتھ کاٹنا درست ہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: �تُقْطَعُ فِي رُبْعِ دِينَارٍ� وَقَالَتْ عَمْرَةُ: قَطَعَ عُمَرُ فِي أُتْرُجَّةٍ "[مصنف ابن أبي شيبة: 5/ 475]۔




امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458)نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَارِثِ الْفَقِيهُ، أنبأ أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ، ثنا أَبُو يَعْلَى، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: ثنا شَيْبَانُ، ثنا أَبُو هِلَالٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَطَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي مِجَنٍّ، قُلْتُ: كَمْ كَانَ يُسَاوِي؟ قَالَ: خَمْسَةَ دَرَاهِمَ " [السنن الكبرى للبيهقي: 8/ 260]۔




١٨: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک ضب حلال ہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235)نے کہا:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: �ضَبٌّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ دَجَاجَةٍ�[مصنف ابن أبي شيبة: 5/ 125]۔




امام ابن طبری رحمه الله (المتوفى:310 )نے کہا:
حَدَّثَنِي عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ لَيْثٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: �مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي مَكَانَ كُلِّ ضَبٍّ دَجَاجَةً�[تهذيب الآثار مسند عمر (1/ 173)]۔




١٩: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مزارعہ (بٹائی پر کھیت دینا) جائزہے۔
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى: 235) نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْمُزَارَعَةِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ، فَقَالَ: �إِنْ نَظَرْتَ فِي آلِ أَبِي بَكْرٍ، وَآلِ عُمَرَ، وَآلِ عَلِيٍّ وَجَدْتُهُمْ يَفْعَلُونَ ذَلِكَ�
[مصنف ابن أبي شيبة: 4/ 377]۔




امام بخاري رحمه الله (المتوفى:256)نے کہا:
مَا بِالْمَدِينَةِ أَهْلُ بَيْتِ هِجْرَةٍ إِلَّا يَزْرَعُونَ عَلَى الثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَزَارَعَ عَلِيٌّ وَسَعْدُ بْنُ مَالِكٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَالْقَاسِمُ وَعُرْوَةُ وَآلُ أَبِي بَكْرٍ وَآلُ عُمَرَ وَآلُ عَلِيٍّ وَابْنُ سِيرِينَ وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ كُنْتُ أُشَارِكُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ فِي الزَّرْعِ وَعَامَلَ عُمَرُ النَّاسَ عَلَى إِنْ جَاءَ عُمَرُ بِالْبَذْرِ مِنْ عِنْدِهِ فَلَهُ الشَّطْرُ وَإِنْ جَاءُوا بِالْبَذْرِ فَلَهُمْ[صحيح البخاري: 6/ 48]۔




٢٠: عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے نزدیک مدت ایلا گذرجانے کے بعد رجوع یا طلاق ہے۔
امام طبری رحمه الله (المتوفى:310)نے کہا:
حدثنا علي بن سهل قال، حدثنا الوليد بن مسلم قال، أخبرنا المثنى بن الصباح، عن عمرو بن شعيب عن سعيد بن المسيب: أن عمر قال في الإيلاء: لا شيء عليه حتى يُوقَف، فيطلق أو يمسك [تفسير الطبري (4/ 488)]۔




عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے ان اقوال یا اعمال کو تمام احناف یا جمہور احناف نہیں مانتے اس کی وجہ کیا ہے ؟؟؟؟ بتانے کی زحمت کریں !!


کیا حضرت عمر رضی اللہ کے یہ فیصلے قرآن اور حدیث کے مطابق تھے یا نہیں؟

اگر قرآن اور حدیث کے مطابق تھے
تو پھر آپ ان کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟


اگر قران اور حدیث کے مخالف تھے تو پھر حضرت عمر رضی اللہ کے بارے میں آپ

کیا کہو گے؟


 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
سلام
عمرمعاویہ بھائی

کچھ یہاں بھی ارشاد فرما دیں


































مفتی تفی عثمانی صاحب مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کی کتاب "الحیلة الناجزة في الحلیلة العاجزة" کے نئے ایڈیشن کے دیباچے میں فقہ حنفی سے خروج کا جواز تسلیم کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ فقہ حنفی میں شوہر سے گلوخلاصی کی خواہش مند عورتوں کو پیش آنے والی مشکلات کا کوئی حل نہیں ہے۔ انہوں نے ایسے بیشتر مسائل میں مالکی مذہب کے مطابق فتویٰ دیا ہے۔ اگر فقہ حنفی مکمل ضابطۂ حیات ہے تو اس مسئلہ کا حل کیوں نہیں ہے؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436


سلام


میرے بھائی یہ جو صحیح بخاری کی حدیث پیش کر رہا ہوں


یہ بھی تو حضرت عمر راضی اللہ کا فیصلہ تھا


آپ کیوں نہیں مانتے

صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 1015




ابراہیم بن موسی، ہشام بن یوسف، ابن جریج، ابوبکر بن ابی ملیکہ، عثمان بن عبدالرحمن تیمی، ربیعہ بن عبداللہ بن ہدیر تیمی، ابوبکر نے کہا کہ ربیعہ بہتر لوگوں میں تھے اور انہوں نے عمر بن خطاب کی مجلس کا وہ حال بیان کیا جو انہوں نے دیکھا تھا کہ انہوں نے منبر پر سورہ نحل پڑھی یہاں تک کہ جب سجدے کی آیت تک پہنچے تو اترے اور سجدہ کیا اور تمام لوگوں نے سجدہ کیا یہاں تک کہ جب دوسرا جمعہ آیا اور وہی سورت پڑھی یہاں تک کہ جب سجدے کی آیت آئی تو فرمایا کہ اے لوگو ہم سجدہ کی آیت پڑھ کر گزر جاتے ہیں جس نے سجدہ کیا تو اس نے درست کیا اور جس نے سجدہ نہیں کیا اس پر کوئی گناہ نہیں اور عمر نے سجدہ نہیں کیا اور نافع نے ابن عمر سے روایت کیا کہ اللہ تعالی نے سجدہ فرض نہیں کیا بجز اس کے کہ ہماری مرضی پر منحصر ہے۔




لکن احناف کے نزدیک سجدہ تلاوت واجب ہے


جو نہیں کرتا وہ گناہگار ہے

 
Top