شکریہ شاکر بھائی آپ کی پوسٹ کا قرآن و احادیث صحیحہ سے پوسٹ مذکورہ کا جواب:
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
تفسیر السعدی کے مطابق بھی ایک مجلس کی تین طلاقیں ضرر رساں اور لاگو ہوتی ہیں۔
دارلسلام کی شائع شدہ ، اردو تفسیر السعدی جلد 2 صفحہ 278 دیکھیے ۔
اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرما یا یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو رجعت کا حق حاصل ہے، صرف دو مرتبہ ہے ،
تاکہ اگر خاوند اپنی بیوی کو ضرر پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتا، تو اس مدت کے دوران میں طلاق دینے کے فیصلے سے رجوع کر سکتا ہے۔ رہا اس سے زیادہ مرتبہ طلاق دینا تو یہ طلاق کا محل نہیں، کیونکہ
جو کوئی دو مرتبہ سے زیادہ طلاق دیتا ہے، وہ یا تو حرام فعل کے ارتکاب کی جرات کرتا ہے یا اسے اپنی بیوی کو رکھنے میں رغبت نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔
امیر المومنین فی الحدیث اما م بخاری رحمہ بھی البقرۃ کی آیت 229 سے ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع کی دلیل لیتےہیں۔اور نیچے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس دلیل کو ثابت کرتے ہیں۔ امام بخاری نے ان احادیث سے ایک مجلس کی تین طلاق کے واقع ہونے کی دلیل لی اور انہیں باب من اجازہ طلاق الثلاث میں بیان کیا۔
دیکھیے صحیح بخاری جلد ۷
امام بخاری رحمہ صحیح بخاری میں باب باندھتے ہیں۔
باب من اجاز طلاق الثلاث لقول اللہ تعالیٰ الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان
باب جس نے تین طلاقو ں کی اجازت دی اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی روشنی میں کہ طلاق تو دوبار ہی کی ہے، اس کے بعد یا تو رکھ لینا ہےقاعدے کے مطابق یا پھر خوشی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔
نیچے عویمر عجلانی کی لعان کے بعد طلاق والی حدیث بیان کرتےہیں۔
نیچے رفاہ قرضی کی طلاق والی والی حدیث بیان کرتے ہیں۔
اور امیر المونین فی الحدیث اپنی صحیح میں ایک اور باب باندھتے ہیں جس کا نام رکھتے ہیں۔
با ب اللعان و من طلق بعد اللعان
لعان اور لعان کے بعد طلاق دینے کا بیان
اور اس میں پھر عویمر عجلانی کی لعان والی حدیث لاتےہیں۔
اس سے امام بخاری رحمہ کا موقف بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اس حدیث کو ایک مجلس میں تین طلاق کی قطعی دلیل سمجھتےہیں اور پہلے اسے ایک مجلس کی تین طلاق کے باب میں لاتے ہیں، اور پھر الگ سے اسے لعان اور لعان کے بعد ایک ہی مجلس میں طلاق دینے والے باب میں بھی لاتے ہیں۔
کیا آپ لوگوں کی حدیث فہمی امیرالمونین فی الحدیث امام بخاری رحمہ سے بھی بڑھ گئی ہے۔
عویمر عجلانی کی لعان والی حدیث کے بارے میں محقق اہل حدیث حافظ زبیر علی زئی موطا امام مالک صفحہ 319 پر لکھتے ہیں صحیح بخاری کی احادیث سے ثابت ہے کہ جب لعان کرنے والے نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈال دی،
لہذا جدائی کا سبب طلاق ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جدائی کا سبب لعان ہے ، لیکن یہ قول محل نظر ہے۔
اسی کتاب کے صفحہ 320 پر لکھتے ہیں۔
حالت حیض میں طلاق دینا جائز نہیں ہے لیکن اگر دی جائے تو یہ شمار ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ
بدعی طلاق واقع ہو جاتی ہے اگر چہ ایسی طلاق دینا غلط ہے۔
جہاں تک آپ کے معاصر اہل حدیث علماء کےاجتہاد کا تعلق ہے اوپر میں نے
حالت حیض میں طلاق کا موطا امام مالک ترجمہ و تشریح شدہ حافظ زبیر علی زئی سال طبع 2009کے قلم سے موقف دکھایا، اب
صحیح بخاری از داؤد راز طبع 2004 دیکھیے صفحہ 29 پر ہےائمہ اربعہ اور اکثر فقہاء تو اس طرح گئے ہیں کہ یہ طلاق شمار ہو گی اور
ظاہریہ اور اہل حدیث اور امامیہ اور ہمارے مشائخ میں سے امام ابن تیمیہ، امام ابن حزم اور علامہ ابن القیم اور جناب محمد باقر اور حضرت جعفر صادق اور امام ناصر اور اہل بیت کا یہ قول ہے کہ اس طلاق کا شمار نہ ہو گا۔ اس لیے کہ یہ
بدعی اور حرام تھی، شوکانی اور
محققین اہل حدیث نے اس کو ترجیح دی ہے۔ ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء نے اسی سے دلیل لی ہے اور یہ کہا ہےکہ جب ابن عمر خود کہتے ہیں کہ یہ طلاق شمار کی گئی تو اب اس کےوقوع میں کیا شک رہا، ہم کہتےہیں کہ ابن عمر کا صرف قول حجت نہیں ہو سکتا کیونکہ انہوں نے یہ بیان نہیں کیا کہ حضرت نے اس کے شمار کیے جانے کا حکم دیا۔
ایک ہی جماعت اہل حدیث میں اتنے اہم مسئلے میں اتنا بڑا تضاد کیوں ہے؟؟؟
یہ ہوتا ہے جمہور سلف و خلف کے موقف سے انحراف اور بے اعتمادی کا نتیجہ کہ ایک ہی جماعت کے محققین طلاق جیسے نازک معاملات میں صحیح موقف اپنا نہیں سکتے اور دونوں کے درمیان کچھ صدیوں کے فاصلے کی بات بھی نہیں
صرف 5 سال پہلے جو چیز ازروئے احادیث صحیحہ واقع نہ ہوتی تھی وہ پانچ سال بعد ازروئے احادیث صحیحہ واقع ہو جاتی ہے۔ آپ کے نزدیک 2004 کا موقف صحیح ہے یا 2009والا۔
امام نسائی رحمہ نے بھی احادیث مبارکہ سے ایک مجلس کی تین طلاق کے واقع ہونے کی دلیل لی اور باب باندھا اور اس باب کے تحت احادیث بیان کیں۔
دیکھیے سنن نسائی جلد دوم
امام نسائی سنن نسائی میں باب باندھتے ہیں،
باب الرخصۃ فی ذالک،
یکبارگی تین طلاق دینے کی رخصت۔
اور نیچے عویمر عجلانی کی طلاق والی حدیث بیان کرتےہیں۔
اورنیچے فاطمہ بنت قیس کی طلاق والی حدیث بیان کرتے ہیں۔
امام نسائی نے آپ کی دلیل والی حدیث ابن عباس کو غیر مدخولہ کے بارے میں کہا اور طلاق غیر مدخولہ کے باب میں بیان کیا۔
باب طلاق الثلاث المتفرقۃ قبل الدخول بالزوجۃ
تین طلاق متفرق کر دینے کا بیان زوجہ کے ساتھ دخول سے پہلے
اور نیچے ابوصہبا و ابن عباس والی حدیث بیان کرتےہیں۔
امام ماجہ بھی ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع کے قائل ہیں اور مجلس واحد کی تین طلاق کا باب باندھتے ہیں اور نیچے ، امام نسائی کے نقش قدم پر بطور دلیل فاطمہ بنت قیس والی حدیث بیان کرتے ہیں۔
باب من طلق ثلاثا فی مجلس واحد
باب اس کے بارے میں جو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دے۔
اور نیچے فاطمہ بنت قیس والی حدیث بیان کرتےہیں۔
امام ترمذی بھی ایک مجلس کی تین طلاق کے وقوع کے قائل ہیں اور آپ کی دوسری دلیل حدیث رکانہ کو طلاق البتہ کے باب میں بیان کرتے ہیں ۔
باب ماجاء فی الرجل یطلق امراتہ البتۃ
باب جو شخص اپنی بیوی کو البتہ کےلفظ سے طلاق دے
اور نیچے حدیث رکانہ لاتے ہیں۔
سنن ابو داؤد شائع شدہ دارلسلام جلد 2 صفحہ 683پر فوائد و مسائل میں ابو عمار عمر فاروق سعیدی لکھتے ہیں۔
وہ طلاق کے صحیح طریقے سے بے خبر ہونے کی وجہ سے
بیک وقت تین طلاقیں دے دیتے ہیں(حالانکہ ایسا کرنا سخت منع ہے) پھر پچھتاتے ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ اسے ایک طلاق شمار کیا جائے اور اسے رجوع کا حق دیا جائے۔
اگر بیک وقت تین طلاق دینے سے کچھ نہیں ہوتا ، تو پھر پچھتانے سے کیا معنی؟؟؟ اور بقول آپ کے دور نبوی اور دور صدیقی میں ایسا کام ہوتا رہا کہ جو سخت منع ہے اور پھر پچھتاتے بھی رہے؟؟؟
ابو محمد موفق حنبلی کی المغنی لابن قدامۃجلد 7 صفحہ 370 دیکھیے۔
وَإِنْ طَلَّقَ ثَلَاثًا بِكَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، وَقَعَ الثَّلَاثُ، وَحَرُمَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ، وَلَا فَرْقَ بَيْنَ قَبْلِ الدُّخُولِ وَبَعْدَهُ. رُوِيَ ذَلِكَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ. وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ التَّابِعِينَ وَالْأَئِمَّةِ بَعْدَهُمْ. وَكَانَ عَطَاءٌ، وَطَاوُسٌ، وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، وَأَبُو الشَّعْثَاءِ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، يَقُولُونَ: مَنْ طَلَّقَ الْبِكْرَ ثَلَاثَةً فَهِيَ وَاحِدَةٌ. وَرَوَى طَاوُسٌ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَأَبِي بَكْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَرَوَى سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، وَمُجَاهِدٌ، وَمَالِكُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، خِلَافَ رِوَايَةِ طَاوُسٍ، أَخْرَجَهُ أَيْضًا أَبُو دَاوُد. وَأَفْتَى ابْنُ عَبَّاسٍ بِخِلَافِ مَا رَوَاهُ عَنْهُ طَاوُسٌ۔
ابن عباس، ابو ہریرہ ، ابن عمر، عبداللہ بن عمرو، ابن مسعود اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاق واقع ہو جاتی ہیں اور عورت اس پر حرام ہو جائے گی حتی کہ کسی دوسرے مرد سے شادی کرے اور پھر بیوہ ہو یا طلاق پائے اور اس میں مدخولہ یا غیر مدخولہ کا کوئی فرق نہیں۔
اور یہی قول ہے بعد کے اکثر اہل علم کا تابعین اور ائمہ میں سےبھی۔
اور عطاء ، طاؤس سعید بن جبیر، ابو الشعثا اور عمرو بن دینار کا کہنا ہے کہ غیر مدخولہ کی اکٹھی تین طلاقیں ایک ہوں گی۔
اور طاؤس ابن عباس سے روایت کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ کی ابتدائی خلافت میں تین طلاقیں ایک ہوتی تھیں، اور
سعید بن جبیر، عمرو بن دینار، مجاہد، اور مالک بن الحارث ابن عباس سے طاؤس کی روایت کے خلاف روایت کرتےہیں، اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ بھی طاؤس کی روایت کے خلاف ہے۔
اسی حدیث کی علتیں جو سلف و خلف نے بیان کی ہیں بے شمار ہیں۔
۱۔ خبر واحدہے ، جبکہ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ ممکن ہی نہیں کہ معاشرے میں اتنا بڑا ہلچل مچا دینے والا کام ہو اور اس کو بیان کرنے والا صرف ایک راوی ہو۔
۲۔ ابن عباس کے باقی شاگرد اس کے خلاف روایت کرتےہیں۔
۳۔ اس کے معانی و مطالب میں بہت گنجائش ہے اور صرف وہی مطلب نہیں نکلتا جو آپ نکال رہے ہیں،جیسے سلف و خلف نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ غیر مدخولہ کے متعلق ہو، ہو سکتا ہے کہ یہ اس شخص کے متعلق ہو کہ جو لفظ البتہ سے طلاق دیتا ہے اور نیت ایک کی رکھتا ہے، جیسا کہ البتہ سے ایک یا تین کچھ بھی مراد ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ اس شخص کے متعلق ہو جو طلاق تو ایک دے رہا تھا مگر تاکیدا اسی کو دھرا رہا تھا۔
۴۔ سب سے بڑی بات کہ راوی یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ اس کے خلاف موجود ہے، ہو نہیں سکتا کہ جبرا لامۃ جیسے صحابی کے پاس نبی کریم ﷺ کی کوئی سنت موجود ہو اور وہ اس کے خلاف فتویٰ بھی دیں؟
اور یہ دیکھیے آپ کی دوسری دلیل حدیث رکانہ کے بارے میں سنن بیقہی سے فرق یہ ہے کہ آپ بیہقی کی اس حدیث کا حوالہ تو دیتے ہیں مگر اس حدیث پر جو حکم لگا ہے وہ بیان نہیں کیا جاتا دیکھیے پوری حدیث مع حکم کے۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: طَلَّقَ رُكَانَةُ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ طَلَّقْتَهَا؟ " قَالَ: طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا , فَقَالَ: " فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟ " قَالَ: نَعَمْ قَالَ: " فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَارْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ " فَرَاجَعَهَا فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا يَرَى إِنَّمَا الطَّلَاقُ عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ فَتِلْكَ السُّنَّةُ الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا النَّاسُ وَالَّتِي أَمَرَ اللهُ لَهَا {فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ} [الطلاق: 1] أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَارِثِ أنا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ نا مُسْلِمُ بْنُ عِصَامٍ نا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعْدٍ نا عَمِّي نا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ
فَذَكَرَهُ وَهَذَا الْإِسْنَادُ لَا تَقُومُ بِهِ الْحُجَّةُ مَعَ ثَمَانِيَةٍ رَوَوْا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فُتْيَاهُ بِخِلَافِ ذَلِكَ وَمَعَ رِوَايَةِ أَوْلَادِ رُكَانَةَ أَنَّ طَلَاقَ رُكَانَةَ كَانَ وَاحِدَةً وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ
سنن بیہقی جلد ۷ صفحہ 555
یہ اسناد اس معاملے میں حجت نہیں کیونکہ 8 راوی ابن عباس سے اس کے مخالف روایت کرتے ہیں۔ اور مزید یہ کہ رکانہ کےگھر والے بھی کہتےہیں کہ رکانہ نے ایک طلاق دی تھی۔
حدیث رکانہ پر ایک اور بڑا اعتراض بھی وارد ہوتا ہے کہ جب اس عہد بلکہ ابتدائی عہد عمر رضی اللہ عنہ تک تین طلاقیں ایک ہی سمجھی جاتی تھیں، تو پھر رکانہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی، کسی ضرر کا اندیشہ تھا تو پوچھا گیا تھاناں۔ اور رکانہ ہی کے حوالے سے سنن ابو داؤد میں وارد حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین بار حلف دے کر پوچھتے ہیں کہ تمہاری مراد کیا تھی ، رجعی طلاق یا قطعی طلاق؟
وہی سوال کہ اگر ایک طہر میں تین کا محل ہی نہیں تھا تو پھر پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟
اور پیچھے ایک پوسٹ میں انس بھائی نے اغاثہ سے ایک مردود روایت رجوع عمر کے بارے میں بیان کی تھی کہ جس کی اتنی اہمیت ہے کہ سلف و خلف میں سے سوائے ابن القیم کے کسی نے اس روایت کو اپنے موقف کی دلیل میں بیان نہیں کیا۔ نیچے دیکھیے اس کے ایک راوی کے میزان الاعتدال سے حالات۔ یہ راوی کچھ نہیں، ثقہ نہیں، ضعیف بھی ہے اور صحابہ پر جھوٹ بھی بولتا تھا، اور اس کی کتابیں دفن کر دینے کے قابل ہیں۔
سیدنا عمر نے اپنے اس اجتہادی فیصلے پر آخری ایام میں اظہار ندامت بھی فرمایا تھا کہ انہیں بطور سزا یہ اقدام نہیں کرنا چاہئے تھا۔ (دیکھئے إغاثة اللهفان 1 ؍ 351)
2475 - خالد بن يزيد بن عبد الرحمن بن أبي مالك [ق] الدمشقي.
وقال أحمد: ليس بشئ.
وقال النسائي: غير ثقة.
وقال الدارقطني: ضعيف.
وقال ابن عدي، عن ابن أبي عصمة، عن أحمد بن أبي يحيى: سمعت أحمد بن حنبل يقول: خالد بن يزيد بن أبي مالك ليس بشئ.
وقال ابن أبي الحواري سمعت ابن معين يقول: بالعراق كتاب بنبغى أن يدفن تفسير الكلبي، عن أبي صالح.
وبالشام كتاب ينبغي أن يدفن كتاب الديات لخالد بن يزيد بن أبي مالك، لم يرض أن يكذب على أبيه حتى كذب على الصحابة.
امام شوکانی نیل اوطار جلد 6 صفحہ 274 میں لکھتے ہیں۔
فَذَهَبَ جُمْهُورُ التَّابِعِينَ وَكَثِيرٌ مِنْ الصَّحَابَةِ وَأَئِمَّةِ الْمَذَاهِبِ الْأَرْبَعَةِ وَطَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ مِنْهُمْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيٌّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
(ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی شمار ہوتی ہیں ) یہی مذہب جمہور تابعین اور کثیر صحابہ اور ائمہ مذاہب اربعہ اور اہل بیت میں سے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہے۔
اس سے پہلے جمہور و سلف و خلفہ و ائمہ اربعہ کے ایک مجلس کی تین طلاق کےتین ہی ہونے ، اور خلیفہ راشد کے فیصلے کے شرعی اور حجت ہونے کے دلائل ابن القیم کی اعلام الموقعین سے بیان کیے گئے ہیں، مزید دیکھیے علامہ ابن جوزی رحمہ کی تلبیس ابلیس سے انہی دلائل کی تشریح ۔
تلبیس ابلیس صفحہ 29 دیکھیے، ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سے دو بہتر ہیں اور تین سےچار بہتر ہیں، پس تم پر واجب ہے کہ جماعت کو لازم پکڑو کیوں کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ
اللہ تعالیٰ میری امت کو سوائے ہدایت کے جمع کرے۔
صفحہ 34 پر دیکھیے، علیکم بسنتی و سنۃ خلفاء راشدین مہدیین کی تشریح میں ہے پس
ان خلفائے راشدین کی سنت بھی طریقہ نبوت میں شامل ہے کیوں کہ یہ نبوت کی خلافت تھی۔
صفحہ 38 پر دیکھیے، سنت کے معنی راہ کےہیں اور کچھ شک نہیں کہ جو لوگ اہل حدیث و آثار ہیں کہ بذرعیہ ثقات اولیا کی روایات کے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے اصحاب و خلفائے راشدین کےنشان قدم کی پیروی کرتے ہیں، یہی لوگ اہل السنۃ ہیں۔ کیوں کہ یہی اس راہ طریقہ پر ہیں جس میں کوئی نئی نکالی ہوئی بات شامل نہیں ہونے پائی۔ اس لیے کہ بدعتیں اور نئے طریقے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریقہ کے بعد نکلے ہیں۔
صفحہ 156 پر دیکھیے ، واضح ہو کہ خارجی لوگ بہت عبادت کیا کرتے تھے ، مگر ان کی حماقت کا یہ اعتقاد تھا کہ وہ لوگ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر عالم ہیں اور یہی ان کا سخت مہلک مرض تھا۔