محترم ابو الحسن بھائی السلام علیکم
آپ کے بقول حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوئی نیا سیاسی حکم نہیں لگایا تھا بلکہ دورنبوی سے چلے آتے حکم کو نافذ کیا تھا۔ٹھیک!
معاف کیجیے گا میرے بقول نہیں ، بلکہ بقول حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ جمہور علماء سلف و خلف کے بقول، کہ جو ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی جان کر نافذ کر تے ہیں۔
لیکن دور نبوی کے حکم کو نافذ کرنے کی ضرورت کیا پڑی تھی ۔
سبحان اللہ کیا رحلت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتدین سے جہاد نہیں کیا گیا تھا۔
اور منکرین زکوٰة سے زکوٰة کی ایک رسی تک نہیں نکلوائی گئی تھی۔
کیا متعہ کے بارے میں حکم فاروقی کو سختی سے نافذ نہیں کروایا گیا تھا۔
اگر اختلاف کرنے والا تھا تو اجماع نہ ہوا اور اگر اجماع تھا تو سادہ الفاظ میں اس ساری تگ ودو کی ضرورت کیا تھی؟؟؟
پورے دورفاروقی میں سے آپ ایک صحیح ثقہ ثابت روایت نہیں پیش کر سکتے کہ جس میں نفاذ فیصلہ عمر رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی گئی ہو، اگر ہے تو پیش کیجئے۔
کتاب وسنت تو اسی دن سے نافذ تھے جس دن سے حضرت امیر المومنین خلافت سنبھالی تھی۔ اگر آپ کے بقول بعد میں انہوں نے سنت کا نفاذ کیا تھا تو صحابہ اس مجلس کے اجتماعی فیصلہ سے پہلے کیا نافذ تھا؟؟
جیسے میں نے اوپر عرض کیا کہ حرمت متعہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور آخر ہی سے تھی پھر حضرت عمر رضی اللہ کو کیا ضرورت تھی کہ اس کو سختی سے نافذ کروایا۔
ایک خاص وقت میں ہی پہلے سے نافذ شدہ سنت کے دوبارہ نفاذ کی ضرورت کیوں پڑی ؟؟؟
جن سوالوں کے جواب پہلے ہی سے دیے جا چکے ہیں، آ پ پھر انہی کو دہرانے کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے، اس کا جواب میں امام نووی رحمہ کے الفاظ میں شرح مسلم سے دے چکا ہوں۔ کہ بعض دفعہ لوگ کہتے تھے انت طلاق ، انت طلاق، انت طلاق اور مقصد ہوتا تھا تاکید، بعض دفعہ کوئی حقیقتا تین طلاق یعنی طلاق قطعی دے چکتا تھا اور بعد میں کہا جاتا تھا کہ میرا مقصد تاکید تھا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم لگا دیا کہ اب جو ظاہر ہو گا اسی پر فیصلہ ہو گا، یعنی جو تین دفعہ طلاق دے دے گا وہ تین ہی تصور کی جائیں گی، اور بس۔
یہ دوبارہ نفاذ ایک ہی سنت کا کیوں کیا گیا؟ نماز، روزے، حج وزکوۃ اور دیگر شرعی احکام کا دوبارہ نفاذ کیوں نہ ہوا؟؟؟
پہلی بات تو یہ کہ جب بقول آپ کے ایک طریقہ موجود تھا ، تو پھر خلیفہ راشد کو اپنے ذاتی اجہتاد سے کام کیوں لینا پڑا۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا کس عامی حنفی کے لیے جائز ہے کہ وہ حنفی فقہاء کی رائے پر شافعی فقہاء کے مسلک کو ترجیح دے۔ اگر اجازت ہے تو آپ کا استدلال درست ہے۔ اگر نہیں تو پھر دو آپشن ہیں یا تو آپ حنفیت کو خیر آباد کہہ دیں یا پھر اپنے اس استدلال سے رجوع فرمائیں۔
ماشاء اللہ یہ کس نے کہا آپ سے کہ میں حنفی ہوں ، کیا اس پورے تھریڈ میں میں نے ایک بھی حنفی فقیہ کا حوالہ دیا، یا میں نے حنفی ہونے کا دعوٰی کیا ، الحمد للہ میں موحد محمدی ہوں اور میں نے عرض کیا کہ اس معاملے میں میرا موقف اور عقیدہ وہی ہے جو جمہور علماء سلف و خلف و ائمہ اربعہ کا ہے۔
محترم انس نظر بھائی السلام علیکم
اگر بالفرض آپ کی بات کو ہی ’جدالاً‘ تسلیم کر لیا جائے تو اب یہ آپ کا فرض ہے کہ کسی صحیح وصریح حدیث مبارکہ سے اسے نبی کریمﷺ کی سنت ثابت کریں یا پھر آپ کسی صحیح اثر سے سیدنا عمر سے یہ ثابت کر دیں کہ انہوں نے اپنا اجتہاد نہیں بلکہ نبی کریمﷺ کی سنت کو نافذ کیا تھا؟!! (کیا میرا آپ سے یہ مطالبہ جائز نہیں؟!!)
اہل سنت والجماعت سے تعلق ہے تو آپ کا یہ مطالبہ سراسر ناجائز اور باطل ہے، اوپر میں نے اعلام الموقعین سے حافظ ابن القیم کے حوالے سے صحیح اور ثقہ احادیث سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین بالخصوص خلفائے راشدین کے بارے میں حجت تمام کر دی ہے۔ کیا آپ اس تحریر سے متفق ہیں؟ اگر ہیں تو پھر آپ کا یہ سوال بے معنی ہے اور اگر نہیں تو پھر جو شخص یا گروہ اتنی صحیح احادیث کی بنیاد پر لکھے گئے ایک امام اہل سنت کے مدلل ترین مضمون سے بھی خلفائے راشدین کا مقام و مرتبہ اور انکی سنت کی اہمیت کو نہیں پہچان سکا اس کو میں کچھ نہیں دے سکتا۔
اعلام الموقعین از حافظ ابن القیم صفحہ 412 پر ہے تم میری سنت کو اور رشد و ہدایت والے خلفاء کی سنت کو میرے بعد لازم پکڑے رہو اس پر چنگل مار لو اسے دانتوں سے مضبوط تھام لو دیکھو نئے کاموں سے بچتے رہنا یاد رکھو ہر نیا کام بدعت ہے، یہ حدیث حسن ہے اس کی سند بے خوف ہے اس میں آپ نے اپنی سنت کے ساتھ خلفاء کی سنت ملا دی ہے اور حکم میں اس قدر مبالغہ فرمایا کہ کچلیوں سے مضبوط تھامنے کی ہدایت فرمائی یہ شامل ہے ان کے فتووں کو اور اسے جس کو یہ اس امت کے لیے طریقہ بنائیں گو اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ معلوم نہ بھی ہو اگر ہو تو وہ حضور کی سنت ہو گی۔ یہ شامل ہے ان کے فتوں کو بھی سب کے ہوں، اکثر کے ہوں ، بعض کےہوں۔ اس لیے کہ آپ نے اسے معلق رکھا سنت خلفاء راشدین پر اور یہ ظاہر ہے کہ خلافت کی حالت میں ان بزرگوں نے آن واحد میں طریقے نہیں بتلائے پس ہر ایک کی اس کی خلافت کے وقت جو سنت ہو وہ سنت ہے۔
یہ حدیث مبارکہ صریح طور پر واضح کر رہی ہے کہ سیدنا عمر نے نبی کریمﷺ کے کسی فیصلے کو لاگو کرنے کی بجائے اپنا اجتہاد کیا تھا۔
استغفراللہ، اس کا مطلب ہے کہ خلیفہ راشد نے بقول آپ کے قرآن کریم کی نص صریح کے ہوتے ہوئے اپنا اجہتاد کیا ؟
اس کا مطلب ہے کہ خلیفہ راشد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح سنت کے ہوتے ہوئے اپنا اجتہاد کیا؟
اور ایک حلال عورت کو حرام کیا ؟
اور آپ کے پاس اس حدیث کے ان الفاظ سے یہ مطلب نکالنے کی کیا دلیل ہے ؟
آپ قرآن و حدیث سے ثابت کر سکتے ہیں کہ کیا واضح نص قرآنی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے کوئی امتی اپنا اجہتاد کر سکتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
علاوہ ازیں اگر جدلاً آپ کی بات تسلیم بھی کر لی جائے تو اس پر بہت بڑا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے وہ یہ کہ
بیک وقت تین طلاقیں دینا صحیح حدیث مبارکہ کے مطابق بہت بڑا گناہ اور آیاتِ الٰہی کے ساتھ تلعّب اور مذاق ہے، جس پر تماء علماء کا اتّفاق ہے اور جو آپ کو بھی تسلیم ہے وللہ الحمد! اب کیسے باور کر لیا جائے کہ تین طلاقین بیک وقت دینا بڑا گناہ بھی ہو، آیاتِ الٰہی کے ساتھ مذاق بھی ہو، تمام فقہاء بشمول احناف کے نزدیک ’طلاقِ بدعی‘ بھی ہو، اور پھر (آپ کے نزدیک بغیر کوئی دلیل ذکر کیے) سنّت بھی یہی ہو کہ ان تینوں کو تین ہی شمار کیا جائے گا؟!! فيا للعجب!!!
اب آپ ہی بتائیے کہ آپ جیسے مقلّد کی بات مانی جائے کہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق سیدنا ابن عباس جیسے حبر الامہ کی؟!!
سبحان اللہ کیا آپ کے علم میں یہ بات نہیں کہ یہ حدیث جو آپ پیش کر رہے ہیں اس کے راوی کا فتویٰ بھی ایک مجلس کی تین طلاق کے تین ہی ہونے کا ہے؟
اعلام الموقعین صفحہ 413 پر دیکھیے اللہ تعالیٰ نے حق کو حضرت عمر کی زبان اور دل میں رکھ دیا ہے پس ہم ان کی کیسے مان لیں ؟ جن کے نزدیک حضرت عمر جیسے کسی مسئلہ میں خطا کر جائیں اور صحابہ میں سے ایک بھی اس پر انکار نہ کرے لیکن بعد والے آئیں اور حضرت عمر رضی اللہ کی غلطی اور خطاء پر تنبیہ کریں یہ تو ظاہر ہے محال ہے۔
اعلام الموقعین صفحہ 419 دیکھیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت میں سے ایک جماعت برابر حق پر قائم رہے گی، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں زمین کبھی ایسے لوگوں کے وجود سے خالی نہ رہے گی جو اللہ تعالیٰ کی حجت پر قائم ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کی باتیں باطن نہ ہو جائیں اگر منکرین اتباع سلف کی بات مان لی جائے تو ثابت ہو گا کہ وہ زمانہ حق والوں سے خالی تھا اس لیے کہ ایک حادثے میں ایک صحابی نے کوئی فتویٰ دیا تھا وہ غلط لیکن کسی اور نے اس کے خلاف نہ کیا سارا زمانہ غلطی پر ہی رہا معروف کا حکم کرنے والا منکر سے روکنے ولا اس وقت ایک بھی نہ تھا یہاں تک کہ وہ زمانہ گذر گیا فقہاء کا زمانہ آیا تو اب حق گر برسنے لگے۔ نعوذ باللہ منہا۔
جب صحابہ یا کوئی صحابہ کوئی قول کہے پھر ایک زمانے کے بعدکوئی فقیہ اس کے خلاف قول کہے تو یہ قول نیا ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میرے اور خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑے رہو اور اس پر اپنی کچلیاں تک مضبوط گڑ دو اور نئے امور سے بچتے رہو، ہر بدعت گمراہی ہے پس یہ نیا قول بدعت ہے اور گمراہی ہے۔
میرے بہت سارے سوال آپ بھائی کھا گئے ہیں اور ایک کا بھی جواب نہیں دیا گیا کیا یہی حق ہے ؟
میرے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح و صاف فرمان ہے، کہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو مضبوطی سے دانتوں سے تھام لو ، پکڑ لو۔
کیا اس حدیث کے ہوتے ہوئے اس بات کی گنجائش ہے کہ میں کسی خلیفہ راشد کی کسی سنت کی تحقیق کرتا پھروں۔ میرا کام ہے نبی کے فرمان پر جب وہ صحیح ثابت ہو جائے تو بلا تامل عمل کرنا ، اور یہ ایک صحیح ، ثقہ ثابت روایت ہے۔ جسکی اوپر حافظ ابن القیم رحمہ نے کافی تفصیل سے شرح بھی کر دی ہے۔
غلطی کی تعریف کیا کرتے ہیں آپ ؟ میں نے اوپر عرض کیا تھا کہ ایسی بات یا فیصلہ غلطی کی تعریف میں نہیں آتا کہ جس میں قرون خیر کے تمام لوگ شامل ہوں اور جو عرصہ دس سال سے بھی زیادہ پر محتاط ہو ۔
اور یہ سیاسی حکم کی اصطلاح کیا ہے ؟ کیا قرآن و سنت سے آپ اس اصطلاح کو ثابت کر سکتے ہیں؟
اور جمہور علمائے سلف و خلف کے مسلک کے تحت چونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حق شناس،حق گو، علم ، و متبع سنت ہونے کے حوالے سے اتنی بڑی تعداد میں احادیث موجود ہیں کہ ایک لمحے کے لیے بھی تصور نہیں کیا جا سکتا کہ زبان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی بڑی تعداد میں بشارات پانے والا کوئی ایسا نیا فیصلہ کرے گا کہ جس کی نظیر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ ملتی ہو۔ اس کی تائید اوپر حافظ ابن القیم کے الفاظ سے بھی کر چکا ہوں۔
سبحان اللہ جو بات قرون خیر میں معمول بن گئی تھی کہ بقول آپ کے مانع کی اصطلاح کی زد میں آ گئی وہ اس موجودہ دور فتن میں خیر میں کس طرح تبدیل ہو گئی، اور کیا اس دور میں یہ مذاق اڑانا لوگوں کو معمول بن گیا تھا اور اب مذاق نہیں اڑایا جاتا،
تو کیا ایک خلیفہ راشد کی سنت و اجماع صحابہ کو ختم کرنے والی اتھارٹی کے بارے میں آپ بتا سکتے ہیں؟؟؟
یاد رہے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو دانتوں سے پکڑے رہیں۔
تو کیا آپ کے خیال میں خلیفہ راشد کا فیصلہ قرآن و سنت سے ثابت نہیں؟
اور میں نے نہایت تفصیل سے جواب دیا کہ اس مانع سے اللہ کی مقرر کی ہوئی حلت متاثر ہوتی ہے اور حرمت میں تبدیل ہو جاتی ہے، لہزا یہ مانع قرآن و سنت کی تعلمیات کے خلاف ہے، کوئی بھی ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا کہ جس سے اللہ کے حلال و حرام میں تبدیلی واقع ہو،۔