• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مجلس کی تین طلاق اور خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
محترم بھائی! اگر حافظ ابن حجر﷫ نے اجماع کا دعویٰ کیا ہے، تو ان کے سلف صالحین (امام ابن تیمیہ وابن القیم اور ان سے بھی پہلے بہت سے علماء﷭ نے اس مسئلے کئی صحابہ کرام ، تابعین عظام اور بعد کے ائمہ اکرام﷭ سے تین طلاقوں کا ایک واقع ہونا بھی ثابت کیا ہے، جن کے حوالے اوپر گزر چکے ہیں۔ لہٰذا دعوائے اجماع محل نظر ہے۔
معاف کیجیے گا ، امام ابن تیمیہ مکمل اور ابن القیم کی جزوی حمایت کے علاوہ سوائے چند ایک ناموں کے آپ بہت سے علماء ، و صحابہ و تابعین اور ائمہ کرام کے نام ثابت نہیں کر سکتے اگر ہیں تو برائے مہربانی ایک لسٹ فراہم کر دیں۔

اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ثابت کریں کہ اجماع کسی شرعی حکم کو منسوخ کر سکتا ہے؟!!
یہی تو میرے دھاگے کا مقصد ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ منسوخ نہیں کیا اور نہ ہی کچھ نیا کیا بلکہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح طرح سے نافذ کیا۔

آپ نے اپنی تائید میں امام ابن حجر﷫ کے قول کو پیش کیا ہے، جس سے ثابت ہوا کہ آپ کے نزدیک جس طرح پہلے متعہ کو وقتی طور پر جائز قرار دیا گیا جسے منسوخ کرکے بعد میں صریح وصحیح احادیث مبارکہ کے مطابق دائمی طور پر حرام کر دیا گیا تھا،
آپ ابن حجر رحمہ کی تحریر کو پھر پڑھیں ، سب کچھ وہی تھا جو پہلے تھا بس جن کو معلوم نہیں تھا ناسخ کا انہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے واضح طور پر بتلا دیا کہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ہے۔

گویا آپ کو تسلیم ہے کہ پہلے تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں، یہاں تک ہمارا اور آپ کا اتفاق ہوا۔
میر ا موقف پہلے دن سے واضح ہے کہ جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ہے وہی دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی تھا اور دور ابو بکر میں بھی ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
جس کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ نے مخصوص حالات میں کوئی نیا سیاسی حکم نہیں لگایا، وہ امر جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلا آ رہا تھا اسی کو وضاحت کے ساتھ نافذ کیا ، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس امر کو تمام صحابہ نے قبول کیا، اور تمام جمہور سلف و خلف اسی کو صدیوں سے اپنائے ہوئے ہیں۔
آپ کے بقول حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوئی نیا سیاسی حکم نہیں لگایا تھا بلکہ دورنبوی سے چلے آتے حکم کو نافذ کیا تھا۔ٹھیک!
لیکن دور نبوی کے حکم کو نافذ کرنے کی ضرورت کیا پڑی تھی ۔ کیا حضرت عمر رضی اللہ نے پانچ نمازوں کو نافذ کروانے کے لیے اجماع بلوایا۔٣٠ روزوں کو نافذ کروانے کے لیے اجماع بلوایا۔ حج و عمرہ کے نفاذ کے لیے اجماع بلوایا۔ زکوۃ کے نفاذ کے لیے اجماع بلوایا۔ ایک صریح حکم شرعی کے نفاذ کی ضرورت کیا پڑ گئی تھی جبکہ آپ کے بقول اس سے کوئی اختلاف کرنے والا موجود نہ تھا؟؟؟۔ اگر اختلاف کرنے والا تھا تو اجماع نہ ہوا اور اگر اجماع تھا تو سادہ الفاظ میں اس ساری تگ ودو کی ضرورت کیا تھی؟؟؟
کتاب وسنت تو اسی دن سے نافذ تھے جس دن سے حضرت امیر المومنین خلافت سنبھالی تھی۔ اگر آپ کے بقول بعد میں انہوں نے سنت کا نفاذ کیا تھا تو صحابہ اس مجلس کے اجتماعی فیصلہ سے پہلے کیا نافذ تھا؟؟؟اگر کتاب وسنت نافذ تھا تو ایک نافذ شدہ چیز کو دوبارہ نافذ کرنا، معاف کیجیے گا، یہاں پہنچ کر آپ کے اس سارے فلسفہ کی عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے۔
ایک خاص وقت میں ہی پہلے سے نافذ شدہ سنت کے دوبارہ نفاذ کی ضرورت کیوں پڑی ؟؟؟
یہ دوبارہ نفاذ ایک ہی سنت کا کیوں کیا گیا؟ نماز، روزے، حج وزکوۃ اور دیگر شرعی احکام کا دوبارہ نفاذ کیوں نہ ہوا؟؟؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
فقہ حنفی کی مشہور کتاب 'مجمع الانہر'میں لکھا ہے:
"تو جان لو ! بےشک صدر اول میں جب اکٹھی تین طلاقیں دی جاتی تھیں تو صرف ایک طلاق شمار ہوتی تھی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک ایسا ہی رہا پھر جب لوگ کثرت سے طلاقیں دینے لگے پھر ڈرانے دھمکانے کے لئے بطور سزا تین کو تین شمار کیا گیا۔" (مجمع الانہر فی شرح منتقی الابہر:ج٢ص٦)
صاحب در مختار علامہ محمد بن علی الحصکفی الحنفی نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس فیصلہ کو بطور سیاست (یعنی بطور ریاستی انتظام) نافذ کرناتسلیم کیا ہے۔ دیکھئے الدر المنتقی فی شرح الملتقی (ج٢ص٦ تحت مجمع الانہر)
علامہ شمس الدین قہستانی حنفی نے بھی یہی بات کہی ہے۔ دیکھئے جامع الرموز شرح النقایہ (ص٣٢١)
علامہ طحطاوی حنفی نے بھی تقریبا اسی بات کا قرار کر رکھا ہے۔ دیکھئے طحطاوی شرح در مختار(ج٢ص١٠٥)
حافظ محمد قاسم دیوبندی نے لکھا:
"لیکن جب دور عمر رضی اللہ عنہ میں طلاقوں کی کثرت ہوئی تو ان کو تین شمار کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ فاروق اعظم نے یہ بات یونہی نہیں کہی بلکہ جب طلاقوں کا رواج عام ہو گیا تو آپ نے صحابہ کبار سے مشورہ لیا اور شوہروں کے کان گرم کرنے کی مصلحت سے تین طلاق شمار کرنے کی اجازت عام فرما دی۔" (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:ص١٥٦)
اس کے بعد اپنے اس بیان کے ساتھ اس کا موازنہ کریں؛
جب کہ فتح الباری سے حافظ ابن حجر رحمہ اور شرح مسلم سے امام نووی رحمہ کے قلم سے اوپر پیش کر چکا ہوں کہ میرا موقف وہ ہے جو اجماعی ہے اور جو جمہور سلف و خلف کا موقف ہے ، جس کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ نے مخصوص حالات میں کوئی نیا سیاسی حکم نہیں لگایا، وہ امر جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلا آ رہا تھا اسی کو وضاحت کے ساتھ نافذ کیا ، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس امر کو تمام صحابہ نے قبول کیا، اور تمام جمہور سلف و خلف اسی کو صدیوں سے اپنائے ہوئے ہیں۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا کس عامی حنفی کے لیے جائز ہے کہ وہ حنفی فقہاء کی رائے پر شافعی فقہاء کے مسلک کو ترجیح دے۔ اگر اجازت ہے تو آپ کا استدلال درست ہے۔ اگر نہیں تو پھر دو آپشن ہیں یا تو آپ حنفیت کو خیر آباد کہہ دیں یا پھر اپنے اس استدلال سے رجوع فرمائیں۔
دوسرا سوال یہی ہے کہ ان کبار حنفی فقہاء کے بارے کیا آپ کی یہ رائے ہے کہ انہوں نے اجماع کے خلاف رائے کا اظہار کیا ہے؟؟؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
آپ کے جذباتی انداز میں اب چند سوالات کروں گا۔
١۔حضرت عمر رضی اللہ نے زکوۃ کی مدات کے بارے تالیف قلب کی مد کو ختم کر دیا اور کسی صحابی نے اعتراض نہیں کیا لہذا اجماع ہو گیا اور جمہور فقہاء نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اجماع کے مخالف فتوی جاری کرتے ہوئے اس اجماع کو ماننے سے انکار کر دیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مولفۃ قلوبھم کے حکم پر عمل سے روک دیا تھا۔(الجوھرۃ النیرۃ فی الفقہ الحنفی، جلد ١، ص٤٦١)
٢۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کتابی عورتوں سے نکاح سے منع کر دیا تھا اور اسے نافذ کر دیا گیا لہذا اجماع ہوگیا اور جمہور فقہاء نے اس اجماع کی مخالفت کر کے اس کا انکار کیا ہے۔
٣۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھوڑوں میں زکوۃ نافذ کی، کسی نے اختلاف نہ کیا لہذا اجماع ہو گیا اور جمہور فقہاء نے اس اجماع کا انکار کر دیا۔
وعلی ھذا القیاس۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
۵۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک کہنا سب سے پہلے رافضیت کا ہی شعار تھا اور یہ بعینہ انہی کے دلائل ہیں جو آپ دے رہے ہیں ؟ جس کا درحقیقت مجھے دکھ ہے؟
محترم بھائی! آپ کا دعویٰ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک کہنا سب سے پہلے رافضیلت کا ہی شعار تھا۔
حالانکہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے کہ تین طلاقیں نبی کریمﷺ، عہد ابی بکر صدیق﷜ اور عہد عمر﷜ کے ابتدائی سالوں میں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ صحیح مسلم کی روایت ملاحظہ فرمائیں!َ
« كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر ، طلاق الثلاث واحدة . فقال عمر بن الخطاب : إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة . فلو أمضيناه عليهم ! فأمضاه عليهم » کہ ’’سیدنا ابن عباس﷜ سے مروی ہے کہ عہد رسالتمابﷺ اور عہد ابو بکر﷜ اور عمر فاروق﷜ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک (ایک مجلس کی) تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر﷜ نے فرمایا کہ جس معاملے (طلاق) میں لوگوں کو سوچ وبچار سے کام لینا چاہئے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، لہٰذا ہم کیوں نہ اسے نافذ کر دیں، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر لاگو کر دیا۔‘‘
اب آپ ہی بتائیے کہ سیدنا عمر﷜ کے ’مخصوص حالات‘ میں اس سیاسی حکم (اجتہاد) سے پہلے تین طلاقوں کے ایک واقع کے متفقہ موقف کے حامل صحابہ کرام - خواہ وہ مفتی ہوں یا اس فتویٰ پر اقراری اور ساکت - بشمول سیدنا ابو بکر وعمر﷢ میں سے کون کون رافضی (نعوذ باللہ) تھے؟!! (کیونکہ اوپر ترجمہ میں موجود نیلے رنگ کے الفاظ سے واضح ہورہا ہے کہ سیدنا عمر﷜ کا موقف بھی تین طلاقوں کے ایک ہی واقع ہونے کا تھا مخصوص حالات کی وجہ سے انہیں یہ سیاسی فیصلہ کرنا پڑا) اور کیا رفض کی ابتداء سیدنا عمر﷜ کے ابتدائی دورِ خلافت سے پہلے ہی ہو چکی تھی؟!! ﴿ كبرت كلمة تخرج من أفواههم ﴾
محترم بھائی! آپ نے ’تین طلاقوں کے ایک واقع ہونے‘ کے اوّلین قائل اوّلین حضرات صحابہ پر رافضیت کا الزام عائد کیا تھا، جس پر میں نے اپنی درج بالا گزارشات پیش کی تھیں، جس کا جواب دینا آپ نے مناسب نہ سمجھا!! کیوں؟
اب دیکھیے میرے پاس دلائل کیا ہیں ؟
١۔ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلیفہ راشد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نفاذ سنت کا فیصلہ۔
۳۔ اجماع صحابہ۔
۴۔پورے دور عمر رضی اللہ عنہ اور بعد میں سکوت صحابہ۔
۵۔ خلفائے بعد عثمان و علی رضی اللہ عنہم کا عمل۔
٦۔ ائمہ اربعہ کا اجماع۔
۷۔ جمہور علمائے امت کا موقف۔
نمبر ایک
نبی کریمﷺ کی کوئی سنت (حدیث مبارکہ ) تو آپ نے پیش ہی نہیں کی۔ بلکہ ہماری پیش کی گئی احادیث مبارکہ کو قبول نہیں کیا۔
نمبر دو
سیدنا عمر﷜ کے متعلّق صحیح مسلم کی درج بالا حدیث مبارکہ میں وضاحت ہے کہ ان کا موقف بھی تین طلاقوں کے ایک ہی واقع ہونے کا تھا، مخصوص حالات کی وجہ سے انہیں یہ سیاسی فیصلہ کرنا پڑا۔
« كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر ، طلاق الثلاث واحدة . فقال عمر بن الخطاب : إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة . فلو أمضيناه عليهم ! فأمضاه عليهم » کہ ’’سیدنا ابن عباس﷜ سے مروی ہے کہ عہد رسالتمابﷺ اور عہد ابو بکر﷜ اور عمر فاروق﷜ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک (ایک مجلس کی) تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر﷜ نے فرمایا کہ جس معاملے (طلاق) میں لوگوں کو سوچ وبچار سے کام لینا چاہئے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، لہٰذا ہم کیوں نہ اسے نافذ کر دیں، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر لاگو کر دیا۔‘‘
نمبر تین اور چار
آپ کا اجماعِ صحابہ کا دعویٰ صحیح نہیں، بلکہ اوپر موجود سیدنا ابن عباس﷜ کی صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کے مطابق عہدِ ابی بکر﷜ اور عہد عمر﷜ کے ابتدائی سالوں میں اجماعِ صحابہ تین طلاقوں کے ایک واقع ہونے پر تھا، بعد میں جب سیدنا عمر﷜ نے ’مخصوص حالات‘ کی بناء پر اپنا سیاسی فیصلہ فرمایا تو اس کے بعد بھی اس پر اجماع نہیں ہوا، بلکہ ہر دور میں اہل علم اس سے اختلاف کرتے رہے۔
امام ابن تیمیہ﷫ نے مجموع فتاویٰ اور امام ابن القیم﷫ نے اعلام الموقعین میں لکھا ہے کہ تین طلاقوں کے ایک واقع ہونے کا فتویٰ سیدنا ابو بکر، عمر (ابتدائی دورِ خلافت)، علی بن ابی طالب، زبیر بن العوام، عبد الرحمٰن بن عوف، عبد اللہ بن مسعود، سیدنا ابن عباس﷢ سے بھی ثابت ہے۔
تابعین عظام اور بعد والے اہل علم میں سے طاؤس، عکرمہ، ابن اسحاق، حجاج بن ارطاۃ، امام ابو حنیفہ کے کئی اصحاب، امام مالک کے اہل قرطبہ ودیگر بعض اصحاب، امام احمد بن حنبل کے کئی اصحاب، اکثر اہل ظاہر اور محدثین، متکلّمین اور فقہاء میں کئی علماء ﷭ کا موقف ہے۔
نمبر پانچ، چھ اور سات
پہلے انہیں حجت ثابت کریں، پھر دلیل بنائیں!
آپ نے بڑے دھڑلے سے کچھ دعوے فرمائے تھے، جو صرف دعوے ہی تھے، کیونکہ نہ آپ نے نبی کریمﷺ کی کوئی سنت مبارکہ صحیح وصریح حدیث سے پیش کی تھی، نہ آپ یہ ثابت کر سکے کہ سیدنا عمر﷜ نے نبی کریمﷺ کی سنت کو لاگو کیا تھا، بلکہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق یہ تو سیدنا عمر﷜ کا اجتہاد تھا۔ اور نہ ہی اس مسئلہ پر صحابہ کرام﷢ کا اجماع ثابت کر سکے۔
آپ کے دعوں کے جواب میں نے کچھ عرض کیا تھا، جس کا جواب دینا بھی آپ نے نہ جانے کیوں مناسب نہ سمجھا؟!!

پھر وہی بات کہ قرآن و سنت سے ثابت کریں؟
تو کیا آپ کے خیال میں خلیفہ راشد کا فیصلہ قرآن و سنت سے ثابت نہیں؟
تو کیا آپ کے خیال میں ہر خلیفہ راشد کا ہر ہر فیصلہ قرآن وسنت سے ثابت ہے؟!! خواہ وہ اجتہادی ہی کیوں نہ ہو؟!!
پھر تو آپ کے ہاں مآخذ شریعت قرآن، حدیث، خلفاء اربعہ، اجماع اور قیاس ہوں گے؟!!
آپ کے درج بالا الفاظ سے مترشح ہو رہا تھا کہ آپ کے نزدیک خلیفہ راشد کا ہر فیصلہ کتاب وسنت سے ثابت ہوتا ہے، آپ سے وضاحت پوچھی تھی کہ کیا آپ کے نزدیک ہر خلیفہ راشد کا ہر اجتہادی فیصلہ بھی کتاب وسنت سے ثابت ہوتا ہے؟ جس کا آپ نے ابھی تک کوئی جواب نہ دیا۔
اور طالب نور بھائی
ورنہ کیا صحابہ کرام کے عدول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ معصوم تھے۔۔۔؟اور ان سے غلطی ممکن نہ تھی۔۔۔؟ تو یہ اہلسنت کا مسلک و مذہب ہرگز نہیں ۔
غلطی سے آپ کی کیا مراد ہے، کیا ایسے فیصلے کو غلطی کہا جا سکتا ہے کہ جو بے شمار صحابہ کی موجودگی میں پورے دور عمر میں جاری و ساری رہی، اور کسی کو احساس نہ ہو سکا کہ غلطی ہو گئی، اور اس کی تردید جاری کی جائے۔
گویا آپ کے نزدیک صحابہ کرام﷢ سے چھوٹی غلطی تو ممکن ہے، بڑی غلطی ممکن نہیں؟!!
یا آپ کے نزدیک صحابہ کرام﷢ سے ایسی غلطی کا صدور ممکن ہے جو چند ایک صحابہ کے سامنے ہو، بے شمار صحابہ کرام﷢ کی موجودگی میں صحابہ سے غلطی ہونا ممکن نہیں؟!!
یا آپ کے نزدیک صحابہ کرام﷢ سے ایسی غلطی کا صدور ممکن ہے جو وقتی ہو، ایسی غلطی کا صدور ممکن نہیں جو
موت تک جاری رہے؟!!
تو جنگِ جمل اور صفّین کے متعلّق کیا ارشاد فرمائیں گے؟!!

محترم بھائی! اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے پاس اس معرکۃ الآراء مسئلے میں صرف جذباتی باتوں کے علاوہ کوئی ئ ئ ئ ایک بھی دلیل نہیں۔
آپ پہلے کم از کم اپنا موقف تو بیان کریں! اپنا موقف تو بیان کیا نہیں، قرآن کریم کی آیت کریمہ پیش کی جائے، صحیح احادیث (جن میں صحیح مسلم کی روایت بھی شامل ہے) پیش کی جائے، ہر صورت میں آپ کے پاس کوئی جواب نہیں سوائے اپنی واحد جذباتی بات کے۔ حالانکہ کسی اختلافی مسئلے کا حل اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء ﴿ فإن تنازعتم في شيء فردوه إلى الله والرسول ... ﴾ میں بتایا ہے، جسے پہلے بھی کوٹ کیا گیا تھا-

اگر آپ کے نزدیک واقعی آپ کی اس جذباتی بات کی اتنی اہمیت ہے تو کم از کم اپنی اس جذباتی بات کو ڈیفائن ہی کر دیں کہ
کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے کسی قسم کی غلطی ممکن نہیں؟ یا
کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے بڑی غلطی ممکن نہیں؟ یا
کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے چھوٹی غلطی ممکن نہیں؟ یا
کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے ایسی غلطی ممکن نہیں جو چند صحابہ کرام کے سامنے ہو؟ یا
کیا آپ کے نزدیک کسی خلیفہ راشد سے ایسی غلطی ممکن نہیں جو زیادہ صحابہ کرام کے سامنے ہو؟! وغیرہ وغیرہ
پہلے اپنا موقف تو بیان کریں، تاکہ معلوم ہو کہ آپ کا یہ موقف بھی صرف جذباتیات کے تارِ عنکبوت پر قائم ہے، یا اس کے مضبوط اور مستحکم دلائل بھی ہیں؟؟؟
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
آپ نے صحابہ کرام﷢ سے غلطی کے صدور کی حقیقت کے متعلّق صرف ایک جذبات بات فرمائی تھی جس کے جواب میں صحابہ سے غلطی کے صدور کے متعلّق آپ کا موقف سمجھنے کے لئے آپ سے کچھ سوال کیے گئے تھے، جس کا جواب بھی آپ واضح نہ کر سکے، ازراہِ کرم درج بالا سوالوں پر اپنا موقف واضح فرمائیں!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
محترم بھائی! اگر حافظ ابن حجر﷫ نے اجماع کا دعویٰ کیا ہے، تو ان کے سلف صالحین (امام ابن تیمیہ وابن القیم اور ان سے بھی پہلے بہت سے علماء﷭ نے اس مسئلے کئی صحابہ کرام ، تابعین عظام اور بعد کے ائمہ اکرام﷭ سے تین طلاقوں کا ایک واقع ہونا بھی ثابت کیا ہے، جن کے حوالے اوپر گزر چکے ہیں۔ لہٰذا دعوائے اجماع محل نظر ہے۔
معاف کیجیے گا ، امام ابن تیمیہ مکمل اور ابن القیم کی جزوی حمایت کے علاوہ سوائے چند ایک ناموں کے آپ بہت سے علماء ، و صحابہ و تابعین اور ائمہ کرام کے نام ثابت نہیں کر سکتے اگر ہیں تو برائے مہربانی ایک لسٹ فراہم کر دیں۔
گویا آپ کے نزدیک چند علماء کی مخالفت سے اجماع کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ جب تک اجماع کے خلاف بہت سے علماء وصحابہ وتابعین اور ائمہ کرام کے ناموں کی ایک لسٹ نہ پیش کی جائے تب تک اجماع کا دعویٰ صحیح ہوگا؟!! کیا آپ پوری اُمت میں سے کوئی ایک عالم بھی اس موقف کا حامی پیش کر سکتے ہیں؟
حالانکہ اجماع کی تعریف ہی یہ ہے: هو اتفاق جميع العلماء المجتهدين من أمة محمدﷺ بعد وفاته في عصر من العصور على أمر ديني
اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ثابت کریں کہ اجماع کسی شرعی حکم کو منسوخ کر سکتا ہے؟!!
یہی تو میرے دھاگے کا مقصد ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ منسوخ نہیں کیا اور نہ ہی کچھ نیا کیا بلکہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح طرح سے نافذ کیا۔
حالانکہ امام ابن حجر﷫ کا جو قول آپ نے پیش کیا ہے اس میں اسے نسخ قرار دیا گیا ہے۔ گویا آپ کو اپنے ہی پیش کردہ امام ابن حجر﷫ کے موقف سے اختلاف ہے؟!! پھر نہ جانے آپ نے اسے پیش کیوں کیا؟!!
علاوہ ازیں آپ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر﷜ نے نبی کریمﷺ کی سنت کو نافذ کیا تھا، حالانکہ سیدنا ابن عباس﷜ کی صحیح مسلم کی روایت کے مطابق سیدنا عمر﷜ نے اپنے اجتہاد کو نافذ کیا تھا؟ فقال عمر بن الخطاب : إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة . فلو أمضيناه عليهم ! فأمضاه عليهم » آپ ہی بتائیے کہ آپ کی بات یہاں حجت ہوگی کہ سیدنا ابن عباس﷜ کی؟!! (انصاف شرط ہے!)
اگر بالفرض آپ کی بات کو ہی ’جدالاً‘ تسلیم کر لیا جائے تو اب یہ آپ کا فرض ہے کہ کسی صحیح وصریح حدیث مبارکہ سے اسے نبی کریمﷺ کی سنت ثابت کریں یا پھر آپ کسی صحیح اثر سے سیدنا عمر﷜ سے یہ ثابت کر دیں کہ انہوں نے اپنا اجتہاد نہیں بلکہ نبی کریمﷺ کی سنت کو نافذ کیا تھا؟!! (کیا میرا آپ سے یہ مطالبہ جائز نہیں؟!!)
گویا آپ کو تسلیم ہے کہ پہلے تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں، یہاں تک ہمارا اور آپ کا اتفاق ہوا۔
میر ا موقف پہلے دن سے واضح ہے کہ جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ ہے وہی دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی تھا اور دور ابو بکر میں بھی۔
حالانکہ صحیح مسلم کی روایت بالکل کچھ اور کہانی سنا رہی ہے:
« كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر ، طلاق الثلاث واحدة . فقال عمر بن الخطاب : إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة . فلو أمضيناه عليهم ! فأمضاه عليهم » کہ ’’سیدنا ابن عباس﷜ سے مروی ہے کہ عہد رسالتمابﷺ اور عہد ابو بکر﷜ اور عمر فاروق﷜ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک (ایک مجلس کی) تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر﷜ نے فرمایا کہ جس معاملے (طلاق) میں لوگوں کو سوچ وبچار سے کام لینا چاہئے تھا اس میں وہ جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، لہٰذا ہم کیوں نہ اسے نافذ کر دیں، چنانچہ آپ نے اس کو ان پر لاگو کر دیا۔‘‘
یہ حدیث مبارکہ صریح طور پر واضح کر رہی ہے کہ سیدنا عمر﷜ نے نبی کریمﷺ کے کسی فیصلے کو لاگو کرنے کی بجائے اپنا اجتہاد کیا تھا۔
علاوہ ازیں اگر جدلاً آپ کی بات تسلیم بھی کر لی جائے تو اس پر بہت بڑا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے وہ یہ کہ
بیک وقت تین طلاقیں دینا صحیح حدیث مبارکہ کے مطابق بہت بڑا گناہ اور آیاتِ الٰہی کے ساتھ تلعّب اور مذاق ہے، جس پر تماء علماء کا اتّفاق ہے اور جو آپ کو بھی تسلیم ہے وللہ الحمد! اب کیسے باور کر لیا جائے کہ تین طلاقین بیک وقت دینا بڑا گناہ بھی ہو، آیاتِ الٰہی کے ساتھ مذاق بھی ہو، تمام فقہاء بشمول احناف کے نزدیک ’طلاقِ بدعی‘ بھی ہو، اور پھر (آپ کے نزدیک بغیر کوئی دلیل ذکر کیے) سنّت بھی یہی ہو کہ ان تینوں کو تین ہی شمار کیا جائے گا؟!! فيا للعجب!!!

اب آپ ہی بتائیے کہ آپ جیسے مقلّد کی بات مانی جائے کہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق سیدنا ابن عباس﷜ جیسے حبر الامہ کی؟!!
اللهم أرنا الحق حقا ...
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
محترم ابو الحسن بھائی السلام علیکم

آپ کے بقول حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوئی نیا سیاسی حکم نہیں لگایا تھا بلکہ دورنبوی سے چلے آتے حکم کو نافذ کیا تھا۔ٹھیک!
معاف کیجیے گا میرے بقول نہیں ، بلکہ بقول حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ جمہور علماء سلف و خلف کے بقول، کہ جو ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی جان کر نافذ کر تے ہیں۔

لیکن دور نبوی کے حکم کو نافذ کرنے کی ضرورت کیا پڑی تھی ۔
سبحان اللہ کیا رحلت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتدین سے جہاد نہیں کیا گیا تھا۔
اور منکرین زکوٰة سے زکوٰة کی ایک رسی تک نہیں نکلوائی گئی تھی۔
کیا متعہ کے بارے میں حکم فاروقی کو سختی سے نافذ نہیں کروایا گیا تھا۔

اگر اختلاف کرنے والا تھا تو اجماع نہ ہوا اور اگر اجماع تھا تو سادہ الفاظ میں اس ساری تگ ودو کی ضرورت کیا تھی؟؟؟
پورے دورفاروقی میں سے آپ ایک صحیح ثقہ ثابت روایت نہیں پیش کر سکتے کہ جس میں نفاذ فیصلہ عمر رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی گئی ہو، اگر ہے تو پیش کیجئے۔

کتاب وسنت تو اسی دن سے نافذ تھے جس دن سے حضرت امیر المومنین خلافت سنبھالی تھی۔ اگر آپ کے بقول بعد میں انہوں نے سنت کا نفاذ کیا تھا تو صحابہ اس مجلس کے اجتماعی فیصلہ سے پہلے کیا نافذ تھا؟؟
جیسے میں نے اوپر عرض کیا کہ حرمت متعہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور آخر ہی سے تھی پھر حضرت عمر رضی اللہ کو کیا ضرورت تھی کہ اس کو سختی سے نافذ کروایا۔

ایک خاص وقت میں ہی پہلے سے نافذ شدہ سنت کے دوبارہ نفاذ کی ضرورت کیوں پڑی ؟؟؟
جن سوالوں کے جواب پہلے ہی سے دیے جا چکے ہیں، آ پ پھر انہی کو دہرانے کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے، اس کا جواب میں امام نووی رحمہ کے الفاظ میں شرح مسلم سے دے چکا ہوں۔ کہ بعض دفعہ لوگ کہتے تھے انت طلاق ، انت طلاق، انت طلاق اور مقصد ہوتا تھا تاکید، بعض دفعہ کوئی حقیقتا تین طلاق یعنی طلاق قطعی دے چکتا تھا اور بعد میں کہا جاتا تھا کہ میرا مقصد تاکید تھا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم لگا دیا کہ اب جو ظاہر ہو گا اسی پر فیصلہ ہو گا، یعنی جو تین دفعہ طلاق دے دے گا وہ تین ہی تصور کی جائیں گی، اور بس۔

یہ دوبارہ نفاذ ایک ہی سنت کا کیوں کیا گیا؟ نماز، روزے، حج وزکوۃ اور دیگر شرعی احکام کا دوبارہ نفاذ کیوں نہ ہوا؟؟؟
پہلی بات تو یہ کہ جب بقول آپ کے ایک طریقہ موجود تھا ، تو پھر خلیفہ راشد کو اپنے ذاتی اجہتاد سے کام کیوں لینا پڑا۔

پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا کس عامی حنفی کے لیے جائز ہے کہ وہ حنفی فقہاء کی رائے پر شافعی فقہاء کے مسلک کو ترجیح دے۔ اگر اجازت ہے تو آپ کا استدلال درست ہے۔ اگر نہیں تو پھر دو آپشن ہیں یا تو آپ حنفیت کو خیر آباد کہہ دیں یا پھر اپنے اس استدلال سے رجوع فرمائیں۔
ماشاء اللہ یہ کس نے کہا آپ سے کہ میں حنفی ہوں ، کیا اس پورے تھریڈ میں میں نے ایک بھی حنفی فقیہ کا حوالہ دیا، یا میں نے حنفی ہونے کا دعوٰی کیا ، الحمد للہ میں موحد محمدی ہوں اور میں نے عرض کیا کہ اس معاملے میں میرا موقف اور عقیدہ وہی ہے جو جمہور علماء سلف و خلف و ائمہ اربعہ کا ہے۔


محترم انس نظر بھائی السلام علیکم

اگر بالفرض آپ کی بات کو ہی ’جدالاً‘ تسلیم کر لیا جائے تو اب یہ آپ کا فرض ہے کہ کسی صحیح وصریح حدیث مبارکہ سے اسے نبی کریمﷺ کی سنت ثابت کریں یا پھر آپ کسی صحیح اثر سے سیدنا عمر سے یہ ثابت کر دیں کہ انہوں نے اپنا اجتہاد نہیں بلکہ نبی کریمﷺ کی سنت کو نافذ کیا تھا؟!! (کیا میرا آپ سے یہ مطالبہ جائز نہیں؟!!)
اہل سنت والجماعت سے تعلق ہے تو آپ کا یہ مطالبہ سراسر ناجائز اور باطل ہے، اوپر میں نے اعلام الموقعین سے حافظ ابن القیم کے حوالے سے صحیح اور ثقہ احادیث سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین بالخصوص خلفائے راشدین کے بارے میں حجت تمام کر دی ہے۔ کیا آپ اس تحریر سے متفق ہیں؟ اگر ہیں تو پھر آپ کا یہ سوال بے معنی ہے اور اگر نہیں تو پھر جو شخص یا گروہ اتنی صحیح احادیث کی بنیاد پر لکھے گئے ایک امام اہل سنت کے مدلل ترین مضمون سے بھی خلفائے راشدین کا مقام و مرتبہ اور انکی سنت کی اہمیت کو نہیں پہچان سکا اس کو میں کچھ نہیں دے سکتا۔

اعلام الموقعین از حافظ ابن القیم صفحہ 412 پر ہے تم میری سنت کو اور رشد و ہدایت والے خلفاء کی سنت کو میرے بعد لازم پکڑے رہو اس پر چنگل مار لو اسے دانتوں سے مضبوط تھام لو دیکھو نئے کاموں سے بچتے رہنا یاد رکھو ہر نیا کام بدعت ہے، یہ حدیث حسن ہے اس کی سند بے خوف ہے اس میں آپ نے اپنی سنت کے ساتھ خلفاء کی سنت ملا دی ہے اور حکم میں اس قدر مبالغہ فرمایا کہ کچلیوں سے مضبوط تھامنے کی ہدایت فرمائی یہ شامل ہے ان کے فتووں کو اور اسے جس کو یہ اس امت کے لیے طریقہ بنائیں گو اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ معلوم نہ بھی ہو اگر ہو تو وہ حضور کی سنت ہو گی۔ یہ شامل ہے ان کے فتوں کو بھی سب کے ہوں، اکثر کے ہوں ، بعض کےہوں۔ اس لیے کہ آپ نے اسے معلق رکھا سنت خلفاء راشدین پر اور یہ ظاہر ہے کہ خلافت کی حالت میں ان بزرگوں نے آن واحد میں طریقے نہیں بتلائے پس ہر ایک کی اس کی خلافت کے وقت جو سنت ہو وہ سنت ہے۔

یہ حدیث مبارکہ صریح طور پر واضح کر رہی ہے کہ سیدنا عمر نے نبی کریمﷺ کے کسی فیصلے کو لاگو کرنے کی بجائے اپنا اجتہاد کیا تھا۔
استغفراللہ، اس کا مطلب ہے کہ خلیفہ راشد نے بقول آپ کے قرآن کریم کی نص صریح کے ہوتے ہوئے اپنا اجہتاد کیا ؟
اس کا مطلب ہے کہ خلیفہ راشد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح سنت کے ہوتے ہوئے اپنا اجتہاد کیا؟
اور ایک حلال عورت کو حرام کیا ؟
اور آپ کے پاس اس حدیث کے ان الفاظ سے یہ مطلب نکالنے کی کیا دلیل ہے ؟
آپ قرآن و حدیث سے ثابت کر سکتے ہیں کہ کیا واضح نص قرآنی اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے کوئی امتی اپنا اجہتاد کر سکتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

علاوہ ازیں اگر جدلاً آپ کی بات تسلیم بھی کر لی جائے تو اس پر بہت بڑا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے وہ یہ کہ
بیک وقت تین طلاقیں دینا صحیح حدیث مبارکہ کے مطابق بہت بڑا گناہ اور آیاتِ الٰہی کے ساتھ تلعّب اور مذاق ہے، جس پر تماء علماء کا اتّفاق ہے اور جو آپ کو بھی تسلیم ہے وللہ الحمد! اب کیسے باور کر لیا جائے کہ تین طلاقین بیک وقت دینا بڑا گناہ بھی ہو، آیاتِ الٰہی کے ساتھ مذاق بھی ہو، تمام فقہاء بشمول احناف کے نزدیک ’طلاقِ بدعی‘ بھی ہو، اور پھر (آپ کے نزدیک بغیر کوئی دلیل ذکر کیے) سنّت بھی یہی ہو کہ ان تینوں کو تین ہی شمار کیا جائے گا؟!! فيا للعجب!!!
اب آپ ہی بتائیے کہ آپ جیسے مقلّد کی بات مانی جائے کہ صحیح مسلم کی روایت کے مطابق سیدنا ابن عباس جیسے حبر الامہ کی؟!!
سبحان اللہ کیا آپ کے علم میں یہ بات نہیں کہ یہ حدیث جو آپ پیش کر رہے ہیں اس کے راوی کا فتویٰ بھی ایک مجلس کی تین طلاق کے تین ہی ہونے کا ہے؟

اعلام الموقعین صفحہ 413 پر دیکھیے اللہ تعالیٰ نے حق کو حضرت عمر کی زبان اور دل میں رکھ دیا ہے پس ہم ان کی کیسے مان لیں ؟ جن کے نزدیک حضرت عمر جیسے کسی مسئلہ میں خطا کر جائیں اور صحابہ میں سے ایک بھی اس پر انکار نہ کرے لیکن بعد والے آئیں اور حضرت عمر رضی اللہ کی غلطی اور خطاء پر تنبیہ کریں یہ تو ظاہر ہے محال ہے۔

اعلام الموقعین صفحہ 419 دیکھیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری امت میں سے ایک جماعت برابر حق پر قائم رہے گی، حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں زمین کبھی ایسے لوگوں کے وجود سے خالی نہ رہے گی جو اللہ تعالیٰ کی حجت پر قائم ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کی باتیں باطن نہ ہو جائیں اگر منکرین اتباع سلف کی بات مان لی جائے تو ثابت ہو گا کہ وہ زمانہ حق والوں سے خالی تھا اس لیے کہ ایک حادثے میں ایک صحابی نے کوئی فتویٰ دیا تھا وہ غلط لیکن کسی اور نے اس کے خلاف نہ کیا سارا زمانہ غلطی پر ہی رہا معروف کا حکم کرنے والا منکر سے روکنے ولا اس وقت ایک بھی نہ تھا یہاں تک کہ وہ زمانہ گذر گیا فقہاء کا زمانہ آیا تو اب حق گر برسنے لگے۔ نعوذ باللہ منہا۔

جب صحابہ یا کوئی صحابہ کوئی قول کہے پھر ایک زمانے کے بعدکوئی فقیہ اس کے خلاف قول کہے تو یہ قول نیا ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میرے اور خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑے رہو اور اس پر اپنی کچلیاں تک مضبوط گڑ دو اور نئے امور سے بچتے رہو، ہر بدعت گمراہی ہے پس یہ نیا قول بدعت ہے اور گمراہی ہے۔


میرے بہت سارے سوال آپ بھائی کھا گئے ہیں اور ایک کا بھی جواب نہیں دیا گیا کیا یہی حق ہے ؟

میرے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح و صاف فرمان ہے، کہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو مضبوطی سے دانتوں سے تھام لو ، پکڑ لو۔

کیا اس حدیث کے ہوتے ہوئے اس بات کی گنجائش ہے کہ میں کسی خلیفہ راشد کی کسی سنت کی تحقیق کرتا پھروں۔ میرا کام ہے نبی کے فرمان پر جب وہ صحیح ثابت ہو جائے تو بلا تامل عمل کرنا ، اور یہ ایک صحیح ، ثقہ ثابت روایت ہے۔ جسکی اوپر حافظ ابن القیم رحمہ نے کافی تفصیل سے شرح بھی کر دی ہے۔

غلطی کی تعریف کیا کرتے ہیں آپ ؟ میں نے اوپر عرض کیا تھا کہ ایسی بات یا فیصلہ غلطی کی تعریف میں نہیں آتا کہ جس میں قرون خیر کے تمام لوگ شامل ہوں اور جو عرصہ دس سال سے بھی زیادہ پر محتاط ہو ۔


اور یہ سیاسی حکم کی اصطلاح کیا ہے ؟ کیا قرآن و سنت سے آپ اس اصطلاح کو ثابت کر سکتے ہیں؟

اور جمہور علمائے سلف و خلف کے مسلک کے تحت چونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حق شناس،حق گو، علم ، و متبع سنت ہونے کے حوالے سے اتنی بڑی تعداد میں احادیث موجود ہیں کہ ایک لمحے کے لیے بھی تصور نہیں کیا جا سکتا کہ زبان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی بڑی تعداد میں بشارات پانے والا کوئی ایسا نیا فیصلہ کرے گا کہ جس کی نظیر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ ملتی ہو۔ اس کی تائید اوپر حافظ ابن القیم کے الفاظ سے بھی کر چکا ہوں۔

سبحان اللہ جو بات قرون خیر میں معمول بن گئی تھی کہ بقول آپ کے مانع کی اصطلاح کی زد میں آ گئی وہ اس موجودہ دور فتن میں خیر میں کس طرح تبدیل ہو گئی، اور کیا اس دور میں یہ مذاق اڑانا لوگوں کو معمول بن گیا تھا اور اب مذاق نہیں اڑایا جاتا،

تو کیا ایک خلیفہ راشد کی سنت و اجماع صحابہ کو ختم کرنے والی اتھارٹی کے بارے میں آپ بتا سکتے ہیں؟؟؟

یاد رہے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کو دانتوں سے پکڑے رہیں۔

تو کیا آپ کے خیال میں خلیفہ راشد کا فیصلہ قرآن و سنت سے ثابت نہیں؟

اور میں نے نہایت تفصیل سے جواب دیا کہ اس مانع سے اللہ کی مقرر کی ہوئی حلت متاثر ہوتی ہے اور حرمت میں تبدیل ہو جاتی ہے، لہزا یہ مانع قرآن و سنت کی تعلمیات کے خلاف ہے، کوئی بھی ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا کہ جس سے اللہ کے حلال و حرام میں تبدیلی واقع ہو،۔
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
متاخرین میں سے شیخ عبدالوہاب ، الدرر السنیۃ ، جلد ۱ صفحہ 240 کتاب العقائد میں واضح کر دیتے ہیں کہ درحقیقت ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے کے سب سے بڑے داعی و موجدین کون ہیں، اور یہ بھی کہ امام موحدین شیخ عبدالوہاب کے نزدیک حق کیا ہے، اور درحقیقت ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک کہنا امام ابن تیمیہ و ابن القیم کی تقلید شخصی ہے، اگر اس سے پہلے اس کا کوئی ٹھوس وجود ہوتا تو موحدین کے امام شیخ عبدالوہاب ضرور اس کا ذکر کرتے اور اس مسئلے کو واضح طور پر ابن القیم و ابن تیمیہ کی طرف منسوب بھی نہ کرتے اور نہ ہی ان کی تقلید قرار دیتے۔

هذا وعندنا أن الإمام ابن القيم وشيخه إماما حق من أهل السنة، وكتبهم عندنا من أعز الكتب، إلا أنا غير مقلدين لهم في كل مسألة، فإن كل أحد يؤخذ من قوله ويترك إلا نبينا محمدا صلى الله عليه وسلم؛ ومعلوم مخالفتنا لهما في عدة مسائل، منها: طلاق الثلاث بلفظ واحد في مجلس، فإنا نقول به تبعا للأئمة الأربعة۔

ہمارے نزدیک امام ابن القیم اوران کے شیخ اہل السنت میں سے حق کے امام ہیں ، اوران کی کتابیں ہمارے نزدیک مستند کتابیں ہیں، لیکن ہم ہرمسئلہ میں ان کی تقلید نہیں کرتے کیونکہ سوائے ہمارے نبی محمد صلى الله عليہ وسلم، کے ہرکسی کا قول لیا بهی جاتا ہے اورچهوڑا بهی جاتا ہے ، لہذا ہم نے کئی مسائل میں ان دونوں کی مخالفت کی ہے جوکہ ایک معلوم بات ہے، مثلا انهی مسائل میں سے ایک لفظ کے ساتهہ ایک مجلس میں تین طلاقوں کا مسئلے میں ہم أئمہ أربعہ کی پیروی کرتے ہیں۔

جس دور میں ابن تیمیہ و ابن القیم رحمہ نے ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک قرار دینے کا فتویٰ دیا اس دور تک اس چیز کو روافض اور مخالفین اہل سنت والجماعت کی علامت خاص سمجھا جاتا تھا اور اس فتویٰ کی وجہ سے ابن تیمیہ و ابن القیم کو سزا دی گئ اور بطور سزا انہیں اونٹ پر بٹھا کر پھروایا گیا، دیکھیے، علامہ امیری یمانی کی سبل السلام جلد 2 صفحہ 257 کتاب الطلاق ۔

وَصَارَتْ هَذِهِ الْمَسْأَلَةُ عَلَمًا عِنْدَهُمْ لِلرَّافِضَةِ وَالْمُخَالِفِينَ وَعُوقِبَ بِسَبَبِ الْفُتْيَا بِهَا شَيْخُ الْإِسْلَامِ ابْنُ تَيْمِيَّةَ وَطِيفَ بِتِلْمِيذِهِ الْحَافِظِ ابْنِ الْقَيِّمِ عَلَى جَمَلٍ بِسَبَبِ الْفَتْوَى بِعَدَمِ وُقُوعِ الثَّلَاثِ۔

اسی چیز کا اقرار علامہ وحید الزماں نے تیسر الباری ، کتاب الطلاق صفحہ 185 پر بھی کیا ہے۔

اور تعجب ہے ان لوگوں سے جنہوں نے ہمارے امام شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ پر تین طلاقوں کے مسئلہ میں بلوہ کیا ان کو ستایا۔

تفسیر قرطبی میں علامہ قرطبی لکھتے ہیں۔
قَالَ عُلَمَاؤُنَا: وَاتَّفَقَ أَئِمَّةُ الْفَتْوَى عَلَى لُزُومِ إِيقَاعِ الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ فِي كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ جُمْهُورِ السَّلَفِ
ہمارے علماء کا کہنا ہے کہ تمام ائمہ فتاوٰی ایک لفظ سے تین طلاق کے لازم ہونے پر متفق ہیں اور یہی جمہور سلف کا قول ہے۔

امام زرقانی شرح موطا جلد ۳ صفحہ 253 پر لکھتے ہیں۔
وَالْجُمْهُورُ عَلَى وُقُوعِ الثَّلَاثِ، بَلْ حَكَى ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ الْإِجْمَاعَ قَائِلًا: إِنَّ خِلَافَهُ شَاذٌّ لَا يُلْتَفَتُ إِلَيْهِ.
جمہور کے نزدیک تین طلاقوں کا وقوع ہو جاتا ہے، بلکہ امام ابن عبدالبرنے اس پر اجماع نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے خلاف قول شاذ ہے اور اس کی طرف التفات ہی نہیں کیا جا سکتا۔
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
کیا آپ حضرات بتا سکتے ہیں کہ شیخ عبدالوہاب نجدی رحمہ اتنے ہی کم علم و بے مایہ شخص تھے کہ جن کو یہ تک نہیں پتہ تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک کہنا تقلید تیمیہ و ابن القیم نہیں بلکہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

آپ حضرات واضح دیکھ سکتے ہیں کہ امام الموحدین سیدھا سیدھا کہہ رہے ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے کا قول ابن تیمیہ و ابن القیم کا ہے اور وہ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور اپنا اجتہاد بھی نہیں کرتے بلکہ ائمہ اربعہ کے قول ہی کی پیروی کرتے ہیں؟


آپ کا اجماعِ صحابہ کا دعویٰ صحیح نہیں، بلکہ اوپر موجود سیدنا ابن عباس کی صحیح مسلم کی حدیث مبارکہ کے مطابق عہدِ ابی بکر اور عہد عمر کے ابتدائی سالوں میں اجماعِ صحابہ تین طلاقوں کے ایک واقع ہونے پر تھا، بعد میں جب سیدنا عمر نے ’مخصوص حالات‘ کی بناء پر اپنا سیاسی فیصلہ فرمایا تو اس کے بعد بھی اس پر اجماع نہیں ہوا، بلکہ ہر دور میں اہل علم اس سے اختلاف کرتے رہے۔
اجماع نہ منسوخ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی شرعی حکم کو منسوخ کرتا ہے۔ کیونکہ ناسخ منسوخ کا تعلق نبی کریمﷺ کی زندگی سے ہے، کوئی شے نبی کریمﷺ کے فوت ہونے کے بعد منسوخ نہیں ہو سکتی۔ جبکہ اجماع کا تعلّق نبی کریمﷺ کی زندگی کے بعد ہے، کیونکہ نبی کریمﷺ کے دَور میں وحی نازل ہو رہی تھی تو اجماع کی ضرورت نہ تھی، اجماع کی تعریف (هو اتّفاق مجتهدي أمة محمد ﷺ بعد وفاته في عصر من العصور على حكم شرعي اجتهادي) میں ہی یہ بات شامل ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد ہوتا ہے۔ اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ثابت کریں کہ اجماع کسی شرعی حکم کو منسوخ کر سکتا ہے؟!!
جب بقول آپ کے تین طلاقوں کے ایک ہونے پر اجماع ہو چکا تھا ، اور پھر آپ کا کہتے ہیں کہ اجماع نہ منسوخ ہوتا ہے اور نہ ہی کسی شرعی حکم کو منسوخ کرتا ہے ؟

تو پھر ایک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سیاسی فیصلے نے کیسے اس عظیم اجماع کو منسوخ کر دیا ؟؟؟؟

اور ہم دیکھتے ہیں کہ شرعی حکم منسوخ ہوا، اللہ نے جس مرد کو رجوع کا حق دیا تھا، اس سے رجوع کا حق چھین لیا گیا ؟

اللہ نے جس عورت کو جس مرد پر حلال کیا تھا وہ اس مرد پر حرام کر دی گئی۔

آپ کہنا چاہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجماع کا انکار کیا اور اپنا شخصی اجتہاد نافذ کر دیا؟؟؟

آپ کہنا چاہتے ہیں کہ اس دور میں موجودہ دور کے متبع سنت نہیں تھے جو کہ اس پر اعتراض کرتے اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم و اجماع ابی بکر رضی اللہ عنہ پر اصرار کرتے؟؟؟ اگر کسی نے ایسا کیا ہو تو برائے کرم اپنے حق میں اس روایت کو پیش کیجے۔

کیا آپ دور صدیقی رضی اللہ عنہ میں اس اجماع کی کوئی ایک مثال پیش کر سکتے ہیں ؟؟ کوئی ایک ایسی روایت پیش کر سکتے ہیں کہ جس سے پتہ چلے کہ کسی شخص نے ایک مجلس میں تین طلاق دی اور اس کو صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک قرار دیا ہو؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
اور انس نضر بھائی حیرت ہے آپ میرے پوری پوری پوسٹس کا جواب نہیں دے رہے ہیں اور پھر شکوہ بھی برائے کرم میرے ارسال کردہ پوسٹ نمبر ٢٦

اور یہ میرے خیالات نہیں بلکہ بخاری و مسلم سے لی گئی روایات ہیں اور حافظ ابن القیم ان کو اعلام المعوقعین میں بیان کر رہے ہیں۔ اور پھر بتائیں کہ خلفائے راشدین کے بارے میں حافظ صاحب جذباتی ہیں یا میں؟؟؟

مندرجہ بالا تقریر کے مطابق ایک ہی موقف بنتا ہے کہ جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے مکمل واضح ہوتا ہے۔

صفحہ 412 پر ہے تم میری سنت کو اور رشد و ہدایت والے خلفاء کی سنت کو میرے بعد لازم پکڑے رہو اس پر چنگل مار لو اسے دانتوں سے مضبوط تھام لو دیکھو نئے کاموں سے بچتے رہنا یاد رکھو ہر نیا کام بدعت ہے، یہ حدیث حسن ہے اس کی سند بے خوف ہے اس میں آپ نے اپنی سنت کے ساتھ خلفاء کی سنت ملا دی ہے اور حکم میں اس قدر مبالغہ فرمایا کہ کچلیوں سے مضبوط تھامنے کی ہدایت فرمائی یہ شامل ہے ان کے فتووں کو اور اسے جس کو یہ اس امت کے لیے طریقہ بنائیں گو اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ معلوم نہ بھی ہو اگر ہو تو وہ حضور کی سنت ہو گی۔ یہ شامل ہے ان کے فتوں کو بھی سب کے ہوں، اکثر کے ہوں ، بعض کےہوں۔ اس لیے کہ آپ نے اسے معلق رکھا سنت خلفاء راشدین پر اور یہ ظاہر ہے کہ خلافت کی حالت میں ان بزرگوں نے آن واحد میں طریقے نہیں بتلائے پس ہر ایک کی اس کی خلافت کے وقت جو سنت ہو وہ سنت ہے۔

چلیں میرا فورم کے تمام ممبران کو چیلنج ہے کہ وہ اس حدیث کو یا تو ضعیف ثابت کریں یا پھر اس کی تشریح بیان کریں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے کیا مطلب ہے کہ میری اور میرے ہدایت یافتہ صحابہ کی سنت کو دانتوں سے تھام لو۔

ایک تو کہا گیا میرے ہدایت یافتہ۔

اور دوسرے سنت کو پکڑ لو نہیں کہا گیا بلکہ زور دیا گیا کہ دانتوں سے پکڑ لو۔
 
Top