• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کٹانےکے جواز پر صحابہ کا اجماع

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
مثل ابوہریرہ رضی الله عنہ والی روایت جو مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے اس میں ابو زرعہ (عمرو بن جریر ) کا سماع ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ثابت نہیں ہے
کیا اس دلیل سے سیدنا ابو ہریرہ کا ڈاڑی کاٹنا ثابت نہیں ہوتا

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّهُ كَانَ يَخْضِبُ بِالْحِنَّاءِ. قَالَ فَقَبَضَ يَوْمًا عَلَى لِحْيَتِهِ فَقَالَ: كَأَنَّ خِضَابِي خِضَابُ أَبِي هُرَيْرَةَ وَلِحْيَتِي مِثْلُ لِحْيَتِهِ وَشَعْرِي مِثْلُ شَعْرِهِ وَثِيَابِي مِثْلُ ثِيَابِهِ وعليه ممصران. (طبقات ابن سعد249/4:،سندہ صحیح)
'' تابعی جلیل جناب محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ وہ حنا کے ساتھ خضاب لگاتے تھے،راوی بیان کرتا ہے کہ انھوں ایک دن اپنی داڑی کو مٹھی میں لیا اور کہنے لگے:میرا خضاب سیدنا ابو ہریرہ کے خضاب جیسا ہے ، میری ڈاڑی ان کی داڑی جیسی ہے، میرے بال ان کے بالوں جیسے ہیں اور میرے کپڑے بھی ان کے کپڑوں جیسے ہیں،اور وہ دو لال کپڑے پہنے ہوئے تھے۔''
اس اثر میں اہم بات یہ ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ سے مشت سے زائد داڑی کاٹنا ثابت ہے،جیسا کہ گزشتہ مضمون میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے اور امام ابن سیرین سے بھی داڑی کاٹنا ثابت ہے،یعنی اگر ان دونوں میں سے کسی ایک سے داڑی کاٹنا ثابت ہوجائے تو اس بارے میں یہی کہا جائے گا کہ دونوں سے کاٹنا ثابت ہے،امام ابن سیرین کے بارے مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي هِلَالٍ، قَالَ: سَأَلْتُ الْحَسَنَ، وَابْنَ سِيرِينَ فَقَالَا: «لَا بَأْسَ بِهِ أَنْ تَأْخُذَ مِنْ طُولِ لِحْيَتِكَ» (مصنف ابن ابی شیبہ: 25489
وكان الحسن يأخذ من طول لحيته، وكان ابن سيرين لا يرى بذلك بأسًا.

جناب حسن بصری اپنی ڈاڑھی کو لمبائی سے کاٹتے تھے،اور امام ابن سیرین داڑی کاٹنے کو جائز سمجھتے تھے۔

(التمہید لابن عبد البر:146/24
اسی طرح عطا بن ابی رباح اور حسن بصری نے یہ بیان کیا ہے کہ صحابہ کرام اپنی مشت سے زائد داڑی کاٹتے تھے اور سیدنا ابو ہریرہ ان دونوں تابعین کے استاد ہیں،لہذا جن صحابہ کی طرف اس فعل کی نسبت ہے ان میں ابو ہریرہ بھی شامل ہیں، اس لیے ان سے بھی قص اللحیہ ثابت ہوا۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہ دلیل کیسی ہے؟
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، تَرْفَعُهُ، قَالَ: «إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَهُ أُضْحِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا، وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا» (صحیح مسلم: 1977
سیدنا ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مرفوعاً روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جب عشرہ(ذوالحجہ) شروع ہوجائے تو جس شخص کے پاس قر بانی ہو اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہو، نہ وہ اپنا کوئی بال اتارے نہ ناخن تراشے۔"
یعنی قربانی سے پہلے کوئی بال نہ کاٹے،لیکن قربانی کرنے کے بعد کاٹ سکتا ہے،اس حدیث میں لفظ شعر مطلق ذکر ہوا ہے،اس میں جسم کے تمام بال شامل ہیں،خواہ وہ سر ،داڑی،مونچھ،بغل یا زیر ناف بال ہوں،اور سلف صالحین سے قربانی کے بعد مذکورہ تمام بال کاٹنے کا استحباب ثابت ہیں،جیسا کہ ابن عباس وغیرہ سے تفث کی تفسیر میں بیان کردیا گیاہے،اس حدیث سے بھی یہی ثابت ہورہا ہے کہ قربانی کرنے کے بعد داڑی کے مشت سے زائد بالوں کو کاٹا جا سکتا ہے۔
مشت سےزائدداڑی کاٹنے کے بارے صحیح مرسل حدیث:
امام ابو داودنے جلیل القدر تابعی جناب مجاہد بن جبر سے بسند صحیح ایک مرسل حدیث اس طرح بیان کی ہے:

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ، سَمِعَ مُجَاهِدًا، يَقُولُ: رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا طَوِيلَ اللِّحْيَةِ فَقَالَ: «لِمَ يُشَوِّهُ أَحَدُكُمْ نَفْسَهُ؟»
عثمان بن اسود سے مروی ہے کہ اس نے مجاہد بن جبر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریمﷺ نے ایک لمبی داڑی والے آدمی کو دیکھ کر اسے کہا:تم جان بوجھ کر اپنا چہرہ کیوں بگاڑتے ہو؟ (المراسیل:ص:316
اس حدیث کی سند صحیح ہے کیوں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں،اس کے علاوہ مجاہد سے بسند صحیح داڑی کٹوانا ثابت ہے اور جہاں تک مروان بن معاویہ کی تدلیس کا تعلق ہے تو وہ صرف تدلیس شیوخ میں مشہور ہے،جیسا کہ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں اس کا ذکر کیا ہے۔ (تهذيب التهذيب 10 / 98
علامہ البانی نے بھی ابن حجر کی یہی بات نقل کی ہے:

''فإن مروان بن معاوية - وإن احتج به الشيخان؛ فإنه كان يدلس أسماء الشيوخ؛ كما في " التقريب "، وبيانه في " التهذيب " (الضعیفة:800/12
دوسری جگہ علامہ البانی اسی بات کو یوں ذکر کرتے ہیں:
''مروان بن معاوية، وليس فيه علة سوى أنه كان يدلس أسماء الشيوخ''
یعنی مروان بن معاویہ میں سوائے تدلیسِ شیوخ کے کوئی دوسری علت نہیں ہے۔
(الضعیفة:236/3

تدلیس شیوخ کی تعریف یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے شیخ، جس سے وہ حدیث روایت کر رہا ہے، کا نام، کنیت، نسب وغیرہ غیر معروف طریقے سے بیان کرے تاکہ وہ پہچانا نہ جائے۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
کیا اس دلیل سے سیدنا ابو ہریرہ کا ڈاڑی کاٹنا ثابت نہیں ہوتا
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّهُ كَانَ يَخْضِبُ بِالْحِنَّاءِ. قَالَ فَقَبَضَ يَوْمًا عَلَى لِحْيَتِهِ فَقَالَ: كَأَنَّ خِضَابِي خِضَابُ أَبِي هُرَيْرَةَ وَلِحْيَتِي مِثْلُ لِحْيَتِهِ وَشَعْرِي مِثْلُ شَعْرِهِ وَثِيَابِي مِثْلُ ثِيَابِهِ وعليه ممصران. (طبقات ابن سعد249/4:،سندہ صحیح)
'' تابعی جلیل جناب محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ وہ حنا کے ساتھ خضاب لگاتے تھے،راوی بیان کرتا ہے کہ انھوں ایک دن اپنی داڑی کو مٹھی میں لیا اور کہنے لگے:میرا خضاب سیدنا ابو ہریرہ کے خضاب جیسا ہے ، میری ڈاڑی ان کی داڑی جیسی ہے، میرے بال ان کے بالوں جیسے ہیں اور میرے کپڑے بھی ان کے کپڑوں جیسے ہیں،اور وہ دو لال کپڑے پہنے ہوئے تھے۔''
اس اثر میں اہم بات یہ ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ سے مشت سے زائد داڑی کاٹنا ثابت ہے،جیسا کہ گزشتہ مضمون میں اس کی وضاحت ہوچکی ہے اور امام ابن سیرین سے بھی داڑی کاٹنا ثابت ہے،یعنی اگر ان دونوں میں سے کسی ایک سے داڑی کاٹنا ثابت ہوجائے تو اس بارے میں یہی کہا جائے گا کہ دونوں سے کاٹنا ثابت ہے،امام ابن سیرین کے بارے مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي هِلَالٍ، قَالَ: سَأَلْتُ الْحَسَنَ، وَابْنَ سِيرِينَ فَقَالَا: «لَا بَأْسَ بِهِ أَنْ تَأْخُذَ مِنْ طُولِ لِحْيَتِكَ» (مصنف ابن ابی شیبہ: 25489
وكان الحسن يأخذ من طول لحيته، وكان ابن سيرين لا يرى بذلك بأسًا.

جناب حسن بصری اپنی ڈاڑھی کو لمبائی سے کاٹتے تھے،اور امام ابن سیرین داڑی کاٹنے کو جائز سمجھتے تھے۔

(التمہید لابن عبد البر:146/24
اسی طرح عطا بن ابی رباح اور حسن بصری نے یہ بیان کیا ہے کہ صحابہ کرام اپنی مشت سے زائد داڑی کاٹتے تھے اور سیدنا ابو ہریرہ ان دونوں تابعین کے استاد ہیں،لہذا جن صحابہ کی طرف اس فعل کی نسبت ہے ان میں ابو ہریرہ بھی شامل ہیں، اس لیے ان سے بھی قص اللحیہ ثابت ہوا۔
[FONT=simplified arabic, serif] [/FONT]
محترم ،
اپ کے لئے تابعین کا عمل حجت ہے اور ابن سیرین اور حسن بصری دونوں مرسل روایت کے ماہر تھے اور ان دونوں کا سماع کرنا ابوھریره رضی الله عنہ سے ثابت نہیں ہے جامع التحصیل کی عبارت پڑھ لیں .
وأما روايته عن أبي هريرة وقد تقدم بعض ذلك قال قتادة إنما أخذ الحسن عن أبي هريرة رواه إسماعيل بن علية عن سعيد عنه وقد خالفه الجمهور في ذلك فقال أيوب وعلي بن زيد وبهز بن أسد لم يسمع الحسن من أبي هريرة وقال يونس بن عبيد ما رآه قط وذكر أبو زرعة وأبو حاتم أن من قال عن الحسن حدثنا أبو هريرة فقد أخطأ (
جامع التحصیل ترجمہ حسن بصری )
اور دوسری بات اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ درست ہے تب میرا سوال پھر وہی ہے کہ پھر جو حج کے ساتھ خاص والی روایات کا کیا کریں گے اس لئے میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ حج اور عمرہ والی روایات زیادہ صحیح ہیں ان روایات کو اگر صحیح بھی ماں لیا جائے تو یہ حسن درجہ کی ہو گی اور صحیح کے مقابلے میں حسن کمزور ہی ہوتی ہیں جبکہ صحیح روایات میں نص صریح موجود ہے کہ اس میں حج اور عمرہ کی تخصیص ہے پھر اس کو عموم پر دلالت کرنے کے لئے اس سے بھی اصح روایات پیش کرنا ضروری ہے اس لئے میرے بات اب بھی یہی ہے کہ جمہور نے اس کو حج اور عمرہ کے ساتھ خاص کیا ہے اپ بھی اسی جگہ رہنے دیں .
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
کس اضطرابی کیفیت کی بات کر رہے ہیں،اگر داڑی زیادہ لمبی ہو جائے تو حدیث کے عموم کے سامنے رکھ کر کاٹنا درست نہیں ہے،سکھوں نے رکھی ہیں،ہندوں نے رکھی ہیں،ایک مسلمان کو بھی رکھنی چاہیے؟؟؟؟؟؟؟
محترم ،
اپ جذباتی ہو رہے ہیں میں بھی یہی عرض کر رہا ہوں کے اضطرابی کفیت میں اگر ایسا ہو جائے تو کوئی حرج نہیں مگر ہر کسی کے لئے اس کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا ہے .
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
کیا اللہ کے رسول اللہﷺ کو اس اضطرابی کیفیت کا علم نہیں تھا؟ کیا آپﷺ کے عہد میں لمبی لمبی داڑیاں نہیں ہوتی تھیں یا کہ آج کے دور میں داڑیاں زیادہ لمبی ہوتی ہیں؟؟؟؟
اگر ایسا ہے تو پھر کوئی ایک حدیث پیش کر دین جس میں کسی لمبی ڈارھی والے کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا ھو کہ جاؤ ڈارھی ایک مشت کرو نبی صلی الله علیہ وسلم کی ڈارھی مبارک نہیں
بڑھتی
تھی تو کیا صحابہ کرام رضی الله عنھم کی بھی اس دور میں داڑھی نہیں بڑھتی کہ اس دور میں ایک روایت بھی صحیح نہیں ملتی ہے جو عموم پر دلالت کرے .الله ہدایت دے
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
میرے بھائی آپ کی یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے،شاید آپ ٹھوڈی کو پکر مشت پوری کرتے ہوں گے،یہ مشت داڑی نہیں ہے بلکہ ٹھوڑی کو چھوڑ کر مشت پوری ہوتی ہے

یعنی اگر کوئی شخص پانچ دن بعد عمرہ کرے تو وہ داڑی کاٹ سکتا ہے؟

جناب میں اس کے لیے دیگر صحابہ کرام کے آثار جیسے ابن عمر،ابوہریرہ،سیدنا علی،عمر بن خطاب،ابراہیم نخعی وغیرہم کو شاہد بنایا ہے
محترم ،
میں کوئی چھوٹا بچہ نہیں کہ ایک مشت میں داڑھی کیسے ہوتی ہے ٹوڑی سے نیچے سے ذرا سا حصہ چھوڑ کر کہ ہاتھ ٹھوڑی پر نہ لگے اس کے بعد مشت بنائی جائے میرے بال اس طرح ہی کرتا ہوں تو مشت سے زیادہ ہوتے ہیں .
اگر ٥ دن میں کسی کی داڑھی دوبارہ مشت سے زیادہ ہو جائے اور وہ دوبارہ عمرہ کرے تو بیشک کاٹنا چاہے تو کاٹ لے اور اپ نے جو آثار پیش کے ہیں وہ اکثر حج اور عمرہ ہی کو خاص کرتے ہے اس لئے یہ عموم والی روایت کو قوی نہیں کریں گے .
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
یہ دلیل کیسی ہے؟
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، تَرْفَعُهُ، قَالَ: «إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَعِنْدَهُ أُضْحِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَأْخُذَنَّ شَعْرًا، وَلَا يَقْلِمَنَّ ظُفُرًا» (صحیح مسلم: 1977
سیدنا ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مرفوعاً روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جب عشرہ(ذوالحجہ) شروع ہوجائے تو جس شخص کے پاس قر بانی ہو اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہو، نہ وہ اپنا کوئی بال اتارے نہ ناخن تراشے۔"
یعنی قربانی سے پہلے کوئی بال نہ کاٹے،لیکن قربانی کرنے کے بعد کاٹ سکتا ہے،اس حدیث میں لفظ شعر مطلق ذکر ہوا ہے،اس میں جسم کے تمام بال شامل ہیں،خواہ وہ سر ،داڑی،مونچھ،بغل یا زیر ناف بال ہوں،اور سلف صالحین سے قربانی کے بعد مذکورہ تمام بال کاٹنے کا استحباب ثابت ہیں،جیسا کہ ابن عباس وغیرہ سے تفث کی تفسیر میں بیان کردیا گیاہے،اس حدیث سے بھی یہی ثابت ہورہا ہے کہ قربانی کرنے کے بعد داڑی کے مشت سے زائد بالوں کو کاٹا جا سکتا ہے۔
مشت سےزائدداڑی کاٹنے کے بارے صحیح مرسل حدیث:
امام ابو داودنے جلیل القدر تابعی جناب مجاہد بن جبر سے بسند صحیح ایک مرسل حدیث اس طرح بیان کی ہے:

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ، سَمِعَ مُجَاهِدًا، يَقُولُ: رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا طَوِيلَ اللِّحْيَةِ فَقَالَ: «لِمَ يُشَوِّهُ أَحَدُكُمْ نَفْسَهُ؟»
عثمان بن اسود سے مروی ہے کہ اس نے مجاہد بن جبر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریمﷺ نے ایک لمبی داڑی والے آدمی کو دیکھ کر اسے کہا:تم جان بوجھ کر اپنا چہرہ کیوں بگاڑتے ہو؟ (المراسیل:ص:316
اس حدیث کی سند صحیح ہے کیوں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں،اس کے علاوہ مجاہد سے بسند صحیح داڑی کٹوانا ثابت ہے اور جہاں تک مروان بن معاویہ کی تدلیس کا تعلق ہے تو وہ صرف تدلیس شیوخ میں مشہور ہے،جیسا کہ ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التہذیب میں اس کا ذکر کیا ہے۔ (تهذيب التهذيب 10 / 98
علامہ البانی نے بھی ابن حجر کی یہی بات نقل کی ہے:

''فإن مروان بن معاوية - وإن احتج به الشيخان؛ فإنه كان يدلس أسماء الشيوخ؛ كما في " التقريب "، وبيانه في " التهذيب " (الضعیفة:800/12
دوسری جگہ علامہ البانی اسی بات کو یوں ذکر کرتے ہیں:
''مروان بن معاوية، وليس فيه علة سوى أنه كان يدلس أسماء الشيوخ''
یعنی مروان بن معاویہ میں سوائے تدلیسِ شیوخ کے کوئی دوسری علت نہیں ہے۔
(الضعیفة:236/3

تدلیس شیوخ کی تعریف یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے شیخ، جس سے وہ حدیث روایت کر رہا ہے، کا نام، کنیت، نسب وغیرہ غیر معروف طریقے سے بیان کرے تاکہ وہ پہچانا نہ جائے۔
محترم ،
اس سے بھی زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ سال میں ایک بار جس نے قربانی کی ہو وہ ایک مشت سے زیادہ کاٹ لے اور اگر ابن عباس رضی الله عنھما کی تفسیر کہ زاویہ سے دیکھیں گے تو پھر وہی حج کے ساتھ خاص ہو گا
دوسری بات اگر مرسل روایت کو حجت مان لیا جائے تو پھر امام مہدی آ چکے ہیں اور سوره حج میں جس آیت کی تشریح میں یہ مرسل روایات موجود ہیں کہ لات اور منات کی بھی سفارش قبول ہو گی کو بھی مان لیا جائے . الله ہدایت دے


 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اس سے بھی زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ سال میں ایک بار جس نے قربانی کی ہو وہ ایک مشت سے زیادہ کاٹ لے اور اگر ابن عباس رضی الله عنھما کی تفسیر کہ زاویہ سے دیکھیں گے تو پھر وہی حج کے ساتھ خاص ہو گا
صحابہ کایہ عمل حج و عمرہ کے ساتھ خاص تھا؟

سیدنا عبد اللہ بن عمر کا یہ عمل حج وعمرہ کے ساتھ خاص نہ تھا بلکہ سارا سال جاری رہتا تھا،جیسا کہ امام مالک نے ا س کی وضاحت کی ہے:
(( أن عبد الله بن عمر كان إذا أفطر من رمضان وهو يريد الحج لم يأخذ من رأسه ولا من لحيته شيأ حتى يحج )) (موطأ امام مالک:رقم الحدیث:1396)
سيدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب رمضان المبارک سےفارغ ہوتے اور حج کا ارادہ بھی ہوتا تو اپنی داڑھی اور سر کے بال نہ کاٹتےتھے یہاں تک کہ حج مبارک سے فارغ ہوتے۔
اس سے معلوم ہوا کہ شوال اور ذی قعدہ اور عشرہ ذی الحج تک نہیں کتراتے تھے ،باقی مہینوں میں قبضے سے اگر زائد ہوجاتی تھی تو کتراتے تھے۔
حافظ ابن عبد البر عبد اللہ بن عمر کے اس عمل کے متعلق لکھتے ہیں:

(( وفي أخذ بن عُمَرَ مِنْ آخِرِ لِحْيَتِهِ فِي الْحَجِّ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْأَخْذِ مِنَ اللِّحْيَةِ فِي غَيْرِ الْحَجِّ لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ غَيْرُ جَائِزٍ مَا جَازَ فِي الْحَجِّ لِأَنَّهُمْ أُمِرُوا أَنْ يَحْلِقُوا أَوْ يُقَصِّرُوا إِذَا حَلُّوا مَحَلَّ حَجِّهِمْ مَا نهوا عنه في حجهم، وابن عُمَرَ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم أعفوا اللحا وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَعْنَى مَا رَوَى فَكَانَ الْمَعْنَى عِنْدَهُ وَعِنْدَ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ الْأَخْذُ مِنَ اللِّحْيَةِ مَا تَطَايَرَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ)) (ابن عبد البر ،الاستذكار:4/317)
اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایام حج میں اپنی داڑھی کے آگے سے بال لینا اس بات پر دلیل ہے کہ غیر ایام حج میں بھی یہ فعل جائز ہے، کیونکہ اگر یہ فعل تمام اوقات میں ناجائز ہوتا تو حج میں بھی جائز ناہوتا، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو تو یہ حکم تھا کہ جب وہ حج سے فارغ ہوں تو وہ اپنے بال منڈوادیں یا کتروادیں جس سے ان کو احرام کی حالت میں روکا گیا تھا اورعبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کی ہے: اعفوا اللحی (داڑھیوں کو بڑھاؤ) اور خود مٹھی سے بال زیادہ لیتے تھے۔ اس حدیث کا مطلب عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ خوب جانتے ہیں، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جمہور علماء کے نزدیک یہ جائز ہے کہ وہ بال ليے جائيں جو زائد اور پراگندہ ہوں اور بُرے معلوم ہوں۔ اسی طرح حافظ ابن حجر نے ان لوگوں(امام کرمانی وغیرہ) کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ ابن عمر کا یہ عمل حج کے ساتھ خاص تھا: ''أَن بن عُمَرَ كَانَ لَا يَخُصُّ هَذَا التَّخْصِيصَ بِالنُّسُكِ''
(فتح الباری:350/10)
یعنی ابن عمر اس عمل(ڈاڑھی کٹانے) کو صرف حج و عمرہ کے ساتھ خاص نہیں کرتے تھے۔
نواب صدیق حسن خان مرحوم اپنی کتاب اتحاف النبلاء میں حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ میں لکھتےہیں:

"واز فوائد ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ است کہ گفتہ ابن عمر روى حديث اعفاء اللحية وكان مع ذلك يمسك لحية فما فضل عن القبضة أخذه انه لما ذكر رسول الله صلي الله عليه وسلم اعفاء اللحية كلمه أصحابه فقال يمسك قبضة فما جاوز ذلك جزه ان شاء فلعل ابن عمر بلغه هذا من حديث رسول الله صلي الله عليه وسلم فذهب اليه وإلا فالا عفاء يابي ذلك ولكن لما رواه ابن عمر وأخذ ما جاوز القبضة مع شدة تحريه وورعه واتباعه للسنة دل على أن عنده من ذلك عما بالرخصة (اتحاف:ج10ص:373)
''فوائد ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ سے ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اعفاء اللحية کی حدیث روایت کی ہے :
اس کے بادجود وہ مشت سے زائد بال کاٹ دیتے تھےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اعفاء اللحية اور (وغیرہ)کا امر فرمایا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس بارے میں گفتگو کی( کہ زیادہ بھاری لمبی داڑھی میں تکلیف ہوتی ہے)تو آپ نے فرمایا : داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر جو زائد بال ہوں ان کےکٹانے کا اختیار ہے، شاید ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو) یہ حدیث پہنچی ہو گی اسی بنا پر وہ مٹھی سے زائد کٹاتے تھے ورنہ اعفاءاللحیۃ (وغیرہ) کی حدیث اس (کٹانے) سے روکتی ہے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد اس کے خلاف کس طرح کر سکتے تھے حالانکہ وہ بڑے محتاط بڑے پرہیز گار اور متبع سنت تھے ۔اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ ان کو مٹھی سے زائد کٹانے کی حدیث کا علم تھا۔
دوسری بات اگر مرسل روایت کو حجت مان لیا جائے تو پھر امام مہدی آ چکے ہیں اور سوره حج میں جس آیت کی تشریح میں یہ مرسل روایات موجود ہیں کہ لات اور منات کی بھی سفارش قبول ہو گی کو بھی مان لیا جائے . الله ہدایت دے
مرسل حدیث حجت ہے؟
مرسل حدیث مطلق طور پر حجت نہیں ہے،لیکن کچھ شرائط کے ساتھ مرسل حدیث قابل حجت ہے،یہ امام شافعی کا نظریہ ہے اور دیگر تین بڑٕے ائمہ ابو حنیفہ،مالک اوراحمد کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مرسل روایت کو مطلق طور پر قبول کیا جائے گا۔علمائے کرام کا یہ گروہ مرسل حديث کو اس بیناد پر قبول کرتا ہے کہ مرسل حدیث صرف ثقہ راوی سے ہی روایت کی گئی ہو،ان کی دلیل یہ ہے کہ ایک ثقہ تابعی صرف اسی صورت کسی بات کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرتا ہےجب اس نے یہ حدیث کسی قابل اعتماد شخص سے سنی ہو
اس لئے کہ مرسِل‘ اپنے پیش نظررکھ کر حدیث مرسل روایت کرکے اپنے اوپر ذمہ داری لے رہا ہے‘ اب یہ عادل مرسِل کیسے غیر ثقہ سے روایت کرکے وعید کا مصداق بننا پسند کرے گا؟
مرسل حدیث چند شرطوں کے ساتھ قابل حجت ہے یہ جمہور کا نقطہ نظر ہے،وہ شرائط چار ہیں،تین کا تعلق ارسال کرنے
الرسالہ للشافعی:ص:461
جناب مجاہد بن جبر کی بیان کردہ حدیث میں مندرجہ بالا تمام شرائط موجود ہیں،اس کے ساتھ ساتھ متعدد علمائے کرام نے مجاہد بن جبر کی بیان کردہ مرسل حدیث کو قابل حجت قرار دیا ہے،شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ مجاہد بن جبر کی مرسل روایات کو قابل حجت سمجھتے تھے،چناں چہ وہ اس بارے میں رقم طراز ہیں:
''و مراسيل مجاهد حسنة لا سيما و قد روي مسندا من وجوه صحيحة''
''یعنی مجاہد بن جبر کی مرسل احادیث اچھی ہوتی ہیں اور یہ لازم ہے کہ ان کی مرسل احادیث صحیح سند کے ساتھ مروی ہوں۔'' (شرح العمدة: 4 /153

قال أبو نعيم : قال يحيى القطان : مرسلات مجاهد أحب إلى من مرسلات عطاء بكثير
ابو نعیم بیان کرتے ہیں کہ جناب یحی القطان فرماتے ہیں:
''مجاہد کی مرسل احادیث مجھے عطا بن ابی رباح کی مرسل احادیث سے کہیں زیادہ پسند ہیں۔''(تہذیب الکمال:
6481
و قال أبو عبيد الآجرى : قلت لأبى داود : مراسيل عطاء أحب إليك أو مراسيل
مجاهد ؟ قال : مراسيل مجاهد ، عطاء كان يحمل عن كل ضرب .

ابو عبید آجری نے بیان کیا ہے کہ میں نے امام ابوداود سے پوچھا کہ آپ کو عطا اور مجاہد کی مرسل احادیث میں سے کس کی مرسل احادیث زیادہ پسندیدہ ہیں،تو امام ابوداود نے جواب دیا: مجھے مجاہد کی مرسل احادیث زیادہ پسند ہیں کیوں کہ عطا بن ابو رباح ثقہ اور ضعیف تمام قسم کے راویوں سے روایات لے لیتا تھا(جب کہ مجاہد صرف ثقہ سے روایت لیتا تھا)
(تہذیب الکمال:
6481
یہی بات یحی بن سعید القطان سے بھی مروی ہے،امام ترمذی بیان کرتے ہیں:

عن على بن عبد الله، قال يحيى بن سعيد مرسلات مجاهد أحب إلى من مرسلات عطاء بن أبى رباح بكثير كان عطاء يأخذ عن كل ضرب ''
''مجھے مجاہد کی مرسل احادیث زیادہ پسند ہیں کیوں کہ عطا بن ابو رباح ثقہ اور ضعیف تمام قسم کے راویوں سے روایات لے لیتا تھا۔''(جب کہ مجاہد صرف ثقہ سے روایت لیتا تھا)
قلت ليحيى مرسلات مجاهد أحب إليك أم مرسلات طاؤس؟ قال: ما أقربهما
امام ذہبی مجاہد بن جبر کی مرسل احادیث کو حجت مانتے ہوئے رقم طراز ہیں:
''نعم، وإن صح الإسناد إلى تابعي متوسط الطبقة كمراسيل مجاهد وإبراهيم والشعبي فهو مرسل جيد لا بأس به''
''ہاں اگر درمیانے طبقے کے تابعی تک سند صحیح ہو،جیسے کہ مجاہد،ابراہیم اور شعبی کی مرسل احادیث ہیں تو ایسی مرسل احادیث جید ہیں،ان(کو قبول کرنے) میں کوئی حرج نہیں ہے۔'' (الموقظة:ص: 40

جناب حافظ سخاوی نے اپنی کتاب فتح المغیث میں جناب مجاہد بن جبر کی بیان کردہ مرسل احادیث کو معتبر قرار دیا ہے۔ (194/1
اس کے ساتھ ساتھ حافظ ابن حجر نے بھی قتادہ اور مجاہد بن جبر کی مرسل حدیث کو قوی قرار دیا ہے،اس بات کی وضاحت ابن حجر نے فتح الباری میں اللہ تعالی کے اس فرمان کی بات کرتے ہوئے کی ہے
(استغفر لهم أو لا تستغفر لهم...) (الفتح:8/335)
علامہ البانی مجاہد بن جبر کی بیان کردہ مرسل حدیث کو حجت مانتے ہوئے لکھتے ہیں:

فمن المسلَّم عند العلماء أن مراسيل مجاهد خير من مراسيل غيره من التابعين كعطاء وغيره. ''یہ بات علما کے ہاں مسلم ہے کہ مجاہد کی مرسل احادیث دیگر تابعین عطا وغیرہ کی مرسل احادیث سے بہتر ہیں۔'' (الضعیفة:1216/7
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
محترم ،
میں کوئی چھوٹا بچہ نہیں کہ ایک مشت میں داڑھی کیسے ہوتی ہے ٹوڑی سے نیچے سے ذرا سا حصہ چھوڑ کر کہ ہاتھ ٹھوڑی پر نہ لگے اس کے بعد مشت بنائی جائے میرے بال اس طرح ہی کرتا ہوں تو مشت سے زیادہ ہوتے ہیں .
اگر ٥ دن میں کسی کی داڑھی دوبارہ مشت سے زیادہ ہو جائے اور وہ دوبارہ عمرہ کرے تو بیشک کاٹنا چاہے تو کاٹ لے اور اپ نے جو آثار پیش کے ہیں وہ اکثر حج اور عمرہ ہی کو خاص کرتے ہے اس لئے یہ عموم والی روایت کو قوی نہیں کریں گے .
آپ کے اندازے کے مطابق ٹھوڈی کے بعد داڑی کتنے انچ لمبی ہوگی؟
ذرا غور کریں میرے پیش کردہ آثار میں حج و عمرہ ذکر نہیں ہے
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
اگر ایسا ہے تو پھر کوئی ایک حدیث پیش کر دین جس میں کسی لمبی ڈارھی والے کو نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا ھو کہ جاؤ ڈارھی ایک مشت کرو نبی صلی الله علیہ وسلم کی ڈارھی مبارک نہیں
بڑھتی تھی تو کیا صحابہ کرام رضی الله عنھم کی بھی اس دور میں داڑھی نہیں بڑھتی کہ اس دور میں ایک روایت بھی صحیح نہیں ملتی ہے جو عموم پر دلالت کرے .الله ہدایت دے
میں تو صحابہ کے فہم کو حدیث کا حصہ خیال کرتا ہوں،یعنی اگر صحابہ کرام نے داڑی کو کاٹا ہے تو ضرور کسی نص کو سامنے رکھا ہے۔ میں آثار صحابہ صرف اس جیسے معاملہ میں حدیث سمجھ کر ہی پیش کر رہا ہوں۔
بڑھتی تھی تو کیا صحابہ کرام رضی الله عنھم کی بھی اس دور میں داڑھی نہیں بڑھتی کہ اس دور میں ایک روایت بھی صحیح نہیں ملتی ہے جو عموم پر دلالت کرے .الله ہدایت دے
یہ تو میری دلیل ہے کہ تم لوگ جو لمبی داڑی والے کو کاٹنے کےجواز کا فتوی دیتے ہو،یہ جواز کہاں سے لیا ہے؟
 
Top