حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
جب اہل علم ہی ایسی بھونڈی بات کریں گے تو پھر جہلا سے کیا توقع ہوگی؟پھر کوئی اور صاحب آئیں گے ( بلکہ آچکے ہیں ) کہ جب کٹوانا جائز ہی ہے ، تو پھر مشت سے کم کیا زیادہ کیا ؟ اور پھر جب کٹوانا جائز ہی ہے تو پھر قینچی کیا اور بلیڈ کیا ؟ ابتسامہ ۔
سلف صالحین سے ایک مشت سے زائد داڑی کو کاٹناصحیح سند سے ثابت ہے،اور مشت کی تفصیل یہ ہے کہ ٹھوڈی کو چھوڑ کر داڑی کو مشت میں اس طرح پکڑا جائے کہ ہاتھ کی انگلیاں ٹھوڈی سے مس نہ ہوں،مشت میں آئی ہوئے بالوں کے بعد جو بال بچ جائیں ان کو کاٹ دیا جائے، سلف سے یہی ثابت ہے،جیسا کہ ابن عبد البر نے جناب نافع سے بیان کیا ہے:
''كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقْبِضُ هَكَذَا. وَيَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقَبْضَةِ وَيَضَعُ يده عند الذقن''
سیدنا ابن عمر اس طرح(داڑی کی) مٹھی بھرتے تھے،جومٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے ،اور وہ اپنا ہاتھ ٹھوڈی کے قریب رکھتے تھے۔(الطبقات الکبری ابن عبد البر:135/4،سندہ صحیح)
اس اثر میں جو لفظ بیان ہوئے ہیں وہ عند الذقن ہیں نہ کہ علی الذقن،لہذا اس کے معنی یہ ہوئے کہ سلف صالحین صرف داڑی کو پکڑتے تھے،ٹھوڈی کو نہیں پکڑتے تھے،یہ ایک مشت داڑی ہے اور یہ داڑی کی معقول مقدار ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
حدیث میں داڑی کو بڈھانے کی جو علت بیان ہوئی ہے وہ یہود و نصاری کو چھوڑ کر صرف مشرکین کی مخالفت ہے اورمشرکین سے مراد مجوسی یعنی آگ کے پجاری تھے،وہ داڑیاں منڈاتے تھے یا اتناکٹاتے تھے کہ ان کی داڑیاں بہت چھوتی ہوجاتی تھیں، ورنہ ایسا تو نہیں تھا کہ عہد رسول کے مشرکین نے اتنی لمبی داڑیاں رکھی تھی کہ ان کی مقدار مشت کے برابر ہو، اگر یہ کہا جائے کہ مشرکین کی داڑیاں مشت کے برابر تھیں تو اس سے صحابہ پر حرف آتا کیوں کہ وہ توحج و عمرہ کے موقع پر اپنی داڑی کے مشت کے برابر کر لیتے تھے،لہذا یہی بات درست ہے کہ مجوس و مشرکین داڑی میں حلق کرتے تھے یا کٹانے میں مبالغہ کرتے تھے،اس لیے رسول اللہﷺ نے ان کی مخالفت میں توفیر و اعفا کا حکم صادر فرمایا اور توفیر و اعفا کے معنی کثرت اور بڈھانے کے ہیں جس نے ایک مشت داڑی بڈھا لی گویا اس نے توفیر و اعفا پر عمل کر لیا،یہی بات فضیلۃ الشیخ دبيان محمد الدبيان نے لکھی ہے:
''فمن أعفى لحيته بمقدار القبضة، فقد كثرت لحيته، وصدق على لحيته أنها قد عفت، وأن صاحبها قد أعفاها، وهذا ما فهمه الصحابة رضوان الله عليهم. ''
’’جس نے مشت کے بقدر داڑی کو بڈھا لیا تو یقینا یہ اس کی داڑی کی کثیر مقدار ہے اور اس کی داڑی پر یہ بات صادق آتی ہے کہ وہ داڑی بڑی ہو گئی ہے اور صاحب داڑی نے اعفا پر عمل کر لیا ہے اور یہی وہ فہم ہے جو صحابہ کرام کے نزدیک درست ہے۔‘‘ واللہ اعلم بالصواب!
''كَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقْبِضُ هَكَذَا. وَيَأْخُذُ مَا فَضَلَ عَنِ الْقَبْضَةِ وَيَضَعُ يده عند الذقن''
سیدنا ابن عمر اس طرح(داڑی کی) مٹھی بھرتے تھے،جومٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے ،اور وہ اپنا ہاتھ ٹھوڈی کے قریب رکھتے تھے۔(الطبقات الکبری ابن عبد البر:135/4،سندہ صحیح)
اس اثر میں جو لفظ بیان ہوئے ہیں وہ عند الذقن ہیں نہ کہ علی الذقن،لہذا اس کے معنی یہ ہوئے کہ سلف صالحین صرف داڑی کو پکڑتے تھے،ٹھوڈی کو نہیں پکڑتے تھے،یہ ایک مشت داڑی ہے اور یہ داڑی کی معقول مقدار ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
سب سے اہم بات
حدیث میں داڑی کو بڈھانے کی جو علت بیان ہوئی ہے وہ یہود و نصاری کو چھوڑ کر صرف مشرکین کی مخالفت ہے اورمشرکین سے مراد مجوسی یعنی آگ کے پجاری تھے،وہ داڑیاں منڈاتے تھے یا اتناکٹاتے تھے کہ ان کی داڑیاں بہت چھوتی ہوجاتی تھیں، ورنہ ایسا تو نہیں تھا کہ عہد رسول کے مشرکین نے اتنی لمبی داڑیاں رکھی تھی کہ ان کی مقدار مشت کے برابر ہو، اگر یہ کہا جائے کہ مشرکین کی داڑیاں مشت کے برابر تھیں تو اس سے صحابہ پر حرف آتا کیوں کہ وہ توحج و عمرہ کے موقع پر اپنی داڑی کے مشت کے برابر کر لیتے تھے،لہذا یہی بات درست ہے کہ مجوس و مشرکین داڑی میں حلق کرتے تھے یا کٹانے میں مبالغہ کرتے تھے،اس لیے رسول اللہﷺ نے ان کی مخالفت میں توفیر و اعفا کا حکم صادر فرمایا اور توفیر و اعفا کے معنی کثرت اور بڈھانے کے ہیں جس نے ایک مشت داڑی بڈھا لی گویا اس نے توفیر و اعفا پر عمل کر لیا،یہی بات فضیلۃ الشیخ دبيان محمد الدبيان نے لکھی ہے:
''فمن أعفى لحيته بمقدار القبضة، فقد كثرت لحيته، وصدق على لحيته أنها قد عفت، وأن صاحبها قد أعفاها، وهذا ما فهمه الصحابة رضوان الله عليهم. ''
’’جس نے مشت کے بقدر داڑی کو بڈھا لیا تو یقینا یہ اس کی داڑی کی کثیر مقدار ہے اور اس کی داڑی پر یہ بات صادق آتی ہے کہ وہ داڑی بڑی ہو گئی ہے اور صاحب داڑی نے اعفا پر عمل کر لیا ہے اور یہی وہ فہم ہے جو صحابہ کرام کے نزدیک درست ہے۔‘‘ واللہ اعلم بالصواب!