• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک کہانی-----------------------!

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہ مُٹھی کُھلی کیسے؟
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ:-
اُمید کرتا ہوں کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے اللہ تعالی سے دُعا ہے کہ وہ آپ سب کو ہمیشہ خیریت سے ہی رکھے آمین اور آپ سب کو ہر بیماری سے دور کرے اور آپ کی زندگی خوشیوں کا گہوارہ بن جائے۔
یہ کہانی آج کل کی جنریشن کے لیے ایک سبق بھی ہے اور ایک نصحیت بھی اور ایک چیز یاد دلانے کے لیے جو کہ وہ بُھول چُکے ہیں۔
یہ کہانی اُن بچوں کے لیے ہے جنہوں نے اپنے والدین کو تنہائی کی آگ میں جھونکا ہے ،
یہ کہانی اُن بچوں کےلیے ہے جنہوں نے اپنے والدین کو سوائے تکلیفوں کے کچھ نہیں دیا،
یہ کہانی اُن بچوں کےلیے جو اپنے والدین سے یہ کہتے ہیں کہ انہوںنے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟
یہ کہانی اُن بچوں کےلیے ہے جو والدین سے اپنی ضرورتوں کا حساب تو مانگتے ہیں مگر والدین کی ضرورتوں کو پُورا نہیں کرتے۔
یہ کہانی اُن بچوں کےلیے ہے جن کے دل پتھر ہو چُکے ہیں اور انہیں اپنے آنے والے کل کی کوئی خبر نہ ہے۔
یہ کہانی اُن بچوں کےلیے ہے جو بچپن میں تو ایک ایک قدم ماں باپ کے سہارے سے اُٹھاتے تھے مگر بڑے ہو کر اپنےماں باپ کا سہارا نہیں بنتے۔
یہ کہانی اُن ماں باپ کی ہے جنہوںنے اپنی ساری زندگی اور خوشیاں اپنے بچوں کے لیے وقف کر دیں اور بچوں پر جب یہ وقت آیا کہ وہ اپنے والدین کو سنبھالیں تو انہوں نے منہ پھیر لیا اور طرح طرح کی باتوں سے اُن کے دل کو جلایا اور باتوں کے طعنوں سے ماں باپ کو خون کے آنسو رُلایا۔
ماں باپ وہی نعمت ہیں جو ایک طرح سے ہمیں جنت میں لے جانے کا سبب بن سکتےہیں ، ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور ہم اسی جنت کو دنیا میں حاصل نہیں کر پاتے اور اس جنت کو پانے کی بجائے اسے کھو دیتےہیں۔
یہ کہانی بچپن سے جوان ہونے تک اُس اُولاد کی ہے جو ماں باپ ے سامنے بیٹھ کر یہ کہتےہیں کہ آپ نے ہمارے لیے کیا کیا ہے ؟ ہم نے خود اپنی جاب ڈھونڈی ، خود اپنا کاروبار سنبھالا ، خود پیسہ کمایا، آپ نے جو بھی کیا وہ والدین کرتےہیں
جو اپنے کمنٹس کرنا چاہے کر سکتا ہے جو اپنی رائے دینا چاہے دے سکتا ہے، میں اس کہانی کو ساتھ ساتھ لکھ لکھ کر شیئر کرتا رہوں گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
1: بچے تو فرشتے کی مانند ہوتے ہیں



انسان جب بچے کی شکل میں دنیا میں آتا ہے تو وہ اپنے ساتھ کیا کوئی پریشانیاں لاتا ہے؟ کہ مجھے مال و دولت کی ٹینشن ہے ، اپنے خوبصورت یا بدصورت ہونے کا غم ہے ، اپنی جاب کی ٹینشن ہے ، اپنی عزت و آبرو کی پریشانی ہے، اپنے کھانے پینے کی تکلیف ہے، مجھے چھوٹے گھروں میں رہنے کی پریشانی ہے ، اچھا یا بُرا پہننے/ نہ پہننے کا غم ہوتا ہے، مجھے ماں باپ کی طرف سے کوئی تکلیف ہوتی ہے، اُولاد کی طرف سے ملنے والی پریشانیوں کا خوف ہوتا ہے؟ بُڑھاپے میں کون میرا سہارا بنے گا اس بات کا خوف ہوتا ہے؟ مجھے مرنا بھی ہے اس بات کو خوف۔ کیا یہ سب باتیں‌انسان کے بچپن کو اثر انداز کرتی ہیں ؟ نہیں ان سب باتوں کا انسان کے بچپن سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ انسان جب بچے کی صورت میں آتا ہے تو ایک فرشتے کی مانند ہوتا ہے، خطائیں اور غلطیاں کیا ہوتی ہیں اُسے معلوم ہی نہیں ہوتا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
2: اُولاد کی خوشی



بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین کی خوشی کی انتہا ہی کوئی نہیں رہتی ، لڑکا ہو یا لڑکی بس خوشی ایک نئے انسان کے آنے کی ہوتی ہے، اور اگر بیٹے زیادہ ہوں تو باپ کا سینہ اور چوڑا ہو جاتا ہے اس لیے نہیں کہ وہ بیٹے ہیں بلکہ اس لیے کہ اُس کو وارث نصیب ہوا جو اُس کی نسل کو آگے لے کر چلتا ہے اور بڑا ہو کر اُس کے ساتھ کندھے پر کندھا ملا کر چلتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد ماں باپ کا سارا دھیان، سارا وقت اور سارا پیار اپنے بچے کے لیے ہو جاتا ہے ، اپنی خواہشات کو بھول کو وہ بچے کی خوشی ، بچے کی فرمائشیں‌ ، بچے کی ضد اور بچے کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے لگ جاتے ہیں۔ باپ سارا دن گھر سے باہر جا کر محنت کرتا رہتا ہے تاکہ اپنے بچے کا پیٹ پال سکے اور سارا دن گھر میں‌رہ کر گھر کا خیال رکھتی ہے اور بچے اپنے سینے سے لگائی رکھتی ہے اور پوری ذمے داری سے اُس کا دھیان رکھتی ہے ایک منٹ کےلیے اُس کو خود سے اوجھل ہونے نہیں دیتی۔ باپ کسی دور میں اپنے لیے پانچ چیزیں لاتا تھا جب شادی ہوئی تو آدھی چیزیں اپنے لیے اور آدھی چیزیں اپنی بیوی کے لیے لانے لگا لیکن جب اُولاد ہوئی تو بازار سے کچھ لینے گیا تو سوچ میں پڑ گیا کہ میں‌ اپنے لیے یا بیوی کے لیے اتنی چیزیں لا کر کیا کروں گا، وہ بازار اپنے بچے کےلیے ہی سب کچھ خرید لے لیتا اور دل میں اُس کی جو خوشی ہوتی ہے وہ کوئی دوسرا انسان سمجھ نہیں سکتا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
3: بچے کی تکلیف کیسے برادشت ہو




بچے جب کسی تکلیف میں ‌ہوتے تو ماں ساری ساری رات جاگتی اور دیکھتی کہ کہیں اُس کے بچے پریشان تو نہیں‌، کہیں اُس کے بچے تکلیف سے جاگ تو نہیں رہے ، اپنی نیندوں کو حرام کر کے ماں اپنے بچوں کو پالتی ہے اور اُس کا شکوہ کبھی کسی سے نہیں کرتی بلکہ ایسا کرنے سے اُسے شاید خود کو تسلی ملتی تھی، اور باپ جو اپنے بچوں کی تکلیف کو دور کرنے کے لیے زمین اور آسمان ایک کر دیتا ، اچھے سے اچھے ڈاکٹر کے پاس اپنے بچے کو لے کر جانا تاکہ اُس کے بچے جلد از جلد ٹھیک ہو جائیں ، ماں باپ اپنے بچوں کو تکلیف میں دیکھ کر بوکھلا جاتے تھے اور پاگلوں کی طرح‌ اپنے بچوں کی صحت یابی کے لیے دُعا کرتے ، خود کو تکلیف میں رکھ اُن کی حفاظت کرتے اور پھر بچے کے ٹھیک ہو جانے پر اللہ کا لاکھ لاکھ شُکر ادا کرتے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
4: بچے کا وقفے وقفے سے بڑھنا




جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے والدین کا پیار اپنے بچے کے لیے بڑھتا جاتا ہے، بچے کا پہلا قدم والدین کبھی نہیں بھولتے کہ کسی طرح وہ اس دنیا میں رہنے کے لیے خود کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کرتا ہے ، شروع شروع میں‌ بار بار گرتا تو والدین سنبھال کر دوبارہ اُسے کھڑا کر دیتے اور اُسے رفتہ رفتہ چلانے کی کوشش کرتے پھر ایک دن آخر وہ چلنے میں‌کامیاب ہو ہی جاتا، پھر بچے کی دوڑ ایک کونے سے دوسرے کونے ، دوسرے سے تیسرے کونے اور یہی سلسلہ چلتا رہتا، والدین اپنی زندگی کا مقصد اپنی اُولاد کو ہی بنا لیا کہ یہی اُن کی زندگی ہے ، یہی اُن کا سہارا ہے اور ہر اُمید اپنی اپنے بچوں سے لگا لیتے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
5: بچے کا اسکول میں پہلا دن




بچے کا اسکول میں‌پہلا دن باپ کے لیے عجیب نا سہی ماں کے لیے ضرور عجیب ہوتا ہے کیونکہ 4 سالوں کے بعد پہلی بار ماں اپنے بچے کو اپنے دور کسی انجان جگہ میں بھیجتی ہے شاید وہ ماں دل سے خوش نہیں اُس کو بھیجنے کےلیے مگر اُس کے روشن مُستقبل کےلیے وہ ماں صبر کا گھونٹ پی لیتی ہے، پھر بچے اپنے باپ کے ساتھ اسکول کی طرف روانہ ہوتے ہیں، گھر سے نکلتے وقت اور ماں سے دور ہوتے وقت بچے زارو قطار روتے ہیں کہ ماما ہمیں نہیں جانا اسکول مگر اُس وقت بچوں کی پہلی بار ماں باپ مجبورا نہیں سنتے شاید اُس بچوں کے معصوم دلوں میں یہ خیال آتا ہے کہ ماں باپ اُن کو خود سے دور کر رہے ہیں مگر وہ ماں باپ اپنی جگہ ٹھیک ہوتےہیں۔ باپ بچوں کو لے کر اسکول میں اُن کا ایڈمیشن کرواتا ہے اور بچوں کو پہلی بار اپنے سے دور انجان جگہ کچھ اجنبیوں کے ہاتھ چھوڑ آتا ہے۔ بچے اپنے اسکول کے شروع کے دن کو بہت سہمے سہمے اور روتے روتے گزارتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ پھر وہ اُس جگہ سے مُستفید ہونے لگ جاتے ہیں۔ اسکول کے پہلے دن جب بچے گھر واپس آتے ہیں تو کچھ روتے اور کچھ ہنستے ہوئے اپنی ماں کے سینے سے لپٹ جاتے ہیں اور ماں بچوں کو اپنے آغوش میں لیتی ہے اور خوب پیار اور حوصلہ دیتی ہے کہ کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے ، ماما پاس ہے نا تمہاری تو پھر تمہیں کیا ٹینشن ہے۔ ماں کا اتنا کہہ دینا بچے کے اندر ہمت پیدا کرتا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
6: بچوں کو اچھا کھلانا اور اچھا پہنانا



ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سب سے اچھا کھانا کھلائیں اور سب سے اچھا کپڑا پہنائیں اور وہ دوسروں کے بچوں سے بلکل مختلف لگے۔ ماں باپ اس معاملے میں اپنے بچوں کے منہ نکلی ہوئی ہر اِک بات کو پورا کرتے ہیں وہ جو مابگتے ہیں کہ ہمیں یہ کھانا ہے وہ کھانا ہے ، ہمیں پینٹ شرٹ لا کر دو، ہمیں شلورا قمیض لا کر دو۔ بس باپ اُن کی خواہشات کو پورا کرنے میں ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ماں‌ باپ خود بھوکے سو جاتے ہیں لیکن اُن کے بچوں کو بھوکا سونا پڑے یہ وہ کبھی برداشت نہیں کرتے اس لیے خود کو کتنے دن بھوکا رکھ لیتے ہوں گے مگر اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلاتے ہیں تا کہ اُن کا بچہ چین کی نیند سو سکے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
7: بچوں کی پڑھائی کا خاص خیال رکھنا



ایک باپ کی ہمیشہ سے یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُس کے بچے خوب پڑھیں لکھیں اور بڑے ہو کر اعلی مقام حاصل کریں اور اُس مقام پر بیٹھ جائیں جہاں انہیں اللہ کے سوال کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے ، باپ اپنے بچوں کی پڑھائی کو لے کر بہت جذباتی ہوتا ہے ، اچھے سے اچھے اسکول میں بچوں کا ایڈمیشن کروانا ، انہیں اسکول کے بعد اکیڈمی بھیجنا تاکہ اُن کا بچہ لائق سے لائق بنتا جائے ، بچوں کا اسکول کے بعد اکیڈمی اور پھر رات کو گھر میں‌خود بچوں کو پڑھانے کے لیے بیٹھنا، جو باپ سارا دن تھک ٹوٹ کر گھر آتا ہے بجائے کہ وہ آرام کرتا، وہ اپنے بچوں کے لیے وقت نکالتا اور انہیں‌پڑھانے کے لیے بٹھاتا۔ اُس وقت بچوں کو یہ لگتا تھا کہ ہمارا باپ ہمارے ساتھ ظُلم کرتا ہے، ہمیں بِلاوجہ مارتا ہے، لیکن وہ بچے کیا جانیں‌ کہ اُن کا باپ اُن کے بہتر مُستقبل کے لیے ہی یہ سب کچھ کر رہا ہے۔ باپ خوشی سے اپنے بچوں کو نہیں مارتا اور نہ ہی خوشی سے اُن پر ظُلم کرتا ہے لیکن یہ بات بچوں کو تب سمجھ میں آتی ہے جب وہ خود اپنے باپ کی جگہ کھڑے ہوں گے۔ باپ کی یہی مار اپنے بچوں کو سوسائٹی میں ‌اُٹھنے بیٹھنے کے لائق بنا دیتی ہے تب اُن بچوں کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ اگر ہمارا باپ ایسا نہ کرتا تو شاید ہم اس جگہ نہ پہنچ پاتے۔
 
Top