• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایک کہانی-----------------------!

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
11- بچوں کی شادی کرنا
بیٹے جب جوان ہوتےہیں تو ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو کر اپنےکام خود سر انجام دے اور لوگوں کے پیدا کردیہ حالات میں خود جینا سیکھے۔ بیٹا جب جوان ہو کر اپنے باپ کا سہارا لے کر کسی جگہ کوئی کاروبار کرتا ہے یا جاب کرتا ہے تو اُس دن والدین کی خوشی کی انتہا کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا ہے، والدین اس لیے خوش نہیں ہوتے کہ وہ اُن کے بیٹے اُن کے لیے پیسہ کمانے کی ایک مشین ہے بلکہ والدین اس لیے خوش ہوتے ہیں کیونکہ وہ بیٹوں کو اپنے پائوں پر کھڑا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جب بیٹے کمانے لگ جائیں تو والدین کو اُن کی شادی کی ٹینشن پڑ جاتی ہے۔ بڑی خوشی وہ شادی کی ساری شوپنگ کرتے ہیں ، بیٹے ہونے کے باوجود بھی باپ اکیلے سارے سارے کام کرتا ہے، ماں بازاروں کے چکر لگاتی ہے اپنی بہو کے لیے کپڑے، جوتے ، میک اَپ کی چیزیں وغیرہ خریدتی رہتی ہیں، اُدھر باپ ہال کی بُکنگ کرواتا ہے، کھانے پینے کا ارینج کرتا ہے ، شادیوں پر پیسہ پانی کی طرح لگتا ہے مگر باپ اکیلا سب کچھ سنبھالتا ہے کسی خرچے کی پروا نہیں کرتا اور نہ کسی چیز کی کمی ہونے دیتا ہے ، خوشی سے وہ ہر بچے کی شادی کرتا ہے اور سارے کا سارا خرچہ باپ ہی کرتا ہے اور کوئی بیٹا آگے بڑھ ساتھ دینے کی بات نہیں کرتا ۔ پھر بھی باپ کسی سے کوئی شکایت نہیں کرتا خاموشی سے اپنے سارے فرائض پورے کرتا چلا جاتا ہے۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
12- پسند کی شادی کے لیے ضد کرنا
ماں باپ کبھی اپنی اُولاد کا بُرا نہیں چاہتے ، بچوں کا ایسا لگتاہے کہ ماں باپ ہمارے دُشمن ہیں اور انہیں ہماری خوشی کا ذرابھی خیال نہیں ہے ، انہیں تو بس اپنی پڑی رہتی ہے انہیں کیا پتہ ہو کہ آج کے دور میں اور ان کے دور میں کتنا فرق ہو چُکا ہے۔ درحقیقت بچے والدین کو سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں وہ اُن کے پیار اور اُن کے تجربے کو سختی کا نام دیتے ہیں۔ بچے کی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ شادی کا ہوتا ہے اور والدین کو اس دن کا بڑا انتظار ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی شادی بڑے دھوم دھام اور اچھے گھرانے میں کریں گے۔​
لیکن اچانک کیا ہوتا ہے کہ اولاد کہتی ہے کہ ہم اپنے لیے خود لڑکی تلاش کر لیں گے یا تلاش کر لی ہے لہذا ہم اُسی سے شادی کریں گے ورنہ کسی سے شادی نہیںکریں گے اگر والدین نے زبردستی کی تو ہم کھانا پینا چھوڑ دیں گے یا گھر سے بھاگ جائیں گے۔ والدین کے لاکھ سمجھانے پر بھی اولاد بات ماننے سے انکار کردے تو الدین کے دل میں ہزاروں سوالات آتے ہیں۔کیا ہم نے ان کی ہر خوشی کو پورا نہ کیا تھا، کیا ہم نے ان کی ہر ضد کو پورا نہ کیا تھا، کیا ہم ان سے کسی چیز کی ڈیمانڈ نہیں کرسکتے ، اگر ہم انہیں کسی چیز سے روکتے ہیں تو کیا ہم ان کے دُشمن بن جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ بہت کوشش کرتے ہیں والدین کہ وہ اپنے بچوں سمجھائیں کہ دیکھو کہ یہاں شادی نہ کرو جہاں ہم کہہ رہے ہیں وہاںکرلو تم خوش رہو گے ، یہ کہتے ہوئے والدین کی آنکھوں سے آنسو بھی نکلتے ہیں مگر اولاد کے دل پتھر کے ہو جاتےہیں وہ سب کچھ ماننے سے انکار کر یتے ہیں ۔ آخر کار والدین کو جُھکنا پڑا اور نہ چاہتے ہوئے اولاد کی خوشی میں خوش ہونا پڑا۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
13- بچوں کاوالدین کے رونے کو ایکٹنگ کہنا
اُولاد کی آنکھ میں جب آنسو آتے ہیں تو والدین کا دل پھٹنے لگتا ہے اور والدین فورا سے اُس کے آنسوئوں کا سبب جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور جب سبب معلوم ہو جاتا ہے تو اُس وجہ کو اپنے بچوں سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب والدین کی آنکھ میں آنسو آتے ہیں تو اُولاد کہہ دیتی ہے کہ ہمارے والدین کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔ ایسے الفاظ سُن کر ماں باپ کے دل میں کسی طرح کی کیفیت ہوتی ہو گی ، اُس کیفیت کا انداز اُولاد نہیں لگا سکتی۔ ساری زندگی کی جن کے آنسو پونچھتے رہے اور وہی اُولاد پھر یہ کہے کہ ہمارے والدین رونے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
14- ماں کی تکلیف کو ڈارمہ کہنا
کہتے ہیں والدین بچے کی پیدائش سے پہلے اور بعد تک جب سے زیادہ تکلیفیں ماں ہی برداشت کرتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ماں کا درجہ بہت زیادہ ہوتا ہے ، کیونکہ جن تکلیفوں سے گزر ماں کو بچے کو پیدا کرتی ہے اور جن حالات میں وہ بچوں کو بڑا کرتی ہے کوئی اور ایسا نہیں کرسکتا اور اللہ تعالی نے یہ سب کام ماں سے ہی لیے ہیں اور اللہ تعالی نے اسی ماں کے قدموں تلے جنت بھی رکھ دی۔​
ایک ماں جو ایک وقت میں کتنے ہی بچوں کو پالتی ہے اور اپنے بچوں کی پروش میں اکثر مائیں خود کسی نہ کسی بیماری کا شکار بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن وہ اپنے بچوں سے اُس چیز کی شکایت نہیں کرتی بلکہ خوشی خوشی ہر درد و تکلیف کو سہتی چلی جاتی ہے۔ انسان جتنا مرضی طاقتور ہو کسی نہ کسی موقعے پر آکر کمزور پڑنے لگتا ہے ۔ماں جب کسی تکلیف میں بِلک رہی ہو یا تکلیف برادشت نہ ہونے کی صورت میں ہائے ہائے کر رہی ہو تو کوئی بچہ یہ کہہ دے کہ ہماری ماں کو کچھ نہیں ہوا وہ تو ڈرامے کرتی ہے یا دکھاوا کرتی ہے تو اُس ماں کے قدموں تلے زمین نہ نکل جائےگی ، کہ جس اولاد کےلیے تمام تکلیفیں لگی وہی اُولاد آج ماں کی تکلیفوں کا ڈرامے کا نام دے رہی ہے۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بیوی کے لیے والدین کو جھوٹا قرار دینا



جن والدین کو جھوٹ بولنے کی عادت نہ ہو اور کوئی انہیں جھوٹا قرار دے تو یقینا وہ لمحہ تکلیف سے بھرا ہوتا ہے۔ والدین اپنی اُولاد کو کبھی بھی جھوٹ کا سبق نہیں پڑھاتے ہمیشہ یہی سکھاتے اور کہتے ہیں کہ ہمیشہ سچ بولنا کیونکہ سچ بولنے والے کو اللہ تعالی بہت پسند کرتا ہے ۔ والدین کو بچوں کی شادی کی بہت خوشی ہوتی ہے شادی کرکے وہ اپنے اوپر سے ایک بوجھ ہلکا کرتے ہیں ۔ بچوں کی شادی کرنے کے بعد والدین کے دل میں کہیں نہ کہیں یہ بات ضرور ہوتی ہے کہ شاید گھر میں ایک نئے انسان کے آنے سے گھر کے ماحول میں تھوڑا بہت فرق ضرور پڑے گا اور کہیں اُن کے بچے اُس نئے شخص کی وجہ سے اپنے والدین کو ہی غلط نہ سمجھیں ، کہیں اُنہیں وہ عزت نہیں دیں گے جیسے کنوارے ہوتے ہوئے ملا کرتی تھی یا کہیں اُس نئے انسان کی وجہ سے ہمیں ہی جھوٹا نہ قرار دے ۔ والدین جنہوں نے اپنی زندگی میں سب کچھ دیکھا ہوتا ہے کیونکہ وہ خود اس چیز سے گزر چُکے ہوتےہیں ۔ پھر آخر کار وہی ہوجاتا ہے جس کا ڈر والدین کو ہوتا ہے۔ بیٹے والدین سے زیادہ بیوی کو پریفر کرنا شروع کر دیتے ہیں ، بیوی کے آنسو دیکھ کر وہ غصے میں آجاتے ہیں مگر والدین کی کوئی بات نہیں سنتے اور کہنے لگتے ہیں کہ آپ لوگ تو میری بیوی کے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں ، میری بیوی جھوٹی نہیں بلکہ آپ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بیوی بچوں کی ہر خواہش پوری کرنا اور والدین کو بہانے سُنانا



جو والدین ساری زندگی بچوں کی خواہشوں کو پورا کرتے رہے ، مگر وہی بچے بڑے ہو کر اپنے والدین کی خواہشات کو بھول جاتے ہیں ، والدین کبھی بچوں کے آسرے پر نہیں رہتے لیکن ایک خوشی ہوتی ہے انہیں کہ جب اُن کا بیٹا اُن کے لیے کچھ پیار سے لاتاہے ، لیکن والدین کی یہ خوشی صرف خوشی بن کر رہ جاتی ہے، بیوی کی ہر ضرور پوری ہوتی ہے لیکن جب والدین پر بات آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ ہے ہی نہیں ہم کہاں سے دیں آپ کو ؟ ہمارا کاروبار بہت مندھا ہے پروفٹ نہیں ہورہا ہے ، اس لیے ہم کچھ نہیں دے سکتے ، جبکہ وہی بیٹے اپنی بیوی کی ہر خواہش کو پورا کررہے ہوتے ہیں ،آئے دن نئے سے نئے کپڑے ، ایک دن چھوڑ کر دوسری دن شوپنگ کی جارہی ہوتی ہے ، ہفتے دو یا تین ہوٹلوں میں کھانے کھانا اور گھومنا پھرنا ہوتا ہے ، جب والدین کہتے ہیں کہ تمہارے حالات خراب ہونے کے باوجود بھی تم اتنا کچھ کر رہے ہو اپنے بیوی بچوں کے لیے تو کیا والدین کی باری تمہیں بہانے یاد آجاتے ہیں؟
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
والدین کے کھانے کی پروا نہ کرنا



والدین بچوں کی بھوک برداشت نہیں کر پاتے ہیں ، اور جب انہیں یہ لگتا ہے کہ اُن بچہ بھول سے بِلک رہا ہے تو وہ خود بوکھلا جاتے ہیں ، لیکن کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ والدین بھوکے ہوں اور بچے اُن کو کھلانے کی ذمے داری اُٹھا کر ساری زندگی اُن کا خیال رکھ سکیں؟ شاید ایسا دیکھنے کو کم ملتا ہو گا، جب اُولاد کنواری ہوتی ہے تو ایک اکیلی ماں کتنے ہی بچوں کی بھوک مٹا رہی ہوتی ہے ، صبح کا ناشتہ ، دوپہر کا کھانا ، اور پھر رات کا کھانا ، سب کچھ بس ایک اکیلی ماں ہی تو کرتی ہے ، لیکن جب بچوں کی شادی ہوتی ہے تو ماں باپ کے دل میں ایک آس/بات ہوتی ہے کہ اب ہمارے سکون کے دن آگئے ہیں ، اب ہمارے بچے اور ہماری بہوئیں ہمیں سنبھال لیں گی مگر اُن کی یہ آس صرف آس بن کر رہ جاتی ہے ، اُن کو سکون ملنے کی بجائے اُن کی زندگی میں بے سکونی آجاتی ہے ۔ اکیلے ماں باپ مل کر کتنے بچوں کو پال لیتے ہیں مگر وہی بچے اور اُن کی بہوئیں اکیلے والدین کو سنبھال نہیں پاتے ہیں۔ والدین کو وقت پر ناشتہ نہ ملنا ، کبھی بنا دیا تو کبھی نہ بنایا، کھانے کے وقت کہیں باہر گھومنے پھرنے چلے جانا ، تو کبھی بیماری کا بہانہ کر دینا، والدین چُپ چاپ یہ تماشا دیکھتے ہیں اور اندر ہی اندر گٹھتے رہتے ہیںاور کسی سے کوئی شکایت نہیںکرتے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بیویوں کی زبان درازی



والدین کے ساتھ کوئی بدتمیزی کرے ، کوئی زبان درازی کرے ، کوئی بُرا بھلا کہے تو بچے غصے کے مارے پاگل ہو جاتےہیں، سامنے والے کو مارنے کے لیے دوڑتے ہیں کہ انہوں نے ہمارے والدین کو بُرا کہا تو کہا کیوں، بیٹوں کی شادی کے بعد جب بہوئیں والدین کے آگے زبان چلاتی ہیں تو اُس وقت بیٹوں کو غصہ نہیں آتا اور نہ ہی اُن کا خون کھولتا ہے بلکہ اُس وقت وہ ایسے چُپ چاپ بُت بنن جاتے ہیں کہ جیسے اُنہیں کسی چیز کا علم ہی نہ ہو، جب والدین اس بارے میں اپنے بیٹوں سے بات کرتے ہیں کہ تمہاری بیوی نے دیکھو کس طرح ہمارے آگے زبان چلا رہی ہے تو بیٹے کہتے ہیں کہ آپ نے ہی کچھ غلط کیا ہوگا وہ پاگل ہے جو آپ کے ساتھ ایسے بات کرے گی، آپ تو ویسے ہماری بیویوں کے دُشمن بنے ہوئے ہیں ، چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر شکوے شکایتیں شروع کر دیتے ہیں ، ہر بار میری ہی بیوی کو غلط کہتے رہتے ہیں میر ی بیوی جھوٹ نہیں بول رہی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
والدین کی بچوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش
والدین کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے شادی کر کے ہم نے اپنے بچوںکو اپنے سے دور کر لیا ہے ، اُن سے یہ سب چیزیں برادشت نہیں ہوتی ہیں ، بچے ہر چیز کی حد پار کرنے لگتے ہیں ، والدین بہت کوشش کرتے ہیں کہ سب مل کر رہیں ، کوئی آپس میں لڑے نا اور خوشی خوشی اپنی زندگی کو گزاریں ، بہت بار والدین بچوں کو اکٹھا کرتے ہیں اور انہیں سمجھاتے ہیں کہ بیویوں کے پیچھے لگ ر اپنے بہن بھائیوں سے مت لڑو بلکہ ہر بات کو کلیئر کر کے صاف دل ہو کر ایک دوسرے سے میل جول رکھو، لیکن شاید والدین کا سمجھانا انہیں شکایت کرنا لگا ، کچھ دن اچھے گزرنے کے بعد پھر آپس میں بیویوں کی وجہ سے گھر میںلڑائی کا شروع ہو جانا اور بجائے سمجھنے کے وہ اور بگڑنا شروع کر دیتے ۔​
 
Top