8- اپنے بچوں کو ہر بُرائی سے دور رکھنا
دنیا کی کوئی ایسی یا کوئی ایسا باپ نہ ہو گا جو یہ چاہے گا کہ اُس کے بچے بُری صحبت کا شکار ہوں ، یا اُن کے بچے کسی غلط ایکٹیویٹی میں پڑ جائیں ، اس لیے وہ اپنے بچوں کو روک ٹوک کرتےہیں اور بچے سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ ہم پر سختی کر رہے ہیں یا ان کا مقصد یہ ہے کہ ہم ہر وقت گھر ہی بیٹھیں رہیں اور کئی بار اُولاد (لڑکے) یہ کہہ دیتے ہیں کہ کیا ہمیں لڑکیوں کی طرح گھر میں قید رکھتے ہیں۔ والدین کبھی بھی اپنے بچوں کا غلط نہیں سوچتے وہ وہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں جو ہمیں اُس وقت سمجھ نہیں آتا، ہمارے والدین جو عمر سے ہو کر گزرتے ہیں وہ اُن سب چیزوں سے اپنی اُولاد کو روکتے ہین جن پر چل اُن کے بچے نقصان اُٹھا سکتے ہیں۔
ماں باپ اگر اپنے بچوں کو یہ کہیں کہ وقت پر گھر آیا کرو تو کیا یہ سختی ہے؟
ماں باپ اگر اپنے بچوں کو کہیں کہ بیٹا سگریٹ نوشی اور ایسی چیزوں سے دور رہو جن سے اسلام ہمیں منع کرتا ہے تو کیا یہ غلط ہے ؟
ماں باپ اگر زبردستی نماز پڑھنے کا کہتے ہیں تو کیا ماں باپ ظالم ہیں؟
اگر وہ ہمیں ایسی صبحت سے دور رکھنا چاہتےہیں جس سے ہم غلط رستہ اختیار کر لیں تو کیا والدین بُرے ہیں؟
اگر وہ ہمیں ایسی ایکٹیویٹی سے روکتے ہیں جس سے ہماری پڑھائی کا حرج ہوتا ہے تو کیا والدین نا سمجھ ہیں؟
اگر وہ ہمیں پڑھا لکھا کر ایک اچھا انسان بنانا چاہتےہیں تو کیا وہ نا انصافی کرتے ہیں ؟
والدین اپنے بچوں کو ہمیشہ بُرائی سے دور رکھنے کی کوشش کرتےہیں، اس کے لیے چاہے انہیں بچوں کو گھر میں چھپا کر رکھنا پڑے ، یا اُن کا ڈانٹ ڈپٹ یا مارنا یا پھر اُن پر سختی کرنی پڑے تو کبھی بھی اس چیز سے پیچھے نہیں ہٹیں گے ، کیونکہ والدین کبھی بھی اپنے بچوں کا بُرا نہیں سوچتے یہ اور بات ہے کہ آج کے بچے اس چیز کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔