معاشرتی طور پر یہ مسئلہ ایسے ہی ہے جس طرف آپ نے رہنمائی فرمائی ہے
لیکن اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس کو شریعت کی نصوص سے دیکھنا چاہیئے۔ مثلا:
كَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّاَصْحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوْدُ وَعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ وَاِخْوَانُ لُوْطٍ(سورۃ ق)
ان آیات میں ایمان نہ لانے والوں کو جناب لوط علیہ السلام کے بھائی کہا گیا ہے۔
اسی طرح
اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ لُوْطٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۱۶۱ ﴿الشعراء: ١٦١﴾
اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۱۴۲ ﴿الشعراء: ١٤٢﴾
اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ ہُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۱۲۴ ﴿الشعراء: ١٢٤﴾
اِذْ قَالَ لَہُمْ اَخُوْہُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ۱۰۶ ﴿الشعراء: ١٠٦﴾
سیدنا صالح علیہ السلام، سیدنا ھود علیہ السلام اور اولوالعزم پیغمبر جناب نوح علیہ السلام کو بھی ایمان نہ لانے والے کا بھائی کہا گیا ہے۔
اسی طرح اور بھی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن ہم اس بات کو سمیٹتے ہوئے عرض گذار ہیں کہ بھائی کا لفظ کسی عالم کے لئے استعمال کرنا اگر عجیب ہوتا تو قرآن مجید میں انبیاء علیہم السلام کے نام لے کر ایمان نہ لانے والے والوں کا بھائی نہ کہا جاتا۔
واضح رہے کہ ہمارے معاشرے میں پایا جانے والا عزت و تکریم کا یہ اہم نکتہ بہت سے لوگوں کے لئے تکبر کا ساماں بھی مہیا کرتا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں ہر قسم کے تکبر سے مامون و محفوظ فرمائے آمین
میری رائے کا تعلق شرعی حیثیت سے نہیں
شکریہ
اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ (الحجرات ۴۹: ۱۰)
ترجمہ:مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
ہماری شریعت محمدی کا قانوں اور ضابطہ یہی ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہے۔ اس میں اجتماعیت اور وحدت امت کے قانون کا بیان ہوا ہے۔
سابقہ انبیاء علیہ السلام کی امت کو بھائی کہنا ان کو انبیاء کے لائے ہوئے دین کے قریب کرنا مقصود تھا۔ واللہ اعلم باالصواب
ہمارے ہاں لفظ بھائی کا استعمال دوستی یاری یا بے تکلفانہ رشتہ پر استعمال کرتے ہیں۔
اور آج کل تو بھائی لوگ بطور اصطلاح خاص لوگوں کے لئے استعمال ہونے لگی ہے(ابتسامہ)
تکبر اور غرور کا تعلق انسان کی ذاتی سوچ اور خیال سے ہے، قانون فطرت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
شکریہ