• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بابرکت و باسعادت بڑھاپا

شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
بابرکت و باسعادت بڑھاپے کی تیاری: بچپن میں

(گزشتہ سے پیوستہ)​

جو لوگ دین کا ضروری علم حاصل نہیں کرتے، اللہ و رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی نہیں گزارتے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار نہیں کرتے ان کے دل دنیا کی تمام تر آرام و آسائش کے باوجود بھی پریشان ہی رہتے ہیں۔ دین کا علم حاصل نہ کرنا بڑی بدنصیبی ہے اور اسے حاصل کرکے اس پر عمل نہ کرنا اس سے بھی بڑی بدنصیبی ہے۔ بعض لوگ نماز و روزہ اور دیگر عبادات کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کا بڑھاپا آج اچھا کیوں نہیں ہے؟ تو دیگر وجوہات کے ساتھ ایک خاص وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایسے لوگوں نے اپنے بڑھاپے کی تیاری میں دین کے ایک خاص شعبے کو نظر انداز کر رکھا تھا۔ ایسے لوگ دنیا میں اتنے مصرورف رہتے تھے کہ اپنے لیے دعائیں نہیں کرتے تھے، صبح و شام کی مسنون دعاؤں کا اہتمام نہیں کیا کرتے تھے۔

بابرکت ، باسعادت اور خوشگوار بڑھاپے کی تیاری کی ابتداء تو بچپن میں ہی ہو جانی چاہیے۔ اگر بچوں کی دینی ماحول میں تربیت ہو اور انہیں بچپن سے ہی صبح و شام کی مسنوں دعائیں سکھا دی جائیں اور انہیں ان کا اہتمام کرنے والا بنا دیا جائے تو اسی وقت سے وہ بُرے بڑھاپے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنا شروع کر دیں۔ جیسا کہ ذیل کی صبح شام کی دعاؤں میں تعلیم دی گئی ہے۔

صبح کو نبی اکرم ﷺ کہتے:
اَصْبَحْنَا وَاَصْبَحَ الْمُلْکُ لِلّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ،لَااِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ، لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ، وَھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ، رَبِّ اَسْئَلُکَ خَیْرَ مَا فِی ھٰذَا الْیَوْمِ وَخَیْرَ مَا بَعْدَہٗ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا فِیْ ھٰذَا الْیَوْمِ وَشَرِّ مَا بَعْدَہٗ، رَبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکَسْلِ و وَسُوءِ الْكِبَرِ ِ، رَبِّ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابٍ فِی النَّارِ وَعَذَابٍ فِی الْقَبْرِ
’’ہم نے صبح کی اور اللہ کی بادشاہی نے صبح کی، اور تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، اللہ کےعلاوہ کوئی عبادت کےلائق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے، اور اسی کے لیے حمد ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے میرے رب! اس دن میں جو خیر ہے اور جو اس کے بعد میں خیر ہےمیں تجھ سے اس کا سوال کرتا ہوں، اور اس دن کے شرسے اور اس کے بعد والی دن کی شر سےتیری پناہ چاہتا ہوں، اے میرے رب! میں سستی اور برے بُڑھاپے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے میرے رب! میں آگ میں عذاب دئیے جانے سے، اور قبر میں عذاب دئیے جانے سے تیری پناہ چاہتاہوں‘‘۔(صحیح مسلم ، ابوداود ، ترمذی)

شام کو نبی اکرم ﷺ کہتے:
أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، رَبِّ أَسْأَلُكَ خَيْرَ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَخَيْرَ مَا بَعْدَهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَشَرِّ مَا بَعْدَهَا، رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ وَسُوْ ءِ الْكِبَرِ، رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابٍ فِي النَّارِ وَعَذَابٍ فِي الْقَبْرِ
’’ہم نے شام کی اور اللہ کی بادشاہی نے شام کی، اور تمام تعریف اللہ کےلیے ہے، اللہ کےعلاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے، اور اسی کے لیے حمد ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اے میرے رب! اس رات میں جو خیر ہے اور جو اس کے بعد میں خیر ہے میں تجھ سے اس کا سوال کرتا ہوں، اور اس رات کے شرسے اور اس کے بعد والی رات کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے میرے رب! میں سستی اور برے بُڑھاپے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اے میرے رب! میں آگ میں عذاب دئیے جانے سے، اور قبر میں عذاب دئیے جانے سے تیری پناہ چاہتاہوں‘‘۔ (صحیح مسلم ، ابوداود ، ترمذی)

صبح وشام کے اوقات میں نبی ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ یہ مبارک دعائیں پڑھا کرتے تھے اور آپ ﷺ ان دعاؤں میں «سُوءِ الْكِبَرِ» یعنی بڑھاپے کی برائی اور سٹھیا جانے سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ کبر سنی سے مراد ایسا بڑھاپا ہے جس کی وجہ سے بعض قوائے جسمانی کمزور پڑ جاتے ہیں اور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس وجہ سے انسان عمر کے گھٹیا ترین دور میں پہنچ جاتاہے: کیونکہ اس عمر میں مقصد حیات یعنی علم وعمل دونوں چھوٹ جاتے ہیں۔ بڑھاپے کی برائی سے مراد وہ اشیا ہیں جو کبر سنی سے پیدا ہوتی ہیں، جیسے عقل و دماغ کا خراب ہوجانا اور خبط میں مبتلا ہونا، نیک اعمال نہ کر سکنا اور اس طرح کی کسی اور ابتر حالت کا شکار ہونا۔ ایک روایت میں الکبر، باء پر سکون کے ساتھ یہ لفظ آیا ہے۔ اس صورت میں اس کے معنی ہو‎ں گے: نعمت کے حصول پر سرکش ہو جانا اور لوگوں پر بڑائی جتانا۔

بڑھاپے میں انسان پر سستی چھا جاتی ہے۔ ان صبح و شام کی دعاؤں میں سستی سے اور بُرے بڑھاپے یعنی بُڑھاپے کی ہر طرح کی بُرائی اور فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگی گئی ہے۔ صبح و شام ان دعاؤں کو اپنے معمولات میں شامل کرنے والا اللہ کے فضل سے برے بڑھاپے یعنی بڑھاپے کی ہر طرح کی بُرائی سے محفوظ رہے گا۔ لہذا اگر یہ دعائیں آپ کے روزانہ کے معمولات میں شامل ہیں تو الحمد للہ، اور اگر نہیں ہیں تو آپ عمر کے جس حصے میں بھی ہوں آج ہی سے صبح و شام ان دعاؤں کو اپنے معمولات میں شامل کر لیجیے تاکہ آپ کا بڑھاپا خوشگوار گزرے اور آپ کو دنیا و آخرت کی بھلائی نصیب ہو ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے معمولات میں ان دعاؤں کو شامل کرنے والا بنائے اور ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے۔ آمین!
(ماخوذ: کتاب ’’بابرکت و باسعات بڑھاپا‘‘
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
بابرکت و باسعادت بڑھاپے کی تیاری: جوانی میں عبادت کے ذریعے

بچپن کے بعدجوانی کا مرحلہ آتا ہے جو کہ انسانی زندگی کا پرائم ٹائم ہوتا ہے۔ یہ جوانی کا مرحلہ سب سے اہم اور ذمہ داریوں سے پر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جوانی کے ایام میں لگائے ہوئے درخت کا پھل ہی انسان اپنے بڑھاپے کے زمانے میں کھاتا ہے۔ درحقیقت جوانی الله تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے جس کا شکر ادا کرنا ہر نوجوان پر واجب ہے اور شکر اللہ تعالیٰ کی عبادت واطاعت کرکے ہی ادا کیا جاتا ہے۔
لیکن افسوس کہ دین سے دوری کی وجہ سے اب امت کے نوجوان عبادت میں دل لگانے کی بجائے جوانی انجوائے کرنا پسند کرتے ہیں اور لہو و لعب، عشق و محبت، شہوت پرستی، فضول، ناجائز، واہیات اور حرام کاموں میں اپنی زندگی کے بہترین وقت ضائع کرکے اپنی آخرت تباہ کر لیتے ہیں۔ جب انہیں سمجھایا جاتا ہے کہ تو اکثر کا جواب ہوتا ہے کہ جب بڑھاپا آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ یا ۔پھر جب بڑھاپا آئے گا تب عبادت کر لیں گے۔
موت کا کوئی وقت نہیں پھر کیا انہیں یقین ہے کہ یہ بڑھاپے کو پہنچ پائیں گے؟ کون جانے بڑھاپا کسے نصیب ہو، پھر بڑھاپے میں عبادت کرنے کی کسے توفیق ملے اور بڑھاپے میں جبکہ قویٰ کمزور ہو چکے ہوں اور طرح طرح کی بیماریاں گھیر لیں تو کون کتنی عبادت کر سکتا ہے؟
جوانی کا زمانہ انسانی زندگی کا پرائم ٹائم ہے۔ اس پرائم ٹائم میں عبادت الٰہی سے روگردانی کرنے والے ذرا غور کریں کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے جن نوجوانوں کو اہل مغرب کے انداز میں جوانی سے انجوائے کرنے کی خبط میں مبتلا کرنے کی بجائے جوانی کو عبادت الٰہی میں لگانے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور گناہ و معصیت سے بچائے رکھا ہے ان پر کتنا بڑا احسان کیا ہے ‘‘۔ آخر تمہیں ایسی توفیق کیوں نہیں ہوتی، کیونکہ تمہاری سوچ غلط ہے، تم نے دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ رکھا ہے ۔
’’تو (جان لو کہ) دنیا کی زندگی کھیل اور تماشہ ہی ہے اور البتہ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، کیا تم (یہ حقیقت) نہیں سمجھتے‘‘(٣٢)‏ سورة الأنعام
(لہذا) ’’اگر تم اس حقیقت کو سمجھتے ہو تو جہاں تک ہوسکے اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرتے رہو، اور سنو اور اطاعت کرو‘‘ (١٦) سورة التغابن​
خوب جان لو کہ ہر بندے سے اس کی جوانی کی نعمتوں کا سوال ہوگا اور اس کا حساب بھی لیا جائےگا، جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ قیامت کے دن اس وقت تک بندے کے قدم ہل نہیں سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کا سوال نہ کیا جائے: عمر کہاں گزاری؟ جوانی کہاں صرف کی؟ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ حاصل شدہ علم پر کتنا عمل کیا؟ ‘‘۔ (سنن ترمذي: 2416)
جوانی میں انسان انتہائی مشکل اور مشقت والے کام بھی آسانی سے کر لیتا ہے جبکہ بڑھاپے میں اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جوانی میں اعضاء طاقتور و توانا، اعصاب مضبوط اور عقل وسمجھ کامل ہوتی ہے ۔ لہذا جوانی میں انسان ہر کام احسن طریقے سے کرسکتا ہے اور اسی طرح عبادت بھی خوب کی جا سکتی ہے۔ لیکن لوگ دنیا کا کام تو کرتے ہیں مگر عبادت نہیں کرتے۔ کاش! آج کے نوجوان جس طرح دنیا کے کام بخوبی انجام دیتے ہیں اسی طرح فکر آخرت کرتے ہوئے دینی معاملات اور عبادات پر بھی توجہ دیں تو اپنا بڑھاپا اور اپنی آخرت سنوار سکتے ہیں۔ یاد رکھئے:
»»» عبادت کا بہترین وقت جوانی ہی ہے اور جوانی میں کیے گئے نیک اعمال ہی بابرکت و باسعادت بڑھاپے کی ضامن ہیں«««
جوانی میں جب دنیا بڑی رنگین ہوتی ہے اور گناہوں میں ملوث ہونے کا بہت زیادہ خطرہ رہتا ہے تو اس وقت بچپن کی صحیح دینی تعلیم و تربیت ہی انسان کو گناہوں سے بچاتی ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کے مسلمان نہ ہی اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینا گوارا کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں نماز، روزہ اور دیگر دینی احکام کا پابند بناتے ہیں۔ انگلش اسکولوں میں اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے ہر ماہ 25000 روپے دے سکتے ہیں لیکن دینی تعلیم کے لیے 2500 روپے خرچ کرنا بھی ناگوار گزرتا ہے۔ 20 – 25 سال کے نوجوان کو بھی بچہ ہی سمجھتے ہیں اور انہیں نماز و روزے کا پابند نہیں بناتے۔ اول تو اس دور میں کوئی کسی کو کچھ کہتا نہیں، پھر بھی اگر کوئی بھلا مانُس ٹوک دے کہ ’’کیا بات ہے بیٹا نماز نہیں پڑھتا؟ تو جھٹ کہہ دیتے ہیں، ابھی بچہ ہے جب وقت ہوگا تو پڑھ لے گا۔ پھر جب ایسے نوجوان جوانی انجوائے کرنے کے نام پر طرح طرح کی برائیوں میں ملوث ہوتے ہیں اور اپنے ماں باپ کو بے عزت کرتے ہیں تو وہی بوڑھے ماں باپ اپنا بڑھاپا خراب ہوتا دیکھتے ہیں جو کہتے تھے ’’ ابھی بچہ ہے ‘‘ لیکن اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ بچوں کی اسلامی اصولوں کے مطابق پرورش کرنا بڑی عبادت ہے، جو لوگ اس عبادت سے غفلت برتتے ہیں انہیں اس کی سزا ملتی ہے پھر ان کا بڑھاپا کیونکر خوشگوار ہوسکتا ہے؟ کاش لوگ اس بات کو سمجھتے!
جو لوگ اپنی جوانی کی امنگوں میں گناہ و معصیت سے بچتے ہوئے احکاماتِ الہی اور تعلیماتِ نبوی کے مطابق اپنی جوانی کو عبادت میں لگا دیتے ہیں، ہوس پرستی اور شیطانی خواہشات سے اپنے آپ کو بچائے رکھتے ہیں، ان کا بڑھاپا بہت شاندار گزرتا ہے اور قیامت کے دن ایسے لوگ عرش کے سائے میں رحمت الٰہی کی سعادت سے بہرہ ور ہوں گے، (ان شاء اللہ)۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’ سات خوش نصیب ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اُس (قیامت کے) دن اپنا (عرش کا) سایہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی دوسرا سایہ نہیں ہوگا:
  1. انصاف کرنے والا حکمران،
  2. وہ نوجوان جس نے اپنی جوانی اللہ کی عبادت میں گزاری ہو،
  3. وہ آدمی جس کا دل مسجد میں ہی لگا رہتا ہے،
  4. وہ دو آدمی جو اللہ کی خاطر آپس میں محبت کریں، اسی کی خاطر ملیں اور اسی کی خاطر جدا ہوں،
  5. وہ آدمی جسے کوئی اونچے مرتبے والی خوبصورت عورت دعوتِ گناہ دے مگر وہ یہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں،
  6. وہ آدمی جو اپنے دائیں ہاتھ سے اس طرح صدقہ کرتا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی اس کے صدقے کے علم نہیں ہوتا،
  7. وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو (خشیت الٰہی سے) اس کی آنکھوں سے آنسو گر پڑتے ہیں۔ ‘‘ (صحیح بخاری: 660، صحیح مسلم: 1031)
غور کیجيے یہ خوش نصیبی ایسے نوجوانوں سے متعلق ہے جو اپنی جوانی میں لہو و لعب میں مشغول ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصرف رہتے ہوں، کیونکہ یہ سارے کام وہ ہیں جو عموماً نوجوان ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ پھر ایسے نوجوانوں کے لیے ان کے رب کی طرف سے بشارت ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ‎(٩٧) سورة النحل
’’جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے
اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘
« حَيَاةً طَيِّبَةً» سے مراد دنیا کی پاکیزہ اور مبارک زندگی ہے جس میں حلال روزی، قناعت (اللہ نے جس حال میں رکھا ہے اسی پر خوش رہنا) ، سچی عزت، سکون و اطمینان، دل کا غنی ہونا، اللہ کی محبت، ایمان کی لذت سبھی چیزیں شامل ہیں، جو ایمان اور عمل صالح کی بدولت نصیب ہوتی ہیں۔ ایمان یا عمل صالح یا دونوں سے محروم لوگوں کو یہ چیزیں کبھی حاصل نہیں ہوتیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان اور عمل صالح سے اخروی زندگی ہی نہیں بلکہ دنیوی زندگی بھی نہایت سکھ و چین سے گزرے گی اور بڑھاپا بھی بابرکت و باسعادت ہوگا۔
لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان جوانی، صحت، وقت اور مال کے رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عبادت کرلے کیونکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو!
جوانی کو بڑھاپے سے پہلے،
صحت کو بیماری سے پہلے،
مال داری کو فقر وتنگدستی سے پہلے،
فراغت کو مصروفیت سے پہلے اور
زندگی کو موت سے پہلے۔
(صحيح الترغيب:3355)
لہذا جو لوگ نوجوانی کو بڑھاپے سے پہلے غنیمت جانتے ہوئے اپنی جوانی کو انجوائے کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگا دیتے ہیں وہی اپنا بڑھاپا بابرکت، باسعادت اور خوشگوار بنا پاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمارے نوجوانوں کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(ماخوذ: کتاب ’’بابرکت و باسعادت بڑھاپا ‘‘)

++++++
 
Last edited:
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
بابرکت و باسعادت بڑھاپے کی تیاری: جوانی میں نکاح / شادی کرتے وقت

بڑھاپے کو خوشگوار بنانے کے لیے جوانی کا بے داغ ہونا ضروری ہے۔ جن کی جوانی بے داغ گزرتی ہے وہ خوش قسمت ہوتے ہیں۔ جوانی کو بے داغ رکھنے کے لیے وقت پر شادی کرنا بہت ضروری ہے جس کے لیے نیک شریک حیات کا چناؤ بہت اہم ہے۔ اگر شریک حیات اچھی مل گئی تو دنیا جنت بن جاتی ہے اور بڑھاپا خوشگوار گزرتا ہے۔

نبی کریمﷺنے فرمایا کہ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے : (1) مال، (2) حسب نسب، (3) حسن، اور (4) دین کی وجہ سے؛ اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہو گی)۔(صحيح البخاري: 5090)

اس حدیث کا صحیح معنی یہی ہے کہ نبی ﷺ نے لوگوں کے متعلق بتلایا ہے کہ وہ شادی کرتے وقت عام طور انہی چار چیزوں کو مدّ نظر رکھتے ہیں، جبکہ دین کو بنیادی حیثیت ہونی چاہے کہ اسی کی بنیاد پر اپنایا جائے اور چھوڑا جائے۔ چنانچہ یہ حدیث ہر چیز میں دیندار لوگوں کی صحبت پر زور دے رہی ہے، کہ انسان ان کی صحبت میں رہ کر ان کے اخلاق، حسن معاملہ سے مستفید ہوتا ہےاور اُسے اِن کی طرف سے کسی نقصان کا ڈر نہیں ہوتا۔اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے کسی حسین یا حسب نسب والی یا مالدار خاتون سے نہیں بلکہ دین دار عورت سے شادی کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ لہذا شادی کرنے میں جو لوگ دین دار عورت کا انتخاب کرتے ہیں، ان کی جوانی اور بڑھاپا دونوں ہی اس عورت کے ساتھ خوشگوار گزرتے ہیں۔

آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ: تم میں سے ہر کوئی شکر کرنے والے دل، ذکر کرنے والی زبان اور امور آخرت پر تعاون کرنے والی نیک بیوی کا اہتمام کرے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 2176)

شکر کرنے والی بیوی اپنے خاوند کے ساتھ غربت میں بھی شکر ادا کرتی ہے اور امور آخرت پر تعاون کرنے والی نیک بیوی اپنے شوہر کو برائی اور گناہ سے روکنے والی اور نیک اعمال کے طرف راغب کرنے والی ہوتی ہے۔ شوہر ایسی بیوی سے بہترین نفع اٹھاتا ہے۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: دنیا نفع اٹھانے کی چیز کا نام ہے، اور بہترین نفع اٹھانے کی چیز نیک بیوی ہے۔(صحیح مسلم:1467)

جبکہ ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں جو اپنی ناجائز خواہشات اور فرمائشوں سے اپنے شوہروں کی زندگی اجیرن کر دیتی ہیں اور انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتی ہیں۔ ایسے لوگ اپنی بیویوں کی فرمائشیں پوری کرنے کے لیے حرام اور کرپشن کی کمائی کا سہارا لیتے ہیں اور یوں اپنا بڑھاپا اور آخرت تباہ کر لیتے ہیں۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے ایسی بیویوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی دعا سکھائی ہے جو مرد کو بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کر دے:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ َمِنْ زَوْجٍ تُشَيِّبُنِي قَبْلَ الْمَشِيبِ

۔۔۔ ’’اے اللہ! میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں ایسی بیوی سے جو مجھے بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کر دے‘‘۔

مکمل دعا یہ ہے:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَارِ السُّوءِ ، وَمِنْ زَوْجٍ تُشَيِّبُنِي قَبْلَ الْمَشِيبِ ، وَمِنْ وَلَدٍ يَكُونُ عَلَيَّ رِبًا ، وَمِنْ مَالٍ يَكُونُ عَلَيَّ عَذَابًا ، وَمِنْ خَلِيلٍ مَاكِرٍ عَيْنَهُ تَرَانِي وَقَلْبُهُ يَرْعَانِي، إِنْ رَأَى حَسَنَةً دَفَنَهَا ، وَإِذَا رَأَى سَيِّئَةً أَذَاعَهَا ۔۔۔ ’’اے اللہ! میں تیری پناہ طلب کرتا ہوں برے پڑوسی سے اور ایسی بیوی سے جو مجھے بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کر دے اور ایسی اولاد سے جو میری آقا بن بیٹھے اور ایسے مال سے جو میرے لیے باعث عذاب بن جائے اور ایسے چالباز دوست سے جس کی آنکھیں مجھے تک رہی ہوں اور اس کا دل میرے پیچھے پڑا ہو اور میری ہر نیکی کو دباتا جائے اور ہر برائی کو نشر کرتا جائے‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحیحہ ترقیم البانی: 3137)

لہذا جو شخص شادی سے پہلے اللہ تعالیٰ سے بڑھاپے سے پہلے بوڑھا کردینے والی عورت سے بچنے کی دعا کرتا ہے اور دین دار عورت کو اپنی شریک حیات بناتا ہے تو وہ شریک حیات اس کے لیے ساری زندگی سکون کا باعث بنتی ہے اور اس کا بڑھاپا خوشگوار گزرتا ہے۔ پھر آخرت میں بھی دونوں جنت کے مکین ہوں گے، ان شاء اللہ۔

(ماخوذ: کتاب " بابرکت و باسعادت بڑھاپا"
.

۔​
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
خوشگوار اِزْدِوَاجی زندگی خوشگوار بڑھاپا

مرد کے لیے جو دعائیں ہیں وہی عورت کے لیے بھی ہیں اور عورت کو بھی نیک دین دار شریک حیات پانے کی دعا کرنی چاہیے تاکہ ان کا بڑھاپا بھی بابرکت و باسعادت ہو اور انہیں بھی آخرت کی کامیابی نصیب ہو۔ قرآن مجید میں شوہر اور بیوی کے لیے ایک بہت ہی پیاری دعا ہے:

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (٧٤)سورة الفرقان
’’اے ہمارے رب! ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں صاحبان تقویٰ کا پیشوا بنا دے‘‘

«قرۃ أعین» یعنی «آنکھوں کی ٹھنڈک» کتنا پیارا لفظ ہے۔ خوشی اور مسرت کی یہ بہت اعلیٰ تعبیر ہے، جو قرآن مجید میں کئی بار آئی ہے۔ اس دعا کے الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین بیوی وہ ہے جس کو دیکھ کر شوہر کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، اور بہترین شوہر وہ ہے جو بیوی کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو، اور بہترین اولاد وہ ہے جس سے ماں باپ دونوں کو آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہو۔ یہ آنکھوں کی ٹھنڈک جنت کی نعمت ہے، جنتیوں کو جنت میں بھی یہی آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٧﴾ سورة السجدة
’’پس کسی کو معلوم نہیں جو آنکھوں کی ٹھنڈک (جنت میں) ان کے لیے پوشیدہ رکھی گئی ہے، یہ ان (نیک) اعمال کا بدلہ ہوگا جو وہ (دنیا میں) کرتے رہے تھے‘‘

لہذا جنہیں آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی جنت کی نعمت دنیا میں ہی نصیب ہو جاتی ہے ان کی دنیا جنت بن جاتی ہے ، وہ خوشگوار زندگی گزرتے ہیں اور ان کا بڑھاپا بابرکت و باسعادت ہوتا ہے۔

شادى ميں اطمینان و سكون اور راحت پائى جاتى ہے۔ سکون انسانی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ سکون کے بغیر انسان ذہنی توازن برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ سارے دن کی محنت و مشقت کے بعد جب انسان گھر پہنچے تو اسے سکون ملے، گھر کا ماحول پرسکون ہو۔ یہ نیک بیوی ہی ہوتی ہے جو اپنے شوہر کے لیے اپنے گھر کے ماحول کو پرسکون اور خوشگوار بناتی ہے اور اپنے شوہر کی راحت اور آرام کا پورا خیال رکھتی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (٢١) سورة الروم
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘

مذکورہ آیت میں بھی لفظ ازواج استعمال ہوا ہے جس میں شوہر اور بیوی دونوں ہی آجاتے ہیں۔ یعنی شوہر اور بیوی دونوں ہی ایک دوسرے سے راحت و سکون حاصل کرتے ہیں اور گھر کے ماحول کو پرسکون بنانے کی ذمہ داری عورت اور مرد دونوں پر عائد ہوتی ہے۔ پھر اس سکون کی بنیادی شرط بھی بیان کردی گئی اور وہ ہے:

(1)-- مودت یعنی پرخلوص محبت اور (2)-- رحمت۔

یہی وہ جذبے ہیں جو ازدواجی زندگی کو پرسکون اور مستحکم بناتے ہیں۔ لہذا پرسکون ازدواجی زندگی کے لیے ان جذبوں کے تحت زندگی گزاریئے اور اپنے بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنائیے۔

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایمان میں سب سے کامل مومن وہ ہے جو سب سے بہتر اخلاق والا ہو، اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو۔ (سنن ترمذي: 1162)

اکثر دیکھا گیا ہے کہ بڑھاپے میں بعض وجوہات کی بنا پر ازدواجی زندگی میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں۔اگر کسی جوڑے کے درمیان ایسا ہونے لگے تو بوڑھا بوڑھی دونوں کو اپنا اپنا جائزہ لینا چاہیے اور اُن وجوہات کو دور کرنا چاہیے جن کی بنیاد پر ان کی ازدواجی زندگی سردمہری کا شکار ہورہی ہے۔ لہذا اپنی ازدواجی زندگی کو زندگی کے آخری ایام تک خوشگوار بنائے رکھنے کی سعی کرتے رہیے اور اپنا بڑھاپا خوشگوار بنانے کے لیے ساتھ ہی دعا ئیں بھی کرتے رہیے:

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (٧٤) سورة الفرقان
’’اے ہمارے رب! ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما،اور ہمیں صاحبان تقویٰ کا پیشوا بنا دے‘‘
یاد رکھئے:
« خوشگوار ازدواجی زندگی ہی خوشگوار بڑھاپے کی ضامن ہوتی ہے »
(ماخوذ: کتاب " بابرکت و باسعادت بڑھاپا")
۔​
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
بابرکت بڑھاپے کی ضامن
میاں بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک ہی بابرکت بڑھاپے کی ضامن ہے۔ میاں بیوی کے حقوق جاننے کے لیے قرآن مجید کی صرف ایک آیت ہی کافی ہے:

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ--- ﴿٣٤﴾‏ سورة النساء
’’مرد عورتوں کے محافظ و منتظم (حاکم) ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے ، اور اس وجہ سے کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، (اگر نہ سمجھیں تو) تو ان کے ساتھ سونا ترک کردو اور (اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو) مارو، پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر ظلم نہ کرو، یقینا اللہ (اپنی کبریائی میں) سب سے بالا اور بڑا ہے‘‘ ﴿٣٤﴾‏ سورة النساء

اس آیت کے مطابق جہاں مرد کو عورتوں پر فضیلت دے کر محافظ و منتظم (حاکم) کا درجہ دیا گیا ہے، وہیں انہیں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا بھی پابند کیا گیا ہے اور اسی طرح عورتوں کو بھی مرد کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی تنبیہ کی گئی ہے۔ اگر میاں بیوی ان اصول کے مطابق زندگی بسر کریں تو ان کی زندگی خوشگوار گزرے گی اور ان کا بڑھاپا بابرکت و باسعادت ہوگا۔

عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور بہتر رویہ رکھنے کے بارے میں قرآن مجید میں ایک بہترین اصول بھی بتا دیا گیا ہے اور وہ ہے:

وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ‎﴿١٩﴾‏ سورة النساء
’’ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو ‘‘

دنیا میں کوئی بھی انسان کامل (perfect) نہیں ہے۔ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی خامی ضرور موجود ہے۔ اس کو اس خامی کے ساتھ ہی قبول کرنا ہوگا۔عورتوں کے معاملے میں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہی رہنمائی کی ہے، فرمایا :عورتوں کے بارے میں میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ ڈالو گے اور اگر اسے وہ یوں ہی چھوڑ دو گے تو پھر ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی۔ پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو، عورتوں سے اچھا سلوک کرو۔ (صحيح البخاري: 3331، صحيح مسلم: 1468)

لہذا اگر ہم عورتوں کو اپنی مرضی کے مطابق پرفیکٹ بنانا شروع کر دیں تو وہی ہوگا جو اوپر حدیث میں بیان ہوا ہے۔ لیکن انہیں یوں ہی چھوڑا بھی نہیں جاسکتا ہے کیونکہ اگر انہیں یوں ہی چھوڑ دیا گیا تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائیں گی۔ لہذا شوہروں کو چاہئے کہ پیار و محبت اور حسن سلوک سے اپنی بیویوں کی تربیت کرتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت بنائیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی مومن (شوہر) کسی مومنہ (بیوی) سے بغض نہ رکھے اگر اس میں ایک عادت ناپسند ہو گی تو دوسری پسند بھی ہو گی۔ (صحيح مسلم: 1469)

بیوی تو اپنی چیز ہے۔ کیا کوئی اپنی چیز کے ساتھ بھی بغض یا کینہ رکھتا ہے؟ یا اپنوں پر طعن و تشنیع کرتا ہے؟ پھر بیوی کے ساتھ ایسا رویہ کیوں؟ اپنی بیوی کے ساتھ بغض رکھنا، اس پر لعنت ملامت اور طنز کرنا، اسے جلی کٹی باتیں سنانا یا طعنے دینا بھلا کیوں؟ اگر اس میں کوئی خامی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اچھائی بھی ہوگی۔ اس لئے ہر شوہر کو اپنی بیوی کے بارے میں ہمیشہ مثبت رویہ (Positive Attitude) رکھنا چاہیے اور کسی بھی چیز کا تاریک پہلو دیکھنے کے بجائے اس کا روشن پہلو دیکھنا چاہئے۔ ان اصول کے تحت زندگی گزارنے والوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار گزرتی ہے اور بڑھاپا بابرکت و باسعادت ہوتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے جس میں آپ ﷺ کی بعض ازواج مطہرات بھی ساتھ تھیں، جن کی سواریوں کے ساتھ انجشہ نامی ایک حبشی غلام تھا جو حدی پڑھ رہا تھا (جو اونٹ ہانکتے وقت گاتے ہیں جس کی وجہ سے اونٹ تیز دوڑنے لگتا ہے)۔ نبی کریم ﷺ نے اُن سے فرمایا: انجشہ! آہستہ چال اختیار کر، اِن شیشوں کو مت توڑ۔ (مراد سواریوں میں بیٹھیں ازواج مطہرات کو تکلیف نہ پہنچے)۔ (بخاری: 6211، مسلم: 2323)

یعنی آپ ﷺ ایسے موقعے پر بھی اپنی ازواج مطہرات کے آرام کا خیال رکھا اور سواریوں کو آہستہ چلانے کا حکم دیا، جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ کس حد تک حسنِ سلوک کرنا ضروری ہے۔ اپنی بیویوں کے ساتھ ایسا حسن سلوک کرنے والے ہی اپنے بڑھاپے کو بابرکت و باسعادت اور خوشگوار بناتے ہیں۔

بیوی کوتکلیف دینا اور نقصان پہنچانا حرام ہے۔ یہ اسلامی اصول ہے کیونکہ جب کسی بھی شخص کونقصان پہنچانا اور تکلیف دینا حرام ہے تو پھر بیوی کوتکلیف دینا اور نقصان پہنچانا تو بالاولی حرام ہوا۔ جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ :جو دوسرے کو نقصان پہنچائے اللہ اُسے نقصان پہنچائے گا اور جو دوسرے کو تکلیف دے اللہ تعالیٰ اُسے تکلیف دے گا۔ (سنن ترمذی:1940)

اسی لیے جو لوگ اپنی بیویوں پر ظلم و ستم کرتے ہیں ان کی گھریلو زندگی جہنم بن جاتی ہے اور ازدواجی زندگی عذاب میں گزرتی ہے۔ ایسے لوگ اپنا ہی سکون برباد کرتے ہیں اور اپنے بڑھاپے کی برکت و سعادت سے محروم رہتے ہیں۔

آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعے پر عورتوں کے بارے میں مزید سخت تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: تم عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالیٰ کی امان سے حاصل کیا ہے، اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالیٰ کے کلمہ سے حلال کیا ہے، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں توتم انہيں مار کی سزا دو جو زخمی نہ کرے اور شدید تکلیف دہ نہ ہو، اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اور رہائش دو۔ (صحیح مسلم: 1218 )

اور حضرت ابوہریرہ ﷛ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تمام مسلمانوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں سب سے بہترین وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں۔ (سنن ترمذي: 1162، سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 284)

اچھی زندگی اور خوشگوار بڑھاپے کے لیے میاں بیوی کے درمیان پیار، محبت، وفا، خلوص اور اعتماد کا ہونا ضروری ہے۔ ان دونوں میں سے کسی بھی ایک فریق کی بے وفائی سے زندگی جہنم بن جاتی ہے۔ جس طرح عورت کی بدچلنی کوئی مرد برداشت نہیں کرتا اسی طرح کوئی عورت بھی آوارہ اور بدچلن شوہر کو برداشت نہیں کرتی، یہ بات اور ہے کہ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کی خاطر وہ چشم پوشی کرے۔ لیکن جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں اور مرد بوڑھا ہوجاتا ہے تب اس مرد کو اپنی بدچلنی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور اس کا بڑھاپا بُرا گزرتا ہے۔

اس لیے بابرکت و باسعادت اورخوشگوار بڑھاپے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے سے حسن سلوک کریں، ایک دوسرے کی خامیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کریں، ایک دوسرے کے وفا دار رہیں، ایک دوسرے سے پیار و محبت سے پیش آئیں اور سب سے اہم بات یہ کہ لوگ اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات پرعمل کرتے رہیں، اس کے ساتھ ہی ہمیشہ دعائیں بھی کرتے رہیں:

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (٧٤) سورة الفرقان
’’اے ہمارے رب! ہمیں ہماری ازواج (جوڑے) اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں صاحبان تقویٰ کا پیشوا بنا دے ‘‘
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان)
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
بڑھاپے کا سہارا اور آخرت کا سرمایہ
شادی سے انسان کا نصف دین مکمل ہوتا ہے۔ سیدنا انس بن مالک ﷛ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب انسان شادی کرلیتا ہے تو اس کے دین کا آدھا حصہ مکمل ہوجاتا ہے، اب اسے چاہیے کہ بقیہ حصہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 625)

یعنی جب ایک بندۂ مومن شادی کر لیتا ہے تب وہ حرام کاری (زنا) سے بچ جاتا ہے اب اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور حرام خوری و دیگر گناہوں سے بھی بچنا چاہیے۔ جو لوگ حرام کی کمائی و دیگر گناہوں سے بچتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں ان کا بڑھاپا بابرکت و باسعادت ہوتا ہے۔

اور جو لوگ حرام کی کمائی سے اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں، ان کے بچے فرمانبردار نہیں ہوتے۔ حرام مال سے پلے ہوئے لوگ ہی بے وفا، بے غیرت، بدچلن اور آوارہ ہوتے ہیں کیونکہ حرام کی کمائی اگرچہ اس دنیا میں شکلیں نہیں بگاڑتی لیکن نسلیں ضرور بگاڑ دیتی ہے اور آخرت میں جہنم کا ایندھن بنا کر یہ شکلیں بھی بگاڑ دے گی، جیسا کہ فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ‎﴿٦﴾سورة التحريم
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم
کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں ‘‘۔

ایک مرد کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچائے۔ جو شخص اپنی آخرت کی فکر کرتا ہے جب اسے دیندار بیوی مل جاتی ہے تو اس کے لیے یہ ذمہ داری نبھانا آسان ہوجاتا ہے کیونکہ نیک و صالحہ بیوی نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں اپنے شوہر کی مدد گار ہوتی ہے اور گناہ کے کاموں سے اسے روکتی ہے جس سے انسانی معاشرتی زندگی میں خوشگواری آتی ہے اور ان کی گود میں جو نسل پروان چڑھتی ہےوہ بھی صالح اور دیندار ہوتی ہے۔

اولاد کی خواہش ایک فطری تقاضا ہے اور یہ انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے ۔مناسب دیندار رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کے بعد نیک و صالح اولاد کی تمنا کرنا اور ان کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا پیغمبروں کا شیوہ رہا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد دعائیں ایسی آئی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں نے نیک اولاد کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ سے مانگی ہیں۔ ان میں سے چند دعائیں درج ذیل ہیں:

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم سے مایوس ہوئے اور صرف ایک بیوی اور ایک بھتیجے ( حضرت لوط علیہ السلام ) کو لے کر ملک شام پہنچے تو اس وقت فطرتاً آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کوئی صالح اولاد عطا فرمائے جو اس غریب الوطنی میں میری مونس و غم خوار اور مددگار ہو ، لہذا آپؑ نے اللہ کے حضور دعا کی:

رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ --- ’’پروردگار مجھے ایک صالح فرزند عطا فرما‘‘ ‎ ﴿١٠٠﴾ سورة الصافات

واضح رہے، صالح ہونا بندگی کے مقامات میں سے بہت اونچا مقام ہے، جس کی ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے لیے بھی دعا کی :

رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ‎--- ’’اے میرے رب مجھے علم و حکمت عطا فرما اور مجھے صالحین کے ساتھ ملحق کردے ‘‘(٨٣) سورة الشعراء

ایک اور موقع پر حضرت زکریا علیہ السلام نے جو دعا کی اس کا ذکر سورة آل عمران میں کچھ اس طرح ہے:

حضرت زکریا اس وقت تک بے اولاد تھے۔ اس نوجوان صالحہ لڑکی یعنی حضرت مریم علیہ السلام کو دیکھ کر فطرتاً ان کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش، اللہ انہیں بھی ایسی ہی نیک اولاد عطا کرے، اور یہ دیکھ کر کہ اللہ کس طرح اپنی قدرت سے اس گوشہ نشین لڑکی کو رزق پہنچا رہا ہے (بے موسم میوہ دیتا ہے جاڑوں میں گرمیوں کے پھل اور گرمی میں جاڑوں کے میوے ان کے پاس رکھے رہتے ہیں)، انہیں یہ امید ہوئی کہ اللہ چاہے، تو اس بڑھاپے میں بانجھ بیوی کی بطن سے بھی ان کو اولاد دے سکتا ہے۔ سو اسی جگہ زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی اور کہا :

رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ ‎ --- ’’پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر تو ہی دعا سننے والا ہے ‘‘(٣٨) سورة آل عمران

اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام کو نبوت کی میراث کی فکر تھی تو دعا میں اس کا بھی ذکر کیا:

وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا ‎(٥) يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا (٦) سورة مريم ‏ ‎

’’ مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے، اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے فضلِ خاص سے ایک وارث عطا کر دے (5) جو میرا وارث بھی ہو اور آلِ یعقوب کی میراث (یعنی نبوت) بھی پائے، اور اے پروردگار، اُس کو ایک پسندیدہ انسان بنا ‘‘۔

اور سورة الأنبياء میں بھی حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کا ذکر آیا ہے:

وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ (٨٩) سورة الأنبياء
’’اور زکریّاؑ کو (یاد کرو)، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ اے پروردگار، مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تُو ہی ہے ‘‘۔

غور کیجيے! ان دعاؤں کا محور صرف اولاد نہیں بلکہ نیک اور صالح اولاد ہے۔ لہذا رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کے بعد سے خاوند اور بیوی دونوں ہی کو دعائیں مانگتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے جو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے۔پھر اللہ تعالیٰ جب اولاد عطا کردے تو ان کے لیے دعائیں کرے اور دینی ماحول میں اسلامی اصولوں کے مطابق ان کی تربیت کرے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:

وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۔۔۔ ’’اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو‘‘(١٣٢) سورة طه

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو۔ (سنن ابي داود: 495)

اور عمرو بن سعید بن عاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسن ادب سے بہتر کسی باپ نے اپنے بیٹے کو تحفہ نہیں دیا۔ (سنن ترمذي: 1952)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے والدین کے فرائض میں اولاد کی تعلیم وتربیت کی اہم ذمہ داری رکھی ہے، جو والدین اس ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرتے ہیں ان کے بچے دنیا کی زندگی میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنتے ہیں اور اچھی تربیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور رسول اللہ ﷺ کے اطاعت گزار ہونے کی بناء پرآخرت میں ان کے لیے اجر و ثواب کا باعث ہوتے ہیں، بچوں کو اچھے کھانا کھلانے اور اچھے کپڑے پہنانے سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ ان کو پہلے مسلمان بنایا جائے، ان کی اس انداز سے تربیت کی جائے کہ وہ دامنِ اسلام کو ہاتھ سے چھوڑنے کے بجائے مر جانا پسند کریں۔ جس طرح اولاد کی دنیاوی تعلیم اور دیگر ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے اس سے کہیں زیادہ ان کی آخرت کی فکر کی جائے اور ان کو جہنم سے بچا کر جنت کا وارث بنانے کی کوشش کی جائے۔

جو لوگ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ان کے بچے ہی دنیا میں ماں باپ کے بڑھاپے کا سہارا اور آخرت کا سرمایہ بنتے ہیں۔ ایسے والدین کی زندگی اور بڑھاپا خوشگوار گزرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھیں کہ اولاد کی تعلیم و تربیت میں غفلت اور کوتاہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک پکڑ کا سبب بنے گی۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے تنبیہ فرمائی ہے کہ تم میں سے ہرشخص راعی (نگہبان) ہے اور ہر شخص سے قیامت کے دن اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (سنن ابی داود: 2928)

یعنی ہر شخص اپنے بیوی بچوں کا راعی (نگہبان) ہے اور ہر شخص سے قیامت کے دن اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

جب اللہ تعالیٰ کسی کو نیک بیوی، صالح اولاد، سر چھپانے کو مکان اور رزق عطا کر دیتا ہے تو اس کی دنیا مکمل ہوجاتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ چالیس سال کی عمر کے قریب یہ ساری نعمتیں عطا کر دیتا ہے۔ اس عمر کو پہنچ کر لوگوں کی اکثریت میں پختگی آجاتی ہے اور وہ دنیا میں اسٹیبلش بھی ہوجاتے ہیں، پھر اس عمر کے ساتھ ہی بڑھاپا بھی شروع ہو جاتا ہے تو اب انہیں اللہ تعالیٰ کی ان تمام نعمتوں کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے بہت محنت کرنی چاہیے اور ساتھ ہی اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی دعائیں کرناچاہیے:

رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (١٥) سورة الأحقاف
’’اے میرے رب: مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی ہیں اور یہ کہ میں ایسے نیک اعمال کروں جن سے تو راضی ہو اور میرے لیے میری اولاد میں نیکی اور خیر رکھ دے۔ بیشک میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں یقیناً فرمانبرداروں میں سے ہوں ‘‘۔

رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ‎(٤٠) رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ‎۔۔ (٤١) سورة ابراهيم
’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لے۔ پروردگار! مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اُس دن معاف کر دیجیو جبکہ حساب قائم ہوگا‘‘۔

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (٧٤) سورة الفرقان
’’اے ہمارے رب! ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں صاحبان تقویٰ کا پیشوا بنا دے ‘‘

لہذا بڑھاپے کو بابرکت و باسعات بنانے کے لیے مندرجہ بالا دعائیں کرنا اور اپنے آپ کو، اپنے والدین، اپنے ازواج، اپنی ذریت اور تمام مسلمانوں کو ان دعاؤں میں شامل کرنا ضروری ہے۔

’’اور ساتھ ہی اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرتے رہیے تاکہ آپ پر رحمت کی جائے۔ اور تیزی سے دوڑیے اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس کے بہشت کی طرف جس کی چوڑائی تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔ اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو اور وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کر دے گا اور ایسے باغوں میں انہیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے کیسا اچھا بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کے لیے ‘‘ (۱۳۲-۱۳۶) سورة آل عمران
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے لوگوں میں شامل فرمائے، آمین ۔ (ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتاب حاصل کرسکتے ہیں۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
بابرکت و باسعادت لمبی عمر

حجت اور عذر ختم کرنے والی عمر
ساٹھ سال کی عمر لمبی عمر ہے۔ جو ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ گیا وہ لمبی عمر پا گیا۔حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہوں گی اور تھوڑے ہی لوگ ایسے ہوں گے جو اس حد کو پار کریں گے۔ (ترمذی: 3550، ابن ماجہ: 4236)

اور سیدنا انس بن مالک ﷛ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کے کم ہی لوگ ستر (برس کی عمر) تک پہنچیں گے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 1517)

اپنے رب کو پہچاننے کے لیے، اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے، دین اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ساٹھ سال ایک طویل عرصہ ہے۔ اس لیے جو لوگ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان بندوں کے عذر، حجت اور بہانے کو ختم کر دیتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے لیے عذر کا کوئی موقع باقی نہیں رکھا جس کو ساٹھ برس تک (دنیا میں) مہلت دی‘‘ ۔ (صحيح البخاري:6419)

اس حدیث میں اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے خلاف حجت رکھتا ہے اور یہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عقل دی، انہیں سمجھ عطا کی، ان میں اپنے رسول بھیجے اور اپنا کلام ہدایت نازل کیا اور اپنے رسول ﷺ کی سنت کو محفوظ کیا جو ہمیشہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے حجت کی دلیل دیتے ہوئے قرآن مجید میں فرمایا ہے:

وَمَن نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۖ أَفَلَا يَعْقِلُونَ ‎(٦٨) سورة يس
’’جس شخص کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو ہم الٹ ہی دیتے ہیں، کیا (یہ حالات دیکھ کر) انہیں عقل نہیں آتی؟‘‘

اب جس شخص کو اللہ تعالیٰ ساٹھ سال تک کی لمبی عمر عطا کر دیتا ہے اور اتنے طویل زمانہ تک اس کو مہلت دے دیتا ہے، اس کے باوجود وہ اپنے خالق حقیقی کو نہیں پہچان پاتا اور رب کریم کی طرف رجوع نہیں کرتا، توبہ کرکے گناہوں سے باز نہیں آتا تو اب اس کے لیے عذر خواہی کا وہ کون سا موقع رہ گیا ہے جس کے سہارے وہ قیامت کے دن اپنے رب سے عفو و بخشش کی امید رکھتا ہے۔

اگر کوئی جوان شخص گناہ و معصیت اور بے عملی کی راہ اختیار کیے ہوئے ہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ جب بڑھاپا آئے گا تو اپنی بدعملیوں اور اپنے گناہوں سے توبہ کر لوں گا اور اپنی زندگی کے اس حصہ کو اللہ کی رضا جوئی اور اس کی عبادت میں صرف کروں گا، لیکن جو شخص بڑھاپے کی منزل میں پہنچ چکا ہے اس کے ہاتھ سے توبہ وانابت اور نیک عمل کرنے کا آخری موقع بھی نکلا جا رہا ہے تو وہ اپنی بے عملی اور گناہوں پر کل اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دے گا؟

ہائے! کتنے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو عمر کے آخری منزل پر پہنچ کر بھی گناہ و معصیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس بڑھاپے میں بھی جب کہ موت ان کے سر پر کھڑی ہے، انہیں گناہ و معصیت کی زندگی سے توبہ کرکے اپنے رحیم و کریم پروردگار کا دامن عفو و کرم پکڑ لینے کی توفیق نہیں ہوتی۔ پھر جب اسی حالت میں موت انہیں آ دبوچے گی اور یہ لوگ جہنم میں جا گریں گے تو اللہ تعالیٰ کے حضور معذرتیں پیش کریں گے، وہاں کہا جائے گا کہ ’’اے کفر اختیار کرنے والو! آج معذرتیں پیش نہ کرو، تمہیں تو ویسا ہی بدلہ دیا جا رہا ہے جیسے تم عمل کر رہے تھے‘‘۔ (٧) سورة التحريم

پھر جب لمبی عمر پانے والے کفار کا جہنم کے درد ناک عذاب جھیلنے کے سوا اور کچھ نہ بن پڑے گا: ’’تو وه لوگ اس میں چلائیں گے، چیخ چیخ کر کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو نکال لے ہم اچھے کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے، (اللہ تعالیٰ کہے گا) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وه سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچا تھا، سو مزه چکھو کہ (ایسے) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں‘‘۔(٣٧) سورة فاطر

یہاں اس آیت میں جو فرمایا: کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وه سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والابھی پہنچا تھا ، اگرچہ یہ خطاب کفار کو ہے مگر سب کو نصیحت کرنا مقصود ہے اس لیے کہ اصل علت غفلت ہے جس میں آج مسلمان بھی پڑے ہوئے ہیں۔

جب انسان بوڑھا ہوجاتا ہے تب اس کے پاس بہت تھوڑا سرمایہ (وقت) باقی رہتا ہے، وہ بھی نہ جانے کب ختم ہوجائے۔ لہذا ہر عمر رسیدہ شخص پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ واجب ہے کہ وہ برابر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں عذر خواہی اور توبہ و استغفار، تسبیح و تہلیل، دعا و درود کی کثرت کرتا رہے اور اس میں قطعاً کوئی کمی و کوتاہی نہ کرے۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَبُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ ‎(٨) سورة التحريم
’’اے ایمان والو! اللہ کے حضور توبہ کرو، سچی توبہ، امید ہے کہ وہ تمہاری برائیاں تم سے دور کر دے گا ‘‘۔

یہاں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مخاطب کیا ہے اور انہیں خالص توبہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ لہذا ایمان والوں کو خالص توبہ ہی کرنا چاہیے۔ بڑھاپے میں خالص توبہ کرنا تو بہت آسان ہے کہ اس عمر میں گناہ کی طرف یوں بھی میلان کم ہوتا ہے پھر گناہ کرنے کے اسباب بھی کم ہوتے ہیں اور زندگی کے ایام بھی ختم ہونے کے قریب ہوتے ہیں۔ لہذا انتظار نہ کرے، ندامت کے آنسو بہائے اور سچی توبہ کرلے کہ ناجانے کب روح حلق میں آ پھنسے، اور توبہ کی قبولیت کا وقت ختم ہوجائے۔

بڑھاپے کی وجہ سے عمر رسیدہ لوگوں کی اکثریت چڑچڑے پن کا شکار رہتی ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے ان کے گھر کا ماحول سازگار نہیں ہوتا جبکہ ریٹائرمنٹ کی وجہ سے گھر میں رہنا بھی ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ چڑچڑے پن سے بچنے اور اپنے گھر کے ماحول کو ساز گار رکھنے کے لیے ایسے لوگوں کا ہمہ وقت عبادت میں مصروف رہنا بہت ضروری ہے۔ جو بزرگ لوگ اپنا زیادہ تر وقت خدمت خلق میں اور مسجدوں میں گزارتے ہیں وہ چڑچڑے پن اور بد مزاجی سے محفوظ رہتے ہیں، ان کے مزاج اور کردار میں شائستگی پائی جاتی ہے اور ان کے اخلاق بھی درست رہتے ہیں، سو اس طرح وہ بابرکت و باسعادت بڑھاپا پالیتے ہیں۔
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتاب مؤلف سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
بڑھاپے کی علامت : سفید بال

سر یا داڑھی میں پہلے سفید بال کا نمودار ہوجانا بڑھاپے کی علامت ہے۔ اس اشارے کے ملتے ہی انسان کو سنبھل جانا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ موت اب قریب آگئی ہے اور الله مالک یوم الدین کے سامنے پیش ہونے کا وقت بس آیا ہی چاہتا ہے۔ لہذا اب اسے عبادات اور توبہ و استغفار کی کثرت کرنی چاہیے، گناہ اور نافرمانی سے دور رہنا چاہیے اور اپنی آخرت کو بچانے کی فکر میں لگ جانا چاہیے۔

پھر جب سفید بالوں کے ساتھ ساتھ ’’ اگر کسی کی عمر ساٹھ سال کو بھی پہنچ جائے تو اس آدمی کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور عذر پیش کرنے کا قطعی کوئی موقع باقی نہیں رہتا‘‘ ۔ (صحيح البخاري:6419)

اب بھی اگر وہ اپنی آخرت کی تیاری نہیں کرتا تو (اسے سوچنا چاہیے کہ) وہ کس بنا پر آخرت کے عذاب الیم سے بچنے کی توقع رکھتا ہے۔ ویسے بھی اگر انسان کے اندر اللہ کا ڈر و خوف ہو تو سر یا داڑھی کا پہلا سفید بال ہی انسان کو لہو و لعب کی مشغولیت اور گناہوں کے ارتکاب سے باز رکھنے کے لیے کافی ہے۔ خَشِیَت اِلٰہی سے انسان کے اندر تواضع و انکساری پیدا ہوتی ہے اور انسان غرور اور نفسانی شہوات میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے۔
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتاب مؤلف سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
سفید بال: مومن کا وقار

دنیا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے لوگوں کے بال سفید نہیں ہوا کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے سفید بال دیکھے، چنانچہ آپ علیہ السلام نے عرض کیا کہ میرے پروردگار ! یہ کیا ہے؟ رب تعالیٰ کا جواب آیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) یہ وقار ہے، یعنی یہ (سفید بال) اس بڑھاپے کی علامت ہے جو علم و دانش میں اضافہ کا باعث اور عز و وقار کا ذریعہ ہے اور اس کی وجہ سے انسان لہو و لعب کی مشغولیت اور گناہوں کے ارتکاب سے باز رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ پروردگار ! یہ تو تیری بڑی نعمت ہے۔ لہٰذا میرے وقار میں اضافہ فرما۔ (الادب المفرد: 1250، مشكوة المصابيح: 4488)
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتاب مؤلف سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
 
شمولیت
اکتوبر 25، 2014
پیغامات
350
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
85
مومن کا نور : سفید بال


لہذا سفید بال بندۂ مومن کے بڑھاپے کی علامت، عز و وقار کا ذریعہ اور اس کا نور ہے، نبی اکرم ﷺ نے مسلمان کو سفید بال اکھاڑنے سے منع فرمایا ہے، چاہے وہ اس کے سر کے بال ہوں یا داڑھی کے ہوں یا جسم کے کسی اور حصے کے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سفید بالوں کو مت اکھاڑو کیونکہ یہ مسلمان کا نور ہے جس مسلمان کے بال حالت اسلام میں سفید ہوتے ہیں اس کے ہر بال پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے اور ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے‘‘ ۔ (مسند احمد : 6675)

سفید بالوں کو بڑھاپے کی نورانیت کا سبب اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ سر یا داڑھی پر سفید بال کے آنے سے بڑھاپا کُھل کر ظاہر ہو جاتا ہے جو کہ بندۂ مومن کی قدر و منزلت، عزت و توقیر، عظمت و وقعت اور تحمل و بردباری میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سوال کے جواب میں سفید بال یعنی بڑھاپے کو وقار سے تعبیر فرمایا ہے۔ وقار دراصل ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو گناہ و فسق اور بے حیائی کی باتوں سے روکتا ہے اور توبہ و طاعات کی طرف مائل کرتا ہے، اس اعتبار سے یہ وصف انسان میں اس نور کو پیدا کرتا ہے جو پل صراط کی تاریکی کو چیرتا ہوا آگے آگے چلے گا، جیسا کہ فرمایا گیا ہے:

يَسْعَىٰ نُورُهُم بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِم ﴿١٢﴾‏ سورة الحديد
’’اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا‘‘

لہٰذا اس توجیہ کی روشنی میں بڑھاپے کے نور سے قیامت کے دن کا نور بھی مراد ہے۔ (و اللہ اعلم)
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتاب مؤلف سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
۔
 
Top