بڑھاپے کا سہارا اور آخرت کا سرمایہ
شادی سے انسان کا نصف دین مکمل ہوتا ہے۔ سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب انسان شادی کرلیتا ہے تو اس کے دین کا آدھا حصہ مکمل ہوجاتا ہے، اب اسے چاہیے کہ بقیہ حصہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ترقیم البانی: 625)
یعنی جب ایک بندۂ مومن شادی کر لیتا ہے تب وہ حرام کاری (زنا) سے بچ جاتا ہے اب اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور حرام خوری و دیگر گناہوں سے بھی بچنا چاہیے۔ جو لوگ حرام کی کمائی و دیگر گناہوں سے بچتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں ان کا بڑھاپا بابرکت و باسعادت ہوتا ہے۔
اور جو لوگ حرام کی کمائی سے اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں، ان کے بچے فرمانبردار نہیں ہوتے۔ حرام مال سے پلے ہوئے لوگ ہی بے وفا، بے غیرت، بدچلن اور آوارہ ہوتے ہیں کیونکہ حرام کی کمائی اگرچہ اس دنیا میں شکلیں نہیں بگاڑتی لیکن نسلیں ضرور بگاڑ دیتی ہے اور آخرت میں جہنم کا ایندھن بنا کر یہ شکلیں بھی بگاڑ دے گی، جیسا کہ فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ﴿٦﴾سورة التحريم
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم
کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں ‘‘۔
ایک مرد کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچائے۔ جو شخص اپنی آخرت کی فکر کرتا ہے جب اسے دیندار بیوی مل جاتی ہے تو اس کے لیے یہ ذمہ داری نبھانا آسان ہوجاتا ہے کیونکہ نیک و صالحہ بیوی نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں اپنے شوہر کی مدد گار ہوتی ہے اور گناہ کے کاموں سے اسے روکتی ہے جس سے انسانی معاشرتی زندگی میں خوشگواری آتی ہے اور ان کی گود میں جو نسل پروان چڑھتی ہےوہ بھی صالح اور دیندار ہوتی ہے۔
اولاد کی خواہش ایک فطری تقاضا ہے اور یہ انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے ۔مناسب دیندار رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کے بعد نیک و صالح اولاد کی تمنا کرنا اور ان کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا پیغمبروں کا شیوہ رہا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد دعائیں ایسی آئی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں نے نیک اولاد کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ سے مانگی ہیں۔ ان میں سے چند دعائیں درج ذیل ہیں:
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم سے مایوس ہوئے اور صرف ایک بیوی اور ایک بھتیجے ( حضرت لوط علیہ السلام ) کو لے کر ملک شام پہنچے تو اس وقت فطرتاً آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کوئی صالح اولاد عطا فرمائے جو اس غریب الوطنی میں میری مونس و غم خوار اور مددگار ہو ، لہذا آپؑ نے اللہ کے حضور دعا کی:
رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ --- ’’پروردگار مجھے ایک صالح فرزند عطا فرما‘‘ ﴿١٠٠﴾ سورة الصافات
واضح رہے، صالح ہونا بندگی کے مقامات میں سے بہت اونچا مقام ہے، جس کی ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے لیے بھی دعا کی :
رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ --- ’’اے میرے رب مجھے علم و حکمت عطا فرما اور مجھے صالحین کے ساتھ ملحق کردے ‘‘(٨٣) سورة الشعراء
ایک اور موقع پر حضرت زکریا علیہ السلام نے جو دعا کی اس کا ذکر سورة آل عمران میں کچھ اس طرح ہے:
حضرت زکریا اس وقت تک بے اولاد تھے۔ اس نوجوان صالحہ لڑکی یعنی حضرت مریم علیہ السلام کو دیکھ کر فطرتاً ان کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش، اللہ انہیں بھی ایسی ہی نیک اولاد عطا کرے، اور یہ دیکھ کر کہ اللہ کس طرح اپنی قدرت سے اس گوشہ نشین لڑکی کو رزق پہنچا رہا ہے (بے موسم میوہ دیتا ہے جاڑوں میں گرمیوں کے پھل اور گرمی میں جاڑوں کے میوے ان کے پاس رکھے رہتے ہیں)، انہیں یہ امید ہوئی کہ اللہ چاہے، تو اس بڑھاپے میں بانجھ بیوی کی بطن سے بھی ان کو اولاد دے سکتا ہے۔ سو اسی جگہ زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی اور کہا :
رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ --- ’’پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر تو ہی دعا سننے والا ہے ‘‘(٣٨) سورة آل عمران
اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام کو نبوت کی میراث کی فکر تھی تو دعا میں اس کا بھی ذکر کیا:
وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا (٥) يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا (٦) سورة مريم
’’ مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی برائیوں کا خوف ہے، اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے فضلِ خاص سے ایک وارث عطا کر دے (5) جو میرا وارث بھی ہو اور آلِ یعقوب کی میراث (یعنی نبوت) بھی پائے، اور اے پروردگار، اُس کو ایک پسندیدہ انسان بنا ‘‘۔
اور سورة الأنبياء میں بھی حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کا ذکر آیا ہے:
وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ (٨٩) سورة الأنبياء
’’اور زکریّاؑ کو (یاد کرو)، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ اے پروردگار، مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تُو ہی ہے ‘‘۔
غور کیجيے! ان دعاؤں کا محور صرف اولاد نہیں بلکہ نیک اور صالح اولاد ہے۔ لہذا رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کے بعد سے خاوند اور بیوی دونوں ہی کو دعائیں مانگتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں نیک اور صالح اولاد عطا فرمائے جو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے۔پھر اللہ تعالیٰ جب اولاد عطا کردے تو ان کے لیے دعائیں کرے اور دینی ماحول میں اسلامی اصولوں کے مطابق ان کی تربیت کرے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے:
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۔۔۔ ’’اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو‘‘(١٣٢) سورة طه
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو۔ (سنن ابي داود: 495)
اور عمرو بن سعید بن عاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسن ادب سے بہتر کسی باپ نے اپنے بیٹے کو تحفہ نہیں دیا۔ (سنن ترمذي: 1952)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے والدین کے فرائض میں اولاد کی تعلیم وتربیت کی اہم ذمہ داری رکھی ہے، جو والدین اس ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرتے ہیں ان کے بچے دنیا کی زندگی میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنتے ہیں اور اچھی تربیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور رسول اللہ ﷺ کے اطاعت گزار ہونے کی بناء پرآخرت میں ان کے لیے اجر و ثواب کا باعث ہوتے ہیں، بچوں کو اچھے کھانا کھلانے اور اچھے کپڑے پہنانے سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ ان کو پہلے مسلمان بنایا جائے، ان کی اس انداز سے تربیت کی جائے کہ وہ دامنِ اسلام کو ہاتھ سے چھوڑنے کے بجائے مر جانا پسند کریں۔ جس طرح اولاد کی دنیاوی تعلیم اور دیگر ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے اس سے کہیں زیادہ ان کی آخرت کی فکر کی جائے اور ان کو جہنم سے بچا کر جنت کا وارث بنانے کی کوشش کی جائے۔
جو لوگ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ان کے بچے ہی دنیا میں ماں باپ کے بڑھاپے کا سہارا اور آخرت کا سرمایہ بنتے ہیں۔ ایسے والدین کی زندگی اور بڑھاپا خوشگوار گزرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھیں کہ اولاد کی تعلیم و تربیت میں غفلت اور کوتاہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک پکڑ کا سبب بنے گی۔ کیونکہ
رسول اللہ ﷺ نے تنبیہ فرمائی ہے کہ تم میں سے ہرشخص راعی (نگہبان) ہے اور ہر شخص سے قیامت کے دن اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ (سنن ابی داود: 2928)
یعنی ہر شخص اپنے بیوی بچوں کا راعی (نگہبان) ہے اور ہر شخص سے قیامت کے دن اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
جب اللہ تعالیٰ کسی کو نیک بیوی، صالح اولاد، سر چھپانے کو مکان اور رزق عطا کر دیتا ہے تو اس کی دنیا مکمل ہوجاتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ چالیس سال کی عمر کے قریب یہ ساری نعمتیں عطا کر دیتا ہے۔ اس عمر کو پہنچ کر لوگوں کی اکثریت میں پختگی آجاتی ہے اور وہ دنیا میں اسٹیبلش بھی ہوجاتے ہیں، پھر اس عمر کے ساتھ ہی بڑھاپا بھی شروع ہو جاتا ہے تو اب انہیں اللہ تعالیٰ کی ان تمام نعمتوں کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنی آخرت کو سنوارنے کے لیے بہت محنت کرنی چاہیے اور ساتھ ہی اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی دعائیں کرناچاہیے:
رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (١٥) سورة الأحقاف
’’اے میرے رب: مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی ہیں اور یہ کہ میں ایسے نیک اعمال کروں جن سے تو راضی ہو اور میرے لیے میری اولاد میں نیکی اور خیر رکھ دے۔ بیشک میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور میں یقیناً فرمانبرداروں میں سے ہوں ‘‘۔
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ (٤٠) رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ۔۔ (٤١) سورة ابراهيم
’’اے میرے رب! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم رکھنے والا بنا دے، اے ہمارے رب! اور تو میری دعا قبول فرما لے۔ پروردگار! مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اُس دن معاف کر دیجیو جبکہ حساب قائم ہوگا‘‘۔
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (٧٤) سورة الفرقان
’’اے ہمارے رب! ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں صاحبان تقویٰ کا پیشوا بنا دے ‘‘
لہذا بڑھاپے کو بابرکت و باسعات بنانے کے لیے مندرجہ بالا دعائیں کرنا اور اپنے آپ کو، اپنے والدین، اپنے ازواج، اپنی ذریت اور تمام مسلمانوں کو ان دعاؤں میں شامل کرنا ضروری ہے۔
’’اور ساتھ ہی اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرتے رہیے تاکہ آپ پر رحمت کی جائے۔ اور تیزی سے دوڑیے اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس کے بہشت کی طرف جس کی چوڑائی تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔ اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو اور وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کر دے گا اور ایسے باغوں میں انہیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے کیسا اچھا بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کے لیے ‘‘ (۱۳۲-۱۳۶) سورة آل عمران
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے لوگوں میں شامل فرمائے، آمین ۔ (ماخوذ: کتاب
بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتاب حاصل کرسکتے ہیں۔
۔