محمد اجمل خان
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 25، 2014
- پیغامات
- 350
- ری ایکشن اسکور
- 30
- پوائنٹ
- 85
سفید بالوں کو چننا یا خضاب لگانا
سفید بالوں کو چننا مکروہ ہے جبکہ سفید بال پر خضاب لگانا جائز ہے۔ عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: بڑھاپے (بال کی سفیدی) کا رنگ بدلو اور یہود کی مشابہت اختیار نہ کرو۔ (سنن نسائي: 5076)
اور آپ ﷺ نے یہ حکم فرمایا: دونوں (داڑھی اور سر) کے بالوں کا رنگ بدل دو اور سیاہ رنگ سے اجتناب کرو۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ، ترقیم البانی: 496)
لہذا سیاہ رنگ سے اجتناب کرتے ہوئے داڑھی اور سر کے بالوں کا رنگ بدلنے کے لیے مہندی اور کتم بہتر ہے۔ جیسا کہ رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ: سب سے بہتر چیز جس سے تم بڑھاپے کا رنگ بدلو مہندی اور کتم (نیل) سے۔ (سنن ابي داود: 4205)
سیدنا ثابت سے روایت ہے، حضرت انس سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے خضاب کیا تھا؟ انہوں نے کہا: اگر میں چاہتا تو آپ ﷺ کے سر کے سفید بال گن لیتا، آپ ﷺ نے خضاب نہیں کیا، البتہ ابوبکر نے خضاب کیا مہندی اور نیل سے، اور عمر نے خضاب کیا صرف مہندی سے۔ (صحيح مسلم: 2341)
سیدنا عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سفید ہونے والے بال تقریباً بیس تھے۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ، ترقیم البانی: 2096)
اگرچہ نبی کریم ﷺ کو بالوں کو رنگنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ آپ ﷺ کے بہت کم (تقریباً بیس) بال سفید ہوئے تھے لیکن آپ ﷺ نے داڑھی اور سر کے بال اگر سفید ہو جائیں تو ان کو رنگنے کا حکم دیا ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس پر عمل بھی کروایا تھا۔
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں یہود خضاب کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا ان کی مخالفت میں اسے استعمال کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سلف میں اس کا استعمال کثرت سے پایا گیا۔ چنانچہ اسلاف کی سوانح لکھنے والوں میں سے بعض سوانح نگاروں نے اس کی بھی تصریح کی ہے کہ فلاں خضاب کا استعمال کرتے تھے اور فلاں نہیں کرتے تھے، فلاں مہندی سے کرتے تھے تو فلاں کتم سے کرتے تھے۔
فی زمانہ (سیاہ رنگ کے علاوہ) جو بھی جدید ہیئر کلر یا خضاب دستیاب ہے عمر کے اعتبار سے جو مناسب ہو اس کا استعمال کرنا جائز ہے لیکن خضاب کرکے کسی کو دھوکہ دینا مقصود نہ ہو، مثلاً بعض مردوں کا سیاہ خضاب کرکے عمر چھپا کر شادی کرنا وغیرہ۔
سیاہ خضاب کرنا یوں بھی جائز نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: ’’آخر زمانے میں ایسے لوگ آئیں گے جو کبوتر کے پپوٹوں کی طرح سیاہ خضاب لگائیں گے وہ جنت کی بو تک نہ پائیں گے‘‘۔ ( النسائی : 5078)
خلاصہ کلام یہ کہ ’’سفید بال مسلمان کے چہرے کا نور ہے‘‘۔ (سلسلہ احاديث صحيحہ ، ترقیم البانی: 1244)
لہذا کوئی نادان ہی اس نور کو ضائع کرنے یعنی اکھاڑ پھینکنے کا سوچے گا یا اس نور پر کالا سیاہ خضاب لگا کر اس کی روشنی کو ختم کرے گا یا اس نور کے چہرے پر ہوتے ہوئے گناہوں میں ملوث ہوگا۔ لیکن افسوس کہ آج کتنے بدنصیب بوڑھے ہیں جو سر اور چہرے پر سفید بالوں کے ہوتے ہوئے بھی انتہائی گھناؤنی برائیوں میں ملوث ہیں۔ کاش! ایسے لوگ جانتے کہ بڑھاپے میں گناہ کرنا جوانی کے گناہ سے زیادہ مہلک ہے کیونکہ بڑھاپے کی طویل عمر کے مشاہدات و تجربات کی بنا پر انسان اچھائی و برائی کو مکمل طور پر سمجھ جاتا ہے اور اس عمر میں گناہوں پر ابھارنے والے جذبات بھی سرد پڑجاتے ہیں، پھر بھی اگر کوئی گناہوں میں ملوث ہو تو ان گناہوں پر عذاب کی شدت بھی زیادہ ہوگی۔ جیسا کہ ’’ بوڑھا ہونے کے باوجود اگر کوئی زنا کرے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ اس سے بات کریں گے اور نہ ہی اس کو گناہوں سے پاک کریں گے نہ ہی اس کی طرف نظر رحمت سے دیکھیں گے اور اس کو درد ناک عذاب ہوگا‘‘۔ (مختصر صحيح مسلم: 1787)
بعض لوگ ایک موضوع اور من گھڑت قول کہ «اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سفید داڑھی والوں کو عذاب دیتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے» کو حدیث سمجھتے ہیں اور اکثر اپنی تحریر وں اور تقریروں میں اس من گھڑت قول کو پیش کرکے سفید ریش بوڑھوں کو خوش کرتے ہیں، تو واضح ہو کہ اس طرح کے اقوال کا محدثین نے انکار کیا ہے اور ان کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔ لہذا اس طرح کی من گھڑت باتوں سے خوش ہونے کی بجائے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے گناہ و معصیت پر نظر رکھیں، اپنے رب سے مغفرت اور بخشش طلب کرتے رہیں اور زندگی کے جو ایام باقی بچے ہیں اس میں ہر طرح کے گناہ و فسق اور بے حیائی کی باتوں سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں بقیہ زندگی بسر کریں، زیادہ سے زیادہ عبادات کرکے اپنے رب کو راضی کریں اور اپنے بڑھاپے کے نور کو بچانے اور بڑھانے کی فکر کریں تب ہی یہ بڑھاپا بابرکت و باسعادت ہوگا اور آخرت میں ’’ اُن کا (یہ) نور اُن کے آگے اور اُن کے دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا‘‘۔ (12) سورة الحديد
(ان شاء اللہ)
(ماخوذ: کتاب بابرکت و باسعادت بڑھاپا، مؤلف: محمد اجمل خان) ۔پرنٹیڈ کتاب مؤلف سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
۔