میرا موقف
صحیح ترین کتاب صرف اور صرف کتاب اللہ ہے۔ کتاب اللہ غلطی سے پاک ہے۔ کتاب اللہ کے سوا ہر کتاب میں غلطی کی گنجائش ہے۔ لیکن امت کا ا
جماع بخاری کی تالیف کے کئی سو سال بعد اس کی
صحت پر ہوا۔ اس لیے میرے نزدیک بخاری کی کثیر روایات صحیح ہیں اور قلیل روایات حسن و
ضعیف وغیرہ ہیں۔
غیر مقلد علماء میں
فیض عالم صدیقی کے حوالے دے چکا ہوں۔ اور البانی صاحب بھی صحیح روایات کو دوسری روایات سے الگ کر چکے ہیں۔
شیعہ حضرات بھی بخاری کو صحیح نہیں مانتے۔
اہل قرآن فرقہ بھی اسکا منکر ہے لہذا یہ خیال کہ بخاری کی تمام احادیث صحیح ہیں ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔
اسکی مثالیں ملاحظہ کرتے ہیں
صحیح بخاری میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن کی روایت میں کوئی متکلم فیہ راوی موجود ہے، جس کی حدیثیں ،محدثین کے اصول پر کسی طرح حسن سے اوپر نہیں اٹھ سکتی‘ بلکہ بعض حدیثوں میں ضعیف راوی منفرد ہے‘ اور اس کو داخل صحیح کرنے کی اس کے علاوہ کوئی تاویل نہیں ہوسکتی کہ اس کا مضمون غیر احکام سے متعلق ہے‘ اور شارحین نے یہی تاویل کی بھی ہے۔ ملاحظہ ہوں چند مثالیں:۱- حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری (ص:۶۱۵) میں محمد بن عبد الرحمن الطُفاوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
”قال ابو زرعة منکر الحدیث‘ واورد لہ ابن عدی عدة احادیث‘ قلت: لہ فی البخاری ثلاثة احادیث‘ لیس فیہا شئ مما استکرہ ابن عدی ․․․ ثالثہا فی الرقاق ”کن فی الدنیا کأنک غریب“ وہذا تفرد بہ الطفاوی‘ وہو من غرائب الصحیح‘ وکان البخاری لم یشدد فیہ، لکونہ من احادیث الترغیب والترہیب“۔
یہ حدیث صحیح بخاری کی غریب حدیثوں میں سے ہے۔
یعنی ”کن فی الدنیا کأنک غریب“ (بخاری کتاب الرقاق) حدیث کی روایت میں محمد بن عبد الرحمن الطفاوی منفرد ہے‘ حافظ فرماتے ہیں: شاید کہ امام بخاری نے اس کے ساتھ تساہل کا معاملہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ یہ ترغیب وترہیب کی حدیثوں میں سے ہے۔
۲- عن ابی بن عباس بن سہل بن سعد‘ عن ابیہ عن جدہ قال: کان للنبی ا فی حائطنا فرس یقال لہ اللحیف“
(کتاب الجہاد باب اسم الفرس والحمار)
حافظ نے تہذیب التہذیب میں ابی بن عباس بن سہل کی بابت امام احمد، نسائی، ابن معیناور امام بخاری سے تضعیف کے جملے نقل کئے‘ عقیلی نے کہا :اس کی کئی حدیثیں ہیں اور کسی پر اس کی متابعت نہیں کی گئی ہے۔ پھر حافظ نے فرمایا کہ :مذکورہ حدیث پر اس کے بھائی عبد المہیمن بن عباس نے متابعت کی ہے‘ لیکن وہ بھی ضعیف ہے، ملاحظہ ہوں یہ الفاظ:
”وعبد المہیمن ایضاً فیہ ضعف‘ فاعتضد‘ وانضاف الی ذلک انہ لیس من احادیث الاحکام‘ فلہذہ الصورة المجموعة حکم البخاری بصحتہ“ انتہی۔
ابی بن عباس کے ضعف کی تلافی اس کے بھائی سے اس قدر نہیں ہوسکی کہ حدیث کو صحیح کا درجہ دیا جائے تو اس خلل کو اس پہلو سے پر کیا گیا کہ حدیث احکام سے متعلق نہیں ہے‘ اس لئے چل جائے گی۔
۳- محمد بن طلحة‘ عن طلحة‘ عن مصعب بن سعد قال: رای سعد ان لہ فضلاً علی من دونہ‘ فقال النبی ا” تنصرون وترزقون الا بضعفائکم“۔(کتاب الجہاد وباب من استعان بالضعفاء والصالحین فی الحرب)
محمد بن طلحة بن مصرف الکوفی ان کا سماع اپنے والد سے کم سنی میں ہوا تھا، امام نسائی، ابن معین، ابن سعد وغیرہ نے ان کو ضعیف کہاہے ،تقریب میں ہے: صدوق لہ اوہام‘ وانکروا سماعہ من ابیہ لصغرہ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مقدمہ (ص:۶۱۳) میں فرماتے ہیں۔
”صحیح بخاری میں ان کی تین حدیثیں ہیں‘ دو تو متابعت کی وجہ سے درجہ صحت کو پہنچ جاتی ہے‘ تیسری (مذکورہ بالا حدیث) ہے‘ اس کی روایت میں محمد بن طلحہ منفرد ہیں‘ مگر یہ ”فضائل اعمال“ سے متعلق ہے یعنی فضائل اعمال کی حدیث ہونے کی وجہ سے چشم پوشی کی گئی۔“