گڈمسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 10، 2011
- پیغامات
- 1,407
- ری ایکشن اسکور
- 4,912
- پوائنٹ
- 292
جی بھائی عزیز مجھے بھی معلوم ہی ہے کہ پر ہر مسلمان کی بات آپ نہ کریں کیونکہ اجماع کا تعلق علم سے ہے۔اور مسلمانوں میں عامی بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے آپ مسلمان نہیں بلکہ اہل علم کہیں۔اگر اہل علم کا کسی بات پر اجماع ہو جائے تو عامی کی مخالفت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔O bhai ijma musalmanon k ittefaq ko kahte hain.
یعنی صحابہ کرام کے دور میں تو ہوسکتا تھا اب نہیں ہوسکتا۔؟ مالکم کیف تحکمون۔اچھا مجھے آپ یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ماخذ شریعت کتنے ہیں؟ چلو میں ہی بتا دیتا ہوں قرآن، حدیث، اجماع اور قرآن وحدیث سے مستنبط قیاس۔کیا آپ بھی ان ماخذ شریعت کو مانتے ہیں؟ آپ کےجواب کے بعد پھر آپ کوبتاؤں گا کہ آج کےدور میں اجماع ہوسکتا ہے یا نہیں ؟Aisa ijma sahaba ra k dour main mumkin tha.
انا للہ وانا الیہ راجعون۔جھوٹ اور وہ بھی اجماع کانام لے کر۔ عزیز آپ کو اتنا معلوم ہے کہ کسی بات پر اہل فن کا اجماع ہوا لیکن اہل فن میں سے کسی ایک نے اس کی مخالفت کردی تو اجماع اجماع نہیں رہے گا۔اور دوسری بات آپ نے ان دو مسائل پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے پہلے اس دعویٰ کی دلیل پیش کریں۔پھر بعد کی باتیں بعد میں۔ان شاءاللہAur aisa ijma unka 20 rakat taraweeh aur 3 talaq pr huwa hai.
جی الحمدللہ ہم اجماع کے قائل ہیں۔مانتے بھی ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔اللہ کے فضل سے۔پر جن مسائل پر آپ نے اجماع کے ہوجانے کا دعویٰ کیا ہے۔آپ پہلے اس دعویٰ کو بادلائل ثابت کریں۔aap musalmanon k is ijma ko maante hain?
یہ سب کو معلوم ہی ہے کہ کون اجماع کو مانتا ہے اور کون صرف اجماع کا نام لے کر پیٹ کی آگ ٹھنڈی کرتا ہے۔Ijma khud aap k haan 2 kori ki cheez nahi.
اچھا آپ مجھے یہ بتانا پسند فرمائیں گےکہ آپ کی رائے کی کیاحیثیت ہے؟ کیا آپ کے کہنے سے اجماع اجماع نہیں رہے گا۔اور پھر آپ اس بات پر بھی دلیل لائیں کہ صحیحین کی صحت پر محدثین کا اجماع نہیں ہوا۔کیونکہ جس طرح فقہی مسائل میں فقہاء کی بات معتبر ہوتی ہے اسی طرح حدیث میں محدثین کی بات معتبر ہوگی۔آپ محدثین سے یہ ثابت کرکے دکھائیں کہ صحیحین کی صحت پر اجماع نہیں ہے۔Aap mujhe ijma ka sabaq parha rahe hain wo bhi aisi baat main jis pr ijma huwa hi nahi.
مزید ذیل میں پیش عبارت پر بھی غور کرلینا
غلام رسول رضوي بريلوي صاحب فرماتے ہیں :
پیر کرم شاہ بھیروی بریلوی فرماتے ہیں :تمام محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کے بعد صحیح بخاری تمام کتب سے اصحح کتاب ہے۔( تفہیم البخاری شرح صحیح بخاری 5/1 )
بعینہ یہی الفاظ آپ سعیدی صاحب کی کتاب "تذکرۃ المحدثین" کے صفحہ نمبر 324 پر دیکھ سکتے ہیں۔
ملا علی قاری الحنفی کہتے ہیں :جمہور علمائے امت نے گہری فکر و نظر اور بےلاگ نقد و تبصرہ کے بعد اس کتاب کو "اصحح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری" کا عظیم الشان لقب عطا فرمایا ہے۔(سنت خیر الانام ، ص:175 ، طبع:2001ء)
امام شمس الدين السخاوی کی "فتح المغيث شرح ألفية الحديث" کے صفحہ نمبر 34 پر لکھا ہے :پھر (تمام) علماء کا اتفاق ہے کہ صحیحین کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور یہ دونوں کتابیں تمام کتابوں میں صحیح ترین ہیں۔(مرقاۃ المفاتیح ، 58/1)صحیحین کی صحت ، تلقی بالقبول یا قطعیت پر اجماع کا دعویٰ درج ذیل مستند علماء نے بھی کیا ہے :ولفظ الأستاذ أبي إسحاق الإِسفرائيني أهل الصنعة مجمعون على أن الأخبار التي اشتمل عليها الصحيحان مقطوع بصحة أصولها ومتونها، ولا يحصل الخلاف فيها بحال، وإن حصل فذاك اختلاف في طرقها ورواتها
اردو ترجمہ (ارشاد الحق اثری﷾) :
امام ابو اسحاق ابراہیم بن محمد اسفرائينی المتوفی 408ھ ، فرماتے ہیں :
فن حدیث کے ماہرین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ صحیحین کے سبھی اصول و متون قطعاً صحیح ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ، اگر کچھ اختلاف ہے تو وہ احادیث کی سندوں اور راویوں کے اعتبار سے ہے۔علامہ عینی حنفی کی شرح بخاری "عمدۃ القاری" کی جلد اول ، صفحہ نمبر 6 پر لکھا ہے :ابن کثیر (774ھ)
ابن تیمیہ (728ھ)
ابن الصلاح (643ھ)
ابن القیسرانی (507ھ)
تفصیل کے لیے اس کتاب کا مطالعہ کریں "احادیث الصحیحین بین الظن والیقین" - حافظ ثناءاللہ زاہدیامام نسائی فرماتے ہیں :علامہ عینی حنفی کا یہ قول کہ : مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔۔۔۔ اس ہی بات کی دلیل ہے کہ :اتفق علماء الشرق والغرب على أنه ليس بعد كتاب الله تعالى أصح من صحيحي البخاري
مشرق و مغرب کے تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید کے بعد صحیح بخاری سے زیادہ صحیح کوئی کتاب نہیں۔
صحیح بخاری میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں !!
قرآن مجید کو دنیا کی صحیح ترین کتاب کیوں کہا جاتا ہے؟ صرف اس لئے کہ اس کا ایک ایک لفظ حقانیت پر مبنی ہے۔
اگر بخاری میں کوئی ایک مرفوع متصل حدیث ، ضعیف ثابت ہو جاتی تو محدثین کبھی بھی اس کو "اصح الکتاب بعد کتاب اللہ" کا درجہ نہ دیتے !!امام ابوالفلاح فرماتے ہیں :اجتمعت الامة علی صحة ھذین الکتابین(نصرۃ الباری)
بخاری و مسلم کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں :تمام فقہاء نے صحیح بخاری کی ہر سند حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے۔( نصرۃ الباری ، باب شذرات الذہب)علامہ زیلعی حنفی فرماتے ہیں :صحیح بخاری و مسلم میں جتنی مرفوع متصل حدیثیں ہیں ، محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ سب قطعاً صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں۔ جو شخص ان کی اہانت کرے وہ بدعتی ہے اور مومنین کی راہ سے اس کی راہ علیحدہ ہے۔ اور اگر آپ حق کی وضاحت چاہیں تو مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب طحاوی اور مسند خوارزمی سے ان کا مقابلہ کریں تو آپ ان میں اور صحیحین میں بعد المشرقین پائیں گے۔
(حجۃ اللہ بالغہ ، ج:1 ، ص:134)
محدثین کا یہ دعوی ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے۔ امام ابن صلاح رحمہ اللہ لکھتے ہیں:اور حفاظ حدیث کے نزدیک سب سے اعلیٰ درجے کی صحیح حدیث وہ ہے جس کی روایت پر بخاری و مسلم کا اتفاق ہو۔(نصب الرایۃ ، 421/1 )الأستاذ أبو اسحاق الاسفرائینی رحمہ اللہ نے بھی اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ صحیحین کی تمام روایات صحیح ہیں اور ان سے علم قطعی حاصل ہوتا ہے۔امام ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :جمیع ما حکم مسلم بصحتہ من ھذا الکتاب فھو مقطوع بصحتہ و العلم النظری حاصل بصحتہ فی نفس الأمر و ھکذا ما حکم البخاری بصحتہ فی کتابہ و ذلک لأن الأمة تلقت ذلک بالقبول سوی من لا یعتد بخلافہ و وفاقہ فی الاجماع۔(صیانة صحیح مسلم' امام ابن صلاح' ص٨٥'دار الغرب الاسلامی)
وہ تمام احادیث کہ جن کو امام مسلم نے اپنی کتاب میں صحیح کہاہے ان کی صحت قطعی ہے اور ان سے حقیقت میں علم نظری حاصل ہوتا ہے 'اسی طرح کامعاملہ ان احادیث کا بھی ہے کہ جن کو امام بخاری نے اپنی کتاب میں صحیح کہا ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام امت کے نزدیک ان کتابوں کو 'تلقی بالقبول'حاصل ہے سوائے ان افراد کے کہ جن کے اختلاف یا اتفاق سے اس اجماع کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
امام الحرمین 'امام جوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:الأستاذ أبو اسحاق الاسفرائینی فانہ قال:أھل الصنعة مجمعون علی أن الأخبارالتی اشتمل علیھاالصحیحان مقطوع بھا عن صاحب الشرع وان حصل الخلاف فی بعضھا فذلک خلاف فی طرقھا و رواتھا۔(النکت علی کتاب ابن الصلاح' جلد١' ص٣٧٧' المجلس العلمی أحیاء تراث الاسلامی)
استاذ ابو اسحاق اسفرائینی نے کہا:اہل فن کا اس بات پر اتفاق ہے کہ صحیحین میں جو احادیث موجود ہیں وہ قطعیت کے ساتھ اللہ کے رسول (ﷺ) سے ثابت ہیں'اگر ان میں موجود بعض روایات میں اختلاف ہے تو یہ ان احادیث کے طرق اور راویوں کے بارے میں اختلاف ہے۔امام أبو نصر السجزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :لو حلف انسان بطلاق امرأتہ أن مافی کتابی البخاری و مسلم مما حکما بصحتہ من قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما ألزمتہ الطلاق و لا حنثتہ لاجماع المسلمین علی صحتھما۔(المنھاج شرح صحیح مسلم'امام نووی'جلد١' ص١٣٦'دارالمؤیدالریاض)
اگر کوئی شخص یہ قسم اٹھا لے کہ اگر صحیح بخار ی و صحیح مسلم میں کی تمام روایات صحیح نہ ہوں تو اس کی بیوی کو طلاق ہے 'تو ایسی صورت میں اس کی بیوی نہ تو طلاق ہو گی اور نہ وہ شخص حانث ہو گا کیونکہ مسلمانوں کا صحیح بخار ی و صحیح مسلم کی صحت پر اجماع ہے ۔علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ فرماتے ہیں:أجمع أھل العلم الفقہاء و غیرھم أن رجلا لو حلف الطلاق أن جمیع ما فی کتاب البخاری مما روی عن النبی قد صح عنہ و رسول اللہ قالہ لا شک فیہ أنہ لا یحنث و المرأة بحالھا فی حبالتہ۔(مقدمہ ابن الصلاح'حافظ ابن الصلاح' ص٢٦'دار الحدیث بیروت)
تمام اہل علم فقہاء اور ان کے علاوہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص اس بات پر حلف اٹھا لے کہ جو کچھ صحیح بخاری میں اللہ کے رسول سے مروی روایات موجود ہے وہ آپ سے ثابت ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ آپ ہی کے فرامین ہیں' تو ایسا شخص حانث نہ ہو گا اور عورت اس کے عقد میں باقی رہے گی۔امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:و جاء محمد بن اسماعیل البخاری امام المحدثین فی عصرہ فخرج احادیث السنة علی أبوابھا فی مسندہ الصحیح بجمیع الطرق التی للحجازیین و العراقیین و الشامیین و اعتمدوا منھا ما أجمعوا علیہ دون مااختلفوا فیہ... ثم جاء الامام مسلم بن الحجاج القشیری فألف مسندہ الصحیح حذا فی حذو البخاری فی نقل المجمع علیہ (مقدمہ ابن خلدون'ص٤٩٠'دار الجیل'بیروت)
اس کے بعد امام المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری اپنے زمانے میں سامنے آئے انہوں نے اپنی صحیح مسند میں احادیث کو ابواب کی ترتیب پر بیان کیا اور اپنی کتاب میں حجازیوں 'عراقیوں اور شامیوں کے ان طرق سے احادیث کو نقل کیا کہ جن پر ان کا اجماع تھااور جن طرق میں اختلاف تھا ان کو نہ لیا...پھر امام مسلم بن حجاج القشیری آئے انہوں نے صحیح مسند میں امام بخاری کے طریقہ کی پیروی کرتے ہوئے صرف انہی احادیث کو بیان کیا کہ جن کی صحت پر اجماع تھا۔شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے بھی صحیحین کی صحت پر اجماع نقل کیا ہے ۔شاہ صاحب فرماتے ہیں:فقد أجمع أھل ھذا الشأن علی أن أحادیث الصحیحین أو أحدھما کلھا من المعلوم صدقہ بالقبول المجمع علی ثبوتہ وعند ھذہ الاجماعات تندفع کل شبھة و نزول کل تشکیک۔(قطر الولی'ص٢٣٠)
اہل فن کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحیحین یا ان میں سے کسی ایک کی تمام احادیث کا صحیح ہوناامت میں ان کتابوں کے'تلقی بالقبول' سے ثابت ہے اور اس 'تلقی بالقبول ' کے ثابت ہونے پر اجماع ہے ۔اور اس قسم کے اجماعات سے ہر قسم کا شبہ رفع ہو جاتا ہے اور شک دور ہو جاتا ہے۔محدث العصر مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصل المرفوع صحیح بالقطع و أنھما متواتران الی مصنفیھما و أنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین۔(حجة اللہ البالغة' شاہ ولی اللہ محدث دہلوی' جلد١' ص٢٩٧' أصح المطابع کراچی)
جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ جو بھی متصل مرفوع احادیث صحیحین میں وجود ہیں وہ قطعاًصحیح ہیں اور ان دونوں کتابوں کی سند اپنے مصنفین تک متواتر ہے اور جو کوئی بھی ان کتابوں کی قدر و قیمت کم کرنا چاہتا ہے وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔معروف دیوبندی عالم مولانا سرفراز صفدر خاں لکھتے ہیں:أما الصحیحان فقد اتفق المحدثون علی أن جمیع ما فیھما من المتصلالمرفوع صحیح بالقطع و انھما متواتران الی مصنفیھما و أنہ کل من یھون أمرھما فھو مبتدع متبع غیر سبیل المؤمنین۔(مقدمة تحفة الأحوذی'ص٤٧'دار الکتب العلمیة' بیروت)
جہاں تک صحیحین کا معاملہ ہے تو محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ان دونوں کتابوں میں جو بھی متصل مرفوع احادیث موجود ہیں وہ قطعی طور پر صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین تک متواتر ہیں اور جو کوئی بھی ان دونوں کتابوں کا درجہ کم کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ بدعتی ہے اور اہل ایمان کے رستے پر نہیں ہے۔پس معلوم ہوا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی جمیع روایات کی صحت پر أئمہ محدثین کا اتفاق ہے اور یہ اتفاق ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی اجتہادی مسئلے میں فقہاء کا اتفاق ہوتا ہے ۔یہ بات واضح رہے کہ کسی حدیث کی تصحیح یا تضعیف میں محدثین کا اجماع معتبر ہو گا اور اس میں کسی فقیہ کی مخالفت سے اجماع کا دعوی متأثر نہ ہوگا جس طرح کے کسی فقہی مسئلے میں أصل اعتبار فقہاء کے اتفاق کا ہو گا اور کسی محدث کے اختلاف سے اجماع ختم نہیں ہو گاکیونکہ ہر فن میں اہل فن کا ہی اتفاق و اجماع معتبر ہو تا ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس بارے مقدمہ اصول تفسیر میں بحث کی ہے۔بخاری و مسلم کی جملہ روایات کے صحیح ہونے پرامت کا اجماع و اتفاق ہے۔اگر صحیحین کی 'معنعن'حدیثیں صحیح نہیں تو امت کا اتفاق اوراجماع کس چیز پرواقع ہواہے جبکہ راوی بھی سب ثقہ ہیں۔(أحسن الکلام'مولانا محمد سرفرازصفدر خان 'جلد١'ص٢٤٩'طبع سوم اکتوبر ١٩٨٤)
بہت مضحکہ خیز بات۔غور کرنا کہ کس طرح مضحکہ خیز ہے امید ہے سمجھ آجائے گی۔اگرنہ آئے تو سمجھا دی جائے گی۔Musalmanon k bahut se firqe bukhari ko koi hasiyat hi nahi dete.
تقلید کے بارے میں اوپر والا قول سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات۔محترم کو تو تقلید کی تعریف کا ہی نہیں پتہ۔عزیز بھائی کو تقلید کی تعریف کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔Taajub hai jo khud har waqt muzamat e taqleed ki rat lagate rahte hain wo chand ulma k aqwal ki aisi andhi taqleed k qail hain