بھائی جان خلاف سنت کی اگر بات ہے تو بدعتی جو بدعت کرتا ہے وہ کون سی سنت کے مطابق ہوتی ہے ؟ اختلافی مسائل میں وہ دلائل تو رکھتا ہی ہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس کے دلائل کس درجہ کے ہیں۔ لیکن بدعت تو دین میں ایک نیا کام ہوتا ہے۔ جس کا دین میں تو کوئی ثبوت ہی نہیں ہوتا۔اور پھر اس کی بدعت اسی پر ہی ہوتی ہے۔
تو اس لیے ان مسائل کو ایشو نہ بنایا جائے۔اسی میں ہی بھلائی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا
اس سلسلے میں دلائل دیے جاتے ہیں کہ صحابہ نے خوارج کے پیچھے نماز پڑھی
ابن تيمية في “منهاج السنة” 5/247 میں لکھتے ہیں
ومما يدل أن الصحابة لم يُكَفروا الخوارج أنهم كانوا يصلون خلفهم، وكان عبد الله بن عمر رضي الله عنه وغيره من الصحابة يصلون خلف نجدة الحروري، وكانوا أيضاً يحدثونهم ويفتونهم ويخاطبونهم كما يخاطب المسلمُ المسلمَ، كما كان عبد الله بن عباس يجيب نجدة الحروري لما أرسل يسأله عن مسائل، وحديثه في البخاري ، وكما أجاب نافع بن الأزرق عن مسائل مشهورة، وكان نافع يناظره في أشياء بالقرآن كما يتناظر المسلمان.
اور جو اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ نے خوارج کی تکفیر نہیں کی وہ یہ ہے کہ انہوں نے ان کے پیچھے نماز پڑھی اور ابن عمر رضی الله عنہ اور دیگر اصحاب رسول نے نجدة بن عامر الحروري کے پیچھے نماز پڑھی اور وہ اس سے بات کرتے اس کو فتویٰ بھی دیتے اور اس سے ایسے مخاطب ہوتے جسے کہ ایک مسلم ، مسلم سے ہوتا ہے جیسا کہ عبد الله ابن عبّاس نے نجدة الحروري کو جواب دیا جب اس نے مسئلہ لکھ بھیجا اور حدیث بخاری میں ہے اور جیسا نافع بن الأزرق نے مسائل مشہورہ پر جواب دیا
مسلم باب بَابُ
النِّسَاءِ الْغَازِيَاتِ يُرْضَخُ لَهُنَّ وَلَا يُسْهَمُ، وَالنَّهْيِ عَنْ قَتْلِ صِبْيَانِ أَهْلِ الْحَرْبِ میں یہ روایت موجود ہے
ابی داود کی روایت ہے جس کو البانی صحیح کہتے ہیں
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ، أَنَّ نَجْدَةَ الْحَرُورِيَّ، حِينَ حَجَّ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، يَسْأَلُهُ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى
نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ الْحَرُورِيَّ رَئِيس الْخَوَارِج نے فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ کے دور میں حج کیا اور ابن عبّاس رضی الله عنہ سے سوال و جواب بھی کیے
کتاب أصول السنة، ومعه رياض الجنة بتخريج أصول السنة از ابن أبي زَمَنِين المالكي (المتوفى: 399هـ) کی روایت ہے
أَسَدٌ قَالَ حَدَّثَنِي اَلرَّبِيعُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ سَوَّارَ بْنِ شَبِيبٍ قَالَ
حج نجدة الحروري في أصحابه فوادع ابن الزبير، فصلى هذا بالناس يوماً وليلة، وهذا بالناس يوماً وليلة، فصلى ابن عمر خلفهما فاعترضه رجل، فقال: يا أبا عبد الرحمن أتصلي خلف نجدة الحروري؟ فقال ابن عمر: (إذا نادوا حي على خير العمل أجبنا، وإذا نادوا إلى قتل نفس قلنا: لا، ورفع بها صوته
سوار بن شبيب کہتے ہیں کہ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ الحروري (خوارج) کو ابن زبیر نے مدعو کیا اور ان لوگوں نے دن و رات نماز پڑھی پس ابن عمر نے بھی ان کے پیچھے نماز پڑھی پس ایک آدمی نے اعتراض کیا کہ اے ابو عبد الرحمن آپ نجدہ حروري کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ؟ پس ابن عمر نے کہا پس جب حي على خير العمل کی ندا اتی ہے تو ہم جواب دیتے ہیں اور جب یہ قتل نفس کی ندا کرتے ہیں تو ہم اپنی آواز بلند کرتے ہیں اور کہتے ہیں نہیں
اس کی سند میں اسد بْنُ مُوسَى ہے جن سے بخاری نے استشہاد کیا ہے الذہبی میزان میں لکھتے ہیں
ابن حزم ذكره في كتاب الصيد فقال: منكر الحديث. ابن حزم نے ان کو منکر الحدیث کہا ہے
دوم اس کی سند میں اَلرَّبِيعُ بْنُ زَيْدٍ ہے جن کو بعض لوگوں نے ربيعة بن زياد کہہ دیا ہے جبکہ ربيعة بن زياد صحابی ہیں – حق یہ ہے کہ اَلرَّبِيعُ بْنُ زَيْدٍ مجھول ہے
کتاب أصول السنة، ومعه رياض الجنة بتخريج أصول السنة از ابن أبي زَمَنِين المالكي (المتوفى: 399هـ) کی روایت ہے
اِبْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ اَلْحَكَمِ بْنِ عَطِيَّةَ قَالَ: سَأَلْتُ اَلْحَسَنَ فَقُلْتُ رَجُلٌ مِنْ اَلْخَوَارِجِ يَؤُمُّنَا أَنُصَلِّي خَلْفَهُ? قَالَ: نَعَمْ، قَدْ أَمَّ اَلنَّاسَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مِنْهُ.
ابن مہدی ، اَلْحَكَمِ بْنِ عَطِيَّةَ سے روایت کرتے کرتے ہیں کہ حسن بصری سے سوال کیا کہ خوارج میں سے ایک شخص نے کے پیچھے نماز پڑھ لیتے ہیں کہا ہاں
اس کی سند میں الحكم بْن عطية العيشي البصري ہیں جو ضعیف ہیں – الذھبی، میزان میں کہتے ہیں وضعفه أبو الوليد، وقال النسائي: ليس بالقوي. وقال أبو حاتم: يكتب حديثه، ولا يحتج به.
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے کہ تابعین کذاب مختار کے پیچھے نماز پڑھتے تھے
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: «كَانَ أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ يُصَلُّونَ مَعَ الْمُخْتَارِ الْجُمُعَةَ، وَيَحْتَسِبُونَ بِهَا
عبد الله ابن مسعود کے اصحاب مختار کے ساتھ جمعہ پڑھتے تھے اور (ایک دوسرے کو) گنتے تھے
سُفْيَانَ الثوری مدلس عن سے روایت کر رہے ہیں لہذا روایت مظبوط نہیں- دوم اصحاب عبد الله تمام اہل سنت میں سے نہ تھے ان سے بعض داعی شیعہ بھی تھے اور ان کا مختار غالی کے پیچھے نماز پڑھنا چندہ بعید نہیں
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ہے
حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُقْبَةَ الْأَسَدِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، «أَنَّ أَبَا وَائِلٍ جَمَعَ مَعَ الْمُخْتَارِ
يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ کہتے ہیں کہ ابو وَائِلٍ، مختار کے ساتھ (نماز میں؟) جمع ہوئے
سند میں يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ ہے جو مجھول ہے
وہ روایات جن سے یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ صحابہ خوارج کے پیچھے نماز پڑھتے تھے سب ضعیف ہیں اور ایک بھی صحیح السند روایت نہیں دوم کسی خارجی کے سوال کا جواب دینے کا بھی یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ صحابہ کے نزدیک خوارج کی تکفیر نا جائز تھی
امام بخاری، صحیح میں صحابہ کے اقول صحیح میں نقل کرتے ہیں کہ صحابہ نے حدیث نبوی کہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن حلق سے نیچے نہ اترے گا کا مصداق خوارج کو لیا جنہوں نے صحابہ کو ہی کافر کہا
اب ظاہر ہے خوارج صحابہ کے ساتھ نماز کیوں پڑھتے لہذا یہ روایات نہ سندا صحیح ہیں بلکہ تاریخ کے مطابق بھی غلط ہیں