ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
وہ کفریہ بدعت جو لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کے مدلول ہی سے براہ راست متصادم ہو ۔یہ وہ مسائل ہیں جن کو مسلمانوں کے عوام اور علماء سب جانتے ہیں یہ شریعت کے بنیادی عقائد ہیں۔امت کا ان مسائل میں اجماع ہو چکا اس لیے ان بنیادی امور میں تاویل یا غلط مبحث کا کوئی امکان نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان مسائل میں اختلاف قطعاً قابل برداشت نہیں کیونکہ اس سے دین کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ امور قطعی طور پر ثابت ہیں اس لیئے انہیں قطعیات کہتے ہیں علماء اسلام کا ان پر اتفاق ہے اور یہ تواتر عملی سے امت کے اندر رائج ہیں۔اس لیئے ان کو صرف اور صرف تسلیم کر لینا ہی واجب ہے ۔یہ قطعیات عقائد اور فروع دونوں میں پائے جاتے ہیں ان میں اجتہاد ،رائے یا اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ۔ یہ شریعت کے وہ عظیم الشان قواعد ہیں جو اٹل ہیں۔جو شخص ان کے تسلیم کرنے میں ہی تردد کرے یا ان کے معاملے کو مشکوک ٹھہرائے وہ ملت اسلامیہ سے خارج یعنی مرتد ہو گا۔اس کو لاعلمی ،جہالت ،شبہ یا تاویل کا عذر نہیں دیا جائے گا۔ان کفریہ بدعات کے حاملین کے بہت سے رخ ہیں کہیں یہ کلمہ پڑھ کر کیمونسٹ‘ سوشلسٹ اور ان سیکولر لوگوں کی شکل میں ہیں جو انسانوں کے بنائے ہوئے نظام جمہوریت اور سوشلزم کو اللہ کے دین سے بہتر سمجھتے ہوئے لوگوں کو زبردستی اس کا پابند بناتے ہیں اور اسلامی احکامات کا مذاق اڑانے سے بھی باز نہیں آتے ۔ اللہ کے نازل کردہ دین کے مطابق چور،زانی اور قاتل کی سزائوں کو وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں۔ اورکہیں ان نام نہاد مسلمانوں کی شکل میں ہیں جو اللہ کے تمام اسماء و صفات کا بغیر کسی تاویل کے انکار کرتے ہیں اور ایمان کو صرف معرفت سے تعبیر کرتے ہیں ان کو غلاۃ الجہمیہ کہا جاتا ہے اورکہیں ان صوفیاء کی شکل میں جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر عقیدہ وحدۃ الوجود (ماہیت کے اعتبار سے کائنات عین وجود باری تعالیٰ ہے)کے مبلغ ہیں اور شریعت کو طریقت سے الگ سمجھتے ہیں اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے نور کا حصہ اور مشکل کشا مانتے ہیں ،اپنی مشکلات میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدناعلی، حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو پکارتے ہیں‘ غیر اللہ کو مختار کل جان کر اپنی مشکلات کے حل کے لیے قبروں پرسجدہ کرتے ہیں، اور کہیں یہ احمدیوں کی شکل میں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کو رسول کہتے ہیں اور کہیں یہ اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطا‘ مامور من اللہ اور ان کی اطاعت کو واجب قرار دینے اورامامت کو نبوت سے افضل قرار دیتے ہوئے 12 اماموں کی عصمت کا اعتقاد رکھنے ،قرآن کو بدلی ہوئی کتاب ماننے اورصحابہ کو کافر کہنے والے رافضیوں کی شکل میں ہیں ۔علی کل حال میری ناقص رائے اور محدود علم کے مطابق انس بھائی اور طاہر بھائی کا موقف درست ہے
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’بالخصوص عصر حاضر میں اسلام کا نام استعمال کرنے اور اس کے پردے میں کفر کی نشرو اشاعت کرنے والے باطل فرقوں کا یہی حکم ہے ۔جیسے البابیہ،بہایہ،قادیانیت، اشتراکیت،سوشلزم ،علمانیت،قومیت، استشراق،وحدۃ الوجود،حلول و اتحاد،مادیت پرستی،روشن خیالی،وحدت ادیان،برابری کی بنیاد پر مکالمہ بین المذاہب وغیرہ۔یہ اہل بدعت نام کی حد تک بدعتی ہیں ، اصلاً یہ سب کفر کی شکلیں ہیں۔جیسے نفاق اور کفر میں صرف لفظی فرق ہے ،اصل میں دونوں ایک ہی ہیں۔ان تمام بدعتوں کے دُعاۃ شر کھلے بندوں ہر قسم کے ذرائع ابلاغ میں کفر کی نشر واشاعت میں مصروف عمل ہیں ۔ بدعت کی اس نوع کے کفر اور اس کے مرتکبین کے کفار ہونے میں کسی تردد کی ضرورت نہیں ہے ۔ اہل ِ ایمان کو ان کے فریب سے نکالنا، سازشوں سے آگاہ رکھنا، ان کا حکم بیان کرنا، ممکن ہوتو انہیں نصیحت کرنا اور حق کی دعوت دینا، استطاعت ہو تو ان سے بحث کرکے حق واضح کرنا،بصورت دیگر ان سے مکمل قطع تعلقی اور اظہار بیزاری حضرات محدثین کا عقائدی منہج ہے، جس کی پیروی ان کی جماعت اہل الحدیث والسنہ کا فرض منصبی ہے ۔‘‘(مقالات تربیت،ص:۱۰۹)
شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:’’ کافر و مشرک سے مراد وہ لوگ بھی ہیں جو مسلمان ہونے کے دعویدار تو ہیں لیکن کسی ایسے کام کا ارتکاب کرتے ہیں جس کا کفر و شرک علمائِ امت کے نزد یک متفق علیہ ہے ۔ جیسے غیر اللہ کو سجدہ کرنا، دین کی بنیادی باتوں کا انکار کرنا ، اللہ اور اس کے رسول یا اسلام کا مذاق اڑانا۔ بشرطیکہ وہ خود با خبر ہوں یا ان پر حجت قائم ہو چکی ہو۔‘‘(وفاداری یا بیزاری،ص30)
سعودی عرب کی اللّجنۃ الدائمہ للبحوث العلمیہ والافتاء (جس کے رئیس الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمتہ اللہ علیہ تھے)کے چند فتوے ملاحظہ فرمائیں:
’’جو شخص نماز پڑھے ،روزے رکھے اور ارکان اسلام پر عمل کرے مگر اس کے ساتھ وہ مُردوں، غیر حاضر بزرگوں اور فرشتوں وغیرہ کو مدد کے لیے پکارے، وہ مشرک ہے اور اگر وہ نصیحت کو قبول نہ کرے اور مرتے دم تک اس عقیدے پر رہے تو اُسکی موت شرک پرہے۔ اس کا شرک ’’شرک اکبر‘‘ ہے جو اسے اسلام سے ہی خارج کر دیتا ہے۔ اُسے نہ تو مرنے کے بعد غسل دیا جائے گا اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کیا جائے گا اور نہ اس کیلئے مغفرت کی دعا کی جائے گی اور نہ ہی اس کی اولاد ،والدین اور بھائی، اگر مو ّحدین ہوں، اُس کے وارث ہوں گے۔‘‘ [فتوی نمبر6972]
’’جو شخص اللہ کی توحید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہے اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتا ہے پس وہ مسلم و مومن ہے۔ اور جو شرکیہ اقوال یا شرکیہ افعال کرتا ہے جو کلمہ کے منافی ہیں پس وہ کافر ہے اگرچہ کلمہ پڑھے ، نماز ادا کرے اور روزہ رکھے۔ جیسا کہ مُردوں کو مشکلات میں پکارتا ہے، ان کی تعظیم میں قربانی کرنا ہے ایسے شخص کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں۔ ‘‘[فتوی نمبر10685، فتاویٰ اللجنہ جمع و ترتیب احمد بن عبد الرزاق الدویش]
اسی طرح جو شخص پانچ وقت کی نماز ،رمضان کے روزوں، عشر، زکوٰۃ یا حج وغیرہ میں سے کسی ایک کا انکار کرے تو وہ بھی کافر ہو گا ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے زکوٰۃ کے منکرین کے خلاف جہاد کیا ۔ حالانکہ وہ کلمہ پڑھتے اور نماز یںادا کرتے تھے۔ جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے لڑیں گے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ وہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کر لیں اور جب وہ اس کا اقرار کریں تو انہوں نے اپنی جان اور اپنا مال میری تلوار سے محفوظ کر لیا مگر اسلام کا حق ان سے لیا جائے گا اور ان کے دل کا حساب اللہ کے ذمہ ہے ۔سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کریں گے۔ بے شک زکوٰۃ مال کا حق ہے ۔ اللہ کی قسم اگر انہوں نے اونٹ کے گلے میں باندھنے والی رسی بھی روکی، جو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے، میں اس کے روکنے پر ان سے ضرور لڑوں گا۔ عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! اللہ نے ابو بکر کا سینہ منکرین زکوٰۃ سے جہاد کے لیے کھول دیا اور پھر میں نے بھی جان لیا کہ یہی بات حق ہے۔
(بخاری: ۱۴۰۰۔مسلم: ۲۰)
گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شہادتین کا اقرار کرنے اور نماز پڑھنے والوں کو مرتدین میں شمار کیا اور ان سے جہاد کیا کیونکہ وہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے تھے اور ان میں سے بعض کا یہ موقف تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کو زکوٰۃ نہیں دی جائے گی۔
نماز کے تارک اور دین یا سنت نبوی کا مذاق اڑانے والے کے بارے میں للجنہ نے یوں فتویٰ دیا۔
’’نماز کو جان بوجھ کر ترک کرنے والا اگر نماز کا منکر ہے تو اس کے متعلق علماء اسلام کا اجماع ہے کہ وہ کافر ہو جاتا ہے اور اگر سستی کی وجہ سے ترک کرے تو اس کے متعلق بھی صحیح قول یہی ہے کہ وہ کافر ہے اور جو شخص دین اسلام کا مذاق اڑائے یا کسی ایسی سنت کو نشانہ تضحیک بنائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے مثلاً پوری داڑھی رکھنا ،کپڑا ٹخنوں سے اوپر یا آدھی پنڈلی تک رکھنا اور اسے معلوم بھی ہو کہ یہ واقعی سنت ہے، تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کا محض اس لیئے مذاق اڑائے کہ وہ اسلام کے احکام کا پابند ہے تو ایسا شخص بھی کافر ہوتا ہے ۔‘‘(فتاویٰ دارالافتاء جلد دوم ص ۳۵)
کفریہ بدعا ت کے حاملین سے تعامل
اہل ایمان پر واجب ہے کہ وہ کفار ومشرکین سے برأت کا اظہار کریں، وہ کفّار یہودو نصاریٰ ،ہندو اوردھریہ ہوں یااسلام کے دعویدار یعنی کلمہ پڑھ کر اسلام کے منافی امور (نواقض اِسلام )کے مرتکب ہو کریادین کے قطعی امور میں اختلاف کرکے کافرو مرتد ہوئے ہوں، ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو ایک اصلی کافر سے کیا جاتا ہے۔
ذیل میں ہم کفریہ بدعات کے حاملین سے تعامل کی چند اہم صورتوں کا ذکر کریں گے۔
دشمنی و قطع تعلقی کرنا
اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَہُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَہُمْ اَوْ اِخْوَانَہُمْ اَوْ عَشِيْرَتَہُمْ اُولٰۗىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِہِمُ الْاِيْمَانَ وَاَيَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ وَيُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْہَا رَضِيَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ اُولٰۗىِٕكَ حِزْبُ اللہِ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللہِ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾( المجادلۃ : ۲۲)
’’جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اورروز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھوگے ۔خواہ وہ ان کے باپ ،بیٹے بھائی یا خاندان ہی کے لوگ (کیوں نہ )ہوں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی طرف سے روح (جبریل )کے ساتھ ان کی مدد کی ہے۔اور وہ ان کو بہشتو ں میں، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ،داخل کرے گا۔وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ سے خوش ہیں یہی گروہ حزب اللہ ہے (اور )سن رکھو کہ حزب اللہ ہی کامیابی حاصل کرنے والا ہے۔‘‘
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت سے قدریہ سے عداوت کرنے ، ان کی صحبت ترک کرنے پر استدلال کیا ہے ۔ امام مالک فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے ﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ ﴾قدریہ کے ساتھ مت بیٹھ اور ان سے اللہ کی خاطر دشمنی کر ۔میں کہتاہوں:’’یہاں قدریہ جیسے تمام اہل ظلم و عدوان ( اس حکم میں )داخل ہیں ۔‘‘(تفسیر قرطبی :۱۷/۳۰۸)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللہِ يُكْفَرُ بِھَا وَيُسْتَہْزَاُ بِھَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِہٖٓ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ اِنَّ اللہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِيْنَ وَالْكٰفِرِيْنَ فِيْ جَہَنَّمَ جَمِيْعَۨا ﴾(النساۗء :۱۴۰)
’’اللہ اپنی کتاب میں تمہارے لیے یہ حکم پہلے نازل کر چکا ہے کہ جب تم سنو کہ آیات الٰہی کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ان کے ساتھ مت بیٹھو حتیٰ کہ یہ لوگ کسی دوسری بات میں لگ جائیں ، ورنہ تم بھی اس وقت انہیں جیسے ہو جائو گے بلا شبہ اللہ تعالیٰ تمام منافقوں اور کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے ۔‘‘
اس آیت کریمہ سے بھی ائمہ نے اہل بدعت کی صحبت اپنانے سے منع کرنے پر استدلال کیا ہے ۔(دیکھیے تفسیر قرطبی :۵/۴۱۸)
اہل بدعت(مکفرہ) کی اقتداء میں نمازادانہ کرنا
اہل بدعت میں سے جن کی بدعت کفر کی حد تک پہنچتی ہے ان کی اقتداء میں ادا کی گئی نماز باطل ہے اور پڑھی گئی نماز کو دہرانا واجب ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللہِ شٰہِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ بِالْكُفْرِ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ وَفِي النَّارِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللہَ فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِيْنَ ﴾(التوبۃ:۱۷،۱۸)
’’مشرکوں کا یہ کام نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں وہ تو خود اپنے اوپر کفر کی شہادت دے رہے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے سب اعمال ضائع ہو گئے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔اللہ کی مساجد کو آباد کرنا ان کا کام ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ،نماز قائم کی ،زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے ‘امید ہے ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہوں گے ۔‘‘
اسی لیے ائمہ سلف نے غالی جہمیہ ،رافضہ اور قدریہ کی اقتداء میں نماز کے باطل ہونے کا فتوی دیا ہے ۔
1۔واثلۃ بن السقع رحمہ اللہ سے قدری کے پیچھے نماز کے بارے میں سوال کیا گیا توآپ نے فرمایا :’’اس کے پیچھے نماز ادا نہیں کی جائے گی اور اگر (انجانے میں)اس کے پیچھے پڑھ لوں تو میں دہرائوں گا ۔‘‘(شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ ‘ج :۲‘ص:۷۳۱)
2۔امام بربہاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اگر جمعہ کے دن تیرا امام جہمی ہو اور وہ وقت کا سلطان ہو (یعنی تو اس کے پیچھے نماز ادا کرنے پر مجبور ہو)تو پھر اس کے پیچھے نماز پڑھ لے اور پھر اسے دہرا ۔‘‘(شرح السنۃ:۴۹)
3۔امام ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اصل یہ ہے کہ اہل اہواء کی اقتداء جائز ہے سوائے جہمیہ ،قدریہ ،غالی روافض ،خلق قرآن کے قائل ،خطابیہ ،مشبہ اور اس بدعتی کے جو اپنی بدعت میں غلو کرتا ہوا کفر کے درجہ کو جاپہنچے ۔باقی ماندہ لوگوں کی اقتداء میں نماز جائز مگر ناپسندیدہ ہے ۔‘‘(بحرالرائق شرح کنز الدقائق ،ج:۱ص:۳۷۰)
4۔سلام بن أبی مطیع رحمہ اللہ سے جہمیہ کے متعلق سوال کیا گیا‘ تو آپ نے فرمایا’’ وہ کفار ہیں ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔‘‘(السنۃ لعبداللہ بن أحمد ۱/۱۰۵)
5۔شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ فرماتے ہیں:جو کوئی قبر والوں سے استغاثہ کرتا ہے یعنی اپنی مشکلات میں اسے اپنی مدد کے لیے پکارتا ہے یا ان کی نذر و نیاز دیتا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح نہیں کیونکہ وہ مشرک ہے اور مشرک کی نہ امامت درست ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے نماز اور کسی مسلم کے لیے جائز نہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھے۔(فتاویٰ اللجنہ جمع و ترتیب احمد بن عبد الرزاق الدویش فتوی نمبر [9336]
6۔شیخ عبدالعزیز بن بازرحمہ اللہ اور ان کی لجنۃ سے بریلوی جماعت کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دریافت کیا گیا جن کا عقیدہ یہ ذکر کیا گیا کہ:
۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں۔ (۲)آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر ہیں۔ (۳)یہ لوگ قبر والوں سے حاجت روائی کی درخواست کرتے ہیں۔ (۴)قبروں پر گنبد بناتے ہیں اور چراغ روشن کرتے ہیں۔ (۵)یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں۔ (۶)رفع الیدین کرنے والے اور آمین بالجہر کرنے والے سے ناراض ہوتے اور اسے وہابی کہتے ہیں۔ (۷ ) و ضو اور اذان میں نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر انگوٹھے چومتے ہیں۔
ایسے عقائد کے حاملین کے پیچھے نماز کے متعلق شیخ صاحب فرماتے ہیں:’’جس شخص کے یہی حالات ہوں، اس کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز ہے اور اگر کوئی نمازی اس کی اس حالت سے واقف ہونے کے باوجود اس کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح نہیں کیونکہ سوال میں مذکورہ امور میں سے اکثر کفریہ اور بدعیہ ہیں جو اس توحید کے خلاف ہے جسے دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور جو اس نے اپنی کتابوں میں بیان فرمائی۔[فتاویٰ دارالافتاء سعودی عرب: 256/2]