اگر اجازت ہو تو ایک اسی مسئلہ سے ملتا جلتا سوال کر سکتا ہوں (آج دل سے محدث فورم کے منتظمین کے لیے دعائیں نکلی ہیں کچھ گفتنیاں چھوڑ کر مجموعی طور پر میں نے بہت استفادہ کیا مجھے اپنے بہت سے سوالوں کا جواب ملا کہ یہ پہلا دھاگہ ہے جہاں تمام پوسٹ عنوان سے مطابقت رکھتی ہیں جزاکم اللہ خیرا جمیعا البتہ ایک عرض ہے اختلاف ضرور کریں لیکن مخالفت نہیں)
سید نا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسجد نبوی میں نمازوں کی امامت کون کرواتا رہا اور اس امام کے مقتدی کون لوگ تھے اور اس حوالے سے ہمارے اسلاف کا کیا موقف تھا؟
اہل بدعت (غیر مکفرہ ) کی اقتداء میں نماز کا حکم
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ۴۳﴾ (البقرۃ:۴۳)
’’ اور نماز پابندی سے ادا کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘
اس لیے اہلسنّت کا شعار ہے کہ جب وہ مسلمانوں کے کسی بھی شہر یا علاقے میں ہوں وہاں جمعہ،جماعت اور عید کی نمازوں میں ان لوگوں کے ساتھ شرکت کرتے اور تعلق وموالات رکھتے ہیں جواسلام اور ایمان کے دائرہ سے خارج نہیں کیے جا سکتے۔
فضیلہ الشیخ مولاناارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
’’اہل علم کا تقریباً اس پر اتفاق ہے کہ فاسق اور اہل بدعت کو امام نہ بنایا جائے ، اسی طرح اس پر بھی اتفاق ہے کہ فاسق کے پیچھے نماز مکروہ ہے ،لیکن اگر وہ امام بنا دئیے گئے ہوں یا بالجبر وہ امام بن گئے ہوں تو ان کے پیچھے نماز درست ہے ، اس لیے کہ بدعت فسق ہے اور فاسق و فاجر کے پیچھے نماز جائز ہے ۔((صلوا خلف کل برّ وفاجر))کی روایت کے الفاظ ضعیف ہیں، جیسا کہ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ علیہ نے العلل المتناھیۃ (ج۱، ص۴۲۱، ۴۲۸) میں اس کے طرق نقل کر کے ان پر کلام کیا ہے اور امام احمد، امام دارقطنی اور امام عقیلی رحمہ اللہ علیھم سے نقل کیا ہے کہ اس باب کی کوئی روایت ثابت نہیں، تاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل اسی کے مطابق ہے۔ بلکہ ابن قدامہ اور علامہ شوکانی نے تو عصر اول میں اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔‘‘(نیل الاوطار:ج۳ص۱۷۴)
سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف کے پیچھے نماز پڑھتے تھے،حجاج کاظالم ہونے کے علاوہ اس کا ناصبی(سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دینے والا ) ہونا بھی کسی پر مخفی نہیں ۔ امام بخاری نے التاریخ الکبیر اور امام بیہقی نے السنن الکبری (ج۳ص۱۲۲) میں عبدالکریم البکاء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’ ادرکت عشرۃ من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کلھم یصلی خلف ائمۃ الجور‘‘ ’’میں نے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا وہ سب ائمہ جور کے پیچھے نماز پڑھتے تھے ۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں باب امامۃ المفتون والمبتدع قائم کیا اور اس میں امام حسن بصری رحمہ اللہ علیہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ’’ صل وعلیہ بدعتہ‘‘ ’’بدعتی کے پیچھے نماز پڑھو اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہے۔‘‘ اور
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف اقدام کرنے والے بلوائیوں سے بڑھ کر فتنہ پرداز اور کون ہو سکتا ہے مگر اس کے باوجودآپ سے پوچھا گیا کہ ان کے پیچھے نماز پڑھی جائے تو انہوں نے اثبات میں اس کا جواب دیا اور فرمایا کہ ’’ من دعا الیٰ الصلاۃ فاجیبوہ‘‘ ’’جو نماز کی طرف بلاتا ہے، اس کی بات کو تم قبول کرو‘‘ اور صحیح بخاری کے الفاظ ہیں :’’الصلاۃ أحسن ما یعمل الناس فاذا أحسن الناس فأحسن معھم، واذا أساء و فاجتنب اساء تھم‘‘’’ لوگ جو اچھا عمل کرتے ہیں، نماز ان میں سب سے اچھا عمل ہے ،جب لوگ اچھا کام کریں تو تم ان کے ساتھ مل کر اچھا کام کرو اور جب کوئی برا کام کریں تو ان کے اس برے کام سے اجتناب کرو۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے بھی یہ باب ذکر کرکے اشارہ کیا ہے کہ گناہ گار اور بدعتی کے پیچھے نماز جائز ہے اور اصول بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے کہ:’’ ان من صحت صلاتہ صحت امامتہ‘‘ جس کی اپنی نماز درست ہے اس کی امامت بھی درست ہے ، فقہاء کے اختلافی مسائل میں بھی یہی اصول ہے اور فاسق و بدعتی کے بارے میں بھی یہی حکم ہے ۔ حدیث نبوی میں امامت کی جوشروط بیان ہوئی ہیں ان میں ’’معصوم عن الخطا‘‘ کا ذکر بہر نوع نہیں۔
علامہ شوکا نی رحمہ اللہ علیہ نے اس موضوع پر مستقل رسالہ لکھا کہ امام کے لیے عدالت شرط نہیں ، لیکن بدعتی اگر ایسی بدعت کا مرتکب ہے جو بدعت مکفر ہ ہے تو اس کے پیچھے نماز قطعاً جائز نہیں۔ اما م احمد اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ ایسے امراء اور ائمہ مساجد کے جہل اور تاویل کے عذر کی بنا پر انہیں معذور سمجھتے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ملاحظہ ہو( مجموع فتاویٰ ج۷ص۵۰۸)
علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ علیہ اس مسئلہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد خلاصۃ فرماتے ہیں: ’’حاصل مسئلہ یہ ہے کہ اہل بدعت و فسق وغیرہ کو امام بنانا مکروہ ہے ، اور ان کی اقتداء مکروہ تنزیہی ہے، اگر ان کے علاوہ دوسروں کے پیچھے نماز ممکن ہو تو یہی افضل ہے ، ورنہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا اکیلے پڑھنے سے اولیٰ ہے اور مناسب یہی ہے کہ ان کی اقتداء کی کراہت تب ہے جب کوئی دوسرا امام موجود ہو، اگر ایسا نہیں تو مکروہ بھی نہیں، جیسا کہ اس میں کوئی ابہام نہیں۔‘‘(مقالات تربیت:ص۲۰۵)
https://www.facebook.com/eemanwayeemanway/photos/pb.1405942249690869.-2207520000.1437835522./1497503320534761/?type=3&src=https%3A%2F%2Ffbcdn-sphotos-e-a.akamaihd.net%2Fhphotos-ak-xfa1%2Ft31.0-8%2F10582864_1497503320534761_6729106231223857743_o.jpg&smallsrc=https%3A%2F%2Ffbcdn-sphotos-e-a.akamaihd.net%2Fhphotos-ak-xtp1%2Fv%2Ft1.0-9%2F10645277_1497503320534761_6729106231223857743_n.jpg%3Foh%3Dd5b7b142af7105bee872edb1969e83b9%26oe%3D5642E982%26__gda__%3D1443787172_d93755f01d46d59a8d9d88a796d6f5b6&size=2048%2C1217&fbid=1497503320534761#