شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,011
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بہر حال میں یہاں بحث میں حصہ لینے نہیں آیا مگر بحث کو ختم کرنے کے لیے ایک فیصلہ کن مضمون آپ لوگوں کے گوش گزار کرنے آیا ہوں۔
اہل بدعت وفسق کے پیچھے نماز کے بارے میں صحیح سلفی مؤقف
اس مضمون کا ضرور مطالعہ کیجئے۔ قوی اُمید ہے کہ کافی شبہات رفع ہونگے۔ان شاءاللہ
ابوبکر بھائی آپ کے اس ’’فیصلہ کن‘‘ مضمون میں ایک بہت بڑا ابہام ہے جو اس مضمون کے فیصلہ کن ہونے میں مانع ہے۔ اور وہ ابہام ہے دیوبندی پر غلط حکم لگانے کا اور ان دیوبندیوں کو بدعت مکفرہ کے بجائے بدعت غیر مکفرہ کے مرتکبین میں شمار کرنے کا۔
آپ نے لکھا ہے:
ہمیں اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل و فاعل تھے۔ لیکن اگر اس دور کے حالات پر ایک نظر ڈال لی جائے تو نذیرحسین دہلوی اور وہ دیگر اہل حدیث علماء جو دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل تھے کے بارے میں صحیح موقف سامنے آجاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ تمام علماء دیوبندی عقائد نہ جاننے کے سبب معذور تھے۔ اور کسی کی غلطی، لاعلمی یا معذوری سے استدلال جائز نہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے:محدث نذیر حسینؒ حنفی دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل وفاعل تھے۔
دیوبندی انگریز کے دور میں پیدا ہونے والا ایک نومولود فرقہ ہے جس کا مسکن و مولد غیرمنقسم ہندوستان ہے۔ کوئی بھی نیا فرقہ وقت کے ساتھ ارتقائی عمل سے گزرتا ہے اور ایک زمانہ گزرنے کے بعد ہی اس کے عقائد و اعمال میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ بہت زیادہ ممکن ہے کہ میاں نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے دور مبارک میں دیوبندی کفریہ اور شرکیہ عقائد نہ رکھتے ہوں۔ میرے نزدیک یہی بات قرین قیاس ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سابقہ ادوار سے تعلق رکھنے والے علماء دیوبندیوں کو موحد جانتے تھے اور ان سے اتحاد کے لئے کوشاں تھے اس کی تفصیل اہل حدیث کی کئی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اب اگر کوئی اہل حدیث عالم اپنے نزدیک موحد دیوبندی کے پیچھے نماز ادا کرلے تو اس میں حرج کیا ہے؟؟؟ بلکہ اس عالم کا دیوبندی عالم کے پیچھے نماز ادا کرنے کا عمل اس کی لاعلمی کے سبب درست ہے۔ لیکن دوسروں کو اس سے دلیل پکڑنا جائز نہیں۔
اہل حدیث علماء کو دیوبندیوں کے بارے میں غلط فہمی لاحق ہونے کا ایک بڑا سبب دیوبندیوں کا تقیہ بردار رویہ بھی ہے۔ انھوں نے دانستہ اپنے کفریہ اور شرکیہ عقائد کو چھپائے رکھا حتی کہ ان کے بعض عام علماء بھی ان کفریہ و شرکیہ عقائد سے لا علم رہے۔ عبدالشکور ترمذی دیوبندی نے المہند علی المفند کی عام فہم انداز میں تلخیص کی ہے جس کا نام عقائد علماء دیوبند رکھا ہے اس میں انھوں نے واضح طور پر اعتراف کیا ہے کہ بہت سے دیوبندی علماء بھی اپنے مسلمہ عقائد سے ناواقف اور لاعلم ہیں اور اسی لاعلمی میں وہ بسا اوقات ان عقائد کی تردید کردیتے ہیں۔ عبدالشکور دیوبندی لکھتے ہیں: اسی طرح یہ بھی واضح ہوگا کہ اصلی دیوبندیت کیا ہے اور اس زمانہ میں بعض مقررین جن عقائد کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔اس کو اصلی دیوبندیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔(عقائد علماء دیوبند، صفحہ١١٠)
عبدالشکور ترمذی دیوبندی کا اس کتاب کی تالیف سے مقصود دیوبندی علماء کو انکے مسلمہ عقائد سے روشناس کرانا ہے۔
اہل حدیث علماء نے بارہا دیوبندیوں کو انکے عقائد پر مناظرہ کی دعوت دیتی لیکن وہ اس پر تیار نہ ہوئے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ عام لوگوں پر انکے کفریہ شرکیہ عقائد آشکار نہ ہوں۔ بہرحال جب اہل حدیث علماء نے خود ہی دیوبندیوں کے عقائد سے متعلق عوامی شعور بیدار کرنے کی کوشش کی تو دیوبندیوں کو مجبورا اپنے عقائد کو عام عوام کے سامنے لانا پڑا۔یہ کچھ اسباب تھے جن کی وجہ سے اہل حدیث علماء کما حقہ دیوبندی عقائد پر مطلع نہ ہوسکے۔
سید طالب الرحمنٰ حفظہ اللہ نے اہل حدیث علماء اور عوام کی اس غلط فہمی کے ازالے کے لئے دیوبندیت لکھی جس کے مقدمے میں شیخ لکھتے ہیں: دیوبندی حضرات کے بارے میں عام اہلحدیث اور اکثر علماء کا بھی یہ نظریہ ہے کہ یہ لوگ موحد ہیں۔جیسا کہ حکیم محمود صاحب دیوبندیوں کے خلاف ’’علمائے دیوبند کا ماضی تاریخ کے آئینہ میں‘‘ نامی کتاب لکھتے ہوئے وہ اپنا اور دیوبندیوں کا ناطہ ان الفاظ میں جوڑتے ہیں۔
’’آج ہم اور دیوبندی ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔اور الحمداللہ عقائد میں بھی کوئی ایسا بعد نہیں رہا بلکہ ہمارا اور اس مسلک کا مستقبل بھی دونوں کے اتحاد پر موقوف ہے۔‘‘ ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’اہل توحید کے ناطے سے ایک تعلق موجود ہے اور اختلاف کے باوجود وہ باقی ہے اور رہے گا اور یہی دکھ کی بات ہے۔‘‘
حکیم صاحب کا یہ معذرت خواہانہ رویہ شاید مصلحانہ ہو، ورنہ دیوبندیوں کے بارے میں عام اہلحدیثوں کا نظریہ ان کے عقائد سے ناواقفی کی وجہ سے ہے۔ اسی لئے یہ ان سے رشتہ ناطہ کرنے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔(دیوبندیت تاریخ وعقائد، صفحہ٧)
اب انصاف سے بتائیں کہ کیا نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ وغیرھم کے لاعلمی اور غلطی پر مبنی فعل سے بعض روشن خیالوں کا استدلال ناجائز اور لوگوں کے ایمان اور نمازوں سے کھیلنے کے مترادف نہیں؟؟؟؟؟
ہمیں یقین ہے کہ اگر نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ دیوبندیوں کی عقیدے کے مستند کتاب المہند علی المفند پڑھ لیتے اور جان لیتے کہ دیوبندی وحدت الوجودی صوفی بھی ہیں تو کبھی بھی ان کے پیچھے نماز نہ پڑھتے جیسا کہ وہ خود گمراہوں کے پیچھے نماز کے قائل نہیں تھے۔ دیکھئے:
رافضی کے پیچھے نماز جائز نہیں قال المرغینانی یجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولاتجوز خلف الرافضی والجہمی والقدری والمشبہ ومن یقول بخلق القرآن کذا فی التفاوی العالمگیریۃ وغیرھامن کتب الفقہ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (علامہ مرغینانیؒ فرماتے ہیں کہ صاحب ہوی وبدعت کے پیچھے نماز جائز ہے لیکن رافضی، جہمی، قدری، مشبہ اورجو قرآن کریم کو اللہ تعالی کی مخلوق کہتا ہے کہ پیچھے نماز جائز نہیں، اسی طرح فتاوی عالمگیری وغیرہ کتب فقہ میں لکھاہے)۔
(سید محمد نذیر حسین ۔ فتاوی نذیریہ ج 1 ص 332، فتاوی علمائے حدیث کتا وب الصلاۃ حصہ اول باب الامامۃ ص 217)
یاد رہے کہ دیوبندی جہمی بھی ہیں۔اور یہ لوگ حنفی بھی نہیں ہیں کیونکہ خود انکی فقہ کی کتابیں دیوبندیوں کے پیچھے نماز کو ناجائز کہتی ہیں جیسا کہ یہی مذکورہ حوالہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے۔
ابوبکر بھائی آپ کے مضمون سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
جب ایک عرس اور میلا دیکھنے والے پیچھے نماز جائز نہیں تو بریلویوں اور دیوبندیوں کے پیچھے نماز کیسے جائز ہوگی جو باقاعدہ کفریہ اور شرکیہ عقائد کے حاملین ہیں؟؟سوال: میلوں کے دیکھنے والا عرسوں پر حاضر ہونے والا امام ہوتو اس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟
جواب: قبریا درخت یا کسی اور چیز کو سجدہ کرنا شرک ہے۔ قبروں پر میلہ کرنا اور عرسوں اور میلوں کو دیکھنا گمراہی ہے ایسے لوگوں کو امام بنانا ناجائز ہے اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جاوے حدیث ‘‘مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ’’([4]) (جس کسی نے کسی قوم سے مشابہت کی وہ ان ہی میں سے ہے) اور حدیث ‘‘مَنْ كَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ’’([5]) (جس کسی نے کسی قوم کی جماعت کو بڑھادیا وہ ان ہی میں سے ہے) یہ دو حدیثیں ہیں اور قرآن شریف اللہ عزوجل فرماتا ہے:
﴿وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ﴾
(النساء: 140)
(اللہ تعالی کتاب (قرآن مجید) میں تم پر یہ اتار چکا ہے کہ جب تم سنو اللہ تعالی کی آیتوں سے کفر اور ٹھٹھا کیا جاتا ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ (جو کفر اور ٹھٹھا کررہے ہوں) مت بیٹھو یہاں تک کہ وہ دوسری کسی بات میں لگیں۔ اگر تم ایسا کروگے تو تم بھی انہی کی طرح (کافر) ہوجاؤ گے)
(فتاوی غزنویہ ص48، فتاوی علمائے حدیث کتا ب الصلاۃ حصہ اول باب الامامۃ ص 188)
اسی مضمون سے ایک اور سوال جواب دیکھیں:
جب بریلویوں کے پیچھے اس لئے نماز نا جائز ہے کہ ان کے بعض عقائد کفریہ ہیں تو اسی سبب دیوبندیوں کے پیچھے بھی نماز ناجائز ہے کیونکہ انکے بھی بعض عقائد کفریہ ہیں۔سوال: ہمارے محلہ میں نزدیک ترین مسجد کا امام بریلوی ہے اس کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیے یا علیحدہ پڑھنی چاہیے؟
جواب: بریلویوں کے بعض عقائد کفریہ ہیں اگر یہ امام بھی عام بریلویوں کی طرح ان کے کفریہ عقائد رکھتا ہے تو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے
مضمون سے یہ اقتباس بھی دیکھنے کے لائق ہے:
بس اس فتوے سے ثابت ہوا کہ دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں کیونکہ دیوبندی بھی اللہ کو ہر جگہ مانتے ہیں۔الیاس گھمن دیوبندی نے لکھا ہے: ہم نے عقیدہ بیان کیا میں کہتا ہوں اللہ ہر جگہ پر ہے۔(خطبات گھمن،جلد١، صفحہ ٢٠٠)فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازؒ
سوال: ہمیں ایک امام نماز کی امامت کرواتا ہے، اور وہ کہتا ہے: اللہ تعالی نہ اوپر ہے نہ نیچے بلکہ وہ تو ہر جگہ ہے، کیا ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب: ایسا شخص بدعتی گمراہ ہے، اس کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔ جو یہ کہے کہ اللہ تعالی نہ اوپر ہے نہ نیچے وہ کافر ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا واضح فرمان ہے:
﴿اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾
(طہ : 5)
(جو رحمن ہے، عرش پر بلند ہے)
﴿اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ﴾
(الاعراف: 54، یونس: 3)
(بیشک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دن میں بنائے پھر عرش پر استواء فرمایا جیسا اس کی شان کے لائق ہے)
اور فرمایا:
﴿وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ﴾
(البقرۃ: 255، الشوری: 4)
(اور وہ بلند اور بہت عظیم ہے)
﴿وَاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ﴾
(الحج: 62، لقمان: 30)
(بیشک اللہ ہی بلندی والا کبریائی والا ہے)
﴿فَالْحُكْمُ لِلّٰهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيْرِ﴾
(المؤمن: 12)
(پس اب فیصلہ اللہ بلند و بزرگ ہی کا ہے)
﴿اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُه﴾
(فاطر: 10)
(تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں ، اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے)
﴿مِّنَ اللّٰهِ ذِي الْمَعَارِجِ۔ تَعْرُجُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ﴾
(المعارج: 3-4)
(اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں/ آسمانی زینوں والا ہے۔ جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں)
ابوبکر سلفی بھائی آپ کے پورے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک ایسے بدعتی کے پیچھے مجبوری میں نماز جائز ہے جس کی بدعت ہلکی ہو یعنی بدعت صغرہ ہو۔جیسا کہ آپ کے مضمون میں درج ہے:
میں بھی اس کا قائل ہوں جس کا اظہار سابقہ پوسٹس میں کرچکا ہوں۔ میرے نزدیک بھی ایسے بدعتی کے پیچھے نماز ناجائز ہے جس کی بدعت مکفرہ ہو اور اس کے عقائد میں کفر اور شرک پایا جاتا ہو۔ پس اس کی رو سے کسی بھی دیوبندی یا بریلوی امام کے پیچھے نماز جائز نہیں کیونکہ دیوبندیوں کی عقیدہ کے مستند کتاب المہند علی المفند ان کے عقیدے کے کفریہ اور شرکیہ ہونے پر دال ہے۔ اس کے علاوہ ان کا وحدت الوجودی صوفی ہونا بھی انکے پیچھے نماز سے مانع ہے۔٭جس کی بدعت مکفرہ ہو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں اور جس کی غیر مکفرہ ہو تو جائز ہے ۔
ہمیں حیرت ہے کہ پچھلے زمانے میں تو معلومات تک رسائی مشکل ہونے کے سبب کچھ لوگ دیوبندیوں کے عقائد سے لاعلم رہ گئے تھے لیکن اس دور میں جب دیوبندیوں کے عقائد کھل کر سامنے آچکے ہیں اور ان تک رسائی بھی بہت آسان ہے تو اب دیوبندیوں کے پیچھے نماز ہوجانے کے فتوؤں کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟؟؟ اگر اب بھی یہاں کوئی شخص جو دیوبندیوں کے پیچھے نماز کا حامی و قائل ہے اور واقعی دیوبندیوں کے عقائد سے نا واقف ہے تو ہماری اس بحث کے بعد اس کا لاعلمی کا عذر ختم ہوجاتا ہے۔ دیوبندیوں کے پیچھے نماز ہونے یا نہ ہونے کے مسئلہ کی توضیح اور تشریح کے بعد بھی اگر کوئ اپنے سابقہ غلط موقف پر ڈٹا ہوا ہے تو ہم اس کی ہدایت کے لئے اللہ کے حضور دعا ہی کرسکتے ہیں۔
آخر میں عرض ہے کہ بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے سے متعلق صحابہ،تابعین و تبع تابعین سے جتنے بھی دلائل منقول ہیں وہ سب اس بدعتی کے بارے میں ہیں جس کی بدعت کفر تک نہ پہنچتی ہو۔ دیوبندی عقائد میں کفر و شرک رکھنے کی وجہ سے ان دلائل کے مستحق قرارنہیں پاتے۔ بلکہ بدعت مکفرہ کے حاملین کے دلائل ہی دیوبندیوں پر فٹ آتے ہیں۔