• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعتی اور فتنے میں مبتلا شخص کی امامت؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جزاکم اللہ خیرا محمد ارسلان بھائی اور تمام مواحدین برادران اللہ تعالی آپ لوگوں کو سلامت رکھے آمین ؟؟
آمین ثم آمین

اللہ تعالیٰ آپ کو بھی سلامت رکھے۔موحدین کی صحیح باتوں سے موحدین ہی اتفاق کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے آمین۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اصل میں ہم نے اہل حدیث عوام کا جو زہریلا ذہن تیار کر دیا ہے ،اسی کا نتیجہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اب وہ علما کے اس موقف کع بھی ہضم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ دیوبندیوں کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے!!
سچی بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جو بہت زیادہ حیران کر دینے والے ہیں اور میں زمانۂ طالب علمی ہی سے اس میں غور و فکر کرتا رہا ہوں لیکن کوئی واضح بات سمجھ میں نہ آتی تھی؛ان کچھ عرصہ پہلے یہ بات بالکل آئینہ ہو گئی ہے کہ جب تک کوئی شخص مسلمان ہے،اس کے پیچھے نماز بالکل جائز ہے۔میں اس ضمن میں دیوبندیوں ،بریلویوں اور شیعوں میں کوئی تفریق نہیں کرتا کہ ان میں سے کسی کی بھی صریح تکفیر نہیں کی گئی یا کم ا زکم اس پر اجماع و اتفاق نہیں ہو سکا؛اصل یہ ہے کہ ہر کلمہ گو مسلمان ہے الا یہ کہ وہ ضروریات دین کا منکر ہو؛ہاں اگر وہ کسی نواقض اسلام میں سے ناقض کا ارتکاب کرتا ہے تو پھر بھی جب تک تکفیر کے شرائط اور موانع کا جائزہ لے کر اس پر کافر ہونے کا حکم نہیں لگایا جاتا ،وہ مسلمان ہی شمار ہو گا اور اسےمسلمان کے حقوق حاصل رہیں گے؛پس قادیانیوں اور اسماعیلیوں کے سوا ہمارے یہاں موجود تمام کلمہ گو گروہ مسلمان ہیں اور ان کی اقتدا میں نماز جائز۔
لیکن اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ ان گروہوں کے کفریہ اور شرکیہ عقائد و اعمال کو صحیح سمجھ لیا جائے اور ان پر نقد نہ کیا جائے؛ بالکل ہونا چاہیے اور بریلوی،دیوبندی اور شیعہ کے مسائل و نظریات کی غلطی پوری طرح پر واضح کرنا چاہیے؛علما نے جو کام کیا ہے ،وہ اسی نوعیت کا ہے کہ اصول سمجھا دیے جائیں اور حق کی وضاحت ہو جائے؛یہ معنی نہیں کہ انھیں باقاعدہ کافر و مشرک کہا جائے۔
جہاں تک افضل یا غیر افضل ہونے کا تعلق ہے تو یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن سردست یہ ذہن میں رکھیں کہ ہر اہل حدیث ہونے کا مدعی بھی ضروری نہیں کہ فاسق نہ ہو؛اس میں بھی فسق ہو سکتا ہے بل کہ فکر و عقیدہ کے باب میں بھی وہ سخت بدعتی ہو سکتا ہے؛ہم تو بدعت کو محض بریلوی دیوبندی تناظر میں دیکھتے ہیں لیکن جمہوریت،اشتراکیت اور لبرل ازم بھی بدعات میں شمار ہوتے ہیں (ان کی وہ صورتیں جنھیں اسلامائز کر لیا گیا ہے) اور اس طرح کے کتنے ہی مدعیان اہل حدیث موجود ہیں!!
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
صل میں ہم نے اہل حدیث عوام کا جو زہریلا ذہن تیار کر دیا ہے ،اسی کا نتیجہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اب وہ علما کے اس موقف کع بھی ہضم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ دیوبندیوں کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے!!
سچی بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جو بہت زیادہ حیران کر دینے والے ہیں اور میں زمانۂ طالب علمی ہی سے اس میں غور و فکر کرتا رہا ہوں لیکن کوئی واضح بات سمجھ میں نہ آتی تھی؛ان کچھ عرصہ پہلے یہ بات بالکل آئینہ ہو گئی ہے کہ جب تک کوئی شخص مسلمان ہے،اس کے پیچھے نماز بالکل جائز ہے۔میں اس ضمن میں دیوبندیوں ،بریلویوں اور شیعوں میں کوئی تفریق نہیں کرتا کہ ان میں سے کسی کی بھی صریح تکفیر نہیں کی گئی یا کم ا زکم اس پر اجماع و اتفاق نہیں ہو سکا؛اصل یہ ہے کہ ہر کلمہ گو مسلمان ہے الا یہ کہ وہ ضروریات دین کا منکر ہو؛ہاں اگر وہ کسی نواقض اسلام میں سے ناقض کا ارتکاب کرتا ہے تو پھر بھی جب تک تکفیر کے شرائط اور موانع کا جائزہ لے کر اس پر کافر ہونے کا حکم نہیں لگایا جاتا ،وہ مسلمان ہی شمار ہو گا اور اسےمسلمان کے حقوق حاصل رہیں گے؛پس قادیانیوں اور اسماعیلیوں کے سوا ہمارے یہاں موجود تمام کلمہ گو گروہ مسلمان ہیں اور ان کی اقتدا میں نماز جائز۔
شرک کرنے والے کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا ۔تو ان کے پیچھے ہماری نماز کیسے قبول ہوگی
( وَمَن يَكْفُرْ بِالإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ) المائدة/ 5
ترجمہ: اور جس نے بھی ایمان کے بجائے کفر اختیار کیا اس کا وہ عمل برباد ہوگیا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
( وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ ) الزمر/ 65
ترجمہ: آپ کی طرف یہ وحی کی جا چکی ہے اور ان لوگوں کی طرف بھی جو آپ سے پہلے تھے، کہ اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کے عمل برباد ہوجائیں گے اور آپ خسارہ اٹھانے والوں میں شامل ہوجائیں گے۔
اور آپ کی شیخ زبیر علی زئی اور شیخ بدالدین راشدی اور شیخ توصیف الرحمن حافظ عبداللہ
بہاولپوری کے بارے میں کیا رائے ہے


اہل بدعت(مکفرہ) کی اقتداء میں نمازادانہ کرنا

اہل بدعت میں سے جن کی بدعت کفر کی حد تک پہنچتی ہے ان کی اقتداء میں ادا کی گئی نماز باطل ہے اور پڑھی گئی نماز کو دہرانا واجب ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللہِ شٰہِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ بِالْكُفْرِ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ وَفِي النَّارِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ۝ اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللہَ فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِيْنَ ﴾(التوبۃ:۱۷،۱۸)
’’مشرکوں کا یہ کام نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں وہ تو خود اپنے اوپر کفر کی شہادت دے رہے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے سب اعمال ضائع ہو گئے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے ۔اللہ کی مساجد کو آباد کرنا ان کا کام ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ،نماز قائم کی ،زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے ‘امید ہے ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہوں گے ۔‘‘
اسی لیے ائمہ سلف نے غالی جہمیہ ،رافضہ اور قدریہ کی اقتداء میں نماز کے باطل ہونے کا فتوی دیا ہے ۔
1۔واثلۃ بن السقع رحمہ اللہ سے قدری کے پیچھے نماز کے بارے میں سوال کیا گیا توآپ نے فرمایا :’’اس کے پیچھے نماز ادا نہیں کی جائے گی اور اگر (انجانے میں)اس کے پیچھے پڑھ لوں تو میں دہرائوں گا ۔‘‘(شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ ‘ج :۲‘ص:۷۳۱)
2۔امام بربہاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اگر جمعہ کے دن تیرا امام جہمی ہو اور وہ وقت کا سلطان ہو (یعنی تو اس کے پیچھے نماز ادا کرنے پر مجبور ہو)تو پھر اس کے پیچھے نماز پڑھ لے اور پھر اسے دہرا ۔‘‘(شرح السنۃ:۴۹)
3۔امام ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اصل یہ ہے کہ اہل اہواء کی اقتداء جائز ہے سوائے جہمیہ ،قدریہ ،غالی روافض ،خلق قرآن کے قائل ،خطابیہ ،مشبہ اور اس بدعتی کے جو اپنی بدعت میں غلو کرتا ہوا کفر کے درجہ کو جاپہنچے ۔باقی ماندہ لوگوں کی اقتداء میں نماز جائز مگر ناپسندیدہ ہے ۔‘‘(بحرالرائق شرح کنز الدقائق ،ج:۱ص:۳۷۰)
4۔سلام بن أبی مطیع رحمہ اللہ سے جہمیہ کے متعلق سوال کیا گیا‘ تو آپ نے فرمایا’’ وہ کفار ہیں ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔‘‘(السنۃ لعبداللہ بن أحمد ۱/۱۰۵)
5۔شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ فرماتے ہیں:جو کوئی قبر والوں سے استغاثہ کرتا ہے یعنی اپنی مشکلات میں اسے اپنی مدد کے لیے پکارتا ہے یا ان کی نذر و نیاز دیتا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح نہیں کیونکہ وہ مشرک ہے اور مشرک کی نہ امامت درست ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے نماز اور کسی مسلم کے لیے جائز نہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھے۔(فتاویٰ اللجنہ جمع و ترتیب احمد بن عبد الرزاق الدویش فتوی نمبر [9336]
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
لیکن اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ ان گروہوں کے کفریہ اور شرکیہ عقائد و اعمال کو صحیح سمجھ لیا جائے اور ان پر نقد نہ کیا جائے؛ بالکل ہونا چاہیے اور بریلوی،دیوبندی اور شیعہ کے مسائل و نظریات کی غلطی پوری طرح پر واضح کرنا چاہیے؛علما نے جو کام کیا ہے ،وہ اسی نوعیت کا ہے کہ اصول سمجھا دیے جائیں اور حق کی وضاحت ہو جائے؛یہ معنی نہیں کہ انھیں باقاعدہ کافر و مشرک کہا جائے۔
۔شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ فرماتے ہیں:جو کوئی قبر والوں سے استغاثہ کرتا ہے یعنی اپنی مشکلات میں اسے اپنی مدد کے لیے پکارتا ہے یا ان کی نذر و نیاز دیتا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح نہیں کیونکہ وہ مشرک ہے اور مشرک کی نہ امامت درست ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے نماز اور کسی مسلم کے لیے جائز نہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھے۔(فتاویٰ اللجنہ جمع و ترتیب احمد بن عبد الرزاق الدویش فتوی نمبر [9336]
6۔شیخ عبدالعزیز بن بازرحمہ اللہ اور ان کی لجنۃ سے بریلوی جماعت کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دریافت کیا گیا جن کا عقیدہ یہ ذکر کیا گیا کہ:
۱)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں۔ (۲)آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر ہیں۔ (۳)یہ لوگ قبر والوں سے حاجت روائی کی درخواست کرتے ہیں۔ (۴)قبروں پر گنبد بناتے ہیں اور چراغ روشن کرتے ہیں۔ (۵)یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں۔ (۶)رفع الیدین کرنے والے اور آمین بالجہر کرنے والے سے ناراض ہوتے اور اسے وہابی کہتے ہیں۔ (۷ ) و ضو اور اذان میں نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر انگوٹھے چومتے ہیں۔
ایسے عقائد کے حاملین کے پیچھے نماز کے متعلق شیخ صاحب فرماتے ہیں:’’جس شخص کے یہی حالات ہوں، اس کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز ہے اور اگر کوئی نمازی اس کی اس حالت سے واقف ہونے کے باوجود اس کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح نہیں کیونکہ سوال میں مذکورہ امور میں سے اکثر کفریہ اور بدعیہ ہیں جو اس توحید کے خلاف ہے جسے دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اور جو اس نے اپنی کتابوں میں بیان فرمائی۔[فتاویٰ دارالافتاء سعودی عرب: 256/2]
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
سلفی علما میں دو رائیں موجود ہیں کہ جو غیر اللہ سے استغاثہ کرتا ہے وہ معین طور پر کافر ہے یا اسے کافر قرار دینے کے لیے اتمام حجت کرنا ضروری ہے؛ابن باز بریلوی ٹائپ لوگوں کو معین کافر کہتے ہیں لیکن ابن عثیمین نہیں کہتے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
اجمالی طور پر میرا موقف یہ ہے کہ ان فرقوں کے عوام کو جہالت کا عذر دیا جائے گا اور ان کے عالموں کو تاویل کا؛ہاں اگر آپ انھیں صریح کافر سمجھتے ہیں تو پھر نماز ہی نہیں بل کہ دیگر تمام احکام بھی کافروں والے لاگو ہوں گے؛مثلاً ان کا جنازہ نہیں پڑھا جائے گا؛نہ انھیں سلام کیا جائے گا؛نہ سلام کے جواب میں مسلمانوں والا سلام کہا جائے گا؛اگر اس طرح کا کوئی شخص آپ کے رشتہ داروں میں ہے تو اس کی وراثت بھی نہیں لیں گے اور نہ اسے دیں گے؛ نہ اس کا ذبیحہ جائز ہو گا۔اگر یہ سب باتیں کہتے ہیں تو بسم اللہ،ورنہ صرف نماز ہی پر آپ کیوں بھڑک اٹھتے ہیں۔باقی جن علما نے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا موقف اختیار کیا ہے ،وہ مجتہد ہیں ؛میں ان کی راے کو کم زور سمجھتا ہوں اور انھیں اپنے اجتہاد میں ماجور؛ان شاءاللہ
 
Top