عبداللہ کشمیری
مشہور رکن
- شمولیت
- جولائی 08، 2012
- پیغامات
- 576
- ری ایکشن اسکور
- 1,657
- پوائنٹ
- 186
جزاکم اللہ خیرا محمد ارسلان بھائی اور تمام مواحدین برادران اللہ تعالی آپ لوگوں کو سلامت رکھے آمین ؟؟
آمین ثم آمینجزاکم اللہ خیرا محمد ارسلان بھائی اور تمام مواحدین برادران اللہ تعالی آپ لوگوں کو سلامت رکھے آمین ؟؟
اس کتاب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے
شرک کرنے والے کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا ۔تو ان کے پیچھے ہماری نماز کیسے قبول ہوگیصل میں ہم نے اہل حدیث عوام کا جو زہریلا ذہن تیار کر دیا ہے ،اسی کا نتیجہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اب وہ علما کے اس موقف کع بھی ہضم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ دیوبندیوں کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے!!
سچی بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جو بہت زیادہ حیران کر دینے والے ہیں اور میں زمانۂ طالب علمی ہی سے اس میں غور و فکر کرتا رہا ہوں لیکن کوئی واضح بات سمجھ میں نہ آتی تھی؛ان کچھ عرصہ پہلے یہ بات بالکل آئینہ ہو گئی ہے کہ جب تک کوئی شخص مسلمان ہے،اس کے پیچھے نماز بالکل جائز ہے۔میں اس ضمن میں دیوبندیوں ،بریلویوں اور شیعوں میں کوئی تفریق نہیں کرتا کہ ان میں سے کسی کی بھی صریح تکفیر نہیں کی گئی یا کم ا زکم اس پر اجماع و اتفاق نہیں ہو سکا؛اصل یہ ہے کہ ہر کلمہ گو مسلمان ہے الا یہ کہ وہ ضروریات دین کا منکر ہو؛ہاں اگر وہ کسی نواقض اسلام میں سے ناقض کا ارتکاب کرتا ہے تو پھر بھی جب تک تکفیر کے شرائط اور موانع کا جائزہ لے کر اس پر کافر ہونے کا حکم نہیں لگایا جاتا ،وہ مسلمان ہی شمار ہو گا اور اسےمسلمان کے حقوق حاصل رہیں گے؛پس قادیانیوں اور اسماعیلیوں کے سوا ہمارے یہاں موجود تمام کلمہ گو گروہ مسلمان ہیں اور ان کی اقتدا میں نماز جائز۔
۔شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ فرماتے ہیں:جو کوئی قبر والوں سے استغاثہ کرتا ہے یعنی اپنی مشکلات میں اسے اپنی مدد کے لیے پکارتا ہے یا ان کی نذر و نیاز دیتا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح نہیں کیونکہ وہ مشرک ہے اور مشرک کی نہ امامت درست ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے نماز اور کسی مسلم کے لیے جائز نہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھے۔(فتاویٰ اللجنہ جمع و ترتیب احمد بن عبد الرزاق الدویش فتوی نمبر [9336]لیکن اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ ان گروہوں کے کفریہ اور شرکیہ عقائد و اعمال کو صحیح سمجھ لیا جائے اور ان پر نقد نہ کیا جائے؛ بالکل ہونا چاہیے اور بریلوی،دیوبندی اور شیعہ کے مسائل و نظریات کی غلطی پوری طرح پر واضح کرنا چاہیے؛علما نے جو کام کیا ہے ،وہ اسی نوعیت کا ہے کہ اصول سمجھا دیے جائیں اور حق کی وضاحت ہو جائے؛یہ معنی نہیں کہ انھیں باقاعدہ کافر و مشرک کہا جائے۔