و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ،السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
۔
اس استدلال پر مجھے یہ شعر یاد آ گیا:ہمارے نزدیک کسی بھی دیوبندی کے پیچھے نماز جائز نہیں کیونکہ اگر وہ اپنے کفریہ اور شرکیہ عقائد نہ بھی جانتا ہو تو کم ازکم اتنا ضرور جانتا ہے کہ وہ مقلد ہے اور مقلد پر تقلید واجب ہے۔ تقلید کو واجب سمجھنا اور کہنا شریعت سازی ہے۔ دین میں شریعت سازی کفر ہے۔ ۔
غور کیجئے کہ یہاں شیخ وصی اللہ عباس حفظہ اللہ اہل حدیث صحیح العقیدہ مسلمان کی موجودگی میں تبلیغی جماعت کے کسی بھی فرد کو امام بنانے سے منع کر رہے ہیں ،پھر آگے چل کر وہ فرماتے ہیں کہ "اگر ایسی مسجد نہیں تو باجماعت نماز نہ چھوڑیں"یہاں پر درمیان میں جو وضاحتی الفاظ میں تبلیغیوں کے پیچھے پڑھ لیں لکھا ہوا ہے یہ ابوبکر بھائی کا اپنا فہم ہے۔شیخ صاحب کی بات کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر اہلحدیث کی مسجد نہیں لیکن اہلحدیث ایک سے زیادہ کی تعداد میں رہتے ہیں تو وہ کسی کمرے میں یا کسی کھلی جگہ پر جماعت کراسکتے ہیں۔سائل: حیاک اللہ یا شیخ! ٹورنٹو، کینیڈا میں جہاں ہم رہتے ہیں وہاں سب سے قریب ترین مسجد تبلیغی جماعت (دیوبندیوں) کی ہے؟
شیخ: تبلیغی جماعت؟
سائل: جی تبلیغی جماعت۔ تو جو بات ہم پوچھنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ کیا ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟
شیخ: اگر جہاں آپ رہتے ہیں وہاں کوئی صحیح العقیدہ لوگوں کی مسجد ہوتو پھر تبلیغی جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ لیکن اگر قریب میں ایسی کوئی مسجد نہ ہو تو پھر جماعت سے نماز پڑھنا نہ چھوڑیں (خواہ تبلیغی جماعت کے پیچھے ہو)۔ میں پھر دوہرا دیتا ہوں کہ اگر کوئی مسجد ہو تو ایسے بدعتی عقائد نہیں رکھتے تو پھر تبلیغی جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھیں، لیکن اگر ایسی مسجد نہیں تو پھر (انہی تبلغیوں کے پیچھے پڑھ لیں) باجماعت نماز کو نہ چھوڑیں۔اور آج کے اس دور میں صرف سلفی لوگوں کا ہی صحیح عقیدہ ہوتا ہے۔
ابوبکر بھائی ! شاہد نزیر بھائی نے سابقہ پوسٹس میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ دیوبندیوں کی بدعت صغرہ نہیں بلکہ بدعت مکفرہ ہے اور ان کے عقائد مشرکانہ بھی ہیں۔سلفیوں کے علاوہ جو لوگ ہوتے ہیں ان کے عقیدے میں (اگر کفر نہیں تو)کم از کم کوئی نہ کوئی بدعت ضرور ہوتی ہے۔ (ہر جگہ آپ کو سلفی نہیں ملیں گے تو کہاں جائیں گے) لہذا محض عقائد میں بعض بدعات کا پایا جانا تبلیغی جماعت کے پیچھے باجماعت نماز چھوڑنے کا عذر نہیں بن سکتا۔ اور آپ اور میں اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جو بدعات تبلیغی جماعت کے عقائد میں پائی جاتی ہے۔ مگر پھر بھی ان کے پیچھے باجماعت نماز چھوڑنے کی محض اسے وجہ نہیں بنانا چاہیے۔
یہاں جو شیخ صاحب نے ابوداود اور دارقطنی کے حوالے سے جو حدیث مبارکہ پیش کی ہے اس کی سند کے بارے میں بتائیں؟ہر نیک وبد کے پیچھے نماز پڑھ لو" (ابو داود، دارقطنی) یہ محض ایک حدیث نہیں بلکہ یہ ہمارا عقیدہ ہے، سمجھے آپ؟
یہ شیخ صاحب کی اپنی رائے ہے،اور غور کریں شیخ صاحب بار بار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ صحیح العقیدہ لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے کی کوشش کرو چاہے وہ تھوڑے ہی کیوں نہ ہو۔پس ان کے پیچھے نماز پڑھا کریں جو غلطیاں ان کی ہیں وہ انہی کے سر ہیں، اور جو صحیح بات آپ کی ہے وہ آپ کے لیے ہے۔ مگر اسے جماعت چھوڑنے کا عذر نہ بنائیں۔ بایں صورت آپ مجبور کے حکم میں ہے کہ اگر کوئی صحیح العقیدہ لوگوں کی مسجد نہیں تو آپ مجبوراً ان تبلیغی جماعت والوں بدعتیوں کے پیچھے ہی نماز پڑھ رہے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو صحیح العقیدہ لوگ مل جائیں کہ جن کی مسجد میں جماعت ہوتی ہے اگرچہ جماعتیوں کی تعداد بہت تھوڑی ہی کیوں نہ ہو آپ انہی کے پیچھے نماز پڑھیں۔
شیخ صاحب یہاں فرما رہے ہیں کہ وہ وقت پر نماز ادا کریں تو اور ہم جانتے ہیں کہ دیوبندی و بریلوی وقت پر نماز ادا کرنے کے معاملے میں اختلاف کا شکار ہیں۔فجر ،ظہر،عصر اور عشاء کی نمازوں میں اہلحدیث کی مساجد اور ان احناف کی مساجد کے وقت میں کتنا فرق ہوتا ہے یہ آپ لوگ جانتے ہیں۔سوال: اہلحدیث مسجد دور ہونے کی صورت میں قریب بریلوی اور دیوبندی مسجد ہیں کیا وہاں نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: اگر وہ نماز وقت پر اور سکون سے پڑھاتے ہیں کہ صحیح طور پر ارکان ادا کرسکیں تو پڑھ سکتے ہیں۔
شیخ صاحب اگر غلطی چھوٹی سی ہو تو شاید آپ کی بات ٹھیک ہے ،جیسے گالی گلوچ،یا کوئی فسق کا کام ۔لیکن اگر غلطی بڑی ہو جیسے سائل کہہ رہا ہے کہ ان کے عقائد درست نہیں تو یہ غلطی اتنی بڑی ہے کہ تمام اعمال کی بربادی کا سبب ہے۔سوال: اہلحدیث علماء کرام کی کتب موجود ہیں کہ دیوبندیوں کے پیچھے نماز جائز نہیں ان کے عقائد صحیح نہیں؟
جواب: غلطیاں تو ہر ایک میں موجود ہوتی ہیں خود ہم میں بھی کچھ نہ کچھ ہوں گی۔ نماز ہوجاتی ہے ان کے پیچھے۔
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَٰلًۢا بَعِيدًا﴿116﴾ترجمہ: اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کردے اور جس نے اللہ کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا (سورۃ النساء،آیت 48)
ترجمہ: اللہ اس کے گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کو چاہیے گا بخش دے گا۔ اور جس نے اللہ کے ساتھ شریک بنایا وہ رستے سے دور جا پڑا (سورۃ النساء،آیت 116)
وحدت الوجود اتنا گندا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھیں وحدت الوجود کے بارے میں محمد اقبال کیلانی صاحب لکھتے ہیں:۔سوال: لیکن شیخ ان کے شرکیہ وحدت الوجود جیسے عقائد ہیں؟
جواب: معلوم ہے ان کے اس قسم کے عقائد ہوتے ہیں بہرحال تاویلات وغیرہ موجود ہوتی ہیں لہذا صریح حکم تو لگانا درست نہیں۔
استغفراللہاور امام کے بدعقیدہ ہونے سے آپ کے عقیدے پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا وہ تو اس تک ہی محدود ہے۔ آپ کا عقیدہ تو صحیح ہے آپ کی تو نماز بہرحال ہوجائے گی۔
گویا نہ صرف یہ کہ ان کے نیک اعمال ضائع ہوں گے بلکہ عقیدہ کفر کی وجہ سے انہیں دردناک عذاب بھی دیا جائے گا اور کوئی ان کی مدد یا سفارش بھی نہیں کر سکے گا۔سورہ انعام میں انبیائے کرام علیھم السلام کی مقدس جماعت حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت اسحق علیہ السلام،حضرت یعقوب علیہ السلام،حضرت نوح علیہ السلام،حضرت داؤد علیہ السلام،حضرت سلیمان علیہ السلام،حضرت ایوب علیہ السلام،حضرت یوسف علیہ السلام،حضرت موسی علیہ السلام،حضرت ہارون علیہ السلام،حضرت زکریا علیہ السلام،حضرت یحیی علیہ السلام،حضرت اسماعیل علیہ السلام،حضرت یسع علیہ السلام،حضرت یونس علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر خیر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:ترجمہ: جو لوگ کافر ہوئے اور کفر ہی کی حالت میں مر گئے وہ اگر (نجات حاصل کرنی چاہیں اور) بدلے میں زمین بھر کر سونا دیں تو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ان لوگوں کو دکھ دینے والا عذاب ہو گا اور ان کی کوئی مدد نہیں کرے گا (سورۃ آل عمران،آیت 91)
شرک کی مذمت میں قرآن مجید کی دیگر آیات ملاحظہ ہوں:ترجمہ: اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے سب ضائع ہوجاتے (سورۃ انعام،آیت 88)
فَلَا تَدْعُ مَعَ ٱللَّهِ إِلَٰهًا ءَاخَرَ فَتَكُونَ مِنَ ٱلْمُعَذَّبِينَ ﴿213﴾ترجمہ: اور بے شک آپ کی طرف اور ان کی طرف وحی کیا جا چکا ہے جو آپ سے پہلے ہو گزرے ہیں کہ اگرتم نے شرک کیا تو ضرور تمہارے عمل برباد ہو جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گے (سورۃ الزمر،آیت 65)
مذکورہ بالا آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر سید المرسلین حضرت محمد ﷺ کو مخاطب کر کے بڑے فیصلہ کن اور دو ٹوک انداز میں یہ بات ارشاد فرما دی ہے (جس کا مفہوم ہے) کہ شرک کا ارتکاب اگر تم نے بھی کیا تو نہ صرف یہ کہ تمہارے سارے نیک اعمال ضائع کر دیے جائیں گے بلکہ دوسرے مشرکین کے ساتھ جہنم کا عذاب بھی دیا جائے گا۔ترجمہ: سو الله کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار ورنہ تو بھی عذاب میں مبتلا ہو جائے گا (سورۃ شعراء،آیت 213)
سورہ نساء کی ایک آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ: جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں (سورۃ المائدہ،آیت72)
ان دونوں آیتوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ الہ تعالیٰ کے ہاں شرک ناقابل معافی گناہ ہے ،شرک کے علاوہ کوئی دوسرا گناہ ایسا نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ناقابل معافی قرار دیا ہو یا جس کے ارتکاب پر جنت حرام کر دی ہو۔ترجمہ: اللہ اس کے گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کو چاہیے گا بخش دے گا۔ اور جس نے اللہ کے ساتھ شریک بنایا پس تحقیق دور کی گمراہی میں جا پڑا(سورۃ النساء،آیت116)
بدعقیدہ شخص کے پیچھے صحیح العقیدہ شخص کی نماز کیسے ہو گی؟اس کی کوئی دلیل ہے؟ترجمہ: پیغمبراور مسلمانوں کو یہ بات مناسب نہیں کہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں جب کہ ان پر ظاہر ہو گیا ہے کہ وہ دوزخی ہی (سورۃ التوبہ،آیت 113)
بریلویوں اور دیوبندیوں کے مشترکہ عقائد ہیں اس کے لیے توصیف الرحمن راشدی حفظہ اللہ کی درج ذیل بادلائل تقریر ملاحظہ فرمائیں۔سوال: بریلوی مساجد میں واضح شرکیات پر عمل ہورہا ہوتا ہے؟
جواب: ہاں ان کے پیچھے نہ پڑھیں مجبوری میں ان کے بجائے دیوبندیوں کے پیچھے پڑھنا بہتر ہے۔
اس فتوے کی رو سے وہ تمام کتابیں ،تقاریر،تحریریں عبث و بے کار ہیں جو بریلویوں اور دیوبندیوں کے خلاف لکھی گئی ہیں،کیونکہ اگر ہم کسی بریلوی کو دعوت توحید و سنت دیں تو ہمیں وہ یہ فتوی بطور سند دکھا سکتا ہے کہ دیکھو جناب ہم اپنے نزدیک ہی نہیں تمہارے معتبر علماء کے نزدیک بھی اہل سنت ہیں۔استغفراللہسوال:اگر قریب کوئی اہلحدیث مسجد نہ ہو تو کیا ہم قریبی دیوبندی مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: دیوبندی بریلوی احناف اہل سنت والجماعت میں سے ہیں
خان صاحب بریلوی اس امت سے کون سی امت مراد لے رہے ہیں؟
اگر اس سے مراد خان صاحب جیسے اصحاب ضلال اور گمراہ لوگوں کی امت ہےتو خیر،اور اگر ان کی اس سے مراد علماء و ماہرین حدیث ہے،تو ان کے متعلق تو ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے اس حدیث کو قبول کیا ہو۔اور پھر یہ کس نے کہا ہے کہ امت کے کسی حدیث کو قبول کرلینے سے اس کی سند دیکھنی کی حاجت نہیں رہتی؟(بریلویت از علامہ احسان)
ان کی باتیں بھی قرآن و سنت کے خلاف مانتے ہیں ،انہیں گمراہ بھی قرار دیتے ہیں پھر بھی ان کے پیچھے نماز پڑھنے کے قائل ہیں۔کفر و شرک سے زیادہ اور کیا گمراہی ہو گی؟جو باتیں ان کی قرآن وحدیث کے خلاف ہیں وہ گمراہیاں ہیں لیکن یہ کافر ومشرک نہیں ہیں۔
یہاں میں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ شیخ صاحب کی اپنی رائے ہے اس پر انہوں نے کوئی دلیل پیش نہیں کی بلکہ ساتھ یہ وضاحت بھی کی ہے کہ دیگر علماء اہلحدیث دیوبندیوں کے پیچھے نماز ہو جانے کے قائل نہیں تو ایسے علماء کا موقف بھی جاننا چاہیے ۔پہلے سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیں:
سوال: ہمارے گھر کے قریب کوئی اہلحدیث مسجد موجود نہیں تو کیا ہم دیوبندی مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟ اس بارے میں اہلحدیث علماء کرام کی مختلف رسائل پڑھیں ہیں کوئی جائز کہتا ہے توکوئی ناجائز، صحیح مؤقف سے آگاہ فرمائیں؟
جواب: اگر اہلحدیث مسجد موجود نہ ہو تو دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے یہی صحیح مؤقف ہے، جماعت کو کسی طور پر چھوڑنا جائز نہیں۔ اگرچہ بعض سندھ کے اور کچھ پنجاب کے بھی اہلحدیث علماء اس کے مخالف مؤقف رکھتے ہیں کہ یہ بہت بڑے بدعتی لوگ ہیں کہ ان کے پیچھے نماز بالکل ناجائز ہے۔
یعنی تاویل کر کے آپ وحدت الوجود جیسے گندے عقیدے کو صحیح ثابت کرنے میں اپنی تمام کوششیں صرف کریں گے۔نعوذباللہوحدت الوجود تو تاویل کا مسئلہ ہے اس کی مختلف تاویلات کرتے ہیں لہذا صریح حکم نہیں لگتا ورنہ آپ میاں نذیر حسین دہلوی " پر کیا حکم لگائیں گے وہ بھی تو مولوی بشیرالدین سے مناقشے کے بعد ان کی بتائی ہوئی ایک معقول سی تعریف پر اس نظریے کے قائل ہوگئے تھے
رسول اللہ ﷺ کو قبر میں زندہ ماننا ،ان سے دعائیں کرنا،التجائیں کرنا ،مدد مانگنا،پکارنا،شرکیہ وظائف پڑھنا ،قبر میں رہتے ہوئے اُمتی کی ہر بات سننا اور مشکلات و حاجات حل ہونے کا عقیدہ رکھنا آپ کے نزدیک محض ایک معمولی سی بدعت ہے جس کا اثر نماز تک بھی نہیں پڑتا؟ لا حول ولا قوۃ الا باللہ ،استغفراللہسوال: اس کے علاوہ بھی شرکیہ عقائد بیان ہوتے ہیں جیسے عقیدہ حیات النبی e؟
جواب: یہ بھی زیادہ سے زیادہ بدعت ہے کفر نہیں بدعت غیرمکفرہ ہے
سبحان اللہسوال: اور قبروں سے فیض ملنے کا عقیدہ جیسے المفند میں ہے کہ خواص کو قبروں سے فیض ملتا ہے؟
جواب: ہم تو فیض کے قائل نہیں وہ ہوں تو ہوں ہم نے تو نہیں دیکھا امام کو کہ قبروں سے فیض لیتا ہے تو جائز ہے نماز۔
جبکہ ان دونوں فرقوں کے مشرکانہ عقائد ایک جیسے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں شیخ راشدی صاحب کی یہ تقریر۔"علمائے بریلویت و دیوبندیت کے مشترکہ عقائد"سوال: اور اگر بریلوی ودیوبندی میں سے کسی مسجد کو اختیار کرنا ہو؟
جواب: تو دیوبندیوں کے پیچھے پڑھنا زیادہ بہترہے کہ ظاہر شرکیات موجود نہیں ہوتیں۔
غور کیجئے !یہاں شیخ صاحب نے نہ تو قرآن کی کسی آیت کو دلیل پیش کیا ہے نہ کسی صحیح حدیث مبارکہ کو ،بلکہ اپنی پریشانی کو بطور سند پیش کیا ہے۔لاحول ولا قوۃ الا باللہسوال: جی انہی علماء نے علماء دیوبند کے غلط عقائد المفند کی تصدیق بھی کی تھی۔۔
جواب: جی، تو آپ ان سے پوچھیں کہ اس وقت بھی تو علماء اہلحدیث حج وعمرہ پر جاتے تھے تووہ انہی کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ بریلوی دیوبندی تو بتاتے ہیں اپنے اکابرکا کہ وہ وہاں پڑھتے تھے ان سے بھی پوچھیں۔ میرا اس پر مقالہ بھی ہے مقالات میں اسے پڑھ لیں۔ اس قسم کا حکم لگانے سے کتنی پریشانی ہوتی ہے کہ ہم سفر میں ہیں کسی دوسرے علاقے میں ہیں اور ڈھونڈتے پھر رہے ہیں کہ اہلحدیث مسجد کدھر ہے۔ اسکے پیچھے نمازنہیں ہوتی اس کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔
جی بالکل!اوپر کی پوسٹس ملاحظہ فرمائیں۔جی ہاں۔ شوق سے ان پر نفیس رد پیش کیجئے گا۔ کیونکہ اھل الحدیث ہی اصل اھل السنة ہیں اور اھل السنة کا منہج مشہور ہے کہ عقل سے پہلے نقل۔ اس اصول کو یاد رکھتے ہوئے رد کیجئے گا۔
بھائی جان کیا صحیح مسئلہ نہ بتانا جہالت نہیں؟مگر اس طرح اس کو جہالت کہنا صحیح نہیں۔
توبہ کرنے کی توفیق اللہ کی طرف سے ہے۔اسطرح آپ رجوع کرنے کا راستہ بند کردیتے ہیں۔
چار سال تک آپ اس موقف کے قائل نہیں رہے پھر چار سال بعد کون سے ایسے دلائل کی روشنی میں آپ نے اپنے موقف کو بدلا ذرا ہمیں بھی بتائیے،اگر وہ دلائل اوپر دئے گئے فتاوی جات ہیں تو گزارش ہے کہ دوبارہ تحقیق کیجئے کیونکہ ان فتاوی جات میں قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں صرف ذاتی رائے ہے ۔پہلے کسی مسئلہ پر مکمل تحقیق کیجئے اور پھر اس پر کوئی حکم لگایئے میں آپ کی اطلاع کے لئے عرض کر دوں کہ میں پچھلے چار سال تک اسی موقف کا قائل رہا ہوں کہ اھل البدعة میں فرقہ دیوبندیہ کے پیچھے نماز جائز نہیں۔
الحمدللہمگر اھل الحدیث کے روشن منہج کی وجہ سے الحمدللہ حق کو اپنایا ہے
آپ اس معتدل موقف کی کوئی دلیل قرآن و سنت سے دے سکتے ہیں؟میں سمجھتا ہوں کہ یہی موقف حق ہے کہ جس کا اسلام ظاہری عمل سے ثابت ہے اسکے پیچھے نماز جائز ہے۔ یہی ایک معتدل موقف ہے۔
یہ قاعدہ کہاں سے آیا ہے ؟ہم نے ایک قاعدہ بیان کیا ہے اور اُس قاعدہ کو ہی سب پر منطبق کیا ہے۔
کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے میں نے کون سی حد پار کی ہے ؟یہ بات اچھی ہے کہ اھل بدعت کے لئے سختی اپنائی جائے مگر حد سے آگے نہ جایا جائے۔
سبحان اللہاھل البدعہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انکو حق پر سمجھتے ہیں۔
یہ بات آپ نے کیسے کہہ دی بھائی۔اس کی کوئی دلیل ہے آپ کے پاس ؟بلکہ اھل البدعة کے پیچھے نماز پڑھ لینا اھل السنة کے عقیدہ میں سے ہے۔
یہ احادیث ہیں یا اقوال ،پہلے اس بات کی وضاحت کریں پھر بات ہو گی۔ان شاءاللہنری الصلاۃ خلف کل اھل القبلۃ برا کان او فاجرا(تمام اہل قبلہ کے پیچھے ہم نماز پڑھنا جائز سمجھتے ہیں خواہ نیک ہو یا بد)۔
کل من صحت صلاتہ صحت الصلاۃ خلفہ (جس کی اپنی نماز صحیح ہے اس کے پیچھے نماز صحیح ہے)۔
لیکن اس کے اطلاق پر شدید اختلاف ہے۔ کیونکہ آپ کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھنے والے دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز سمجھتے ہو جن دیوبندیوں کو لاعلم کہہ آپ اپنے موقف کے لئے دلیل بناتے ہو وہ دیوبندی حقیقت میں دیوبندی ہیں ہی نہیں بلکہ غیر دیوبندی ہیں خود علمائے دیوبند کے نزدیک بھی اور ہمارے نزدیک بھی۔ جس کی تفصیل میں سابقہ پوسٹس میں پیش کرچکا ہوں جس کو آپ نے علم الکلام کہہ کر جان چھڑالی ہے۔جس بدعتی کی بدعت اُس کو کفر تک نہ پہنچاتی ہو اُس کے پیچھے نماز جائز ہے۔
میرے پیارے بھائی شاہد نذیر۔میں سمجھتا ہوں کہ ارسلان بھائی کی معقول باتوں کو یکدم مبنی بر جہالت کہہ کر رد کردینا ظلم عظیم ہے۔
[/COLOR]
١۔ کیا تمام دیوبندی کافر مشرک ہیں؟لیکن اس کے اطلاق پر شدید اختلاف ہے۔ کیونکہ آپ کفریہ اور شرکیہ عقائد رکھنے والے دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز سمجھتے ہو
آپ کی اس بات سے کچھ نکات واضح ہوئے کہجن دیوبندیوں کو لاعلم کہہ آپ اپنے موقف کے لئے دلیل بناتے ہو وہ دیوبندی حقیقت میں دیوبندی ہیں ہی نہیں بلکہ غیر دیوبندی ہیں خود علمائے دیوبند کے نزدیک بھی اور ہمارے نزدیک بھی۔ جس کی تفصیل میں سابقہ پوسٹس میں پیش کرچکا ہوں جس کو آپ نے علم الکلام کہہ کر جان چھڑالی ہے۔
اس طرح کی باتیں کر کے آپ ایک کشادہ نظریہ رکھنے والے قاری کو تحریر سے متنفر نہیں کر سکتے کیوئنکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت آنکھ سے وہ سب کچھ پڑھ سکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آپ کا مضمون جسے آپ فیصلہ کن قراردے رہے ہیں ان میں دئے گئے علماء کے موقف آپس میں نہیں ملتے
اس مضمون کا خلاصہ ہے کہ:اور نہ ہی آپ کا موقف اس مضمون کے مطابق ہے۔
اگر اس طرح کے جملوں سے آپ کے دل کو تسلی ہوتی ہو تو آپ ایسا ہی سمجھ لیجئے۔ مگر قارئین منصف مزاجی سے اگر اس مکمل بحث کا مطالعہ کریں تو ان شاء اللہ صحیح مؤقف تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ آپ کا مضمون اور آپکا موقف تضادات کا مجموعہ ہے۔
یہ بھی ایک بہتان ہے۔ ہم نے قطعی طور پر دیوبندیوں کے شرک و کفر کو اسلام نہیں کہا۔ بلکہ ہم تو انکا رد کرتے ہیں۔ اور شرک کو شرک اور کفر کو کفر کہتے ہیں۔ مگر ہمارے سوال کے جوابات آپ نہیں دیتے ہم نے پوچھا تھا کہ جس طرح مرزا غلام احمد قادیانی کافر ہے اسی طرح کیا احمد رضا خان بریلوی اور مولانا اشرف علی تھانوی بھی کافر ہیں؟آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ اللہ کے واسطے دیوبندیوں کے کفر اور شرک کو مشرف بہ اسلام کرنے کی نامراد کوشش نہ کریں۔ والسلام