اگر آپ کے پاس کوئی صریح دلیل موجود نہیں، بلکہ یہ کسی آیت کریمہ یا حدیث مبارکہ (مثلاً بدعتی کے تعظیم وغیرہ) سے آپ کا اخذ کردہ مفہوم ہے تو فہم حدیث کو حدیث کہنا بہت بڑی جسارت ہے۔
آپ کے پاس کون سی دلیل ہے جس کی رو سے وحدت الوجودی، اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کے منکر، قبروں سے فیض حاصل کرنے جیسے کفریہ اور شرکیہ عقیدہ رکھنے والےدیوبندی کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔ ابھی تک آپ نے وہ دلیل پیش نہیں کی؟
آپ کو کچھ اندازہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، امام بخاری اور حسن بصری رحمہ اللہ کے ذمہ آپ اپنے باطل استدلال کے ذریعے کافر اور مشرک کے پیچھے نماز ہوجانے کا مسئلہ لگارہے ہیں؟
جن احادیث مبارکہ سے آپ نے یہ مفہوم سمجھا کہ بدعتی کے پیچھے نماز نہیں ہوتی، یہ مفہوم سیدنا عثمان، سیدنا حسن بصری اور امام بخاری نے نہیں سمجھا، بلکہ وہ دیگر احادیث مبارکہ کے مفہوم سے یہ بات سمجھے ہیں کہ بدعتی کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔
ہمارا تو نہیں خیال کے اس قدر جلیل القدر ہستیاں دینی غیرت و حمیت سے محروم اور قرآن وحدیث کی تعلیمات سے بے بہرہ تھیں۔(نعوذباللہ من ذالک) کہ دیوبندی جیسے بدعتی جس کی بدعت کفر اور شرک تک پہنچ چکی ہو کے پیچھے نماز ہوجانے کے قائل تھیں اور ان نفوس قدسیہ کی یہ سمجھ بھی احادیث مبارکہ کے مفہوم کی وجہ سے تھیں۔
بہرحال فہم میں اختلاف ہو جاتا ہے، یہ کوئی بڑی بات نہیں لیکن اس اختلاف کی بناء پر اتنی شدّت مناسب نہیں۔ جیسے شاہد نذیر بھائی نے کہا کہ یہ انتہائی نامعقول اور بے ہودہ فتویٰ ہے۔
میں نے جواب میں عرض کیا ہے کہ رائے کا اختلاف ہو سکتا ہے، اور دونوں (مدلل) آراء میں ترجیح کی بات تو کی جا سکتی ہے لیکن کسی ایک رائے کو بے ہودہ اور نا معقول قرار دینا کسی طور صحیح نہیں؟
یہ فہم کا اختلاف نہیں ہے۔ فہم کا اختلاف اسی صورت ممکن ہے کہ جب دونوں طرف دلائل موجود ہوں یا دلائل مبہم اور غیر واضح ہوں۔ یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ دلائل واضح اور غیر مبہم ہیں اور دوسری طرف دلائل کا کوئی وجود ہی نہیں ۔ آپ کی معلومات میں اضافے کے لئے عرض ہے کہ دیوبندی جیسے بدعتیوں کے پیچھے نماز نہ ہونے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ سعودی شیخ عبدالعزیر بن عبداللہ الراجحی نے فرمایا:
بدعت مکفرہ والے بدعتی کے پیچھے نماز کے صحیح نہ ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔(شرح رسالہ کتاب الایمان ١- ٢٥٣شاملہ)
امت مسلمہ کے اس اجماع کے خلاف چند حضرات کے خیالات اور فتوؤں سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ان شاء اللہ
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!
آمین
اگر درج بالا اقتباس آپ کا ہی ہے تو آپ کا مطالبہ یہ تھا کہ کسی ایک صحابی کا فتویٰ پیش کیا جائے کہ اہل بدعت کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔
جسے میں نے پورا کر دیا (سیدنا عثمان والی موقوف حدیث رئیس الخوارج کے پیچھے نماز ہوجانے سے متعلّق) تو پھر یہ تھریڈ غیر متعلّق کیوں؟؟؟
بے شک میں نے یہی مطالبہ کیا تھا۔ محترم اختلاف صرف دیوبندی جیسے بدعتی کے پیچھے نماز ہونے یا نہ ہونے پر شروع ہوا ہے۔ لہذا اگر آپ غور فرماتے تو آپ کو ایک ایسے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کے جواز پر صحابی کی روایت پیش کرنی تھی جس کی بدعت مکفرہ ہو اور اس کے عقیدے میں بھی کفر اور شرک پایا جاتا ہو۔ اب آپ خود ہی انصاف فرمائیں کہ آپ نے میرا مطالبہ پورا کردیا ہے؟؟؟
آپ نے جو حدیث حدیث پیش کی ہے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا فتویٰ اور امام بخاری کا استدلال، اسے اس بدعتی پر محمول کیا جائے گا جس کی بدعت صغرہ ہو کبری نہ ہو۔ یعنی ایک ایسے بدعتی کے پیچھے مجبوری میں نماز جائز ہے جو صحیح العقیدہ ہو اور اس کی بدعت کفر تک نہ پہنچتی ہو۔ اگرچہ بہتر بات یہی ہے کہ مجبوری میں بھی ایسے شخص کےپیچھے نماز ادا نہ کی جائے کیونکہ اگر صحیح العقیدہ لوگ ایسے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھیں گے تو عام لوگ اس شخص کو اور اس کی بدعت کو درست خیال کرنے لگیں گے۔ جس سے لوگوں کی گمراہی کا اندیشہ ہے۔ قوام السنہ اسماعیل بن محمد بن الفضل الاصبہانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
اور اصحاب الحدیث (یعنی اہل حدیث) کی رائے میں اہل بدعت کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے تاکہ عوام اسے دیکھ کر خراب نہ ہوجائیں۔(الحجہ فی بیان المحجۃ و شرح عقیدہ اہل السنہ، ٢-٥٠٨)
اس بات کا مختصر ذکر میں پچھلی پوسٹ میں بھی کرچکا ہوں لہذا آپ کو سمجھ جانا چاہیے تھا۔ لیکن آپ اپنے استدلال پر بضد ہیں۔
میری اپنے عزیز بھائی سے گزارش ہے کہ میں نے امام بخاری کی رائے (ترجمہ الباب إمامة المفتون والمبتدع) بمعہ احادیث اور مکمل ترجمہ پیش کر دیا ہے،
اگر میں نے ترجمہ میں کوئی غلطی کی ہے
یا کوئی شے چھپانی کی کوشش کی ہے
یا امام بخاری کی کوئی اور رائے ہے جو میں سمجھ نہیں سکا
یا سمجھ تو لی لیکن ’کچھ ذاتی اغراض‘ یا تعصّب وغیرہ کی بناء پر دوسروں کو مغالطہ دینا چاہا تو
ازراہِ کرام آپ میری اصلاح فرما دیجئے میں ان شاء اللہ! اپنی غلطی پر اصرار نہیں کروں گا، بلکہ تسلیم کر لوں گا۔
آپ نے نہ ترجمہ غلط کیا ہے اور نہ ہی کچھ چھپانے کی کوشش کی ہے۔ بلکہ آپ نے بدعت صغری کے مرتکب کے پیچھے نماز پڑھنے والے دلائل کو بدعت مکفرہ کے مرتکب کے پیچھے نماز پڑھنے کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ آپ خود ہی بتادیں کہ یہ مغالطہ اور دھوکہ بازی نہیں تو کیا ہے؟؟؟
آپ کا دعویٰ دیوبندی کے پیچھے نماز پڑھنے کا ہے تو دلیل بھی تو دعویٰ کے مطابق ہونی چاہیے۔
کچھ گزارشات دیوبندی کے متعلق بھی کردوں تاکہ ہر شخص کو بحث سمجھنے میں آسانی ہوجائے۔
دیوبندی اصل میں وہ شخص ہے جو دیوبندیوں کے مسلمہ عقائد و اصول کو مانتا ہو۔ دیوبندیوں کے لسٹ سے وہ شخص خارج ہے جو ان کے مسلمہ عقائد میں سے کسی ایک عقیدہ کا بھی منکر ہو۔ جیسے دیوبندیوں کے حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلمہ عقیدے سے جب کچھ دیوبندیوں نے انحراف کیا تو دیوبندیوں نے انہیں اپنی جماعت سے خارج کرکے دیوبندی تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور انہیں مماتی فتنہ قرار دیا۔ حتی کے اپنی اس معاملے کو اہل حدیث کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے مماتیوں کو غیرمقلدین کا ذیلی فرقہ قراردے دیا۔
١۔ مفتی محمد وجیہ دیوبندی رسالہ ’’عقائد علماء دیوبند‘‘ پر بطور تصدیق لکھتے ہیں:
حال میں پیدا ہونے والی تلبیس کا ازالہ فرما کر امت پر احسان فرمایا اور واقعی اور غیر واقعی دیوبندی میں امتیاز فرمایا۔ (عقائد علماء دیوبند، صفحہ ١٤٤)
معلوم ہوا جو شخص المہند علی المفند میں درج شدہ عقائد کو نہیں مانتا وہ دیوبندی نہیں ہے۔
٢۔ مولانا سید صادق حسین دیوبندی صاحب فرماتے ہیں:
جو واقعی اہل سنت والجماعت کےعقائد ہیں۔ احقر ان تمام عقائد میں اپنے اسلاف کی اتباع کرنا ہی عین نجات سمجھتا ہے۔(عقائد علماء دیوبند، صفحہ١٤٥)
٣۔ عبدالکریم دیوبندی رقم طراز ہیں:
مولف مدظلہ کو افسوس ہے کہ علماء دیوبند کے ان اجماعی عقائد کی کھلی مخالفت کرنے والے اپنے آپ کو دیوبند ہی کہلانے پر اصرار کرتے ہیں۔(عقائد علماء دیوبند، صفحہ١٥٣)
٤۔ عبدالشکور ترمذی نے ایک رسالہ عقائد علماء دیوبند کے نام سے لکھا ہے جو خلیل احمد سہانپوری کی کتاب المہند علی المفند سے ماخوذ اور اسی کے ساتھ مطبوع ہے۔ اس رسالے کے مقدمے میں عبدالشکور دیوبندی لکھتے ہیں:
اسی طرح یہ بھی واضح ہوگا کہ اصلی دیوبندیت کیا ہے اور اس زمانہ میں بعض مقررین جن عقائد کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔اس کو اصلی دیوبندیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔(عقائد علماء دیوبند، صفحہ١١٠)
ان تمام حوالہ جات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جو شخص علمائے دیوبند کے مسلمہ اصولوں یا کسی ایک بھی اصول کو نہیں مانتا وہ دیوبندی کہلانے کا حق دار نہیں ہے چاہے وہ لاکھ خود کو دیوبندی کہتا ہو۔ اب دیوبندیوں کے کفریہ اور شرکیہ عقائد پر نظر ڈالتے ہیں۔
١۔ المہند علی المفند کے مطابق دیوبندی اللہ کے لئے جحت اور مکان کی نفی کرتے ہیں جبکہ بخاری کی ایک حدیث سے اللہ کے لئے جحت اور مکان دونوں ثابت ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لونڈی کے بارے میں یہ جاننے کے لئے کہ آیا وہ مسلمان ہے یا نہیں دو سوال کئے کہ اللہ کہاں ہےاور میں کون ہوں۔جس میں سے پہلے سوال کے جواب میں لونڈی نے انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کیا یعنی اللہ آسمانوں میں عرش پر مستوی ہے۔ دیوبندی اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کے منکر ہیں اور اللہ ہر جگہ ہے کا عقیدہ رکھتے ہیں جو کہ اللہ کے ساتھ کھلا کفر ہے۔ الیاس گھمن دیوبندی نے لکھا ہے:
ہم نے عقیدہ بیان کیا میں کہتا ہوں اللہ ہر جگہ پر ہے۔(خطبات گھمن،جلد١، صفحہ ٢٠٠)
دیوبندیوں کی مستند کتاب الفقہ الاکبر میں خود ابوحنیفہ بھی اس شخص کو کافر کہتے ہیں جو اللہ کو عرش پر نہیں مانتا۔ یعنی دیوبندی اپنے امام کے نزدیک بھی کافر ہیں۔
٢۔ دیوبندیوں کا ایک مسلمہ عقیدہ قبروں سے فیض حاصل کرنے کا بھی ہے یہ بھی المہند علی المفند میں درج ہے۔ یہ واضح طورپرشرکیہ عقیدہ ہے۔
٣۔ دیوبندی پکے وحدت الوجودی ہیں ان کے تمام اکابرین اس عقیدہ پر متفق تھے۔ عبدالحمید سواتی دیوبندی لکھتے ہیں: ع
لماء دیوبند کے اکابر مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا مدنی اور دیگر اکابر مسئلہ وحدۃ الوجود کے قائل تھے۔(مقالات سواتی،حصہ اول، ص٣٧٥)
وحدت الوجود کا عقیدہ بدترین شرکیہ اور کفریہ عقیدہ ہے۔
٤۔ دیوبندیوں نے اپنے مذہب کی بنیاد تقلید کی بدعت پررکھی ہے جسے یہ واجب قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے عملی طور پر اپنے امام کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے۔ یہ اپنے امام کے اقوال کے سامنے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو کوئی حیثیت نہیں دیتے اس کے تسلی بخش دلائل موجود ہیں۔ چند دلائل یہاں ملاحظہ کریں:
جی ہاں! حنفی اپنے امام، ابوحنیفہ کی عبادت کرتے ہیں!!! ان لوگوں نے جس بدعت کو جزو مذہب بنا رکھا ہے یعنی تقلید وہ بھی کفر تک پہنچ چکی ہے۔
٥۔ دیوبندی غیر اللہ سے استعانت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔تفصیل کےلئے دیکھئے امداد المشتاق، ارواح ثلاثہ اور کلیات امدادیہ
دیوبندیوں کے ان کفریہ اور شرکیہ عقائد جاننے کے بعد وہ کون بدبخت ہے جو اپنی نمازوں کو ان بدعتیوں کے پیچھے ادا کرکے ضائع کردے؟؟؟
جہاں تک دلائل کی کمزوری کی بات ہے تو یہ امام بخاری کا فہم ہے جو انہوں نے باب کے تحت دی گئی احادیث مبارکہ سے سمجھا۔
میں بھی ان کے اس استدلال کو صحیح سمجھتا ہوں۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
یہ امام بخاری کا فہم نہیں ہے اور نہ ہی اس باب کے تحت دی گئی حدیث سے ایسا کوئی مطلب نکلتا ہے کہ دیوبندیوں جیسے بدعتی اور کفریہ اور شرکیہ عقائد کے حاملین کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے۔ یہ آپکا اپنا غلط استدلال اور نادرست فہم ہے جسے آپ ناحق امام بخاری رحمہ اللہ کے سر ڈالنے کی کوشش فرما رہے ہیں۔
باقی جوابات جلد ان شاء اللہ