• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بدعت کی حقیقت

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جناب شیح احمد سرہندی المعروف بہ (مجدد الف ثانی کا فتویٰ)
خواجہ عبدالرحمٰن مفتی کابل کو سنت کی پیروی اور بدعت سے پرہیز کرنے اور ہر بدعت کے سیئہ ہونے میں لکھا ہے۔
آپ کا مکتوب فارسی میں ہے ،فرماتے ہیں۔بندہ حق سبحانہ وتعالیٰ سے عاجزی، انکساری ،زاری اور محتاجی سے پوشیدہ اور ظاہر سوال کرتاہے کہ جو چیزدین میں نئی اور بدعت نکالی گئی ہے جو خیرالبشر اور خلفاء علیہ وعلیھم الصلوات والتسلیمات کے زمانے میںنہ تھی۔اگرچہ اس کی روشنی صبح صادق کی طرح ہواللہ تعالیٰ اس ضعیف اور اس کے ساتھ علاقہ رکھنے والوں کو اس نئی بات میں گرفتار نہ کرے اور اس بدعت کے فتنہ میں نہ ڈالے۔
ُ
لوگ کہتے ہیں کہ بدعت دو قسم پر ہے ۔حسنہ اور سیئہ
حسنہ اس نیک کام کو کہتے ہیںجو رسول اللہﷺاور خلفاء راشدین علیہ وعلیہم الصلوٰ ۃوالتسلیماۃ کے زمانہ کے بعد ہوئی یہ سنت کی رافع نہیں اور سیئہ وہ ہے جو سنت کواٹھائے ،یہ فقیر کسی بدعت میں خوبی اور روشنی مشاہدہ نہیں کرتاصرف تاریکی اور گندگی محسوس کرتاہے اگر بالفرض بدعت کا کام آج کے دن بینائی کی کمزوری سے تروتازہ نظر آئے۔قیامت کے دن جب لوگ تیز نظر ہوجائیں گے اُس وقت معلوم کریںگے کہ سوائے پشیمانی اور نقصان کے کچھ نتیجہ نہ تھا۔
؎ وقت صبح شود ہمچو روز معلومت کہ باکہ باخستہ عشق درشب ویجور
سید البشر علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
''مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِناَ ھٰذا مالَیْسَ مِنْہ فَھُوَ رَدٌ ''
ُٔ جو شخص اس دین میں نئی بات نکالے وہ مردود ہے
جو چیز مردود ہوخوبی اس میں کس طرح پیداہوسکتی ہے(اس کے بعد دو حدیثیں جو بدعت کے ضمن میں وارد ہوئی ہیں لکھ کر فرماتے ہیں۔جس وقت ہر نئی بات بدعت ہوئی اور ہر بدعت گمراہی پس بدعت میں خوبی کہاں سے آئی؟ حدیث سے ایسامعلوم ہوتاہے کہ ہر بدعت سنت کو مٹانے والی ہے کسی خاص بدعت کی خصوصیت نہیں ۔پس ہر بدعت سیئہ ہوئی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
شاہ ولی اللہؒ نے بدعات کی تین قسمیں بیان کی ہیں.
ایک بدعت حسنہ۔اس کی مثال تراویح سے دی ہے۔
دوسری قسم مباح جیسے کھانے پینے پہننے کی نئی عادات
تیسری قسم جس میں ترکِ مسنون اور تحریف ِمشروع ہو۔
پہلی قسم کو بدعت کہنا لغوی معنے کے اعتبار سے ہے نہ کہ شرعی معنے کے لحاظ سے اور دوسری قسم کو بھی لغت کے لحاظ سے بدعت کہاگیا ہے۔کیوںکہ بدعت شرعیہ کا تعلق امر دین سے ہوتا ہے نہ کہ امور عادیہ سے جو امور دنیا سے ہیں۔تیسری قسم واقعی بدعت شرعیہ اور قبیحہ ہے اور اس کی تعریف میں جو لفظ ترکِ مسنون یا تحریفِ مشروع کہا ہے اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ شاہ ولی اللہؒ کے نزدیک بدعت قبیحہ وہی ہے جس میں خاص نہی کی مخالفت کی جاوے بلکہ اس میں ترک مسنون اور تحریف مشروع ہونا کافی ہے۔ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ بدعت امور دین میں جاری ہوتی ہے جب کوئی امر دین بلا اذن شرع پیدا ہوگا۔اس میں تین طر ح سے تحریف تبدیل اور مخالفتِ شریعت ہوگی ۔
سنت تر کیہ کی مخالفت سے
بدعت کی ممانعت میں جو ادلّہ وارد ہوئی ہیں ان کی مخالفت سے
۳۔ نص پر زیادتی کرنے سے نص مطلق کی مخالفت سے
اور اس قسم کی بدعت لامحالہ سنت کو اٹھانے والی ہوتی ہے۔امام شافعی ؒ نے جو بدعت محمودہ اور ضلالہ کا ذکر فرمایا ہے ۔آپ نے بدعت کا ایسا معنے لیا ہے جوہماری تعریف سے عام ہے اور بدعت ضلالہ جس کو کہاہے ۔ہمارے نزدیک وہی بدعت شرعیہ ہے اور امام شافعی کی عبارت میں جو بدعت ضلالہ کی تعریف میں مخالفت کا لفظ بولاہے اس کا معنے وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے نہ وہ معنی جو اہل بدعت مراد لیتے ہیںاس طرح ابن اثیر نے لفظ بدعت ضلالہ کا بدعت قبیحہ کے لئے استعمال کیا ہے۔اس سے مراد بدعت شرعیہ ہے کیونکہ بدعت شرعیہ ہمیشہ اصولِ شریعت اور سنت کے مخالف ہوتی ہے اور جو نیا کام ادلّہ شرع سے ثابت ہواس کو شرعاً بدعت نہیں کہتے اگر لغت کے اعتبار سے اس پر اطلا ق کیا جائے تو اس صورت میں اس کوبدعت مذمومہ یا سیئہ یا قبیحہ نہیں کہا جائے گا۔
جن علماء نے بدعت کی تقسیم کی ہے اور بدعت کو حسنہ اور سیئہ کہا ہے ان علماء نے یا تو بدعت کا معنی لغوی لیا ہے یا بدعت شرعیہ کی ایسی تعریف کی ہے جو ان علماء کی تعریف سے عا م ہے جو بدعت کی تقسیم کے قائل نہیں بلکہ ہر بدعت کو ضلالت سئیہ اور قبیحہ کہتے ہیں۔یہ نزاع اصل میں لفظی ہے حقیقی نہیں جو ایک فریق کے نزدیک نیا کام بدعت قبیحہ ہے جو تقسیم کے قائل ہیںوہ اس کو بدعت سیئہ کہتے ہیںاور جو تقسیم کے قائل نہیں وہ اس کو بدعت کہتے ہیں اور گمراہی کیونکہ ان کے نزدیک ہر بدعت گمراہی ہے مگر آج کل جو اہل بدعت نے بدعت کی تعریف کی ہے۔وہ حقیقت میں وہی تعریف ہے جو ان علماء نے کی ہے جو تقسیم کے قائل نہیں مگر یہ لوگ تعریف تو وہی کرتے ہیں مگر ساتھ ساتھ تقسیم کے بھی قائل ہیں یعنی اس بدعت کی تقسیم کے قائل ہوگئے جو سب علماء کے نزدیک بدعت قبیحہ ہے پھر اپنی طر ف سے بدعت کی ایک اور تعریف بھی بنائی ہے جو ان کے بیان کے مطابق بدعت قبیحہ کے بعض اقسا م کو بھی شامل ہے اور بعض کو شامل نہیں اور اپنی جگہ اس کو بدعت شرعیہ کی تعریف سمجھتے ہیں۔ہمارے مذکورہ بالا بیان سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ امور عبادیہ میں ہر نیا کام عدم ثبوت شرعی اور بعض جگہ عدم فعل سرورکائنات سے ناجائز اور بدعت ہو جاتا ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
عبداللہ ابن عباس ؓ بدعت کارد فرماتے ہیں:
علامہ شاطبی ـؒ الموافقات ص۱۴ ج۴ میں لکھتے ہیں کہ امام طائوس سے مروی ہے کہ وہ عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھ رہے تھے تو انہیں عبداللہ ابن عباس ؓ نے فرمایا ان کا پڑھنا ترک کردو اس پر طاؤس ؒ نے کہا کہ ان سے اس لئے روکا گیا ہے کہ انہیں سنت نہ بنا لیا جائے۔تو ابن عباس ؓ نے فرمایا:
'' قد نھی رسول اللّٰہﷺ عن صلوۃ بعد العصر فلا ا دری تعذب علیھا ام توجر لان اللّٰہ قال وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللّٰہ ورسولہ امراان یکون لھم الخیرۃمن امرھم ومن یعص اللّٰہ و رسولہ فقدضل ضلالا مبیناً'' (الاحزاب:۳۶)
کہ رسول اللہ ﷺنے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایاہے۔پس مجھے معلو م نہیں کہ تجھے ان کے پڑھنے پر عذاب ہوگا یا اجروثواب ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کے لائق نہیں کہ جب اللہ اور اس کارسول کسی کا م کا فیصلہ فرمادیںتو اس پر ان کو اپنے معاملے کا کچھ اختیار ہو۔اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ابن عباسؓ کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلے کے بعد کسی تاویل کی گنجائش نہیں اوراسلامی احکام میں ایسا کرنا تعمّق کے قبیل سے ہے جو بالآخر تحریف ِشریعت پر منتج ہوتا ہے اور نصوص کو ایک طریقہ سے معطل کر نا ہے۔
عودالی المقصد:
مولوی صاحب نے بدعت کی جو آسان پہچان یہ ذکر کی ہے کہ کسی عبادت کے اندر اگر تبدیلی ہو یا اسکی ترتیب میں الٹ پھیر ہو جیسے قیام رکوع سجود کی ترتیب نہ رہے یا اس کے أوراد و وظائف میں تقدیم تاخیر ہو تو یہ تبدیلی رافع سنت ہے۔لیکن اگر کسی مشروع عبادت وذکر کے آگے پیچھے اضافہ ہو تو یہ رافع سنت بھی نہیں اور بدعت بھی نہیں۔
حالانکہ اس میں اتباع سنت سے محرومی اور بدعت کے ارتکاب سے دو گناہ سرزد ہو رہے ہیں اور گذشتہ صفحات میں ثابت کیا گیاہے کہ بدعت اصلی ہو یاوصفی مشروع عبادت کے اندر ہو یا باہر ہر طرح بدعت کا احداث وایجادرافع سنت اور دین میں تبدیلی ہے۔
بلکہ بقول مجدد الف ثانیؒ رافع فرض بھی ہے چنانچہ ہم موصوف کے مغالطہ کو دور کرنے کے لئے
شیخ عبدالحق محدث دہلوی وضاحت فرماتے ہیں:
شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ کی شرح مشکوۃ۔أشعۃ اللمعات سے پیش کرتے ہیں کہ آپ اس حدیث شریف
مَاأَحْدثَ قومُ بدْعۃً اِلاَّ رفعَ مثلُھا من السُنّۃِ
(کہ کوئی قوم بدعت ایجاد نہیں کرتی مگر اس کے مثل سنت اٹھالی جاتی ہے) کی شرح میں فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم موذن کو اذان کہتے سنو تو ویسے ہی جواب میں کلمات کہو یا (ما سوٰی حیعلتین کے کہ وہاں جواب میں لاحول ولاقوۃ الا با للہ کہنا ہے)جیسے موذن کہتا ہے اور موذن کا آخری کلمہ اذان میں لا الہ اِلا اللہ ہے اس کے ساتھ محمد رسول اللہ نہ کہو کیونکہ یہ اضافہ موذن اور مجیب ہر دو کے لئے احداث (بدعت) ہوگا اور یہی رافع سنت ہے یعنی اس سے سنت اٹھ جاتی ہے ۔
اب بادشاہ لوگ اذان کے اندر تبدیلی کو تو بدعت رافع سنت کہتے ہیںلیکن اذان سے باہر اضافہ کو تبدیلی اور رافع سنت نہیں سمجھتے اور نہ اسے بدعت شرعی سے تعبیر کرتے ہیںجبکہ تمام علماء اسلام بشمول الشیخ عبد الحق محدث دہلویؒ موذن اور مجیب کیلئے اس محمد رسول اللّٰہ کے لفظوں کے اضافے کو بدعت شرعی ضلالت گمراہی اور مذموم مانتے ہیں اور اسے رافع سنت فرماتے ہیں جبکہ یہ رسالت ہی کااقرار توہے جس کی اصل قرآن وحدیث میں موجود ہے اور یہ کلمہ طیبہ کی جز ء ہے اور اسکے بغیر ایمان صحیح نہیں ہوتا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا الشیخ محدث دہلویؒ کو رسول اللہ ﷺ سے محبت نہ تھی لیکن اصل بات یہ ہے کہ وہ محبت کیسی جو اطاعت پر آمادہ نہ کرے اور یہ محبت کیسی جو بے خود کردے اور حقوق ِمصطفیﷺ کو پامال کرکے اطاعت سے سرتابی پر گامزن کردے اور اعمال کے ضیاع سے غافل کردے ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دین ِاسلام میں بدعت ایجاد کرنے پر وعیداور سزا:
'' عن انسؓ قال بینما رسول اللّٰہ ﷺ ذات یوم بین اظھرنا اذ اغفی اغفاء ثم رفع راسہ مبتسما فقلنا ما اضحکک یا رسول اللّٰہ قال انزلت علی انفا سورۃ فقرء بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم انا اعطیناک الکوثر السورۃ قال اتدرون ما الکوثر قلنااللّٰہ ورسولہ اعلم قال نھروعدنیہ ربی عزوجل فیہ خیرکثیر ھو حوض تردعلیہ امتی یوم القیمۃ آنیتہ عدد النجوم فیختلج العبد ای ینتزع و یقطع منھم فاقول انہ من امتی فیقال انک لا تدری ما احدث بعدک''
(رواہ الترمذی والبخاری و مسلم فی صحیحھما )
سیدناانس ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن جب کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تھے اچانک آپ پر غنودگی طاری ہوئی پھر آپ نے تبسم فرماتے ہوئے سر اٹھایا تو ہم نے کہا آپ کو یا رسول اللہﷺ کس چیز نے ہنسا دیا پس فرمایا۔ابھی مجھ پر ایک سورۃ نازل کی گئی اور آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سورۃ الکوثر کی تلاوت فرمائی پھر فرمایا تم جانتے ہو کیا کہ الکوثر کیاہے تو ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔فرمایایہ ایک نھر ہے جس کا میر ے ساتھ میرے رب تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔اس میں بہت بڑی خیر ہے۔یہ حوض ہے اس پر میر ی امت کے لوگ حاضر ہوںگے قیامت کے دن اس کے برتن ستاروں کی تعداد کے برابر ہیں ان میں کوئی بندہ دور ہٹایا جائے گاتو میں کہوں گا کہ یہ میری امت ہے پس کہا جائے گا آپ کو معلوم نہیں اس نے آپ کے بعد کیا کچھ بدعات ایجاد کیں تھیں۔
دوسری روایت میں ہے۔پھر میں کہوں گا
سحقاسحقالمن غیربعدی دینا (متفق علیہ)
دوری اور پھٹکار ہے اس کیلئے جس نے میر ے بعد دین میں تبدیلی کی!
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا ہے کہ احداث یعنی دین میں نئی چیز پیداکرنا اس کا تعلق اعتقاد سے ہو یا عمل سے دین میں تبدیلی کرناہے۔قطع نظر اس کے کہ تبدیلی مشروع عمل کے اندر ہو یا باہر اور اس گناہ سے رسول اللہ ﷺ سے آب ِکوثر نوش کرنے سے محرومی ہے۔لہذاہر مسلمان امتی کو ہمیشہ آپﷺ کی سنن مبارکہ کی اتباع کرنی چاہیے اورہر قسم کے ابتداع اور احداث سے اجتناب کرنا چاہیے۔تاکہ آپ کے مبارک ہاتھوں سے آب کوثر سے نوش کریں۔
دعاہے کہ اللہ عزوجل اس محرومی سے بچائے اور حوض کوثر کے مشروب سے فیض یاب ہونے کی سعادت عنایت فرمائے۔آمین ثم آمین
لیکن اس نعمت سے متبعین سنت ہی حظ اٹھائیں گے۔
خیر امور الدین ماکان سنۃ وشرالامور المحدثات البدائع
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بدعت ارتداد کا پیش خیمہ:
محتر م حافظ عبدالمنّان نور پوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں۔ اس حدیث سے عام طور پر احداث فی الدین اور ابتداع مرادلی جاتی ہے جبکہ صحیح بخاری میںکئی مقامات پر اس حدیث کے اندر اِرْتَدُّوا کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔جن سے ثابت ہوتاہے ''ما احدثوابعدک سے مراد اِرْتَدّواہے و اللہ اعلم
معلوم ہوا کہ احداث فی الدین یعنی بدعت کا ارتکاب ارتداد کا پیش خیمہ ثابت ہوتاہے اور دونوں ضلالت اور موجب حرمان شفاعت نبوی ﷺ ہیں۔العیاذباللہ العظیم
رفع اختلاف کا اصول:
اختلاف کے رفع کرنے کیلئے صرف اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی حَکَم ہوسکتے ہیں۔
قرآن مجید میں ہے
{ومااختلفتم فیہ من شی فحکمہ اِلی اللّٰہ} ( سورۃ شوریٰ)
ہر اختلافی امر کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔
دوسری جگہ فرمایا:
{ فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللّٰہ والرسول ان کنتم تومنون باللّٰہ والیوم الاخر ذالک خیر واحسن تاویلا}
اگر کسی شئی میں نزاع ہو تواس کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے کرانا چاہیے یہ مفید اور نتیجہ کے لحاظ سے اچھا ہے۔
ایک جگہ فرمایا :
{فلا وربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوافی انفسھم حرجا مماقضیت ویسلموا تسلیما } ( نسائ)
تیرے رب کی قسم یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک تجھے ہر جھگڑے میں فیصل نہ بنالیں پھر تیر ے فیصلے سے دل میں تنگی محسوس نہ کریں اور پورے طور پر تسلیم نہ کرلیں۔
پہلی آیت مبارکہ کے مطابق ہر دینی امر کیلئے شارع ہی سے ثبوت کا تقاضا ہے۔دوسری آیت کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ دین میں کوئی امر رائے سے ثابت نہیں ہوتا ۔تیسری آیت مبارکہ سے یہ راہنمائی ملتی ہے کہ جو شخص سنت چھوڑ کر بدعت اختیار کرتا ہے۔پیغمبر کا حکم نہیں مانتا آپ کے فیصلہ سے دل میں تنگی محسوس کرتا ہے اور آپ کے فیصلے اچھی طرح تسلیم نہیںکرتا قرآن مجید نے اسی کا نام بے ایمانی رکھاہے۔ایسی مجالس کی شمولیت جن میں بدعات کا ارتکاب ہو بدعات پر مشتمل مجالس میں شامل ہونا بوجہ بدعت کے حرام قرآن مجید سورۃ انعام میں فرمان باری تعالیٰ ہے (فلا تقعدوا بعد الذکری مع القوم الظالمین) یاد آنے کے بعد (یانصیحت پانے کے بعد)ظالم قو م کے ساتھ مت بیٹھو۔
دوسر ی جگہ فرمایا:
{ اذاسمعتم آیات اللّٰہ یکفربھا ویستھزء بھا فلا تقعدوا معھم حتی یخوضو فی حدیث غیرہ انکم اذامثلھم} (النسائ)
جب اللہ کی آیات کے بارے میں کفر اور استھزاء کی باتیں سنو تو ان کے ساتھ مت بیٹھو۔یہاں تک کہ وہ کوئی اوربات شروع کریں،اگر تم ایسی مجلس میں بیٹھ گئے پھر تم بھی ویسے ہوگئے۔
''قال الضحاک عن ابن عباس دخل فی ھذہ الایۃ کل محدث فی الدین وکل مبتدع الی یوم القیمۃ'' (ابن کثیر)
عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں،دین میں ہر نیا کام اور بدعت جو قیامت تک نکلے اس آیت میں داخل ہے۔
پس جو شخص کسی بدعت میں شامل ہوگاوہ گنہگار ہوگا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھ بیٹھا تھا ایک شخص نے ظہر یا عصر میں تثویب کہی تو عبداللہ ابن عمرؓ نے فرمایا ہمیں یہاں سے لے چلو۔اس لئے کہ یہ بدعت ہے۔( سنن ابی داؤد ،ج:۱، ص: ۷۹)
اس حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین ایسی مساجد میں نماز پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے جن کے مؤذن بدعت کاارتکاب کرتے ہوں۔
مؤلف بدعت اور اس کی حقیقت صفحہ ۲۳ میں فرماتے ہیں کہ اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کہنے کوتثویب کہا جاتاہے۔نسائی شریف ج۱ ص۱۰۶ اور یہ تثویب نبی اکرمﷺنے اذان فجر میں تعلیم فرمائی ہے نہ کہ اذان ظہرو عصر کیلئے اب جو شخص بھی ظہر یا عصر کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کا اضافہ کرتا ہے،ظاہر ہے وہ بنی اکرم ﷺ کی تعلیم فرمائے ہوئے طریقہ کو تبدیل کررہاہے اس لئے یہ فعل یقینا بدعت ہو گا۔
موصوف کے مطابق اذانِ فجر کے علاوہ اگر دوسری نمازوں کی اذان میں تثویب یعنی الصلوۃ خیرمن النوم کہی جائے تو یقینا بدعت ہے کیونکہ ایسا کرنے والا نبی اکرمﷺکے تعلیم فرمائے ہوئے طریقے کو تبدیل کر رہا ہے یعنی نبی اکرمﷺ کے تعلیم فرمائے ہوئے طریقے میں ہر تبدیلی بدعت ہے۔چنانچہ شیعہ کے اذان میں اشھدُان علیاً ولی اللہ کے اضافے کو بدعت سے تعبیر فرماتے ہیں کیونکہ یہ آپ کا تعلیم فرمایا ہواطریقہ نہیں ہے لہذا اس میں تبدیلی یقینا بدعت ہے۔نتیجہ آمدم بر سر مطلب یہ نکلا کہ بدعت وہ ہے جو رافع سنت ہے یعنی جس کے کرنے سے نبی کریمﷺکا تعلیم فرمایا ہوا طریقہ بدل جائے اور جس عمل سے نبی اکرمﷺکی سنت ختم نہ ہووہ چیز ہر گز بدعت شرعی نہیں ہے۔ (ص:۲۱)
ناظرین کرام! مولوی صاحب موصوف کے آخری بیان سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ نبی کریمﷺکے تعلیم کردہ طریقے میں ایسی تبدیلی جو اس کی ترتیب بدلے وہ شرعی بدعت اور رافع سنت ہے۔لیکن وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ عبادت کے آگے پیچھے جو اضافے ہیں وہ بھی بدعت شرعی اور رافع سنت ہیں حالانکہ تمام علماء سنت وحدیث بشمول مجددالف ثانی سرہندی اور الشیخ عبدالحق محدّث دہلوی اذان کے بعدوالا اضافہ جیسے موذن کی اذان اور اس کے جواب کے آخر میں لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمدرسول اللہ کے اضافہ کوانہوں نے رافع سنت اور شرعی بدعت سے تعبیرفرمایا کہ ایسا کرنابدعت کی نحوست سے سنت کے ثواب سے محروم کرتا ہے۔ہماری دعا ہے موصوف بدعت شرعی کی تعریف میں ہر قسم کے احداث کو جو عبادت کے پہلے یا بعدیا عبادت کے وسط میں ہو بدعت شرعی اور رافع سنت سمجھیں جیسا کہ سلف صالحین نے صحابہ وتابعین نے سمجھا۔وبا للہ التوفیق
موصوف سے ایک سوال اگر اذان میں اضافہ بدعت ہے تو اذان سے قبل یا بعد درود شریف پڑھنا کسی طرح جائز ہوگا،کا جواب دیتے ہوئے رقمطرازہیں۔بلاشبہ اذان اللہ اکبر سے شروع ہوتی ہے اور لاالہ الا اللہ پر ختم ہوتی ہے۔اگر کوئی شخص درود شریف یا کسی بھی دعا کواذان کا جزو سمجھ کراذان سے پہلے یا بعد پڑھتا ہے۔ تو یقینا یہ بدعت ہے ہم ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیںکہ درودشریف یا کوئی دعا بالکل الگ چیز ہے اور اذان بالکل الگ چیز ہے،آگے لکھتے ہیں ہاں برکت کے حصول کیلئے اذان کے ساتھ درود شریف یا کوئی دعا پڑھ لینا نبی کریم ﷺ کی تعلیما ت کے عین مطابق ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مولوی صاحب موصوف کی عبارت میں اذان کے ساتھ درود شریف یا کوئی دعا سے بظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ آپ ان کی تخصیص وتقیید ہی کو ثابت کرنے پر مصر ہیں۔حالانکہ جب کسی عبادت یا ذکر ودعا کی تخصیص وتقیید میں یہ خیال پیدا ہونے لگے یا اس کے پیدا ہونے کا احتمال ہو کہ یہ سنت ہے اس وقت ایسی تخصیص شریعت حقہ میں تحریف سمجھنی چاہیے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ شریعت حقہ کی تحریف حرام ہے اور حرام کا ذریعہ حرام ہوتاہے۔پس ایسی تخصیص کا نکالنا اور اس پر عمل کرنا بھی حرام ہو گا جیسے کہ شروع میں ہم عبداللہ بن مسعود اور ابو موسیٰ اشعریؓ سے مسجد ہی میں ذکر کے وصف کی تبدیلی پر انکار نقل کرآئے ہیںکہ اسے انہوں نے بدعت ضلالہ سے تعبیر فرمایا ہے۔
حدیث قرآن وحدیث کے علاوہ ہر چیز بدعت ہے:
سیدنامعاذ ؓ فتنوںکا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
''ومبتدع کلما لیس من کتاب اللّٰہ ولامن سنۃ رسول اللّٰہ ﷺ فایا کم و ایاہ فانھا بدعۃ ضلا لۃ ثلاث مراۃ ''
یعنی بدعت ہروہ چیز جو نہ تو کتاب اللہ اورنہ ہی اس کے رسول کی سنت میںہو،اس شخص سے اور اس کے کلام سے بچوکیونکہ وہ بدعت ضلالۃ ہے ، تین مرتبہ فرمایا۔
مزید وضاحت:
مفتی عبدالسمیع انوار ساطعہ میں لکھتے ہیں کہ تعیین اور تقرر سے خیال پڑھا رہتا ہے اس پر کہ یہ کام (اذان سے پہلے درود شریف اور کوئی دعا) کرنا ضروری ہے ۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ تعیین اورتقرر سے ضروری ہونے کا خیال پیدا ہوجاتاہے۔کسی مباح کے متعلق ضروری ہونے کا خیال اس کو اباحت سے نکال کر مکروہ کر دیتاہے۔
شرح منیع میں ہے۔ '' منھا ان العوام یعتقد ونہ سنۃ ''
اس کے بدعت ہونے کی ادلّہ میں سے ایک یہ ہے کہ اس کو عوام سنت خیال کرتے ہیں
اور اسی میں ہے۔
'' کل مباح یودی الی ذالک مکروہٌ ''
یعنی جس مباح سے شرعی حکم میں تغیر ہو عوام اس کو ضروری اورسنت سمجھنے لگیں، وہ مکر وہ ہو جاتا ہے اور مطلق کراہت سے مرادکراہت تحریم ہو تی ہے۔
رد المحتار میں ہے
'' اعلم ان المکروہ اطلق فی کلامھم فالمرادمنہ التحریم''
جان لو! فقہاہ کے کلام میںجب مکروہ کا لفظ مطلق بولا جائے۔تو اس سے مراد حرمت ہوتی ہے۔
اب آپ اپنے معمولات جو عادت ثانیہ کے درجہ میں ہیں اور ان پر آپ کو اصرار ہے اذان سے پہلے درودشریف اورکوئی دعا نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے عین مطابق کیسے ہے جبکہ عوام اس کو فرض وسنت کا درجہ دینے لگے ہیں۔حتیٰ کہ بلندآواز سے کتنے من گھڑت صیغوں اور شکلوں میں درود اختراع کرچکے ہیں اور یہ بھی پڑھنے سننے میں آیا ہے کہ بقول ان کے چونکہ وہابی اس سے جلتے ہیں لہذا وہ ان کو جلانے کے لئے پڑھتے ہیں اورآپ ایسے بادشاہ لوگ انہیں مزید دلائل فراہم کرتے ہیں۔آہ
؎ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
گویا ان بدعات کا ارتکاب ضد کی بناپر ہو رہاہے۔خلوص ِنیت اور اتباع سنت سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔
حالانکہ کسی بھی عبادت کی قبولیت کی دوشرطیں ہیں کہ اخلص واصوب یعنی خالص ا للہ تعالیٰ کی رضا اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ہو۔اگر دونوں میں ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو عبادت قولی ،فعلی،مالی،بدنی سب مردود ہو گی۔العیاذباللہ
عرف نبوی علی صاحبھاالصلوۃ والسلام کو ایسا بدلا کہ عوام اس کے بغیر اذان مکمل ہی نہیں سمجھتے اسی بنیادپر مساجد میں شور اٹھتاہے اور فساد برپا ہے۔سحر اور وقت ِتہجد کو صلاتاں ویلا کانام دے دیا یعنی صلوٰتوں کا وقت کہنے لگے حالانکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے :
''لا یغلبنّکم الا عراب علی اسم صلوٰتکم العشاء العتمہ''
اعرابی عشاء کی نماز کو صلوٰۃ عشاء کہنے کی بجائے صلوٰۃ العتمۃ (سوتے کی نماز) کہنے میں غالب نہ آجائیں۔ہر صورت میں بڑی دردناک کہانی ہے جس میں سنت کو بدعت اور بدعت کو سنت بنا دیا گیاہے۔والی اللّٰہ اشتکی
نیز آپ نے اذان سے پہلے درود شریف کیلئے مؤذنِ رسولؐ سیدنا بلال حبشیؓ کا معمول یوں بیان کیا ہے کہ وہ اذان کے بعد رسول اللہﷺ کے دروازے پر کھٹرے ہوکر عرض کرتے
'' السلام علیک یا رسول اللہ،الصلوٰۃ یا رسول اللہ''ا
ے اللہ کے رسولؐ! آپؐ پر سلام ہو اللہ کے رسولؐ! نماز تیار ہے۔(تنویر الحوالک شرح مؤطاامام مالک، ج:۱،ص:۹۳ )
اور باب الصلوۃ علی النبیﷺبعد الاذان۔امام نسائی ؒ کی تبویب سے مسنون درود جو اللھم صل علی محمدسے شروع ہو تاہے۔وہی مراد ہے اور بھی آہستہ آواز سے نہ کہ سپیکر میںاورجہراً بلند آواز سے کیونکہ یہاں پہلے مؤذن کے کلمات کا جواب دینا ہے پھر فرمان ہے ۔
ثم صَلّوا عَلَیَّ پھر میرے اوپر درود بھیجو۔
یہاں ثُمَّ صلّواوسلّمُوا نہیں آیاکہ درود اور سلام پڑھو۔
اگر آپ بلالؓ کے سلام کو ساتھ ملاکراپنا مخصوص شعائر اپناتے اور باور کراتے ہیں۔تو اسے سینہ زوری اور تحریف ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ بلالؓ توآپ کے پاس سلام استیذان یعنی داخلے کی اجازت لینے کا سلام عر ض کرتے ہیں۔علاوہ ازیں یہاں اذان کے بعد کا ذکر ہے نہ کہ پہلے کا اور اس تقدیم وتاخیر میں لاحرج کوئی حرج نہیں کی اتھارتی تو منصبِ نبوت کے ہی شایان شان ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
موصوف کی دلیل
اس کے علاوہ فرماتے ہیں اذان سے قبل یابعد درود شریف پڑھنا یا دعا مانگنا بدعت نہیںکیونکہ عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ بنو نجارکی ایک صحابیہ فرماتی ہیں۔ترجمہ۔ میرا گھر مسجد کے گرد مکانات میں سے اونچا تھا۔ بلالؓاس پر فجر کی اذان دیا کرتے تھے۔وہ سحری کے وقت ہی آن کر میر ے مکان کی چھت پر بیٹھ کر فجر صبح صادق کو دیکھتے رہتے پھر جب فجر نظر آجاتی ۔تو انگڑائی لیتے پھر دعا مانگتے۔ اللھم انی احمدک واستعنیک علی قریشٍ ان یقیمو دینک اے اللہ میں تیر ی حمد کرتا ہوں اور تجھ سے قریش پر مدد مانگتا ہوںکہ وہ تیرے دین کو قائم کریں(مسلمان ہوجائیں)وہ صحابیہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد بلال ؓ اذان دیتے۔وہ صحابیہ فرماتی ہیںقسم ہے مجھے نہیں معلوم کہ بلال نے اذان فجر سے پہلے کبھی اس دعا کا ناغہ کیا ہو۔ابو داؤد شریف ج۱ ص۷۷
موصوف کا غلط استدلال
مولوی صاحب موصوف نے اس روایت کو سنن ابی داؤد کے باب الاذان فوق المنارۃ سے نقل کیا ہے اور اس سے اپنے مخصوص درودوسلام الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ الخ قبل از اذان اور بعد مخصوص درود اور دعاؤں کیلئے استدلال کیا ہے جوکئی وجہ سے درست نہیں۔
الاستاذ الحافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ احکام و مسائل ص ۱۲۱ ج۱پرایک سوال کے جواب میں رقمطراز ہیں۔اس روایت کی سند کمزورہے اور اس کی کمزوری کی دو وجہیں ہیں۔اس استدلال کے نادر ست ہونے کی
پہلی وجہ
یہ ہے کہ اس کی سند میں احمد بن محمد بن ایوب نامی ایک راوی ہیں۔جن کے متعلق یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں۔لیس من اصحاب الحدیث وانماکان وراقاًاور ابو احمد حاکم فرماتے ہیں۔لیس بالقوی عند ھم ھو کذاب نیز یحییٰ بن معین کہتے ہیں۔
دوسری وجہ
اس کی سند میں محمد بن اسحق ہیںجن کے متعلق حافظ ابن حجر لکھتے ہیں۔ امام المغازی صدوق یدلس و رمی بالتشّیع و القدر اصول حدیث کی کتابوں میں لکھا ہے۔مدلس راوی جب تک اپنے شیخ سے سماع کی تصریح نہ کرے تب تک اس کی روایت قابل قبول نہیںاور مندرجہ بالا روایت محمد بن اسحق نے بصیغہ عن بیان کی ہے اپنے سماع کی تصریح نہیں فرمائی یہ تو محمدبن اسحق کے متعلق صحیح موقف ہے۔
احناف اور محمد بن اسحاق
باقی حنفی لوگ محمد بن اسحق کے متعلق کیا کچھ کہتے ہیں۔اس سلسلہ میں احسن الکلام کا متعلقہ مقام دیکھیںاحسن الکلام کا حوالہ اس لئے دیا ہے کہ بریلوی لوگ بھی عموماً ا سی کتاب پر اعتماد کرتے ہیں۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
احمد بن محمدبن ایّوب کو بعض محدثین نے ثقہ بھی کہا ہے۔ مگر اس پر جرح کرنے والوں کی جرح مقدم ہے۔
اول :۔ اس لئے کہ اس میں ایک زائد چیز کی نشاندہی کی گئی ہے۔
دوم:۔ اس لئے جرح اس مقام پر مفسرمبین السبب ہے ۔
لہذا اس مقا م پرجرح کو ترجیح حاصل ہے ،تو ان دو وجوہ کے باعث یہ روایت قابل قبول نہیں اور ابوداؤدمنذری وغیرہ کے سکوت کواس روایت کی صحت کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
سوال گندم جواب....
اس روایت میں اذان سے قبل تعوذودرود کا تو سرے سے نام ونشان ہی نہیں ،نہ ہی درود ابراہیمی کا اور نہ ہی درود بریلوی کا لہذا اس روایت سے ان بریلویوں کا استدلال کرنا درست نہیں ہے۔
موصوف کی انوکھی روش"
بدعت کی حقیقت یوں بیان فرماتے ہیں کہ مسنون عمل کی تبدیلی یااس میں اضافہ ہو جیساکہ شیعہ نے اذان میں اشھدان علیا ولی اللہ کا اضافہ کیا ہے۔تو یہ یقینا بدعت ہے اور شیعہ کے اعتراض: کہ الصلوۃ خیر من النوم فجر کی اذان میں تثویب کے الفاظ بدعت ہیںکے جواب میںسنن نسانی سے ابو محذورہ ؓ کی روایت سے ان الفاظ کو رسول اللہ ﷺ سے ثبوت پیش فرمایا ہے اور لکھتے ہیں کہ تثویب کے یہی الفاظ ظہر عصر یا دوسری اذانو ں میں تو بدعت ہیں لیکن اہل بدعت کے جملہ اضافہ جات سنت کی ذیل میں آتے ہیں۔چنانچہ بڑی احتیاط سے تثویب کا مفہوم متعین کرتے ہیں۔ عبداللہ بن عمر ؓ کا اہل بدعت کی مسجد سے ان کو وہاں سے لے جانے کا مقصدبدعت اور اہل بدعت سے نفرت کا اظہارہے۔لہذا جملہ اضافے اس قبیل سے ہیں۔جنہیں اذان سے پہلے یا بعد میں نتھی کر دیا گیا ہے۔خواہ اذان کی جز ہونے کا اعتقاد نہ ہو جیسے شیعہ کے اضافے اور فجر کی اذان کے علاوہ تثویب کوبدعت فرماتے ہیں۔دوسرے اوراد وظائف جوآپ کے معمولات ہیں وہ بھی بدعت ہوں گے نہ کہ سنت کیونکہ یہ سنت ترکیہ کے خلاف ہیں اس لئے منع ہوںگے کیونکہ ایسے مقام پر اس قسم کا فعل تحری کے بغیر نہیں ہوسکتا کیونکہ مانع طبعی موجود ہے پس لامحالہ یہ ایک اور قسم کی تشریح ہو گی اوریہی بدعت ہے۔
ایک شاطرانہ چالاکی
موصوف نے اذان میں اضافے کو ہی بدعت کہا ہے۔مسنون اذان میں کمی کو ذکر ہی نہیں کیاجبکہ وہ بھی تغیر اور تبدیلی ہے حالانکہ جن ابو محذورہ ؓ سے الصلوۃ خیرمن النوم کے الفاظ پیش کیے ہیں ان سے فجر کی اذان میں ترجیع یعنی شھاد تین کے کلمات کودوہرانے کا ثبوت ہے۔
چنانچہ وہ روایت فرماتے ہیں کہ باب فضل التاذین ۔مَیں نے عرض کیا۔علمنی سنۃ الاذان یا رسول اللّٰہ آپ مجھے اذان کی سنت اور طریقہ سکھلائیں۔تو آپ ﷺ نے انہیں ترجیع کے ساتھ اذان سکھائی جیسے اہل حدیث کہتے ہیں۔نبی کریم نے سامنے بٹھا کر پیشانی پر ہاتھ مبارک رکھ کر تین مرتبہ برکت کی دعافرمائی۔
تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ستم ظریفی کیسی ان کے بیان کا کچھ حصہ مان لیا اور کچھ کا انکار کیاہے کچھ تاویل کی سان پرچڑھا کرناقابل عمل بنا دیا اگرچہ ترجیع ثابت ہے تو اس سے کیوں بیزاری ۔
طریقہ:۔مولوی صاحب احمد رضا بریلوی اپنے ملفوظات میں لکھتے ہیں کہ ابومحذورۃؓنے جب اذان سیکھنے کی درخواست کی تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔اس پر انہوں نے اپنی ساری زندگی کبھی پیشانی کے بالوں کو کاٹا اور نہ مانگ نکالی۔تواسی سے گیسو دراز (لمبے بال جیسے ملنگوںمیں اصل چوٹی )دیکھنے کو ملتی ہے۔
سبحان اللہ جب ماننے پر آئے تو صحابی ابو محذورۃؓکی اس وضع کو اصل قرار دے دیا اور نہ ماننے پر آئے تو ان کی روایت کردہ حدیث میں کمی کر ڈالی سوال پیدا ہوتا ہے اگر مسنون طریقہ میں اضافہ بدعت ہے تو اس میں کمی کیونکربدعت وتحریف نہ ہوگی ابو محذورہ ؓ نے اگرحب ّرسول ﷺکے جذبے سے بال رکھے تو کیا وہ اصل اذان کی سنت سے غافل ہوگئے تھے اور اس میں سنت محمدیہ ہمیشہ ملحوظ نہ رکھی ہو گی؟ایسا ہونا ممکن نہیں!
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب نبی کریم ﷺ کی سنتوں کی محبت اور ان کی اتباع نصیب فرمائے۔ آمین
 
Top