ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
جناب شیح احمد سرہندی المعروف بہ (مجدد الف ثانی کا فتویٰ)
خواجہ عبدالرحمٰن مفتی کابل کو سنت کی پیروی اور بدعت سے پرہیز کرنے اور ہر بدعت کے سیئہ ہونے میں لکھا ہے۔
آپ کا مکتوب فارسی میں ہے ،فرماتے ہیں۔بندہ حق سبحانہ وتعالیٰ سے عاجزی، انکساری ،زاری اور محتاجی سے پوشیدہ اور ظاہر سوال کرتاہے کہ جو چیزدین میں نئی اور بدعت نکالی گئی ہے جو خیرالبشر اور خلفاء علیہ وعلیھم الصلوات والتسلیمات کے زمانے میںنہ تھی۔اگرچہ اس کی روشنی صبح صادق کی طرح ہواللہ تعالیٰ اس ضعیف اور اس کے ساتھ علاقہ رکھنے والوں کو اس نئی بات میں گرفتار نہ کرے اور اس بدعت کے فتنہ میں نہ ڈالے۔
ُ
لوگ کہتے ہیں کہ بدعت دو قسم پر ہے ۔حسنہ اور سیئہ
حسنہ اس نیک کام کو کہتے ہیںجو رسول اللہﷺاور خلفاء راشدین علیہ وعلیہم الصلوٰ ۃوالتسلیماۃ کے زمانہ کے بعد ہوئی یہ سنت کی رافع نہیں اور سیئہ وہ ہے جو سنت کواٹھائے ،یہ فقیر کسی بدعت میں خوبی اور روشنی مشاہدہ نہیں کرتاصرف تاریکی اور گندگی محسوس کرتاہے اگر بالفرض بدعت کا کام آج کے دن بینائی کی کمزوری سے تروتازہ نظر آئے۔قیامت کے دن جب لوگ تیز نظر ہوجائیں گے اُس وقت معلوم کریںگے کہ سوائے پشیمانی اور نقصان کے کچھ نتیجہ نہ تھا۔
؎ وقت صبح شود ہمچو روز معلومت کہ باکہ باخستہ عشق درشب ویجور
سید البشر علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
''مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِناَ ھٰذا مالَیْسَ مِنْہ فَھُوَ رَدٌ ''
ُٔ جو شخص اس دین میں نئی بات نکالے وہ مردود ہے
جو چیز مردود ہوخوبی اس میں کس طرح پیداہوسکتی ہے(اس کے بعد دو حدیثیں جو بدعت کے ضمن میں وارد ہوئی ہیں لکھ کر فرماتے ہیں۔جس وقت ہر نئی بات بدعت ہوئی اور ہر بدعت گمراہی پس بدعت میں خوبی کہاں سے آئی؟ حدیث سے ایسامعلوم ہوتاہے کہ ہر بدعت سنت کو مٹانے والی ہے کسی خاص بدعت کی خصوصیت نہیں ۔پس ہر بدعت سیئہ ہوئی۔
خواجہ عبدالرحمٰن مفتی کابل کو سنت کی پیروی اور بدعت سے پرہیز کرنے اور ہر بدعت کے سیئہ ہونے میں لکھا ہے۔
آپ کا مکتوب فارسی میں ہے ،فرماتے ہیں۔بندہ حق سبحانہ وتعالیٰ سے عاجزی، انکساری ،زاری اور محتاجی سے پوشیدہ اور ظاہر سوال کرتاہے کہ جو چیزدین میں نئی اور بدعت نکالی گئی ہے جو خیرالبشر اور خلفاء علیہ وعلیھم الصلوات والتسلیمات کے زمانے میںنہ تھی۔اگرچہ اس کی روشنی صبح صادق کی طرح ہواللہ تعالیٰ اس ضعیف اور اس کے ساتھ علاقہ رکھنے والوں کو اس نئی بات میں گرفتار نہ کرے اور اس بدعت کے فتنہ میں نہ ڈالے۔
ُ
لوگ کہتے ہیں کہ بدعت دو قسم پر ہے ۔حسنہ اور سیئہ
حسنہ اس نیک کام کو کہتے ہیںجو رسول اللہﷺاور خلفاء راشدین علیہ وعلیہم الصلوٰ ۃوالتسلیماۃ کے زمانہ کے بعد ہوئی یہ سنت کی رافع نہیں اور سیئہ وہ ہے جو سنت کواٹھائے ،یہ فقیر کسی بدعت میں خوبی اور روشنی مشاہدہ نہیں کرتاصرف تاریکی اور گندگی محسوس کرتاہے اگر بالفرض بدعت کا کام آج کے دن بینائی کی کمزوری سے تروتازہ نظر آئے۔قیامت کے دن جب لوگ تیز نظر ہوجائیں گے اُس وقت معلوم کریںگے کہ سوائے پشیمانی اور نقصان کے کچھ نتیجہ نہ تھا۔
؎ وقت صبح شود ہمچو روز معلومت کہ باکہ باخستہ عشق درشب ویجور
سید البشر علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
''مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِناَ ھٰذا مالَیْسَ مِنْہ فَھُوَ رَدٌ ''
ُٔ جو شخص اس دین میں نئی بات نکالے وہ مردود ہے
جو چیز مردود ہوخوبی اس میں کس طرح پیداہوسکتی ہے(اس کے بعد دو حدیثیں جو بدعت کے ضمن میں وارد ہوئی ہیں لکھ کر فرماتے ہیں۔جس وقت ہر نئی بات بدعت ہوئی اور ہر بدعت گمراہی پس بدعت میں خوبی کہاں سے آئی؟ حدیث سے ایسامعلوم ہوتاہے کہ ہر بدعت سنت کو مٹانے والی ہے کسی خاص بدعت کی خصوصیت نہیں ۔پس ہر بدعت سیئہ ہوئی۔