• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بریلویت تاریخ وعقائد

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فہرست مضامین

  1. عرضِ مترجم
  2. تقدیم
  3. مقدمہ
  4. باب: بریلویت
  5. تاریخ و بانی
  6. حوالہ جات
  7. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/#post4550"]خاندان[/LINK]
  8. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/#post4551"]فصاحت عربی سے ناواقفی[/LINK]
  9. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/#post4553"]حوالہ جات[/LINK]
  10. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/index2.html#post4582"]ذریعہ معاش[/LINK]
  11. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/index2.html#post4583"]عادات اور طرز گفتگو[/LINK]
  12. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/index2.html#post4584"]اسلوب بیان[/LINK]
  13. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/index2.html#post4585"]حوالہ جات[/LINK]
  14. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/index2.html#post4586"]تصنیفات[/LINK]
  15. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/index2.html#post4587"]حوالہ جات[/LINK]
  16. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/index2.html#post4594"]جہاد کی مخالفت اور استعمار کی حمایت[/LINK]
  17. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/index2.html#post4595"]حوالہ جات[/LINK]
  18. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/index2.html#post4598"]وفات[/LINK]
  19. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/index2.html#post4599"]حوالہ جات[/LINK]
  20. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/index3.html#post4600"]باب 2: بریلوی عقائد[/LINK]
  21. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/index3.html#post4601"]غیر اللہ سے فریاد رسی[/LINK]
  22. [LINK="http://www.kitabosunnat.com/forum/%DB%8C%D9%88%D9%86%DB%8C%DA%A9%D9%88%DA%88-%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C%D9%B9-%D9%85%DB%8C%DA%BA-119/%D8%A8%D8%B1%DB%8C%D9%84%D9%88%DB%8C%D8%AA-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D9%88%D8%B9%D9%82%D8%A7%D8%A6%D8%AF-870/index3.html#post4602"]حوالہ جات[/LINK]
  23. انبیاء و اولیاء کے اختیارات
  24. سماع موتی
  25. عقیدہ علم غیب
  26. حوالہ جات
  27. باب 3: مسئلہ حاضر و ناظر
  28. حوالہ جات
  29. باب 4: بریلوی تعلیمات
  30. حوالہ جات
  31. باب 5: بریلویت اور تکفیری فتوے۔حصہ اول........حصہ دوئم
  32. حوالہ جات
  33. حج کے ملتوی ہونے کا فتوی
  34. اکابرین تحریک پاکستان بریلویت کی نظر میں
    حوالہ جات
  35. باب 5:بریلویت اور افسانوی حکایات
  36. حوالہ جات
  37. تمام شد !!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عرضِ مترجم
شہیدِ اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کی یہ تصنیف بھی باقی تصانیف کی طرح قوت استدلال اور اسلامی حمیت و غیرت کا آئینہ دار ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ بریلوی تعلیمات کی نشر و اشاعت اور مقبولیت میں اگرچہ بہت کمی آئی ہے مگر اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ جدید طبقہ مذہب سے دور ہوتا چلا گیا۔ جدید طبقے نے جب اسلام کے نام پر خرافات اور بدعات کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھا تو اس نے تحقیق کی بجائے یہ گمان کر لیا کہ شاید مذہب اسلام اسی کا نام ہے۔ چنانچہ بریلوی افکار نے نئی نسل کو اسلام سے دور کر کے الحاد و لادینیت کی آغوش میں پھینک دیا۔
ان حالات میں کسی ایسی کتاب کی اشد ضرورت تھی جو نئی نسل اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کو یہ بتلاتی کہ وہ شرکیہ امور اور خرافات وبدعات، جنہیں وہ اپنے گرد دیکھ رہے ہیں، ان کا ارتکاب اگرچہ مذہب کے نام پر ہو رہا ہے مگر کتاب و سنت کی پاکیزہ تعلیمات کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ علامہ صاحب رحمہ اللہ کی یہ کتاب اس ضرورت کو پورا کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔
بہت دیر سے آپ کی تمام کتب کا اردو ترجمہ شائع کرنے کا مطالبہ ہو رہا تھا، تاکہ دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کے عوام بھی ان کتب سے استفادہ کر سکیں۔ بالآخر ادارہ ترجمان السنہ نے آپ کی کتب کے اردو تراجم شائع کرانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سلسلے میں آپ کی تصانیف "البریلویہ" کا اردو ترجمہ قارئین کے پیش خدمت ہے۔ امید ان شاء اللہ العزیز اس کتاب کا مطالعہ بہت سے احباب کے لیے راہ راست پر آنے کا ذریعہ ہو گا، اور یہ بات مصنف مرحوم کے درجات کی بلندی کا باعث ہو گی۔
علامہ صاحب رحمہ اللہ اس کتاب میں ایسا باب بھی شامل کرنا چاہتے تھے جو رضا خانی فقہ کے چند ایسے مسائل پر مشتمل تھا، جو محض ذہنی تلذذ کے لیے فرض کیے گئے تھے۔ مگر تہذیب و شائستگی کا تقاضا تھا کہ انہیں اس کتاب کا حصہ نہ بنایا جائے۔ آپ فرماتے تھے کہ عربی زبان ان فحش مسائل کی متحمل نہیں ہے۔ وہ تمام حوالہ جات میرے پاس محفوظ ہیں۔
اردو ترجمہ کرتے وقت میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ان کے ذکر کی ضرورت محسوس ہوئی، تو اگلے ایڈیشن کے مقدمے میں انہیں ذکر کر دیا جائے گا۔ ترجمہ کرتے وقت میں نے عربی عبارات کا ترجمہ کرنے کی بجائے بریلوی حضرات کی اصل کتابوں کی عبارتوں کو ہی نقل کر دیا ہے، تاکہ ترجمہ در ترجمہ سے مفہوم میں تبدیلی نہ آئے۔
چونکہ بہت ہی کم عرصہ میں اس کتاب کے ترجمہ اور طباعت کا کام مکمل ہوا ہے، اس لیے لازماً اس ایڈیشن میں علمی یا فنی کوتاہیاں قارئین کرام کو نظر آئیں گی۔ ان شاء اللہ العزیز اگلے ایڈیشن میں انہیں دور کرنے کی مکمل کوشش کی جائے گی۔ قارئین اپنی آراء سے آگاہ فرمائیں۔
قرآنِ مجید کی آیات کا ترجمہ شاہ رفیع الدین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے ترجمہ قرآن سے نقل کیا گیا ہے۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ اس میں قدرے ابہام ہے، اگلے ایڈیشن میں اس کی تلافی کی بھی کوشش کی کی جائے گی۔ ان شاء اللہ !
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تقدیم
حمد و صلاة کے بعد ! مجھے فضیلة الاستاذ احسان الٰہی ظہیرشہید رحمہ اللہ کی کتاب "البریلویت" پڑھنے کا موقع ملا۔ کتاب پڑھ کر مجھے اس بات پر شدید حیرت ہوئی کہ مسلمانوں میں اس قسم کا گروہ موجود ہے جو نہ صرف فروعات میں شریعت اسلامیہ اور کتاب و سنت کا مخالف ہے، بلکہ اس کے بنیادی عقائد ہی اسلام سے متصادم ہیں۔
اگر اس کتاب کے مصنف کی علمی دیانت پوری دنیا میں مسلم نہ ہوتی، تو ہمیں یقین نہ آتا کہ اس قسم کا گروہ پاکستان میں موجود ہے۔ اس کتاب کے جلیل القدر مصنف نے اس گروہ کے عقائد و افکار سے نقاب اٹھا کر یہ ثابت کیا ہے کہ کتاب و سنت کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا اس فرقہ کو چاہئے کہ وہ ان عقائد سے توبہ کریں اور توحید و رسالت کے تصور سے آشنا ہو کر اپنی عاقبت سنوارنے کی طرف توجہ دیں۔
اس کتاب کے مطالعہ کے بعد ہمیں اندازہ ہوا ہے کہ ان عقائد کی بنیاد قرآن و حدیث کے بجائے توہم پرستی اور خیالی و تصوراتی قسم کے قصے کہانیوں پر ہے۔ مصنف جلیل الشیخ احسان الٰہی ظہیر (رحمہ اللہ) نے اس گروہ کے پیروکاروں کو ہدایت و راہنمائی اور سیدھے راستے کی طرف دعوت دے کر حقیقی معنوں میں اس گروہ پر بہت بڑا احسان کیاہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس قابل قدر کو شش کو قبول فرمائے آمین !
جہاں تک مصنف رحمہ اللہ کے اسلوب تحریر کا تعلق ہے، تو وہ محتاج بیان نہیں۔ ان کی تصنیفات کا مطالعہ کرنے والا ہر قاری ان کے ادبی ذوق اور قوت دلیل سے اچھی طرح آگاہ ہے۔
اس کتاب کے مصنف کی اس موضوع پر خدمات و مساعی قابل تحسین ہیں۔ جس طرح سے علمی، تحقیقی اور پرزور انداز کے ساتھ انہوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، اس کی بنا پر تصنیفات تعلیمی درسگاہوں اور تحقیقی مراکز میں حوالے اور سند کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔
مصنف رحمہ اللہ کی بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ انہیں اپنی مادری زبان کے علاوہ دوسری بہت سی زبانوں پر بھی دسترس حاصل ہے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے قادیانی، بابی، اسماعیلی، شیعہ، بہائی اور بریلوی فرقوں پر جو مواد پیش کیا ہے، وہ نہایت مستحسن اور اسلامی علمی و تحقیقی مکتوبات میں قابل قدر اضافہ ہے۔
اس کتاب کے مطالعہ کے بعد چند امور کی توضیح ضروری ہے :
اس فرقے کے مؤسس کے حالات زندگی سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی یہ تحریک علمی ہے، نہ فکری اور نہ ہی ادبی۔ ان کی ساری سرگرمیوں سے صرف انگریزی استعمار کو فائدہ پہنچا۔ اس تحریک کے علاوہ دوسری تحریک جو انگریز کے مفاد میں تھی، وہ مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریک تھی۔
جناب احمد رضا بریلوی کا وہابیوں کی مخالفت کرنا، ان پر کفر کے فتوے لگانا، جہاد کو حرام قرار دینا، تحریک خلافت اور تحریک ترکِ موالات کی مخالفت کرنا، انگریز کے خلاف جدوجہد میں مصروف مسلم راہنماؤں کی تکفیر کرنا، اور اس قسم کی دوسری سرگرمیاں انگریزی استعمار کی خدمت اور اس کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے تھیں۔
اس ضمن میں یہ بات بھی اہم اور قابل توجہ ہے کہ جناب احمد رضا صاحب کا استاد مرزا غلام قادر بیگ مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا۔ انگریز کی طرف سے اس قسم کی تحریکوں کے ساتھ تعاون کرنا بھی بعید از عقل نہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ اس تحریک کے پیچھے استعمار کا خفیہ ہاتھ تھا، غیر منطقی بات نہیں ہے۔ اور اگر اس قسم کی تحریکوں کے بانیوں کو انگریزی حکومت کے زوال کا پہلے سے علم ہوتا تو وہ یقیناً اپنے موقف کو تبدیل کر لیتے۔ لیکن ان کا خیال اس کے برعکس تھا!
اس فرقے کے پیروکار ایک طرف تو اس قدر افراط سے کام لیتے ہیں کہ ان کا اولیائے کرام اور نیک لوگوں کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ وہ خدائی اختیارات کے مالک اور نفع و نقصان پر قدرت رکھنے والے ہیں، نیز دنیا و آخرت کے تمام خزانے انہی کے ہاتھ میں ہیں۔ اور دوسری طرف تفریط کا شکار ہوتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو شخص اپنی زندگی میں نماز روزے کا تارک رہا ہو، اس کے مرنے کے بعد اس کے اعزاء و اقارب اس کی نمازوں، روزوں کا فدیہ دے کر اور "حیلہ اسقاط" پر عمل کر کے گناہ معاف کروا کے اسے جنت میں داخل کروا سکتے ہیں۔
اس قسم کے عقائد کا دور جاہلیت میں بھی وجود نہ تھا۔ بریلوی حضرات نے اپنے سوا تمام پر کفار و مرتدین ہونے کا فتویٰ لگایا ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے اپنے فقہی بھائی دیوبندیوں کو بھی معاف نہیں کیا۔ اور ان کے نزدیک ہر وہ شخص کافر و مرتد ہے، جو ان کے امام و بانی کے نظریات سے متفق نہ ہو۔ مصنف رحمہ اللہ نے اس کتاب کے ایک مستقل باب میں اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
جناب احمد رضا صاحب نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ پر کفر کے فتوے لگائے ہیں۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ لوگوں کو کتاب و سنت کی دعوت اتباع، نیز بدعات و خرافات سے اجتناب کی دعوت دیتے تھے، غیر اللہ کی عبادت ایسے شرکیہ عقائد سے بچنے کی تلقین فرماتے تھے اور پوری امت کو "لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ" کے پرچم تلے متحد کرنا چاہتے تھے۔
اس دور میں بھی اتحاد و اتفاق کی صرف یہی صورت ہے کہ ہم ان تمام عقائد و نظریات کو ترک کر دیں جو قرآن و حدیث کے مخالف ہوں نیز جو عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم اور خلافت راشدہ کے دور کے بعد کی ایجاد ہوں اور اسلامی قواعد و ضوابط سے متصادم ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا، نیک بندوں کو قادر مطلق سمجھنا ہا انہیں اللہ تعالیٰ کے اختیارات میں شریک کرنا، قبروں پر جا کر اپنی حاجات طلب کرنا اور اس قسم کے باطل عقائد اسلام کے تصور توحید کے مخالف ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ان سے اجتناب کریں اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی تمام اختیارات کا مالک سمجھیں۔
دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب و سنت پر غور کرنے اور سلف صالحین کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !
(از فضیلة الشیخ عطیہ سالم،جج شرعی عدالت مدینہ منورہ و مدرس و خطیب مسجد نبوی شریف)​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مقدمہ
الحمدللہ الّذی لاالٰہ الّا ھو وحدہ والصّلاۃ والسلام علی نبیہ محمّد خاتم الانبیاء لانبی بعدہ وعلیٰ آلہ و اصحابہ ومن تبع مسلکھم واقتدی بھدیھم الی یوم الدّین و بعد!
دوسرے بہت سے غیر اسلامی فرقوں پر کتب تصنیف کرنے کے بعد میں برصغیر پاک و ہند میں کثیر تعداد میں پائے جانے والے گروہ "بریلویت" پر اپنی یہ تصنیف قارئین کے مطالعہ کے لیے پیش کر رہا ہوں۔
اس گروہ کے عقائد بعض دوسرے اسلامی ملکوں میں تصوف کے نام پر رائج ہیں۔ غیر اللہ سے فریاد رسی اور ان کے نام کی منتیں ماننا جیسے عقائد سابقہ دور میں بھی رائج و منتشر رہے ہیں۔ بریلوی حضرات نے ان تمام مشرکانہ عقائد اور غیر اسلامی رسوم و روایات کو منظم شکل دے کر ایک گروہ کی صورت اختیار کر لی ہے۔
اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ تمام عقائد اور رسمیں ہندو ثقافت اور دوسرے ادیان کے ذریعہ سے مسلمانوں میں داخل ہوئیں اور انگریزی استعمار کی وساطت سے پروان چڑھی ہیں۔
اسلام جدوجہد کا درس دیتا ہے مگر بریلوی افکار و تعلیمات نے اسلام کو رسم و رواج کا مجموعہ بنا دیا ہے۔ نماز روزے کی طرف دعوت کی بجائے ان کے مذہب میں عرس و قوالی، پیر پرستی اور نذر و نیاز دے کر گناہوں کی بخشش وغیرہ ایسے عقائد کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ میں بریلویت کے موضوع پر قلم نہیں اٹھانا چاہتا تھا۔ کیونکہ میں سمجھتا تھا، بریلویت چونکہ جہالت کی پیداوار ہے، اس لیے جون جوں جہالت کا دور ختم ہوتا چلا جائے گا توں توں بریلویت کے افکار بھی ختم ہو جائیں گے۔ مگر جب میں نے دیکھا کہ بریلوی حضرات بدعات اور شرکیہ امور کی نشر و اشاعت میں متحد ہو کر جدوجہد میں مصروف ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے حال ہی میں "حجاز کانفرنس" کے نام سے بہت سے اجتماعات بھی منعقد کرنا شروع کر دئیے ہیں ؛ جن میں وہ کتاب و سنت کے متبعین کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں اور انہیں "گستاخان رسالت" اور دوسرے القاب سے نواز رہے ہیں، تو مختلف غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے اور جدید طبقے کو یہ باور کرانے کے لیے کہ اسلام توہم پرستی اور دوسرے جاہلانہ افکار سے بری ہے، اور کتاب و سنت کی تعلیمات عقل و فطرت کے عین مطابق ہیں۔ عوام کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے میں نے ضروری سمجھا کہ ایک ایسی کتاب تصنیف کی جائے جو "بریلویت" اور "اسلامی تعلیمات" کے درمیان فرق کو واضح کرے۔ تاکہ شریعت اسلامیہ کو ان عقائد سے پاک کیا جا سکے جو اسلام کے نام پر اس میں داخل ہو گئے ہیں۔ حالانکہ شریعت اسلامیہ کا ان سے کوئی تعلق نہیں !
بریلوی حضرات نے ہر اس شخص کو کافر قرار دیا ہے، جو ان کے افسانوی قصے کہانیوں پر یقین نہیں رکھتا اور ان کی بدعات کو اسلام کا حصہ نہیں سمجھتا۔ ہمارے ملک کے عوام حقیقت سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کو "گستاخ" سمجھتے رہے، جو حقیقی معنوں میں اسلامی عقائد کے حامل اور عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے وابستہ اسلام پر ہی ایمان رکھتے تھے۔ اور یہ بات حق کی نشر و اشاعت کے راستے میں حائل رکاوٹوں میں سے ایک رکاوٹ تھی۔ میں نے جب بریلوی حضرات کی کتب کا مطالعہ کیا تو میں نے دیکھا کہ ان کی کتب و تصانیف میں ہماری معلومات سے کہیں بڑھ کر غیر اسلامی عقائد موجود ہیں۔ شرک و بدعت کی ایسی ایسی اقسام ان کی کتابوں میں موجود ہیں جن سے دور جاہلیت کے مشرکین بھی نا آشنا تھے۔ بہرحال مجھے امید ہے کہ یہ کتاب انشاء اللہ العزیز شرک و بدعت کے خاتمے اور توحید و سنت کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کرے گی۔
جو لوگ اتحاد و اتفاق کی دعوت دیتے ہیں، انہیں یہ نکتہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس وقت تک امت مسلمہ کے مابین اتحاد نہیں ہو سکتا، جب تک عقائد و نظریات ایک نہ ہوں۔ عقیدہ ایک ہوئے بغیر اتحاد و اتفاق کی امید رکھنا عبث ہے۔ چنانچہ ہمیں امت کے سامنے صحیح اسلامی عقیدہ پیش کرنا چاہئے۔ تاکہ جو لوگ اسے قبول کرتے چلے جائیں، وہ امت واحدہ کی شکل اختیار کر لیں اور اگر ہم معمولی سی بھی مخلصانہ جدوجہد کر لیں تو یہ سمجھنا قطعاً مشکل نہیں کہ کون سا عقیدہ قرآن و سنت کے مطابق ہے؟
آخر میں میں اس سلسلے میں ان تمام حضرات کا شکرگزار ہوں جنہوں نے اس کتاب کے سلسلے میں مجھ سے تعاون فرمایا۔ مجھے بڑی خوشی ہے کہ میں مقدمے کی یہ سطور آدھی رات کے وقت مسجد نبوی شریف میں بیٹھ کر تحریر کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ اس کوشش کو قبول فرمائے اور ہمیں حق بات کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
(عطیہ محمد سالم قاضی شرعی عدالت مدینہ منورہ و مدرس مسجد نبوی شریف)​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
باب 1: بریلویت تاریخ و بانی
بریلویت پاکستان میں پائے جانے والے احناف کے مختلف مکاتب فکر میں سے ایک مکتب فکر ہے۔ بریلوی حضرات جن عقائد کے حامل ہیں، ان کی تاسیس و تنظیم کا کام بریلوی مکتب فکر کے پیروکاروں کے مجدد جناب احمد رضا بریلوی نے انجام دیا۔ بریلویت کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے 1۔
جناب احمد رضا ہندوستان کے صوبے اتر پردیش (یوپی) 2 میں واقع بریلی شہر میں پیدا ہوئے 3۔ بریلوی حضرات کے علاوہ احناف کے دوسرے گروہوں میں دیوبندی اور توحیدی قابل ذکر ہیں۔
بریلویت کے مؤسس و بانی راہنما علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نقی علی اور دادا رضا علی کا شمار احناف کے مشہور علماء میں ہوتا ہے 4۔ ان کی پیدائش 14 جون 1865 میں ہوئی 5۔ ان کا نام محمد رکھا گیا۔ والدہ نے ان کا نام امن میاں رکھا۔ والد نے احمد میاں اور دادا نے احمد رضا 6۔
لیکن جناب احمد رضا ان اسماء میں سے کسی پر بھی مطمئن نہ ہوئے اور اپنا نام عبد المصطفیٰ رکھ لیا 7۔ اور خط و کتابت میں اسی نام کا استعمال کثرت سے کرتے رہے۔ جناب احمد رضا کا رنگ نہایت سیاہ تھا۔ ان کے مخالفین انہیں اکثر چہرے کی سیاہی کا طعنہ دیا کرتے تھے۔ ان کے خلاف لکھی جانے والی ایک کتاب کا نام ہی "الطّین اللّازب علی الاسود الکاذب" یعنی "کالے جھوٹے کے چہرے پر چپک جانے والی مٹی" رکھا گیا 8۔
(اس کتاب کے مصنف مولانا مرتضیٰ حسن دیوبندی مرحوم ہیں۔ بریلوی حضرات مصنف رحمہ اللہ کے اس پیرائے پر بہت جز بز ہوئے ہیں، حالانکہ یہ ایسی بات نہیں ہے کہ اس پر چیں بہ جبیں ہوا جائے۔ مصنف یہاں جناب احمد رضا کا حلیہ بیان کر رہے ہیں، اور ظاہر ہے کہ حلیہ بیان کرتے وقت کالی رنگت کا ذکر آ جانا معیوب شے نہیں ہے۔ اور ندامت اور شرمندگی کا اظہار تو کسی عیب پر کیا جاتا ہے۔ اس کے جواب میں ندامت سے بچنے کے لئے مختلف حیلے بہانوں اور خود ساختہ عبارتوں سے کسی کتاب میں تردیدی دلائل کا ذکر کر کے کالے کو گورا کرنے کی سعی لاحاصل بہر حال بے معنی ہے۔ علامہ مرحوم نے حرمین شریفین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا ذکر جس انداز سے کیا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے :
1: بعض لوگوں کو اعتراض ہے کہ ہم نے جناب احمد رضا صاحب کی رنگت کا ذکر کیوں کیا ہے، حالانکہ یہ قابل اعتراض بات نہیں۔
2: اس کے جواب میں بعض حضرات نے سیاہ کو سفید ثابت کرنے کے لئے اپنی کتاب کے صفحات کو بھی بلاوجہ سیاہ کر دیا ہے۔
3 : جواب میں کہا گیا کہ اعلیٰ حضرت کا رنگ تو سیاہ نہیں تھا، البتہ گہرا گندمی تھا اور رنگ کی آب و تاب بھی ختم ہو چکی تھی۔ ہم کہتے ہیں کہ "گہرا گندمی" رنگ کی کون سی قسم ہے۔ کیا ضرورت ہے ان تاویلات میں پڑنے کی؟ سیدھا اعتراف کیوں نہیں کر لیا جاتا کہ ان کا رنگ سیاہ تھا۔
4 : اس جواب میں جن لوگوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ اعلیٰ حضرت کا رنگ سیاہ نہیں بلکہ سفید تھا، ان میں سے اب کوئی بھی موجود نہیں۔ یہ خود ساختہ دلائل ہیں !
5: آج بھی احمد رضا صاحب کی ساری اولاد کا رنگ سیاہ ہے۔ بہرحال یہ عیب کی بات نہیں۔ کچھ لوگوں نے ہمارے حوالے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ؛ چنانچہ ہم نے ان کی تردید ضروری سمجھی .
اس بات کا اعتراف ان کے بھتیجے نے بھی کیا ہے وہ لکھتے ہیں :
"ابتدائی عمر میں آپ کا رنگ گہرا گندمی تھا۔ لیکن مسلسل محنت ہائے شاقہ نے آپ کی رنگت کی آب و تاب ختم کر دی تھی 9۔ جناب احمد رضا نحیف و نزار تھے 10۔ درد گردہ اور دوسری کمزور کر دینے والی بیماریوں میں مبتلا تھے 11 کمر کی درد کا شکار رہتے 12۔ اسی طرح سر درد اور بخار کی شکایت بھی عموماً رہتی13۔ ان کی دائیں آنکھ میں نقص تھا۔ اس میں تکلیف رہتی اور وہ پانی اتر آنے سے بے نور ہو گئی تھی۔ طویل مدت تک علاج کراتے رہے مگر وہ ٹھیک نہ ہو سکی14۔
جناب عبدالحکیم صاحب کو شکایت ہے کہ مصنف نے یہاں بھی حضرت صاحب کی آنکھ کے نقص کا ذکر کیوں کیا ہے۔ حالانکہ یہ بھی انسانی حلئے کا ایک حصہ ہے اور اس پر غیض و غضب کا اظہار کسی طور پر بھی روا نہیں۔ جواب میں قادری صاحب رقمطراز ہیں کہ :
حقیقتاً یہ بالکل خلاف واقع ہے۔ ہوا یہ کہ 1300ھ میں مسلسل ایک مہینہ باریک خط کی کتابیں دیکھتے رہے۔ گرمی کی شدت کے پیش نظر ایک دن غسل کیا۔ سر پر پانی پڑتے ہی معلوم ہوا کہ کوئی چیز دماغ سے داہنی آنکھ میں اتر آئی ہے۔ بائیں آنکھ بند کر کے داہنی سے دیکھا تو وسط سے مرئی میں ایک سیاہ حلقہ نظر آیا۔ "
جناب قادری صاحب نے یہ عبارت "ملفوظات" سے ذکر کی ہے، لیکن علمی بددیانتی کا ثبوت دیتے ہوئے مکمل عبارت تحریر کرنے کی بجائے عبارت کا اگلا حصہ حذف کر گئے ہیں۔ اس کے متصل بعد ملفوظات میں لکھا ہے :
دائیں آنکھ کے نیچے شے کا جتنا حصہ ہوتا ہے (یعنی جس چیز کو دائیں آنکھ سے دیکھتے ) وہ ناصاف اور دبا معلوم ہوتا۔ "
اس عبارت کو چھوڑنے کا مطلب سوائے اس کے کیا ہو سکتا ہے کہ قادری صاحب اپنے اعلیٰ حضرت کی آنکھ کے نقص کو چھپانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایسی چیز نہیں جس کے ذکر پر ندامت محسوس کی جائے۔ کسی آنکھ میں نقص کا پایا جانا انسان کے بس کی بات نہیں، ربّ کائنات کا اختیار ہے، لہٰذا ہم قادری صاحب سے گزارش کریں گے کہ وہ اظہار مذمت کی بجائے اعتراف حقیقت کر لیں۔ (ثاقب)
ایک مرتبہ ان کے سامنے کھانا رکھا گیا۔ انہوں نے سالن کھا لیا مگر چپاتیوں کو ہاتھ بھی نہ لگایا۔ ان کی بیوی نے کہا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے جواب دیا مجھے نظر ہی نہیں آئیں۔ حالانکہ وہ سالن کے ساتھ ہی رکھی ہوئی تھیں 15۔
جناب بریلوی نسیان میں مبتلا تھے۔ ان کی یادداشت کمزور تھی۔ ایک دفعہ عینک اونچی کر کے ماتھے پر رکھ لی، گفتگو کے بعد تلاش کرنے لگے، عینک نہ ملی اور بھول گئے کہ عینک ان کے ماتھے پر ہے۔ کافی دیر تک پریشان رہے، اچانک ان کا ہاتھ ماتھے پر لگا تو عینک ناک پر آ کر رک گئی۔ تب پتہ چلا کہ عینک تو ماتھے پر تھی16۔
ایک دفعہ وہ طاعون میں مبتلا ہوئے اور خون کی قے کی 17۔ بہت تیز مزاج تھے 18۔
بہت جلد غصے میں آ جاتے۔ زبان کے مسئلے میں بہت غیر محتاط 19 اور لعن طعن کرنے والے تھے۔ فحش کلمات کا کثرت سے استعمال کرتے۔ بعض اوقات اس مسئلے میں حد سے زیادہ تجاوز کر جاتے اور ایسے کلمات کہتے کہ ان کا صدور صاحب علم و فضل سے تو درکنار،کسی عام آدمی کے بھی لائق نہ ہوتا۔
بریلویت کے موسس و مجدد جناب احمد رضا نہایت فحش اور غلیظ زبان استعمال کرتے تھے۔ ذیل میں ان کی غیر مہذبانہ زبان کے چند نمونے ذکر کئے جاتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب وقعات السنان میں رقمطراز ہیں :
ضربت مرداں دیدی نقمت رحمٰن کشیدی۔ تھانوی صاحب! اس دسویں کہاوی پر اعتراضات میں ہمارے اگلے تین پر پھر نظر ڈالئے۔ دیکھئے وہ رسلیا والے پر کیسے ٹھیک اتر گئے۔ کیا اتنی ضربات عظیم کے بعد بھی نہ سوجی ہو گی۔ (وقعات السنان ص 51مطبوعہ کراچی بحوالہ "شریعت حضرت محمد مصطفیٰ اور دین احمد رضا از ملک حسن علی بی اے علیگ)
"رسلیا کہتی ہے میں نہیں جانتی میری ٹھہرائی پر اتر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھوں تو اس میں تم میری ڈیڑھ گرہ کیسے کھولے لیتے ہو۔ (ایضاً)
"اف ہی رسلیا تیرا بھول پن۔ خون پونچھتی جا اور کہہ خدا جھوٹ کرے۔ (وقعات السنان ص 60)
"رسلیا والے نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی دوشقی میں تیرا احتمال بھی داخل کر لیا۔ (وقعات السنان ص 27)
اپنی کتاب خالص الاعتقاد میں مولانا حسین احمد مدنی کے متعلق لکھتے ہیں :
"کبھی کسی بے حیاء ناپاک گھنونی سی گھنونی، بے باک سے بے باک۔ پاجی کمینی گندی قوم نے اپنے خصم کے مقابلے بے دھڑک ایسی حرکات کیں؟ آنکھیں میچ کر گندہ منہ پھاڑ کر ان پر فخر کئے؟انہیں سر بازار شائع کیا؟ اور ان پر افتخار ہی نہیں بلکہ سنتے ہیں کہ ان میں کوئی نئی نویلی، حیا دار،شرمیلی،بانکی،نکیلی،میٹھی،رسیلی،اچیل البیلی،چنچلانیلی،اجودھیابا شی آنکھ یہ تان لیتی اوبجی ہے
ناچنے ہی کو جو نکلے تو کہاں گھونگھٹ​
اس فاحشہ آنکھ نے کوئی نیا غمزدہ تراشا اور اس کا نام "شہاب ثاقب" رکھا ہے۔ (خالص الاعتقاد ص 22)
اسی کتاب میں فرماتے ہیں :
"کفر پارٹی وہابیہ کا بزرگ ابلیس لعین۔ ۔ ۔ ۔ خبیثو! تم کافر ٹھہر چکے ہو۔ ابلیس کے مسخرے، دجال کے گدھے۔ ۔ ۔ ۔ ارے منافقو!۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہابیہ کی پوچ ذلیل، عمارت قارون کی طرح تحت الثریٰ پہنچتی نجدیت کے کوے سسکتے، وہابیت کے بوم بلکتے اور مذبوح گستاخ بھڑکتے۔ (خالص الاعتقاد ص 2تا20)
شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے ہیں :
" سرکش ، طاغی ، شیطان ، لعین ، بندہ داغی " (الامن والعلی ص 112)
فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں :
"غیر مقلدین و دیوبندیہ جہنم کے کتے ہیں۔ رافضیوں (شیعہ) کو ان سے بدتر کہنا رافضیوں پر ظلم اور ان کی شان خباثت میں تنقیص ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 2ص 90)
سبحان السبوح میں ارشاد کرتے ہیں :
"جو شاہ اسماعیل اور نذیر حسین وغیرہ کا معتقد ہوا، ابلیس کا بندہ جہنم کا کندہ ہے۔ غیر مقلدین سب بے دین، پکے شیاطین پورے ملاعین ہیں۔ (سبحان السبوح ص 134)
ان کے ایک معتقد بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ :
"آپ مخالفین کے حق میں سخت تند مزاج واقع ہوئے تھے اور اس سلسلے میں شرعی احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھتے تھے۔ 20"
یہی وجہ تھی کہ لوگ ان سے متنفر ہونا شروع ہو گئے۔ بہت سے ان کے مخلص دوست بھی ان کی عادت کے باعث ان سے دور ہوتے چلے گئے۔ ان میں سے مولوی محمد یٰسین بھی ہیں جو مدرسہ اشاعة العلوم کے مدیر تھے اور جنہیں جناب احمد رضا اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے، وہ بھی ان سے علیحدہ ہو گئے۔ 21
اس پر مستزاد یہ کہ مدرسہ مصباح التہذیب جو ان کے والد نے بنوایا تھا، وہ ان کی ترش روئی، سخت مزاجی، بذات لسانی اور مسلمانوں کی تکفیر کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس کے منتظمین ان سے کنارہ کشی اختیار کر کے وہابیوں سے جا ملے۔ اور حالت یہ ہو گئی کہ بریلویت کے مرکز میں احمد رضا صاحب کی حمایت میں کوئی مدرسہ باقی نہ رہا۔ باوجودیکہ بریلویوں کے اعلیٰ حضرت وہاں اپنی تمام تر سرگرمیوں سمیت موجود تھے۔ 22
جہاں تک بریلوی حضرات کا تعلق ہے تو دوسرے باطل فرقوں کی مانند اپنے امام و قائد کے فضائل و مناقب بیان کرتے وقت بہت سی جھوٹی حکایات اور خود ساختہ کہانیوں کا سہارا لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بریلوی حضرات اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ جھوٹ کسی کی قدر و منزلت میں اضافے کی بجائے اس کی تذلیل اور استہزاء کا باعث ہوتا ہے۔
چنانچہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ:
"آپ کی ذہانت و فراست یہ عالم تھا کہ چار برس کی مختصر عمر میں، جس میں عموماً دوسرے بچے اپنے وجود سے بھی بے خبر ہوتے ہیں، قرآن مجید ناظرہ ختم کر لیا۔ آپ کی رسم بسم اللہ خوانی کے وقت ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے لوگوں کو دریائے حیرت و استعجاب میں ڈال دیا۔ حضور کے استاد محترم نے آپ کو "بسم اللہ الرحمن الرحیم" پڑھانے کے بعد الف،با،تا،پڑھایا۔ پڑھاتے پڑھاتے جب لام الف (لا) کی نوبت آئی تو آپ نے خاموشی اختیار فرما لی۔ استاد نے دوبارہ کہا کہ "کہو میاں لام الف" حضور نے فرمایا کہ یہ دونوں تو پڑھ چکے پھر دوبارہ کیوں؟
اس وقت آپ کے جد امجد مولانا رضا علی خان صاحب قدس سرہ العزیز نے فرمایا "بیٹا استاد کا کہا مانو۔ "
حضور نے ان کی طرف نظر کی۔ جد امجد نے اپنی فراست ایمانی سے سمجھ لیا کہ بچے کو شبہ ہے کہ یہ حرف مفردہ کا بیان ہے۔ اب اس میں ایک لفظ مرکب کیوں آیا؟ اگر بچے کی عمر کے اعتبار سے اس راز کو منکشف کرنا مناسب نہ تھا، مگر حضرت جد امجد نے خیال فرمایا کہ یہ بچہ آگے چل کے آفتاب علم و حکمت بن کر افق عالم پر تجلی ریز ہونے والا ہے، ابھی سے اسرار و نکات کے پردے اس کی نگاہ و دل پر سے ہٹا دئیے جائیں۔ چنانچہ فرمایا:"بیٹا تمہارا خیال بجا و درست ہے، لیکن پہلے جو حرف الف پڑھ چکے ہو وہ دراصل ہمزہ ہے اور یہ الف ہے۔، لیکن الف ہمیشہ ساکن ہوتا ہے اور ساکن کے ساتھ چونکہ ابتداء ناممکن ہے، اس لئے ایک حرف یعنی لام اول میں لا کر اس کی ادائیگی مقصود ہے۔ حضور نے اس کے جواب میں کہا تو کوئی بھی حرف ملا دینا کافی تھا، لام ہی کی کیا خصوصیت ہے؟ با،تا،دال اور سین بھی شروع میں لا سکتے تھے۔
جد امجد علیہ الرحمہ نے انتہائی جوش محبت میں آپ کو گلے لگا لیا اور دل سے بہت سی دعائیں دیں۔ پھر فرمایا کہ لام اور الف میں صورتاً خاص مناسبت ہے۔ اور ظاہراً لکھنے میں بھی دونوں کی صورت ایک ہی ہے۔ لایا لا اور سیرت اس وجہ سے کہ لام کا قلب الف ہے اور الف کا قلب لام"۔ 23
اس بے معنی عبارت کو ملاحظہ فرمائیے۔ اندازہ لگائیں کہ بریلوی حضرات چار برس کی عمر میں اپنے اعلیٰ حضرت کی ذہانت و فراست بیان کرنے میں کس قسم کے علم کلام کا سہارا لے رہے ہیں اور لغو قسم کے قواعد و ضوابط کو بنیاد بنا کر ان کے ذریعہ سے اپنے امام کی علمیت ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خود اہل زبان عرب میں سے تو کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس لا یعنی قاعدے کو پہچان سکے اور اس کی وضاحت کر سکے۔ لیکن ان عجمیوں نے الف اور لام کے درمیان صورت و سیرت کے لحاظ سے مناسبت کو پہچان کر اس کی وضاحت کر دی۔
دراصل بریلوی قوم اپنے امام کو انبیاء ا ور رسل سے تشبیہ ہی نہیں، بلکہ ان پر افضلیت دینا چاہتی ہے اور یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ ان کے امام و قائد کو کسی کی طرف سے تعلیم دینے کی ضرورت نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا سینہ علوم و معارف کا مرکز و محیط بن چکا تھا اور تمام علوم انہیں وہبی طور پر عطا کیے جا چکے تھے۔ اس امر کی وضاحت نسیم بستوی کی اس نص سے بھی ہو جاتی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں :
"عالم الغیب نے آپ کا مبارک سینہ علوم و معارف کا گنجینہ اور ذہن و دماغ و قلب و روح کو ایمان و یقین کے مقدس فکر و شعور اور پاکیزہ احساس و تخیل سے لبریز فرما دیا تھا۔ لیکن چونکہ ہر انسان کا عالم اسباب سے بھی کسی نہ کسی نہج سے رابطہ استوار ہوتا ہے، اس لیے بظاہر اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ (معاذ اللہ) کو بھی عالم اسباب کی راہوں پر چلنا پڑا۔ (انوار رضا ص 55 بستوی ص 27)24
یعنی ظاہری طور پر تو جناب احمد رضا صاحب نے اپنے اساتذہ سے اکتساب علم کیا مگر حقیقی طور پر وہ ان کی تعلیم کے محتاج نہ تھے، کیونکہ ان کا معلم و مربی خود رب کریم تھا۔
جناب بریلوی خود اپنے متعلق لکھتے ہیں :
"درد سر اور بخار وہ مبارک امراض ہیں جو انبیاء علیہم السلام کو ہوتے تھے۔
آگے چل کر لکھتے ہیں :
"الحمد للہ کہ مجھے اکثر حرارت اور درد سار رہتا ہے۔ 25
جناب احمد رضا یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ان کی جسمانی کیفیت انبیاء کرام علیہم السلام سے مشابہت رکھتی ہے۔ اپنی تقدیس ثابت کرنے کے لیے ایک جگہ فرماتے ہیں :
"میری تاریخ ولادت ابجدی حساب سے قرآن کریم کی اس آیت سے نکلتی ہے جس میں ارشاد ہے : ( اولٰئک کتب فی قلوبھم الایمان و ایدھم بروح منہ )
یعنی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھ دیا ہے اور ان کی روحانی تائید فرما دی ہے۔ "26
نیز ان کے بارے میں ان کے پیروکاروں نے لکھا ہے :
"آپ کے استاد محترم کسی آیت کریمہ میں بار بار زبر بتا رہے تھے اور آپ زیر پڑھتے تھے۔ یہ کیفیت دیکھ کر حضور کے جد امجد رحمہ اللہ علیہ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا اور کلام مجید منگوا کر دیکھا تو اس میں کاتب کی غلطی سے اعراب غلط لکھا گیا تھا۔ یعنی جو زیر حضور سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی زبان حق ترجمان سے نکلتا ہے، وہی صحیح اور درست تھا۔ پھر جد امجد نے فرمایا کہ مولوی صاحب جس طرح بتاتے ہیں اسی کے مطابق پڑھوں، مگر زبان پر قابو نہ پاتا تھا۔ 27
نتیجہ یہ نکلا کہ "اعلیٰ حضرت" صاحب کو بچپن سے ہی معصوم عن الخطاء کا مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ بریلوی حضرات نہ صرف یہ کہ مختلف واقعات بیان کر کے اس قسم کا نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں، بلکہ وہ اپنے امام وبانی کے متعلق صراحتاً اس عقیدے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ عبدالکریم قادری صاحب لکھتے ہیں :
"اعلیٰ حضرت کی قلم و زبان ہر قسم کی لغزش سے محفوظ تھی۔ اور باوجودیکہ ہر عالم کی کوئی نہ کوئی لغزش ہوتی ہے، مگر اعلیٰ حضرت نے ایک نقطے کی غلطی بھی نہیں کی۔ 28"
ایک دوسرے صاحب لکھتے ہیں :
"اعلیٰ حضرت نے اپنی زبان مبارک سے کبھی غیر شرعی لفظ ادا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر قسم کی لغزشوں س محفوظ رکھا۔ 29"
نیز یہ کہ :
"اعلیٰ حضرت بچپن ہی سے غلطیوں سے مبرا تھے۔ صراط مستقیم کی اتباع آپ کے اندر ودیعت کر دی گئی تھی۔ 30
انوار رضا میں ایک صاحب بڑے برملا انداز میں تحریر فرماتے ہیں :
"اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلم اور زبان کو غلطیوں سے پاک کر دیا تھا۔ 31"
مزید کہا جاتا ہے :
"اعلیٰ حضرت غوث اعظم کے ہاتھ میں اس طرح تھے جیسے کاتب کے ہاتھ میں قلم، اور غوث اعظم رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں اس طرح تھے جیسے کاتب کے ہاتھ میں قلم۔ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وحی کے سوا کچھ ارشاد نہ فرماتے تھے۔ 32"
ایک بریلوی شاعر اپنے اعلیٰ حضرت کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں
ہے حق کی رضا احمد کی رضا
احمد کی رضا مرضی رضا(٣٣)
ان کے ایک اور پیروکار لکھتے ہیں :
"اعلیٰ حضرت کا وجود اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھا۔ 34"
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا ایک گستاخ اپنے امام و راہنما کے بارے میں کہتا ہے :
"اعلیٰ حضرت کی زیارت نے صحابہ کرام کی زیارت کا شوق کم کر دیا ہے "۔ 35
مبالغہ آرائی کرتے وقت عموماً عقل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایک بریلوی مصنف اس کا مصداق بنتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :"ساڑھے تین سال کی عمر شریف کے زمانے میں ایک دن اپنی مسجد کے سامنے جلوہ افروز تھے کہ ایک صاحب اہل عرب کے لباس میں تشریف لائے اور آپ سے عربی زبان میں گفتگو فرمائی۔ آپ نے ( ساڑھے تین برس کی عمر میں ) فصیح عربی میں ان سے کلام کیا اور اس کے بعد ان کی صورت دیکھنے میں نہیں آئی۔ 36"
ایک صاحب لکھتے ہیں :
ایک روز استاد صاحب نے فرمایا:احمد میاں تم آدمی ہو کہ جن؟ مجھے پڑھاتے ہوئے دیر نہیں لگتی ہے، لیکن تمہیں یاد کرتے دیر نہیں لگتی۔ دس برس کی عمر میں ان کے والد، جو انہیں پڑھاتے بھی تھے، ایک روز کہنے لگے تم مجھ سے پڑھتے نہیں بلکہ پڑھاتے ہو۔ 37" یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان کا استاد مرزا غلام قادر بیگ مرزا غلام احمد قادیانی کا بھائی تھا۔ 38 جناب بستوی صاحب کم سنی میں اپنے امام کے علم و فضل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
14 برس کی عمر میں آپ سند و دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔ اسی دن رضاعت کے ایک مسئلے کا جواب لکھ کر والد ماجد قبلہ کی خدمت عالی میں پیش کیا۔ جواب بالکل درست (صحیح) تھا۔ آپ کے والد ماجد نے آپ کے جواب سے آپ کی ذہانت و فراست کا اندازہ لگا لیا اور اس دن سے فتویٰ نویسی کا کام آپ کے سپرد کر دیا۔ "
اس سے پہلے آٹھ سال کی عمر مبارک میں آپ نے ایک مسئلہ وراثت کا جواب تحریر فرمایا:۔
"واقعہ یہ ہوا کہ والد ماجد باہر گاؤں میں تشریف فرما تھے۔ کہیں سے سوال آیا، آپ نے اس کا جواب لکھا اور والد صاحب کی واپسی پر ان کو دکھایا۔ جسے دیکھ کر ارشاد ہوا معلوم ہوتا ہے یہ مسئلہ امن میاں (اعلیٰ حضرت)نے لکھا ہے۔ ان کو ابھی نہ لکھنا چاہئے۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ہمیں اس جیسا کوئی بڑا مسئلہ کوئی لکھ کر دکھائے تو جانیں۔ 39"
اس نص سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت صاحب نے آٹھ برس کی عمر میں فتویٰ نویسی کا آغاز کر دیا تھا۔ مگر خود اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :
"سب سے پہلا فتویٰ میں نے 1286ء میں لکھا تھا، جب میری عمر 13 برس تھی۔ اور اسی تاریخ کو مجھ پر نماز اور دوسرے احکام فرض ہوئے تھے۔ 40"
یعنی بستوی صاحب فرما رہے ہیں کہ اعلیٰ حضرت نے آٹھ برس کی عمر میں ہی وراثت جیسے پیچیدہ مسئلے کے متعلق فتویٰ صادر فرما دیا تھا جب کہ خود اعلیٰ حضرت صاحب اس کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرما رہے ہیں کہ میں نے سب سے پہلا فتویٰ 13 برس کی عمر میں دیا تھا۔ "
اس سے بھی زیادہ لطف کی بات یہ ہے کہ بریلوی حضرات کا یہ دعویٰ ہے کہ جناب احمد رضا بریلوی صاحب نے 14 برس کی عمر میں ہی تعلیم مکمل کر کے سند فراغت حاصل کر لی تھی۔ 41
مگر کئی مقامات پر خود ہی اس کی تردید بھی کر جاتے ہیں۔ چنانچہ حیات اعلیٰ حضرت کے مصنف ظفر الدین بہاری لکھتے ہیں : "اعلیٰ حضرت نے مولانا عبدالحق خیر آبادی سے منطقی علوم سیکھنا چاہے، لیکن وہ انہیں پڑھانے پر راضی نہ ہوئے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی کہ احمد رضا مخالفین کے خلاف نہایت سخت زبان استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ 42"
بستوی صاحب کہتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ان کی عمر 20 برس تھی۔ 43
اسی طرح بریلوی صاحب کے ایک معتقد لکھتے ہیں :
اعلیٰ حضرت نے سید آل رسول شاہ کے سامنے 1294ھ میں شرف تلمذ طے کیا اور ان سے حدیث اور دوسرے علوم میں سند اجازت لی۔ 44"
ظفر بہاری صاحب کہتے ہیں :
"آپ نے سید آل رسول شاہ کے بیٹے ابوالحسین احمد سے 1296ھ میں بعض علوم حاصل کیے۔ 45"
بہرحال ایک طرف تو بریلوی حضرات یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ احمد رضا 13 برس یا 14 برس کی عمر میں ہی تمام علوم سے فارغ ہو چکے تھے، دوسری طرف بے خیالی میں اس کی تکذیب بھی کر رہے ہیں۔ اب کسے نہیں معلوم کہ 1272ھ یعنی احمد رضا صاحب کی تاریخ پیدائش اور 1296ھ میں بھی بعض علوم حاصل کیے ہوں تو 14 برس کی عمر میں سند فراغت کے حصول کا کیا معنی ہے؟ مگر بہت دیر پہلے کسی نے کہہ دیا تھا "لا ذاکرۃ لکذّاب" یعنی "دروغ گورا حافظہ نبا شد۔ (جھوٹے کا حافظہ نہیں ہوتا)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات
  1. ملاحظہ ہو دائرة المعاف الاسلامیہ اردو جلد ٤ ص ٤٨٥ مطبوعہ پنجاب ١٩٦٩ء
  2. دائرة المعارف جلد ٤ ص ٤٨٧
  3. اعلیٰ حضرت بریلوی مصنفہ بستوی ص ١٢٥ ایضاً حیات اعلیٰ حضرت از ظفرالدین بہاری رضوی مطبوعہ کراچی
  4. تذکرة علمائے ہندص ٦٤
  5. حیات اعلیٰ حضرت جلد١ ص١
  6. اعلیٰ حضرت از بستوی ص ٢٥
  7. ملاحظہ ہو،،من ہو احمد رضا،، از شجاعت علی قادری ص ١٥
  8. اس کتاب کے مصنف مولانا مرتضیٰ حسن دیوبندی ہیں۔
  9. اعلیٰ حضرت از بستوی ص ٢٠
  10. حیات اعلیٰ حضرت مصنفہ ظفر الدین بہاری جلد ١ ص ٣٥
  11. ملاحظہ ہو مضمون حسنین رضا درج شدہ اعلیٰ حضرت بریلوی ص ٢٠
  12. بستوی ص ٢٨
  13. ملفوظات اعلیٰ حضرت ص ٦٤
  14. ملفوظات ص ٢٠،٢١
  15. انوار رضا ص ٣٦٠
  16. حیات اعلیٰ حضرت ص ٦٤
  17. ایضاً ص٢٢
  18. انوار رضاص ٣٥٨
  19. الفاضل البریلوی مصنفہ مسعود احمدص ١٩٩
  20. مقدمہ مقالات رضا از کوکب ص ٣٠ مطبوعہ لاہور
  21. حیات اعلیٰ حضرت ص ٢١١
  22. ایضاً ص ٢١١
  23. البریلوی از بستوی ص ٢٦، ٢٧، انوار رضا ص ٣٥٥ وغیرہ
  24. انوار رضا ص ٣٥٥ . بستوی ص ٢٧
  25. ملفوظات جلد ١ ص ٦٤
  26. حیات اعلیٰ حضرت از بہاری ص ١
  27. بستوی ص ٢٨، ایضاً حیات اعلیٰ حضرت ص ٢٢
  28. یاد اعلیٰ حضرت از عبدالحکیم شرف قادری ص ٣٢
  29. مقدمہ الفتاویٰ الرضویہ جلد ٢ ص ١٥ از محمد اصغر علوی
  30. انوار رضا ص ٢٢٣
  31. ایضاً٢٧١
  32. ایضاً ٢٧٠
  33. باغ فردوس مصنفہ ایوب رضوی ص٧
  34. انوار رضاص ١٠٠
  35. وصایا شریف ص ٢٤
  36. حیات اعلیٰ حضرت از بہاری ص ٢٢
  37. مقدمہ فتاویٰ رضویہ جلد ٢ ص ٦
  38. بستوی ص ٣٢
  39. اعلیٰ حضرت بریلوی ص ٣٢
  40. من ہو احمد رضا از قادری ص ١٧
    (یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ حضورؐ کی شریعت میں نماز دس برس کی عمر میں فرض ہے اور جناب احمد رضا پر نماز ١٣ برس کی عمر میں فرض ہوئی(ناشر)
  41. ملاحظہ ہو حیات اعلیٰ حضرت از بہاری ص ٣٣۔ ایضاً انوار رضا صفحہ ٣٥٧ وغیرہ
  42. بہاری ص ١٣٣ ایضاً انوار رضا ص ٣٥٧
  43. نسیم بستوی ص ٣٥
  44. انوار رضا ص ٣٥٦
  45. حیات اعلیٰ حضرت ص٣٤،٣٥
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خاندان
جناب احمد رضا کے خاندان کے متعلق صرف اتنا ہی معلوم ہو سکا کہ ان کے والد اور دادا کا شمار احناف کے علماء میں ہوتا ہے۔ البتہ جناب بریلوی صاحب کے مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ ان کا تعلق شیعہ خاندان سے تھا۔ انہوں نے ساری عمر تقیہ کیے رکھا اور اپنی اصلیت ظاہر نہ ہونے دی، تاکہ وہ اہل سنت کے درمیان شیعہ عقائد کو رواج دے سکیں۔
ان کے مخالفین اس کے ثبوت کے لیے جن دلائل کا ذکر کرتے ہیں، ان میں سے چند ایک یہاں بیان کیے جاتے ہیں :
جناب احمد رضا کے آباء اجداد کے نام شیعہ اسماء سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ان کا شجرہ نسب ہے :
احمد رضا بن نقی علی بن رضا علی بن کاظم علی۔ 46
بریلویوں کے اعلیٰ حضرت نے امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے خلاف نازیبا کلمات کہے ہیں۔ عقیدہ اہلسنت سے وابستہ کوئی شخص ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اپنے ایک قصیدے میں لکھا ہے :
تنگ و چست ان کا لباس اور وہ جوبن کا ابھار
مسکی جاتی ہے قبا سر سے کمر تک لے کر
یہ پھٹا پڑتا ہے جوبن مرے دل کی صورت
کہ ہوئے جاتے ہیں جامہ سے بروں سینہ وبر47
انہوں نے مسلمانوں میں شیعہ مذہب سے ماخوذ عقائد کی نشر و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کیا۔ 48
کوئی ظاہری شیعہ اپنے اس مقصد میں اتنا کامیاب نہ ہوتا، جتنی کامیابی احمد رضا صاحب کو اس سلسلے میں تقیہ کے لبادے میں حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے تشیع پر پردہ ڈالنے کے لیے چند ایسے رسالے بھی تحریر کیے جن میں بظاہر شیعہ مذہب کی مخالفت اور اہل سنت کی تائید پائی جاتی ہے۔ شیعہ تقیہ کا یہی مفہوم ہے، جس کا تقاضا انہوں نے کماحقہ ادا کیا۔
جناب احمد رضا نے اپنی تصنیفات میں ایسی روایات کا ذکر کثرت سے کیا ہے جو خالصتاً شیعی روایات ہیں اور ان کا عقیدہ اہلسنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
مثلاً: "انّ علیّا قسیم النار۔ " "انّ فاطمة سمّیت بفاطمة لانّ اللہ فمھا و ذریّتھا من النّار۔ "
یعنی"حضرت علی رضی اللہ عنہ قیامت کے روز جہنم تقسیم کریں گے۔ 49 اور "حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کا نام فاطمہ اس لیے رکھا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اور ان کی اولاد کو جہنم سے آزاد کر دیا ہے۔ 50
شیعہ کے اماموں کو تقدیس کا درجہ دینے کے لیے انہوں نے یہ عقیدہ وضع کیا کہ اغواث (جمع غوث، یعنی مخلوقات کی فریاد رسی کرنے والے ) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہوتے ہوئے حسن عسکری تک پہنچتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے وہی ترتیب ملحوظ رکھی، جو شیعہ کے اماموں کی ہے۔ 51
احمد رضا نے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ کر حضرت علی کرم اللہ وجہ کو مشکل کشا قرار دیا اور کہا:
"جو شخص مشہور دعائے سیفی (جو شیعہ عقیدے کی عکاسی کرتی ہے ) پڑھے، اس کی مشکلات حل ہو جاتی ہیں۔ "
دعائے سیفی درج ذیل ہے :

ناد علیّا مظھر العجا ئب
تجدہ عونالّک فی النّوائب
کلّ ھمّ وغمّ سینجلّی
بولیتک یا علی یا علی​
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکارو جن سے عجائبات کاظہور ہوتا ہے۔ تم انہیں مددگار پاؤ گے۔ اے علی رضی اللہ عنہ آپ کی ولایت کے طفیل تمام پریشانیاں دور ہو جاتی ہیں۔ 52
اسی طرح انہوں نے پنجتن پاک کی اصطلاح کو عام کیا اور اس شعر کو رواج دیا:
لی خمسة اطفی بھا حرّالوباء الحاطمة
المصطفیٰ المرتضیٰ و وابناھما و الفاطمة
یعنی پانچ ہستیاں ایسی ہیں جو اپنی برکت سے میری امراض کو دور کرتی ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم، علی رضی اللہ عنہ، حسن رضی اللہ عنہ، حسین رضی اللہ عنہ، فاطمہ رضی اللہ عنہا!53
انہوں نے شیعہ عقیدے کی عکاسی کرنے والی اصطلاح "جفر" کی تائید کرتے ہوئے اپنی کتاب خالص الاعتقاد میں لکھا ہے :
"جفر چمڑے کی ایک ایسی کتاب ہے جو امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے اہل بیت کے لیے لکھی۔ اس میں تمام ضرورت کی اشیاء درج کر دیں ہیں۔ اس طرح اس میں قیامت تک رونما ہونے والے تمام واقعات بھی درج ہیں۔ 54
اسی طرح شیعہ اصطلاح الجامعۃ کا بھی ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"الجامعۃ ایک ایسا صحیفہ ہے، جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تمام واقعات عالم کو حروف کی ترتیب کے ساتھ لکھ دیا ہے۔ آپ کی اولاد میں سے تمام ائمہ امور و واقعات سے باخبر تھے۔ 55
جناب بریلوی نے ایک اور شیعہ روایت کو اپنے رسائل میں ذکر کیا ہے کہ :
"امام احمد رضا (شیعہ کے آٹھویں امام ) سے کہا گیا کہ کوئی دعا ایسی سکھلائیں جو ہم اہل بیت کی قبروں کی زیارت کے وقت پڑھا کریں، تو انہوں نے جواب دیا کہ قبر کے قریب جا کر چالیس مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر کہو السلام علیکم یا اہل البیت، اے اہل بیت میں اپنے مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے آپ کو خدا کے حضور سفارشی بنا کر پیش کرتا ہوں اور آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمنوں سے برأت کرتا ہوں۔ 56"
یعنی شیعہ کے اماموں کو مسلمانوں کے نزدیک مقدس اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ اہل سنت سے افضل قرار دینے کے لئے انہوں نے اس طرح کی روایات عام کیں۔ حالانکہ اہل تشیع کے اماموں کی ترتیب اور اس طرح کے عقائد کا عقیدہ اہل سنت سے کوئی ناطہ نہیں ہے۔
جناب احمد رضا شیعہ تعزیہ کو اہل سنت میں مقبول بنانے کے لیے اپنی ایک کتاب میں رقمطراز ہیں :
"تبرک کے لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مقبرے کا نمونہ بنا کر گھر کے اندر رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ 57
اس طرح کی لاتعداد روایات اور مسائل کا ذکر ان کی کتب میں پایا جاتا ہے
جناب احمد رضا نے شیعہ کے اماموں پر مبنی سلسلہ بیعت کو بھی رواج دیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک عربی عبارت وضع کی ہے جس سے ان کی عربی زبان سے واقفیت کے تمام دعووں کی حقیقت بھی عیاں ہو جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
"اللّٰھم صلّ وسلّم علیٰ وبارک علیٰ سیّدنا مولانا محمّد المصطفیٰ رفیع المکان المرتضیٰ علی الشان الذی رجیل من امّتہ خیر من رّجال من السّالفین و حسین من زمرتہ احسن من کذا و کذا حسنا من السّابقین السّیّد السّجاد زین العابدین باقر علوم الانبیاء والمرسلین ساقی الکوثر و مالک تسنیم و جعفر الّذی یطلب موسی الکلیم رضا ربّہ بالصّلاۃ علیہ۔ 58"
عربی زبان کا ادنیٰ علم رکھنے والا بھی اس عبارت کی عجمیت، رکاکت اور بے مقصدیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ ایسے شخص کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا کہ وہ ساڑھے تین برس کی عمر میں فصیح عربی بولا کرتا تھا، کس قدر عجیب لگتا ہے؟
"حسین من زمرتہ احسن من وکذا وکذا حسنا من السّابقین" کیسی بے معنی ترکیب ہے۔
"یطلب موسی الکلیم رضا ربّہ بالصّلاۃ علیہ" میں موسیٰ الکلیم سے مراد کون ہیں؟ اگر مراد موسیٰ کاظم ہیں تو کلیم سے کیا معنی؟ اور اگر مراد نبی و رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں تو کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام (معاذ اللہ) امام جعفر صادق پر درود بھیج کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
بہرحال یہ عبارت مجموعہ رکاکت بھی ہے اور مجموعہ خرافات بھی!
حاصل کلام یہ ہے کہ رضا بریلوی صاحب نے اس نص میں شیعہ کے اماموں کو ایک خاص ترتیب سے ذکر کر کے مسلمانوں کو رفض و تشیع سے قریب لانے کی سعی کی ہے۔
جناب بریلوی صاحب نے برصغیر کے اہل سنت اکابرین کی تکفیر کی اور فتوی دیا کہ ان کی مساجد کا حکم عام گھروں جیسا ہے انہیں خدا کا گھر تصور نہ کیا جائے۔
اسی طرح انہوں نے اہل سنت کے ساتھ مجالست و مناکحت کو حرام قرار دیا۔ اور جہاں تک شیعہ کا تعلق ہے تو وہ ان کے اماموں کے باڑوں کے ابجدی ترتیب سے نام تجویز کرتے رہے۔ 59
احمد رضا صاحب پر رفض و تشیع کا الزام اس لیے بھی لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے شیعہ کے اماموں کی شان میں شیعوں کے انداز میں مبالغہ آمیز قصائد بھی لکھے۔ 60
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فصاحت عربی سے ناواقفی
جناب احمد رضا کی یہ عبارت بے معنیٰ ترکیبوں اور عجمیت زدہ جملوں کا مجموعہ ہے، مگر عبدالحکیم قادری صاحب کو اصرار ہے کہ اس میں کوئی غلطی نہیں دلیل سے خالی اصرار کا تو کوئی جواب نہیں، اگر انہیں اصرار ہے تو سو بار رہے، ہمیں اس پر کوئی انکار نہیں۔ ان کے اصرار سے یہ شکستہ عبارت درست تو نہیں ہو جائے گی! مگر ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ ایک صاحب نے مصنف رحمہ اللہ علیہ کی عربی کتاب میں سے بزعم خویش چند غلطیاں نکال کر اپنی جہالت کا ثبوت جس طرح دیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے اپنی عجمیت زدہ ذہنیت سے جب "البریلویہ" کا مطالعہ کیا تو انہیں کچھ عبارتیں ایسی نظر آئیں جو ان کی تحقیق کے مطابق عربی قواعد کے اعتبار سے غیر صحیح تھیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ان "غلطیوں کی "تصحیح" بھی کی ہوئی تھی اور یہی "تصحیح" ان کی جہالت کا راز کھولنے کا سبب بن گئی۔
ذرا آپ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ان کی تصحیح میں کس قدر تغلیط ہے۔ ہم ذیل میں ان کی چند تصحیحات نقل کرتے ہیں۔ تاکہ قارئین ان کی علمی تحقیق کاوش سے استفادہ فرما سکیں۔
الحجم الصغیر : موصوف لکھتے ہیں کہ یہ لفظ غلط ہے اس کی بجائے القطع الصغیر ہونا چاہیے تھا۔
جناب کو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے۔ موصوف کا گمان یہ ہوا کہ چونکہ حجم تو اردو میں مستعمل ہے، لہٰذا عربی کا لفظ نہیں ہو سکتا۔ المنجد مادہ ح ج م میں الحجم کا معنی مقدار الحجم سے کیا گیا ہے۔ موصوف کو چاہئے کہ وہ اپنی معلومات درست کر لیں۔
المواضیع : اس کی تصحیح جناب نے المواضع سے کی ہے۔ پوری عبارت ہے "فلاجل ذلک تضاربت اقوالھم فی ھذا الخصوص (ای الموضوع) مثل المواضیع (جمع الموضوع) الاخرے "
موصوف نے اسے "موضع" کی جمع سمجھ لیا اور اس کی تصحیح "مواضع" سے کر دی، جو بجائے خود ایک غلطی ہے۔
نظرۃ تقدیر و احترام : تصحیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں نظرۃ تعظیم و احترام گویا جناب نے اپنی علمیت کے زور پر یہ سمجھا کہ یہ عربی کا لفظ نہیں ہے۔ حالانکہ عربی لغت کی تمام کتب نے اس لفظ کو ادا کیا ہے۔ اور اس کا معنی "الحرمتہ والوقار" سے کیا ہے۔ ملاحظہ ہو المنجد ص 245 وغیرہ مادہ القدر
بین السنۃ: موصوف کو یہ علم نہیں کہ لفظ "السنہ" کہہ کر اہلسنت کا مفہوم بھی ادا کیا جاتا ہے۔ مولف رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "الشیعہ والسنہ" میں "السنہ" سے مراد اہلسنت ہیں۔ عربی زبان سے معمولی واقفیت رکھنے والا بھی اس معنی سے ناآشنا نہیں۔ اس کی تصحیح "اہل السنّہ" سے کرنا اس لفظ کے استعمال سے عدم واقفیت کی دلیل ہے۔
ان یبوس : فرماتے ہیں کہ یہ عجمی لفظ ہے اس لیے عربی میں اس کا استعمال نا درست ہے۔ موصوف کو اگر عربی ادب سے ذرا سی بھی واقفیت ہوتی تو شاید یہ بات لکھ کر علمی حلقوں میں جگ ہنسائی کا باعث نہ بنتے۔ کیونکہ عربی زبان میں اس کا استعمال عام رائج ہے۔ ملاحظہ ہو المنجد مادہ ب وس، باسہ، بوسا، قبلہ
ترک التکایا : لکھتے ہیں یہ عجمی لفظ ہے، حالانکہ یہ "اتکا" سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی ہے : اسند ظھرہ الیٰ شئی" ملاحظہ ہو المنجد مادہ وک ا
رسید : ان کا اعتراض ہے یہ لفظ عربی زبان میں مستعمل نہیں حالانکہ عرب ممالک میں رسید الامتعتہ کا استعمال عام رائج ہے۔ اسے رصید بھی لکھا جاتا ہے۔ المنجد میں ہے (انظر مادہ رص د)
اصدر وافرمانا : المنجد مادہ ف رم۔ الفرمان ج فرامین ای عھد السطان للولاۃ
وہ الفاظ و کلمات جو عربی کے ساتھ ساتھ دوسری لغات میں بھی استعمال ہوتے ہیں، ان کا استعمال غلط نہیں ہے۔ ان کی تغلیط جہالت کی واضح دلیل ہے۔
کتب فیہا لال البیت : شیعہ کے نزدیک آل بیت اور اہل بیت کا مفہوم ایک ہی ہے "البریلویہ" کی اس عبارت میں آل بیت کا استعمال ہی صحیح ہے، کیونکہ اس احمد رضا صاحب نے شیعوں کی ترجمانی کی ہے۔
ومن جاء : ان کی تصحیح الیٰ من جاء سے کی ہے۔ یہاں الیٰ کا استعمال اس لیے نہیں کیا گیا کہ پہلی الیٰ پر عطف ہے۔ اس لیے دوبارہ استعمال ضروری نہ رہا۔
علاوہ ازیں کچھ غلطیاں ایسی درج ہیں جو کتابت و طباعت کی ہیں۔ مثلاً کبیب النمل! کہ اصل میں ہے "کدبیب النمل" ٹائپ کی غلطی سے و حذف ہو گئی ہے۔ اسی طرح القرأت میں ء کی جگہ ۃ غلطی سے ٹائپ ہو گیا ہے۔ مناصرۃ للاستعمار۔ کہ اصل میں مناصرۃ للاستعمار یا استرقاق کی بجائے استر تقاق وغیرہ۔
بہرحال غلطیوں کی یہ فہرست قادری صاحب کی عربی زبان پر عدم قدرت کی بین اور واضح دلیل ہے۔ بریلویت کے حاملین کی علمیت پہلے ہی مشکوک تھی، قادری صاحب نے اس پر مہر ثبت کر دی ہے۔ (ثاقب)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات
٤٦۔حیات اعلیٰ حضرت ص ٢
٤٧۔حدائق بخشش جلد ٣ ص ٢٣
٤٨۔فتاویٰ بریلویہ ص ١٤
٤٩۔الامن والعلی مصنفہ احمد رضا بریلوی ص ٥٨
٥٠۔ختم نبوت از احمد رضا ص ٩٨
٥١۔ملفوظات ص ١١٥
٥٢۔الامن والعلی ص ١٢،١٣
٥٣۔فتاویٰ رضویہ جلد ٦ ص ١٨٧
٥٤۔خالص الاعتقاد از احمد رضا ص ٤٨
٥٥۔ایضاً ص ٤٨
٥٦۔حیاۃ الموات درج شدہ فتاویٰ رضویہ از احمد رضا بریلوی جلد ٤ ص ٢٤٩
٥٧۔رسالہ بدرالانوار ص ٥٧
٥٨۔انوار رضا ص ٢٧
٥٩۔ملاحظہ ہو یاد اعلیٰ حضرت ص ٢٩
٦٠۔ملاحظہ ہو حدائق بخشش از احمد رضا مختلف صفحات
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top