• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بریلویت تاریخ وعقائد

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات
1ملاحظہ ہوفتاویٰ رضویہ جلد ٦ص ٥٦۔
2ملاحظہ ہو،،ماھی الضلالۃ،،از فتاویٰ رضویہ جلد ٥ص ٨٩۔
3جاء الحق از احمد یارص ٢٨٢۔
4ایضاً ص ٢٨٥۔
5رواہ مسلم والترمذی والنسائی واحمد والحاکم والبہیقی۔
6ایضاً۔
7رواہ مسلم۔
8کتاب الاثار از امام محمد۔
9کتاب الاصل جلد ا ص ٤٢٢ از امام محمد
10المبسوط از امام سرخسی جلد ٢ ص ٦٢۔
11فتاویٰ قاضی خاں جلدا ص ١٩٤
12بدائع الصنائع از امام کاسانی جلد ١ ص ٣٢٠۔
13جلد ٢ ص ٢٠٩
14جلد١ص ٣٢٠۔
15جلدا ص ٤٧٢
16جلد ١ ص ٦٠١۔
17جلد ١ص ٦٦١
18جلد ٤ ص ٨١۔
19ص٥٠
20مجالس الابرار از قاضی ابراہیم ص ١٢٩۔
21رواہ البخاری
22احکام شریعت للبریلوی ج١ ص ٧١۔
23اقیجاً ص ٧١
24بریق المنار بشموع المزار در فتاویٰ رضویہ جلد ٤ ص ١٤٤۔
25جاء الحق از احمد یار گجراتیء ص ٣٠٠
26رواہ ابوداؤد والترمذی والنسائی۔
27مرقاۃ از ملا علی قاری جلد ١ ص ٤٧٠
28مجالس الابرار ص ١١٨
29جاء الحق ص ٣٠٢
30ردّ المختار از ابن عابدین شامی جلد٢ ص ١٣٩
31ردّ المختار از حصکفی جلد٢ ص ١٣٩
32فتاویٰ عالمگیری جلد ١ ص ١٧٨
33روح المعانی جلد ١٥ ص ٢١٩
34فتاویٰ مطالب المومنین
35فتاویٰ عزیزیہ ص٩
36فتاویٰ شاہ رفیع الدین ص ١٤
37مطالب المومنین
38مشکوٰۃ المصابیح باب المساجد عن مالک فی موطا
39ملاحظہ فرمائیں، کس طرح یہ لوگ قرآن مجید میں معنوی تحریف کا ارتکاب کر رہے ہیں اور نبوت کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ولایت نبوت سے افضل ہے،اور یہی عقیدہ ہے گمراہ ابن عربی صوفی کا۔ احمد یار گجراتی نے حضرت زکریا علیہ السلام کامقام و مرتبہ حضرت مریم علیہاالسلام سے گھٹا دیا ہے۔ (العیاذ باللہ)
40جاء الحق ص ٣٣٥
41مواعظ نعیمیہ از گجراتی ص ٢٢٤
42بہار شریعت جز ء اول ص ٥٦
43بریلوی شریعت سے تویہ بات ثابت ہو سکتی ہے،اسلامی شریعت سے ثابت نہیں ہے
44رسالہ المعجزۃ العظمیٰ المحمدیہ درج فتاویٰ صدر الافاضل نعیم مراد آبادی ص ١٦٠
45رسالہ حاجز البحرین از بریلوی درج فتاویٰ رضویہ جلد ٢ ص ٣٣٣
46فتاویٰ رضویہ جلد ٠١ ص ٦٦
47ایضاً ص ٢٠٧
48بہار شریعت از امجد علی رضوی جزء ٤ ص ١٣٣
49علم القرآن از احمد یار ص ٣٦
50حکایات رضویہ ص ٤٦
51حکایات رضویہ ص ١٤٦
52الحق المبین از احمد سعید کاظمی ص ٧٤
53رسول الکلام فی بیان المولد والقیام ص ١٥
54جاء الحق جلد١ ص ٢٣١
55ایضاً
56ایضاً ص ٢٣٣
57رسول الکلام ص٥٨
58ایضاً ص ٦٠
60متفق علیہ۔
61رواہ احمد وابوداؤد والترمذی وابن ماجہ
62حجۃ اللہ البالغہ جلد٢ص ٧٧،ایضاً تفہیمات الٰہیہ جلد ٢ ص ٦٤
63تفسیر مظہری از قاضی ثناء اللہ جلد ٢ ص ٦٥
64البحرالرائق
65شرح المناسک از ملا علی قاری
66القول المعتمد فی عمل المولد از احمد بن محمد مصری
67دول الاسلام از امام ذہبی رحمہ اللہ جلد ٢ ص ١٠٢
68البدایہ والنہایہ ازامام ابن کثیر جلد١٣ص ١٤٤
69ایضاً ص ١٤٥
70لسان المیزان از امام ابن حجر جلد ٤ ص ٢٩٦
71الانوار الساطعہ از عبدالسمیع بریلوی ص ٢٥٠
72رواہ الترمذی و ابوداؤد
73رواہ الترمذی وقال،حدیث حسن
74مرقاۃ شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد ٥ ص ٤٨٢
75فتاویٰ بزازیہ جلد ٤ص ٨١
76جاء الحق جلد١ ص ٢٧٠
77رسالہ اتیان الارواح در مجموعہ رسائل جلد ٢ ص ٦٩، ایضاً جاء الحق جلد١ ص ٢٦٢۔
78اتیان الارواح ص ٧٠
79شرح الدرایہ از محمود بن احمد حنفی
80البنایہ شرح الہدایہ جلد ٣ ص ٦٥٥
81مجموعہ رسائل از ابن عابدین ص ١٧٣،١٧٤
82ایضاً ص ١٧٥
84تفسیر طبری،ابن کثیر اور قرطبی وغیرہ
85شرح العقیدہ الطحاویہ ص ٥١٧
86مقدمہ رسالہ بدرالانوار مجموعہ رسائل اعلیٰ حضرت جلد ٢ ص ٨
87درا لانوار احمد رضا ص ١٢
88ایضاً ص ٢١
89ایضاً الفصل الرابع ص ٤٣
90رسالۃ ابرالمقال درج در مجموعہ رسائل جلد ٢ ص ١٤١
91ایضاً ص ١٥٩
92ایضاً ص ١٤٤
93ابرالمقال فی قبلۃ الاجلال از بریلوی ص ١٤٣
94بدرالانوار فی آداب الاٰثار ص ٣٩
95ایضاً ص ٤٠
96ابرالمقال فی قبلۃ الاجلال از بریلوی ص ١٤٣
97ایضاً ص ١٤٨
98بدرالانوار ص ٥٣
99ایضاًص ٥٦
100مجموعہ رسائل از احمد رضاص ١٤٤
101ایضاً ص ٣٠٤
102بدار الانوار در مجموعہ رسائل ص ٥٠ ومابعد
103غایۃ الاحتیاط فی جواز حیلۃ الاسقاط درج در بذل الجوائر ص ٣٤ طبع لاہور۔
107حیلۃ الاسقاط ص ٣٥
108منیز العین فی حکم تقبل الابہامین مندرج در فتاویٰ رضویہ ص ٣٨٣
109المقاصد الحسنہ للسخاوی
110تیسیرالمقال از امام سیوطی
111ملاحظہ ہو تذکرۃ الموضوعات للفتنی، موضوعات ملا علی قاری، الفوائد المجموعتہ للامام الشوکانی۔
112منیرالعین در فتاویٰ رضویہ جلد ٢ ص ٤٨٨
113ایضاً ص ٤٩٦
114فتاویٰ رضویہ جلد ٤ ص ١٢٧
115ایضاً ص ١٢٩۔
116جاء الحق ص ٣٤٠
117فتاویٰ رضویہ جلد ٤ ص ٥٤
118جاء الحق جلد ١ ص ٣١٥
119ابرالمقال فی قبلتہ الاجلال ص ١٤٣
120بدرا لانوار فی آداب الاٰثار ص٣٨
121ایضاً ص ٤٠
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
باب 5: بریلویت اور تکفیری فتوے۔حصہ اول
بریلوی حضرات نے اکابرین اسلامیہ کی جس انداز سے تکفیر کی ہے، انہیں ملحد زندیق اور مرتد قرار دیا ہے اور انہیں غلیظ اور نجس گالیوں سے نوازا ہے، کسی شخص کا اس پر جذباتی ہونا اور جواباً وہی طرز و اسلوب اختیار کرنا اگرچہ فطری تقاضا ہے۔ ۔ ۔ ۔ مگر ہمارا چونکہ مثبت، نرم اور غیر متشددانہ ہے، لہٰذا ہم کفر کے فتووں کو ذکر کرنے کے باوجود اپنے اسلوب میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آنے دیں گے۔ ویسے بھی مومن کی یہ شان نہیں کہ وہ لعن طعن کا اسلوب و انداز اختیار کرے۔
بریلوی مذہب کے پیروکاروں نے اپنے مخصوص عقائد و نظریات کو اسلام کا نام دے رکھا ہے۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے تمام اختیارات اولیاء کے پاس ہیں۔ ان کے خود ساختہ بزرگان دین ہی خلق کی شنوائی اور ان کی حاجت روائی کرتے ہیں۔ وہ علم غیب رکھتے ہیں اور آناً فاناً پوری دنیا کا چکر لگا کر اپنے مریدوں کی تکالیف کو دور کرتے،
انہیں دشمنوں سے نجات عطا کرتے اور مصائب و مشکلات سے چھٹکارا دیتے ہیں۔ ان کے پاس نفع و نقصان پہنچانے، مردے کو زندہ کرنے اور گناہ گاروں کو بخشنے جیسے اختیارات موجود ہیں۔ وہ جب چاہیں بارش برسا دیں، جسے چاہیں عطا کریں اور جسے چاہیں محروم رکھیں۔ حیوانات ان کے فرماں بردار ہیں، فرشتے ان کے دربان ہیں۔ وہ حشر نشر اور حساب و کتاب کے وقت اپنے پیروکاروں کی مدد کرنے پر قادر ہیں۔ زمین و آسمان میں ان کی بادشاہی ہے۔ جب چاہیں ایک ہی قدم میں عرش پر چلے جائیں اور جب چاہیں وہ سمندروں کی تہہ میں اتر جائیں۔ سورج ان کی اجازت کے بغیر طلوع نہیں ہوتا۔ وہ اندھے کو بینا کر سکتے ہیں اور کوڑھی کو شفا دے سکتے ہیں۔ مرنے کے بعد ان کی قوت و طاقت میں حیرت ناک حد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔ دلوں کے راز جاننے والے اور موت و حیات کے مالک ہیں۔
یہ تمام اختیارات جب بزرگان دین کے پاس ہیں تو کسے کیا ضرورت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پکارے، مساجد کا رخ کرے، رات کی تاریکیوں میں اٹھ کر وہ اپنے رب کے حضور گڑگڑائے؟
وہ کسی پیر کے نام کی نذر و نیاز دے گا، آپ کو اس کا مرید بنا لے گا، وہ خود ہی اس کی نگہبانی کرے گا، مصائب میں اس کے کام آئے گا اور قیامت کے روز اسے جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کر دے گا۔ ظاہر ہے جس کی عقل سلامت ہو اور اسلام کی تعلیمات سے ادنیٰ سی بھی واقفیت بھی رکھتا ہو، وہ تو ان عقائد کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ وہ تو رب کائنات کو اپنا خالق و مالک و رازق اور داتا و حاجت روا مانے گا اور مخلوق کو اس کا محتاج اور اس کے بندے تصور کرے گا۔ وہ انسان ہو کر انسان کی غلامی اختیار نہیں کر سکتا۔ بس یہی قصور تھا اہل حدیث کا!۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے ہندوؤانہ و مشرکانہ عقائد کو نہ مانا چنانچہ وہ جناب احمد رضا خاں صاحب بریلوی اور ان کے پیروکاروں کے تکفیری فتووں کا نشانہ بن گئے۔
اہل حدیث نے کہا ہمیں جناب بریلوی کی اطاعت کا نہیں، بلکہ کتاب و سنت کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔
انہیں سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد عزیز تھا:
ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکم بھما کتاب اللہ و سنة رسولہ
"میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے گمراہ نہیں ہو گے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم!
یہی ایک جرم تھا جو انہیں مقتل لے گیا ان پر فتووں کی بوچھاڑ ہوئی اور وہ کافر، زندیق، ملحد اور مرتد ٹھہرے !
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اَطِیعُوا اللہَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّکُم تُرحَمُونَ
"اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمانبرداری کرو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ "
اَطِیعُوا اللہَ وَرَسْولَہُ وَلَا تَوَلَّوا عَنہُ وَاَنتُم تَسمَعُونَ
"اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرو اور ان کے فرامین سننے کے باوجود ان سے
روگردانی نہ کرو۔ "
یٰاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اَطِیعُوا اللہَ وَاطِیعُوا الرَّسُولَ
"اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ہی اطاعت کرو۔ "
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیا ہے۔ مگر بریلوی عقائد و افکار کے دلائل چونکہ کتاب و سنت سے مہیا نہیں ہوتے اور اہل حدیث صرف کتاب و سنت پر اکتفا کرتے ہیں اور لوگوں کو اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں، چنانچہ بریلوی حضرات کو ان پر سخت غصہ تھا کہ یہ ان کے کاروبار زندگی کو خراب اور ان کی چمکتی ہوئی دکانوں کو ویران کر رہے ہیں۔ یہی قصور امام محمد بن عبدالوہاب نجدی رحمہ اللہ تعالیٰ اور ان کے ساتھیوں کا تھا۔ بریلوی حضرات کے نزدیک دیوبندی بھی اسلام سے خارج ہیں۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ان کے تراشے ہوئے قصے کہانیوں پر ایمان نہیں لائے اور جناب احمد رضا کی پیروی نہیں کی۔
تمام وہ شعراء حضرات، جنہوں نے معاشرے کو غیر اسلامی رواجات سے پاک کرنا چاہا، وہ بھی بریلوی حضرات کے نزدیک کفار و مرتدین قرار پائے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ لوگوں کو یہ کیوں بتلاتے ہیں کہ خانقاہی نظام اور آستانوں پر ہونے والی خرافات و بدعات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
ماہرین تعلیم بھی کافر و مرتد قرار پائے، کیونکہ وہ تعلیم کے ذریعے شرک و جہالت کی تاریکیوں کا مقابلہ کرتے اور معاشرے سے ہندوؤانہ رسموں کو ختم کرنے کے لیے آواز بلند کرتے تھے، اور اس سے ان ( بریلوی ملاؤں ) کا کاروبار ختم ہو سکتا تھا۔
اسی طرح تحریک آزادی کے ہیرو، مسلم سیاستدان، تحریک خلافت کے قائدین، انگریزوں کے خلاف بغاوت بلند کرنے والے اور جہاد کی دعوت دینے والے بھی بریلویوں کے فتووں اور دشمنی سے محفوظ نہ رہ سکے، کیونکہ وہ جناب بریلوی کے افکار سے متفق نہ تھے۔
بریلوی حضرات کی تکفیری مشین گن کی زد سے شائد ہی کوئی شخص محفوظ رہ سکا ہو۔ ہر وہ شخص ان کے نزدیک کافر و مرتد ٹھہرا، جس کا ذرا سا بھی ان سے اختلاف ہوا۔ حتیٰ کہ بہت سے ایسے لوگ بھی ان کی تکفیر سے نہ بچ سکے، جو عقائد و افکار میں تو ان سے متفق تھے، مگر مخالفین کو کافر کہنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ جب کہ بریلوی حضرات کے نزدیک مخالفین کے کفر و ارتداد میں شک کرنے والا بھی کافر ہے۔ اس کا ذکر مفصل آ رہا ہے !
انہوں نے اپنے ایک ساتھی عبدالباری لکھنؤی کو بھی کافر قرار دے دیا، کیونکہ انہوں نے بعض علماء کو کافر قرار دینے سے انکار کر دیا تھا۔ 5 چنانچہ اس موضوع پر ایک مستقل کتاب تصنیف کی "الطاری الداری لہفوات عبدالباری۔ "
جناب احمد رضا اور ان کے ساتھی اس جملے کو بار بار دہراتے ہیں "جس نے فلاں کے کفر میں شک کیا، وہ بھی کافر !" جو اسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !6"
مشہور اسلامی کاتب مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ احمد رضا خاں صاحب کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"احمد رضا فقہی اور کلامی مسائل میں بہت متشدد تھے۔ بہت جلد کفر کا فتویٰ لگا دیتے۔ تکفیر کا پرچم اٹھا کر مسلمانوں کو کافر قرار دینے کی ذمے داری انہوں نے خوب نبھائی۔ بہت سے ان کے ساتھی بھی پیدا ہو گئے جو اس سلسلے میں ان کا ساتھ دیتے رہے۔ جناب احمد رضا ہر اصلاحی تحریک کے مخالف رہے۔ بہت سے رسالے بھی ان کی تکفیر کو ثابت کرنے کے لیے تحریر کیے۔
حرمین شریفین کے علماء سے ان کے خلاف فتوے بھی لیے۔ استفتاء میں ایسے عقائد ان کی طرف منسوب کیے جن سے وہ بری الذمہ تھے۔ امام محمد بن قاسم نانوتوی، علامہ رشید احمد گنگوہی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم اللہ وغیرہ کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے اور برملا ان کے کفر و ارتداد کے فتووں کا اظہار کرتے تھے۔ اپنی کتاب حسام الحرمین میں لکھتے ہیں، جو شخص ان کے کفر اور عذاب میں ذرا سا بھی شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔ جناب احمد رضا ساری زندگی مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگانے میں مصروف و مشغول رہے۔ حتیٰ کہ کفر کے فتوے کو ایک معمولی امر تصور کیا جانے لگا اور ان کے اس عمل کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمان اختلاف و انتشار کا شکار ہو گئے۔ 7"
تکفیر مسلمین میں جناب بریلوی تنہا نہیں تھے، بلکہ ان کے متبعین نے بھی مسلمانوں کو کفار و مرتدین کے اس زمرے میں شامل کرنے کے لیے چوٹی کا زور صرف کیا۔ اہل حدیث کا اس کے علاوہ کیا جرم تھا کہ وہ عوام کو شرک و بدعت سے اجتناب کی تلقین کرتے اور اختلاف کے وقت کتاب و سنت ہی سے ہدایت و راہنمائی حاصل کرنے کی دعوت دیتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
( فَاِن تَنَازَعتُم فِی شَیء ٍ فَرُدُّوہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسْول) (النساء)
"اگر تمہارا آپس میں اختلاف ہو جائے تو اس کے حل کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم، یعنی کتاب و سنت کی طرف رجوع کرو۔ "
اسی طرح اہل حدیث کی دعوت ہے کہ امت محمدیہ پر رسول ا کرم صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کسی کی اطاعت و اتباع فرض نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خواہ کتنا بڑا ولی، محدث اور امام ہی کیوں نہ ہو!
حدیث میں ہے :
"جب تک تم کتاب و سنت کی اطاعت کرتے رہو گے، گمراہ نہیں ہو گے۔ "
اہل حدیث نے پاک و ہند میں ہندوؤانہ رسم و رواج کو اسلامی تہذیب کا حصہ بننے سے روکا اور بدعات و خرافات کا کھل کر مقابلہ کیا انہوں نے کہا کہ دین اسلام کے مکمل ہو جانے کے بعد اب کسی نئی چیز کی ضرورت نہیں رہی:
( اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَ اَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی)
یعنی دین اسلام عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں ہی مکمل ہو چکا تھا۔ دین میں کسی نئے مسئلے کی ایجاد بدعت ہے، اور بدعت کے متعلق ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے :
من احدث فی امرنا ھذا فھو ردّ۔ وفی رواية : فشر الامور محدثاتھا وکل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة۔11
"جو دین میں کوئی چیز ایجاد کرے، اسے رد کر دیا جائے۔ ایک روایت میں ہے سب سے بری چیز دین میں نئی ایجادات ہیں۔ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی!"
نیکی اور ثواب کے تمام کاموں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرما دیا ہے۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ایجاد ہونے والی رسوم و رواج اور بدعات دین اسلام کا حصہ نہیں انہیں مسترد کر دیا جائے۔
اہل حدیث علماء نے اسی بات کی طرف دعوت دی۔ بریلوی حضرات نے اس دعوت کو اپنے عقائد و نظریات کے منافی سمجھا۔ کیونکہ اس دعوت میں ان کے میلے، عرس و میلاد، تیجے و چالیسویں، قوالی اور گانے بجانے، رقص و سرور کی محفلیں اور شکم پروری و خواہشات نفسانی کی تکمیل کے لیے ایجاد کی جانے والی دوسری بدعات خطرے میں پڑ جاتی تھیں۔
چنانچہ انہوں نے علمائے اہل حدیث کو اپنا بدترین دشمن سمجھا اور ان کے خلاف تکفیر بازی کی مہم شروع کر دی۔
اس سلسلے میں انہوں سب سے پہلے وہابی تحریک کے سرخیل شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ تعالیٰ کو نشانہ بنایا، کیونکہ شرک و بدعت کے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ کرنے والے وہ سب سے پہلے شخص تھے۔ وہ توحید و سنت کا پرچم لے کر نکلے اور کفر و بدعت کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا کرتے چلے گئے۔
انہوں نے جب دیکھا کہ ہندوؤانہ عقائد اسلامی تہذیب کا حصہ بن رہے ہیں، حدود اللہ معطل ہو چکی ہیں، اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور جاہل صوفیاء غلط نظریات کا پرچار کر رہے ہیں، وہ کتاب و سنت کی روشنی میں صحیح اسلامی دعوت کا جھنڈا لے کر اٹھے اور انگریزوں کے خلاف عملی جہاد کے ساتھ ساتھ شرک و بدعت کے طوفان کا بھی مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اتر آئے۔ انہوں نے جب اپنی کتاب تقویۃ الایمان (12)میں لوگوں کو توحید کے عقیدے کی طرف دعوت دی، غیر اللہ سے فریاد رسی جیسے عقائد کو باطل ثابت کیا اور تقلید و جمود اور مذہبی تعصب کی بھی بیخ کنی کی۔ شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ انگریزوں اور سکھوں کے خلاف جہاد میں مشغول رہے اور درس و تدریس اور وعظ و تبلیغ کے ذریعے بھی مسلمانوں کو توحید کا سبق دیتے رہے۔ دن کا جہاد کرتے، راتوں کو قیام کرتے۔ یوں مسلسل محنت اور جدوجہد سے شرک و بدعت کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ راہِ حق میں شہادت پا گئے۔ وہ اس آیت کا مصداق تھے :
(اِنَّ اللہَ اشتَریٰ مِنَ المُومِنِینَ اَنفُسَھُم وَ اَموَالَھُم بِاَنَّ لَھُمُ الجنة۔ ۔ ۔ ۔ فَیَقتُلُونَ وَ یُقتَلُونَ)(التوبہ:111)
"اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کا مال خرید لیا ہے اور اس کے بدلے میں ان کے لیے جنت لکھ دی ہے وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں اور کافروں کو قتل کرتے کرتے خود بھی شہید ہو جاتے ہیں۔ "
شاہ شہید رحمہ اللہ علیہ کے بعد انہوں نے ان کی دعوت کے جانشین سید امام نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کو تکفیری مہم کا نشانہ بنایا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے حدیث کی نشر و اشاعت میں اس وقت موجود پوری دنیا کے علماء سے زیادہ کردار ادا کیا۔ ان کے شاگردوں نے دنیا بھر میں علوم حدیث کے احیاء کے لیے مسلسل محنت کی اور درس تدریس میں مصروف رہے۔ اسی بناء پر مصری مفکر رشید رضا نے لکھا ہے :اگر ہمارے ہندوستانی اہلحدیث بھائی حدیث کے علوم کا اہتمام نہ کرتے تو شاید ان علوم کا بہت سے علاقوں میں وجود ختم ہو جاتا۔ 14
کیونکہ:بہت سے مقلدین حدیث کی کتابوں کا سوائے تبرک کے کوئی فائدہ نہیں سمجھتے تھے۔ 15"
جناب بریلوی نے شاہ شہید اور سید نذیر حسین علیہما الرحمہ کو کافر قرار دیا۔ شاہ شہید علیہ الرحمہ کی تکفیر کے لئے انہوں نے ایک مستقل رسالہ "الکوكبة الشہابية فی کفریات الوہابیہ" تحریر کیا۔ اس کی ایک عبارت ملاحظہ ہو:
"اے سرکش منافقو اور فاسقو! تمہارا بڑا (شاہ اسماعیل شہید) یہ گمان کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف عام انسانوں سے بھی کم ہے، رسول اللہ سے بغض و عداوت تمہارے منہ سے ظاہر ہو گئی۔ جو تمہارے سینوں میں ہے، وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ تم پر شیطان غالب آ چکا ہے۔ اس نے تمہیں خدا کی یاد اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم بھلا دی ہے۔ قرآن میں تمہاری ذلت و رسوائی بیان ہو چکی ہے۔ تمہاری کتاب تقویۃ الایمان اصل میں تقویت الایمان ہے یعنی وہ ایمان کو ضائع کر دینے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے کفر سے غافل نہیں۔ 16"
مزید ارشاد فرماتے ہیں :
وہابیہ اور ان کے پیشوا (شاہ اسماعیل) پر بوجوہ کثیر قطعاً یقیناً کفر لازم اور حسب تصریحات فقہائے کرام ان پر حکم کفر ثابت و قائم ہے۔ اور بظاہر ان کا کلمہ پڑھنا ان کو نفع نہیں پہنچا سکتا اور کافر ہونے سے نہیں بچا سکتا۔ اور ان کے پیشوا نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں اپنے اور اپنے سب پیروؤں کے کھلم کھلا کافر ہونے کا صاف اقرار کیا ہے۔ 17"
اب ذرا ان کے کافر ہونے کا سبب بھی ملاحظہ فرمائیں۔ لکھتے ہیں :
"اسماعیل دہلوی کہتا ہے کہ ایک شخص کی تقلید پر جمے رہنا، باوجودیکہ اس کے کہ اپنے امام کے خلاف صریح احادیث موجود ہوں، درست نہیں ہے۔ اس کا یہ کہنا اس کی کفریات میں سے ہے۔ 18"
یعنی امام اسماعیل شہید رحمہ اللہ اس لیے کافر ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ صریح احادیث کے مقابلے میں کسی کے قول پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ ان کی کفریہ باتوں میں سے ہے۔
لکھتے ہیں :"انہیں کافر کہنا فقہاء واجب ہے۔ واضح ہو کہ وہابیہ منسوب ابن عبدالوہاب نجدی ہیں۔ ابن عبدالوہاب ان کا معلم اول تھا۔ اس نے کتاب التوحید لکھی، تقویۃ الایمان اس کا ترجمہ ہے۔
ان کا پیشوا نجدی تھا۔ اس فرقہ متفرقہ یعنی وہابیہ اسماعیلیہ اور اس کے امام ناہنجار پر جزماً قطعاً یقیناً اجمالاً بوجوہ کثیرہ کفر لازم ہے۔ اور بلاشبہ جماہیر فقہائے کرام کی تصریحات واضحہ پر یہ سب کے سب مرتد کافر ہیں۔ 19"
ایک اور جگہ کہتے ہیں :"اسماعیل دہلوی کافر محض تھا۔ 20"
ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا کہ اسماعیل دہلوی کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ تو جواب دیا: "میرا عقیدہ ہے، وہ مثل یزید کے ہے۔ اگر اسے کوئی کافر کہے تو اسے روکا نہ جائے۔ 21"
مزید:اسماعیل دہلوی سرکش، طاغی شیطان لعین کا بندہ داغی تھا۔ 22"
نیز:امام الوہابیہ یہودی خیالات کا آدمی ہے۔ 23"
ان کی کتاب تقویۃ الایمان کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں :
"تقویۃ الایمان ایمان کو برباد کر دینے والا وہابیہ کا جھوٹا قرآن ہے۔ 24"
نیز:"محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے جدید قرآن تقویۃ الایمان کو جہنم پہنچایا۔ 25"
اس پر بھی مستزاد: "تقویۃ الایمان وغیرہ سب کفری قول، نجس بول و براز ہیں۔ جو ایسا نہ جانے، زندیق ہے۔ 26"
اس کتاب کا پڑھنا زنا اور شراب نوشی سے بھی بدتر ہے۔ 27"
ظاہر ہے یہ سارا غیظ و غضب اس لیے کہ تقویۃ الایمان کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو ہدایت نصیب ہوئی اور وہ شرک و قبر پرستی کی لعنت سے تائب ہو کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قائل ہوئے۔ جناب بریلوی بخوبی واقف تھے کہ اس کتاب کو پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، چنانچہ انہوں نے اس کے پڑھنے کو حرام قرار دے دیا۔ تقویۃ الایمان قرآنی آیات اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بھری ہوئی ہے۔ اور پڑھنے والا جب ایک ہی موضوع پر اس قدر آیات کو ملاحظہ کرتا ہے تو وہ حیران و ششدر رہ جاتا ہے کہ یہ تمام آیات بریلوی عقائد و افکار سے متصادم ہیں اور ان کے مفہوم کا بریلوی مذہب کے بنیادی نظریات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کتاب کا قاری تردد کا شکار ہو کر بالآخر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہ جن عقائد کا حامل ہے ان کا شریعت اسلامیہ سے کوئی واسطہ نہیں۔ اور وہ اپنے شرکیہ عقائد کو چھوڑ کر توحید و سنت پر عمل پیرا ہو جاتا ہے۔ جناب بریلوی کو اس بات کا بہت دکھ تھا۔ چنانچہ خود بدلنے کی بجائے تقویۃ الایمان کو اپنے بغض و حسد کا نشانہ بناتے رہے۔
قرآن کریم میں ہے :
(وَاِذَ ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَت قُلُوبُھُم وَاِذَا تُلِیَت عَلَیھِم اياتُہُ زَادَتھُم اِیمَانًا) (الانفال)
"مومنوں کے سامنے جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے، ان کے دلوں میں اللہ کا خوف آ جاتا ہے اور جب ان پر قرآنی آیات تلاوت کی جاتی ہے، ان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ "
(وَاِذَ سَمِعُوا مَا اُنزِلَ اِلَی الرَّسُولِ تَریٰ اَعیُنَھُم تَفِیضُ مِنَ الدَّمع مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الحَقِّ۔ ) (المائدہ:83)
"جب مومن قرآن مجید سنتے ہیں اور انہیں حق کی پہچان ہوتی ہے، تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ "
بہر حال قرآن کریم کی تلاوت اور اسے سمجھنے کے بعد کوئی شخص بھی بریلوی عقائد سے توبہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات و فرامین سن کر کسی مومن کے لیے انہیں تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں :
(وَمَا کَانَ لِمُومِنٍ وَلَا مُومنة اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُولُہُ اَمرًا اَن یَکُونَ لَھُمُ الخِیَرَۃ۔ )(احزاب)
"جب اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کسی امر کا فیصلہ کر دیں، تو ا س کے آگے کسی مومن مرد یا مومن عورت کو چوں چراں کرنے کا حق نہیں ہے۔ "
(وَمَن یُّشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الھُدیٰ وَ یَتَّبِعُ غَیرَ سَبِیلِ المُومِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَولّیٰ وَ نُصلِہِ جَھَنَّمَ وَ سَاء ت مَصِیرًا۔ ) (النساء )
"ہدایت واضح ہو جانے کے بعد جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کی مخالفت کرے گا اور مومنوں کے راستے کے علاوہ کسی اور کی پیروی کرے گا، ہم اسے گمراہی کی طرف پھیر دیں گے اور جہنم میں داخل کریں گے۔ ۔ ۔ ۔ اور جہنم برا ٹھکانہ ہے۔ "
(مَا اٰتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَھَاکُم عَنہُ فَانتَھُوا۔ ) (الحشر)
"جو اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کہے، اس پر عمل کرو۔ اور جس سے روکے، اس سے رک جاؤ۔ "
اب جس شخص کا بھی یہ ایمان ہو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کے مقابلے میں کسی قول کی کوئی حیثیت نہیں، تو ظاہر ہے وہ جب شرک و بدعت کے خلاف تقویۃ الایمان میں موجود آیات و احادیث پڑھے گا، تو وہ رضا خانی افکار و نظریات پر قائم نہیں رہ سکے گا۔ اور یہ چیز خاں صاحب اور ان کے ساتھیوں پر بدعات و خرافات اور نذر و نیاز کے ذریعہ سے حاصل ہونے والے معاش کو بند کرنے کا باعث تھی۔ لہٰذا انہوں نے یہ سارے فتوے صادر کر کے اپنے غصے کا اظہار کیا۔
سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کہ جنہیں جناب بریلوی کافر و مرتد قرار دیتے تھے، ان کے متعلق مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے والد علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب "نزہۃالخواطر" کی ایک عبارت یہاں نقل کی جاتی ہے، جس میں آپ رحمہ اللہ نے سید نذیر حسین محدّث کے احوال بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
"حضرت حسین بن محسن الانصاری فرماتے ہیں کہ سید نذیر حسین یکتائے زمانہ تھے۔ علم و فضل اور حلم و بردباری میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ وہ کتاب و سنت کی تعلیمات کی طرف لوگوں کی راہنمائی فرماتے تھے، ہندوستان کے علماء کی اکثریت ان کی شاگرد ہے۔
حسد کی بنا پر کچھ لوگ ان کی مخالفت بھی کرتے رہے، مگر ان کے حسد کی وجہ سے اس جلیل القدر امام و محدث کی عزت میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا رہا۔
خود علامہ عبدالحئی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
"امام نذیر حسین محدّث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی علمی جلالت پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔ آپ رحمہ اللہ نے درس و تدریس اور افتاء کے ذریعے اسلامی علوم کی خدمت کی۔ میں خود 1312ھ میں ان کا شاگرد رہا ہوں۔ اصول حدیث اور اصول فقہ میں ان سے زیادہ ماہر کوئی شخص نہ تھا۔ قرآن و حدیث پر انہیں مکمل عبور حاصل تھا۔ تقویٰ و پرہیزگاری میں بھی ان کی کوئی مثال نہ تھی۔ ہمہ وقت درس و تدریس یا ذکر و تلاوت میں مصروف رہتے۔ عجم و عرب میں ان کے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہ اپنے دور کے رئیس المحدثین تھے۔
دوسرے ائمہ کی طرح انہیں بھی بہت سی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔
انگریز دشمنی کے الزام میں گرفتار کیے گئے۔ ایک سال جیل میں رہے، رہا ہونے کے بعد دوبارہ درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ پھر حجاز تشریف لے گئے، وہاں آپ رحمہ اللہ کے اوپر حاسدین نے بہت الزامات لگائے۔ آپ کو گرفتار کر لیا گیا مگر بری ہونے پر ایک دن بعد چھوڑ دیا گیا۔
آپ واپس ہندوستان تشریف لے آئے۔ یہاں بھی آپ پر تکفیری فتووں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ آپ نے تمام تکالیف برداشت کر کے ہندوستان کو قرآن و حدیث کے علوم سے منور کیا اور عصبیت و جمود کی زنجیروں کو پاش پاش کیا۔
آپ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھے۔ ارض ہندوستان پر آپ کے بہت زیادہ احسانات ہیں۔ قرآن و حدیث کے علوم سے دلچسپی رکھنے والے آپ کی علمی قدر و منزلت پر متفق ہیں۔ جزاہ اللہ خیرا!33
مزید فرماتے ہیں :
سید نذیر محدث رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ زیادہ تر تدریس میں مشغول رہے۔ اس لیے آپ کی تصنیفات بہت زیادہ نہیں۔
آپ کی مشہور تصانیف میں معیار الحق،ثبوت الحق،مجموعۃ الفتاوی، رسالۃ الولی باتباع النبی صلی اللہ علیہ و سلم، وقعۃ الفتویٰ ودافعۃ البلوی اور رسالہ فی ابطال عمل المولد شامل ہیں۔
البتہ آپ کے فتاویٰ کو اگر جمع کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہو جائیں۔ آپ کے شاگردوں کے کئی طبقات ہیں۔ ان میں سے جو معروف و مشہور ہیں، ان کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ بقیہ شاگرد ہزاروں سے متجاوز ہیں۔
آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کے مشہور تلامذہ میں
سید شریف حسین، مولانا عبداللہ غزنوی،مولانا عبدالجبار غزنوی، مولانا محمد بشیر السّہسوانی، سید امیر حسین،مولانا امیر احمد الحسینی السّہسوانی، مولانا عبدالمنان وزیر آبادی، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا عبداللہ غازی پوری، سید مصطفیٰ ٹونکی، سید امیر علی ملیح آبادی، قاضی ملا محمدپشاوری، مولانا غلام رسول، مولانا شمس الحق ڈیانوی،شیخ عبداللہ المغربی، شیخ محمد بن ناصر بن المبارک النجدی اور شیخ سعد بن حمد بن عتیق ہیں۔
بہت سے علماء نے قصائد کی صورت میں آپ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مولانا شمس الحق ڈیانوی نے غایۃ المقصود میں آپ کی سوانح عمری تحریر کی ہیں۔ اسی طرح مولانا فضل حسین مظفر پوری نے اپنی کتاب الحیاۃ بعد المماۃ میں آپ کے حالات زندگی مفصلاً بیان کیے ہیں۔
مجھے مولانا (عبدالحئی لکھنوی) سید صاحب رحمہ اللہ علیہ نے اپنے دست مبارک سے 1312ھ میں سند اجازت عطا فرمائی۔
آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات 10رجب 1320ھ بروز سوموار دہلی میں ہوئی نفعنا اللہ ببرکاتہ۔ آمین!34"
سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ درس نے بخاری و بغداد کی مجالس و محافل کی یاد تازہ کر دی۔ ہندوستان کے کونے کونے سے لوگ علم حدیث کے حصول کے لیے آپ کے حلقہ درس میں شامل ہونے لگے۔
احمد رضا بریلوی نے علم و معرفت کے اس سیل رواں کو اپنی خرافات و بدعت کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے آپ کو طعن و تشنیع اور تکفیر و تفسیق کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا:
"نذیر حسین دیلوی لا مذہباں، مجتہد نامقلداں، مخترع طرز نوی اور مبتدع آزاد روی ہے۔ 35"
مزید لکھتے ہیں : "نذیر حسین دہلوی کے پیروکار سرکش اور شیطان خناس کے مرید ہیں۔ 38"
نیز: "تم پر لازم ہے کہ عقیدہ رکھو، بے شک نذیر حسین دہلوی کافر و مرتد ہے۔ اور اس کی کتاب معیار الحق کفری قول اور نجس برازِ بول ہے، وہابیہ کی دوسری کتابوں کی طرح۔ 39"
صرف اسماعیل شہید رحمہ اللہ اور سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ ہی کافر و مرتد نہیں، بلکہ جناب بریلوی کے نزدیک تمام اہل حدیث کفار و مرتد ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں:
"غیر مقلدین (اہل حدیث) سب بے دین، پکے شیاطین اور پورے ملاعین ہیں۔ 40"
نیز: "جو اسماعیل اور نذیر حسین وغیرہ کا معتقد ہو ابلیس کا بندہ جہنم کا کندہ ہے۔ اہل حدیث سب کا فر و مرتد ہیں۔ 41"
مزید ارشاد ہے : غیر مقلدین گمراہ، بددین اور بحکم فقہ کفار و مرتدین ہیں۔ 42"
مزید: "غیر مقلد اہل بدعت اور اہل نار ہیں۔ وہابیہ سے میل جول رکھنے والے سے بھی مناکحت ناجائز ہے۔ وہابی سے نکاح پڑھوایا، تو تجدید اسلام و تجدید نکاح لازم، وہابی مرتد کا نکاح نہ حیوان سے ہو سکتا ہے نہ انسان سے۔ جس سے ہو گا زنائے خالص ہو گا۔ 43"
وہابیوں سے میل جول کو حرام قرار دینے والے کا ہندوؤں کی نذر و نیاز کے متعلق فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں :
"ان سے سوال کیا گیا کہ ہندوؤں کی نذر و نیاز کے متعلق کیا خیال ہے؟ کیا ان کا کھانا پینا جائز ہے؟
جواب میں ارشاد فرماتے ہیں :"ہاں ان باتوں پر آدمی مشرک نہیں ہوتا۔ 44"
ایک دوسری جگہ ہر قسم کی نذر غیر اللہ کو مباح قرار دیا ہے !45
مگر سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں کو ملعون قرار دیتے ہیں :
"نذیریہ لعنہم اللہ ملعون و مرتد ابد ہیں۔ 46"
اہل حدیث کو کافر و مرتد کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ حسب عادت گالی دیتے ہوئے اور غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"غیر مقلدین جہنم کے کتے ہیں۔ رافضیوں کو ان سے بدتر کہنا رافضیوں پر ظلم اور ان کی شان خباثت میں تنقیض ہے۔ 47"
"کفر میں مجوس یہود و نصاریٰ سے بدتر ہیں، ہندو مجوس سے بدتر ہیں۔ اور وہابیہ ہندوؤں سے بھی بدتر ہیں۔ 48"
مزید ارشاد کرتے ہیں :
وہابیہ اصلاً مسلمان نہیں۔ ان کے پیچھے نماز باطل محض ہے۔ ان سے مصافحہ ناجائز و گناہ ہے۔ جس نے کسی وہابی کی نماز جنازہ پڑھی، تو تجدید اسلام اور تجدید نکاح کرے !49"
نیز: ان سے مصافحہ کرنا حرام قطعی و گناہ کبیرہ ہے، بلکہ اگر بلا قصد بھی ان کے بدن سے بدن چھو جائے تو وضو کا اعادہ مستحب ہے۔ 50"
یہ تو تھے جناب احمد رضا صاحب بریلوی کے اہل حدیث کے متعلق ارشادات و فرامین کہ وہابی ملعون،کفار اور مرتدین ہیں۔ نہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز، نہ ان کی نماز جنازہ جائز،نہ ان سے نکاح کرنا جائز، نہ ان سے مصافحہ کرنا جائز۔ یہ سب شیاطین و ملاعین، ہندوؤں سے بدتر کافر اور جہنم کے کتے ہیں۔ جس نے کسی وہابی کی نماز جنازہ پڑھی، وہ توبہ کرے اور اپنا نکاح دوبارہ پڑھائے۔ اور جس کا ان سے بدن چھو جائے، وہ وضو کرے۔
اب جناب بریلوی کے پیروکاروں کے فتوے ملاحظہ ہوں۔ بریلوی مکتب فکر کے ایک مفتی ارشاد فرماتے ہیں :
"اہل حدیث جو نذیر حسین دہلوی، امیر احمد سہسوانی51، امیر حسن سہسوانی52، بشیر حسن قنوجی53 اور محمد بشیر قنوجی54، کے پیروکار ہیں، سب بحکم شریعت کافر اور مرتد ہیں۔ اور ابدی عذاب اور رب کی لعنت کے مستحق ہیں !55"
نیز: ثناء اللہ امرتسری کے پیروکار سب کے سب کافر اور مرتد ہیں، ازروئے حکم شریعت!56"
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ علیہ کہ جن کے بارے میں سید رشید رضا نے کہا ہے :
"رجل الٰھی فی الہند57"
اور جنہوں نے تمام باطل مذاہب وادیان: قادیانی، آریہ،ہندو،مجوسی اور عیسائی وغیرہ کو مناظروں میں شکست فاش دی اور وہ اس موضوع میں حجت سمجھے جاتے ہیں، ان کے بارے میں بریلوی حضرات کا فتویٰ ہے :
"غیر مقلدین کا رئیس ثناء اللہ امرتسری مرتد ہے۔ 58"
اور خود جناب بریلوی نے لکھا ہے : "ثناء اللہ امرتسری در پردہ نام اسلام، آریہ کا ایک غلام باہم جنگ زرگری کام۔ 59"
جناب بریلوی پوری امت مسلمہ کے نزدیک متفقہ ائمہ دین: امام ابن حزم رحمہ اللہ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، امام ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ کے بارے میں لکھتے ہیں :
"وہابیہ کے مقتدا ابن حزم فاسد الجزم اور ردئی المشرب تھے۔ 60"
مزید: ابن حزم لا مذہب، خبیث اللسان۔ 61"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے متعلق کہتے ہیں : "ابن تیمیہ فضول باتیں بکا کرتے تھے۔ 62"
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
باب 5: بریلویت اور تکفیری فتوے۔حصہ دوم
خان صاحب کے ایک خلیفہ لکھتے ہیں :
"ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) نے نظام شریعت کو فاسد کیا۔ ابن تیمیہ ایک ایسا شخص تھا، جسے اللہ تعالیٰ نے رسوا کیا۔ وہ گمراہ، اندھا اور بہرہ تھا۔ اسی طرح وہ بدعتی، گمراہ اور جاہل شخص تھا۔ 63"
ایک اور نے لکھا: ابن تیمیہ گمراہ اور گمراہ گر تھا۔ 64"
نیز: ابن تیمیہ بد مذہب تھا۔ 65" "ابن قیم ملحد تھا۔ 66"
امام شوکانی رحمہ اللہ کے متعلق ان کا ارشاد ہے :
"شوکانی کی سمجھ وہابیہ متاخرین کی طرح ناقص تھی۔ 67"
مزید: شوکانی بد مذہب تھا۔ 68"
جناب بریلوی اور ان کے متبعین امام محمد بن عبدالوہاب نجدی رحمہ اللہ کے بھی سخت دشمن ہیں، کیونکہ انہوں نے بھی اپنے دور میں شرک و بدعت اور قبر پرستی کی لعنت کے خلاف جہاد کیا اور توحید باری تعالیٰ کا پرچم بلند کیا۔
ان کے متعلق احمد رضا صاحب رقمطراز ہیں :
"بد مذہب جہنم کے کتے ہیں۔ ان کا کوئی عمل قبول نہیں۔ محمد بن عبدالوہاب نجدی وغیرہ گمراہوں کے لیے کوئی بشارت نہیں۔ اگرچہ اس کا نام محمد ہے اور حدیث میں جو ہے کہ "جس کا نام احمد یا محمد ہے اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں داخل نہیں کرے گا" یہ حدیث صرف سنیوں (بریلوی) کے لیے، بد مذہب (یعنی وہابی) تو اگر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان مظلوم قتل کیا جائے اور اپنے اس مارے جانے پر صابر و طالب ثواب رہے، تب بھی اللہ عزوجل اس کی بات پر نظر نہ فرمائے اور اسے جہنم میں ڈالے۔ 69"
مزید ارشاد فرماتے ہیں : "مرتدوں میں سب سے خبیث تر وہابی ہیں۔ 70"
نیز: وہابیہ اخبث واضر اصلی یہودی، بت پرست وغیرہ سے بدتر ہیں۔ 71"
خان صاحب لکھتے ہیں :
"وہابی فرقہ خبیثہ خوارج کی ایک شاخ ہے، جن کی نسبت حدیث میں آیا ہے کہ وہ قیامت تک منقطع نہ ہوں گے۔ جب ان کا ایک گروہ ہلاک ہو گا، دوسرا سر اٹھائے گا۔ یہاں تک کہ ان کا پچھلا طائفہ دجال لعین کے ساتھ نکلے گا۔ تیرہویں صدی کے شروع میں اس نے دیارِ نجد سے خروج کیا اور بنام نجدیہ مشہور ہوا۔ جن کا پیشوا شیخ نجدی تھا، اس کا مذہب میاں اسماعیل دہلوی نے قبول کیا۔ 72"
خان صاحب سے پوچھا گیا کہ کیا فرقہ وہابیہ خلفائے راشدین کے زمانہ میں تھا؟ اس کے جواب میں لکھتے ہیں :
"ہاں یہی وہ فرقہ ہے، جن کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ یہ ختم نہیں ہوئے۔ ان کا آخری گروہ دجال لعین کے ساتھ نکلے گا۔ یہی وہ فرقہ ہے کہ ہر زمانہ میں نئے رنگ نئے نام سے ظاہر رہا اور اب اخیر وقت میں وہابیہ کے نام سے پیدا ہوا۔ بظاہر وہ بات کہیں گے کہ سب باتوں سے اچھی معلوم ہو، اور حال یہ ہو گا کہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر نشانہ سے !73"
اپنی خرافات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں :
"غزوہ حنین میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے جو غنائم تقسیم فرمائیں، اس پر ایک وہابی نے کہا کہ میں اس تقسیم میں عدل نہیں پاتا۔ اس پر فاروق اعظم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اجازت دیجئے کہ میں منافق کی گردن ماردوں؟ فرمایا، اسے رہنے دے کہ اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہونے والے ہیں۔ یہ اشارہ وہابیوں کی طرف تھا۔ یہ تھا وہابیہ کا باپ، جس کی ظاہری و معنوی نسل آج دنیا کو گندہ کر رہی ہے۔ 74"
بریلوی صاحب کے ایک پیروکار اپنے بغض و عناد کا اظہار ان لفظوں سے کرتے ہیں :
"خارجیوں کا گروہ فتنے کی صورت میں محمد بن عبدالوہاب کی سرکردگی میں نجد کے اندر بڑے زور شور سے ظاہر ہوا۔ محمد بن عبدالوہاب باغی،خارجی بے دین تھا۔ اس کے عقائد کو عمدہ کہنے والے اس جیسے دشمنان دین، ضال مضل ہیں۔ 75"
امجد علی رضوی نے بھی اسی قسم کی خرافات کا اظہار کیا ہے !76
ایک بریلوی مصنف نے تو الزام تراشی اور دشنام طرازی کی حد کر دی ہے۔ صدق و حیا سے عاری ہو کر لکھتا ہے :
"وہابیوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بے گناہوں کو بے دریغ اور حرمین شریفین کے رہنے والوں کی عورتوں اور لڑکیوں سے زنا کیا (لعنة اللہ علی الکاذبین!) سادات کرام کو بہت قتل کیا، مسجد نبوی شریف کے تمام قالین اور جھاڑوفانوس اٹھا کر نجد لے گئے۔ اب بھی جو کچھ ابن سعود نے حرمین شریفین میں کیا 77وہ ہر حاجی پر روشن ہے۔ 78"
ایک اور بریلوی، امام محمد بن عبدالوہاب اور ان کے ساتھیوں کے متعلق غلیظ اور غیر شائستہ زبان استعمال کرتے ہوئے لکھتا ہے :
" یہ پیارے مذہب اہل سنت کا رعب حقانیت ہے کہ فراعنہ نجد حجاز کی مقدس سرزمین پر مسلط ہوتے ہوئے بھی لرز رہے ہیں، کپکپا رہے ہیں۔ (اب کہاں گیا رعب حقانیت! اب تو نہ صرف مسلط ہو چکے ہیں بلکہ اکابرین بریلویت کا داخلہ بھی وہاں بند کر دیا گیا ہے !)
لکھتے ہیں :
"ناپاک، گندے، کفری عقیدے رکھنے والے حکومت سعودیہ، ملت نجدیہ خبیثہ، ابن سعود کے فرزند نامسعود۔ 79"
ایک مرتبہ بمبئی کی جامع مسجد کے امام احمد یوسف نے سعودی شہزادوں کا استقبال کیا، تو بریلوی حضرات نے ان کے متعلق تکفیری فتوے دیتے ہوئے کہا:
"احمد یوسف مردود نے شاہ سعود کے بیٹوں کا استقبال کیا ہے اور نجدی حکومت کی تعریف کی ہے۔ وہ نجدی حکومت جس کے نجس، کفریہ اور خبیث عقائد ہیں۔ اس نے کفار و مرتدین کی عزت کی ہے اور گندی نجدی ملت کا استقبال کیا ہے۔ وہ اپنے اس عمل کی وجہ سے کافر و مرتد ہو گیا ہے اور غضب الٰہی کا مستحق ٹھہرا ہے اور اسلام کو منہدم کیا۔ اس کے اس عمل کی وجہ سے عرش الٰہی ہل گیا ہے۔ جو اس کے کفر میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔ 80"
یعنی سعودی خاندان کے افراد کا استقبال اتنا عظیم گناہ ہے کہ جس کے ارتکاب سے انسان کا و مرتد قرار پاتا اور غضب الٰہی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اس عمل کی وجہ سے عرش الٰہی بھی ہلنے لگتا ہے۔ دوسری طرف انگریزی استعمار کی حمایت و تائید کرنے سے ایمان میں کوئی فرق نہیں آتا، بلکہ اسے جلاء ملتی ہے اس کی وجہ صرف یہی ہو سکتی ہے کہ اہل توحید کی دعوت ان کی "دین کے نام پر دنیاداری" کے راستے میں حائل ہوتی ہے اور عوام الناس کو ان کے پھیلائے ہوئے جال سے آزاد کرتی ہے۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ان کی کتب قادیانی،شیعہ،بابی،بہائی،ہند و،عیسائی اور دوسرے ادیان و فرق کے خلاف دلائل و احکامات سے تو خالی ہیں، مگر اہل حدیث اور دوسرے اہل توحید کے خلاف سباب و شتائم اور تکفیر و تفسیق سے بھری ہوئی ہیں۔
اہل حدیث کے علاوہ جناب بریلوی صاحب اور ان کے پیروکاروں نے دیوبندی حضرات کو بھی اپنی تکفیری مہم کی لپیٹ میں لیا اور ان پر کفر و ارتداد کے فتوے لگائے ہیں۔
سب سے پہلے دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا قاسم نانوتوی ان کی تکفیر کا نشانہ بنے، جن کے بارے میں مولانا عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں :
"مولانا نانوتوی بہت بڑے عالم دین تھے، زہد و تقویٰ میں معروف تھے۔ ذکر و مراقبے میں مصروف رہتے، لباس میں تکلف نہ کرتے۔ آغاز زندگی میں صرف ذکر اللہ میں مصروف رہے، پھر حقائق و معارف کے ابواب ان پر منکشف ہوئے تو شیخ امداد اللہ (مشہور صوفی حلولی) نے انہیں اپنا خلیفہ منتخب کر لیا۔ عیسائیوں اور آریوں کے ساتھ ان کے مناظرے بھی بہت مشہور ہیں۔ ان کی وفات 1297ھ میں ہوئی۔ 81"
دیوبندی تحریک کے بانی اور اپنے وقت میں احناف کے امام مولانا قاسم نانوتوی کے متعلق خاں صاحب لکھتے ہیں :
"قاسمیہ قاسم نانوتوی کی طرف منسوب، جس کی "تحذیر الناس" ہے اور اس نے اپنے رسالہ میں کہا کہ بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو، جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔ بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم بھی کوئی پیدا ہو تو بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ یہ تو سرکش شیطان کے چیلے اس مصیبت عظیم میں سب شریک ہیں۔ 82"
مزید کہا: قاسمیہ لعنہم اللہ ملعون و مرتد ہیں۔ 83"
ان کے ایک پیروکار نے لکھا: تحذیر الناس مرتد نانوتوی کی ناپاک کتاب ہے !84"
مولانا رشید احمد گنگوہی دیوبندی حضرات کے بہت جید عالم و فاضل ہیں۔ مولانا عبدالحئی لکھنوی ان کے متعلق لکھتے ہیں :
"شیخ امام، محدث رشید احمد گنگوہی محقق عالم و فاضل ہیں۔ صدق و عفاف توکل اور تصلب فی الدین میں ان کا کوئی مثیل نہ تھا۔ مذہبی امور میں بہت متشدد تھے۔ 85"
بریلی کے خاں صاحب کا ان کے پیروکاروں کے بارے میں خیال ہے :
"جہنمیوں کے جہنم جانے کی ایک وجہ (رشید احمد) گنگوہی کی پیروی ہو گی۔ 86"
اور ان کے بارے میں لکھتے ہیں :
"اسے جہنم میں پھینکا جائے گا اور آگ اسے جلائے گی اور (ذق الاشرف الرشید) کا مزہ چکھلائے گی۔ 87"
نیز: "رشید احمد کو کافر کہنے میں توقف کرنے والے کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔ 88"
ایک بریلوی مصنف نے اپنی ایک کتاب کے صفحہ میں چار مرتبہ "مرتد گنگوہی" کا لفظ دہرایا ہے۔ 89
ان کے اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں : "رشید احمد کی کتاب"براہین قاطعہ" کفری قول اور پیشاب سے بھی زیادہ پلید ہے۔ جو ایسا نہ جانے وہ زندیق ہے۔ 90"
ان کے علاوہ بریلوی خاں صاحب نے مولانا اشرف علی تھانوی کو بھی کافر و مرتد قرار دیا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی احناف کے بہت بڑے امام ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "نزہۃ الخواطر" میں ہے :
"مولانا اشرف علی بہت بڑے عالم دین تھے۔ ان کی بہت سی تصنیفات ہیں۔ وعظ و تدریس کے لیے منعقد کی جانے والی مجالس سے استفادہ کیا اور ہندوؤانہ رسوم و عادات سے تائب ہوئے۔ 91"
ان کے متعلق احمد رضا صاحب لکھتے ہیں :
"اس فرقہ وہابیہ شیطانیہ کے بڑوں میں سے ایک شخص اسی گنگوہی کے دم چھلوں میں ہے، جسے اشراف علی تھانوی کہتے ہیں۔ اس نے ایک چھوٹی سی رسلیا تصنیف کی کہ چار ورق کی بھی نہیں۔ اور اس میں تصریح کی کہ غیب کی باتوں کا جیسا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہے، ایسا تو ہر بچے اور ہر پاگل بلکہ ہر جانور اور ہر چارپائے کو حاصل ہے۔ 92"
آّگے چل کر لکھتے ہیں :
"بدکاری کو دیکھو، کیسے ایک دوسرے کو کھینچ کر لے جاتی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ طائفہ سب کے سب کافر و مرتد ہیں اور باجماع امت اسلام سے خارج ہیں۔ جو ان کے کفر و عذاب میں شک کرے، خود کافر ہے۔ اور شفا شریف میں ہے، جو ایسے کو کافر نہ کہے یا ان کے بارے میں توقف کرے یا شک لائے، وہ بھی کافر ہو جائے گا۔ بے شک جن چیزوں کا انتظار کیا جاتا ہے، ان سب میں بدترین دجال ہے۔ اور بے شک اس کے پیرو ان لوگوں سے بھی بہت زیادہ ہوں گے۔ 93"
مزید لکھتے ہیں : "جو اشرف علی کو کافر کہنے میں توقف کرے اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔ 94"
نیز: "بہشتی زیور (مولانا تھانوی کی کتاب) کا مصنف کافر ہے۔ تمام مسلمانوں کو اس کتاب کا دیکھنا حرام ہے۔ 95"
نیز: "اشرفیہ سب مرتد ہیں۔ 96"
تجانب اہل السنہ میں ہے : "مرتد تھانوی!97"
اس طرح خان صاحب نے مشہور دیوبندی علماء مولانا خلیل احمد، مولانا محمود الحسن، مولانا شبیر احمد عثمانی وغیرہ کے خلاف بھی کفر کے فتوے صادر کیے ہیں۔
احمد رضا صاحب ان علماء و فقہاء کے پیروکاروں، عام دیوبندی حضرات کو کافر قرار دیتے ہیں ہوئے کہتے ہیں :
"دیوبندیوں کے کفر میں شرک کرنے والا کافر ہے۔ 98"
اسی پر اکتفاء نہیں کیا، مزید لکھتے ہیں : "انہیں مسلمان سمجھنے والے کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ 99"
مزید: دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنے والا مسلمان نہیں۔ 100"
نیز: دیوبندی عقیدے والے کافر و مرتد ہیں۔ 101"
اتنا کچھ کہہ کر بھی خاں صاحب کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ فرماتے ہیں :
"جو مدرسہ دیوبند کی تعریف کرے اور دیوبندیوں کو برا نہ سمجھے، اسی قدر اس کے مسلمان نہ ہونے کو بس ہے۔ 102"
اب بھی بریلویوں کے اعلیٰ حضرت کے دل کی بھڑاس نہیں نکلی۔ ارشاد فرماتے ہیں :
"دیوبندیوں وغیرہ کے کھانا پینا، سلام علیک کرنا، ان سے موت و حیات میں کسی طرح کا کوئی اسلامی برتاؤ کرنا سب حرام ہے۔ نہ ان کی نوکری کرنے کی اجازت ہے، نہ انہیں نوکر رکھنے کی اجازت کہ ان سے دور بھاگنے کا حکم ہے۔ 103"
نیز: "انہیں قربانی کا گوشت دینا بھی جائز نہیں۔ 104"
جناب بریلوی کے ایک پیروکار لکھتے ہیں : "دیوبندی، بدعتی، گمراہ اور شرار خلق اللہ ہیں 105"
ایک اور بریلوی مصنف لکھتے ہیں : "دیوبندیہ بحکم شریعت کفار و مرتدین لئیم ہیں۔ 106"
بریلوی اعلیٰ حضرت کے نزدیک دیوبندیوں کا کفر ہندوؤں، عیسائیوں اور مرزائیوں سے بھی بڑھ کر ہے۔
فرماتے ہیں : "اگر ایک جلسہ میں آریہ و عیسائی اور دیوبندی، قادیانی وغیرہ جو کہ اسلام کا نام لیتے ہیں، وہ بھی ہوں تو وہاں بھی دیوبندیوں کا ردّ کرنا چاہئے، کیونکہ یہ لوگ اسلام سے نکل گئے مرتد ہو گئے اور مرتدین کی مدافعت بد تر ہے، کافر اصلی کی موافقت سے۔ 107"
اور : "دیوبندی عقیدہ والوں کی کتابیں ہندوؤں کی پوتھیوں سے بدتر ہیں۔ ان کتابوں کو دیکھنا حرام ہے۔ البتہ ان کتابوں کے ورقوں سے استنجاء نہ کیا جائے۔ حروف کی تعظیم کی وجہ سے، نہ کہ ان کتابوں کی۔ نیز اشرف علی کے عذاب اور کفر میں شک کرنا بھی کفر ہے۔ 108"
ایک اور بریلوی مصنف نے یوں گل فشانی کی ہے :
"دیوبندیوں کی کتابیں اس قابل ہیں کہ ان پر پیشاب کیا جائے ان پر پیشاب کرنا پیشاب کو مزید ناپاک بناتا ہے۔ اے اللہ ہمیں دیوبندیوں یعنی شیطان کے بندوں سے پناہ میں رکھ!109"
دیوبندی حضرات اور ان کے اکابرین کے متعلق بریلوی مکتب فکر کے کفریہ فتوے آپ نے ملاحظہ فرمائے، اب ندوۃ العلماء کے متعلق ان کے ارشادات سنئے۔
جناب برکاتی نے حشمت علی صاحب سے تصدیق کروا کے اپنی کتاب تجانب اہل السنہ میں لکھا ہے :
ندوۃ العلماء کو ماننے والے دہریے اور مرتد ہیں۔ 110"
خود خاں صاحب بریلوی کا ارشاد ہے :
ندوۃ کھچڑی ہے، ندوہ تباہ کن کی شرکت مردود، اس میں صرف بد مذہب ہیں۔ 111"
جناب بریلوی نے ندوۃ العلماء سے فارغ ہونے والوں کو کافر و مرتد قرار دینے کے لیے دو رسالے ( الجام السنۃ لاھل الفتنۃ) اور (مجموعۃ فتاوی الحرمین برجف ندوۃ المین) تحریر کیے۔
تجانب اہل السنہ میں بھی ندوۃ العلماء سے فارغ ہونے والوں کے خلاف تکفیری فتووں کی بھرمار ہے۔ 112"
مطلقاً وہابیوں کے متعلق ان کے فتوے ملاحظہ ہوں :
"وہابیہ اور ان کے زعماء پر بوجوہ کثیر کفر لازم ہے اور ان کا کلمہ پڑھنا ان سے کفر کو دور نہیں کر سکتا۔ 113"
نیز: "وہابیہ پر ہزار درجہ سے کفر لازم آتا ہے۔ 114"
نیز: "وہابی مرتد باجماع فقہاء ہیں 115"
جناب احمد رضا مزید فرماتے ہیں : "وہابی مرتد اور منافق ہیں۔ اوپر اوپر کلمہ گو ہیں۔ 116"
نیز: "ابلیس کی گمراہی وہابیہ کی گمراہی سے ہلکی ہے۔ 117"
نیز: "خدا وہابیہ پر لعنت کرے، ان کو رسوا کرے اور ان کا ٹھکانہ جہنم کرے۔ 118"
نیز: وہابیہ کو اللہ برباد کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔ 119"
نیز: "وہابیہ اسفل السافلین پہنچے۔ 120"
نیز: اللہ عزوجل نے وہابیہ کی قسمت میں ہی کفر لکھا ہے۔ 121"
ظاہر ہے جب تمام وہابی کفار و مرتدین ہیں تو ان کی کوئی عبادت بھی قبول نہیں۔ اس بات کا جناب احمد رضا نے یوں فتویٰ دیا ہے :
"وہابیہ کی نہ نماز ہے نہ ان کی جماعت جماعت۔ 122"
خاں صاحب سے پوچھا گیا کہ وہابیہ کی مسجد کا کیا حکم ہے؟ تو جواب دیا "ان کی مسجد عام گھر کی طرح ہے۔ جس طرح ان کی نماز باطل، اسی طرح اذان بھی۔ لہٰذا ان کی اذان کا اعادہ نہ کیا جائے۔ 123"
بریلوی حضرات کے نزدیک وہابیوں کو "مسلمانوں کی مساجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ خاں صاحب کے ایک ساتھی نعیم مراد آبادی فرماتے ہیں :
"مسلمان وہابیہ غیر مقلدین کو اپنی مسجد میں نہ آنے دیں، وہ نہ مانیں تو قانونی طور پر انہیں رکوا دیں۔ ان کا مسجد میں آنا فتنہ کا باعث ہے۔ چنانچہ اہل سنت کی مسجد میں وہابی و غیر مقلد کو کوئی حق نہیں۔ 124"
بریلوی حضرات نے وہابیوں کو مساجد سے نکالنے کے متعلق ایک کتاب تصنیف کی ہے (اخراج الوھابیین عن المساجد) یعنی "وہابیوں کو مساجد سے نکالنے کا حکم۔ "
آج بھی کچھ ایسی مساجد (مثلاً بیگم شاہی مسجد اندرون مستی دروازہ لاہور) موجود ہیں جن کے دروازوں پر لکھا ہوا ہے کہ :
"اس مسجد میں وہابیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ "
خود میں نے لاہور میں دو ایسی مساجد دیکھی ہیں، جہاں یہ عبارت ابھی تک درج ہے !
جناب احمد رضا خاں صاحب بریلوی لکھتے ہیں :
"وہابیوں کے پیچھے نماز ادا کرنا باطل محض ہے۔ 125"
نیز: "اقتدار احمد گجراتی کا بھی یہی فتویٰ ہے !126"
جناب بریلوی کا ارشاد ہے :
"وہابی نے نماز جنازہ پڑھائی تو گویا مسلمان بغیر جنازے کے دفن کیا گیا۔ 127"
ان سے پوچھا گیا کہ اگر وہابی مر جائے تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے، اور جو پڑھے اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب میں ارشاد فرمایا: "وہابی کی نماز جنازہ پڑھنا کفر ہے۔ 128"
نیز: "وہابیوں کے لیے دعا کرنا فضول ہے۔ وہ راہ راست پر نہیں آ سکتے۔ 129"
صرف اسی پر بس نہیں بلکہ:
"وہابیوں کو مسلمان سمجھنے والے پیچھے بھی نماز جائز نہیں۔ 130"
ان کے ایک پیروکار نے لکھا ہے :
"جو اعلیٰ حضرت کو برا کہے، اس کے پیچھے بھی نماز جائز نہیں۔ 131"
وہابیوں کے ساتھ مکمل بائیکاٹ کا فتویٰ دیتے ہوئے جناب احمد رضا بریلوی فرماتے ہیں :
"ان سب سے میل جول قطعی حرام ہے۔ ان سے سلام و کلام حرام، انہیں پاس بٹھانا حرام، ان کے پاس بیٹھنا حرام، بیمار پڑیں تو ان کی عیادت حرام، مر جائیں تو مسلمانوں کا سا انہیں غسل و کفن دینا حرام، ان کا جنازہ اٹھانا حرام، ان پر نماز پڑھنا حرام، ان کو مقابر مسلمین میں دفن کرنا حرام، اور ان کی قبر پر جانا حرام!132"
ایک اور صاحب لکھتے ہیں :
"وہابیہ گمراہ اور گمراہ گر ہیں۔ ان کے پیچھے نماز درست نہیں اور نہ ان سے میل جول جائز ہے۔ 133"
مزید: "ان سے بیاہ شادی کرنا ناجائز، سلام ممنوع اور ان کا ذبیحہ نا درست، یہ لوگ گمراہ، بے دین ہیں۔ ان کے پیچھے نماز ناجائز اور اختلاط و مصاحبت ممنوع ہے۔ 134"
نیز: "وہابیوں سے مصافحہ کرنا ناجائز و گناہ ہے۔ 135"
احمد یار گجراتی کہتے ہیں :
"حنفیوں کو چاہئے کہ وہ وہابیوں کے کنویں کا پانی بے تحقیق نہ پئیں 136"
نیز: "وہابیوں کے سلام کا جواب دینا حرام ہے۔ 137"
مزید: "جو شخص وہابیوں سے میل جول رکھے، اس سے بھی بیاہ شادی ناجائز ہے 138"
احمد رضا صاحب کا ارشاد ہے :
"وہابی سے نکاح پڑھوایا تو نہ صرف یہ کہ نکاح نہیں ہوا، بلکہ اسلام بھی گیا۔ تجدید اسلام و تجدید نکاح لازم139"
نیز: "نکاح میں وہابی کو گواہ بنانا بھی حرام ہے۔ 140"
خاں صاحب کے ایک خلیفہ ارشاد فرماتے ہیں :
"وہابی سے نکاح نہیں ہو سکتا کہ وہ مسلمان نہیں، کفو ہونا بڑی بات ہے۔ 141"
اور خود اعلیٰ حضرت صاحب کا فرمان ہے :
"وہابی سب سے بدتر مرتد ہیں۔ ان کا نکاح کسی حیوان سے بھی نہیں ہو سکتا۔ جس سے ہو گا زنائے خالص ہو گا۔ 142"
یہ ارشاد کئی دفعہ پڑھنے میں آیا ہے، میں پہلی مرتبہ بریلوی حضرات سے پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ان کے اعلیٰ حضرت کے نزدیک کسی وہابی کا نکاح تو حیوان سے نہیں ہو سکتا، لیکن کیا بریلوی حضرات کا ہو سکتا ہے؟
جناب احمد رضا صاحب کو اس بات کا شدید خطرہ تھا کہ لوگ وہابیوں کے پاس جا کر ان کے دلائل سن کر راہ راست پر نہ آ جائیں۔ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے خاں صاحب فرماتے ہیں :
"وہابیہ سے فتویٰ طلب کرنا حرام، حرام اور سخت حرام ہے۔ 143"
امجد علی صاحب لکھتے ہیں :
"وہابیوں کو زکوٰۃ دی، زکوٰۃ ہرگز ادا نہ ہو گی۔ 144"
بریلوی اعلیٰ حضرت سے پوچھا گیا، وہابیوں کے پاس اپنے لڑکوں کو پڑھانا کیسا ہے؟ تو جواب میں ارشاد فرمایا:
"حرام،حرام،حرام، اور جو ایسا کرے وہ بچوں کا بد خواہ اور گناہوں میں مبتلا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اپنے آپ کو، اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ 145"
وہابیوں کے ہاتھ سے ذبح کیے ہوئے جانوروں کے متعلق احمد رضا صاحب کا ارشاد ہے :
"یہودیوں کا ذبیحہ حلال ہے، مگر وہابیوں کا ذبیحہ محض نجس مردار، حرام قطعی ہے۔ اگرچہ لاکھ بار نام الٰہی لیں اور کیسے ہی متقی، پرہیزگار بنتے ہوں کہ یہ سب مرتدین ہیں۔ 146"
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں :
ایسے زانی کہ جن کا زنا کرنا ثابت ہو چکا ہو، ان کا ذبیحہ حلال ہے۔ 147"
یہ سارا کچھ اس لیے ہے کہ:
"وہابی یہود و نصاریٰ، ہندوؤں اور مجوسیوں سے بھی بدتر ہیں اور ان کا کفر ان سے بھی زیادہ ہے۔ 148"
مزید: "وہابی ہر کافر اصلی یہودی، نصرانی، بت پرست، اور مجوسی سب سے زیادہ اخبث، اضر اور بدتر ہیں۔ 149"
نیز: "یہ کتے سے بھی بدتر و ناپاک تر ہیں کہ کتے پر عذاب نہیں، اور یہ عذاب شدید کے مستحق ہیں۔ 150"
آہ!
(وَمَا نَقَمُوا مِنھُم اِلَّا اَن یَّومِنُوا بِاللّٰہِ العَزِیزِ الحَمِیدِ) (البروج8)
"ان لوگوں نے صرف اس بات کا انتقام لیا ہے کہ یہ (ان کی خرافات کی بجائے ) اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں۔ "
نیز: "بریلوی حضرات کے نزدیک وہابیوں کی کتابوں کا مطالعہ حرام ہے۔،،152
مزید: "غیر عالم کو ان کی کتابیں دیکھنا بھی جائز نہیں۔ 153"
خود جناب بریلوی کا کہنا ہے :
"عالم کامل کو بھی ان کی کتابیں دیکھنا ناجائز ہے 154" کہ انسان ہے، ممکن ہے کوئی بات معاذ اللہ جم جائے اور ہلاک ہو جائے۔ 155"
نیز ایک کتاب کے متعلق فرماتے ہیں :
"عام مسلمانوں کو اس کتاب کا دیکھنا بھی حرام ہے۔ 156"
نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں :
"ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) اور اس کے شاگرد ابن قیم جوزی (رحمہ اللہ) وغیرہ کی کتابوں پر کان رکھنے سے بچو۔ 157"
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات
6اس کاذکر آگے مفصلا آئے گا
7نزہۃ الخواطر از امام عبدالحی لکھنوی ج8 ص39۔
9مشکوٰۃ المصابیح
11مشکوٰۃ المصابیح۔
12امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی کتاب التوحید اور تقویۃ الایمان ایک دوسرے سے بہت حد تک مشابہ ہیں اور دونوں ایک طرز پر لکھی گئی ہیں۔
14مفتاح کنوز السنہ مقدمتہ السید رشید رضا ص ق۔
15ایضاً
16الکوکبتہ الشہابیۃ از احمد رضا ص8۔
17الکوبتہ الشہابیۃ از احمد رضا ص 10
18ایضاً ص 49۔
19الکوبیۃ الشہابیۃ از احمد رضا ص 60
20دامان باغ ملحق سبحان السبوح ص 134۔
21ملفوظات احمد رضا ج 1 ص 110 ترتیب محمد مصطفی رضا بن احمد رضا بریلوی۔
22الامن والعلی از احمد رضا ص 112۔
23ایضاًص 195۔
24الامن والعلی 72۔ 25ایضاً ص 195
26دامان باغ سبحان السبوح ص 134۔
27العطایہ النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ مجموعتہ فتاویٰ البریلوی ج6ص 183۔
33نزھۃ الخواطر ج 8 ص 498
34نزہۃ الخواطر ص 500،501۔
35حاجز البحرین درج شدہ فتاویٰ رضویہ ج 2 ص 210
38حسام الحرمین علی منحرا لکفر والمین ص 19۔
39دامان سبحان السبوح از احمد رضا ص 136
40ایضاً ص 134۔
41سبحان السبوح ص 135،136
42بالغ النور مندرج در فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 23۔
43فتاویٰ رضویہ جلد 5 ص 50،72،90،137،194 وغیرہ۔
44ایضاً جلد 10 ص 210 کتاب الخطر والاباحۃ۔ 45ایضاً جلد 10 ص 219
46فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 59
47ٰایضاً جلد 66 ص 121۔
48ایضاً ص 13
49بریق المنار درج شدہ فتاویٰ رضویہ جلد 4 ص 218، و فتاویٰ رضویہ جلد 2 ص 121
50فتاویٰ رضویہ جلد 1 ص 208۔
51بہت بڑے اہل حدیث عالم دین تھے۔ نزہۃ الخواطر جلد 8 ص 72 میں ان کے حالات زندگی موجود ہیں۔
52اپنے دور کے امام حدیث تھے
53یہ بھی سید نذیر حسین محدث دہلوی کے تلامذہ میں سے ہیں۔
54جید اہل حدیث عالم،سید صاحب کے شاگرد! حالات زندگی کے لیے ملاحظہ ہو نزہۃ الخواطر جلد 8 ص 415،416۔
55تجانب اہل السنت از محمد طیب قادری تصدیق شدہ حشمت علی قادری وغیرہ ص 219۔
56تجانب اہل السنہ ص 248
57مجلہ المنار المجلد33،1341ھ ص 239۔
58تجانب ص 247
59الاستمداد از احمد رضا ص 147۔
60سبحان السبوح ص 27
61حاجز البحرین از احمد رضا درج شدہ فتاویٰ جلد 2 ص 237۔
62فتاویٰ رضویہ جلد 3 ص 399
63سیف المصطفیٰ از بریلوی ص 92۔
64فتاویٰ صدر الافاضل ص 31،32 مطبوعہ ہند۔
65جاء الحق از احمد یار گجراتی جلد 1 ص 455
66فتاویٰ رضویہ جلد 4 ص 199۔
67ایضاً جلد 2 ص 242
68سیف المصطفیٰ ص 95۔
69احکام شریعت از احمد رضا جلد 1 ص 80
70ایضاً ص 123۔
71ایضاً ص 124
72الکوبتہ الشہابیۃ علی کفریات ابی الوہابیہ ص 58،59۔
73ملفوظات احمد رضا ص 66
74ایضاً ص 67،68۔
75الحق المبین از احمد سعید کاظمی ص 10،11۔
76بہار شریعت جلد 1 ص 46،47
77جی ہاں سب کو معلوم ہے کہ ابن سعود رحمہ اللہ اور ان کے جانشینوں نے بیت اللہ الحرام میں حجاج کرام کی سہولتوں کے لیے کوئی کسرنہیں اٹھارکھی۔
78جاء الحق از احمد یار گجراتی ص 4
79تجانب اہل السنہ ص 467۔
80ایضاً مختصراً ص 268ص 272
81نزہۃ الخواطر جلد 7 ص 383۔
82حسام الحرمین علی منحرالکفر والمین از احمد رضا ص 19۔
83فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 59
84تجانب اہل السنہ ص 173۔
85نزہۃ الخواطر ج8ص 148
86حسام الحرمین ص 21۔
87خالص الاعتقاد از بریلوی ص 62
88فتاویٰ افریقہ از بریلوی احمد رضا 124۔
89تجانب اہل السنہ ص 245
90سبحان السبوح ص 134۔
91نزہۃ الخواطر ص 85
92حسام الحرمین ص 28۔
93ایضاً ص 31
94فتاویٰ افریقہ ص 124۔
95فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 54
96ایضاً ص 104۔
97ایضا! ص 237
98فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 82۔
99ایضاً ص 81
100ایضاً جلد 6 ص 77۔
101بالغ النور مندرج فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 43۔
102المبین فی ختم النبیین درج شدہ فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 110۔
103ایضاً ص 95
104ایضاً ص 167۔
105تفسیر میزان الادیان از دیدار علی جلد 2 ص 270۔
106تجانب اہل السنہ ص 112
107ملفوظات احمد رضا ص 325،326۔
108فتاویٰ رضویہ جلد 2 ص 136
109حاشیہ سبحان السبوح ص 75۔
110تجانب ص 90
111ملفوظات بریلوی ص 201۔
113الکوکبتہ الشہابیہ از احمدرضا ص10
114ایضاً ص95۔
115ایضاً ص 60
116احکام شریعت از بریلوی ص 112۔
117ایضاً ص 117
118فتاویٰ افریقہ ص 125۔
119ایضاً ص 172
120خالص الاعتقاد ص 54۔
121المبین فی ختم النبیین درج شدہ فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 198۔
122ملفوظات ص 105۔ 123ایضاً
124مجموعہ فتاویٰ نعیم الدین مراد آبادی ص 64۔
125بالغ النور درج شدہ فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 143 ایضاً بریق المنار در فتاویٰ رضویہ جلد 4 ص 126فتاویٰ نعیمیہ جلد1 ص 218
127فتاویٰ رضویہ جلد 4 ص 12۔
128ملفوظات ص 76
129ایضاً ص 286۔
130المبین درج شدہ فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 80،81۔ 131فتاویٰ نعیم الدین مراد آبادی ص 64۔
132فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 90
133فتاویٰ نوریہ جلد 1 ص 213۔
134مجموعہ فتاویٰ نعیم الدین ص 112
135بریق المنار درج فتاویٰ رضویہ جلد 4 ص 218۔
136جاء الحق جلد 2 ص 222
137فتاویٰ افریقہ ص 170۔
138ماحی الضلالتہ درج فتاویٰ رضویہ جلد 5 ص 72
139ایضاً 50،89۔
140فتاویٰ افریقہ ص 69
141بہار شریعت از امجد علی رضوی جلد7 ص 32۔
142ازالتہ العار درج شدہ فتاویٰ رضویہ جلد 5 ص 194،ایضاً فتاویٰ رضویہ جلد 5 ص 46۔
143فتاویٰ رضویہ جلد 4 ص 46
144بہار شریعت جلد 5 ص 46۔
145احکام شریعت از بریلوی ص 237
146ایضاً ص 122۔
147فتاویٰ افریقہ ص 27
148بالغ النور درج در فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 13۔
149ازالتہ العار درج فتاویٰ رضویہ جلد 5 ص 1278
150المبین درج فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 9۔
152المبین درج فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 9
153ایضاً۔
154ملاحظہ فرمائیں خود تو بریلوی حضرات دوسروں کی کتابیں دیکھنا حرام قرار دے رہے ہیں۔
لیکن جب ان کے اعلیٰ حضرت کے تحریف شدہ قرآن پر بعض حکومتوں کی طرف سے پابندی لگائی گئی تو اس پر واویلا کرنا شروع کر دیا۔ دوسروں کی کتابوں کے مطالعے پر حرام ہونے کا فتویٰ لگانے والوں کو کیسے حق پہنچتا ہے کہ وہ اس پر صدائے احتجاج بلند کریں؟ پہلے اپنے فتووں کو تو واپس لو۔ پھر دوسروں سے اس قسم کے مطالبات کریں۔ خود تو وہ لوگوں کو وہابیوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور مسجدوں میں داخل ہونے سے بھی روک رہے ہیں۔
اور کسی کو اتنا بھی حق نہیں دیتے کہ وہ ان کی تحریف معنوی پر مبنی کتابوں کے داخلے پر پابندی لگا سکیں۔
155ملفوظات ص 335
156بالغ النور در فتاویٰ رضویہ جلد 6 ص 54۔
157فتاویٰ نعیم الدین مراد آبادی ص 33۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حج کے ملتوی ہونے کا فتوی
بریلوی حضرات کی عقل کا ماتم کیجئے، انہوں نے وہابیوں کی دشمنی میں فریضہ حج کے ساقط ہونے کا فتویٰ جاری کر دیا اور کہا چونکہ حجاز مقدس پر وہابیوں کی حکومت ہے اور وہاں مسلمانوں (بریلویوں ) کے لیے امن مفقود ہے، لہٰذا حج ملتوی ہو چکا ہے۔ اور جب تک وہاں سعودی خاندان کی حکومت ہے، اس وقت تک مسلمانوں سے حج کی فرضیت ختم ہو گئی ہے۔
اس فتوے کو انہوں نے ایک مستقل رسالے (تنویر الحجۃ لمن یجوز التوائۃ الحجۃ) میں شائع کیا ہے۔
فتویٰ دینے والے بریلوی حضرات کوئی غیر معروف شخص نہیں بلکہ اس کے مفتی، جناب احمد رضا خاں صاحب بریلوی کے صاحبزادے مصطفے ٰ رضا صاحب ہیں۔ اس فتوے پر پچاس کے قریب بریلوی اکابر کے دستخط ہیں۔ جن میں حشمت علی قادری، حامد رضا بن احمد رضا بریلوی، نعیم الدین مراد آبادی اور سید دالدار علی وغیرہ شامل ہیں۔
اس میں درج ہے :
"نجس ابن سعود اور اس کی جماعت تمام مسلمانوں کو کافر و مشرک جانتی ہے اور ان کے اموال کو شیر مادر سمجھتی ہے۔ ان کے اس عقیدے کی وجہ سے حج کی فرضیت ساقط اور عدم لازم ہے۔ 158
فتوے کے آخر میں درج ہے :
"اے مسلمانو! ان دنوں آپ پر حج فرض نہیں، یا ادا لازم نہیں۔ تاخیر روا ہے اور یہ ہر مسلمان جانتا ہے اور اپنے سچے دل سے مانتا ہے کہ اس نجدی علیہ ما علیہ کے اخراج کی ہر ممکن سعی کرنا اس کا فرض ہے۔ اور یہ بھی ہر ذی عقل پر واضح ہے کہ اگر حجاج نہ جائیں تو اسے تارے نظر آ جائیں۔ نجدی سخت نقصان عظیم اٹھائیں۔ ان کے پاؤں اکھڑ جائیں۔ آپ کے ہاتھ میں اور کیا ہے؟ یہی ایک تدبیر ہے جو ان شاء اللہ کارگر ہو گی!159"
مزید:
"اللہ تعالیٰ سوال کرے گا کہ جب تم پر حج فرض نہ تھا تم نے وہاں جا کر ہمارے اور ہمارے محبوبوں کے دشمنوں کو کیوں مدد پہنچائی؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تمہیں التواء و تاخیر کی اجازت تھی اور یہ حکم ہمارے ناچیز بندے اور تمہارے خادم مصطفے ٰ رضا نے تم تک پہنچا دیا تھا، پھر بھی تم نہ مانے اور تم نے ہمارے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کے دشمنوں کو اپنے مال لٹوا کر ہمارے مقدس شہروں پر ان کا نجس قبضہ اور بڑھا دیا۔ 160"
یہ ہیں بریلوی مکتب فکر کے اکابرین۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے صرف جہاد کے ساقط ہونے کا فتویٰ دیا تھا، ان کے اکابرین نے انگریزی استعمار کے خلاف جہاد کے ساتھ ساتھ161 حج کے ساقط ہونے کا فتویٰ بھی دے دیا۔ 162
دہلی کے ایک بریلوی عالم اس فتوے کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"حج کے ملتوی ہونے سے نجدیہ کے ناپاک قدم ان شاء اللہ حرمین طیب و طاہر ہو جائیں گے۔ 163"
ایک اور صاحب فرماتے ہیں :
"جب تک نجدی مسلط ہیں، اس وقت تک حج کے لیے سفر کرنا اپنی دولت کو ضائع کرنے کے برابر ہے۔ "
یہ فتویٰ جہاں بریلوی اکابرین کی سوچ کا آئینہ دار ہے، وہاں اسلامی شعائر کی توہین کے بھی مترادف ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اکابرین تحریک پاکستان بریلویت کی نظر میں
بریلوی حضرات نے تحریک پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو بھی معاف نہیں کیا۔ ان کے نزدیک قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، مولانا ظفر علی خان، تحریک خلافت کے بانی محمد علی جوہر، مولانا الطاف حسین حالی، نواب مہدی علی خان اور نواب مشتاق حسین سب کفار و مرتدین تھے۔ لکھتے ہیں :
"نواب محسن الملک مہدی علی خان، نواب اعظم یار جنگ، مولوی الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی اور ڈپٹی نذیر احمد دہلوی وزیران نیچریت، مشیران دہریت اور مبلغین زندیقیت تھے۔ 164"
علامہ اقبال رحمہ اللہ کے متعلق بریلوی فتویٰ سنئے :
فلسفی نیچری ڈاکٹر اقبال کی زبان پر ابلیس بول رہا ہے۔ 165"
مزید:
"فلسفی نیچری ڈاکٹر اقبال صاحب نے اپنی فارسی و اردو نظموں میں دہریت اور الحاد کا زبردست پروپیگنڈہ کیا ہے۔ کہیں اللہ عزوجل پر اعتراضات کی بھرمار ہے، کہیں علمائے شریعت وائمہ طریقت پر حملوں کی بوچھاڑ ہے، کہیں سیدنا جبریل امین و سیدنا موسیٰ کلیم اللہ و سیدنا عیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تنقیصوں توہینوں کا انبار ہے، کہیں شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا وآلہ الصلوۃ واحکام مذہبیہ و عقائد اسلامیہ پر تمسخر واستہزاء و انکار ہے، کہیں اپنی زندیقیت و بے دینی کا فخر و مباہات کے ساتھ کھلا ہوا اقرار ہے۔ 166"
نیز:
مسلمانان اہل سنت خود ہی انصاف کر لیں کہ ڈاکٹر صاحب کے مذہب کو سچے دین اسلام کے ساتھ کیا تعلق ہے؟167"
علامہ اقبال علیہ الرحمۃ کی تکفیر کرتے ہوئے دیدار علی صاحب نے فتویٰ دیا تھا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر اقبال سے ملنا جلنا ترک کر دیں، ورنہ سخت گناہ گار ہوں گے۔ 168"
استعمار کے خلاف اپنی نظموں اور تقاریر کے ذریعے مسلمانوں میں جہاد کی روح پھونکنے والے عظیم شاعر مولانا ظفر علی خاں علیہ الرحمۃ کو کافر ثابت کرنے کے لیے ایک مستقل کتاب "القسورۃ علیٰ ادوارالحمرالکفرۃ الملقب علی ظفر رمتہ من کفر" تحریر کی۔ یہ کتاب احمد رضا خاں صاحب کے بیٹے کی تصنیف ہے اور اس پر بہت سے بریلوی زعماء کے دستخط ہیں۔
انگریز کے خلاف علم جہاد بلند کرنے والے مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی تکفیر کرتے ہوئے بریلوی حضرات کہتے ہیں :
"ابوالکلام آزاد مرتد ہے اور اس کی کتاب تفسیر ترجمان القرآن نجس کتاب ہے۔ 169انا للہ وانا الیہ راجعون!
ہندوستان میں تعلیم عام ہونے کی صورت میں بریلوی افکار و نظریات دم توڑنے لگے تھے، کیونکہ ان کی بنیاد جہالت پر تھی۔ اسی وجہ سے بریلویت زیادہ جاہل طبقے میں ہی مقبول ہے۔ تعلیم کا حصول بریلویت کے لیے بہت بڑا خطرہ تھا اور بریلوی حضرات کے نزدیک سر سید احمد خاں کا یہ بہت بڑا جرم تھا کہ وہ مسلمانوں کو حصول علم کی رغبت دلاتے تھے اور اسی مقصد کے لیے انہوں نے جامعہ علی گڑھ کی بنیاد ڈالی تھی۔ چنانچہ بریلویت کے پیروکاروں نے انہیں بھی تکفیری فتووں کا نشانہ بنایا۔ احمد رضا صاحب لکھتے ہیں :
"وہ خبیث مرتد تھا۔ اسے سید کہنا درست نہیں۔ 170"
تجانب اہل السنہ کہ جس کی تصدیق و توثیق بہت سے بریلوی علماء نے کی ہے، جن میں بریلویوں کے "مظہر اعلیٰ حضرت" حشمت علی قادری صاحب بھی ہیں، اس میں سر سید کے متعلق درج ہے :
"جو شخص اس کے کفریات قطعیہ یقینیہ میں سے کسی ایک ہی کفر قطعی پر مطلع ہونے کے بعد بھی اس کے کافر مرتد ہونے میں شک رکھے، یا اس کو کافر و مرتد کہنے میں توقف کرے، وہ بھی بحکم شریعت مطہرۃ قطعاً یقیناً کافر و مرتد اور مستحق عذاب ابد ہے۔ 171"
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تکفیر کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :
"مسٹر محمد علی جناح کا فر و مرتد ہے۔ اس کی بہت سی کفریات ہیں۔ بحکم شریعت وہ عقائد کفریہ کی بنا پر قطعاً مرتد اور خارج از اسلام ہے۔ اور جو اس کے کفر پر شک کرے یا اسے کافر کہنے میں توقف کرے، وہ بھی کافر۔ 172"
اس دور کی مسلم لیگ کے متعلق ان کا فتویٰ ہے :
"یہ مسلم لیگ نہیں مظلم لیگ ہے۔ 173"
نیز:
بد مذہب سارے جہاں سے بدتر ہیں۔ بد مذہب جہنمیوں کے کتے ہیں۔ کیا کوئی سچا ایماندار مسلمان کسی کتے اور وہ بھی دوزخیوں کے کتّے کو اپنا قائد اعظم، سب سے بڑا پیشوا اور سردار بنانا پسند کرے گا؟ حاشا و کلا ہرگز نہیں !174"
مزید:
"مسلم لیگ کا دستور کفریات و ضلالت پر مشتمل ہے۔ 175"
مزید سنئے :
جو محمد علی جناح کی تعریف کرتا ہے وہ مرتد ہو گیا، اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئی۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس کا کلی مقاطعہ کریں، یہاں تک کہ وہ توبہ کرے۔ 176"
سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کے متعلق ان کا فتویٰ یہ ہے کہ ان کی جماعت ناپاک اور مرتد جماعت ہے۔ 177
بریلوی حضرات پاکستانی صدر جنرل محمد ضیاء الحق اور سابق گورنر پنجاب جنرل سوار خان اور ان وفاقی وزراء کو جنہوں نے امام کعبہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن السبیل کے پیچھے نماز ادا کی تھی، ان سب پر کفر کا فتویٰ لگا چکے ہیں۔
کسی نے ان کے مفتی شجاعت علی قادری سے سوال کیا کہ ان کا کیا حکم ہے؟ مفتی صاحب نے جواب دیا:
"حضرت نورانی فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے کہ جو شخص وہابی نجدیوں کو مسلمان جانے، یا ان کے پیچھے نماز پڑھے، وہ کافر و مرتد ہے۔ 178"
جناب احمد رضا اور ان کے حواری فتویٰ بازی میں بہت ہی جلد باز تھے۔ مختلف شخصیات اور جماعتوں کو کافر قرار دینے کے علاوہ معمولی معمولی باتوں پر بھی کفر کا فتویٰ لگا دیتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
جناب بریلوی کا ارشاد ہے :
"جس نے ترکی ٹوپی چلائی وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا۔ 179"
بلا ضرورت انگریزی ٹوپی رکھنا بلاشبہ کفر ہے۔ 180"
"علوی سید کو علیوی کہنا کفر ہے۔ 181"
"علماء کی بد گوئی کرنے والا منافق و کافر ہے۔ 182"
"علمائے دین کی تحقیر کفر ہے۔ 183"
"جس نے کہا امام ابوحنیفہ کا قیاس حق نہیں ہے، وہ کافر ہو گیا۔ 184"
ایک طرف تو ان باتوں پر کفر کے فتوے لگائے جا رہے ہیں اور دوسری طرف اتنی ڈھیل دی جا رہی ہے کہ:
"غیر خدا کا سجدہ تحیت کرنے والا ہرگز کافر نہیں۔ 185"
مزید:
"یہ کہنا ہمارے معبود محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں، کفر نہیں !186"
نیز:
"بزرگ کا "سبحانی ما اعظم شانی" یعنی میں پاک ہوں، میری شان بلند ہے کہنا کلمہ کفر نہیں 187"
لیکن
"جس نے عالم کو عویلم کہا وہ کافر ہو گیا۔ 188"
اور نہایت تعجب کی بات ہے کہ اس قدر تکفیری فتووں کے باوجود بریلوی اعلیٰ حضرت کہا کرتے تھے :
"اگر کسی کلام میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں، اور ایک اسلام کا، تو واجب ہے کہ کلام کو احتمال اسلام پر محمول کیا جائے۔ 189"
مزید:
"کسی مسلمان کو کافر کہا اور وہ کافر نہ ہو، تو کفر کہنے والے کی طرف لوٹ آتا ہے اور کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے۔؟190
اور اس سے بھی زیادہ تعجب اور تضحیک کی بات یہ ہے کہ بریلوی حضرات اپنے اعلیٰ حضرت کے متعلق لکھتے ہیں :
"اعلیٰ حضرت تکفیر مسلم میں بہت محتاط تھے اور اس مسئلے میں جلد بازی سے کام نہ لیتے تھے۔ 191"
ایک اور صاحب لکھتے ہیں :
"وہ تکفیر مسلم میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ 192"
جناب بریلوی خودد اپنے بارے میں لکھتے ہیں :
"یہ حسن احتیاط اللہ عزوجل نے ہمیں عطا فرمایا۔ ہم لاالٰہ الااللہ کہنے والے کو حتی الامکان کفر سے بچاتے ہیں۔ 193
ان تمام احتیاطات کے باوجود بریلوی حضرات کی تکفیری مہم کی زد میں آنے سے ایک مخصوص ٹولے کے علاوہ کوئی مسلمان بھی محفوظ نہیں رہ سکا۔ اگر یہ احتیاطات و تحفظات نہ ہوتے تو نہ معلوم کیا گل کھلاتے؟
آخر میں ہم اس سلسلے میں ایک مزیدار بات نقل کر کے اس باب کو ختم کرتے ہیں۔ علمائے دین نے جناب بریلوی کی کتب سے یہ ثابت کیا ہے کہ خود ان کی ذات بھی ان کے تکفیری فتووں سے محفوظ نہیں رہ سکی۔
احمد رضا خاں صاحب کئی مقامات پر شخصیات کے متعلق لکھتے ہیں کہ جو ان کے کفر میں شک کرے، وہ بھی کافر! مگر دوسری جگہ انہیں مسلمان قرار دیتے ہیں۔ مثلاً شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ علیہ کو بارہا کافر مرتد قرار دینے کے باوجود ایک جگہ کہتے ہیں "علمائے محتاطین شاہ اسماعیل کو کافر نہ کہیں،، یہی صواب ہے۔ 194"
یعنی پہلے تو کہا کہ" جو ان کے کفر میں شک کرے، وہ بھی کافر"(اس کا بیان تفصیلاً گزرچکا ہے ) پھر خود ہی کہتے ہیں کہ "انہیں کافر نہیں کہنا چاہیے۔ کفر میں شک اور شک کرنے والا ان کے نزدیک کافر ہے، لہٰذا وہ خود بھی کافر ٹھہرے !
اسی طرح ایک جگہ فرماتے ہیں :"سید کا استخاف کفر ہے۔ 195"
اور خود سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ اور دوسرے کئی سید علماء کا استخفاف ہی نہیں، بلکہ انہیں کفار و مرتدین قرار دے کر کفر کے مرتکب ٹھہرے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں زبان کی لغزشوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات
158 لاہور پاکستان۔
166رواہ البخاری۔
167بخاری،مسلم،مسند احمد۔
168مسلم۔
169مسند احمد،ابن کثیر،فتح الباری۔
170خالص الاعتقادص 53۔
171خالص الاعتقاد ص 56(الدولتہ المکیتہ بالمادہ الغیبیہ ص 441)۔
172جاء الحق ص 43۔
173جاء الحق 50،51۔
174خالص الاعتقاد ص 39،جاء الحق ص 151
175مواعظ نعیمیہ احمد یار ص 326۔
176رسول الکلام لبیان الحواروالقیام لدیدار علی ص1
177خالص الاعتقاد بریلوی ص 14۔
178تسکین الخواطر کاظمی بریلوی ص 52،53
179خالص الاعتقاد 53،54۔
180ایضاً ص 54، الدولتہ المکیتہ ص 48
181خالص الاعتقاد بریلوی ص 53، الکلمۃ العلیا مراد آبادی ص35۔
182الکلمۃ العلیاء ص 94،95
183الدولتہ المکیتہ از بریلوی ص 162۔
184الامن والعلی بریلوی ص 109(ایضاً الکلمۃ العلیا) مراد آبادی 47،خالص الاعتقاد بریلوی ص 49۔
185خالص الاعتقاد ص 49
186باغ فردوس ایوب رضوی بریلوی ص40۔
187الکلمۃ العلیا مراد آبادی ص 49، تسکین الخواطر کاظمی ص 146، جاء الحق ص 87۔
188خالص الاعتقاد ص 51
189ایضاً۔
190خالص الاعتقاد ص 57
191جاء الحق ص 85۔
192۔ 157خالص الاعتقاد ص 28۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
باب 5بریلویت اور افسانوی حکایات
کتاب و سنت سے انحراف کرنے والے تمام باطل فرقے خود ساختہ قصے کہانیوں کا سہارا لیتے ہیں، تاکہ وہ جھوٹی روایات کو اپنا کر سادہ لوح عوام کے سامنے انہیں دلائل کی حیثیت سے پیش کر کے اپنے باطل نظریات کو رواج دے سکیں۔
ظاہر ہے، کتاب و سنت سے تو کسی باطل عقیدے کی دلیل نہیں مل سکتی۔ مجبوراً قصص واساطیر اور جھوٹی حکایات کی طرف رخ کرنا پڑتا ہے، تاکہ جب کسی کی طرف سے دلیل طلب کی جائے تو فوراً ان حکایات کو پیش کر دیا جائے۔ مثلاً عقیدہ یہ ہے کہ اولیاء کرام اپنے مریدوں کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کر سکتے ہیں۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ شیخ جیلانی رحمہ اللہ علیہ نے کسی عورت کی فریاد پر 12برس بعد ایک ڈوبی کشتی کو نمودار کر کے اس میں موجود غرق ہونے والے تمام افراد کو زندہ کر دیا تھا۔
اپنی طرف سے ایک عقیدہ وضع کیا جاتا ہے، اور پھر اس کو مدلل بنانے کے لیے ایک حکایت وضع کرنا پڑتی ہے۔ اور اسی سے ہر باطل مذہب کا کاروبار چلتا ہے۔
ایسے لوگوں کے متعلق ہی ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اَلّذِینَ ضَلَّ سَعیُھُم فِی الحَیَاۃ الدُّنیَا وَھُم یَحسَبُونَ اَنَّھُم یُحسِنُونَ صُنعًا۔
"یعنی ان کی ساری تگ و دو اور جدوجہد کا محور دنیا کی زندگی ہے۔ اور گمان یہ کرتے ہیں کہ وہ اچھے کام (دین کا کام) کر رہے ہیں۔
ہوتا یہ ہے کہ دنیوی طمع میں مبتلا ہو کر ایسے لوگ اپنی عاقبت برباد کر لیتے ہیں :
وَمَن لَم یَجعَلَ اللّٰہُ لَہْ نُورًا فَمَا لَہُ مِن نُورٍ۔
"جسے رب کریم ہدایت کی روشنی عطا نہ کرے، اسے روشنی نہیں مل سکتی!"
کتاب و سنت کی پیروی میں ہی امت کے لیے بہتری ہے۔ اگر ہم اس سے اعراض کریں گے تو ہمارا مقدر سوائے خرافات و توہمات کے کچھ نہ ہو گا۔ مسلمان امت کے لیے قرآن و سنت کے علاوہ کوئی تیسری چیز دلیل نہیں ہو سکتی۔ اگر قصے کہانیوں کو بھی دلائل کی حیثیت دے دی جائے تو مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی کوئی صورت نہیں نکل سکتی۔ مسلمان صرف اللہ تعالیٰ کی کتاب اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث پر ہی متحد ہو سکتے ہیں۔
افسانوں اور خودساختہ روایات سے حق کو باطل اور باطل کو حق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آج ہمارے دور میں اگر ہندوؤں کی نقل میں گھڑی ہوئی حکایتوں کو چھوڑ کر کتاب و سنت کی طرف رجوع کر لیا جائے تو بہت سے غیر اسلامی عقائد اسی وقت ختم ہو سکتے ہیں اور اتحاد کی بھی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔
بریلوی حضرات نے بہت سی حکایتوں کو سند کا درجہ دے رکھا ہے۔ ہم ذیل میں ان کی بے شمار حکایتوں میں سے چند ایک کو نقل کرتے ہیں۔
جناب بریلوی کا عقیدہ ہے کہ بزرگان دین اپنے مریدوں کی پریشانیاں دور کرتے، غیب کا علم رکھتے اور بہت دور سے اپنے مریدوں کی پکار سن کر ان کی فریاد رسی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں :
"سیدی موسیٰ ابو عمران رحمہ اللہ علیہ کا مرید جہاں کہیں سے بھی انہیں پکارتا جواب دیتے، اگرچہ سال بھر کی راہ پر ہوتا یا اس سے زائد۔،، 3
مزید:
"حضرت محمد فرغل فرمایا کرتے تھے میں ان میں سے ہوں جو اپنی قبروں میں تصرف فرماتے ہیں۔ جسے کوئی حاجت ہو میرے پاس چہرے کے سامنے حاضر ہو، مجھ سے اپنی حاجت کہے میں پوری فرمادوں گا۔ 4"
اب ان اقوال و عقائد کی دلیل قرآن کریم کی کوئی آیت یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان نہیں، بلکہ ایک حکایت ہے جسے جناب احمد رضا خاں نے اپنے ایک رسالے میں نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں :
ایک دن حضرت سیدی مدین بن احمد اشمونی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو فرماتے وقت ایک کھڑاؤں بلاد مشرق کی طرف پھینکی۔ سال بھر کے بعد ایک شخص حاضر ہوئے اور وہ کھڑاؤں ان کے پاس تھی۔ انہوں نے حال عرض کیا کہ جنگ میں ایک بدصورت 5نے ان کی صاحبزادی پر دست درازی کرنی چاہی، لڑکی کو اس وقت اپنے باپ کے پیرومرشد حضرت سیدی مدین کا نام معلوم نہ تھا یوں ندا کی :
یا شیخ ابی لاحظنی "اے میرے باپ کے پیرومرشد مجھے بچایئے !"
یہ ندا کرتے ہی کھڑاؤں آئی، لڑکی نے نجات پائی۔ وہ کھڑاؤں ان کی اولاد میں اب تک موجود ہے۔ 6"
اس سے ملتی جلتی ایک اور حکایت نقل کرتے ہیں :
"سیدی محمد شمس الدین محمد حنفی کے ایک مرید کو دوران سفر چوروں نے لوٹنا چاہا۔ ایک چور اس کے سینے پر بیٹھ گیا، اس نے پکارا:

یا سیدی محمد حنفی! خاطر معی
یعنی "اے میرے آقا مجھے بچائیے۔ "

اتنا کہنا تھا کہ ایک کھڑاؤں آئی اور اس کے سینے پر لگی۔ وہ غش کھا کر الٹ گیا۔ 7"
ایک اور مزیدار حکایت ملاحظہ ہو:
ایک فقیر بھیک مانگنے والا ایک دکان پر کھڑا کہہ رہا تھا، ایک روپیہ دے۔ وہ نہ دیتا تھا۔ فقیر نے کہا:
روپیہ دیتا ہے تو دے ورنہ تیری ساری دکان الٹ دوں گا۔ اس تھوڑی دیر میں بہت لوگ جمع ہو گئے۔ اتفاقاً ایک صاحب دل کا گزر ہوا، جس کے سب معتقد تھے۔ انہوں نے دکاندار سے فرمایا، جلد روپیہ اسے دے، ورنہ دکان الٹ جائے گی۔
لوگوں نے عرض کی، حضرت! یہ بے شرع جاہل کیا کر سکتا ہے؟
فرمایا: میں نے اس فقیر کے باطن پر نظر ڈالی کہ کچھ ہے بھی؟ معلوم ہوا بالکل خالی ہے۔ پھر اس کے شیخ کو دیکھا، اسے بھی خالی پایا۔ اس کے شیخ کے شیخ کو دیکھا، انہیں اہل اللہ سے پایا اور دیکھا منتظر کھڑے ہیں کہ کب اس کی زبان سے نکلے اور میں دکان الٹ دوں۔ 8"
اندازہ لگائیں۔ ایک مانگنے والا جاہل فقیر، نماز روزے کا تارک، بے شرع، نفع و نقصان پہنچانے اور تصرفات و اختیارات کا مالک ہے !
کس طرح سے یہ لوگ نجس، غلیظ، پاکی و پلیدی سے ناآشنا، مغلظات بکنے والے، ہاتھ میں کشکول گدائی لیے، گلے میں گھنگرو ڈالے اور میلا کچیلا لباس زیب تن کیے، لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کر کے پیٹ پوجا کرنے والے جاہل لوگوں کو عام نظروں میں مقدس، پاکباز، بزرگان دین اور تصرفات و اختیارات کی مالک ہستیاں ظاہر کر رہے ہیں اور دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کو مسخ کر رہے ہیں۔ یہی وہ تعلیمات ہیں، جن پر اس مذہب کی اساس و بنیاد ہے۔
قرآن و سنت میں تو ان افکار و نظریات کا کوئی وجود نہیں۔ انہوں نے خود ہی عقائد وضع کیے اور پھر ان کے دلائل کے لیے اس طرح کی من گھڑت حکایات کا سہارا لیا۔
اولیاء کرام کی قدرت و طاقت کو بیان کرنے کے لیے بریلوی حضرات ایک اور عجیب وغریب روایت کا سہارا لیتے ہیں۔ لکھتے ہیں :
"ایک شخص سیدنا بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دیکھا کہ پنجوں کے بل گھٹنے ٹیکے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ خون رواں ہے۔ عرض کی:
"حضرت! کیا حال ہے؟"
فرمایا!"میں ایک قدم میں یہاں سے عرش تک گیا۔ عرش کو دیکھا کہ رب عزوجل کی طلب میں پیاسے بھیڑیے کی کی طرح منہ کھولے ہوئے ہے۔
"بانگے بر عرش کہ ایں چہ ماجرا ست" ہمیں نشان دیتے ہیں کہ (الرحمن علی العرش استویٰ) کہ رحمان عرش پر مستوی ہے۔ میں رحمان کی تلاش میں تجھ تک آیا، تیرا حال یہ پایا؟"
عرش نے جواب دیا: مجھے ارشاد کرتے ہیں کہ اے عرش! اگر ہمیں ڈھونڈنا چاہتے ہو تو بایزید کے دل میں تلاش کرو۔ 9"
بریلوی مکتب فکر کے نزدیک اولیاء کرام سے جنگل کے جانور بھی خوف کھاتے ہیں اور ان کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ اس کی دلیل کے لیے جناب احمد رضا جس حکایت کی طرف رخ کرتے ہیں، وہ یہ ہے :
"ایک صاحب اولیائے کرام میں سے تھے۔ ان کی خدمت میں دو عالم حاضر ہوئے۔ آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ تجوید کے بعض قواعد مستحبہ ادا نہ ہوئے۔ ان کے دل میں خطرہ گزرا کہ اچھے ولی ہیں، جن کو تجوید بھی نہیں آتی۔ اس وقت تو حضرت نے کچھ نہ فرمایا۔ مکان کے سامنے ایک نہر جاری تھی۔ یہ دونوں صاحبان نہانے کے واسطے وہاں گئے کپڑے اتار کر کنارے پر رکھ دیے اور نہانے لگے۔ اتنے میں ایک نہایت ہیبت ناک شیر آیا اور سب کپڑے جمع کر کے ان پر بیٹھ گیا۔ یہ صاحب ذرا ذرا سی لنگوٹیاں باندھے ہوئے تھے۔ اب نکلیں تو کیسے؟
جب بہت دیر ہو گئی، حضرت نے فرمایا کہ "بھائیوں ہمارے دو مہمان سویرے آئے تھے وہ کہاں گئے؟"
کسی نے کہاں، حضور وہ تو اس مشکل میں ہیں۔ آپ تشریف لے گئے اور شیر کا کان پکڑ کر طمانچہ مارا۔ اس نے دوسری طرف منہ پھیر لیا۔ آپ نے اس طرف مارا، اس نے اس طرف منہ پھیر لیا۔
فرمایا، ہم نے کہا تھا ہمارے مہمانوں کو نہ ستانا۔ جلا چلا جا! شیر اٹھ کر چلا گیا۔ پھر ان صاحبوں سے فرمایا، تم نے زبانیں سیدھی کی ہیں اور ہم نے دل سیدھا کیا۔ یہ ان کے خطرے کا جواب تھا!10"
کچھ ایسی حکایتیں بھی ہیں، جنہیں سن کر ہنسی کے ساتھ بیک وقت رونا بھی آتا ہے۔ ان میں سے چند یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔ ارشاد کرتے ہیں :
"سیدی احمد سجلماسی کی دو بیویاں تھیں۔ سیدی عبدالعزیز دباغ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"رات کو تم نے ایک بیوی کے جاگتے دوسری سے ہمبستری کی، یہ نہیں چاہئے۔ عرض کیا، حضور ! وہ اس وقت سوتی تھی۔
فرمایا:
سوتی نہ تھی، سوتے میں جان ڈال لی تھی (یعنی جھوٹ موٹ سوئی ہوئی تھی) عرض کیا: حضور کو کس طرح علم ہوا؟ فرمایا، جہاں وہ سو رہی تھی کوئی اور پلنگ بھی تھا؟ عرض کیا، ہاں ایک پلنگ خالی تھا!
فرمایا اس پر میں تھا۔ 11"
اس طرح کی خرافات نقل کرتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ ان لوگوں نے تو انہیں کتاب و سنت کے مقابلے میں معاذ اللہ دلائل وبراہین کی حیثیت دے رکھی ہے۔
اسی طرح کی غلیظ، نجس اور جنسی حکایتوں کا نام انہوں نے دین و شریعت رکھ لیا ہے۔ اس سے انکار کو یہ لوگ وہابیت اور کفر و ارتداد سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایک بدقماش انسان، جسے یہ لوگ شیخ اور پیر جیسے القاب سے نوازتے ہیں، مرید اور اس کی بیوی کے درمیان سوتا اور وقت مباشرت خاوند اور بیوی کی حرکات و سکنات دیکھ کر محفوظ ہوتا ہے۔ یہ فحاشی و عریانی ہے، یا دین و شریعت؟ اگر یہی دین و شریعت ہے تو آنکھ نیچی رکھنے اور فواحش سے اجتناب وغیرہ کے احکامات کا کیا معنی ہے؟ اور بریلوی قوم کے یہ بزرگان دین ہی اس قسم کی حرکات کا ارتکاب شروع کر دیں تو مریدوں کا کیا عالم ہو گا؟ اور پھر بڑی وضاحت اور ڈھٹائی کے ساتھ حکایت نقل کرنے کے بعد جناب خلیل برکاتی فرماتے ہیں :
"اس سے ثابت ہوا، شیخ مرید سے کسی وقت جدا نہیں ہوتا۔ ہر آن ساتھ ہے۔ اس طرح بے شک اولیاء اور فقہاء اپنے پیروکاروں کی شفاعت کرتے ہیں اور وہ ان کی نگہبانی کرتے ہیں۔ جب اس کا حشر ہوتا ہے، جب اس کا نامہ اعمال کھلتا ہے، جب اس سے حساب لیا جاتا ہے، جب اس کے عمل تلتے ہیں اور جب وہ پل صراط پر چلتا ہے، ہر وقت ہر حال میں اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ کسی جگہ اس سے غافل نہیں ہوتے۔ 12"
جناب بریلوی اپنے "ملفوظات" میں ایک اور حکایت نقل کر کے قبروں پر عرس اور میلوں کے فوائد بتلانا چاہتے ہیں، تاکہ بدقماش افراد ان میلوں اور عرسوں میں زیادہ تعداد میں شرکت کر کے مزارات سے "فیض" حاصل کریں۔ ارشاد کرتے ہیں :
"سیدی عبدالوہاب اکابر اولیائے کرام میں سے ہیں۔ حضرت سیدی احمد بدوی کبیر رحمہ اللہ کے مزار پر ایک تاجر کی کنیز پر نگاہ پڑی۔ وہ آپ کو پسند آئی۔ جب مزار شریف پر حاضر ہوئے تو صاحب مزار نے ارشاد فرمایا:
عبدالوہاب۔ وہ کنیز تمہیں پسند ہے؟
عرض کیا، ہاں شیخ سے کوئی بات چھپانا نہیں چاہئے۔ ارشاد فرمایا:
اچھا ہم نے وہ کنیز تم کو ہبہ کی۔ آپ سکوت میں ہیں کہ کنیز تو اس تاجر کی ہے اور حضور ہبہ فرماتے ہیں۔ وہ تاجر حاضر ہوا اور اس نے وہ کنیز مزار اقدس کی نذر کی۔ 13"
خادم کو اشارہ ہوا، انہوں نے وہ آپ کی نذر کر دی۔
(صاحب مزار ) نے ارشاد فرمایا، اب دیر کاہے کی ہے؟ فلاں حجرہ 14میں لے جاؤ اور اپنی حاجت پوری کرو!15
جنابب بریلوی دراصل ان حکایتوں سے ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ اولیائے کرام کو غیب کا علم حاصل ہے۔ وہ اپنے مریدوں کے دلوں کی باتوں سے نہ صرف واقف ہیں، بلکہ ان کی خواہشات کی تکمیل پر قدرت و تصرف بھی رکھتے ہیں۔ دعویٰ اور پھر اس کی دلیل پیش کرنا چاہتے ہیں کہ صرف مرشد اور پیر ہی علم غیب نہیں رکھتے، بلکہ ان کے مریدوں سے بھی کوئی چیز مخفی نہیں رہتی۔ فرماتے ہیں :
"حضرت سیدی سید محمد گیسو دراز قدس سرہ کہ اکابر علماء اور اجلہ سادات سے تھے۔ جوانی کی عمر تھی۔ سادات کی طرح شانوں تک گیسو رکھتے تھے۔ ایک بار سر راہ بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت نصیر الدین محمود چراغ دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی سواری نکلی، انہوں نے اٹھ کر زانوئے مبارک پر بوسی دیا۔ حضرت خواجہ نے فرمایا:
"سیدفروترک" سید! اور نیچے بوسی دو۔ انہوں نے پائے مبارک پر بوسہ لیا۔ فرمایا"سید فروترک" انہوں نے گھوڑے کے سم پر بوسہ دیا۔ ایک گیسو کہ رکاب مبارک میں الجھ گیا تھا، وہیں الجھا رہا اور رکاب سم تک بڑھ گیا۔ حضرت نے فرمایا"سید فروترک" انہوں نے ہٹ کر زمین پر بوسہ دیا۔ گیسو رکاب مبارک سے جدا کر کے تشریف لے گئے۔ لوگوں کو تعجب ہوا کہ ایسے جلیل سید نے یہ کیا کیا؟
یہ اعتراض حضرت سیدگیسو دراز نے سنا، فرمایا کہ لوگ نہیں جانتے کہ میرے شیخ نے ان بوسوں کے عوض میں کیا عطا فرمایا؟
جب میں نے زانوئے مبارک پر بوسہ دیا، عالم جبروت روشن ہوا۔ اور جب زمین پر بوسہ دیا لاہوت کا انکشاف ہو گیا۔ 16"
اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اُولٰئِکَ الَّذِینَ اشتَرَو الضَّلَالةَ بِالھُدیٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَارَتُھُم وَمَا کَانُوا مُھتَدِینَ "یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے میں گمراہی خرید لی ہے۔ ان کی تجارت نفع مند نہیں، یہ راہ ہدایت سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ "
بریلوی حضرات کا عقیدہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام اور اولیائے کرام اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ موت کے بعد بھی وہ دنیوی زندگی کی طرح اٹھتے بیٹھتے، سوتے اور جاگتے ہیں۔ اپنے مریدوں کی باتوں کو سنتے اور ان کی طلب کو پورا کرتے ہیں۔
ظاہر ہے، یہ من گھڑت عقیدہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے تو ثابت نہیں ہے۔ البتہ بہت سی حکایات ایسی ہیں جن سے اس عقیدے کے دلائل مہیا ہو جاتے ہیں۔ خاں صاحب بریلوی لکھتے ہیں :
"امام و قطب حضرت سید احمد رفاعی رضی اللہ عنہ ہر سال حاجیوں کے ہاتھ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم پر سلام عرض کر بھیجتے۔ خود جب حاضر ہوئے رو ضہ اقدس کے سامنے کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ:
"میں جب دور تھا تو اپنی روح بھیج دیتا تھا کہ میری طرف سے زمین کو بوسہ دے تو وہ میری نائب تھی۔ اب باری میرے بدن کی ہے کہ جسم خود حاضر ہے۔ دست مبارک عطا ہو کہ میرے لب اس سے بہرہ پائیں۔
چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا دست مبارک روضہ شریف میں سے ظاہر ہوا اور امام رفاعی نے اس پر بوسہ دیا۔ 18"
یہ تو تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق ان کا عقیدہ۔ اب یہی عقیدہ ان کے اپنے بزرگان دین کے متعلق ملاحظہ فرمائیں :
"امام عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ ہر سال حضرت سید احمد بدوی کبیر رضی اللہ عنہ کے عرس پر حاضر ہوتے۔ ایک دفعہ انہیں تاخیر ہو گئی تو مجاوروں نے کہا کہ تم کہاں تھے؟ حضرت بار بار مزار مبارک سے پردہ اٹھا کر فرماتے رہے ہیں :
عبدالوہاب آیا؟ عبدالوہاب آیا؟19
(جب مجاوروں نے یہ ماجرا سنایا) تو عبدالوہاب شعرانی کہنے لگے :
کیا حضور کو مرے آنے کی اطلاع ہوتی ہے؟
مجاوروں نے کہا: اطلاع کیسی؟ حضور تو فرماتے ہیں کہ کتنی ہی منزل پر کوئی شخص میرے مزار پر آنے کا ارادہ کرے، میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اس کی حفاظت کرتا ہوں۔ 20"
اس پر مستزاد کہ: "دو بھائی اللہ کے راستے میں شہید ہو گئے۔ ان کا ایک تیسرا بھائی بھی تھا، جو زندہ تھا۔ جب اس کی شادی کا دن تھا تو دونوں بھائی بھی شادی میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔
وہ بہت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ تم تو مر چکے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہاری شادی میں شریک ہونے کے لیے بھیجا ہے۔
چنانچہ ان دونوں (فوت شدہ) بھائیوں نے اپنے تیسرے بھائی کا نکاح پڑھا اور واپس اپنے مقامات پر چلے گئے۔ 21
یہ دلیل ہے اس بات کی کہ نیک لوگ مرنے کے بعد بھی زندہ ہوتے ہیں اور دنیا سے ان کا تعلق ختم نہیں ہوتا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
اور دلیل ملاحظہ ہو:
"ابوسعید فراز قدس سرہ راوی ہیں کہ میں مکہ معظمہ میں تھا۔ باب بنی شیبہ پر ایک جوان مرا پڑا پایا۔ جب میں نے اس کی طرف نظر کی تو مجھے دیکھ کر مسکرایا اور کہا:
یا ابا سعید اما علمت ان الاحیاء احیاء وان ماتوا وانما ینقلبون من دار الی دار یعنی"اے ابو سعید! کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ کے پیارے (مرنے کے بعد بھی) زندہ ہوتے ہیں، اگرچہ بظاہر مر جاتے ہیں۔ وہ تو ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف لوٹتے ہیں۔ 22"
مزید سنئے : "سیدی ابوعلی قدس اللہ سرہ راوی ہیں :
میں نے ایک فقیر (یعنی صوفی) کو قبر میں اتارا، جب کفن کھولا، ان کا سر خاک پر رکھ دیا۔ فقیر نے آنکھیں کھول دیں اور مجھ سے فرمایا:"
"اے ابو علی! تم مجھے اس کے سامنے ذلیل کرتے ہو جو میرے ناز اٹھاتا ہے؟"
میں نے عرض کی "اے میرے سردار! کیا موت کے بعد بھی تم زندہ ہو؟" کہا "بلیٰ انا حیّ وکلّ محبّ اللہ حیّ لا نصرنک بجاھی غدًا"
"میں زندہ ہوں، اور خدا کا ہر پیارا زندہ ہے، بیشک وہ عزت جو مجھے روز قیامت ملے گی، اس سے میں تیری مدد کروں گا۔ 23"
"ایک بی بی نے مرنے کے بعد خواب میں اپنے لڑکے سے فرمایا:
"میرا کفن ایسا خراب ہے کہ مجھے اپنے ساتھیوں میں جاتے شرم آتی ہے ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ مردے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں ) پر سوں فلاں شخص آنے والا ہے، اس کے کفن میں اچھے کفن کا کپڑا رکھ دینا۔ صبح کو صاحبزادے نن اٹھ کر اس شخص کو دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ بالکل تندرست ہے اور کوئی مرض نہیں۔
تیسرے روز خبر ملی، اس کا انتقال ہو گیا ہے۔ لڑکے نے فوراً نہایت عمدہ کفن سلوا کر اس کے کفن میں رکھ دیا اور کہا؛
یہ میری ماں کو پہنچا دینا!
رات کو وہ صالحہ خواب میں تشریف لائیں اور بیٹے سے کہا،
خدا تمہیں جزائے خیر دے، تم نے بہت اچھا کفن بھیجا!24"
مزید: "جون پور کی ایک نیک لڑکی فوت ہو گئی۔ اسے جون پور میں ہی دفن کر دیا گیا۔ اس طرح جون پور ہی کا ایک گناہ گار شخص مدینہ منورہ میں دفن کر دیا گیا۔
پھر کوئی صاحب حج کو گئے تو دیکھا کہ مدینہ منور میں گناہ گار آدمی کی قبر میں تو لڑکی ہے اور اس لڑکی کی قبر میں وہ گناہ گار ہے۔ "
یعنی مرنے کے بعد وہ ایک دوسرے کی قبر میں منتقل ہو گئے !
بریلوی مکتب فکر کے پیروکاروں کا عقیدہ ہے کہ اولیاء نہ صرف مرنے کے بعد خود زندہ رہتے ہیں، بلکہ وہ دوسرے مردوں کو زندہ کر سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 26
دلیل ملاحظہ ہو:
"حضور پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس وعظ میں ایک مرتبہ تیز ہوا چل رہی تھی۔ اسی وقت ایک چیل اوپر سے چلاتی ہوئی گزری، جس سے اہل مجلس کی نگاہیں منتشر ہوئیں۔ آپ نے نظر مبارک اٹھا کر دیکھا، فوراً وہ چیل مر گئی۔ سر علیحدہ اور دھڑ علیحدہ۔ بعد ختم وعظ حضور تشریف لے چلے۔ وہ چیل بدستور مری پڑی تھی۔ آپ نے ایک ہاتھ میں سر اٹھایا اور دوسرے ہاتھ میں جسم، اور دونوں کو بسم اللہ کہہ کر ملا دیا۔ فوراً اڑتی ہوئی چلی گئی۔ 27"
بریلوی حضرات کی بعض حکایات میں بڑے دلچسپ لطیفے ہوتے ہیں۔ ایسی ہی ایک حکایت آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :
"دو صاحب اولیائے کرام میں سے تھے۔ ایک صاحب دریا کے اس کنارے اور دوسرے اس پار رہتے تھے۔ ان میں سے ایک صاحب نے اپنے ہاں کھیر پکائی اور خادم سے کہا، اسے میرے دوست تک پہنچا دے۔
خادم نے کہا، حضور راستے میں دریا پڑتا ہے۔ کیوں کر پار اتروں گا؟ کشتی وغیرہ کا تو سامان نہیں !،
فرمایا، دریا کے کنارے جا اور کہہ: " میں اس کے پاس آیا ہوں جو آج تک اپنی عورت کے پاس نہیں گیا۔ "
خادم حیران تھا کہ یہ کیا معمہ ہے؟
اس واسطے کہ حضرت صاحب اولاد تھے۔ بہرحال تعمیل حکم ضروری تھی۔ دریا پر گیا اور وہ پیغام جو ارشاد فرمایا تھا کہا۔ دریا نے فوراً راستہ دے دیا۔
اس نے پار پہنچ کر اس بزرگ کی خدمت میں کھیر پیش کی۔
انہوں نے نوش جان فرمائی اور فرمایا، ہمارا سلام اپنے آقا سے کہہ دینا۔ خادم نے عرض کی، سلام تو جبھی کہوں گا جب دریا سے پار جاؤں گا۔ فرمایا دریا پر جا کر کہئے "میں اس کے پاس سے آیا ہوں، جس نے تیس برس سے آج تک کچھ نہیں کھایا۔ خادم بڑا حیران ہوا کہ ابھی تو انہوں نے میرے سامنے کھیر کھائی ہے، مگر بلحاظ ادب خاموش رہا۔ دریا پر آ کر جیسا فرمایا تھا، کہہ دیا۔ دریا نے پھر راستہ دے دیا!28"
اولیائے کرام کی قدرت پر ایک اور دلیل :
"حضرت یحییٰ منیری کے ایک مرید ڈوب رہے تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام ظاہر ہوئے اور فرمایا، اپنا ہاتھ مجھے دے کہ تجھے نکالوں۔ ان مرید نے عرض کی، یہ ہاتھ حضرت یحیی منیری کے ہاتھ میں دے چکا ہوں، اب دوسرے کو نہ دوں گا۔ حضرت خضر علیہ السلام غائب ہو گئے اور حضرت یحییٰ منیری ظاہر ہوئے اور ان کو نکال لیا۔ 29"
ایک اور دلچسپ حکایت سنئے :
"حضرت بشر حافی قدس اللہ سرہ پاؤں میں جوتا نہیں پہنتے تھے۔ جب تک وہ زندہ رہے، تمام جانوروں نے ان کے راستے میں لید گوبر پیشاب کرنا چھوڑ دیا کہ بشر حافی کے پاؤں خراب نہ ہوں۔ ایک دن کسی نے بازار میں لید پڑی دیکھی، کہا: انا للہ وانا الیہ راجعون
پوچھا گیا، کیا ہے؟
حافی نے انتقال کیا۔ تحقیق کے بعد یہ امر نکلا۔ 30"
اولیاء کرام چاہیں تو اہل قبور پر سے عذاب بھی اٹھا سکتے ہیں۔ دلیل ملاحظہ ہو:
"ایک بار حضرت سیدی اسماعیل حضرمی ایک قبرستان میں سے گزرے۔ امام محبّ الدین طبری بھی ساتھ تھے۔ حضرت سیدی اسماعیل نے ان سے فرمایا: اتؤمن بکلام الموتیٰ؟
"کیا آپ اس پر ایمان لاتے ہیں کہ مُردے زندوں سے کلام کرتے ہیں؟"
عرض کیا، ہاں۔ فرمایا، اس قبر والا مجھ سے کہہ رہا ہے :
انا من حشوب الجنت
"میں جنت کی بھرتی میں سے ہوں۔ "
آگے چلے، چالیس قبریں تھیں۔ آپ بہت دیر تک روتے رہے، یہاں تک کہ دھوپ چڑھ گئی۔ اس کے بعد آپ ہنسے اور فرمایا، تو بھی انہیں میں ہے۔
لوگوں نے یہ کیفیت دیکھی تو عرض کی، حضرت! یہ کیا راز ہے؟ ہماری سمجھ میں کچھ نہ آیا؟
فرمایا، ان قبور پر عذاب ہو رہا تھا، جسے دیکھ کر میں روتا رہا اور میں نے شفاعت کی۔ مولا تعالیٰ نے میری شفاعت قبول فرمائی اور ان سے عذاب اٹھا لیا۔
ایک قبر گوشے میں تھی، جس کی طرف میرا خیال نہ گیا تھا۔ اس میں سے آواز آئی:
یا سیدی انا منھم انا فلانة المغنية
"اے میرے آقا! میں بھی تو انہیں میں ہوں، میں فلاں گانا گانے والی ڈومنی ہوں۔ "
مجھے اس کے کہنے پر ہنسی آ گئی میں میں نے کہا:
انت منھم
"تو بھی انہی میں سے ہے۔ "
"اس پر سے بھی عذاب اٹھا لیا گیا!31"
خان صاحب بریلوی لکھتے ہیں :
"حضرت شیخ محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ دعوت میں تشریف لے گئے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک لڑکا کھانا کھا رہا ہے۔ کھانا کھاتے ہوئے دفعتاً رونے لگا۔ وجہ دریافت کرنے پر کہا کہ میری ماں کو جہنم کا حکم ہے اور فرشتے اسے لیے جاتے ہیں۔
حضرت شیخ اکبر کے پاس کلمہ طیبہ ستر ہزار پڑھا ہوا محفوظ تھا۔ آپ نے اس کی ماں کو دل میں ایصال ثواب کر دیا۔ فوراً وہ لڑکا ہنسا۔ آپ نے ہنسنے کا سبب دریافت فرمایا۔ لڑکے نے جواب دیا کہ حضور! میں نے ابھی دیکھا، میری ماں کو فرشتے جنت کی طرف لیے جاتے ہیں۔ 32"
یہ ہیں بریلوی حضرات کے وہ قطعی دلائل جن کا انکار کفر و ارتداد کے مترادف ہے۔ جو ان کا منکر ہو گا اس پر وہابی کافر کا فتویٰ لگا دیا جائے گا۔
ستم بالائے ستم یہ کہ بریلوی حضرات ان حکایات و اساطیر کے ذریعے نہ صرف یہ کہ لوگوں کو خود ساختہ بزرگان دین کا غلام بنانا چاہتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے مخلوق کو دور کرنے کے لیے یہ تاثر بھی دینا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام اختیارات و تصرفات ان اولیاء کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔ اب فریاد رسی و حاجت روائی صرف اولیاء سے ہی کی جائے گی۔ رب کائنات سے مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو کچھ لینا ہے وہ بزرگوں سے لیا جائے، جو مانگنا ہو وہ ان سے مانگا جائے۔ یہی مدد فرمانے والے اور فریاد رسی کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام اختیارات انہیں تفویض کر کے خود معاذ اللہ، اللہ معطل ہو چکا ہے۔ اس تک کسی کی رسائی بھی ممکن نہیں اور اس سے مانگنے کی کسی کو ضرورت بھی نہیں۔ جناب بریلوی رقمطراز ہیں :
"ایک مرتبہ حضرت سیدی جنید بغدادی رحمہ اللہ علیہ دجلہ پر تشریف لائے اور یا اللہ کہتے ہوئے اس پر زمین کی مثل چلنے لگے۔ بعد میں ایک شخص آیا، اسے بھی پار جانے کی ضرورت تھی۔ کوئی کشتی اس وقت موجود نہ تھی۔ جب اس نے حضرت کو جاتے دیکھا، عرض کی، میں کس طرح آؤں؟ فرمایا: یا جنید یا جنید کہتا چلا آ۔ اس نے یہی کہا اور دریا پر زمین کی طرح چلنے لگا۔ جب بیچ دریا پہنچا، شیطان لعین نے دل میں وسوسہ ڈالا کہ حضرت خود تو یا اللہ کہیں اور مجھ سے یا جنید کہلواتے ہیں۔ میں بھی یا اللہ کیوں نہ کہوں؟
اس نے یا اللہ کہا اور ساتھ ہی غوطہ کھایا۔ پکارا، حضرت میں چلا۔ فرمایا، وہی کہہ یا جنید یا جنید۔ جب کہا، دریا سے پار ہوا۔ عرض کی حضرت! یہ کیا بات تھی، آپ اللہ کہیں تو پار ہوں اور میں کہوں تو غوطے کھاؤں؟
فرمایا ارے نادان! ابھی تو جنید تک نہیں پہنچا، اللہ تک رسائی کی ہوس ہے؟34"
یعنی عام انسانوں کو چاہیے کہ وہ صرف اپنے بزرگوں اور پیروں کو ہی پکاریں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تک ان کی رسائی ممکن نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب کہ رب کریم کا ارشاد ہے :
وَاِذَا سَالَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیب اُجِیبُ دَعوَۃ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ
"جب (اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم) تجھ سے میرے بندے میرے متعلق پوچھیں تو فرما دیجئے، میں ان کے قریب ہوں۔ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارے، میں اس کی پکار سنتا ہوں اور قبول کرتا ہوں۔ "
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَنَحنُ اَقرَبُ اِلَیہِ مِن حَبلِ الوَرِیدِ
"ہم انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ "
بریلوی حضرات حکایات سے جو کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں، قرآن مجید کی آیات اس کی مخالفت کرتی ہیں۔
ہم ایک اور حکایت بیان کر کے اس بات کو ختم کرتے ہیں۔ جناب بریلوی ارشاد کرتے ہیں :
"ایک صاحب پیر کامل کی تلاش میں تھے۔ بہت کوشش کی، مگر پیر کامل نہ ملا۔ طلب صادق تھی۔ جب کوئی نہ ملا تو مجبور ہو کر ایک رات عرض کیا، اے رب تیری عزت کی قسم! آج صبح کی نماز سے پہلے جو ملے گا، اس سے بیعت کر لوں گا۔ صبح کی نماز پڑھنے جا رہے تھے، سب سے پہلے راہ میں ایک چور ملا جو چوری کے لیے آ رہا تھا۔ انہوں نے ہاتھ پکڑ لیا کہ حضرت بیعت لیجئے۔ وہ حیران ہوا، بہت انکار کیا، نہ مانے۔ آخر کار اس نے مجبور ہو کر کہہ دیا کہ حضرت میں چور ہوں، یہ دیکھئے چوری کا مال میرے پاس موجود ہے۔ آپ نے فرمایا! میرا تو میرے رب سے عہد ہے کہ آج صبح کی نماز سے پہلے جو بھی ملے گا بیعت کر لوں گا۔ اتنے میں حضرت سیدنا خضر علیہ السلام تشریف لائے اور چور کو مراتب دیے، تمام مقامات فوراً طے کر لیے، ولی کیا اور اس سے بیعت لی اور انہوں نے ان سے بیعت لی۔ 35"
یہ ہیں بریلویوں کی حکایات۔ ان حکایات سے بریلوی حضرات ایسے عقائد ثابت کرنا چاہتے ہیں، جن کا وجود کتاب و سنت میں نہیں ہے۔ اور ان آیات و احادیث کے مقابلے میں وہ انہیں دلائل کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔
ذَلِکَ مَبلَغُھُم مِّنَ العِلمِ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِیلِہِ وَھُوَ اَعلَمُ بِمَنِ اھتَدیٰ
"یہ ہے ان کے علم کی حد! بے شک تیرا پروردگار ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کے سیدھے راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں، اور ان سے بھی بخوبی واقف ہے جو ہدایت یافتہ ہیں۔ "
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اَم حَسِبتَ اَنَّ اَکثَرَھُم یَسمَعُونَ اَو یَعقِلُونَ اِن اِلَّا کَالاَنعَامِ بَل ھْم اَضَلُّ سَبِیلا
"اے میرے نبی (صلی اللہ علیہ و سلم)ن کیا تو سمجھتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت سنتی اور سمجھتی ہے؟ نہیں ان کا حال تو جانوروں جیسا ہے بلکہ یہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں !"
اللہ تعالیٰ ہدایت فرمائے اور گمراہی سے محفوظ رکھے۔ آمین!​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات
3انوارالانتباہ فی حل نداء یا رسول اللہ درج شدہ مجموعہ رسائل رضویہ از بریلوی جلد1 ص 182
4ایضاً
5یعنی اگر بدصورت نہ ہوتا تو کوئی حرج نہ تھا
6انوار الانتباہ جلد 1 ص 182
7ایضاًص 181
8ملفوطات مجددماتہ حاضرہ ترتیب مصطفی رضا 189
9حکایات رضویہ ترتیب خلیل احمد برکاتی ص 181، 182
10حکایات رضویہ ص 110
11حکایات رضویہ از برکاتی قادری ص 55
12حکایات رضویہ تعلیق خلیل برکاتی ص 55،ایضا! حاشیہ الاستمداد علی اجیال الارتداد از مصطفی رضا ص 35
13کنیزوں کو مزاروں کی نذر کرنے کے بعد کیا اس میں ہندوؤں اور دورجاہلیت کی نذر ونیاز میں کوئی فرق باقی رہ جاتا ہے؟ نستغفراللہ!
14کیا اسی مقصد کے لیے مزاروں کے پہلوؤں میں حجرے تعمیر کئے جاتے ہیں؟ اور کیا انہی نفسانی و حیوانی خواہشات کی تکمیل کے لیے عورتوں کو مزاروں پر کثرت سے آنے کی ترغیب دی جاتی ہے؟
15ملفوظات احمد رضا 275،276
16حکایات رضویہ نقل از احمد رضا ص 63،64
18رسالہ ابرالمقال فی قبلۃ الاجلال درج شدہ در مجموعہ رسائل از بریلوی ص 173
19ایک طرف تو ان حضرات کا عقیدہ ہے کہ اولیائے کرام کو غیب کی تمام باتوں کا علم ہوتا ہے،دوسری طرف کہتے ہیں کہ شیخ بدوی مجاوروں سے پوچھتے رہے کہ عبدالوہاب آیا یا نہیں؟ا گر غیب کا علم تھا تو بار بار عبدالوہاب کی آمد کے متعلق استفسار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اس بات کا کیا مفہوم ہے کہ میں مزاروں پر آنے کا ارادہ کرنے والے ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہوں اور اس کی حفاظت کرتا ہوں؟ کیسا عجیب اور دلچسپ تضاد ہے؟
20ملفوظات بریلوی ص 275
21حکایات رضویہ ص 116، ایضاً انوارالانتباہ درج شدہ مجموعہ رسائل اعلیٰ حضرت جلد1 ص 175۔
22رسالہ احکام قبور مومنین درج شدہ مجموعہ رسائل جلد2 ص 243۔
23ایضاً 243،244
24ملفوظات ص 95
25مواعظ نعیمیہ از اقتدار احمد گجراتی ص 26
26حکایات رضویہ ص 71
27باغ فردوس از قناعت علی رضوی ص 27
28حکایات رضویہ ص 35
29ملفوطات جلد 2 ص 164
30حکایات رضویہ ص 172
31حکایات رضویہ ص 57،58،ایضاً ملفوظات احمد رضا ص 200،201
32ملفوطات احمد رضا ص 82، ایضاً حکایات رضویہ ص 48
34حکایات رضویہ ص 52،53
35حکایات رضویہ ص 71،72
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تمام شد
البریلویہ۔ جس کا اردو نام "بریلویت - تاریخ و عقائد" ہے۔ یہ احسان الٰہی ظہیر شہید کی لازوال تصنیف ہے۔ دعا ہے کہ اللہ اسے ہمارے لیے نافع بنائے۔ (آمین)
* * * * * * * * *​
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top