• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بریلویت تاریخ وعقائد

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ذریعہ معاش
جناب احمد رضا صاحب کے ذریعہ معاش کے متعلق مختلف روایات آئیں ہیں۔ بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ وہ زمیندار خان سے تعلق رکھتے تھے اور گھر کے اخراجات کے لئے انہیں سالانہ رقم مل جاتی تھی جس سے وہ گزر بسر کرتے۔ 61
بعض اوقات سالانہ ملنے والی رقم کافی نہ ہوتی اور وہ دوسروں سے قرض لینے پر مجبور ہو جاتے، کیونکہ ان کے پاس ڈاک کے ٹکٹ خریدنے کے لیے بھی رقم موجود نہ ہوتی۔ 62
کبھی کہا جاتا کہ انہیں دست غیب سے بکثرت مال و دولت ملتا تھا۔ ظفرالدین بہاری راوی ہیں کہ جناب بریلوی کے پاس ایک مقفل کنجی صندوقچی تھی، جسے وہ بوقت ضرورت ہی کھولتے تھے۔ اور جب اسے کھولتے تو مکمل طور پر نہیں کھولتے تھے اس میں ہاتھ ڈالتے اور مال، زیور اور کپڑے جو چاہتے نکال لیتے تھے۔ 63
جناب بریلوی کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت اپنے احباب اور دوسرے لوگوں میں بکثرت زیورات اور دوسری چیزیں تقسیم کرتے تھے اور یہ سارا کچھ وہ اس چھوٹی سی صندوقچی سے نکالتے۔ ہمیں حیرت ہوتی کہ نامعلوم اتنی اشیاء اس میں کہاں سے آتی ہیں۔ 64
ان کے مخالفین یہ تہمت لگاتے ہیں کہ "دستِ غیب" کا صندوقچی وغیرہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ انگریزی استعمار کا ہاتھ تھا، جو انہیں اپنے اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کرنے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لیے امداد دیتا تھا۔ 65
میری رائے یہ ہے کہ ان کی آمدن کا بڑا ذریعہ لوگوں کی طرف سے ملنے والے تحائف اور امامت کی تنخواہ تھی۔ جس طرح ہمارے ہاں عام رواج ہے کہ دیہاتوں میں اپنے علماء کی خدمت صدقات و خیرات سے کی جاتی ہے، اور عموماً یہی ان کا ذریعہ معاش ہوتا ہے۔
ان کے ایک پیروکار بیان کرتے ہیں کہ :
"ایک روز ان کے پاس خرچ کے لیے ایک دمڑی نہ تھی۔ آپ ساری رات بے چین رہے۔ صبح ہوئی تو کسی تاجر کا ادھر سے گزر ہوا تو اس نے 51 روپے بطور نذرانہ آپ کی خدمت میں پیش کیے۔ 67
ایک مرتبہ ڈاک کا ٹکٹ خریدنے کے لیے ان کے پاس کچھ رقم نہیں تھی تو ایک مرید نے انہیں دو سو روپے کی رقم ارسال کی۔ 68
باقی جہاں تک زمینداری اور صندوقچی وغیرہ کا تعلق ہے، تو اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ یہ کہیں سے ثابت نہیں ہوتا کہ ان کا خاندان زراعت وغیرہ سے متعلق تھا۔ باقی کرامتوں کے نام پہ صندوقچی وغیرہ کے افسانے بھی مریدوں کی نظر میں تقدیس و احترام کا مقام دینے کے لیے وضع کیے گئے ہیں، یہ سب بے سروپا باتیں ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عادات اور طرز گفتگو
بریلوی اعلیٰ حضرت پان کثرت سے استعمال کرتے تھے، حتیٰ کہ رمضان المبارک میں وہ افطار کے بعد صرف پان پر اکتفا کرتے۔ 69
اسی طرح حقہ بھی پیتے تھے۔ 70
دوسری کھانے پینے کی اشیاء پر حقہ کو ترجیح دیتے۔ ہمارے ہاں دیہاتیوں اور بازاری قسم کے لوگوں کی طرح آنے جانے والے مہمان کی تواضع بھی حقے سے کرتے۔ 71
مزے کی بات ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:
"میں حقہ پیتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھتا، تاکہ شیطان بھی میرے ساتھ شریک ہو جائے۔ 72
لوگوں کے پاؤں چومنے کی عادت بھی تھی۔ ان کے ایک معتقد راوی ہیں کہ :
"آپ حضرت اشرفی میاں کے پاؤں کو بوسہ دیا کرتے تھے۔ 73
جب کوئی صاحب حج کر کے واپس آ جاتے تو ایک روایت کے مطابق فوراً اس کے پاؤں چوم لیتے !74
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اسلوب بیان
اپنے سے معمولی سا اختلاف رکھنے والوں کے خلاف سخت زبان استعمال کیا کرتے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی رو رعایت کے قائل نہ تھے۔ بڑے فحش اور غلیظ لفظ بولتے۔ مخالف کو کتا،خنزیر،کافر،سرکش،فاجر،م۔۔ر۔۔د اور اس طرح کے دوسرے سخت اور غلیظ کلمات کی بریلوی حضرات کے اعلیٰ حضرت کے نزدیک کوئی قدر و قیمت نہ تھی۔ وہ بے مہا و بے دریغ یہ کلمات ادا کر جاتے۔ ان کی کوئی کتاب اس انداز گفتگو اور "اخلاقیات" سے بھری ہوئی طرز تحریر سے خالی نہیں ہے۔
ان کی "شیرینیِ لب" کا ذکر گزشتہ صفحات میں حاشیہ کے اندر گزر چکا ہے۔ یہاں ہم نمونے کے طور پر ان کی مختلف عبارتوں میں سے ایک قطعہ نقل کرتے ہیں، جس سے ان کے اسلوب بیان کی تصویر قارئین کے سامنے آ جائے گی۔
وہ دیوبندیوں کے خدا کی تصویر کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں :
"تمہارا خدا رنڈیوں کی طرح زنا بھی کرائے، ورنہ دیوبند کی چکلے والیاں اس پر ہنسیں گی کہ نکھٹو تو ہمارے برابر بھی نہ ہو سکا!75
"پھر ضروری ہے کہ تمہارے خدا کی زن بھی ہو۔ اور ضروری ہے کہ خدا کا آلہ تناسل بھی ہو۔ یوں خدا کے مقابلے میں ایک خدائن بھی ماننی پڑے گی۔ 76 نستغفراللہ!
اندازہ لگائیں، اس طرح کا انداز تحریر کسی عالم دین کو زیب دیتا ہے؟ اور اس پر طرہ یہ کہ تجدید دین کا دعویٰ !
مجدد دین کے لیے اس قسم کی گفتگو کا اختیار کرنا کس حدیث سے ثابت ہے؟
انہیں عالم دین کہنے پر اصرار ہو تو ضرور کہئے، مگر مجدد کہتے ہوئے تھوڑی سی جھجک ضرور محسوس کر لیا کریں۔
اس ضمن میں ایک واقعہ ہے کہ یہ بریلوی صاحب ایک مرتبہ کسی کے ہاں تعلیم کی غرض سے گئے۔ مدرس نے پوچھا کہ آپ کا شغل کیا ہے؟
کہنے لگے "وہابیوں کی گمراہی اور ان کے کفر کا پول کھولتا ہوں "۔ مدرس کہنے لگے "یہ انداز درست نہیں۔ تو جناب بریلوی صاحب وہاں سے واپس لوٹ آئے 77 اور ان سے پڑھنے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ انہوں نے احمد رضا صاحب کو موحدین کی تکفیر و تفسیق سے روکا تھا۔
جہاں تک ان کی لغت کا تعلق ہے، تو وہ نہایت پیچیدہ قسم کی عبارتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ بے معنی الفاظ و تراکیب استعمال کر کے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ انہیں علوم و معارف میں بہت گہری دسترس حاصل ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں اس عالم دین کو، جو اپنا ما فی الضمیر کھول کر بیان نہ کر سکے اور جس کی بات سمجھ میں نہ آئے، اسے بڑے پائے کا عالم دین تصور کیا جاتا ہے۔
ان کے ایک معتقد لکھتے ہیں کہ :
"اعلیٰ حضرت کی بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان علم کا سمندر ہو!78
ان کی زبان میں فصاحت و روانی نہیں تھی۔ اس بنا پر تقریر سے گریز کرتے تھے، صرف خود ساختہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم یا اپنے پیر آل رسول شاہ کے عرس کے موقعہ پر چند کلمات کہہ دیتے !79
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات
61 انوار رضا ص ٣٦٠
62 حیات اعلیٰ حضرت ص ٥٨
63 اعلیٰ حضرت بستوی ص ٧٥، انوار رضا ص ٥٧
64 حیات اعلیٰ حضرت ص ٥٧
65 اس کا تفصیلاً ذکر آگے آ رہا ہے۔
66 حیات اعلیٰ حضرت ص ٥٦
67 ایضاً ص ٥٦
68 ایضاً ص ٥٨
69 انوار رضاص ٢٥٦
70 کتنی عجیب بات ہے دوسروں کو معمولی باتوں پر کافر قرار دینے والا کود کیسے حقہ نوشی کو جائز سمجھتا ہے اور اس کا مرتکب ہے؟
71 حیات اعلیٰ حضرت ص ٦٧
72 ملفوظات
73 اذکار حبیت رضا طبع مجلس رضا لاہور ص ٢٤
74 انوار رضا ص ٣٠٦
75 سبحان السبوح از احمر رضا بریلوی ص ١٤٢
76 ایضاً
77 حیات اعلیٰ حضرت از ظفر الدین بہاری
78 انوار رضا ص ٢٨٦
79 حیات اعلیٰ حضرت از ظفر الدین بہاری رضوی
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تصنیفات
ان کی تصنیفات کے بیان سے قبل ہم قارئین کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ بریلوی قوم کو مبالغہ آرائی کی بہت زیادہ عادت ہے۔ اور مبالغہ آرائی کرتے وقت غلط بیانی سے کام لینا ان کی سرشت میں داخل ہے۔ تصنیفات کے سلسلہ میں بھی انہوں نے بے جا غلو سے کام لیا ہے اور حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے ان کی سینکڑوں تصنیفات گنوا دی ہیں، حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ان کے متضاد اقوال کا نمونہ درج ذیل ہے :
ان کے ایک راوی کہتے ہیں :
"اعلیٰ حضرت کی تصنیفات 200 کے قریب تھیں۔ 80
ایک روایت ہے کہ 250 کے قریب تھیں۔ 81
ایک روایت ہے، 350 کے قریب تھیں۔ 82
ایک روایت ہے، 450 کے لگ بھگ تھیں۔ 83
ایک اور صاحب کہتے ہیں، 500 سے بھی متجاوز تھیں۔ 84
بعض کا کہنا ہے، 600 سے بھی زائد تھیں۔
ایک اور صاحب ان تمام سے آگے بڑھ گئے اور کہا کہ ایک ہزار سے بھی تجاوز کر گئی تھیں۔ 85
حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ ان کی کتب کی تعداد، جن پر کتاب کا اطلاق ہوتا ہے، دس سے زیادہ نہیں ہے۔ شاید اس میں بھی مبالغہ ہو۔ ۔ تفصیل ملاحظہ فرمائیں :
جناب بریلوی صاحب نے مستقل کوئی کتاب نہیں لکھی۔ وہ فتویٰ نویسی اور عقیدہ توحید کے حاملین کے خلاف تکفیر و تفسیق میں مشغول رہے۔ لوگ ان سے سوالات کرتے او ر وہ اپنے متعدد معاونین کی مدد سے جوابات تیار کرتے اور انہیں کتب و رسائل کی شکل دے کر شائع کروا دیا جاتا۔ بسا اوقات بعض کتب دستیاب نہ ہونے کے باعث سوالات کو دوسرے شہروں میں بھیج دیا جاتا، تاکہ وہاں موجود کتابوں سے ان کے جوابات کو مرتب کیا جا سکے۔ جناب بریلوی ان فتاویٰ کو بغیر تنقیح کے شائع کرواتے۔ اسی وجہ سے ان کے اندر ابہام اور پیچیدگی رہ جاتی اور قارئین کی سمجھ میں نہ آتے۔ جناب بریلوی مختلف اصحاب کے تحریر کردہ فتاویٰ کا کوئی تاریخی نام رکھتے، چنانچہ اسے ان کی طرف منسوب کر دیا جاتا۔
جناب بریلوی کا قلم سوالات کے ان جوابات میں خوب روانی سے چلتا، جن میں توحید و سنت کی مخالفت اور باطل نظریات و عقائد کی نشر و اشاعت ہوتی۔ چند مخصوص مسائل مثلاً علم غیب،حاضر و ناظر،نور و بشر،تصرفات و کرامات اور اس قسم کے دوسرے خرافی امور کے علاوہ باقی مسائل میں جناب بریلوی کا قلم سلاست و روانی سے محروم نظر آتا ہے۔ یہ کہنا کہ ان کی کتب ایک ہزار سے بھی زائد ہیں، انتہائی مضحکہ خیز قول ہے۔
ان کی مشہور تصنیف جسے کتاب کہا جا سکتا ہے، فتاویٰ رضویہ ہے۔ باقی چھوٹے چھوٹے رسالے ہیں۔ فتاویٰ رضویہ کی آٹھ جلدیں ہیں، ہر ایک جلد مختلف فتاویٰ پر مبنی چھوٹے چھوٹے رسائل پر مشتمل ہے۔
بریلوی حضرات نے اپنے قائد و مؤسس کی تصانیف کی تعداد بڑھانے کے لیے اس میں مندرج رسائل کو مستقل تصانیف ظاہر کیا ہے۔ نمونے کے طور پر ہم فتاویٰ رضویہ کی پہلی جلد میں مندرج رسائل کو شمار کرتے ہیں۔ اس میں 31 رسائل موجود ہیں، جنہیں کتب ظاہر کیا گیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ان کے ا سماء درج ذیل ہیں :
  1. حسن النعم۔
  2. باب العقائد۔
  3. قوانین العلماء
  4. الجدالسعید
  5. مجلی الشمعۃ
  6. تبیان الوضوء
  7. الدقنہ والتبیان
  8. النہی النمیر
  9. الظفرلقول زفر
  10. المطرالسعید
  11. لمع الاحکام
  12. المعلم الطراز
  13. نبہ القوم
  14. اجلی الاعلام
  15. الاحکام والعلل
  16. الجود الحلود
  17. تنویر القندیل
  18. آخر مسائل
  19. النمیقۃ الانقی
  20. رجب الساعۃ
  21. ہبۃ الحمیر
  22. مسائل اخر
  23. افضل البشر
  24. بارق النور
  25. ارتفاع الحجب
  26. الطررس المعدل
  27. الطلبۃ البدیعۃ
  28. برکات الاسماء
  29. عطاء النبی
  30. النور و النورق
  31. سمع النذر
چند سو صفحات پر مشتمل ایک جلد میں موجود 31 رسائل کو بریلوی حضرات نے اپنے اعلیٰ حضرت کی31 تصنیفات ظاہر کیا ہے۔ 86
یہ کہہ دینا کہ فلاں شخص نے ایک ہزار، دو ہزار یا اس سے بھی زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں، سہل ہے۔ ۔ ۔ مگر اسے ثابت کرنا آسان نہیں۔ بریلوی حضرات بھی اسی مخمصے کا شکار نظر آتے ہیں۔
خود اعلیٰ حضرت فرما رہے ہیں کہ ان کی کتابوں کی تعداد 200 کے قریب ہے۔ 87
ان کے ایک صاحبزادے کہہ رہے ہیں کہ 400 88 کے لگ بھگ ہیں۔ 89
ان کے ایک خلیفہ ظفر الدین بہاری رضوی جب ان تصنیفات کو شمار کرنے بیٹھے، تو 350 رسالوں سے زیادہ نہ گنوا سکے۔ 90
ایک اور صاحب نے 548 تک تصنیفات شمار کیں۔ 91
اب ذرا یہ لطیفہ بھی سن لیجئے کہ انہوں نے کس طرح یہ تعداد پوری کی ہے۔ انوار رضا میں ان کی جو تصانیف شمار کی ہیں۔ ان میں سے چند ایک یہاں ذکر کی جاتی ہیں، تاکہ قارئین پر کثرت تصانیف کے دعوے کا سربستہ راز منکشف ہو سکے۔
  1. حاشیہ صحیح بخاری
  2. حاشیہ صحیح مسلم
  3. حاشیہ النسائی
  4. حاشیہ ابن ماجہ
  5. حاشیہ التقریب
  6. حاشیہ مسند امام اعظم
  7. حاشیہ مسند احمد
  8. حاشیہ الطحاوی
  9. حاشیہ خصائص کبری
  10. حاشیہ کنز العمال
  11. حاشیہ کتاب الاسماء والصفات
  12. حاشیہ الاصابہ
  13. حاشیہ موضوعات کبیر
  14. حاشیہ شمس بازعہ
  15. حاشیہ عمدۃ القاری
  16. حاشیہ فتح الباری
  17. حاشیہ نصب الرایہ
  18. حاشیہ فیض القدیر
  19. حاشیہ اشعۃ اللمعات
  20. حاشیہ مجمع بحار الانوار
  21. حاشیہ تہذیب التہذیب
  22. حاشیہ مسامرہ ومسابرہ
  23. حاشیہ تحفۃ الاخوان
  24. حاشیہ مفتاح السعادۃ
  25. حاشیہ کشف الغمہ
  26. حاشیہ میزان الشریعۃ
  27. حاشیہ الہدایہ
  28. حاشیہ بحرالرائق
  29. حاشیہ منیۃ المصلی
  30. حاشیہ رسائل شامی
  31. حاشیہ الطحطاوی
  32. حاشیہ فتاوی خانیہ
  33. حاشیہ فتاوی خیراتیہ
  34. حاشیہ فتاوی عزیزیہ
  35. حاشیہ شرح شفا
  36. حاشیہ کشف الظنون
  37. حاشیہ تاج العروس
  38. حاشیہ الدر المکنون
  39. حاشیہ اصول الہندسہ
  40. حاشیہ سنن الترمذی
  41. حاشیہ تیسیر شرح جامع الصغیر
  42. حاشیہ کتاب الاثار
  43. حاشیہ سنن دارمی
  44. حاشیہ ترغیب والترہیب
  45. حاشیہ نیل الاوطار
  46. حاشیہ تذکرۃ الحفاظ
  47. حاشیہ ارشاد الساری
  48. حاشیہ مرعاۃ المفاتی
  49. حاشیہ میزان الاعتدال
  50. حاشیہ العلل المتناہیہ
  51. حاشیہ فقہ اکبر
  52. حاشیہ کتاب الخراج
  53. حاشیہ بدائع الصنائع
  54. حاشیہ کتاب الانوار
  55. حاشیہ فتاوی عالمگیری
  56. حاشیہ فتاوی بزازیہ
  57. حاشیہ شرح زرقانی
  58. حاشیہ میزان الافکار
  59. حاشیہ شرح چغمینی

یعنی وہ تمام کتب جو احمد رضا صاحب کے پاس تھیں اور ان کے زیر مطالعہ رہتیں، اور انہوں نے ان کتب کے چند صفحات پر تعلیقاً کچھ تحریر کیا، ان کتابوں کو بھی اعلیٰ حضرت صاحب کی تصنیفات شمار کیا گیا ہے۔
اس طرح تو کسی شخص کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس کی تصنیفات ہزاروں ہیں۔
میری لائبریری میں پندرہ ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔ فرق سے متعلقہ ہزاروں کتب میرے زیر مطالعہ رہ چکی ہیں۔ خود البریلویہ کی تصنیف کے لیے میں نے 300 سے زائد کتب و رسائل کا مطالعہ کیا ہے۔
اور تقریباً ہر کتاب کے حاشیہ پر تعلیقات بھی لکھی ہیں۔ اس حساب سے میری تصنیفات ہزاروں سے متجاوز ہو جاتی ہیں۔
اگر معاملہ یہی ہو تو اس میں فخر کی بات کون سی ہے؟ آخر میں پھر ہم اس سلسلے میں بریلوی حضرات کے متضاد اقوال کو دہراتے ہیں۔ خود احمد رضا صاحب فرماتے ہیں کہ
ان کی کتب کی تعداد 200 ہے .92
ان کے ایک خلیفہ کا ارشاد ہے 350 ہے۔ 93
بیٹے کا قول 400 ہے۔ 94
انوار رضا کے مصنف کہتے ہیں 548 ہے .95
بہاری صاحب کا کہنا ہے 600 ہے .96
ایک صاحب کا فرمان ہے کہ ایک ہزار ہے۔ 97
اعلیٰ حضرت کی تمام وہ کتب و رسائل جو آج تک چھپی ہیں، ان کی تعداد 125 سے زائد نہیں۔ 98
اور یہ وہی ہیں جن کے مجموعے کا نام فتاویٰ رضویہ ہے۔ یہاں ہم بریلوی حضرات کی ایک اور کذب بیانی نقل کرتے ہیں۔ مفتی برہان الحق قادری کہتے ہیں :
"اعلیٰ حضرت کے مجدد ہونے کی شہادت آپ کا مجموعہ فتاوی ہے، جو بڑی تقطیع کی بارہ جلدوں میں ہے اور ہر جلد میں ایک ہزار صفحات سے زائد ہیں۔ 99
اس بات سے قطع نظر کہ ان فتاوی کی علمی وقعت کیا ہے، ہم ان کی کذب بیانی کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں۔
اولاً، یہ کہنا کہ اس کی بارہ جلدیں ہیں، سراسر غلط ہے۔ اس کی صرف آٹھ جلدیں ہیں۔
ثانیاً، بڑی تقطیع کی صرف ایک جلد ہے۔ تمام جلدوں کے متعلق کہنا کہ وہ بڑی تقطیع کی ہیں، یہ بھی واضح جھوٹ ہے۔
ثالثاً، ان میں سے کوئی بھی ایک ہزار صفحات پر مشتمل نہیں ہے۔ بڑی تقطیع والی جلد کے کل صفحات 264 ہیں، باقی جلدوں کے صفحات پانچ چھ سو صفحات سے زیادہ نہیں۔ بہرحال ایک ہزار صفحات کسی جلد کے بھی نہیں ہیں۔
ہم نے تصنیفات کے موضوع کو اس قدر تفصیل سے اس لیے ذکر کیا ہے، تاکہ معلوم ہو سکے کہ بریلوی حضرات جناب احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی تعریف و توصیف میں کس قدر مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ فتاویٰ نویسی میں جناب احمد رضا اکیلے نہ تھے، بلکہ ان کے متعدد معاونین بھی تھے۔ ان کے پاس استفتاء کی شکل میں سوال آتے تو وہ ان کا جواب اپنے معاونین کے ذمے لگا دیتے۔ جناب بریلوی اپنے معاونین کو دوسرے شہروں میں بھی بھیجتے۔ 100
ظفر الدین بہاری نے اپنے اعلیٰ حضرت کا ایک خط بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، جو اس موضوع کو سمجھنے میں کافی ممد ومعاون ثابت ہو سکتا ہے۔ جناب احمد رضا صاحب اپنے کسی ایک معاصر کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں :
"تفسیر روح المعانی کون سی کتاب ہے، اور یہ آلوسی بغدادی کون ہیں؟ اگر ان کے حالات زندگی آپ کے پاس ہوں تو مجھے ارسال کریں۔ نیز مجھے "المدارک" کی بعض عبارتیں بھی درکار ہیں !101
کسی اور مسئلے کا ذکر کر کے ایک اور خط میں لکھتے ہیں :
"مجھے درج ذیل کتب کی فلاں مسئلے کے متعلق پوری عبارتیں درکار ہیں۔ اگر آپ کے پاس ہوں تو بہت بہتر، ورنہ پٹنہ جا کر ان کتابوں سے عبارتیں نقل کر کے ارسال کر دیں۔ کتب درج ذیل ہیں :
  1. فتاوی تاتار خانیہ
  2. زاد المعاد
  3. عقد الفرید
  4. نزہۃ المجالس
  5. تاج العروس
  6. قاموس
  7. خالق زمخشری
  8. مغرب مطرزی
  9. نہایہ ابن الاثیر
  10. مجمع البحار
  11. فتح الباری
  12. عمدۃ القاری
  13. ارشاد الساری
  14. شرح مسلم نووی
  15. شرح شمائل ترمذی
  16. السراج المنیر
  17. شرح جامع الصغیر۔ 102

بہرحال گزشتہ تمام نصوص سے ثابت ہوتا ہے کہ جناب احمد رضا تنہا فتویٰ نویسی نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ان کے بہت سے معاونین بھی تھے، جو مختلف سوالات کا جواب دیتے۔ اور ان کے اعلیٰ حضرت انہیں پنی طرف منسوب کر لیتے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات
80 مقدمہ الدولۃ المکیہ مصنفہ احمد رضا بریلوی مطبوعہ لاہور
81 ایضاً
82 المجل المعدد لتالیفات المجدد از ظفرالدین بہاری
83 ایضاً
84 حیات البریلوی ص ١٣
85 من ھو احمد رضا ص ٢٥
86 ملاحظہ ہو المجمل المعدد لتالیفار المجدد
87 الدولۃ المکیہ ص ١٠
88 یعنی چند صفحات پر مشتمل چھوٹے رسالے
89 الدولۃ المکیہ ص ١١
90 ملاحظہ ہو المجمل المعدد
91 انوار رضا ص ٣٢٥
92 الدولۃ المکیہ ص١
93 المجمل المعدد
94 الدولۃ المکیہ ٣٢٣
95 الدولۃ المکیہ ٣٢٣
96 حیات اعلیٰ حضرت ص ١٣
97 ضمیمہ المعتقد المتقلد ایضاً من ہو احمد رضا ص ٢٥
98 انوار رضا ص ٣٢٥
99 اعلیٰ حضرت بریلوی از بستوی ص ١٨٠
100 ملاحظہ ہو حیات اعلیٰ حضرت ص ٢٤٤
101 حیات اعلیٰ حضرت ص ٢٦٦
102 ایضاً ص ٢٨١
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جہاد کی مخالفت اور استعمار کی حمایت
جناب بریلوی کا دور استعمار کا دور تھا۔ مسلمان آزمائش میں مبتلا تھے، ان کا عہد اقتدار ختم ہو چکا تھا۔ انگریز مسلمانوں کو ختم کر دینا چاہتے تھے علماء کو تختہ دار پر لٹکایا جا رہا تھا، مسلمان عوام ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہے تھے اور ان کی جائیدادیں ضبط کی جا رہی تھیں، انہیں کالا پانی اور دوسرے عقوبت خانوں میں مختلف سزائیں دی جا رہی تھیں۔، ان کی شان و شوکت اور رعب و دبدبہ ختم ہو چکا تھا۔ انگریز مسلمان امت کے وجود کو بر صغیر کی سر زمین سے مٹا دینا چاہتے تھے،۔ اس دور میں اگر کوئی گروہ ان کے خلاف صدا بلند کر رہا تھا اور پوری ہمت و شجاعت کے ساتھ جذبہ جہاد سے سرشار ان کا مقابلہ کر رہا تھا، تو وہ وہابیوں کا گروہ تھا۔ 103
(وہابی کا لفظ سب سے پہلے اہل حدیث حضرات کے لئے انگریز نے استعمال کیا، تاکہ وہ انہیں بدنام کر سکیں۔ وہابی کا لفظ باغی کے معنوں میں ہوتا تھا۔ بلاشبہ وہابی انگریز کے باغی تھے )
انہوں نے علم جہاد بلند کیا، اپنی جائیدادیں ضبط کروائیں، کالا پانی کی سزائیں برداشت کیں، دار و رسن کی عقوبتوں سے دوچار ہوئے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، مگر انگریزی استعمار کو تسلیم کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ اس دور کے وہابی چاہتے تھے کہ برصغیر میں مسلمان سیاسی و اقتصادی طور پر مضبوط ہو جائیں۔
اس وقت ضرورت تھی اتفاق و اتحاد کی، مل جل کر جدوجہد کرنے کی، ایک پرچم تلے متحد ہو کر انگریزی استعمار کو ختم کرنے کی۔ مگر استعمار یہ نہ چاہتا تھا۔ وہ انہیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا کرنا چاہتا تھا۔ وہ مسلمانوں کو باہم دست و گریبان دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے اسے چند افراد درکار تھے، جو اس کے ایجنٹ بن کر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالیں، انہیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کر دیں اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کر کے ان کی قوت و شوکت کو کمزور کر دیں۔ اس مقصد کے لئے انگریز نے مختلف اشخاص کو منتخب کیا، جن میں مرزا غلام احمد قادیانی104 اور جناب بریلوی کے مخالفین کے مطابق احمد رضا خان بریلوی صاحب سر فہرست تھے۔ 105
مرزا غلام احمد قادیانی کی سرگرمیاں تو کسی سے مخفی نہیں، مگر جہاں تک احمد رضا صاحب کا تعلق ہے، ان کا معاملہ ذرا محتاج وضاحت ہے۔ جناب احمد رضا بریلوی صاحب نے استعمار کے مخالفین وہابی حضرات کو سب و شتم اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا۔ ان وہابیوں کو، جو انگریز کے خلاف محاذ آراء تھے اور ان کے خلاف جہاد میں مصروف تھے، انگریز کی طرف سے ان کی بستیوں پر بلڈوزر چلائے گئے۔ 106 صرف بنگال میں ایک لاکھ وہابی علماء کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ 107
انگریز مصنف ہنٹر نے اعتراف حقیقت کرتے ہوئے اپنی کتاب Indian Muslims میں کہا ہے :
"ہمیں اپنے اقتدار کے سلسلے میں مسلمان قوم کے کسی گروہ سے خطرہ نہیں۔ اگر خطرہ ہے تو صرف مسلمانوں کے ایک اقلیتی گروہ وہابیوں سے ہے۔ کیونکہ صرف وہی ہمارے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں !108
جنگ آزادی 1857ء کے بعد وہابیوں کے تمام اکابرین کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ 109
1863ء کا عرصہ ان کے لیے نہایت دشوار تھا۔ اس عرصے میں انگریز کی طرف سے ان پر جو مظالم ڈھائے گئے، ہندوستان کی تاریخ اس کی گواہ ہے۔
وہابی علماء میں سے جن کو قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار ہونا پڑا، ان میں مولانا جعفر تھانیسری، مولانا عبدالرحیم، مولانا عبد الغفار، مولانا یحیی علی صادق پوری، مولانا احمد اللہ اور شیخ الکل مولانا نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہم سر فہرست ہیں۔
وہابی مجاہدین کی جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔ 110
وہابیوں کے مکانوں کو مسمار کر دیا گیا اور ان کے خاندانوں کی قبروں تک کو اکھیڑ دیا گیا۔ 111 ان کی بلڈنگوں پر بلڈوزر چلا دیے گئے۔ 112 وہابی علماء کو گرفتار کر کے انہیں مختلف سزائیں دی گئیں۔ اس ضمن میں شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی گرفتاری کا واقعہ بہت مشہور ہے۔ 113
ان وہابیوں کے خلاف زبان استعمال کرنے کے لیے اور "فرق تسد" یعنی "لڑاؤ اور حکومت کرو" کی مشہور انگریزی پالیسی کو کامیاب کرنے کے لیے استعمار نے جناب احمد رضا صاحب کو استعمال کیا، تاکہ وہ مسلمانوں میں افتراق و انتشار کا بیج بو کر ان کے اتحاد کو ہمیشہ کے لیے پارہ پارہ کر دیں۔
اور عین اس وقت جب کہ انگریز کے مخالفین ان کی حکومت سے نبرد آزما تھے اور جہاد میں مصروف تھے، جناب احمد رضا نے ان جملہ مسلم راہنمایان کا نام لے کر ان کی تکفیر کی، جنہوں نے آزادی کی تحریک کے کسی شعبے میں بھی حصہ لیا۔ 114
وہ جماعتیں جنہوں نے تحریک آزادی ہند میں حصہ لیا، ان میں وہابی تحریک کے علاوہ جمیعت علمائے ہند، مجلس احرار، تحریک خلافت، مسلم لیگ، نیلی پوش مسلمانوں میں سے اور آزاد ہند فوج خاص ہندوؤں میں سے اور گاندھی کی کانگرس قابل ذکر ہیں۔
جناب بریلوی آزادی ہند کی ان تمام تحریکوں سے نہ صرف لاتعلق رہے، بلکہ ان تمام جماعتوں اور ان کے اکابرین کی تکفیر و تفسیق کی۔ ان کے خلاف سب و شتم میں مصروف رہے اور ان میں شمولیت کو حرام قرار دیا۔
جناب احمد رضا تحریک خلافت کے دوران ہی وفات پا گئے، ان کے بعد ان کے جانشینوں نے ان کے مشن کو جاری رکھا اور وہابیوں کے علاوہ مسلم لیگ کی شدید مخالفت کی اور لیگی زعماء کے کافر و مرتد ہونے کے فتوی جاری کیے اور اس طرح انہوں نے بالواسطہ طور پر انگریزی استعمار کے ہاتھ مضبوط کیے۔ جناب احمد رضا کی سرپرستی میں بریلوی زعماء نے مسلمانوں کو ان تحریکوں سے دور رہنے کی تلقین کی اور جہاد کی سخت مخالفت کی۔ چونکہ شرعاً جہاد آزادی کا دارومدار ہندوستان کے دارالحرب ہونے پر تھا اور اکابرین ملت اسلامیہ ہندوستان کو دارالحرب قرار دے چکے تھے، احمد رضا خاں صاحب نے اس بنا پر جہاد کو منہدم کرنے کے لیے یہ فتوی دیا کہ ہندوستان دارالاسلام ہے۔ اور اس کے لیے بیس صفحات پر مشتمل ایک رسالہ (اعلام بان ہندوستان دارالاسلام) یعنی"اکابرین کو ہندوستان کے دارالاسلام ہونے سے آگاہ کرنا" تحریر کیا۔
جناب احمد رضا خاں صاحب نے اس رسالے کے شروع میں جس چیز پر زور دیا، وہ یہ تھا کہ وہابی کافر مرتد ہیں۔ انہیں جزیہ لے کر بھی معاف کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح نہ انہیں پناہ دینا جائز، نہ ان سے نکاح کرنا، نہ ان کا ذبیحہ جائز، نہ ان کی نماز جنازہ جائز، نہ ان سے میل جول رکھنا جائز، نہ ان سے لین دین جائز، بلکہ ان کی عورتوں کو غلام بنایا جائے اور ان کے خلاف سوشل بائیکاٹ کیا جائے۔ اور آخر میں لکھتے ہیں :
( قاتلھم اللہ انّی یوفکون ) یعنی "خدا انہیں غارت کرے وہ کہاں بھٹکے پھرتے ہیں۔ 115
یہ رسالہ جناب احمد رضا کی اصلیت کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس سے ان کے مکروہ عزائم کھل کر سامنے آ جاتے ہیں کہ وہ کس طرح مجاہدین کی مخالفت کر کے انگریز استعمار کی حمایت و تائید کر رہے تھے۔ اور مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر دشمنان دین و ملت کا دست بازو بن چکے تھے۔
جس وقت دنیا بھر کے مسلمان ترکی سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر انگریزوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے اور مولانا محمد علی جو ہر رحمہ اللہ اور دوسرے اکابرین کی زیر قیادت خلافت اسلامیہ کے تحفظ و بقاء کے لیے انگریزوں سے جنگ لڑ رہے تھے، عین اس وقت جناب احمد رضا انگریزوں کے مفاد میں جانے والی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔
بلاشبہ تحریک خلافت، انگریزوں کو ان کی بدعہدی پر سزا دینے کے لیے نہایت موثر ثابت ہو رہی تھی۔ تمام مسلمان ایک پرچم تلے جمع ہو چکے تھے۔ علماء و عوام اس تحریک کی حمایت کر رہے تھے۔ خود ایک بریلوی مصنف اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے :
"1918ء میں جنگ عظیم ختم ہوئی، جرمنی اور اس کے ساتھیوں ترکی آسٹریا وغیرہ کو شکست ہوئی، ترکوں سے آزادی ہند کے متعلق ایک معاہدہ طے پایا۔ لیکن انگریزوں نے بدعہدی اور وعدہ خلافی کی، جس سے مسلمانوں کو سخت دھچکا لگا۔ چنانچہ وہ بپھر گئے اور ان کے خلاف ہو گئے۔ اہل سیاست اس فکر میں تھے کہ کسی ترکیب سے انگریزوں کو وعدہ خلافی کی سزا دی جائے۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو یہ باور کرایا کہ خلافت اسلامیہ کا تحفظ فرائض و واجبات میں سے ہے۔ بس پھر کیا تھا ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔116
اور حقیقتاً تحریک خلافت انگریزوں کے خلاف ایک موثر ہتھیار ثابت ہو رہی تھی۔ مسلمان انگریزوں کے خلاف متحد ہو چکے تھے۔ قریب تھا کہ یہ تحریک انگریزی سلطنت کے خاتمہ کا باعث بن جاتی۔ اس امر کی وضاحت اہل حدیث جید عالم دین امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے بھی فرمائی ہے۔ 117
مگر بریلوی مکتب فکر کے امام و مجدد نے انگریزوں کے خلاف چلنے والی اس تحریک کے اثرات و نتائج کو بھانپتے ہوئے انگریزوں سے دوستی کا ثبوت دیا اور تحریک خلافت کو نقصان پہنچانے کے لیے ایک دوسرا رسالہ "دوام العیش" کے نام سے تالیف کیا، جس میں انہوں نے واضح کیا کہ چونکہ خلافت شرعیہ کے لیے قریشی ہونا ضروری ہے، اس لیے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ترکوں کی حمایت ضروری نہیں، کیونکہ وہ قریشی نہیں ہیں۔ اس بنا پر انہوں نے انگریزوں کے خلاف چلائی جانے والی اس تحریک کی بھرپور مخالفت کی اور انگریزی استعمار کی مضبوطی کا باعث بنے۔
احمد رضا خاں صاحب تحریک خلافت کے مسلم زعماء کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے رقمطراز ہیں :
"ترکوں کی حمایت تو محض دھوکے کی ٹٹی ہے۔ اصل مقصود یہ ہے کہ خلافت کا نام لو۔ عوام بپھریں، خوب چندہ ملے اور گنگا و جمنا کی مقدس سر زمینیں آزاد ہوں۔ 118"
جناب احمد رضا نے تحریک ترک موالات کی بھی شدید مخالفت کی۔ کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ یہ تحریک انگریز کے زوال کا باعث بن سکتی ہے۔
تحریک ترک موالات کا مقصود یہ تھا کہ انگریزوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ انہیں ٹیکس وغیرہ کی ادائیگی نہ کی جائے، اس کے تحت چلنے والے سرکاری محکموں میں ملازمت نہ کی جائے، غرضیکہ ان کی حکومت کو یکسر مسترد کر دیا جائے، تاکہ وہ مجبور ہو کر ہندوستان کی سرزمین سے نکل جائیں۔ اس مقصد کے لیے تمام مسلمانوں نے 1920ء میں متحد ہو کر جدوجہد شروع کر دی۔ جس سے انگریز حکومت کے خلاف ایک فتنہ کھڑا ہو گیا اور وہ متزلزل ہونے لگی۔ اس تحریک کو گاندھی کے علاوہ جناب احمد رضا نے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ اور ایک رسالہ تحریر کر کے اس کی سختی سے ممانعت کی اور اس تحریک کے سرکردہ راہنماؤں کے خلاف کفر کے فتوے صادر کیے۔
چنانچہ وہ اس مقصد کے لیے تحریر کئے گئے رسالے (والمحجتہ الموتمنہ فی آیۃ الممتحنۃ) میں اعتراف کرتے ہیں۔
"اس تحریک کا ہدف انگریز سے آزادی کا حصول ہے "۔ 119
نیز اس رسالے میں جہاد کی مخالفت کرتے ہوئے ارشاد کرتے ہیں :
"ہم مسلمانان ہند پر جہاد فرض نہیں ہے۔ 120 اور جو اس کی فرضیت کا قائل ہے، وہ مسلمانوں کا مخالف ہے اور انہیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ 121
نیز لکھتے ہیں :
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے جہاد سے استدلال کرنا جائز نہیں، کیونکہ ان پر جنگ مسلط کی گئی تھی۔ اور حاکم وقت پر اس وقت تک جہاد فرض نہیں، جب تک اس میں کفار کے مقابلے کی طاقت نہ ہو۔ چنانچہ ہم پرجہاد کیسے فرض ہو سکتا ہے، کیونکہ ہم انگریز کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ 122"
مسلمانوں کو جہاد و قتال، نیز انگریز سے محاذ آرائی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
" یا ایھا الذین اٰمنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا ھتدیتم "
یعنی"اے ایماندارو، تم اپنے آپ کے ذمہ دار ہو۔ کسی دوسرے شخص کا گمراہ ہونا تمہارے لیے نقصان دہ نہیں ہو سکتا، بشرطیکہ تم خود ہدایت پر گامزن ہو۔ 123
یعنی ہر مسلمان انفرادی طور پر اپنی اصلاح کرے، اجتماعی جدوجہد کی کوئی ضرورت نہیں !
اور اپنے رسالہ کے آخر میں ان تمام راہنماؤں پر کفر کا فتوی لگایا ہے، جو انگریزی استعمار کے مخالف اور تحریک ترک موالات کے حامی تھے۔ 124
جناب احمد رضا نے جہاد کے منہدم کرنے کا فتوی اپنے رسالے "دوام العیش" میں بھی دیا ہے۔ لکھتے ہیں :
"مسلمانان ہند پر حکم جہاد و قتال نہیں !125
بہرحال احمد رضا صاحب کے متعلق مشہور ہو گیا تھا کہ وہ استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ اور ہر اس تحریک کے مخالف ہیں، جو انگریزوں کے خلاف چلائی جاتی ہے۔
بریلوی اعلیٰ حضرت کے ایک پیروکار لکھتے ہیں :
"مسلمان احمد رضا سے بد ظن ہو گئے تھے۔ 126"
ایک اور مصنف لکھتا ہے :
"مسئلہ خلافت سے ان کو اختلاف تھا۔ انتقال کے قریب ان کے خلاف مسلمانوں میں بہت چرچا ہو گیا تھا اور ان کے مرید اور معتقد اختلاف خلافت کے سبب ان سے برگشتہ ہو گئے تھے۔ 127
بہرحال عین اس وقت، جب کہ مسلمانوں کو متحد ہو کر انگریزی استعمار کے خلاف جدوجہد کرنے کی ضرورت تھی، جناب احمد رضا خاں صاحب انگریزوں کے مفاد کے لیے کام کر رہے تھے۔
اگر یہ نہ بھی کہا جائے کہ احمد رضا خاں صاحب انگریز کے ایجنٹ تھے، تب بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کی تمام تر سرگرمیاں مسلمانوں کے خلاف اور انگریز کے مفاد میں تھیں۔ کیونکہ انہوں نے مجاہدین کی تو مخالفت کی، مگر انگریز کے حامی و موید رہے۔
مستشرق فرانسس رابنس نے جناب احمد رضا صاحب کے متعلق لکھا ہے :
احمد رضا بریلوی انگریزی حکومت کے حامی رہے۔ انہوں نے پہلی جنگ عظیم میں بھی انگریزی حکومت کی حمایت کی۔ اسی طرح وہ تحریک خلافت میں 1921ء میں وہ انگریز کے حامی تھے۔ نیز انہوں نے بریلی میں ان علماء کی کانفرنس بھی بلائی، جو تحریک ترک موالات کے مخالف تھے۔
یہ تھے جناب احمد رضا اور ان کی سر گرمیاں !128
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات
103 وہابی کا لفظ سب سے پہلے اہل حدیث حضرات کے لئے انگریز نے استعمال کیا،تاکہ وہ انہیں بدنام کر سکیں وہابی کا لفظ باغی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ بلاشبہ وہابی انگریز کے باغی تھے۔
104 اس ثبوت کے لئے ہماری کتاب القادیانیہ ملاحظہ کیجئے !
105 اس کے لیے ملاحظہ ہو کتب، بریلوی فتوے،تکفیری افسانے،آئینہ صداقت، مقدمہ الشہاب الثاقب،مقدمہ رسائل چاند پوری،،فاضل بریلوی،، وغیرہ
106 تذکرہ صادق از عبدالرحیم
107 ملاحظہ ہو کتاب (Wahabi Trils)
108 انڈین مسلم ص ٣٢
109 تاریخ اہلحدیث کے متعلق ہم ایک مستقل رسالہ تصنیف کریں گے .یہ علامہ مرحوم کے مستقبل کے عزائم میں شامل تھا،لیکن بہت سے دوسرے منصوبوں کی طرح ی بھی نامکمل رہ گیا۔ ان اللہ فعال لما یرید
110 وہابی تحریک ص ٢٩٢
111 تذکرہ صادقہ۔
112 ایضاً
113 وہابی تحریک ٣١٥۔
114 تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو اس کتاب کا باب،،بریلویت اور تکفیری افسانے علاوہ ازیں ان کتابوں کی طرف رجوع کیجئے آئینہ صداقت، مقدمہ شہاب ثاقب، مقدمہ رسائل چاند پوری،فاضل بریلوی از مسعود احمد بریلوی۔
115 ملاحظہ ہو اعلام بان ہندوستان دارالاسلام ص ١٩،٢٠۔
116 مقدمہ دوام العیش از مسعود احمد ص ١٥۔
117 ایضاً ص ١٧۔
118 دوام العیش ص ٦٣ مطبوعہ بریلی و ص ٩٥ مطبوعہ لاہور۔
119 المحبتہ الموتمنتہ از احمد رضا ص ١٥٥۔
120 مرزا غلام احمد قادیانی کا بھی یہی فتویٰ تھا۔
121 المحبتہ الموتمنتہ ص ٢١٠۔
122 المحبتہ الموتمنتہ ص ٢٠٦
123 ملاحظہ ہو خاتمۃ الکتاب ص ٢١١۔
124 دوام العیش ص ٤٦۔
125 مقدمہ دوام العیش ص ١٨۔
126مقدمہ دوام العیش مقالہ حسن نظامی ص ٢،از مقدمہ دوام العیش ص ١٨۔
127 (Indian Muslims) ص ٤٤٣ مطبوعہ کیمرج یونیورسٹی ١٩٧٤۔
128 وصایا شریف ص ١٠ ترتیب حسنین رضا مطبوعہ ہند۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
وفات
جناب بریلوی کی موت ذات الجنب کے مرض سے واقع ہوئی۔ مرتے وقت انہوں نے چند وصیتیں کیں، جو "وصایا شریف" کے نام سے ایک رسالے میں شائع ہوئیں۔
احمد رضا خاں صاحب نے مرتے وقت کہا :
"میرا دین و مذہب، جو میری کتب سے ظاہر ہے، اس مضبوطی سے قائم رہنا ہر فرض سے اہم فرض ہے۔ 129
نیز انہوں نے کہا:
"پیارے بھائیو! مجھے معلوم نہیں، میں کتنے دن تمہارے اندر ٹھہروں۔ تم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی بھولی بھالی بھیڑیں ہو۔ بھیڑئیے تمہارے چاروں طرف ہیں، جو تم کو بہکانا چاہتے ہیں اور فتنے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ ان سے بچو اور دور بھاگو۔ مثلاً دیوبندی وغیرہ!130
اور وصیت کی آخر میں کہا:
"اگر بطیّب خاطر ممکن ہو تو فاتحہ میں ہفتہ میں دو تین بار ان اشیاء سے بھی کچھ بھیج دیا کریں :
دودھ کا برف خانہ ساز، اگرچہ بھینس کے دودھ کا ہو۔
مرغ کی بریانی، مرغ پلاؤ، خواہ بکری کا شامی کباب، پراٹھے اور بالائی، فیرنی، ارد کی پھریری دال مع ادرک و لوازم، گوشت بھری کچوریاں، سیب کا پانی، انار کا پانی، سوڈے کی بوتل، دودھ کا برف
اور روزانہ ایک چیز ہو سکے، یوں کیا کرو، یا جیسے مناسب جانو۔ ۔ ۔ ۔ پھر حاشیے میں درج ہے :
"دودھ کا برف دوبارہ پھر بتایا!"
چھوٹے مولانا نے عرض کیا
"اسے تو حضور پہلے لکھا چکے ہیں۔ "
فرمایا:"پھر لکھو۔ انشاء اللہ مجھے میرا رب صرف برف ہی عطا فرمائے گا۔ "
اور ایسا ہی ہوا کہ ایک صاحب دفن کے وقت بلا اطلاع دودھ کا برف خانہ ساز لے آئے !131
بریلوی مکتب فکر کے اعلیٰ حضرت کی وفات 25 صفر 1340ھ بمطابق 1921ء 68 برس کی عمر میں ہوئی
معلوم ہوتا ہے کہ جناب بریلوی کا جنازہ قابل ذکر حاضری سے محروم تھا۔ بہرحال ہم اس سلسلے میں کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ بغیر دلیل کے کوئی حکم لگانا ہم اپنے اسلوب تحریر کے منافی تصور کرتے ہیں۔ تاہم قرائن و شواہد سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ عوام ان کی تلخ لسانی، بات بات پر تکفیر کے فتووں اورانگریز کی عدم مخالفت کی وجہ سے ان سے متنفر ہو گئے تھے۔ 132
اس بات کا اعتراف ایک بریلوی مصنف نے بھی کیا ہے کہ "مسلمان امام احمد رضا سے متنفر ہو گئے تھے "۔ نیز:
"ان کے مرید ومعتقد بھی اختلاف خلافت کے سبب ان سے برگزشتہ ہو گئے تھے۔
ویسے بھی بریلویت کے پیروکار چونکہ اپنے امام و مجدد کے بارے میں بہت زیادہ غلو و مبالغہ کے عادی ہیں، اگر جنازے کی حاضری کسی عام عالم دین کے جنازے کے برابر بھی ہوتی تو ان کی تصانیف اس سلسلے میں مبالغہ آمیز دعووں سے بھری ہوتیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب کہ انہوں نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ البتہ بریلوی قوم حاضری کے علاوہ ان کے جنازے کے بارے میں دوسرے چند ایک مبالغوں سے باز نہیں آئی ! مبالغہ آمیزی
ایک صاحب لکھتے ہیں : "جب جناب احمد رضا صاحب کا جنازہ اٹھایا گیا تو کچھ لوگوں نے دیکھا کہ اسے فرشتوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ 135
بستوی صاحب فرماتے ہیں کہ امام احمد رضا کی وفات کے بعد ایک عرب بزرگ تشریف لائے، انہوں نے کہا:
"25 صفر المظفر 1340ء کو میری قسمت بیدار ہوئی!
خواب میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جلوہ افروز ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حاضر دربار ہیں۔ لیکن مجلس پر ایک سکوت طاری ہے۔ قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کا انتظار ہے۔ ۔ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا (فداک ابی وا می) کس کا انتظار ہے؟
فرمایا:احمد رضا کا انتظار ہے۔
میں نے عرض کیا، احمد رضا کون ہیں؟
فرمایا، " ہندوستان میں بریلی کے باشندے ہیں بیداری کے بعد مجھے مولانا کی ملاقات کا شوق ہوا۔ میں ہندوستان آیا اور بریلی پہنچا تو معلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے، اور وہی 25 صفر ان کی تاریخ وصال تھی!136
بارگاہ رسالت میں بریلوی حضرات نے اپنے امام کی مقبولیت کو ثابت کرنے کے لیے جن من گھڑت واقعات اور دعووں کا سہارا لیا ہے، ان میں سے ایک "وصایا شریف" میں بھی درج ہے وہ (یعنی احمد رضا) آپ کی خوشبوؤں سے بسے ہوئے سدھارے۔ 137
یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے احمد رضا کو غسل دینے کے لیے خصوصی طور پر آب زمزم اور عطر کسی حاجی کے ہاتھ ارسال کیا تاکہ احمد رضا صاحب حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے وقت مدینہ منورہ کی خوشبو سے معطر ہوں۔ العیاذ باللہ!
اگر مبالغات کا ذکر شروع ہو ہی گیا ہے، تو مناسب ہے کہ چند مزید مبالغہ آمیز اقوال ذکر کر دیئے جائیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان میں گستاخی پر مبنی کسی بریلوی کا قول ہے :
"میں نے بعض مشائخ کو کہتے سنا ہے، امام احمد رضا کو دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زیارت کا شوق کم ہو گیا۔ 138
گزشتہ دو صدی کے اندر کوئی ایسا جامع عالم نظر نہیں آتا۔ 139"
ایک اور بریلوی مصنف ارشاد کرتے ہیں :
"آپ کی علمی جلالت اور علمی کمال کی کوئی نظیر نہیں۔ امام احمد رضا صاحب اپنے علم اور اصابت رائے میں منفرد تھے۔ 140"
اور: "امام احمد رضا صاحب نے دین کی تعلیمات کو ازسرنو زندہ کیا۔ 141"
"فتاویٰ رضویہ میں ہزارہا مسائل142 ایسے ہیں، جن سے علماء کے کان بھی آشنا نہیں۔ 143"
"اگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ فتاوی رضویہ کو دیکھ لیتے تو اس کے مؤلف کو اپنے جملہ اصحاب میں شامل فرما لیتے۔ 144"
ایک دوسرے بریلوی مصنف کا کہنا ہے :
"امام احمد رضا اپنے دور کے امام ابوحنیفہ تھے۔ 145"
ایک اور بریلوی مصنف مبالغہ آراء ہیں :
امام احمد رضا کے دماغ میں امام ابوحنیفہ کی مجتہدانہ ذہانت، ابوبکر رازی کی عقل اور قاضی خاں کا حافظہ تھا۔ 146"
بریلوی حضرات نے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی توہین کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنے امام و مجدد کو "آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری" کا مصداق ٹھہراتے ہوئے بڑی ڈھٹائی سے لکھا ہے :
"امام احمد رضا حق میں صدیق اکبر کا پر تو، باطل کو چھاٹنے میں فاروق اعظم کا مظہر، رحم وکرم میں ذوالنورین کی تصویر اور باطل شکنی میں حیدری شمشیر تھے۔ معاذ اللہ!147
اس پر بھی مستزاد:
"اعلیٰ حضرت معجزات نبی صلی اللہ علیہ و سلم میں سے ایک معجزہ تھے۔ 148"
قارئین کو علم ہونا چاہئے کہ معجزہ اس خرق عادت شے کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نبی علیہ السلام کے ہاتھوں پر صادر ہو۔ اب یہ بریلوی حضرات ہی بتا سکتے ہیں کہ کیا احمد رضا کی ذات کی پیدائش یا ان کی صفات اور خصائل خلاف عادت تھیں؟ اور پھر چودھویں صدی میں ان کا وجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا معجزہ کیسے ہو سکتا ہے؟
جناب بریلوی کے اس معتقد نے تو انہیں معجزہ ہی کہا تھا۔ ان کے ایک اور پیروکار نے تو انہیں واجب الاطاعت نبی کے مقام پر فائز قرار دے دیا۔ وہ کہتے ہیں :
"اعلیٰ حضرت زمین میں اللہ تعالیٰ کی حجت تھے !149
اب ظاہر ہے، اللہ تعالیٰ کی حجت تو نبی کی ذات ہی ہوتی ہے۔ بریلوی حضرات سمجھنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر جناب خاں صاحب کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ان کی بات کو ٹھکرایا گیا اور ان کی اتباع اور اطاعت سے انکار کیا گیا، تو یہ رب کائنات کی طرف سے پیش کی جانے والی دلیل و حجت کو ٹھکرانے کے مترادف ہو گا۔
ان تمام مبالغہ آ میز دعووں سے ثابت ہوتا ہے کہ خاں صاحب بریلوی کے متبعین ان کی ذات کو مقدس قرار دینے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں۔ ہم گزشتہ صفحات میں یہ بیان کر آئے ہیں کہ بریلوی حضرات اپنے مجدد اعلیٰ حضرت کو غلطیوں سے مبرا اور معصوم عن الخطا سمجھتے ہیں۔ اور بلاشبہ "عصمت" انبیائے کرام علیہ السلام کی خاصیت ہے اور انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ کسی امتی کو معصوم سمجھنا ختم نبوت سے انکار کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے اور سوء الاعتقادی سے محفوظ رکھے۔ آمین!
گزشتہ غلو آمیز دعووں کے علاوہ چند اور مبالغات کا ذکر کر کے ہم اس بحث کو ختم کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ :
ساڑھے تین برس کی عمر میں جناب احمد رضا ایک بازار سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے صرف ایک بڑا سا کرتہ زیب تن کیا ہوا تھا سامنے سے طوائفیں آ رہی تھیں۔ انہوں نے اپنا کرتہ اٹھایا اور دامن سے آنکھیں چھپالیں۔
طوائفوں نے کہا"واہ منے میاں آنکھیں تو چھپا لیں مگر ستر ننگا کر دیا۔ "
ساڑھے تین برس کی عمر میں بریلویت کے موسس نے جواب دیا: "جب نظر بہکتی ہے تو دل بہکتا ہے، اور جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے۔ 150"
اب ان سے کوئی پوچھے کے ساڑھے تین برس کی عمر میں خاں صاحب کو کیسے علم ہو گیا کہ آنے والی طوائفیں ہیں؟ اور پھر جس بچے نے ابھی ستر ڈھانپنا شروع نہ کیا ہو، اسے نظر اور دل کے بہکنے سے ستر کے بہکنے کا جنسی راز کیسے معلوم ہو گیا؟
لیکن جھوٹ بولنے کے لیے عقل و خرد کا ہونا تو ضروری نہیں !
بریلوی حضرات کہتے ہیں :
"امام احمد رضا کے علمی دبدبے سے یورپ کے سائنسدان اور ایشیا کے فلاسفر لرزتے رہے !151
نیز: "اعلیٰ حضرت کو خداداد قوت حافظہ سے ساری چودہ برس کی کتابیں حفظ تھیں، ان کے بلند مقام کو بیان کرنے کے لیے اہل لغت لفظ پانے سے عاجز رہے ہیں۔ 152"
نیز: اعلیٰ حضرت جب حج کے لیے تشریف لے گئے، تو انہیں مسجد خیف میں مغفرت کی بشارت دی گئی۔ 153"
بریلوی شاعر ایوب علی رضوی اپنے قصیدہ میں کہتا ہے

اندھوں کو بینا کر دیا بہروں کو شنوا کر دیا
دین نبی زندہ کیا یا سیدی احمد رضا

امراض روحانی و نفسانی امت کے لیے
در ہے تیرا دارالشفاء یا سیدی احمد رضا

یا سیدی یا مرشدی یا مالکی یا شافعی
اے دستگیر راہنما یا سیدی احمد رضا

جب جان کنی کا وقت ہوا اور رہزنی شیطاں کرے
حملہ سے اس کے لے بچا یا سیدی احمد رضا

احمد کا سایہ غوث پر اور تجھ پر سایہ غوث کا
اور ہم پہ ہے سایہ تیرا یا سیدی احمد رضا

احمد پہ ہو اب کی رضا احمد کی ہو تجھ پر رضا
اور ہم پہ ہو تیری رضا یا سیدی احمد رضا154

ان کے ایک اور شاعر ہرزہ سرا ہیں
خلق کے حاجت روا احمد رضا

ہے میرا مشکل کشا احمد رضا
کون دیتا ہے مجھ کو کس نے دیا؟

جو دیا تم نے دیا احمد رضا!
دونوں عالم میں ہے تیرا آسرا

ہاں مدد فرما شاہ احمد رضا
حشر میں جب ہو قیامت کی تپش

اپنے دامن میں چھپا احمد رضا
جب زبانیں سوکھ جائیں پیاس سے

جام کوثر کا پلا احمد رضا
قبر و نشر و حشر میں تو ساتھ دے

ہو میرا مشکل کشا احمد رضا
تو ہے داتا اور میں منگتا ترا

میں ترا ہوں اور تو مرا احمد رضا!155

یہ تو ہیں جناب بریلوی اور ان کے پیروکار! اور یہ ہیں ان کی پھیلائی ہوئی تعلیمات! غلو مبالغہ آمیزی میں اس قوم کی کوئی نظیر نہیں، ہر آنے والا جانے والے کو اس طرح کی شرکیہ خرافات سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس قوم کو راہ راست پر آنے کی توفیق عطا فرمائے !
خود جناب بریلوی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی شان میں مبالغہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں

کریں اقطاب عالم کعبہ کا طواف
کعبہ کرتا ہے طواف در والا تیرا
اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں

ملک سخن کی شاہی تو کو رضا مسلم
جس سمت آ گئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں 157نیز:
"میرا سینہ ایک صندوق ہے کہ جس کے سامنے کسی علم کا بھی سوال پیش کیا جائے، فوراً جواب مل جائے گا۔ 158"
احمد رضا صاحب ایک طرف تو اپنے بارے میں اس قدر مبالغہ آرائی سے کام لے رہے، اور دوسری طرف اپنے آپ کو دائرہ انسانیت سے خارج کرتے ہوئے نغمہ سرا ہیں

کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں 159
مزید:
تجھ سے در در سگ اور سگ سے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا160

ایک مرتبہ خاں صاحب بریلوی کے پیر صاحب نے رکھوالی کے لیے اچھی نسل کے دو کتے منگوائے، تو جناب بریلوی اپنے دونوں بیٹوں کو لیے اپنے پیر صاحب کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے :
"میں آپ کی خدمت میں دو اچھی اور اعلیٰ قسم کے کتے لے کر حاضر ہوا ہوں۔ انہیں قبول فرما لیجئے !161
تو یہ ہیں جناب احمد رضا خاں بریلوی کی شخصیت کے دونوں پہلو،ایک طرف تو وہ امام، غوث،قطب اور قاضی الحاجات وغیرہ کے القاب سے متصف ہیں۔ اور دوسری طرف شرف انسانیت سے بھی گرے ہوئے ہیں اور انسان کی بجائے ایک ناپاک جانور سے خود کو تشبیہ دینے میں فخر محسوس کر رہے ہیں !
اس باب کے آخر میں ہم بریلوی مذہب کے چند اکابرین کا ذکر کر کے اس باب کو ختم کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک نعیم مراد آبادی ہیں۔
یہ 1883ء میں پیدا ہوئے۔ یہ جناب بریلوی کے ہم عصروں میں سے تھے۔ انہوں نے بھی جناب بریلوی کی طرح توحید و سنت کی مخالفت، شرک و بدعت کی حمایت اور غیر شرعی رسم و رواج کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا ایک مدرسہ بھی تھا، جس کا نام شروع میں "مدرسہ اہل السنہ تھا۔ بعد میں تبدیل کر کے "جامعہ نعیمیہ" رکھ دیا گیا۔ اس مدرسے سے فارغ ہونے والے نعیمی کہلاتے ہیں۔ ان کی تالیفات میں "خزائن العرفان" جسے بعد میں جناب احمد رضا خاں صاحب کے ترجمہ قرآن کے ساتھ شائع کیا گیاہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "اطیب البیان" 162جو شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کی تصنیف "تقویۃ الایمان" کے جواب میں لکھی گئی، اور الکلمۃ العلیا" قابل ذکر ہیں۔
ان کی وفات 1948ء میں ہوئی۔ 163 بریلوی حضرات انہیں "صدر الافاضل" کے لقب سے موسوم کرتے ہیں۔
بریلوی زعماء میں امجد علی بھی ہیں۔ یہ ہندوستان کے صوبہ اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے اور مدرسہ حنفیہ جون پور میں تعلیم حاصل کی۔ جناب امجد علی احمد رضا صاحب کے بھی کچھ عرصہ تک زیر تربیت رہے اور ان کے مذہب کی نشر و اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی تصنیف "بہار شریعت" بریلوی فقہ کی مستند کتاب ہے، جس میں احمد رضا صاحب کی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی احکام و مسائل کی توضیح کی گئی ہے۔
ان کی وفات 1948ء میں ہوئی۔ 164
ان کے اکابرین میں سے دیدار علی بھی ہیں، جو نواب پور میں 1270ھ میں پیدا ہوئے اور احمد علی سہارن پوری سے تعلیم حاصل کی، اور 1293ھ میں فارغ ہونے کے بعد مستقل طور پر لاہور میں قیام پذیر ہوئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے :
"مولانا دیدار علی نے لاہور شہر کو وہابیوں اور دیوبندیوں کے زہریلے عقائد سے محفوظ رکھا۔ 165 ان کی وفات 1935ء میں ہوئی" ان کی تالیفات میں تفسیر میزان الادیان اور علامات وہابیہ قابل ذکر ہیں۔ "
ان میں حشمت علی بھی ہیں۔ یہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے، ان کے والد سید عین القضاۃ کے مریدوں میں سے تھے۔ یہ جناب بریلوی کے مدرسے منظر اسلام میں زیر تعلیم رہے۔ انہوں نے امجد علی صاحب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1340ھ میں فارغ ہوئے۔ اس طرح انہوں نے احمد رضا صاحب کے بیٹے سے بھی سند لی اور بعد میں جناب بریلوی کی تعلیمات پھیلانے میں مصروف ہو گئے۔ احمد رضا صاحب کے بیٹے نے انہیں "غیظ المنافقین" کے لقب سے نوازا۔ 1380ھ میں سرطان میں مبتلا ہوئے اور بیلی بھیت میں وفات پائی۔ 166
ان کے قائدین میں سے احمد یار نعیمی بھی ہیں۔ یہ بدایون میں 1906ء میں پیدا ہوئے۔ پہلے دیوبندیوں کے مدرسے "المدرسۃ الاسلامیہ" میں پڑھتے رہے، پھر یہ نعیم مراد آبادی کے ہاں چلے گئے اور ان سے تعلیم مکمل کی۔ مختلف شہروں میں گھومنے پھرنے کے بعد گجرات میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور وہاں "جامعہ غوثیہ نعیمیہ" کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اپنی کتاب "جاء الحق" میں جناب بریلوی کے مذہب کی تائید اور متبعین کتاب و سنت کی مخالفت میں کافی زور لگایا ہے۔
جناب احمد یار نے احمد رضا صاحب کے ترجمہ قرآن پر "نورالعرفان" کے نام سے حاشیہ بھی لکھا ہے جس میں اپنے پیشتر قائدین کی طرح بڑے شدومد سے قرآن کریم کی بہت سی آیات کی تاویل و معنوی تحریف سے کام لیا گیا ہے۔
اسی طرح ان کی دو معروف کتابیں "رحمۃالالٰہ بوسیلۃ الاولیاء " اور "سلنطنۃ مصطفیٰ" بھی ہے۔ ان کی وفات 1971ء میں ہوئی!167
یہ تھے بریلوی مذہب کے زعماء جنہوں نے اس مذہب کے اصول اور ضوابط وضع کیے اور جناب بریلوی کے لگائے ہوئے پودے کو پروان چڑھایا۔
اگلے باب میں ہم ان کے عقائد بیان کریں گے۔ واللہ الموفق!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات
129وصایا شریف ص10 ترتیب حسنین رضا مطبوعہ ہند
130اعلیٰ حضرت بریلوی از بستوی ص 105۔
131بستوی9، 10۔
132بستوی ص 111۔
133مقدمہ دوام العیش از مسعود احمد ص 18
134ایضاً۔
135انوار رضا ص 272،ایضاً روحوں کی دنیا مقدمہ ص 22۔
136بستوی ص 121، فتاویٰ رضویہ جلد 12 المقدمہ ص 13۔
137وصایا شریف ص 19۔
138وصایا شریف ص 24 ترتیب حسنین رضا
139ایضاً۔
140شرح الحقوق مقدمہ ص 8
141ایضاً 7۔
142جی ہاں احکام و مسائل کے نام پر قصے کہانیوں سے واقعی علماء کے کان آشنا نہیں !۔
143بہار شریعت جلدا ص3۔
144مقدمہ فتاویٰ رضویہ جلد 11 ص 4
145مقدمہ فتاویٰ رضویہ جلد 5۔
146مقدمہ فتاویٰ رضویہ ص210
147ایضاً ص 263۔
148 ایضاً۔
149ایضاً ص303
150سوانح اعلیٰ حضرت از بدرالدین ص 110،و انوار رضا۔
151روحوں کودنیاص 26۔
152انوار رضا ص 65۔
153حیات اعلیٰ حضرت از ظفرالدین بہاری ص 12۔،ایضاً انوار رضا ص235
154مدائح اعلیٰ حضرت از ایوب علی رضوی ص5۔
155نفخۃ الروح از ایوب رضوی ص 47،48۔
156حدائق بخشش از بریلوی ص 7۔
157انوار رضا ص 319و ایضاً حدائق بخشش۔
158مقدمہ شرح الحقوق ص8۔
159ایضاً ص 11،حدائق بخششص 43۔
160حدائق بخشش ص 5
161انوار رضا ص 238۔
162اس کتاب کا ردّ مراد آباد ہی کے اہل حدیث مشہور عالم دین مولانا عزیز الدین مراد آبادی مرحوم نے اپنی کتاب۔ اکمل البیان فی تائید تقویۃ الایمان۔ میں کیا ہے۔ اور نعیم الدین صاحب کے استدلالات کو باطل ثابت کیا ہے۔
163ملاحظہ ہو، تذکرہ علمائے اہل سنت اور حیات صدر الافاضل وغیرہ۔
164حاشیہ الاستمداد ص 90،91۔
165ایضاً ص 94، تذکرہ علمائے ال سنت 83۔
166تذکرہ علمائے اہل سنت از محمود بریلوی ص 82 مطبوعہ کانپور۔
167تذکرہ اکابر اہل السنہ ص 58،59 از اشرف قادری، الیواقیت المھریہ ص 39، سیرۃ سالک از کوکب
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top