وفات
جناب بریلوی کی موت ذات الجنب کے مرض سے واقع ہوئی۔ مرتے وقت انہوں نے چند وصیتیں کیں، جو "وصایا شریف" کے نام سے ایک رسالے میں شائع ہوئیں۔
احمد رضا خاں صاحب نے مرتے وقت کہا :
"میرا دین و مذہب، جو میری کتب سے ظاہر ہے، اس مضبوطی سے قائم رہنا ہر فرض سے اہم فرض ہے۔ 129
نیز انہوں نے کہا:
"پیارے بھائیو! مجھے معلوم نہیں، میں کتنے دن تمہارے اندر ٹھہروں۔ تم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی بھولی بھالی بھیڑیں ہو۔ بھیڑئیے تمہارے چاروں طرف ہیں، جو تم کو بہکانا چاہتے ہیں اور فتنے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ ان سے بچو اور دور بھاگو۔ مثلاً دیوبندی وغیرہ!130
اور وصیت کی آخر میں کہا:
"اگر بطیّب خاطر ممکن ہو تو فاتحہ میں ہفتہ میں دو تین بار ان اشیاء سے بھی کچھ بھیج دیا کریں :
دودھ کا برف خانہ ساز، اگرچہ بھینس کے دودھ کا ہو۔
مرغ کی بریانی، مرغ پلاؤ، خواہ بکری کا شامی کباب، پراٹھے اور بالائی، فیرنی، ارد کی پھریری دال مع ادرک و لوازم، گوشت بھری کچوریاں، سیب کا پانی، انار کا پانی، سوڈے کی بوتل، دودھ کا برف
اور روزانہ ایک چیز ہو سکے، یوں کیا کرو، یا جیسے مناسب جانو۔ ۔ ۔ ۔ پھر حاشیے میں درج ہے :
"دودھ کا برف دوبارہ پھر بتایا!"
چھوٹے مولانا نے عرض کیا
"اسے تو حضور پہلے لکھا چکے ہیں۔ "
فرمایا:"پھر لکھو۔ انشاء اللہ مجھے میرا رب صرف برف ہی عطا فرمائے گا۔ "
اور ایسا ہی ہوا کہ ایک صاحب دفن کے وقت بلا اطلاع دودھ کا برف خانہ ساز لے آئے !131
بریلوی مکتب فکر کے اعلیٰ حضرت کی وفات 25 صفر 1340ھ بمطابق 1921ء 68 برس کی عمر میں ہوئی
معلوم ہوتا ہے کہ جناب بریلوی کا جنازہ قابل ذکر حاضری سے محروم تھا۔ بہرحال ہم اس سلسلے میں کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ بغیر دلیل کے کوئی حکم لگانا ہم اپنے اسلوب تحریر کے منافی تصور کرتے ہیں۔ تاہم قرائن و شواہد سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ عوام ان کی تلخ لسانی، بات بات پر تکفیر کے فتووں اورانگریز کی عدم مخالفت کی وجہ سے ان سے متنفر ہو گئے تھے۔ 132
اس بات کا اعتراف ایک بریلوی مصنف نے بھی کیا ہے کہ "مسلمان امام احمد رضا سے متنفر ہو گئے تھے "۔ نیز:
"ان کے مرید ومعتقد بھی اختلاف خلافت کے سبب ان سے برگزشتہ ہو گئے تھے۔
ویسے بھی بریلویت کے پیروکار چونکہ اپنے امام و مجدد کے بارے میں بہت زیادہ غلو و مبالغہ کے عادی ہیں، اگر جنازے کی حاضری کسی عام عالم دین کے جنازے کے برابر بھی ہوتی تو ان کی تصانیف اس سلسلے میں مبالغہ آمیز دعووں سے بھری ہوتیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب کہ انہوں نے اس طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ البتہ بریلوی قوم حاضری کے علاوہ ان کے جنازے کے بارے میں دوسرے چند ایک مبالغوں سے باز نہیں آئی ! مبالغہ آمیزی
ایک صاحب لکھتے ہیں : "جب جناب احمد رضا صاحب کا جنازہ اٹھایا گیا تو کچھ لوگوں نے دیکھا کہ اسے فرشتوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ 135
بستوی صاحب فرماتے ہیں کہ امام احمد رضا کی وفات کے بعد ایک عرب بزرگ تشریف لائے، انہوں نے کہا:
"25 صفر المظفر 1340ء کو میری قسمت بیدار ہوئی!
خواب میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم جلوہ افروز ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حاضر دربار ہیں۔ لیکن مجلس پر ایک سکوت طاری ہے۔ قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کا انتظار ہے۔ ۔ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا (فداک ابی وا می) کس کا انتظار ہے؟
فرمایا:احمد رضا کا انتظار ہے۔
میں نے عرض کیا، احمد رضا کون ہیں؟
فرمایا، " ہندوستان میں بریلی کے باشندے ہیں بیداری کے بعد مجھے مولانا کی ملاقات کا شوق ہوا۔ میں ہندوستان آیا اور بریلی پہنچا تو معلوم ہوا کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے، اور وہی 25 صفر ان کی تاریخ وصال تھی!136
بارگاہ رسالت میں بریلوی حضرات نے اپنے امام کی مقبولیت کو ثابت کرنے کے لیے جن من گھڑت واقعات اور دعووں کا سہارا لیا ہے، ان میں سے ایک "وصایا شریف" میں بھی درج ہے وہ (یعنی احمد رضا) آپ کی خوشبوؤں سے بسے ہوئے سدھارے۔ 137
یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے احمد رضا کو غسل دینے کے لیے خصوصی طور پر آب زمزم اور عطر کسی حاجی کے ہاتھ ارسال کیا تاکہ احمد رضا صاحب حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے وقت مدینہ منورہ کی خوشبو سے معطر ہوں۔ العیاذ باللہ!
اگر مبالغات کا ذکر شروع ہو ہی گیا ہے، تو مناسب ہے کہ چند مزید مبالغہ آمیز اقوال ذکر کر دیئے جائیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان میں گستاخی پر مبنی کسی بریلوی کا قول ہے :
"میں نے بعض مشائخ کو کہتے سنا ہے، امام احمد رضا کو دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زیارت کا شوق کم ہو گیا۔ 138
گزشتہ دو صدی کے اندر کوئی ایسا جامع عالم نظر نہیں آتا۔ 139"
ایک اور بریلوی مصنف ارشاد کرتے ہیں :
"آپ کی علمی جلالت اور علمی کمال کی کوئی نظیر نہیں۔ امام احمد رضا صاحب اپنے علم اور اصابت رائے میں منفرد تھے۔ 140"
اور: "امام احمد رضا صاحب نے دین کی تعلیمات کو ازسرنو زندہ کیا۔ 141"
"فتاویٰ رضویہ میں ہزارہا مسائل142 ایسے ہیں، جن سے علماء کے کان بھی آشنا نہیں۔ 143"
"اگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ فتاوی رضویہ کو دیکھ لیتے تو اس کے مؤلف کو اپنے جملہ اصحاب میں شامل فرما لیتے۔ 144"
ایک دوسرے بریلوی مصنف کا کہنا ہے :
"امام احمد رضا اپنے دور کے امام ابوحنیفہ تھے۔ 145"
ایک اور بریلوی مصنف مبالغہ آراء ہیں :
امام احمد رضا کے دماغ میں امام ابوحنیفہ کی مجتہدانہ ذہانت، ابوبکر رازی کی عقل اور قاضی خاں کا حافظہ تھا۔ 146"
بریلوی حضرات نے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی توہین کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنے امام و مجدد کو "آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری" کا مصداق ٹھہراتے ہوئے بڑی ڈھٹائی سے لکھا ہے :
"امام احمد رضا حق میں صدیق اکبر کا پر تو، باطل کو چھاٹنے میں فاروق اعظم کا مظہر، رحم وکرم میں ذوالنورین کی تصویر اور باطل شکنی میں حیدری شمشیر تھے۔ معاذ اللہ!147
اس پر بھی مستزاد:
"اعلیٰ حضرت معجزات نبی صلی اللہ علیہ و سلم میں سے ایک معجزہ تھے۔ 148"
قارئین کو علم ہونا چاہئے کہ معجزہ اس خرق عادت شے کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نبی علیہ السلام کے ہاتھوں پر صادر ہو۔ اب یہ بریلوی حضرات ہی بتا سکتے ہیں کہ کیا احمد رضا کی ذات کی پیدائش یا ان کی صفات اور خصائل خلاف عادت تھیں؟ اور پھر چودھویں صدی میں ان کا وجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا معجزہ کیسے ہو سکتا ہے؟
جناب بریلوی کے اس معتقد نے تو انہیں معجزہ ہی کہا تھا۔ ان کے ایک اور پیروکار نے تو انہیں واجب الاطاعت نبی کے مقام پر فائز قرار دے دیا۔ وہ کہتے ہیں :
"اعلیٰ حضرت زمین میں اللہ تعالیٰ کی حجت تھے !149
اب ظاہر ہے، اللہ تعالیٰ کی حجت تو نبی کی ذات ہی ہوتی ہے۔ بریلوی حضرات سمجھنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر جناب خاں صاحب کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، ان کی بات کو ٹھکرایا گیا اور ان کی اتباع اور اطاعت سے انکار کیا گیا، تو یہ رب کائنات کی طرف سے پیش کی جانے والی دلیل و حجت کو ٹھکرانے کے مترادف ہو گا۔
ان تمام مبالغہ آ میز دعووں سے ثابت ہوتا ہے کہ خاں صاحب بریلوی کے متبعین ان کی ذات کو مقدس قرار دینے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں۔ ہم گزشتہ صفحات میں یہ بیان کر آئے ہیں کہ بریلوی حضرات اپنے مجدد اعلیٰ حضرت کو غلطیوں سے مبرا اور معصوم عن الخطا سمجھتے ہیں۔ اور بلاشبہ "عصمت" انبیائے کرام علیہ السلام کی خاصیت ہے اور انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ کسی امتی کو معصوم سمجھنا ختم نبوت سے انکار کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے اور سوء الاعتقادی سے محفوظ رکھے۔ آمین!
گزشتہ غلو آمیز دعووں کے علاوہ چند اور مبالغات کا ذکر کر کے ہم اس بحث کو ختم کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ :
ساڑھے تین برس کی عمر میں جناب احمد رضا ایک بازار سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے صرف ایک بڑا سا کرتہ زیب تن کیا ہوا تھا سامنے سے طوائفیں آ رہی تھیں۔ انہوں نے اپنا کرتہ اٹھایا اور دامن سے آنکھیں چھپالیں۔
طوائفوں نے کہا"واہ منے میاں آنکھیں تو چھپا لیں مگر ستر ننگا کر دیا۔ "
ساڑھے تین برس کی عمر میں بریلویت کے موسس نے جواب دیا: "جب نظر بہکتی ہے تو دل بہکتا ہے، اور جب دل بہکتا ہے تو ستر بہکتا ہے۔ 150"
اب ان سے کوئی پوچھے کے ساڑھے تین برس کی عمر میں خاں صاحب کو کیسے علم ہو گیا کہ آنے والی طوائفیں ہیں؟ اور پھر جس بچے نے ابھی ستر ڈھانپنا شروع نہ کیا ہو، اسے نظر اور دل کے بہکنے سے ستر کے بہکنے کا جنسی راز کیسے معلوم ہو گیا؟
لیکن جھوٹ بولنے کے لیے عقل و خرد کا ہونا تو ضروری نہیں !
بریلوی حضرات کہتے ہیں :
"امام احمد رضا کے علمی دبدبے سے یورپ کے سائنسدان اور ایشیا کے فلاسفر لرزتے رہے !151
نیز: "اعلیٰ حضرت کو خداداد قوت حافظہ سے ساری چودہ برس کی کتابیں حفظ تھیں، ان کے بلند مقام کو بیان کرنے کے لیے اہل لغت لفظ پانے سے عاجز رہے ہیں۔ 152"
نیز: اعلیٰ حضرت جب حج کے لیے تشریف لے گئے، تو انہیں مسجد خیف میں مغفرت کی بشارت دی گئی۔ 153"
بریلوی شاعر ایوب علی رضوی اپنے قصیدہ میں کہتا ہے
اندھوں کو بینا کر دیا بہروں کو شنوا کر دیا
دین نبی زندہ کیا یا سیدی احمد رضا
امراض روحانی و نفسانی امت کے لیے
در ہے تیرا دارالشفاء یا سیدی احمد رضا
یا سیدی یا مرشدی یا مالکی یا شافعی
اے دستگیر راہنما یا سیدی احمد رضا
جب جان کنی کا وقت ہوا اور رہزنی شیطاں کرے
حملہ سے اس کے لے بچا یا سیدی احمد رضا
احمد کا سایہ غوث پر اور تجھ پر سایہ غوث کا
اور ہم پہ ہے سایہ تیرا یا سیدی احمد رضا
احمد پہ ہو اب کی رضا احمد کی ہو تجھ پر رضا
اور ہم پہ ہو تیری رضا یا سیدی احمد رضا154
ان کے ایک اور شاعر ہرزہ سرا ہیں
خلق کے حاجت روا احمد رضا
ہے میرا مشکل کشا احمد رضا
کون دیتا ہے مجھ کو کس نے دیا؟
جو دیا تم نے دیا احمد رضا!
دونوں عالم میں ہے تیرا آسرا
ہاں مدد فرما شاہ احمد رضا
حشر میں جب ہو قیامت کی تپش
اپنے دامن میں چھپا احمد رضا
جب زبانیں سوکھ جائیں پیاس سے
جام کوثر کا پلا احمد رضا
قبر و نشر و حشر میں تو ساتھ دے
ہو میرا مشکل کشا احمد رضا
تو ہے داتا اور میں منگتا ترا
میں ترا ہوں اور تو مرا احمد رضا!155
یہ تو ہیں جناب بریلوی اور ان کے پیروکار! اور یہ ہیں ان کی پھیلائی ہوئی تعلیمات! غلو مبالغہ آمیزی میں اس قوم کی کوئی نظیر نہیں، ہر آنے والا جانے والے کو اس طرح کی شرکیہ خرافات سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس قوم کو راہ راست پر آنے کی توفیق عطا فرمائے !
خود جناب بریلوی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کی شان میں مبالغہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں
کریں اقطاب عالم کعبہ کا طواف
کعبہ کرتا ہے طواف در والا تیرا
اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں
ملک سخن کی شاہی تو کو رضا مسلم
جس سمت آ گئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں 157نیز:
"میرا سینہ ایک صندوق ہے کہ جس کے سامنے کسی علم کا بھی سوال پیش کیا جائے، فوراً جواب مل جائے گا۔ 158"
احمد رضا صاحب ایک طرف تو اپنے بارے میں اس قدر مبالغہ آرائی سے کام لے رہے، اور دوسری طرف اپنے آپ کو دائرہ انسانیت سے خارج کرتے ہوئے نغمہ سرا ہیں
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں 159
مزید:
تجھ سے در در سگ اور سگ سے مجھ کو نسبت
میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا160
ایک مرتبہ خاں صاحب بریلوی کے پیر صاحب نے رکھوالی کے لیے اچھی نسل کے دو کتے منگوائے، تو جناب بریلوی اپنے دونوں بیٹوں کو لیے اپنے پیر صاحب کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے :
"میں آپ کی خدمت میں دو اچھی اور اعلیٰ قسم کے کتے لے کر حاضر ہوا ہوں۔ انہیں قبول فرما لیجئے !161
تو یہ ہیں جناب احمد رضا خاں بریلوی کی شخصیت کے دونوں پہلو،ایک طرف تو وہ امام، غوث،قطب اور قاضی الحاجات وغیرہ کے القاب سے متصف ہیں۔ اور دوسری طرف شرف انسانیت سے بھی گرے ہوئے ہیں اور انسان کی بجائے ایک ناپاک جانور سے خود کو تشبیہ دینے میں فخر محسوس کر رہے ہیں !
اس باب کے آخر میں ہم بریلوی مذہب کے چند اکابرین کا ذکر کر کے اس باب کو ختم کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک نعیم مراد آبادی ہیں۔
یہ 1883ء میں پیدا ہوئے۔ یہ جناب بریلوی کے ہم عصروں میں سے تھے۔ انہوں نے بھی جناب بریلوی کی طرح توحید و سنت کی مخالفت، شرک و بدعت کی حمایت اور غیر شرعی رسم و رواج کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا ایک مدرسہ بھی تھا، جس کا نام شروع میں "مدرسہ اہل السنہ تھا۔ بعد میں تبدیل کر کے "جامعہ نعیمیہ" رکھ دیا گیا۔ اس مدرسے سے فارغ ہونے والے نعیمی کہلاتے ہیں۔ ان کی تالیفات میں "خزائن العرفان" جسے بعد میں جناب احمد رضا خاں صاحب کے ترجمہ قرآن کے ساتھ شائع کیا گیاہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "اطیب البیان" 162جو شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کی تصنیف "تقویۃ الایمان" کے جواب میں لکھی گئی، اور الکلمۃ العلیا" قابل ذکر ہیں۔
ان کی وفات 1948ء میں ہوئی۔ 163 بریلوی حضرات انہیں "صدر الافاضل" کے لقب سے موسوم کرتے ہیں۔
بریلوی زعماء میں امجد علی بھی ہیں۔ یہ ہندوستان کے صوبہ اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے اور مدرسہ حنفیہ جون پور میں تعلیم حاصل کی۔ جناب امجد علی احمد رضا صاحب کے بھی کچھ عرصہ تک زیر تربیت رہے اور ان کے مذہب کی نشر و اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کی تصنیف "بہار شریعت" بریلوی فقہ کی مستند کتاب ہے، جس میں احمد رضا صاحب کی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی احکام و مسائل کی توضیح کی گئی ہے۔
ان کی وفات 1948ء میں ہوئی۔ 164
ان کے اکابرین میں سے دیدار علی بھی ہیں، جو نواب پور میں 1270ھ میں پیدا ہوئے اور احمد علی سہارن پوری سے تعلیم حاصل کی، اور 1293ھ میں فارغ ہونے کے بعد مستقل طور پر لاہور میں قیام پذیر ہوئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے :
"مولانا دیدار علی نے لاہور شہر کو وہابیوں اور دیوبندیوں کے زہریلے عقائد سے محفوظ رکھا۔ 165 ان کی وفات 1935ء میں ہوئی" ان کی تالیفات میں تفسیر میزان الادیان اور علامات وہابیہ قابل ذکر ہیں۔ "
ان میں حشمت علی بھی ہیں۔ یہ لکھنؤ میں پیدا ہوئے، ان کے والد سید عین القضاۃ کے مریدوں میں سے تھے۔ یہ جناب بریلوی کے مدرسے منظر اسلام میں زیر تعلیم رہے۔ انہوں نے امجد علی صاحب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1340ھ میں فارغ ہوئے۔ اس طرح انہوں نے احمد رضا صاحب کے بیٹے سے بھی سند لی اور بعد میں جناب بریلوی کی تعلیمات پھیلانے میں مصروف ہو گئے۔ احمد رضا صاحب کے بیٹے نے انہیں "غیظ المنافقین" کے لقب سے نوازا۔ 1380ھ میں سرطان میں مبتلا ہوئے اور بیلی بھیت میں وفات پائی۔ 166
ان کے قائدین میں سے احمد یار نعیمی بھی ہیں۔ یہ بدایون میں 1906ء میں پیدا ہوئے۔ پہلے دیوبندیوں کے مدرسے "المدرسۃ الاسلامیہ" میں پڑھتے رہے، پھر یہ نعیم مراد آبادی کے ہاں چلے گئے اور ان سے تعلیم مکمل کی۔ مختلف شہروں میں گھومنے پھرنے کے بعد گجرات میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور وہاں "جامعہ غوثیہ نعیمیہ" کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اپنی کتاب "جاء الحق" میں جناب بریلوی کے مذہب کی تائید اور متبعین کتاب و سنت کی مخالفت میں کافی زور لگایا ہے۔
جناب احمد یار نے احمد رضا صاحب کے ترجمہ قرآن پر "نورالعرفان" کے نام سے حاشیہ بھی لکھا ہے جس میں اپنے پیشتر قائدین کی طرح بڑے شدومد سے قرآن کریم کی بہت سی آیات کی تاویل و معنوی تحریف سے کام لیا گیا ہے۔
اسی طرح ان کی دو معروف کتابیں "رحمۃالالٰہ بوسیلۃ الاولیاء " اور "سلنطنۃ مصطفیٰ" بھی ہے۔ ان کی وفات 1971ء میں ہوئی!167
یہ تھے بریلوی مذہب کے زعماء جنہوں نے اس مذہب کے اصول اور ضوابط وضع کیے اور جناب بریلوی کے لگائے ہوئے پودے کو پروان چڑھایا۔
اگلے باب میں ہم ان کے عقائد بیان کریں گے۔
واللہ الموفق!