• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بریلویت تاریخ وعقائد

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
باب 2: بریلوی عقائد
بریلوی حضرات کے چند امتیازی عقائد ہیں جو انہیں برصغیر میں موجود حنفی فرقوں سے بالعموم جدا کرتے ہیں۔ ان کے اکثر عقائد شیعہ حضرات سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بریلویت تسنن سے زیادہ تشیع کے قریب ہے، البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کون کس سے متاثر ہے؟
ان کے عقائد کو بیان کرنے سے قبل ہم قارئین کے لیے دو باتوں کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں :
(1): وہ مخصوص عقائد جو بریلوی حضرات اختیار کیے ہوئے ہیں اور جن کا وہ برصغیر میں پرچار کر رہے ہیں، وہ بعینہ ان خرافات و تقالید اور توہمات و افسانوی عقائد پر مشتمل ہیں جو مختلف اوقات میں مختلف زمانوں کے صوفیاء ضعیف الاعتقاد اور توہم پرست لوگوں میں منتشر اور رائج تھے۔ ۔ ۔ ۔ جن کا شریعت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ وہ یہود و نصاریٰ اور کفار و مشرکین کے ذریعے مسلمانوں میں منتقل ہوئے تھے۔ ائمہ و مجتہدین اسلام ہر دور میں ان باطل عقائد کے خلاف صف آراء اور ان سے نبرد آزما رہے ہیں۔ اسی طرح ان میں بعض عقائد قبل از اسلام دور جاہلیت سے وابستہ ہیں، جن کی تردید قرآن مجید کی آیات اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات میں موجود ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگوں نے ان غیر اسلامی اور دور جاہلیت کے عقائد کو اسلام کے لوازمات اور بنیادی عقائد سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو باطل قرار دیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مثلاً غیراللہ سے استغاثہ و استعان، انبیاء اور رسول علیہم السلام کی بشریت سے انکار، علم غیب اور خدائی اختیارات میں انبیاء و اولیاء کو شریک کرنا، نیز دوسرے عقائد جن کا ہم آگے چل کر ذکر کریں گے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ان خرافات و شطحات اور الف لیلوی افسانوں کو انہوں نے عقائد کا نام دے دیا ہے۔ اگرچہ یہ خرافات و بدعات، مشرکانہ رسوم و تقالید اور جاہلانہ افکار و عقائد جناب احمد رضا خاں بریلوی اور ان کے معاونین سے قبل بھی موجود تھے، مگر انہوں نے ان ساری باتوں کو منظم شکل دی اور قرآن و حدیث کی معنوی تحریف اور ضعیف و موضوع روایات کی مدد سے انہیں مدلل کرنے کی کوشش کی۔
(2): دوسری بات جس کی ہم یہاں وضاحت کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس باب میں ہم بریلویت کے انہی عقائد کا ذکر کریں گے جنہیں خود جناب احمد رضا خاں بریلوی اور ان کے مساعدین اور یا پھر اس گروہ کی معتمد شخصیات نے اپنی کتب میں بیان کیا ہے۔ جہاں تک ان حضرات کا تعلق ہے، جو ان میں معتبر اور ثقہ نہیں سمجھے جاتے یا ان کی شخصیت متنازع فیہ ہے، تو باوجود ان کی کثرت تصانیف کے ہم ان سے کوئی چیز نقل نہیں کریں گے، تاکہ ہمارے موقف میں کسی قسم کا ضعف واقع نہ ہو۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
غیر اللہ سے فریاد رسی
بریلوی حضرات اسلام کے عطا کردہ تصور توحید کے برعکس غیر اللہ سے فریاد طلبی کو اپنے عقائد کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے :
اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حاجت روائی خلق کے لیے خاص فرمایا ہے۔ لوگ گھبرائے ہوئے ان کے پاس اپنی حاجتیں لاتے ہیں۔،، 1
احمد رضا لکھتے ہیں :
"اولیاء سے مدد مانگنا اور انہیں پکارنا اور ان کے ساتھ توسل کرنا امر مشروع و شی مرغوب ہے جس کا انکار نہ کرے گا مگر ہٹ دھرم یا دشمن انصاف!2
مدد مانگنے کے لیے ضروری نہیں کہ صرف زندہ اولیاء کو ہی پکارا جائے، بلکہ ان حضرات کے نزدیک اس سلسلہ میں کوئی تمیز نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبی و رسول، ولی و صالح، خواہ زندہ ہو یا فوت شدہ، اسے مدد کے لیے پکارا جا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ وہی تمام اختیارات کے مالک، نظام کائنات کی تدبیر کرنے والے اور مشکلات و مصائب سے نجات دینے والے ہیں۔
چنانچہ جناب بریلوی کہتے ہیں :
"انبیاء و مرسلین علیہم السلام، اولیاء،علماء،صالحین سے ان کے وصال کے بعد بھی استعانت و استمداد جائز ہے،
اولیاء بعد انتقال بھی دنیا میں تصرف کرتے ہیں۔ 3"
دوسری جگہ لکھتے ہیں :
"حضور ہی ہر مصیبت میں کام آتے ہیں، حضور علیہ السلام ہی بہتر عطا کرنے والے ہیں، عاجزی و تذلل کے ساتھ حضور کو ندا کرو، حضور ہی ہر بلا سے پناہ ہیں۔ 4"
مزید لکھتے ہیں :
"جبریل علیہ السلام حاجت روا ہیں، پھر حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کو حاجت روا، مشکل کشا، دافع البلاء ماننے میں کس کو تامل ہو سکتا ہے؟ وہ تو جبریل علیہ السلام کے بھی حاجت روا ہیں۔ 5"
صرف حضور کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہی نہیں، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ان خدائی صفات کے حامل ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جناب بریلوی عربی اشعار سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
تجدہ عونا لّک فی النوائب
بولایتک یا علی یا علی
ناد علیّا مظھر العجائب
کلّ ھمّ و غمّ سینجلی!
ترجمہ:
"پکار علی مرتضی کو کہ مظہر عجائب ہیں تو انہیں مددگار پائے گا مصیبتوں میں، سب پریشانی و غم اب دور ہو جائیں گے، تیری ولایت سے یا علی یا علی!6
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ علیہ بھی انہی صفات کے ساتھ متصف ہیں۔ بریلوی حضرات کذب و افتراء سے کام لیتے ہوئے آپ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
"جو کوئی رنج و غم میں مجھ سے مدد مانگے، اس کا رنج و غم دور ہو گا۔ اور جو سختی کے وقت میرا نام لے کر مجھے پکارے، تو وہ شدت رفع ہو گی۔ اور جو کسی حاجت میں رب کی طرف مجھے وسیلہ بنائے، اس کی حاجت پوری ہو گئی۔ 7"
ان کے نزدیک قضائے حاجات کے لیے نماز غوثیہ بھی ہے جس کی ترکیب یہ ہے :
"ہر رکعت میں 11،،11بار سورت اخلاص پڑھے، 11 بار صلوٰۃ وسلام پڑھے، پھر بغداد کی طرف "جانب شمالی" 11قدم چلے، ہر قدم پر میرا نام لے کر اپنی حاجت عرض کرے اور یہ شعر پڑھے
واظلم فی الدنیا وانت نصیری
ایدرکنی ضیم وانت ذخیرتی
" کیا مجھے کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے، جب کہ آپ میرے لیے باعث حوصلہ ہوں؟ اور کیا مجھ پر دنیا میں ظلم ہو سکتا ہے جب کہ آپ میرے مددگار ہیں؟8"
اسے بیان کرنے کے بعد جناب احمد یار گجراتی لکھتے ہیں کہ : معلوم ہوا کہ بزرگوں سے بعد وفات مدد مانگنا جائز اور فائدہ مند ہے۔ "
جناب بریلوی اکثر یہ اشعار پڑھا کرتے تھے


شیئ ا للہ شیخ عبدالقادر
اصرف عنّا الصّروف عبدالقادر

اے بندہ پناہ شیخ عبدالقادر
شیئا للہ شیخ عبدالقادر
رؤفاء رارؤف عبدالقادر
امور اصرف عنّا الصرف عبدالقادر
اے پناہ گاہ بندگان شیخ عبدالقادر
اللہ کے نام پر کچھ عطا کر دیجئے
یاظل الٰہ شیخ عبدالقادر
عطفا عطفا عطوف عبدالقادر
اے ظل الٰہ شیخ عبدالقادر
محتاج و گدائم تو ذوالتّاج و کریم
عطفا عطفا عطوف عبدالقادر
اے آنکہ بدست قست تصرف
اے ظل خدا شیخ عبدالقادر
میں محتاج و گدا ہوں تو سخی و کریم ہے

"اے شفت کرنے والے عبدالقادر مجھ پر شفقت فرمائیے اور میرے ساتھ مہربانی کا سلوک کیجئے۔ تیرے ہاتھ میں تمام اختیارات و تصرفات ہیں میرے مصائب و مشکلات دور کیجئے۔ 9"
اسی طرح وہ لکھتے ہیں :
"اہل دین رامغیث عبدالقادر۔ 10"
جناب بریلوی رقمطراز ہیں :
میں نے جب بھی مدد طلب کی، یا غوث ہی کہا۔ ایک مرتبہ میں نے ایک دوسرے ولی (حضرت محبوب الٰہی) سے مدد مانگنی چاہی، مگر میری زبان سے ان کا نام ہی نہ نکلا۔ بلکہ یا غوث ہی نکلا!11
یعنی اللہ تعالیٰ سے بھی کبھی مدد نہ مانگی۔ "یا اللہ مدد فرما" نہیں، بلکہ ہمیشہ کہتے "یا غوث مدد فرما۔ "
احمد زروق بھی مصائب دور کرنے والے ہیں۔ چنانچہ بریلوی علماء اپنی کتب میں ان سے عربی اشعار نقل کرتے ہیں۔
انا ما سطا جورا الزّمان بنکبتہ
فناد یازروق ات یسرعتہ
انا لمریدی جا مع لشتاتہ
وان کنت فی ضیق و کرب ووحشتہ
ترجمہ:
"میں اپنے مرید کی پراگندگیوں کو جمع کرنے والا ہوں، جب کہ زمانہ کی مصیبتیں اس کو تکلیف دیں۔ اگر تو تنگی یا مصیبت میں پکارے، اے زروق! میں فوراً آؤں گا۔ 12"
اسی طرح ابن علوان بھی ان اختیارات کے مالک ہیں۔ چنانچہ منقول ہے :
جس کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے اور وہ چاہے کہ خدا وہ چیز واپس ملا دے، تو کسی اونچی جگہ پر قبلہ کو منہ کر کے کھڑا ہو اور سورہ فاتحہ پڑھ کر اس کا ثواب نبی علیہ السلام کو ہدیہ کرے، پھر سیدی احمد بن علوان کو پکارے اور پھر یہ دعا پڑھے اے میرے آقا احمد بن علوان، اگر آپ نے میری چیز نہ دی تو میں آپ کو دفتر اولیاء سے نکال دوں گا۔ 13"
سید محمد حنفی بھی مشکلات کو دور کرنے والے ہیں۔ جناب بریلوی لکھتے ہیں :
"سیدی محمد شمس الدین محمد حنفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے حجرہ خلوت میں وضو فرما رہے تھے، ناگاہ ایک کھڑاؤں ہوا پر پھینکی کہ غائب ہو گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حالانکہ حجرے میں کوئی راہ اس کے ہوا پر جانے کی نہ تھی۔ دوسری کھڑاؤں اپنے خادم کو عطا فرمائی کہ اسے اپنے پاس رہنے دے، جب تک وہ پہلی واپس آئے۔ ایک مدت کے بعد ملک شام سے ایک شخص وہ کھڑاؤں مع ہدایا لے کر حاضر ہوا اور عرض کی کہ اللہ تعالیٰ حضرت کو جزائے خیر دے جب چور میرے سینے پر ذبح کرنے بیٹھا میں نے اپنے دل میں کہا "یا سیدی محمد حنفی" اسی وقت یہ کھڑاؤں غیب سے آ کر اس کے سینے پر لگی کہ غش کھا کر الٹا ہو گیا۔ 14"
سید بدوی بھی مصائب و مشکلات میں بندوں کی مدد کرتے ہیں :
"جب بھی کوئی مصیبت پیش آئے تو وہ یہ کہے :"یا سیدی احمد بدوی خاطر معی!" "اے میرے آقا احمد بدوی میرا ساتھ دیجئے۔ 15"
سید احمد بدوی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:"جسے کوئی حاجت ہو تو وہ میری قبر پر حاضر ہو کر اپنی حاجت مانگے تو میں اس کی حاجت کو پورا کروں گا۔ 16
ابو عمران موسی بھی:"جب ان کا مرید جہاں کہیں سے انہیں ندا کرتا، جواب دیتے اگرچہ سال بھر کی راہ پر ہوتا یا اس سے زائد۔ 17"
پھر جناب بریلوی اس مسئلے میں اپنے عقیدہ کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"جو شخص بھی کسی نبی یا رسول یا کسی ولی سے وابستہ ہو گا، تو وہ اس کے پکارنے پر حاضر ہو گا اور مشکلات میں اس کی دستگیری کرے گا۔ 18"
سلسلہ تصوف سے متعلق مشائخ بھی اپنے مریدوں کو مشکلات سے رہائی عطا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ جناب احمد رضا لکھتے ہیں :
"صوفیہ کے مشائخ سختی کے وقت اپنے پیروکاروں اور مریدوں کی نگہبانی فرماتے ہیں 19"
اہل قبور سے استعانت کے عقیدے کا ذکر کرتے ہوئے جناب بریلوی رقم طراز ہیں :
"جب تم کاموں میں متحیر ہو تو مزارات اولیاء سے مدد مانگو۔ 20"
قبروں کی زیارت کے فوائد بیان کرتے ہوئے جناب احمد رضا کے ایک پیروکار کہتے ہیں :
"قبروں کی زیارت سے نفع حاصل ہوتا ہے نیک مردوں سے مدد ملتی ہے۔ 21"
مزید کہتے ہیں :
"زیارت سے مقصود یہ ہے کہ اہل قبور سے نفع حاصل کیا جائے۔ 22"
جناب موسیٰ کاظم کی قبر سے متعلق فرماتے ہیں
"حضرت موسیٰ کاظم کی قبر تریاق اکبر ہے۔ 23"
خود جناب بریلوی محمد بن فرغل سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہا کرتے تھے :
"میں ان میں سے ہوں جو اپنی قبور میں تصرف فرماتے ہیں۔ جسے کوئی حاجت ہو تو میرے پاس چہرے کے سامنے حاضر ہو کر مجھ سے اپنی حاجت کہے، میں روا فرما دوں گا۔ 24"
سید بدوی سے یہی مقولہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
انہوں نے کہا"مجھ میں اور تم میں یہ ہاتھ بھر مٹی ہی تو حائل ہے۔ اور جس مرد کو اتنی مٹی اپنے اصحاب سے حجاب میں کر دے تو وہ مرد ہی کاہے کاہے۔ 25"
ایک طرف تو بریلوی حضرات کے یہ عقائد ہیں اور دوسری طرف قرآنی تعلیمات و ارشادات ہیں۔ ذرا ان کا تقابل کیجئے، تاکہ حقیقت کھل کر سامنے آ سکے کہ قرآن کریم کے نزدیک توحید باری تعالیٰ کا تصور کیا ہے، اور ان کے عقائد کیا ہیں؟
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ نیک بندے اپنے رب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں :
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِینُ
(تجھی کی ہم بندگی کریں اور تجھی سے ہم مدد چاہیں ) اور پھر اللہ مشرکین کے عقیدے کو ردّ کرتے ہوئے اور اس پر ان کو ڈانٹتے ہوئے فرماتے ہیں :
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ لا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لا فِی الْاَرْضِ وَ مَا لَہُمْ فِیْہِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّ مَا لَہ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِیْر (سورہ سبا)
"آپ کہیں، تم انہیں پکارو تو جنہیں تم اللہ کے سوا (شریک خدائی) سمجھ رہے ہو، وہ ذرہ برابر بھی اختیار نہیں رکھتے۔ نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ان کی ان دونوں میں کوئی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی بھی اللہ کا مددگار ہے۔ "
اور اللہ کا فرمان ہے :
ذٰلِکُمُ اﷲُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُط وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ اِنْ تَدْعُوْہُمْ لا یَسْمَعُوْا دُعَآئَکُمْ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ وَ یَوْمَ القِيمَةِیَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ وَ لا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ (فاطر )
"یہی اللہ تمہارا پروردگار ہے، اسی کی حکومت ہے !۔ اور جنہیں تم اس کے علاوہ پکارتے ہو، وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی اختیار نہیں رکھتے۔ اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری سنیں گے بھی نہیں، اور اگر سن بھی لیں تو تمہارا کہا نہ کر سکیں۔ اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کرنے ہی سے منکر ہوں اور تجھ کو (خدائے ) خبیر کا سا کوئی نہ بتائے گا۔ "
نیز:قُلْ اَرَئَیْتُمْ شُرَکَائَکُمُ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ اَمْٰاتَیْنہُمْاٰ کِتَابًا فَہُمْ عَلیٰ بَیِّنَتٍ مِّنْہُ بَلْ اِنْ یَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا (فاطر )
"آپ کہہ دیجئے، تم نے اپنے خدائی شریکوں کے حال پر بھی نظر کی ہے، جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو؟ ذرا مجھے بھی تو بتاؤ کہ انہوں نے زمین کا کون سا جزو بنایا ہے، یا ان کا آسمان میں کچھ ساجھا ہے، یا ہم نے انہیں کوئی کتاب دی ہے کہ یہ اس پر قائم ہیں؟ اصل یہ ہے کہ ظالم ایک دوسرے سے نرے دھوکہ (کی باتوں ) کا وعدہ کرتے آئے ہیں۔ "
اور مزید فرمایا:
وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ لااَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَکُمْ وَ لااَآ اَنْفُسَہُمْ یَنْصُرُوْن (اعراف)
"اور جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ نہ تو تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور نہ اپنی ہی مدد کر سکتے ہیں۔ "
اور فرمایا:
وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ لااَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَہُمْ بِشَیْئٍ (الرعد )
،اور جن کو (یہ لوگ)، اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کا کچھ جواب نہیں دے سکتے۔ "
وَ مَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لا نَصِیْرٍ (شوریٰ )
"اور تمہارا اللہ کے سوا کوئی بھی نہ کارساز ہے اور نہ مددگار !"
اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا کہ وہ مشرکین اور ان لوگوں سے سوال کریں، جو اللہ کے سوا کسی اور سے مدد مانگتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جواب دیں :
قُلْ اَفَرَئَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اِنْ اَرَادَنِیَ اﷲُ بِضُرٍّ ہَلْ ہُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہ اَوْ اَرَادَنِیْ بِرَحْمَۃٍ ہَلْ ہُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحْمَتِہِ (الزمر)
کہ "بھلا یہ تو بتاؤ کہ اللہ کے سوا تم جنہیں پکارتے ہو، اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کی دی ہوئی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں؟ یا اللہ مجھ پر عنایت کرنا چاہے، تو یہ اس کی عنایت کو روک سکتے ہیں؟"
اَ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوء وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِ ئَاِٰلہٌ مَّعَ اﷲِ قَلِیْلامَّا تَذَکَّرُوْن (نمل)
"وہ کون ہے جو بے قرار کی فریاد سنتا ہے، جب وہ اسے پکارتا ہے؟ اور مصیبت کو دور کرتا ہے اور تم کو زمین میں خلفاء بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم غور کرتے ہو۔ "
پھر ان کو سمجھاتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ فَادْعُوْہُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
"بے شک جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ تمہارے جیسے ہی بندے ہیں۔ سو اگر تم سچے ہو تو تم انہیں پکارو! پھر ان کو چاہیے کہ تمہیں جواب دیں۔ "
اور مزید فرمایا:
قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِہ اَوْلِیَآئَ لا یَمْلِکُوْنَ لِاَنْفُسِہِمْ نَفْعًا وَّ لااَا ضَرًّا (الرعد)
" کہہ دیجئے تو کیا تم نے پھر بھی اس کے سوا اور کارساز قرار دے لیے ہیں، جو اپنی ذات کے لیے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟"
مزید فرمایا:
اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ اِلَّاآ اشِٰنثًا وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا (النساء)
"یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے بھی ہیں تو بس زنانی چیزوں کو! اور یہ لوگ پکارتے بھی ہیں تو بس شیطان سرکش کو۔ "
نیز:
وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوا مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہ اِلیٰ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَ ہُمْ عَنْ دُعَآئِہِمْ غٰفِلُوْن (احقاف)
"اور اس سے بڑھ کر گمراہ اور کون ہو گا جو اللہ کے سوا اور کسی کو پکارے؟ جو قیامت تک بھی اس کی بات نہ سنے، بلکہ انہیں ان کے پکارنے کی خبر تک نہ ہو؟"
ان آیات کریمہ سے یہ بات صاف طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی مصائب و مشکلات میں بندوں کی مدد کر سکتا ہے، اور ان کے کام آ سکتا اور ان کے دکھ درد دور کر سکتا ہے۔ اختیار و تصرف کا دائرہ فقط اسی کی ذات تک محدود ہے اور ساری کائنات کا نظام اسی کے قبضہ و اختیار میں ہے۔ اور تمام انبیاء و رسل علیہم السلام نے بھی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے فقط اسی کا دامن تھاما اور صرف اسی کے سامنے سر نیاز خم کیا۔ ۔ ۔ ان کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ شدائد و مشکلات میں ان سے استمداد و استعانت جائز ہے، قرآن کریم کی صریح، صاف اور واضح آیات سے متصادم ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنا، حضرت نوح علیہ السلام کا اپنے غرق ہونے والے بیٹے کے لیے رب کائنات سے سے نجات طلب کرنا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صرف اسی سے اپنے لیے بیٹا مانگنا، مشکلات و مصائب میں گھرے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا صرف اپنے رب کو پکارنا، حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ سے نجات حاصل کرنے کے لیے صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز و نیاز کرنا، اور حضرت ایوب علیہ السلام کا صرف ذات باری تعالیٰ سے شفا طلب کرنا، یہ سارے واقعات اس بات کی واضح اور بین دلیل ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی مالک ذی اختیار نہیں ہے جو مصیبت رفع کر سکتا ہو!
لیکن ان تمام شواہد و دلائل کے برعکس بریلوی حضرات کا عقیدہ یہ ہے کہ جو کسی نبی یا رسول یا ولی سے وابستہ ہوتا ہے، وہ مصائب و مشکلات میں اس کی دستگیری کرتا ہے۔39
احمد رضا بریلوی کے ایک پیروکار یوں رقمطراز ہیں :
اولیائے کرام ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے کف دست کی طرح دیکھتے ہیں۔ اور بعید و قریب کی آوازیں سنتے، یا ایک آن میں تمام عالم کی سیر کرتے اور صدہا کوس پر حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے ہیں۔ 40"
ایک طرف ان حضرات کا یہ عقیدہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے چچازاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ فرما رہے ہیں کہ "اپنی حاجت صرف خدا سے طلب کر، فقط اسی سے کر! قلم کی سیاہی خشک ہو چکی ہے ساری کائنات مل کر بھی تجھے نہ نفع دے سکتی ہے اور نہ نقصان!41"
لیکن جناب بریلوی کہتے ہیں :
"جب تمہیں پریشانی کا سامنا ہو تو اہل قبور سے مدد مانگو!42"
پھر ستم بالائے ستم یہ کہ جناب بریلوی نہ صرف یہ کہ خود قرآنی آیات کی مخالفت کرتے ہیں، بلکہ جو لوگ شرک و بدعت کے خلاف سچے اور مجاہدانہ جذبے کے ساتھ صف آراء ہیں اور ان صریح آیات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف رب کائنات ہی مضطر اور مصیبت زدہ لوگوں کی التجا سنتا ہے اور اس کو شرف قبولیت بخشتا ہے اور صرف وہی مصائب و مشکلات کو دور کرنے والا ہے، بریلی کے یہ خاں صاحب ان کے خلاف طعن و تشنیع اور اظہار کدورت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"ہمارے زمانے میں معدودے چند ایسے پیدا ہوئے ہیں کہ حضرات اولیاء سے مدد کے منکر ہیں اور کہتے ہیں جو کچھ کہتے ہیں انہیں اس پر کچھ علم نہیں، یوں ہی اپنے سے اٹکلی لڑاتے ہیں۔ 43"
ان جیسے لوگوں کے متعلق ہی اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اﷲُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِٰابَآئَنَااَوَ لَوْ کَانَٰابَآؤُہُمْ لا یَعْقِلُوْنَ شَیْئًا وَّ لا یَہْتَدُوْنًَ (البقرہ)
"اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے اتارا ہے اس کی پیروی کرو! تو کہتے ہیں کہ نہیں ہم تو اس کی پیروی کریں گے، جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے۔ ۔ ۔ ۔ خواہ ان کے باپ دادا نہ ذرا عقل رکھتے ہوں اور نہ ہدایت رکھتے ہوں؟"
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ [البقرہ ]
"اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں، تو میں تو قریب ہی ہوں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے پس لوگوں کو چاہئے کہ میرے احکام قبول کریں اور مجھ پر ایمان لائیں عجب نہیں کہ ہدایت پا جائیں۔"
نیز:وَ قَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُم (غافر)
"اور تمہارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ مجھے پکارو، میں تمہاری درخواست قبول کروں گا۔ "
لیکن
ہے مریدوں کو تو حق بات گوارا لیکن
شیخ و ملا کو بری لگتی ہے درویش کی بات
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات
1الامن والعلی از احمد رضا بریلوی ص 29 ط دارالتبلیغ لاہور۔
2،،رسالۃ حیات الموات،، از احمد رضا بریلوی درج فتاویٰ رضویہ 3ایضاً۔
4۔،،الامن والعلی،،از بریلوی ص 10۔
5ملفوظات ص 99 ط لاہور۔
6الامن والعلی ص 13۔
7برکات الاستمداد از بریلوی درج در رسالہ رضویہ ج1ص 181،اور فتاویٰ افریقہ از بریلوی ص 62، جاء الحق از احمد یار ص 200۔
8جاء الحق از مفتی بریلوی احمد یارص 200۔
9حدائق بخشش ص 186۔
10ایضاً ص 181۔
11ملفوظات ص 307۔
12حیات الممات از بریلوی درج در فتاویٰ رضویہ ج 4 ص 200 و جاء الحق ص 199۔
13جاء الحق ص 199۔
14انوار الانتباہ فی حل نداء یا رسول اللہ،مندرج در مجموعہ رسائل رضویہ جلداول ص 180 مطبوعہ کراچی۔
15ایضاً۔
16انوار الانتباہ فی حل نداء یا رسول اللہ مندرج در مجموعہ رسائل رضویہ جلد اول ص 181۔
17مجموعہ رسائل رضویہ از بریلوی ج1 ص182 ط کراچی۔
18فتاویٰ افریقہ از بریلوی ص 135۔
19حیات الموات درج در فتاویٰ ج4 ص 289۔
20الامن والعلی ص 44۔
21کشف فیوض از محمد عثمان بریلوی ص 39۔
22ایضاً ص 43۔
23ایضاً ص5۔
24انوار الانتباہ ص 182۔
25ایضاً ص 181۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
انبیاء و اولیاء کے اختیارات
اسلام کے نزدیک توحید کا تصور یہ ہے کہ پوری مخلوق کی حاجت روائی مصائب و مشکلات کو حل کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی ساری کائنات کا خالق، مالک، رازق اور مدبر و منتظم ہے۔ ساری طاقتیں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ اکیلا ہی ساری نعمتوں کا مالک ہے۔ اس لیے اپنی حاجتوں کی طلب میں صرف اسی کی طرف رجوع کیا جائے، صرف اسی کو پکارا جائے اور اسی کے سامنے عجز و نیاز کا اظہار کیا جائے مگر بریلویت کا یہ عقیدہ اس کے برعکس ہے۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے تدبیر امور کے اختیارات و تصرفات اپنے بعض بندوں کو عطا کر دیئے ہیں، جن کی وجہ سے وہ مخلوق کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کر سکتے ہیں۔ اسی بنا پر یہ لوگ انہیں مصیبت کے وقت پکارتے، ان کے سامنے اپنا دامن پھیلاتے اور ان کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں۔
ان کے عقائد کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تمام اختیارات اور کائنات کا سارا نظام اپنے مقرب بندوں کے سپرد کر دیا ہے، اور خود اللہ تعالیٰ کی ذات معاذاللہ معطل و معزول ہو کر رہ گئی ہے۔ اب کٹھن اور دشوار گزار حالات میں ان بندوں سے استغاثہ کیا جائے، انہی سے مدد مانگی جائے، انہی سے شفا طلب کی جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نائب ہیں، تمام اختیارات ان کے ہاتھ میں ہیں، وہ زمین و آسمان کے مالک ہیں جسے چاہیں عطا کریں اور جسے چاہیں محروم رکھیں۔ زندگی و موت، رزق و شفا غرضیکہ تمام خدائی اختیارات ان کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔
اس سلسلے میں ان کی کتب سے نصوص و عبارات ذکر کرنے سے قبل قارئین کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مشرکین مکہ کے عقائد بھی ان عقائد سے مختلف نہ تھے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے ان عقائد کی تردید کی اور ان لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے عشق و محبت کے تمام دعووں کے باوجود ان عقائد کو پھر سے اپنا لیا ہے۔
اب اس سلسلے میں اللہ کا ارشاد سنئے اور پھر ان کے عقائد کا موازنہ کیجئے۔ ۔ ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لااَاآ اِٰلہَ اِلَّا ہُوَ یُحْی وَ یُمِیْتُ [اعراف ]"کوئی معبود نہیں اس کے سوا وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے۔ "
بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَ ہُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرُ [ملک ]"اسی کے ہاتھ میں حکومت ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ "
بِیَدِہ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ وَّ ہُوَ یُجِیْرُ وَ لااَا یُجَارُ عَلَیْہِ [مومنون ] "اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے۔ اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا۔
بِیَدِہ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ وَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ [یاسین ] "اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے اور تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ "
اِنَّ اﷲَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ [ذاریات ]
"بیشک اللہ ہی سب کو روزی پہنچانے والا ہے، قوت والا ہے، مضبوط ہے۔ "
وَ مَا مِنْ دَآبةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اﷲِ رِزْقُہَا [سورہ ھود ] "کوئی جاندار زمین پر ایسا نہیں کہ اللہ کے ذمہ اس کا رزق نہ ہو"۔
وَ کَاَیِّنْ مِّنْ دَآبةٍٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَا اَﷲُ یَرْزُقُہَا وَ اِیَّاکُمْ وَ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ [عنکبوت] "اور کتنے ہی جاندار ہیں جو اپنی غذا اٹھا کر نہیں رکھتے۔ اللہ ہی انہیں روزی دیتا ہے اور تم کو بھی، اور وہی خوب سننے والا ہے اور خوب جاننے والا ہے۔ "
اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآء وَ یَقْدِر [السباء] "میرا پروردگار زیادہ روزی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے، اور تنگ کر دیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے۔ "
اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآء وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآء وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآء وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآء بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر [آل عمران]
اے سارے ملکوں کے مالک! تو جسے چاہے حکومت دے دے اور تو جس سے چاہے حکومت چھین لے، تو جسے چاہے عزت دے اور تو جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں بھلائی ہے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ "
قرآن کریم نے انسانیت کو توحید سے آشنا کر کے اس بہت بڑا احسان کیا ہے۔ رسول کائنات صلی اللہ علیہ و سلم اپنے تیرہ سالہ مکی دور میں اسی فکر کو لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرتے رہے۔ اسلام نے انسانیت کو بندوں کی غلامی سے نجات دے کر اور ان طوق و سلاسل کو جو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان حائل ہو گئی تھی، اپنی مقدس تعلیمات سے پاش پاش کر کے براہ راست انہیں اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ پر جھکا دیا۔ ۔ ۔ ۔ مگر بریلوی حضرات ان شکستہ زنجیروں کے ٹکڑوں کو اکھٹا کر کے انسان کو انسان کا محتاج و گداگر بنا رہے ہیں اور مخلوق کو مخلوق کی غلامی کا درس دے رہے ہیں !
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمیٰ وَ الْبَصِیْرُ [فاطر] "نابینا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے۔ "
یہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جو توحید کی بصیرت سے بہرہ ور ہوں۔ توحید کے تصور کے بغیر امت اسلامیہ کا اتحاد ممکن نہیں ہے۔ توحید سے کنارہ کشی اختیار کر کے دوسرے مشرکانہ افکار و نظریات کی تعلیم دینا امت محمدیہ کے درمیان اختلافات کے بیج بونے کے مترادف ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
کَانَ النَّاسُ اُمةً وَّاحِدَۃًاقف فَبَعَثاَ اﷲُ النَّبِینَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَص وَ اَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَتْہُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًام بَیْنَہُمْ فَہَدَی اﷲُ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہ ط وَ اﷲُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ

"لوگ ایک ہی امت تھے، پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دینے اور ڈرانے والے۔ اور ان کے ساتھ کتب حق نازل کیں کہ وہ لوگوں کے درمیان اس بات کا فیصلہ کریں جس میں وہ اختلاف رکھتے تھے۔ اور کسی نے اس میں اختلاف نہیں کیا، مگر انہی نے جنہیں وہ ملی تھی، انہی کی ضد کے باعث، بعد اس کے کہ انہیں کھلی ہوئی نشانیاں پہنچ چکی تھیں، پھر اللہ نے اپنے فضل سے انہیں جو ایمان والے تھے ہدایت دی، اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست بتا دیتا ہے۔ [بقرہ]
آج حالت یہ ہے کہ شرک،قبر پرستی اور بدعات و خرافات کا ایک سیلاب ہے اور مسلمان اس میں بہے جا رہے ہیں۔ شیطان نے ان کے دل و دماغ کو مسخر کر لیا ہے اور وہ اس کی پیروی کو اپنی نجات کا سبب سمجھ رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :
قُلْ ہَلْ نُنَبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالا اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا [الکہف ]
" آپ کہہ دیجئے کہ کیا ہم تمہیں ان لوگوں (کا پتہ) بتائیں جو اعمال کے لحاظ سے بالکل ہی گھاٹے میں ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں جن کی ساری محنت دنیا ہی کی زندگی میں غارت ہو کر رہی اور وہ یہی سمجھتے رہے کہ وہ بڑے اچھے کام کر رہے ہیں۔ "
نیز ان کے متعلق ارشاد ہے :
اَعْیُنُہُمْ فِیْ غِطَآئٍ عَنْ ذِکْرِیْ وَ کَانُوْا لایَسْتَطِیْعُوْنَ سَمْعًاع اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَنْ یَّّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْ اَوْلِیَآء اِنَّآ اَعْتَدْنَا جَہَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ نُزُلا [کہف ]
"ان کی آنکھوں پر میری یاد سے پردہ پڑا ہوا تھا اور وہ سن بھی نہیں سکتے تھے۔ کیا پھر بھی کافروں کا خیال ہے کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز قرار دے لیں؟ بے شک ہم نے دوزخ کو کافروں کی مہمانی کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ "
اب اس سلسلے میں ان کی نصوص ملاحظہ فرمائیں :
جناب احمد رضا بریلوی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے اور آپ کی شان میں غلو کرتے ہوئے کہتے ہیں :

کن کا رنگ دکھاتے ہیں یہ
مالک کل کہلاتے ہیں یہ
قادر کل کے نائب اکبر
ان کے ہاتھوں میں ہر کنجی ہے
احمد رضا بریلوی کے صاحبزادے اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان اشعار کی شرح میں رقم طراز ہیں۔
"جو نعمت تمام عالم میں کہیں ظاہر ہوتی ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہی عطا فرماتے ہیں۔ انہی کے ہاتھ میں سب کنجیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے خزانے سے کوئی چیز نہیں نکلتی مگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں سے۔ حضور اکرم کوئی بات چاہتے ہیں وہی ہوتی ہے، اس کے خلاف نہیں ہوتی۔ حضور کی چاہت کو جہاں میں کوئی پھیرنے والا نہیں ہے۔ 60
جناب بریلوی کے اس قصیدے کے مزید اشعار سنئے

ہلتی نیویں جماتے یہ ہیں
روتی آنکھیں ہنساتے یہ ہیں
حق سے خلق ملاتے یہ ہیں
کیا کیا رحمت لاتے یہ ہیں
دفع بلا فرماتے یہ ہیں
جیتے ہم ہیں جلاتے یہ ہیں
قبضہ کل پہ رکھاتے یہ ہیں 61
ڈوبی ناویں تراتے یہ ہیں
جلتی جانیں بجھاتے یہ ہیں
اس کے نائب ان کے صاحب
شافع نافع رافع دافع
دافع یعنی حافظ و جامی
ان کے نام کے صدقے جس سے
اس کا حکم جہاں میں نافذ

جناب احمد رضا دوسری جگہ کہتے ہیں :
"کوئی حکم نافذ نہیں ہوتا مگر حضور کے دربار سے۔ کوئی نعمت کسی کو نہیں ملتی مگر حضور کی سرکار سے !62"
اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں :
"ہر چیز، ہر نعمت، ہر مراد، ہر دولت، دین میں، دنیا میں، آخرت میں، روز اول سے آج تک، آج سے ابدا لآباد تک، جسے ملی یا ملنی ہے، حضور اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے دست اقدس سے ملی اور ملتی ہے۔ 63"
بریلوی فرقے کے ایک دوسرے راہنما لکھتے ہیں :
آقائے دوجہاں سخی داتا ہیں اور ہم ان کے محتاج ہیں، تو کیا وجہ ہے کہ ان سے استمداد نہ کی جائے؟64"
دوسری جگہ کہتے ہیں :

خالق کل نے آپ کو مالک کل بنا دیا
دونوں جہاں ہیں آپ کے قبضہ و اختیار میں
اسی لیے حضرت آدم علیہ السلام نے عرش پر حضور علیہ السلام کا نامِ پاک لکھا دیکھا، تاکہ معلوم ہو کہ مالک عرش آپ ہیں 65"
ایک اور جگہ نقل کرتے ہیں :
حضور مدینہ منورہ میں رہ کر ذرے ذرے کا مشاہدہ فرما رہے ہیں اور ہر جگہ آپ کا عمل درآمد اور تصرف بھی ہے 66"
بریلویت کے فرماں رواں جناب احمد رضا صاحب بریلوی کہتے ہیں :
حضور صلی اللہ علیہ و سلم خلیفہ اعظم اور زمین و آسمان میں تصرف فرماتے ہیں۔ 67
جناب احمد رضا کے ایک پیروکار اپنے مطاع و مقتدا سے نقل کرتے ہیں کہ :
"رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم زمینوں اور لوگوں کے مالک ہیں اور تمام مخلوقات کے مالک ہیں۔ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں نصرت اور مدد کی کنجیاں ہیں اور انہی کے ہاتھ میں جنت و دوزخ کی کنجیاں ہیں۔ اور وہی ہیں جو آخرت میں عزت عطا فرماتے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم مصیبتوں اور تکالیف کو دور فرماتے ہیں اور وہ اپنی امت کے محافظ اور مددگار ہیں۔ 68"
بریلویت کے ایک اور راہنما رقم طراز ہیں :
"حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اللہ عزوجل کے نائب مطلق ہیں۔ تمام جہاں حضور کے تحت تصرف کر دیا گیا، جسے جو چاہیں دیں، جس سے جو چاہیں واپس لیں۔ 69"
مزید ارشاد فرماتے ہیں :
"تمام زمین ان کی ملک ہے، تمام جنت ان کی جاگیر ہے، ملکوت السّموات والارض حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے زیر فرمان، جنت و نار کی کنجیاں آپ کے دست اقدس میں دے دی گئیں۔ رزق، خوراک اور ہر قسم کی عطائیں حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں۔ دنیا و آخرت حضور علیہ السلام کی عطا کا ایک حصہ ہیں۔ 70"
بریلوی طائفہ کے مفتی احمد یار گجراتی اپنے اس عقیدے کا اظہار یوں کرتے ہیں :
"سارا معاملہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے ہاتھ کریمانہ میں ہے، جو چاہیں جس کو چاہیں دے دیں۔ 71"
صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہی مالک کل اور مختار مطلق نہیں، بلکہ دوسرے انبیاء کرام (علیہم السلام) بھی مخلوق کی اندرونی حالت اور ان کی ارواح پر تصرف کر سکتے ہیں۔ اور ان کو قدرت حاصل ہوتی ہے، جس سے مخلوق کے ظاہر پر تصرف کر سکتے ہیں۔ 72"
انبیاء و رسل کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی جنت و دوزخ کے مالک ہیں چنانچہ بریلویت کے امام احمد رضا صاحب موضوع روایت کا سہارا لیتے ہوئے رقمطراز ہیں :
"روز قیامت اللہ تعالیٰ سب اگلوں پچھلوں کو جمع فرمائے گا اور دو منبر نور لا کر عرش کے داہنے بائیں بچھائے جائیں گے۔ ان پر دو شخص چڑھیں گے داہنے والا پکارے گا: اے جماعات مخلوق، جس نے مجھے پہچانا اس نے پہچانا اور جس نے نہ پہچانا تو میں رضوان داروغہ بہشت ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جنت کی کنجیاں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سپرد کر دوں۔ اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کو دو کہ وہ اپنے دوستوں کو جنت میں داخل کریں۔ سنتے ہو گواہ ہو جاؤ!
پھر بائیں والا پکارے گا اے جماعات مخلوق! جس نے مجھے پہچانا اس نے پہچانا اور جس نے نہ پہچانا تو میں مالک داروغہ ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ دوزخ کی کنجیاں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سپرد کر دوں۔ اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کو دوں کہ وہ اپنے دشمنوں کو جہنم میں داخل کریں۔ 73"
پھر اپنے تشیع کا ثبوت دیتے ہوئے اور تقیہ کا لبادا اتارتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ذکر کرتے ہیں :
حضرت علی قسیم دوزخ ہیں یعنی اپنے دوستوں کو جنت اور اعداء کو دوزخ میں داخل فرمائیں گے۔ 74"
جناب احمد رضا بریلوی شیخ عبدالقادر جیلانی کی شان میں غلو کرتے مشرکانہ عقیدے کی یوں وضاحت کرتے ہیں

ذی تصرف بھی ہے ماذون بھی مختار بھی ہے
کار عالم کا مدبر بھی ہے عبدالقادر75
مزید ارشاد ہوتا ہے

جلا دے جلا دے کفر و الحاد
کہ تو محیی ہے تو قاتل ہے یا غوث76
خدا سے لیں لڑائی وہ ہے معطی
نبی قاسم ہے موصل ہے یا غوث
آگے چل کر فرماتے ہیں

"اے ظل اللہ شیخ عبدالقادر
اے بندہ پناہ شیخ عبدالقادر
محتاج و گدائم تو ذوالتّاج و کریم
شیئا للہ شیخ عبدالقادر77
ایک اور جگہ یوں گویا ہوتے ہیں :
"اے عبدالقادر، اے فضل کرنے والے، بغیر مانگے سخاوت کرنے والے، اے انعام و اکرام کے مالک، تو بلند و عظیم ہے۔ ہم پر احسان فرما اور سائل کی پکار کو سن لے۔ اے عبدالقادر ہماری آرزوؤں کو پورا کر۔ 78"
احمد رضا دوسری جگہ گل فشانی فرماتے ہیں :
"عبدالقادر نے اپنا بستر عرش پر بچھا رکھا ہے اور عرش کو فرش پر لے آتے ہیں۔ 79"
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
"اہل دین را مغیث عبدالقادر!80"
مزید سنئے
"احد سے احمد سے تجھ کو، کن اور سب کن فیکون حاصل ہے یا غوث81
بریلوی حضرات اپنے مشرکانہ عقائد ثابت کرنے کے لیے شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے !
"اللہ نے مجھے تمام قطبوں کا سردار بنایا ہے۔ مرا حکم ہر حال میں جاری و ساری ہے۔ اے میرے مرید! دشمن سے مت گھبرا۔ میں مخالف کو ہلاک کر دینے والا ہوں۔ آسمان و زمین میں میرا ڈنکا بجتا ہے۔ میں بہت بلند رتبے پر فائز ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی ساری مملکت میرے زیر تصرف ہے۔ میرے تمام اوقات ہر قسم کے عیب سے پاک صاف ہیں۔ پورا عالم ہر دم میری نگاہ میں ہے۔ میں جیلانی ہوں، محی الدین میرا نام ہے، میرے نشان پہاڑ کی چوٹیوں پر ہیں۔ 82
ایک اور افتراء سنئے :
"تمام اہل زمانہ کی باگیں میرے سپرد ہیں، جسے چاہوں عطا کروں یا منع کروں "۔ 83
جناب بریلوی شیخ جیلانی کی جانب ایک اور جھوٹ منسوب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
"لوگوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں۔ میں چاہوں تو اپنی طرف متوجہ کر لوں اور چاہوں تو پھیر دوں "۔ 84
احمد رضا خاں کے ایک پیروکار کا عقیدہ ملاحظہ کیجئے :

"لوح محفوظ میں تشبیت کا حق ہے حاصل
مرد سے عورت بنا دیتے ہیں غوث الاغواث"
اس شعر کی تشریح بھی بریلوی حضرات کی زبانی سنئے :
"شیخ شہاب الدین سہروردی رضی اللہ عنہ، جو سلسلہ سہروردیہ کے امام ہیں، آپ کی والدہ ماجدہ حضور غوث الثقلین رضی اللہ عنہ کے والد ماجد کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ حضور دعا فرمائیں، میرے لڑکا پیدا ہو۔ آپ نے لوح محفوظ میں دیکھا، اس میں لڑکی مرقوم تھی۔ آپ نے فرما دیا کہ تیری تقدیر میں لڑکی ہے۔ وہ بی بی یہ سن کر واپس ہوئیں، راستہ میں غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے۔ آپ کے استفسار پر انہوں نے سارا ماجرا بیان کیا۔ حضور نے ارشاد فرمایا، جا تیرے لڑکا ہو گا۔ مگر وضع حمل کے وقت لڑکی پیدا ہوئی۔ وہ بی بی بارگاہ غوثیت میں اس مولود کو لے آئیں اور کہنے لگیں، حضور لڑکا مانگوں اور لڑکی ملے؟ فرمایا، یہاں تو لاؤ اور کپڑا ہٹا کر ارشاد فرمایا دیکھو تو یہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ دیکھا تو لڑکا! اور وہ یہی شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ تھے۔ آپ کے حلیہ مبارک میں ہے کہ آپ کے پستان مثل عورتوں کے تھیں۔ 85"
یہی متبع بریلویت ایک اور واقعہ نقل کرتے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک شخص کی تقدیر میں موت تھی۔ شیخ جیلانی نے اس کی تقدیر کو بدل کر مقررہ وقت پر مرنے سے بچا لیا۔ 86"
جناب احمد رضا بریلوی اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں :
"ہمارے شیخ سیدنا عبدالقادر رضی اللہ عنہ اپنی مجلس میں برملا زمین سے بلند کرہ ہوا پر مستی فرماتے اور ارشاد کرتے آفتاب طلوع نہیں ہوتا، یہاں تک کہ مجھ پر سلام کرے۔ نیا سال جب آتا ہے، مجھ پر سلام کرتا ہے اور مجھے خبر دیتا ہے، جو کچھ اس میں ہونے والا ہے۔ نیا دن جو آتا ہے، مجھ پر سلام کرتا ہے اور مجھے خبر دیتا ہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے۔ 87"
اور یہ اختیارات شیخ جیلانی تک ہی محدود نہیں ہیں، بلکہ دوسرے اولیاء و مشائخ تصوف بھی خدا کی خدائی میں شریک ہیں۔ وہ ان صفات سے متصف اور ان طاقتوں کے مالک ہیں۔ چنانچہ احمد رضا بریلوی کے صاحبزادے ارشاد کرتے ہیں :
"بے شک سب پیشوا، اولیاء علماء اپنے اپنے پیروؤں کی شفاعت کرتے ہیں۔ اور جب ان کے پیروکار کی روح نکلتی ہے، جب منکر نکیر اس سے سوال کرتے ہیں، جب اس کا حشر ہوتا ہے، جب اس کا نامہ اعمال کھلتا ہے، جب اس سے حساب لیا جاتا ہے، جب اس کے عمل تلتے ہیں، جب صراط پر چلتا ہے ہر وقت ہر حال میں اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ کسی جگہ اس سے غافل نہیں ہوتے اور تمام ائمہ مجتہدین اپنے پیروؤں کی شفاعت کرتے ہیں اور دنیا قبر وحشر ہر جگہ سختیوں کے وقت نگہداشت فرماتے ہیں جب تک وہ صراط سے پار نہ ہو جائیں۔ 88"
آسمان سے زمین تک ابدال کی ملک ہے اور عارف کی ملک عرش سے فرش تک89"
اور خود جناب بریلوی فرماتے ہیں :
"اولیاء کی وساطت سے خلق کا نظام قائم ہے۔ 90"
اور سنئے :
اولیاء کرام مردے کو زندہ کر سکتے ہیں، مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دے سکتے ہیں اور ساری زمین کو ایک قدم میں طے کرنے پر قادر ہیں91"
"غوث ہر زمانہ میں ہوتا ہے اس کے بغیر زمین و آسمان قائم نہیں رہ سکتے 92"
بریلوی صاحب کے ایک پیروکار لکھتے ہیں :
"اولیاء کرام اپنے مریدوں کی مدد فرماتے ہیں اور اپنے دشمنوں کو ہلاک کرتے ہیں 93"
ان کے مشہور مفتی احمد یار گجراتی گوہر افشانی کرتے ہیں :
"اولیاء کو اللہ سے یہ قدرت ملی ہے کہ چھوٹا ہوا تیر واپس کر لیں 94"
یہی مفتی صاحب رقم طراز ہیں :
"اولیاء کو قبر کی مکھی تو کیا، عالم پلٹ دینے کی طاقت ہے۔ ۔ ۔ ۔ مگر توجہ نہیں دیتے 95"
بریلویت کے ایک اور راہنما لکھتے ہیں :
ظاہر قضائے معلق تک اکثر اولیاء کی رسائی ہوتی ہے۔ 96"
ایک دوسرے بریلوی صاحب ارشاد فرماتے ہیں :
"اولیاء کا تصرف و اختیار مرنے کے بعد اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ 97"
یہ ہیں غیر اللہ کے بارے میں ان کے عقائد۔ انہوں نے اپنی دعاؤں اور طلب گاریوں میں دوسری ہستیوں کو بھی شریک کر لیا اور اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے اختیارات و تصرفات اس کی مخلوق میں تقسیم کر دیئے ہیں، حالانکہ شریعت اسلامیہ میں کارسازیوں اور بے نیازیوں کا تصور صرف اللہ تعالیٰ تک ہی محدود ہے۔
بریلوی حضرات نے اپنے اولیاء کو وہ تمام اختیارات تفویض کر دیے، جو عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام، یہودی حضرت عزیر علیہ السلام اور مشرکین مکہ لات، ہبل، عزی اور منات وغیرہ میں سمجھتے تھے۔ اُفِّ لَّکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ
یہ مت سمجھئے کے بریلویت کے امام جناب احمد رضا خان صاحب کا ان خدائی اختیارات میں کوئی حصہ نہ تھا۔ وہ بھی دوسرے اولیاء کی طرح رزاق، داتا، شافی، غوث، مختار، قادر مطلق، حاجت روا اور مشکل کشا تھے۔ ان کی صفات ملاحظہ کیجئے۔
بریلویت کے ایک پیروکار اپنے ہادی و مرشد کی شان بالا صفات میں اپنی کتاب مدائح اعلیٰ حضرت میں نغمہ سرا ہیں۔

یا سیدی، یا مرشدی، یا مالکی، یا شافعی
اے دستگیر راہنما یا سیدی احمد رضا
اندھوں کو بینا کر دیا بہروں کو شنوا کر دیا
دین نبی کو زندہ کیا یا سیدی احمد رضا
امراض روحانی و نفسانی امت کے لیے
اور ترا دارالشفا یا سیدی احمد رضا98

یہی مرید اپنے پیر و شیخ جناب احمد رضا کے سامنے عجز و نیاز کرتے ہوئے اور اپنا دامن پھیلا کر یوں پکارتا ہے

میرے آقا، میرے داتا، مجھے ٹکڑا مل جائے
دیر سے آس لگائے ہے یہ کتا تیرا
اپنی رحمت سے اسے کر لے قبول اے پیارے
نذر میں لایا ہے چادر یہ کمینا تیرا
اس عبید رضوی پر بھی کرم کی ہو نظر
بد سہی چور سہی ہے تو وہ کتا تیرا99

اور سنئے جناب احمد رضا خاں بریلوی کے ایک اور معتقد ارشاد کرتے ہیں

"قیامت میں مفر کی منکر و تدبیر کیا سوچی؟
کہ ہو گا گھومتا کوڑا امام اہل سنت کا 100"
کس سے کریں فریاد خدائی مالک و مولیٰ تیری دوہائی
تیرے سوا کون ہمارا حامی سنت اعلیٰ حضرت
بھیک سدا مانگی پائی دیر کیوں اس بار لگائی
میرے کرم، سخی، ان داتا، حامی سنت اعلیٰ حضرت
کب سے کھڑی ہیں ہاتھ پسارے بندہ نواز گدا بیچارے
اب تو کرم ہو جائے حامی سنت اعلیٰ حضرت!101

اور سنئے

وہی فریاد رس ہے بے کسوں کا
وہ محتاج کا حاجت روا ہے
ستارہ کیوں نہ میرا اوج پر ہو
ادھر آقا ادھر احمد رضا ہے
مجھے کیا خوف ہو وزن عمل کا
حمایت پر مرا حامی تلا ہے 102"
بریلویت کے ایک دوسرے شاعر کا عقیدہ:
میری کشتی پڑ گئی منجدھار میں
دے سہارا اک ذرا احمد رضا
چار جانب مشکلیں ہیں ایک میں
اے مرے مشکل کشا احمد رضا
لاج رکھ لے میرے پھیلے ہاتھ کی
اے میرے حاجت روا احمد رضا
جھولیاں بھر دے میری داتا میرے
ہوں تیرے در کا گدا احمد رضا103"
چند اور اشعار نقل کر کے ہم اپنی بحث کو سمیٹتے ہیں۔
بریلویت کے اور شاعر اپنے مذہب کے عقائد کی وضاحت کرتے ہوئے نغمہ سرا ہیں۔

غوث و قطب اولیاء احمد رضا
ہے میرا مشکل کشا احمد رضا
دونوں عالم میں ہے تیرا آسرا
ہاں مدد فرما شاہ احمد رضا
تو ہے داتا اور میں منگتا ترا
میں تیرا ہوں تو میرا احمد رضا!104

"قارئین کرام! ملاحظہ فرمائیے، کیا یہ عقائد قرآن کریم کی واضح آیات سے استہزاء کے مترادف نہیں ہیں؟ کیا ان میں اور کتاب و سنت میں کوئی مطابقت ہے؟ کیا ان سے یہ بات اچھی طرح واضح نہیں ہو جاتی کہ ان حضرات کا مقصد مشرکانہ عقائد اور دور جاہلیت کے افکار کی نشر و اشاعت ہے؟ کیا مشرکین مکہ کے عقائد ان سے ابتر تھے؟
اس سلسلے میں ہم یکتائے عصر، فرید دھر اور برصغیر کے مفسر و محدث علامہ نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ کی تفسیر فتح البیان کی عبارت کا ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نواب صدیق حسن رحمۃ اللہ علیہ فرمان خداوندی لا املک لنفسی ضرا و لا نفعا الا ماشاء اللہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے، جنہوں نے مصائب کے وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو پکارنا عقیدہ بنالیا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم نے بڑی فصاحت سے یہ بیان فرما دیا کہ تکالیف و مصائب میں مدد کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، انبیاء علیہم السلام و صالحین کا بھی وہ مددگار ہے۔ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی امت سے واشگاف الفاظ میں کہہ دیں کہ میں اپنی ذات کے لیے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ قرآن تو یہ بتلا رہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی ذات کے لیے بھی نفع و نقصان کا اختیار نہیں ہے، پھر وہ مختار کل کیونکر ہو سکتے ہیں؟
اور پھر جب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ خدائی اختیار حاصل نہیں ہیں، تو باقی مخلوق میں سے کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا کیسے مانا جا سکتا ہے؟
تعجب ہے ان لوگوں پر، جو ان بندوں کے سامنے دامن پھیلاتے اور ان سے اپنی حاجتیں مانگتے ہیں، جو منوں مٹی تلے دفن ہیں۔
وہ اس شرک سے باز کیوں نہیں آتے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات پر کیوں دھیان نہیں دیتے؟
کب انہیں قل ھوا ﷲاحد کی صحیح تفسیر کا علم ہو گا؟ یہ لوگ کب لاالٰہ الااﷲ کے صحیح مفہوم سے آشنا ہوں گے؟
اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ علم وفضل کے دعویدار ان کے واعظین و علماء، جنہیں عوام نے سچے راہنما سمجھ رکھا ہے، وہ انہیں ان مشرکانہ اور دور جاہلیت کے تصورات و اعمال سے کیوں نہیں روکتے؟انہوں نے اپنی زبانوں پر مہر کیوں لگا رکھی ہے؟
ان کے عقائد تو دور جاہلیت کے مشرکوں سے بھی بدتر ہیں۔ وہ تو اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں فقط سفارشی سمجھتے تھے، مگر انہوں نے تو تمام خدائی اختیارات اپنے بزرگوں کو عطا کر دیئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بجائے براہ راست اپنے بزرگوں سے مدد و معاونت مانگتے ہوئے ذرا سا بھی خوف محسوس نہیں کرتے۔ شیطان نے ان کے اذہان میں اپنے افکار اتار لیے ہیں۔ وہ شیطان کی پیروی کرتے چلے جارہے ہیں اور انہیں اس کی خبر بھی نہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں ہم نیکی کی راہ پر گامزن ہیں، حالانکہ وہ شیطان کی آنکھ کو ٹھنڈا کر رہے ہیں اور اس کی خوشی کا سامان مہیا کر رہے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!105"
اور سب سے آخرع میں ہم شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عبارت نقل کرتے ہیں۔ ۔ ۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ: " حضرت بایزید بسطامی کہا کرتے تھے، مخلوق کا مخلوق سے استغاثہ کرنا بالکل ایسا ہی ہے، جیسے کوئی غرق ہونے والا شخص دوسرے غرق ہونے والے سے مدد طلب کرے۔ "
شیخ ابوعبداللہ القرشی کہتے ہیں کہ: "مخلوق کا مخلوق سے استغاثہ کرنا اس طرح ہے جیسے کوئی قیدی دوسرے قیدی سے رہائی کی طلب کرے۔"
پھر موسیٰ علیہ السلام اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے :
"اے اللہ تو ہی تمام تعریفوں کا حق دار ہے۔ ہم آپ کے سامنے اپنی حاجتوں کو پیش کرتے ہیں۔ صرف تو ہی معین و مددگار ہے۔ تو ہی مخلوق کی فریاد رسی پر قادر ہے۔ ہم تجھ پر توکل کرتے ہیں۔ نفع و نقصان صرف تیرے ہاتھ میں ہے۔ "
سلف صالحین میں سے کوئی بزرگ بھی مافوق القدرت اشیاء سے استغاثے کو جائز نہیں سمجھتا"۔ 106
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سماع موتی
بریلوی حضرات کا یہ عقیدہ گزشتہ عقیدے کا لازمی جزو ہے، کیونکہ انتقال کے بعد صرف وہی شخص مخلوق کی داد رسی و دستگیری کر سکتا ہے، جو ان کی پکار کو سنتا ہو۔ مذہب بریلویت کا اپنے بزرگوں کے بارے میں یہ اعتقاد ہے کہ وہ اپنے مریدوں کی نداء کو سنتے ہیں اور ان کی مدد کے لئے پہنچتے ہیں۔ خواہ ان کا مرید اس دنیا کے کسی گوشے سے بھی پکارے۔ اسی بنیاد پر یہ کہتے ہیں :
"اولیاء کرام اپنی قبروں میں حیات ابدی کے ساتھ زندہ ہیں۔ ان کے علم و ادراک و سمع و بصر پہلے کی نسبت بہت قوی ہیں۔ 107"
یعنی مرنے کے بعد ان کے سننے اور دیکھنے کی قوت اور زیادہ تیز ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنی زندگی میں اسباب کے تابع تھے، مگر مرنے کے بعد وہ ان اسباب سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس غیر اسلامی فلسفے کی وضاحت کرتے ہوئے بریلویت کے ایک امام نقل کرتے ہیں کہ :
"بے شک پاک جانیں جب بدن کے علاقوں سے جدا ہوتی ہیں، عالم بالا سے مل جاتی ہیں، تو سب کچھ ایسے دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں۔ 108"
مذہب بریلویت کے ایک اور پیروکار لکھتے ہیں :
"مردے سنتے ہیں اور محبوبین کی وفات کے بعد مدد کرتے ہیں۔ 109"
ایک اور بریلوی عالم دین رقمطراز ہیں :
"شیخ جیلانی ہر وقت دیکھتے ہیں اور ہر ایک کی پکار سنتے ہیں۔ اولیاء اللہ کو قریب اور بعید کی چیزیں سب برابر دکھائی دیتی ہیں۔ 110"
اور خود بریلویت کے امام جناب احمد رضا خاں نقل کرتے ہیں :
"مردے سنتے ہیں کہ خطاب111 اسی کو کیا جاتا ہے، جو سنتا ہو۔ 112"
بریلویت کے خاں صاحب نے اپنی کتب میں بہت سی اسرائیلی حکایتیں اور افسانوی قصے کہانیاں نقل کی ہیں، جن سے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بزرگان دین نہ صرف یہ کہ مرنے کے بعد سنتے ہیں، بلکہ کلام بھی کرتے ہیں۔
چنانچہ ارشاد کرتے ہیں :
"سید اسماعیل حضرمی ایک قبرستان سے گزرے، تو مْردوں کو عذاب ہو رہا تھا۔ آپ نے دعا کر کے ان پر سے عذاب اٹھوا دیا۔ ایک قبر میں سے آواز آئی، حضرت! مجھ سے عذاب نہیں اٹھا۔ آپ نے دعا فرمائی اس سے بھی عذاب اٹھا لیا گیا(ملحضاً)۔ 113
بریلوی فرقے کے ایک اور امام کا غیر اسلامی فلسفہ سماعت فرمائیے۔ ارشاد ہوتا ہے :
"یا علی یا غوث کہنا جائز ہے، کیونکہ اللہ کے پیارے بندے برزخ میں سن لیتے ہیں۔ 114"
جناب احمد رضا بریلوی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء پر موت طاری نہیں ہوتی، بلکہ انہیں زندہ ہی دفنا دیا جاتا ہے۔ اور ان کی قبر کی زندگی دنیا کی زندگی سے زیادہ قوی اور افضل ہوتی ہے۔ جناب بریلوی انبیائے کرام علیہم السلام کے متعلق فرماتے ہیں :
"انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی حیات حقیقی حسی و دنیاوی ہوتی ہے۔ ان کی تصدیق وعدہ الٰہیہ کے لیے مخصوص ایک آن کی آن موت طاری ہوتی ہے، پھر فوراً ان کو ویسے ہی حیات عطا فرما دی جاتی ہے۔ اس حیات پر وہی احکام دنیویہ ہیں۔ ان کا ترکہ بانٹا نہ جائے گا، ان کی ازواج کا نکاح حرام، نیز ازواج مطہرات پر عدت نہیں۔ وہ اپنی قبور میں کھاتے پیتے نماز پڑھتے ہیں۔ 115"
ایک اور صاحب ارشاد فرماتے ہیں :
انبیائے کرام چالیس دن قبر میں رہنے کے بعد نماز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ 116"
مزید سنئے :
"انبیائے کرام اپنی قبر میں زندہ ہیں۔ وہ چلتے پھرتے ہیں۔ نماز پڑھتے اور کلام کرتے ہیں اور مخلوق کے معاملات میں تصرف فرماتے ہیں۔ 117"
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی توہین کا ارتکاب کرتے ہوئے انہوں نے اپنی کتب میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دفن کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم زندہ تھے۔ چنانچہ جناب بریلوی ارشاد کرتے ہیں :
"قبر شریف میں اتارتے وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم "امتی امتی" فرما رہے تھے۔ 118"
جناب بریلوی کے متبع کا فرمان سنئے :
"جس وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی روح اقدس قبض ہو رہی تھی، اس وقت بھی جسم میں حیات موجود تھی۔ 119"
مزید سنئے :
"ہمارے علماء نے فرمایا کہ حضور علیہ السلام کی زندگی اور وفات میں کوئی فرق نہیں۔ اپنی امت کو دیکھتے ہیں اور ان کے حالات و نیات اور ارادے اور دل کی باتوں کو جانتے ہیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بالکل ظاہر ہیں۔ ان سے پوشیدہ نہیں۔ 120"
ایک اور بریلوی امام تحریر کرتے ہیں۔
تین روز تک روضہ شریف سے برابر پانچ وقت اذان کی آواز آتی رہی۔ 121"
نیز ارشاد ہوتا ہے :
جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جنازہ حجرہ مبارک کے سامنے رکھا گیا آواز آئی (ادخلوا الحبیب الی الحبیب) یعنی دوست کو دوست کے پاس لے آؤ۔ 122"
یہ وصف صرف انبیاء کرام علیہم السلام تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ بزرگان دین بھی اس رتبے کے حامل ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
"اللہ کے ولی مرتے نہیں، بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہوتے ہیں۔ ان کی ارواح صرف ایک آن کے لیے خروج کرتی ہیں پھر اسی طرح جسم میں ہوتی ہیں جس طرح پہلے تھیں۔ 123"
بریلویت کے امام اکبر بھی اسی عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
"اولیاء بعد الوصال زندہ اور ان کے تصرفات و کرامات پائندہ۔ اور ان کے فیض بدستور جاری اور ہم غلاموں، خادموں، محبوں، معتقدوں کے ساتھ وہی امداد و اعانت ساری۔ 124"
ان کے ایک پیروکار کا ارشاد سنئے۔ نقل کرتے ہیں : "اولیاء اللہ کی موت مثل خواب کے ہے۔ 125"
جناب خاں صاحب بریلوی فرماتے ہیں : "اولیاء کرام اپنی قبروں میں پہلے سے زیادہ سمع اور بصر رکھتے ہیں۔ 126"
مزید نقل کرتے ہیں :
"اللہ تعالیٰ کے پیارے زندہ ہیں اگرچہ مر جائیں، وہ تو ایک گھر سے دوسرے گھر میں بدلائے جاتے ہیں۔ 127"
ظرافت طبع کے لیے ایک افسانوی قصہ بھی سن لیجئے۔ ایک عارف راوی ہیں :
"مکہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکہ معظمہ میں ایک مرید نے کہا، پیر و مرشد میں کل ظہر کے بعد مر جاؤں گا۔ حضرت ایک اشرفی لے لیں، آدھی میں میرا دفن اور آدھی میں میرا کفن کریں۔ جب دوسرا دن ہوا اور ظہر کا وقت آیا، مرید مذکور نے آ کر طواف کیا، پھر کعبے سے ہٹ کر لیٹا تو روح نہ تھی۔ میں نے قبر میں اتارا، آنکھیں کھول دیں۔ میں نے کہا، "کیا موت کے بعد زندگی؟"
کہا (انا حیّ و کلّ محبّ للہ حیّ )"میں زندہ ہوں اور اللہ تعالیٰ کا ہر دوست زندہ ہے۔ 128"
جناب بریلوی نے اپنی ایک اور کتاب میں عنوان باندھا ہے :
"انبیاء و شہداء اور اولیاء اپنے بدن مع اکفان کے زندہ ہیں۔ 129"
جناب بریلوی کی طرف سے ایک اور افسانہ پیش خدمت ہے۔ ۔ ۔ ۔ کسی بزرگ سے نقل کرتے ہیں :
"میں ملک شام سے بصرہ کو جاتا تھا۔ رات کو خندق میں اترا، وضو کیا، دو رکعت نماز پڑھی، پھر ایک قبر پر سر رکھ کر سوگیا۔ جب جاگا تو صاحب قبر کو دیکھا، مجھ سے گلہ کرتا ہے اور کہتا ہے : (قد اٰ ذیتنی منذ الليلة)130
"اے شخص، تو نے مجھ کو رات بھر ایذا دی۔ 131"
اس طرح کے جھوٹے واقعات، خانہ ساز کرامتوں اور قصے کہانیوں سے ان کی کتب بھری ہوئی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے، افسانہ نگاری میں ان کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر شخص دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتا ہے۔
اس مذہب کے ایک پیروکار افسانہ نگاری کرتے ہوئے کسی بزرگ کے متعلق لکھتے ہیں :
"انتقال کے بعد انہوں نے فرمایا: میرا جنازہ جلدی لے چلو، حضور صلی اللہ علیہ و سلم جنازے کا انتظار فرما رہے ہیں۔ 132"
اس طرح کی اسرائیلی اساطیر اور خود ساختہ واقعات پر انہوں نے اپنے مذہب کی عمارت قائم کی ہے۔
اب ذرا س مشرکانہ عقیدے کے متعلق قرآن کریم کی وضاحت سنئے اور ملاحظہ فرمایئے کہ کس طرح سے ان لوگوں کے رگ و پے میں شرک کے اثرات سرایت کر گئے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوا مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہ اِلیٰ یَوْمِ القيمةِ وَ ہُمْ عَنْ دُعَآئِہِمْ غٰفِلُوْن (سورہ احقاف)
"اور اس سے بڑھ کر اور کون گمراہ ہو گا، جو اللہ کے سوا کسی اور کو پکارے؟ جو قیامت تک بھی اس کی بات نہ سنے، بلکہ انہیں ان کے پکارنے کی خبر تک نہ ہو۔ "
اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
اَیُشْرِکُوْنَ مَا لا یَخْلُقُ شَیْئًا وَّ ہُمْ یُخْلَقُوْنَ وَ لا یَسْتَطِیْعُوْنَ لَہُمْ نَصْرًا وَّ لاا اَنْفُسَہُمْ یَنْصُرُوْنَ وَ اِنْ تَدْعُوْہُمْ اِلَی الْہُدی لا یَتَّبِعُوْکُمْ سَوَآئٌ عَلَیْکُمْ اَدَعَوْتُمُوْہُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ فَادْعُوْہُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ اَلَہُمْ اَرْجُلٌ یَّمْشُوْنَ بِہَآ اَمْ لَہُمْ اَیْدٍ یَّبْطِشُوْنَ بِہَآ اَمْ لَہُمْ اَعْیُنٌ یُّبْصِرُوْنَ بِہَآ اَمْ لَہُمْٰ اذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِہَا قُلِ ادْعُوْا شُرَکَآئَکُمْ ثُمَّ کِیْدُوْنِ فَلا تُنْظِرُوْنِ اِنَّ وَلِیِّ ے َ اﷲُ الَّذِیْ نَزَّلَ الْکِتٰبَ وَ ہُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ وَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہ لایَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَکُمْ وَ لاااَنْفُسَہُمْ یَنْصُرُوْنَ وَ اِنْ تَدْعُوْہُمْ اِلَی الْہُدی لایَسْمَعُوْا وَ تَرٰہُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَ ہُمْ لا یُبْصِرُوْنَ
(اعراف)
"کیا (اللہ کے ساتھ) یہ انہیں شریک کرتے ہیں جو کسی کو پیدا نہ کر سکیں، بلکہ خود ہی پیدا کئے گئے ہیں۔ وہ انہیں کسی قسم کی مدد بھی نہیں دے سکتے (بلکہ) خود اپنی ہی مدد نہیں کر سکتے۔ اور اگر تم انہیں کوئی بات بتلانے کو پکارو تو تمہاری پیروی نہ کر سکیں۔ برابر ہیں (دونوں امر تمہارے اعتبار سے ) کہ خواہ انہیں پکارو، خواہ خاموش رہو۔ بے شک جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ تمہارے ہی جیسے بندے ہیں، سو اگر تم سچے ہو تو تم انہیں پکارو۔ پھر ان کو چاہئے تمہیں جواب دیں کیا ان کے پیر ہیں جن سے وہ چلتے ہیں؟ کیا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ کسی چیز کو پکڑتے ہیں؟ کیا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں؟ کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں؟ آپ کہہ دیجئے کہ تم اپنے سب شریکوں کو بلا لو، پھر میرے خلاف چال چلو اور مجھے مہلت نہ دو۔ یقیناً میرا کارساز اللہ ہے، جس نے مجھ پر یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ صالحین کی کارسازی کرتا ہی رہتا ہے۔ اور جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ نہ تو تمہاری ہی مدد کر سکتے ہیں اور نہ اپنی ہی مدد کر سکتے ہیں۔ اور اگر تم انہیں کوئی بات بتلانے کو پکارو تو وہ سن نہ سکیں، اور آپ انہیں دیکھیں گے گویا آپ کی طرف نظر کر رہے ہیں، درآں حالیکہ انہیں کچھ نہیں سوجھ رہا۔ "
اللہ تعالیٰ قریش مکہ کے مشرکوں کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
ہُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ حَتّیٰ آا اِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَجَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍطيبةٍ وَّ فَرِحُوْا بِہَا جَآئَتْہَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّ جَآئَہُمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّ ظَنُّوْآ اَنَّہُمْ اُحِیْطَ بِہِمْ لا دَعَوُا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ لَئِنْ اَنْجَیْتَنَا مِنْ ہٰذِہ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْن (یونس)
"وہ اللہ ہی ہے جو تم کو خشکی اور سمندر میں لئے لئے پھرتا ہے، چنانچہ جب تم کشتی میں سوار ہوتے ہو اور وہ کشتیاں لوگوں کو ہوائے موافق کے ذریعہ سے لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ اس سے خوش ہوتے ہیں (ناگہاں ) ایک تھپیڑا ہوا کا آتا ہے اور ان کے اوپر ہر طرف سے موجیں اٹھتی چلی آتی ہیں۔ اور وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ بس اب ہم گھر گئے، تو اس وقت اللہ کو اس کے ساتھ اعتقاد کو بالکل خالص کر کے پکارتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس مصیبت سے نجات دلا دی تو ہم یقیناً بڑے شکر گزاروں میں ہوں گے۔ "
یعنی دور جاہلیت کے مشرکین جب کشتی میں سوار ہوتے تھے اور ان کی کشتی گرداب میں پھنس جاتی تھی، تو خالصتاً اللہ تعالیٰ کو پکارتے تھے اور ان کی اصل فطرت ابھر آتی تھی کہ اللہ کے سوا کوئی بھی صاحب تصرف اور مالک ذی اختیار نہیں ہے۔ مگر ذرا ان لوگوں کی سوء الاعتقادی ملاحظہ فرمائیں کہ یہ سمندر میں ہوں یا خشکی کے مقام پر، ہر جگہ کبھی بہاؤ الحق اور معین الدین چشتی کا نام لے کر اور کبھی دوسرے بزرگوں کو پکار کر غیر اللہ ہی سے فریاد کرتے نظر آتے ہیں۔ خود بریلویت کے امام، خاں صاحب بریلوی لکھتے ہیں :
"جب کبھی میں نے استعانت کی، یا غوث ہی کہا۔ 136"
ان کے عقیدے کی تردید کرتے ہوئے حنفی مفسر آلوسی رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
"اس آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ مشرکین اس قسم کے کٹھن حالات میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں پکارتے تھے۔ مگر افسوس ہے ان لوگوں پر کہ مشکل وقت آنے پر غیر اللہ کا سہارا لیتے ہیں اور ان ہستیوں کو پکارتے ہیں جو نہ ان کی آواز سن سکتے ہیں، نہ جواب دے سکتے ہیں، نہ نفع کے مالک ہیں، نہ نقصان کے۔ ان میں سے کوئی خضر و الیاس کے نام کی دہائی دیتا ہے، کوئی ابوالحمیس اور عباس سے استغاثہ (کرتا) اور کوئی اپنے امام کو فریاد کے لئے پکارتا ہے۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی توفیق نہیں ہوتی۔
مجھے بتائیے کہ ان دونوں طریقوں میں سے کون ہدایت کے قریب ہے؟ اور کون ضلالت اور گمراہی کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے؟یقیناً مشرکین مکہ کا عقیدہ ان سے بہتر تھا۔ ان لوگوں نے شریعت کی مخالفت اور شیطان کی اتباع کو نجات کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے۔ خدا سب کو ہدایت دے۔ 137
اسی طرح مصر کے مفکر و عالم دین سید رشید رضا مصری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اس قسم کی آیات میں کس قدر وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے کہ مشرکین دشوار اور کٹھن حالات میں صرف اللہ تعالیٰ کو پکارتے تھے، مگر اس دور کے نام نہاد مسلمانوں کی
عقل کا ماتم کیجئے کہ وہ شدائد و مشکلات کے وقت اپنے معبود حقیقی کو چھوڑ کر اپنے معبودان بدوی، دسوقی، جیلانی، متبولی اور ابوسریع وغیرہ سے استغاثہ کرنے میں کسی قسم کی حیا محسوس نہیں کرتے۔
اور بہت سارے جبہ پوش جو درگاہوں کے مجاور بنے ہوئے ہیں اور غیر اللہ کے نام پر چڑھائے جانے والے چڑھاووں اور نذر و نیاز کی بدولت عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں، انہیں سادہ لوح افراد کو گمراہ کرتے اور دین فروشی کرتے ہوئے ذرا سی شرم بھی محسوس نہیں ہوتی۔
کہا جاتا ہے کہ کچھ افراد سمندر کے سفر میں کشتی پر سوار ہوئے۔ کچھ دور جا کر کشتی بھنور میں پھنس گئی۔ موت سامنے نظر آنے لگی تو ان میں ہر شخص اپنے اپنے پیر کو پکارنے لگا: اے بدوی، اے رفاعی،اے جیلانی۔ ان کے اندر ایک اللہ کا بندہ توحید پرست بھی تھا۔ وہ تنگ آ کر کہنے لگا اللہ ان سب کو غرق فرما، ان کے اندر کوئی بھی تجھے پہچاننے والا نہیں !138"
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سیدھی راہ پر گامزن فرمائے اور شرک و بت پرستی سے محفوظ رکھے۔ آمین!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عقیدہ علم غیب
اہلسنت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام اشیاء کا علم فقط ذات الٰہی کے لئے خاص ہے، عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی کسی شئے کا علم اس وقت تک حاصل نہیں ہوتا، جب تک کہ ان پر وحی نازل نہ ہو جائے۔ انبیاء علیہم السلام کے متعلق علم غیب کا عقیدہ رکھنا اعتراف عظمت نہیں، بلکہ انتہائی گمراہی اور ضلالت ہے۔ سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے واقعات و حقائق کے اور روشن دلائل کے خلاف ہے۔ اور نہ صرف یہ کہ اس میں کتاب و سنت کی مخالفت ہے، بلکہ یہ عقیدہ فقہ حنفی کے بھی مخالف ہے۔
بریلوی حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء و اولیاء کو ہر اس واقعہ کا علم ہے، جو ہو چکا ہے یا ہونے والا ہے۔ ان کی نظر سے کوئی چیز مخفی نہیں سارا عالم ان کی نظر کے سامنے ہے۔ سو وہ دلوں کے حالات کو جاننے والے، ہر راز سے باخبر اور تمام مخلوقات سے واقف ہیں۔ انہیں قیامت کا علم، آنے والے دن کے حالات کی اطلاع ہوتی ہے۔ رحمِ مادر میں جو کچھ ہے، اس سے آشنا ہوتے ہیں۔ ہر حاضر و غائب پر ان کی نظر ہوتی ہے۔
غرضیکہ دنیا میں جو کچھ ہو چکا ہے، جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے، اولیاء سے کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے۔
اب سنئے قرآنی آیات اور اللہ تعالیٰ کے ارشادات، جن سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ علم غیب اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے۔ مخلوق کا کوئی فرد بھی اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں شریک و ساجھی نہیں ہے !
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اﷲُ (النمل)
"نہیں جانتا کوئی بیچ آسمانوں کے اور زمین کے غیب مگر اللہ۔ "
اِنَّ اﷲَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِنَّہ عَلِیْمٌم بِذٰتِ الصُّدُوْرِ (فاطر : 38 )
"تحقیق اللہ جانتا ہے پوشیدہ چیزیں آسمانوں کی اور زمین کی، تحقیق وہ جاننے والا ہے سینے والی بات کو۔ "
اِنَّ اﷲَ یَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اﷲُ بَصِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْن (الحجرات : 8 )
"تحقیق اللہ جانتا ہے پوشیدہ غیب آسمانوں کا اور زمین کا، اور اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ "
وَلِلّٰہِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّہ (ہود )
"اور واسطے اللہ کے ہیں پوشیدہ چیزیں آسمانوں کی اور زمین کی، یعنی علم ان کا! اور طرف اسی کی پھیرا جاتا ہے کام سارا۔ "
اِنَّمَا الْغَیْبُ لِلّٰہِ فَانْتَظِرُوْا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(یونس)
"سوائے اس کے نہیں کہ علم غیب واسطے خدا کے ہے، پس انتظار کرو۔ تحقیق میں بھی ساتھ تمہارے انتظار کرنے والوں میں ہوں "۔
وَعِنْدَہ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لایَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقةٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَ لاحبةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لا رَطْبٍ وَّ لا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(الانعام 59)
" اور پاس اس کے ہیں کنجیاں غیب کی۔ نہیں جانتا ان کو مگر وہ! اور جانتا ہے جو کچھ بیچ جنگل کے ہے اور دریا کے ہے۔ اور نہیں گرتا کوئی پتہ، مگر جانتا ہے اس کو۔ اور نہیں گرتا کوئی دانہ بیچ اندھیروں زمین کے اور نہ کوئی خشک اور نہ گیلی چیز، مگر بیچ کتاب بیان کرنے والی کے ہے۔ "
اور فرمایا:
اِنَّ اﷲَ عِنْدَہ عِلْمُ السَّاعةِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثاَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اﷲَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(لقمان 34 )
"تحقیق اللہ کے پاس ہے علم قیامت کا اور اتارتا ہے بارش، اور جانتا ہے جو کچھ بیچ پیٹوں ماں کے ہے۔ اور جانتا نہیں کوئی جی کیا کماوے گا کل کو؟ اور نہیں جانتا کوئی جی کس زمین میں مرے گا؟ تحقیق اللہ خبردار ہے۔ "
مگر بریلوی حضرات کتاب و سنت کے برعکس عقیدہ رکھتے ہیں کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام روز اول سے روز آخر تک کے تمام "ماکان وما یکون" کو جانتے بلکہ دیکھ رہے ہیں اور مشاہدہ فرما رہے ہیں۔ 146
مزید ارشاد ہوتا ہے :
"انبیاء پیدائش کے وقت عارف باللہ ہوتے ہیں اور جو علم غیب رکھتے ہیں۔ "
نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق امام بریلویت جناب احمد رضا رقمطراز ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام جزئی وکلی علم حاصل ہو گئے اور سب کا احاطہ فرما لیا۔ 148"
ایک دوسری جگہ نقل کرتے ہیں :
"لوح و قلم کا علم، جس میں تمام ماکان و ما یکون ہے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے علوم سے ایک ٹکڑا ہے۔ 149"
مزید لکھتے ہیں :
"حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے علم و انواع میں کلیات، جزئیات، حقائق و دقائق، عوارف اور معارف کہ ذات و صفات الٰہی کے متعلق ہیں اور لوح و قلم کا علم تو حضور کے مکتوب علم سے ایک سطر اور اس کے سمندروں سے ایک نہر ہے، پھر بایں ہمہ وہ حضور ہی کی برکت سے تو ہے۔ حضور کا علم و حلم تمام جہاں کو محیط ہے 150"
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ذات الٰہی کے شانوں اور صفات حق کے احکام اور افعال اور آثار غرض جمیع اشیا کا علم اور حضور نے جمیع علوم اول و آخر ظاہر و باطن کا احاطہ فرمایا۔ 151"
جناب بریلوی کے ایک معتقد ارشاد فرماتے ہیں :
"نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم سے عالم کی کوئی شئے پردہ میں نہیں ہے۔ یہ روح پاک عرش اور اس کی بلندی و پستی، دنیا و آخرت، جنت و دوزخ سب پر مطلع ہے۔ کیونکہ یہ سب اسی ذات جامع کمالات کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ 152"
مزید لکھتے ہیں :
"جناب رسالت ماّب صلی اللہ علیہ و سلم کا علم تمام معلومات غیبیہ و لدنیہ پر محیط ہے۔ 153"
ایک اور بریلوی ارشاد کرتے ہیں :
"حضور صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کو بھی جانتے ہیں اور تمام موجودات، مخلوقات، ان کے جمیع احوال کو بتمام و کمال جانتے ہیں۔ ماضی، حال، مستقبل میں کوئی شئے کسی حال میں ہو، حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے مخفی نہیں۔ 154"
ایک اور بریلوی مفکر اس پر بھی سبقت لے جاتے ہوئے یوں گویا ہے :
" حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے ایسا علم غیب بخشا کہ آپ پتھر کے دل کا حال بھی جانتے تھے تو ان کو سرکار اپنے عشاق انسانوں کے دلوں کا پتہ کیوں نہ ہو گا؟155"
مزید ارشاد ہوتا ہے :
" جس جانور پر سرکار قدم رکھیں، اس کی آنکھوں سے حجاب اٹھا دیے جاتے ہیں۔ جس کے دل سر پر حضور کا ہاتھ ہو، اس پر سب غائب و حاضر کیوں نہ ظاہر ہو جائے؟156"
خود امام بریلویت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ذات پر جھوٹ باندھتے ہوئے فرماتے ہیں :
"صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یقین کے ساتھ حکم لگاتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو غیب کا علم ہے۔ 157"
قرآن کریم کی صریح مخالفت کرتے ہوئے بریلویت کا یہ عقیدہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ان پانچ مخفی امور کا بھی علم تھا، جو قرآنی آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اِنَّ اﷲَ عِنْدَہ عِلْمُ السَّاعةِ وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثاَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ اِنَّ اﷲَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ(لقمان 34 )
"تحقیق اللہ کے پاس ہے علم قیامت کا اور اتارتا ہے بارش، اور جانتا ہے جو کچھ بیچ پیٹوں ماں کے ہے۔ اور نہیں جانتا کوئی جی کیا کماوے گا کل کو؟ اور نہیں جانتا کوئی جی کس زمین میں مرے گا؟ تحقیق اللہ جاننے والا خبردار ہے۔ "
اَﷲُ یَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ کُلُّ اُنثیٰ وَ مَا تَغِیْضُ الْاَرْحَامُ وَ مَا تَزْدَادُ وَ کُلُّ شَیْئٍ عِنْدَہ بِمِقْدَارٍ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّہَادَۃِ الْکَبِیْرُ الْمُتَعَال(رعد 8-9)
"اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ کہ اٹھاتی ہے ہر عورت، اور جو کچھ کہ کم کرتے ہیں رحم اور جو کچھ بڑھاتے ہیں، اور ہر چیز نزدیک اس کے اندازے پر ہے۔ جاننے والا ہے پوشیدہ اور ظاہر کا، بڑا بلند!"
اِنَّ السَّاعةَٰاتيةٌ اَکَادُ اُخْفِیْھَا لِتُجْزیٰ کُلُّ نَفْسٍم بِمَا تَسْعیٰ(طہ15 )
"تحقیق قیامت آنے والی ہے۔ نزدیک ہے کہ چھپا ڈالوں میں اس کو، تاکہ بدلا دیا جائے ہر جی ساتھ اس چیز کے کہ کرتا ہے۔ "
اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعةِ اَیَّانَ مُرْسٰہَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ لااَ یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَآ اِلَّا ہُوَ ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ لااَ تَاْتِیْکُمْ اِلَّابغتةً یَسْئَلُوْنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اﷲِ وَٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لااَ یَعْلَمُوْنَ۔ (الاعراف:187)
"یہ لوگ آپ سے قیامت کی بابت دریافت کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہو گا؟ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کہہ دیجئے کہ اس کا علم بس میرے پروردگار ہی کے پاس ہے۔ اس کے وقت پر اسے کوئی نہ ظاہر کرے گا بجز اس اللہ کے، بھاری حادثہ ہے وہ آسمانوں اور زمین میں، وہ تم پر محض اچانک ہی آ پڑے گی۔ آپ سے دریافت کرتے بھی ہیں تو اس طرح کہ گویا آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اس کی تحقیق کر چکے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کہہ دیجئے کہ اس کا علم تو بس اللہ ہی کے پاس ہے، لیکن اکثر لوگ (یہ بھی ) نہیں جانتے۔ "
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
یَسْئَلُکَ النَّاسُ عَنِ السَّاعةِط قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اﷲِ(الاحزاب : 63 )
"یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے اس کا علم تو بس اللہ ہی کو ہے۔ "
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضی اَجَلا وَ اَجَلٌ مُّسَمًّی عِنْدَہ ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْن(الانعام : 2 )
"وہ اللہ ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا۔ پھر ایک وقت مقرر کیا اور متعین وقت اسی کے علم میں ہے۔ ۔ ۔ ۔ پھر بھی تم شک رکھتے ہو؟
وَعِنْدَہ عِلْمُ السَّاعةِ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ۔ (الزخرف85)
"اور اسی کو قیامت کی خبر ہے اور اسی کی طرف تم سب واپس کئے جاؤ گے۔ "
وَعِنْدَہ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لااَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُو۔ (الانعام59)
"اور اس کے پاس ہیں غیب کے خزانے، انہیں بجز اس کے کوئی نہیں جانتا۔ "
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے فرمان میں واضح کر دیا ہے کہ یہ غیبی امور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں۔ چنانچہ مشہور حدیث جبریل علیہ السلام اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جب جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے قیامت کے متعلق دریافت فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا:
[ما المسؤل عنھا باعلم من السائل و ساخبرک عن اشراطہا اذا ولدت الامةربّھا الخ ]
یعنی"مجھے اس کے وقوع کا علم نہیں، البتہ اس کی نشانیاں آپ کو بتلا دیتا ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
(ان اﷲ عندہ علم الساعة)166
اسی طرح رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے آپ نے فرمایا"غیب کی پانچ کنجیاں ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا رحم مادر میں جو کچھ ہے، آنے والے کل کے واقعات، بارش ہو گی یا نہیں، موت کہاں آئے گی، قیامت کب قائم ہو گی؟167"
مزید برآں حضرت جابر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اپنی وفات سے ایک ماہ قبل ارشاد فرمایا :"تم مجھ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہو حالانکہ اس کا علم تو سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے کسی کو نہیں۔ 168"
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:"پانچ چیزوں کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے پاس نہیں :
وقت قیامت،نزول بارش،مافی الارحام،واقعات،واقعات مستقبل اور مقام موت 169"
آیات قرآنیہ اور اس مفہوم کی بہت ساری احادیث کتب حدیث میں موجود ہیں، مگر بریلوی حضرات تعلیمات نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پس پشت ڈالتے ہوئے بالکل اس کے برعکس عقیدہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ احمد رضا بریلوی صاحب لکھتے ہیں :
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم دنیا سے تشریف لے گئے، مگر بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو ان پانچ غیبوں کا علم دے دیا۔ 170"
مزید ارشاد ہوتا ہے :
"حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو پانچوں غیبوں کا علم تھا، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان سب کو مخفی رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔ 171"
ایک دوسرے بریلوی کا ارشاد سنئے۔ لکھتے ہیں :
"حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو تمام گزشتہ اور آئندہ واقعات، جو لوح محفوظ میں ہیں، ان کا بلکہ ان سے بھی زیادہ کا علم ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قیامت کا بھی علم ملا کہ کب ہو گی۔ 172"
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
حضور علیہ السلام مخلوق کے پہلے کے حالات جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے مخلوقات کو پیدا کرنے کے پہلے کے واقعات اور ان کے پیچھے کے حالات بھی جانتے ہیں۔ قیامت کے احوال، مخلوق کی گھبراہٹ اور رب تعالیٰ کا غضب وغیرہ۔ "
"حضور علیہ السلام لوگوں کے حالات کا مشاہدہ فرمانے والے ہیں اور ان کے حالات جانتے ہیں۔ ان کے حالات ان کے معاملات اور ان کے قصے وغیرہ اور ان کے پیچھے کے حالات بھی جانتے ہیں۔ آخرت کے احوال، جنتی اور دوزخی لوگوں کے حالات! اور وہ لوگ حضور علیہ السلام کی معلومات میں سے کچھ بھی نہیں جانتے، مگر اسی قدر جتنا کہ حضور چاہیں۔ اولیاء اللہ کا علم علم انبیا علیہم السلام کے سامنے ایسا ہے، جیسے ایک قطرہ سات سمندروں کے سامنے اور انبیاء علیہم السلام کا علم حضور علیہ السلام کے علم کے سامنے اسی درجہ کا ہے۔ 173"
اور سنئے :
حضور علیہ السلام کی زندگی اور وفات میں کوئی فرق نہیں۔ اپنی امت کو دیکھتے ہیں اور ان کے حالات و نیات اور ارادے اور دل کی باتوں کو جانتے ہیں۔ 174"
ایک اور صاحب فرماتے ہیں :
"حضور صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ منورہ میں رہ کر ذرے ذرے کا مشاہدہ فرما رہے ہیں۔ 175"
بریلویت کے ایک اور پیروکار حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"میرا علم میری وفات کے بعد اسی طرح ہے جس طرح میری زندگی میں تھا۔ 176"
اسی پر بس نہیں، جناب احمد رضا خاں صاحب بریلوی غیوب خمسہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :
"حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ صرف یہ کہ خود ان باتوں کا علم ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جسے چاہیں عطا کر دیں۔ 177"
ایک اور بریلوی ارشاد کرتے ہیں :
"قرآنی آیت (وَھْوَ بِکْلِّ شَیئٍ عَلِیمٌ) سے مراد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہر چیز کو جانتے ہیں۔ 178"
قرآن کریم کی تحریف کرتے ہوئے ان مدعیان علم و فضل کو ذرا سا بھی خوف خدا محسوس نہیں ہوتا آہ۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ان کے نزدیک غیوب خمسہ کا علم فقط نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک محدود نہیں ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت میں سے بہت سے دوسرے افراد بھی اس صفت الٰہیہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے شریک ہیں۔ چنانچہ امام بریلویت جناب احمد رضا صاحب بریلوی نقل کرتے ہیں :
"قیامت کب آئے گی؟ مینہ کب کتنا برسے گا؟ مادہ کے پیٹ میں کیا ہے؟ کل کیا ہو گا؟ فلاں کہاں مرے گا؟ یہ پانچوں غیب جو آیہ کریمہ میں مذکور ہیں، ان سے کوئی چیز حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر مخفی نہیں اور کیوں کر یہ چیزیں حضور سے پوشیدہ ہو سکتی ہیں، حالانکہ حضور کی امت سے ساتوں قطب ان کو جانتے ہیں اور ان کا مرتبہ غوث کے نیچے ہے۔ غوث کا کیا کہنا! پھر ان کا کیا پوچھنا جو اگلوں، پچھلوں، سارے جہان کے سردار اور ہر چیز کے سبب ہیں اور ہر شئے انہی سے ہے۔ 179"
مزید سنئے اور اندازہ لگائیے، شیطان نے صریح قرآنی آیات کے مقابلہ میں انہیں بصارت و بصیرت سے کس طرح محروم کر رکھا ہے؟
یہ لوگ اتباع شیطان کو دین کا نام دے کر خود بھی گمراہی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور سادہ لوح عوام کی گمراہی کا سبب بھی بنے ہوئے۔ ارشاد ہوتا ہے :
"ان پانچوں غیبوں کا معاملہ حضور علیہ السلام پر کیوں چھپا ہے؟ حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم امت مرحومہ میں کوئی صاحب تصرف تصرف نہیں کر سکتا، جب تک کہ ان پانچوں کو نہ جانے۔ تو اے منکرو! ان کلاموں کو سنو اور اولیاء اللہ کی تکذیب نہ کرو۔ 180،،
ملاحظہ فرمائیے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم عالم الغیب ہیں اور اس کی دلیل نہ قرآنی آیت، نہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم بلکہ دلیل اور حجت و برہان یہ ہے کہ اولیاء کرام کو غیب کا علم ہے۔ اور چونکہ اولیاء غیب دان ہیں، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی عالم الغیب ہیں۔ یہ ہیں وہ "منطقی دلائل" جن پر ان کے عقائد کی عمارت ایستادہ ہے۔ سچ ہے :
وَ اِنَّ اَوْہَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْت(العنکبوت41)
ایک اور دلیل سنئے :
"ہم نے ایسی جماعتوں کو دیکھا ہے کہ جنہوں نے جان لیا کہ کہاں مریں گے؟ اور حالت حمل میں اور اس سے پہلے یہ معلوم کر لیا کہ عورت کے پیٹ میں کیا ہے۔ لڑکا یا لڑکی؟ کہئے اب بھی آیت کے معنی معلوم ہوئے یا کچھ تردد باقی ہے؟181"
یعنی اگرچہ آیت کریمہ میں بڑی وضاحت سے مذکور ہے کہ ان غیبی امور کو اللہ کی ذات کے سوا کوئی نہیں جانتا،مگر چونکہ بریلوی حضرات میں ایسے اصحاب معرفت اور اہل اللہ موجود ہیں، جنہیں ان باتوں کا پہلے سے علم ہو جاتا ہے، لہٰذا بلا تردد یہ ماننا پڑے گا کہ علم غیب غیر اللہ کو بھی حاصل ہے اس عقیدے کے لیے اگر قرآنی مفہوم میں تبدیلی بھی کرنا پڑے، تو بریلوی مذہب میں جائز ہے۔
خوف خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرم، سرور(ص) کون ومکان گئی(اِذَ لَم تَستَحِ فَاصنَع مَا شِئتَ)
ان واضح دلائل کے بعد اگر اب بھی آپ کو تردد ہے، تو ایک اور دلیل سن لیجئے، بریلویت کے ایک امام نقل کرتے ہیں :
"میں نے اولیاء سے بہت سنا ہے کہ کل کو مینہ برسے گا یا رات کو؟ پس برستا ہے یعنی اس روز کہ جس روز کی انہوں نے خبر دی۔ میں نے بعض اولیاء سے یہ بھی سنا کہ انہوں نے ما فی الرحم کی خبر دی کہ پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی؟ اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ انہوں نے جیسی خبر دی، ویسا ہی وقوع میں آیا۔ 182"
اگر اب بھی کوئی شک باقی ہو تو ایک حکایت سن لیجئے، تاکہ قرآنی آیات اور نبوی صلی اللہ علیہ و سلم تعلیمات کے مطالعہ کے بعد آپ کے عقائد میں جو "فساد" پیدا ہو گیا ہے، اس کی اصلاح ہو جائے۔ جناب احمد رضا بریلوی لکھتے ہیں :
"ایک دن شیخ مکارم رضی اللہ عنہ نے کہا، عنقریب یہاں تین اشخاص آئیں گے اور وہ یہیں پہ مریں گے، فلاں اس طرح اور فلاں اس طرح۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ تینوں اشخاص آ گئے اور پھر ان کی موت بھی وہیں ہوئی۔ اور جس طرح انہوں نے بیان کیا تھا، اسی طرح ہوئی(ملحضاً)۔ 183"
یہ ہیں ان کے باطل شکن دلائل، جنہیں تسلیم نہ کرنا اولیاء کرام کی گستاخی ہے۔ واضح دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے جناب احمد رضا بریلوی شیخ جیلانی رحمہ اللہ علیہ کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے :
"آفتاب طلوع نہیں ہوتا، یہاں تک کہ مجھ پر سلام کرے، نیا سال جب آتا ہے مجھ پر سلام کرتا اور مجھے خبر دیتا ہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے، نیا ہفتہ جب آتا ہے مجھ پر سلام کرتا ہے اور مجھے خبر دیتا ہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے، نیا دن جو آتا ہے مجھ پر سلام کرتا ہے اور مجھے خبر دیتا ہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے۔ مجھے اپنے رب کی عزت کی قسم کہ تمام سعید و شقی مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں۔ میری آنکھ لوح محفوظ پر لگی ہوئی ہے، یعنی لوح محفوظ میرے پیش نظر ہے۔ میں اللہ عزوجل کے علم و مشاہدہ سے دریاؤں میں غوطہ زن ہوں۔
میں تو سب پر حجت الٰہی ہوں۔ بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نائب اور میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا وارث ہوں۔ 184"
کذب و افتراء کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو:
حضور پر نور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، اگر میری زبان پر شریعت کی نوک نہیں ہوتی تو میں خبر دیتا جو کچھ تم کھاتے اور جو کچھ اپنے گھروں میں اندوختہ کر کے رکھتے ہو۔ تم میرے سامنے شیشے کی مانند ہو۔ میں تمہارا ظاہر و باطن سب دیکھ رہا ہوں۔ 185"
بریلویت کا ایک پیروکار کہتا ہے
"دلوں کے ارادے تمہاری نظر میں عیاں​
تم پر سب بیش و کم غوث اعظم186 علم غیب چند مخصوص "اولیاء " تک ہی محدود نہیں، بلکہ سارے پیر اور مشائخ اس میں شامل ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
"آدمی کامل نہیں ہوتا، جب تک اس کو اپنے مرید کی حرکتیں اس کے آباء کی پیٹھ میں نہ معلوم ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب تک یہ نہ معلوم کرے کہ یوم الست سے کس کس پیٹھ میں ٹھہرا، اور اس نے کس وقت حرکت کی؟ یہاں تک کہ اس کے جنت یا دوزخ میں قرار پکڑنے تک کے حالات جانے .187"
جناب احمد رضا بریلوی کا فرمان سنئے :
کامل کا دل تمام عالم علوی و سفلی کا بروجہ تفصیل آئینہ ہے۔ 188"
یعنی مرد کامل دنیا و آخرت کے تمام واقعات و شواہد کی تفصیل سے واقف ہوتا ہے۔ زمین و آسمان میں رونما ہونے والا کوئی واقعہ اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو، اسے ہر ظاہر و خفی کا علم ہوتا ہے۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اس قسم کی خرافات و ترہات کی نشر و اشاعت کر کے مسلمانوں کو گمراہ کرنے والے اپنے آپ پر اسلام کا لیبل چسپاں کرنے میں ذرا سی بھی خفت محسوس نہیں کرتے۔
مزید ارشاد ہوتا ہے ؛
مردہ وہ ہوتا ہے جسے عرش اور جو کچھ اس کے احاطہ میں ہے آسمان و جنت و نار یہ چیزیں محدود مقید کر لیں۔ مرد وہ ہے جس کی نگاہ تمام عالم کے پار گزر جائے یعنی مکمل علم غیب کے حصول کے بغیر کوئی شخص ولی اللہ نہیں ہو سکتا۔ 189"
اور سنئے :
ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں مومن کامل کی وسعت نگاہ میں ایسے ہیں، جیسے ایک لق و دق میدان میں ایک چھلا پڑا ہو۔ 190"
ایک اور بریلوی یوں سخن طراز ہیں :
"کامل بندہ چیزوں کی حقیقتوں پر مطلع ہو جاتا ہے اور اس پر غیب اور غیب الغیب کھل جاتے ہیں۔ 191"
"غیب الغیب" سے کیا مراد ہے یہ ماہرین بریلویت ہی بتلا سکتے ہیں۔
مزید برآں بہت سی حکایات و اساطیر بھی ان کی کتب میں ملتی ہیں، جن سے استدلال کرتے ہیں کہ اولیاء سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ انہیں ہر صغیر و کبیر کا علم ہے۔ ہم بعض حکایات ایک مستقل باب میں بیان کریں گے۔ ایسے واقعات سے بھی ان کی کتب بھری پڑی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اولیاء کے حیوانات اور ان کے مویشیوں کو بھی غیب کا علم ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان خرافات اور شرکیہ عقائد سے محفوظ رکھے۔ آمین! جہاں تک کتاب و سنت کی نصوص کا تعلق ہے، ان میں صراحتاً اس عقیدے کی تردید کی گئی ہے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ لِلّٰہ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَآ اَمْرُ السَّاعةِ اِلَّا کَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ ہُوَ اَقْرَبُ اِنَّ اﷲَ عَلیٰ کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر۔ (النحل : 77 )
"اور اللہ ہی کے لیے خاص ہیں آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ باتیں اور قیامت کا معاملہ بھی ایسا ہو گا جیسے آنکھ کا جھپکنا، بلکہ، اس سے بھی جلد تر، (الکہف) بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ "
"اسی کے لیے علم غیب آسمانوں اور زمینوں کا ہے۔ وہ کیا کچھ دیکھنے والا ہے، اور کیا کچھ سننے والا!"
اِنَّ اﷲَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِنَّہ عَلِیْمٌ بِذٰتِ الصُّدُوْرِ(فاطر 38)
"بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کے غیب کا عالم ہے۔ وہ تو سینوں کے بھید بھی جانتا ہے۔ "
یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَ مَا خَلْفَہُمْ وَ لااَ یُحِیْطُوْنَ بِہ عِلْمًا(طہ110)
"وہ جانتا ہے سب کے اگلے پچھلے حالات کو اور (لوگ) اس کا (اپنے ) علم سے احاطہ نہیں کر سکتے۔ "
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم فرمایا کہ لوگوں کو بتا دیں :
قُلْ لَّاآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لااَ ضَرًّا اِلَّا مَا شَآئَ اﷲُ وَ لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لااَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوء اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(الاعراف188)
"آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لیے بھی کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی جتنا اللہ چاہے۔ اگر میں غیب کو جانتا ہوتا تو اپنے لیے بہت سا نفع حاصل کر لیتا اور کوئی تکلیف مجھ پر واقع نہ ہوتی۔ میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں، ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں۔ "
قُلْ لَّاآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِندِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَ لااَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لااَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَک اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحیٰ اِلَیَّ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمیٰ وَ الْبَصِیْرُ اَفَلااَا تَتَفَکَّرُوْنَ(الانعام50)
آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے یہ تو نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں بس اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پاس آتی ہے۔ آپ کہئے کہ اندھا اور بینا کہیں برابر ہو سکتے ہیں تو کیا تم غور نہیں کرتے؟"
اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو متنبہ اور مخلوق کو خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم غیب نہیں جانتے :
یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اﷲُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ وَ اﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْم (التحریم1)
"اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم جس چیز کو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے حلال کیا ہے، اسے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کیوں حرام کر رہے ہیں؟ اپنی بیویوں کی خوشی حاصل کرنے کے لیے اور اللہ بڑا مغفرت والا ہے بڑا رحم والا ہے۔ "
اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے علم غیب کی نفی اپنے اس فرمان میں نفی کی ہے :
وَ مِنْ اَہْلِ الْمَدِينةِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لا تَعْلَمُہُمْ نَحْنُ نَعْلَمُہُم (التوبة101)
"مدینہ والوں میں سے کچھ (ایسے ) منافق ہیں (کہ) نفاق میں اڑ گئے ہیں۔ آپ انہیں نہیں جانتے۔ ہم، انہیں جانتے ہیں۔"
عَفَا اﷲُ عَنْکَ لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ حتیٰ یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ(التوبة43)
"اللہ نے آپ کو معاف کر دیا (لیکن) آپ نے ان کو اجازت کیوں دے دی تھی، جب تک آپ پر سچے لوگ ظاہر نہ ہو جاتے اور آپ جھوٹوں کو جان لیتے؟"
اسی طرح اللہ نے اپنے دیگر رسولوں سے بھی علم غیب کی نفی کی اور ارشاد فرمایا۔ "
یَوْمَ یَجْمَعُ اﷲُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْا لا عِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ (المائدۃ109)
"جس دن اللہ پیغمبروں کو جمع کرے گا، پھر ان سے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب ملاتھا؟وہ عرض کریں گے کہ ہم کو علم نہیں۔ چھپی ہوئی باتوں کو خوب جاننے والا بس تو ہی ہے۔ "
اسی طرح اللہ نے اپنے اس قول میں فرشتوں سے علم غیب کی نفی کی ہے :
قَالُوْا سُبْحٰنَکَ لا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ (البقرۃ32)
"وہ بولے تو پاک ذات ہے، ہمیں کچھ علم نہیں مگر ہاں وہی جو تو نے علم دے دیا، بیشک تو ہی بڑا علم والا، حکمت والا۔ "
اسی طرح انبیاء و رسل کے واقعات و شواہد بھی اس بات کی بین دلیل ہیں کہ انہیں غیب کا علم نہیں تھا، اور خود سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم کے واقعات بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔ مثلاً ستر قراء کی شہادت کا واقعہ اور حادثہ عرنبین وغیرہ۔ ان تمام واقعات و جزئیات پر ذرا سا غور کر لینے سے یہ بات واضح اور عیاں ہو جاتی ہے کہ علم غیب فقط اللہ تعالیٰ کی ذات تک ہی محدود ہے اور ا س کی اس صفت میں کوئی نبی، ولی اس کا شریک اور ساجھی نہیں۔
لیکن بریلوی قوم کو یہ اصرار ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام اور بزرگان دین اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں اس کے شرکاء ہیں۔ اور جو یہ عقیدہ نہیں رکھتا، وہ ان کا گستاخ ہے۔ حتیٰ کہ بریلوی حضرات نے مختلف من گھڑت واقعات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ احمد رضا کو اپنی موت کے وقت کا پہلے ہی علم تھا۔ 202
انبیاء و اولیاء کی شان میں غلو سے کام لینا اور ان کے لیے وہ صفات و اختیارات ثابت کرنا، جو فقط ربّ کائنات کے ساتھ ہی مخصوص ہیں، ان کا احترام نہیں بلکہ قرآن و حدیث سے صریح بغاوت ہے۔ اسی بناء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے مجھے جو رتبہ عطا فرمایا ہے، میری ذات کو اس سے نہ بڑھاؤ۔ 203"
میری ذات کے بارے میں غلو و مبالغہ سے کام نہ لو، جیسا کہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا۔ 204"
اور جب مدینہ منورہ میں کسی بچی نے ایک شعر پڑھا، جس کا مفہوم یہ تھا کہ ہمارے اندر ایسا نبی صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہے جو آنے والے کل کے واقعات کو جانتا ہے، تو یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فوراً ٹوکا اور اس شعر کو دوبارہ دہرانے سے منع فرمایا۔ اور ارشاد کیا کہ (لَا یَعلَمْ مَا فِی غَدٍ اِلَّا اللہ) ہونے والے واقعات کی خبر اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی کو نہیں۔ 205"
اب آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ اللہ تعالیٰ کا قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان برحق ہے یا یہ راہنمایان بریلویت؟
فیصلہ کرنے سے قبل امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا صریح، واضح اور بین ارشاد بھی سن لیجئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔،
آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
"جو یہ کہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم غیب جانتے ہیں، وہ جھوٹا ہے۔ غیب کا علم اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کسی اور کو نہیں ہے۔ 206"
قرآنی آیات، احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم اور پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس واضح ارشاد کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ نہ صرف تمام انبیائے کرام علیہم السلام، بلکہ تمام "بزرگان دین" بھی غیب جانتے ہیں، تو آپ ہی فیصلہ فرمائیں کہ ان کے عقائد کا شریعت اسلامیہ سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات
60(الاستمداد علی اجیال الارتداد) للبریلوی ص 32،33۔
61(الاستمداد علی اجیال الارتداد) للبریلوی ص 32،33۔
62الامن والعلی ص 105۔
63فتاویٰ الرضویہ ج1 ص 577۔
64مواعظ نعیمیہ ص 27 پاکستان۔
65مواعظ نعیمیہ ص 41۔
66مواعظ نعیمیہ ص 336۔
67الفتاویٰ الرضویہ ج6 ص 155۔
68انواررضا 240 مقالہ اعجاز البریلوی۔
69بہار شریعت امجد علی جزء ا ص 15۔
70بہار شریعت امجد علی جزء 1 ص 15۔
71جاء الحق احمد یار البریلوی ص 195۔
72جاء الحق احمد یار البریلوی 195،196۔
73الامن والعلی از احمد رضا ص 57۔
74الامن والعلی للبریلوی ص 57۔
75حدائق بخشش للبریلوی ص 28۔
76ایضاً125،126۔
77ایضاً ص 182۔
78حدائق بخشش للبریلوی ص 179۔
79ایضاً ص 184۔
80ایضاً ص 179۔
81ایضاً ص 179۔
82(الزمزمتہ القمریہ فی الذب عن الخمر)ص356۔
83(خالص الاعتقاد)للبریلوی ص 49۔
84(حکایات رضویہ) للبرکاتی منقولہ عن (ملفوظات)للبریلوی ص 125۔
85(باغ فردوس)ایوب علی رضوی البریلوی ص 26 بریلی الہند۔
86ایضاً 26۔
87(الامن والعی للبریلوی ص 109۔
88(الاستمداد) الھوامش 35،36۔
89ایضاًص 34۔
90(الامن والعلی) ص 34۔
91(الحکایات الرضویہ)ص 44۔
92حکایات رضویہ ص 102۔
93ایضاً ص 129 ط لاہور۔
94(جاء الحق)احمد یار ص197۔
95رسول الکلام از دیدار علی للبریلوی ص 125 ط لاہور۔
96(بہار شریعت)جز اول ص 6۔
97(فتاویٰ نعیمیہ)ص 249۔
98ملاحظہ ہو(مدائح اعلیٰ حضرت) ایوب رضوی ص 5۔
99(مدائح اعلیٰ حضرت) ایوب رضوی ص 4،5۔
100(باغ فردوس( ایوب رضوی ص 4۔
101(مدائح اعلیٰ حضرت)ص23۔
102(ایضاً)ص 54۔
103(نغمۃ الروح) اسماعیل رضوی ص 44،45۔
104(ایضاً) نور محمد اعظمی ص 47،48۔
105فتح البیان، نواب صدیق حسن خان ج 4 ص 225
106فتاویٰ شیخ الاسلام ج1 ص 112۔
107بہار شریعت از امجد علی ص 58۔
108ایضاً ص 18،19
109علم القرآن از احمد یار ص 189۔
110ازالۃ اضلالۃ از مفتی عبدالقادر ص 67 طبع لاہور۔
111نبی صلی اللہ علیہ و سلم چاند کو خطاب کر کے فرمایا کرتے تھے۔،،ربی و ربک اللہ،، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو زمین کو مخاطب ہو کر فرمایا کرتے تھے۔،،یا ارض ربی وربک اعوذ باللہ من شرک،، بہرحال ضروری نہیں کہ خطاب اسے ہی کیا جائے جو سنتا ہے۔
112فتاویٰ رضویہ جلد 4 ص 227۔
113حکایات رضویہ 57۔
114فتاویٰ نوریہ نور اللہ قادری ص 527۔
115ملفوظات للبریلوی جز3 ص 276۔
116رسول الکلام دیدار علی ص1۔
117حیات النبی صلی اللہ علیہ و سلم کاظمی ص 3 ط ملتان۔
118رسالہ فی الفی عمن انار نبورہ کل شی للبریلوی المندرجتہ فی مجموعۃ رسائل رضویہ ص 17،221، حیات النبی للکاظمی ص 47۔
119حیات النبی صلی اللہ علیہ و سلم ص 104۔
120جاء الحق احمد یار بریلوی ص 151،150۔
121بادیۃً الطریق التحقیق والتقلید، دیدار علی ص 86۔
122حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم ص 125۔
123فتاویٰ نعیمیہ اقتدار بن احمد یار بریلوی ص 345۔
124فتاویٰ رضویہ ج4 ص 236۔
125فتاوی نعیمیہ ص 245۔
126حکایات رضویہ ص 44۔
127احکام قبور مومنین مندرجہ رسائل رضویہ ص 243۔
128احکام قبور مؤمنین، رسائل رضویہ 245۔
129ایضاً ص 239۔
130ایضاً
131احکام قبور مؤمنین ص 247۔
132حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم بریلوی ص 46۔
136ملفوظات ص 307۔
137نقلا عن الاویت المیتات فی عدم سماع الاموات مقدمہ ص 17۔
138تفسیر المنار ج 11 ص 338،339۔
146الدولتہ المکیۃ بالمادہ الغیبیہ
148الدولۃ المکیۃ ص 320۔
149خالص الاعتقاد بریلوی ص 38۔
150ایضاً ص 38۔
151۔ الدولتہ المکیۃ ص 210۔
152الکلمۃ العلیاء لاعلاء علم المصطفیٰ نعیم مراد آبادی ص14۔
153ایضا56۔
154تسکین الخواطر فی مسئلہ الحاظر والناظر، احمد سعید کاظمی ص 45۔
155مواعظ نعیمیہ، اقتدار بن احمد یار ص 192۔
157خالص الاعتقاد ص 28۔
166رواہ البخاری۔
167بخاری،مسلم،مسند احمد۔
168مسلم۔
169مسند احمد،ابن کثیر،فتح الباری۔
170خالص الاعتقادص 53۔
171خالص الاعتقاد ص 56(الدولتہ المکیتہ بالمادہ الغیبیہ ص 441)۔
172جاء الحق ص 43۔
173جاء الحق 50،51۔
174خالص الاعتقاد ص 39،جاء الحق ص 151۔
175مواعظ نعیمیہ احمد یار ص 326۔
176رسول الکلام لبیان الحواروالقیام لدیدار علی ص1۔
177خالص الاعتقاد بریلوی ص 14۔
178تسکین الخواطر کاظمی بریلوی ص 52،53۔
179خالص الاعتقاد 53،54۔
180ایضاً ص 54، الدولتہ المکیتہ ص 48۔
181خالص الاعتقاد بریلوی ص 53، الکلمۃ العلیا مراد آبادی ص35۔
182الکلمۃ العلیاء ص 94،95۔
183الدولتہ المکیتہ از بریلوی ص 162۔
184الامن والعلی بریلوی ص 109(ایضاً الکلمۃ العلیا) مراد آبادی 47،خالص الاعتقاد بریلوی ص 49۔
185خالص الاعتقاد ص 49۔
186باغ فردوس ایوب رضوی بریلوی ص40۔
187الکلمۃ العلیا مراد آبادی ص 49، تسکین الخواطر کاظمی ص 146، جاء الحق ص 87۔
188خالص الاعتقاد ص 51۔
189ایضاً۔
190خالص الاعتقاد ص 57۔
191جاء الحق ص 85۔
202وصایا بریلوی ص 7۔
203احمد،بہیقی۔
204مجمع الزوائد۔
205ابن ماجہ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
باب 3: مسئلہ حاضر و ناظر
اوپر گزر چکا ہے کہ بریلویت کے افکار و عقائد بعید از عقل اور انسان کی فہم سے بالا تر ہیں۔ انہی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ ہے کہ متبعین بریلویت کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں اور ایک وقت میں اپنے جسم مبارک سمیت کئی مقامات پر موجود ہو سکتے ہیں۔
یہ عقیدہ نہ صرف یہ کہ کتاب و سنت کی صریح مخالفت پر مبنی ہے بلکہ عقل و خرد اور فہم و تدبر سے بھی عاری ہے۔ شریعت اسلامیہ اس قسم کی بودی اور ہندوانہ عقائد سے بالکل مبّرا و منزہ ہے۔
بریلوی حضرات عقیدہ رکھتے ہیں :
"کوئی مقام اور کوئی وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے خالی نہیں۔ 239"
مزید سنئے :
"سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی قوت قدسیہ اور نور نبوت سے یہ امر بعید نہیں کہ آن واحد میں مشرق و مغرب، جنوب و شمال، تحت و فوق، تمام جہات وامکنہ، بعیدہ متعددہ میں سرکار اپنے وجود مقدس بعینہ یا جسم اقدس مثالی کے ساتھ تشریف فرما ہو کر اپنے مقربین کو اپنے جمال کی زیارت اور نگاہ کرم کی رحمت و برکت سرفراز فرمائیں۔ 240"
یعنی آن واحد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنے جسم اطہر کے ساتھ لاتعداد مقامات پر موجود ہونا امر بعید نہیں۔
یہ عقیدہ کتاب و سنت، شریعت اسلامیہ، فرامین الٰہیہ، ارشادات نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم اور عقل و فکر سے تو بعید ہے۔ ہاں امام بریلویت جناب احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی شریعت اور ان کے خود ساختہ فلسفے میں یہ "امر بعید" نہ ہو تو الگ بات ہے۔
ایک اور متبع بریلویت نقل کرتے ہیں :
"اولیاء اللہ ایک آن میں چند جگہ جمع ہو سکتے ہیں اور ان کے بیک وقت چند اجسام ہو سکتے ہیں۔ 241"
یعنی جب اولیاء کرام سے یہ چیز ممکن ہے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کیوں ممکن نہیں؟
حضور علیہ السلام کو دنیا میں سیر فرمانے کا صحابہ کرام کی روحوں کے ساتھ اختیار ہے۔ آپ کو بہت سے اولیاء اللہ نے دیکھا ہے۔ 242"
دعویٰ اور دلیل دونوں کو ایک ساتھ ہی ذکر کر دیا گیا ہے۔
دعویٰ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہمراہ مختلف مقامات پر موجود ہو سکتے ہیں، اور دلیل یہ ہے کہ بہت سے اولیاء کرام نے انہیں دیکھا ہے رہی اس بات کی دلیل کہ اولیاء اللہ نے انہیں دیکھا ہے، تو اس کی سند ضعیف بھی ہو تو کوئی حرج نہیں کرتی!"
مزید سنئے :
"اپنی امت کے اعمال میں نگاہ رکھنا، ان کے لئے گناہوں سے استغفار کرنا، ان سے دفع بلا کی دعا فرمانا، اطراف زمین میں آنا جانا، اس میں برکت دینا اور اپنی امت میں کوئی صالح آدمی مر جائے تو اس کے جنازے میں جانا، یہ حضور علیہ السلام کا مشغلہ ہے۔ 243"
اب جناب احمد رضا خان صاحب کا بزرگان کرام کے متعلق ارشاد ملاحظہ ہو:
"ان سے پوچھا گیا کہ کیا اولیاء ایک وقت میں چند جگہ حاضر ہونے کی قوت رکھتے ہیں؟ تو جواب دیا:
"اگر وہ چاہیں تو ایک وقت میں دس ہزار شہروں میں دس ہزار جگہ کی دعوت قبول کر سکتے ہیں۔ 244"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق نقل کرتے ہیں :
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی روح کریم تمام جہاں میں ہر مسلمان کے گھر میں تشریف فرما ہے۔ 245"
جناب احمد رضا کے ایک پیروکار لکھتے ہیں :
"حضور علیہ السلام کی نگاہ پاک ہر وقت عالم کے ذرہ ذرہ پر ہے اور نماز، تلاوت قرآن، محفل میلاد شریف اور نعت خوانی کی مجالس میں، اسی طرح صالحین کی نماز جنازہ میں خاص طور پر اپنے جسم پاک سے تشریف فرما ہوتے ہیں۔ 246"
نامعلوم یہ تعلیمات و ہدایات بریلوی حضرات نے کہاں سے اخذ کی ہیں؟ کتاب و سنت سے تو ان کا کوئی رشتہ اور ربط و ضبط نہیں !
بریلویت کے یہ پیروکار آگے چل کر لکھتے ہیں :
"حضور علیہ السلام نے حضرت آدم علیہ السلام کا پیدا ہونا، ان کی تعظیم ہونا اور خطا پر جنت سے علیحدہ ہونا اور پھر توبہ قبول ہونا آخر تک ان کے سارے معاملات جو ان پر گزرے، سب کو دیکھا ہے۔ اور ابلیس کی پیدائش اور جو کچھ اس پر گزرا، اس کو بھی دیکھا۔ اور جس وقت روح محمدی کی توجہ دائمی حضرت آدم سے ہٹ گئی، تب ان سے نسیان اور اس کے نتائج ہوئے۔ 247"
یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم دنیا میں جلوہ گر ہونے سے قبل بھی حاضر و ناظر تھے !
اور سنئے :
"اہل اللہ اکثر و بیشتر بحالت بیداری اپنی جسمانی آنکھوں سے حضور کے جمال مبارک کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ 248"
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
"اہل بصیرت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو دوران نماز بھی دیکھتے ہیں۔ 249"
مزید ملاحظہ ہو۔ نقل کرتے ہیں :
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے جسم مبارک اور روح اقدس کے ساتھ زندہ ہیں۔ اور بے شک حضور صلی اللہ علیہ و سلم اطراف زمین اور ملکوت اعلیٰ میں جہاں چاہتے ہیں، سیر اور تصرف فرماتے ہیں۔ اور حضور علیہ السلام اپنی اس ہیئت مبارکہ کے ساتھ ہیں، جس پر وفات سے پہلے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی کوئی چیز بدلی نہیں ہے۔ اور بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ظاہری آنکھوں سے غائب کر دیئے گئے ہیں۔ حالانکہ وہ سب اپنے جسموں کے ساتھ زندہ ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا جمال دکھا کر عزت و بزرگی عطا فرمانا چاہتا ہیں تو اس سے حجاب کو دور کر دیتا ہے اور وہ مقرب بندہ حضور کو اس ہیئت پر دیکھ لیتا ہے جس پر حضور واقع ہیں۔ اس روئیت سے کوئی چیز مانع نہیں اور روئیت مثالی کی طرف کوئی امر داعی نہیں۔ 250"
جناب احمد رضا بریلوی ارشاد کرتے ہیں :
"کرشن کنھیا کافر تھا اور ایک وقت میں کئی جگہ موجود ہو گیا۔ فتح محمد(کسی بزرگ کا نام) اگر چند جگہ ایک وقت میں ہو گیا، تو کیا تعجب ہے۔ کیا گمان کرتے ہو کہ شیخ ایک جگہ تھے باقی جگہ مثالیں؟
حاشا وکلا، بلکہ شیخ بذات خود ہر جگہ موجود تھے، اسرار باطن فہم ظاہر سے وراء ہیں، خوض و فکر بے جا ہے۔ 251" سبحان اللہ!
دعویٰ کی دلیل میں نہ آیت نہ حدیث۔ دلیل یہ ہے کہ کرشن کنھیا اگر کافر ہونے کے باوجود کئی سو جگہ موجود ہو سکتا ہے، تو کیا اولیائے کرام چند جگہ موجود نہیں ہو سکتے؟

ہم پیروی قیس نہ فرہاد کریں گے
کچھ طرز جنوں اور ہی ایجاد کریں گے
یہ انوکھا طرز استدلال بریلویت ہی کی خصوصیت ہے۔ امام بریلویت کے اس ارشاد کو بھی ملاحظہ فرمائیں :
"اسرار باطن فہم ظاہر سے وراء ہیں۔ خوض و فکر بے جا ہے۔ "
یعنی یہ وہ نازک حقیقت ہے جو سمجھائی نہیں جاتی!
امام بریلویت کے ایک پیروکار رقمطراز ہیں :
"حضور علیہ الصلوۃ والسلام آدم علیہ السلام سے لے کر آپ کے جسمانی دور تک کے تمام واقعات پر حاضر ہیں 252۔ "
بریلویت کے ان عقائد کا ذرا اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے تقابل کیجئے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :
وَ مَا کُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ اِذْ قَضَیْنَآ اِلیٰ مُوْسَی الْاَمْرَ وَ مَا کُنْتَ مِنَ الشّٰہِدِیْنَ(القصص 44)
"اور آپ (پہاڑ کے ) مغربی جانب موجود نہ تھے، جب ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو احکام دیئے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان لوگوں میں سے نہ تھے، جو (اس وقت)موجود تھے۔ "
وَ مَا کُنْتَ ثَاوِیًا فِیْ اَہْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْہِمْ ٰایٰتِنَالا وَ ٰلکِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ(القصص45)
"اور نہ اہل مدین میں قیام پذیر تھے کہ ہماری آیتیں لوگوں کو پڑھ کر سنا رہے ہوں، لیکن ہم آپ کو رسول بنانے والے تھے۔ "
وَ مَا کُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَیْنَا وَ ٰلکِنْ رَّحمة مِّنْ رَّبِّکَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ ٰاٰتہُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْن (القصص :46)
"اور نہ آپ طور کے پہلو میں اس وقت موجود تھے، جب ہم نے (موسیٰ علیہ السلام کو) آواز دی تھی۔ لیکن اپنے پروردگار کی رحمت سے (نبی بنائے گئے ) تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، تاکہ وہ لوگ نصیحت قبول کریں۔ "
اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہ السلام کا قصہ بیان کرنے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا:
وَ مَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلامَہُمْ اَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ وَ مَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ (آل عمران44)
"اور آپ تو ان لوگوں کے پاس تھے نہیں اس وقت جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے، کہ ان میں سے کون مریم کی سرپرستی کرے؟ اور نہ آپ ان کے پاس اس وقت تھے جب وہ باہم اختلاف کر رہے تھے۔ "
تِلْکَ مِنْ اَنْبَآء الْغَیْبِ نُوْحِیْہَآ اِلَیْکَ مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَآ اَنْتَ وَ لا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا فَاصْبِرْ اِنَّ الْعاقبة لِلْمُتَّقِیْن (ہود49)
"یہ(قصہ) اخبار غیب میں سے ہے۔ ہم نے اسے وحی کے ذریعہ سے آپ تک پہنچا دیا۔ اس کو اس (بتانے ) سے قبل نہ آپ ہی جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔ سو صبر کیجئے، یقیناً نیک انجامی پرہیزگاروں ہی کے لیے ہے۔ "
ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَاء الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ وَ مَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ اَجْمَعُوْآ اَمْرَہُمْ وَ ہُمْ یَمْکُرُوْنَ(یوسف102)
"یہ (قصہ) غیب کی خبروں میں سے ہے، جس کی ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ اور آپ ان کے پاس اس وقت موجود نہ تھے جب انہوں نے اپنا ارادہ پختہ کر لیا تھا اور وہ چالیں چل رہے تھے۔ "
اللہ تعالیٰ حضور علیہ السلام کے مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک جانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْریٰ بِعَبْدِہ لَیْلا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ ٰبرَکْنَا حَوْلَہ لِنُرِیَہ من ٰایٰتِنَا اِنَّہ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرْ (الاسراء1)
"پاک ذات ہے وہ جو اپنے بندے کو رات ہی رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جن کے ارد گرد کو ہم نے بابرکت بنا رکھا ہے، تاکہ ان (بندہ) کو ہم بعض اپنے عجائب (قدرت) دکھائیں، بے شک سمیع و بصیر وہی اللہ ہے۔ "
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر حاضر و ناظر ہوتے تو مسجد اقصیٰ تک براق کے ذریعہ سفر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو پہلے ہی وہاں موجود تھے !
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللہ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللہ مَعَنَا(التوبة : 40)
"اگر تم لوگ ان کی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ) مدد نہ کرو گے تو ان کی مدد تو(خود) اللہ کر چکا ہے، جبکہ ان کو کافروں نے وطن سے نکال دیا تھا جبکہ دو میں سے ایک وہ تھے اور دونوں غار میں (موجود) تھے، جبکہ وہ اپنے رفیق سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو! بے شک اللہ ہم لوگوں کے ساتھ ہے۔ "
وَ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلة فَاتَّقُوا اللہ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْن(آل عمران123)
"اور یقیناً اللہ نے تمہاری نصرت کی بدر میں، حالانکہ تم پست تھے۔ تو اللہ سے ڈرتے رہو، عجب کیا کہ شکر گزار بن جاؤ۔ "
اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَۃ الدُّنْیَا وَ ہُمْ بِالْعُدْوَۃ الْقُصْویٰ وَ الرَّکْبُ اَسْفَلَ مِنْکُم(الانفال42)
(یہ وہ وقت تھا) جب تم (میدان جنگ) کے نزدیک والے کنارہ پر تھے اور وہ دور والے کنارہ پر، اور قافلہ تم سے نیچے کی (جانب) تھا۔ "
لَقَدْ رَضِیَ اللہ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃ (الفتح18)
"بے شک اللہ خوش ہوا ان مسلمانوں پر، جبکہ وہ آپ سے بیعت کر رہے تھے درخت کے نیچے۔ "
لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآءَ اللہ ٰامِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُئُوْسَکُمْ وَ مُقَصِّرِیْنَ لا تَخَافُوْن(الفتح )
"تم لوگ مسجد الحرام میں ان شاء اللہ ضرور داخل ہو گے امن و امان کے ساتھ، سر منڈاتے ہوئے بال کتراتے ہوئے، اور تمہیں اندیشہ (کسی کا بھی) نہ ہو گا۔ "
ان آیات سے ثابت ہوا کہ ایک ہی وقت میں بہت سے مقامات پہ موجود ہونے کا عقیدہ درست نہیں۔ قرآنی آیات کا مفہوم اس غیر اسلامی فلسفے سے متصادم ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ایک ہی وجود رکھتے تھے۔ اور جب وہ مدینہ منورہ میں موجود ہوتے تھے تو بدر میں ان کا وجود نہ ہوتا تھا، ورنہ بدر کی طرف سفر کرنے کا کوئی معنی نہیں رہتا۔ اسی طرح جب تک مکہ مکرمہ فتح نہیں ہوا تھا ان کا وجود مکہ مکرمہ میں نہیں تھا۔
ان آیات کریمہ کے ساتھ ساتھ حقائق و واقعات بھی اس عقیدے کی تردید کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب حجرہ مبارک میں تشریف فرما ہوتے تھے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا مسجد میں انتظار فرمایا کرتے تھے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم حاضر و ناظر تھے، صحابہ رضی اللہ عنہم کا مسجد میں انتظار کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟
اسی طرح جب آپ مدینہ میں تھے تو حنین میں آپ کا وجود نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم تبوک میں تھے تو مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم موجود نہ تھے۔ اور جب عرفات میں تھے تو نہ مکہ مکرمہ میں آپ کا وجود تھا نہ مدینہ منورہ میں !
مگر بریلوی حضرات ان تمام آیات کریمہ اور شواہد و حقائق سے پہلو تہی کرتے ہوئے عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہر آن ہر مقام پر حاضر و ناظر ہیں۔ 265
مزید کہتے ہیں :
"حضور صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کو بھی جانتے ہیں اور تمام موجودات و مخلوقات ان کے جمیع احوال کو بتمام کمال جانتے ہیں۔ ماضی حال مستقبل میں کوئی شئے کسی حال میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے مخفی نہیں۔ 266"
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
"نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تمام دنیا کو اپنی نظر مبارک سے دیکھ رہے ہیں۔ 267"
جناب بریلوی لکھتے ہیں :
"نبی علیہ السلام نہ کسی سے دور ہیں اور نہ کسی سے بے خبر!268"
مزید رقم طراز ہیں :
"حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات و وفات میں اس بات میں کچھ فرق نہیں کہ وہ اپنی امت کو دیکھ رہے ہیں اور ان کی حالتوں، نیتوں، ارادوں اور دل کے خطروں کو پہچانتے ہیں۔ اور یہ سب حضور پر روشن ہے جس میں اصلاً پوشیدگی نہیں۔ 269"
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم حاضر و ناظر ہیں اور دنیا میں جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر چیز کا مشاہدہ فرما رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہر جگہ حاضر ہیں اور ہر چیز کو دیکھ رہے ہیں۔ 270"
صرف انبیاء علیہم السلام ہی نہیں، بلکہ امام بریلویت جناب احمد رضا بریلوی بھی اس صفت الٰہیہ میں ان کے شریک ہیں۔ چنانچہ ان کے ایک پیروکار ارشاد کرتے ہیں :
"احمد رضا آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ وہ ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ 271"
یہ ہیں بریلوی عقائد و افکار جن کا دین و دانش سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ دین الٰہی تو عقل و فطرت کے عین مطابق ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قُلْ ہٰذِہ سَبِیْلِی اَدْعُوْآ اِلَی اللہِ اوقفوقفالنبی عَلیٰ بَصِیْرَۃ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْط وَ سُبْحٰنَ اللہِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(یوسف108)
"آپ کہہ دیجئے کہ میرا طریق کار یہی ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ دلیل پر قائم ہوں، میں بھی اور میرے پیرو بھی! اور پاک ہے اللہ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ "
وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّق َ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (الانعام153)
"اور یہ بھی کہہ دیجئے کہ یہی میری سیدھی شاہراہ ہے۔ سو اسی پر چلو اور دوسری پگڈنڈیوں پر نہ چلو کہ وہ تم کو راہ سے جدا کر دیں گی۔ اس (سب) کا (اللہ) نے حکم دیا ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ "
اَفَلا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلیٰ قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا(محمد24)
"تو کیا لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے، یا دلوں پر قفل لگ رہے ہیں؟"
کیا کوئی غور کرنے والا ہے کہ وہ غور و فکر کرے اور تدبر کرنے والا ہے کہ وہ تدبر کرے؟
ان کے عقائد اور قرآن و حدیث کے درمیان اس قدر عظیم تضاد و تناقض کے بعد اس بات سے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ شریعت اسلامیہ اور افکار بریلویہ کا نقطہ نظر اور نہج فکر الگ الگ ہے۔ دونوں کے مابین کسی قسم کی بھی مطابقت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حوالہ جات
239تسکین الخواطر فی مسلہ الحاضر والناظر،احمد سعید اکاظمی ص 85۔
240ایضاً ص 18۔
241جاء الحق ص 150۔
242ایضاً ص 154۔
243جاء الحق گجراتی بریلوی ص 154۔
244ملفوظات ص 113۔
245خالص الاعتقاد ص 40۔
246جاء الحق 155۔
247جاء الحق ص 156۔
248تسکین الخواطر فی مسئلہ الحاضر والناظر ص 18۔
249ایضاً۔
250تسکین الخواطر فی مسئلہ الحاضر والناظرص86۔
251فتاویٰ رضویہ ج 6 ص 142 ایضاً ملفوظات ص 114۔
252جاء الحق ص 163۔
265تسکین الخواطر مسئلہ الحاضر والناظر، احمد سعید کاظمی ص5۔
266ایضاً ص 68۔
267ایضاً ص 90۔
268خالص الاعتقاد ص 39۔
269ایضاً ص 46۔
271انوار رضا ص 246۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
باب 4: بریلوی تعلیمات
جس طرح بریلوی حضرات کے مخصوص عقائد ہیں، اسی طرح ان کی کچھ مخصوص تعلیمات بھی ہیں جو اکل و شرب اور کسب معاش کے گرد گھومتی ہیں۔ مذہب بریلویت میں اکثر مسائل صرف اس لئے وضع کیے گئے ہیں کہ ان کے ذریعہ سے سادہ لوح عوام کو اپنے جال میں پھنسا کر کھانے پینے کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ بریلوی ملّاؤں نے نئے نئے مسائل وضع کر کے اور نئی نئی بدعات گھڑ کے دین کو ایسی نفع بخش تجارت بنا لیا ہے، جس میں راس المال کی بھی ضرورت نہیں رہی۔
بریلوی حضرات نے مزارات کی تعمیر کا حکم دیا اور خود ان کے دربان اور مجاور بن کر بیٹھ گئے۔ نذر و نیاز کے نام پر جاہل لوگوں نے دولت کے انبار لگا دئیے۔ انہوں نے اسے سمیٹنا شروع کیا اور ان کا شمار بڑے بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں میں ہونے لگا۔
غریبوں کا خون چوس کر بزرگوں کے نام کی نذر و نیاز پر پلنے والے یہ لوگ دین کے بیوپاری اور دنیا کے پجاری ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک اسلامی معاشرہ نہیں کہلا سکتا، جب تک وہ توحید باری تعالیٰ کے تصور سے آشنا نہ ہو۔ پاکستان میں جب تک شرک و بدعت کے یہ مراکز موجود ہیں، اس وقت تک اسلامی نظام کے نفاذ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
مریدوں کی جیبوں پر نظر آنے والے یہ دنیا کے بھوکے پیران و مشائخ جب تک انسان کو انسان کی غلامی کا درس دیتے رہیں گے،اس وقت تک ہمارا معاشرہ توحید کی شان و شوکت سے آشنا نہیں ہو سکتا، اور جب تک کسی معاشرے میں توحید کے تقاضے پورے نہ کیے جائیں، اس وقت تک الحاد و لادینیت کا مقابلہ ایں خیال است و محال است و جنوں کا مصداق ہے !
ہمیں الحاد و لادینیت کے سیلاب کو روکنے کے لیے انسان کی غلامی کی زنجیروں کو پاش پاش کرنا ہو گا اور معاشرے کے افراد کو توحید کا درس دینا ہو گا۔
"اللہ ہو" کے سر پہ سر دھننا، قوالی کے نام پر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنا۔ ۔ ۔ ۔ ناچتے اور غیر اخلاقی حرکتیں کرتے ہوئے، دامن پھیلا کر مانگتے ہوئے اور سبز چادر کے کونے پکڑ کر دست سوال دراز کرتے ہوئے مزاروں پر چڑھاوے کے لیے جانا۔ ۔ ۔ ۔ مضحکہ خیز قصے کہانیوں کو کرامتوں کا نام دینا، کھانے پینے کے لئے نت نئی رسموں کا نکالنا چنانچہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ جب سوچتا ہے کہ اگر اس کا نام مذہب ہے، تو وہ الحاد و لادینیت کے خوب صورت جال کا شکار بن جاتا ہے۔
برا ہو ان ملّاؤں اور پیروں کا، جو دین کا نام لے کر دنیا کے دھندوں میں مگن رہتے اور حدود اللہ و شعائر اللہ کو پامال کرتے ہیں۔ یہ قبر پرستی کی لعنت، یہ سالانہ عرس اور میلے، یہ گیارہویں، قل اور چالیسواں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ سب دنیا کی دولت کو جمع کرنے کے ڈھنگ ہیں، مگر کون سمجھائے ان مشائخ و پیران طریقت کو؟
یہ لوگوں کی آنکھوں پر پٹی باند کر دنیا میں بھی اپنا منہ کالا کر رہے ہیں اور اپنی عاقبت کو بھی برباد کر رہے ہیں۔ جو لوگ انہیں روکتے اور ان کی حرکتوں سے منع کرتے ہیں، انہیں وہابی اور اولیائے کرام کا گستاخ کہہ کر بدنام کیا جاتا ہے۔ ان کی کتابوں کو دیکھنا 1اور ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا جرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ 2
مبادا لوگ ان کی وعظ و نصیحت سے متاثر ہو کر راہ راست پر آ جائیں اور ان کی دنیا داری خطرے میں پڑ جائے۔
آئیے اب بریلویت کی تعلیمات کا جائزہ لیں اور کتاب و سنت کے ساتھ ساتھ خود فقہ حنفی کے ساتھ ان کا موازنہ کریں، تاکہ پتہ چلے کہ ان لوگوں کے افکار و تعلیمات کی سند نہ کتاب و سنت سے ملتی ہے اور نہ فقہ حنفی سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ احمد یار گجراتی لکھتے ہیں :
"صاحب قبر کے اظہار عظمت کے لیے قبہ وغیرہ بنانا شرعاً جائز ہے۔ 3"
مزید:
"علماء اور اولیاء و صالحین کی قبروں پر عمارت بنانا جائز کام ہے، جب کہ اس سے مقصود ہو کہ لوگوں کی نگاہوں میں عظمت پیدا کرنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ لوگ اس قبر والے کو حقیر نہ جانیں۔ 4"
جب کہ حدیث میں صراحت موجود ہے کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبر کو چونا گچ کرنے، پختہ بنانے اور اس پر کوئی قبہ وغیرہ بنانے سے منع فرمایا ہے۔ 5"
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خصوصی طور پر حکم دیا تھا کہ وہ اونچی قبروں کو زمین کے برابر کر دیں۔ 6
حضرت عمر بن الحارث رضی اللہ عنہ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے کہ انہوں نے کہا:
"روم میں ہمارا ایک ساتھی فوت ہو گیا تو حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبر کو زمین کے برابر کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کا حکم دیتے ہوئے سنا ہے۔ 7"
اب فقہ حنفی کی نصوص ملاحظہ فرمائیں :
"قبروں کا پختہ بنانا ممنوع ہے۔ 8"
امام محمد بن الحسن سے پوچھا گیا کہ کیا قبروں کو پختہ بنانا مکروہ ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا"ہاں !9"
امام سرخسی رحمہ اللہ المسبوط میں فرماتے ہیں :
"قبروں کو پختہ نہ بناؤ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کی ممانعت ثابت ہے۔ 10"
قاضی خاں اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں :
"قبر کو پختہ نہ بنایا جائے اور نہ ہی اس پر قبہ وغیرہ تعمیر کیا جائے، کیونکہ امام ابوحنیفہ سے اس کی نہی وارد ہوئی ہے۔ 11"
امام کاسانی کا ارشاد ہے :
"قبر کو پختہ بنانا مکروہ ہے۔ اور امام ابوحنیفہ نے قبر پر قبہ وغیرہ بنانا مکروہ سمجھا ہے۔ اس میں مال کا ضیاع ہے۔ البتہ قبر پر پانی چھڑکنے میں کوئی حرج نہیں، مگر امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ پانی چھڑکنا بھی مکروہ ہے کیونکہ اس سے قبر پختہ ہوتی ہے۔ 12"
ملاحظہ ہو بحرالرائق،13
بدائع الصنّائع14
فتح القدیر15
ردّ المختار علی درّ المختار16
فتاویٰ ہندیہ،17
فتاویٰ بزازیہ18
کنز الدّقائق19 وغیرہ۔
قاضی ابراہیم حنفی فرماتے ہیں :
"وہ قبے جو قبروں پر تعمیر کئے گئے ہیں، انہیں گرانا فرض ہے۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی معصیت اور نافرمانی پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ اور وہ عمارت جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی معصیت پر تعمیر کی گئی ہو اسے گرانا مسجد ضرار کے گرانے سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ 20"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے :
لعن اللہ الیھود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیائھم مساجد21
"اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے، انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ہے۔ "
یہ تو ہیں کتاب و سنت اور فقہ حنفیہ کی واضح نصوص۔ ۔ ۔ ۔ مگر بریلوی قوم کو اصرار ہے کہ قبروں کو پختہ کرنا اور ان پر قبے وغیرہ بنانا ضروری ہیں۔
جناب احمد رضا خاں بریلوی کہتے ہیں :
"قبوں وغیرہ کی تعمیر اس لیے ضروری ہے تاکہ مزارات طیّبہ عام قبور سے ممتاز رہیں اور عوام کی نظر میں ہیبت و عظمت پیدا ہو۔ 22"
چادریں ڈالنا اور شمعیں جلانا یہ بھی جائز ہے تاکہ :
عوام جس مزار پر کپڑے اور عمامے رکھیں، مزار ولی جان کر اس کی تحقیر سے باز رہیں۔ اور تاکہ زیارت کرنے والے غافلوں کے دلوں میں خشوع و ادب آئے اور ہم بیان کر چکے ہیں کہ مزارات کے پاس اولیاء کرام کی روحیں حاضر ہوتی ہیں۔ 23"
مزید لکھتے ہیں :
"شمعیں روشن کرنا قبر کی تعظیم کے لیے جائز ہے، تاکہ لوگوں کو علم ہو کہ یہ بزرگ کی قبر ہے اور وہ اس سے تبرک حاصل کریں۔ 24"
ایک اور بریلوی عالم رقمطراز ہیں :
"اگر کسی ولی کی قبر ہو تو ان کی روح کی تعظیم کرنے اور لوگوں کو بتلانے کے لیے کہ ولی کی قبر ہے، تاکہ لوگ اس سے برکت حاصل کر لیں چراغ جلانا جائز ہے۔ 25"
یہ تو ہیں بریلوی اکابرین کے فتوے مگر حدیث میں اس کی واضح ممانعت آئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
( لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زائرات القبور و المتخذین علیھا مساجد والسّروج)26
یعنی"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قبروں کی زیارت کے لیے آنے والی عورتوں، قبروں پر سجدہ گاہ تعمیر کرنے والوں اور ان پر چراغ روشن کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ "
ملّا علی قاری حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
یعنی " قبروں پر چراغ جلانے کی ممانعت اس لیے آئی ہے کہ یہ مال کا ضیاع ہے۔ اور اس لیے کہ یہ جہنم کے آثار میں سے ہے۔ اور اس لیے آئی ہے کہ اس میں قبروں کی تعظیم ہے۔ 27"
قاضی ابراہیم حنفی رحمہ اللہ قبر پرستوں کے اصول ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"آج بعض گمراہ لوگوں نے قبروں کا حج کرنا بھی شروع کر دیا ہے اور اس کے طریقے وضع کر لیے ہیں۔ اور دین و شریعت کے مخالف امور میں سے یہ بھی ہے کہ لوگ قبروں اور مزاروں کے سامنے عاجزی و انکساری کا ظہار کرتے ہیں اور ان پر دیئے وغیرہ جلاتے ہیں۔ قبروں پر چادریں چڑھانا، ان پر دربان بٹھانا، انہیں چومنا اور ان کے پاس رزق و اولاد طلب کرنا، ان سب امور کا شریعت اسلامیہ میں کوئی جواز نہیں۔ 28"
خود احمد یار نے فتاویٰ عالمگیری سے نقل کیا ہے کہ :
"قبروں پر شمعیں روشن کرنا بدعت ہے۔ "
اسی طرح فتاویٰ بزازیہ میں بھی ہے کہ "قبرستان میں چراغ لے جانا بدعت ہے۔ اس کی کوئی اصل نہیں۔ 29"
ابن عابدین فرماتے ہیں :
"مزاروں پر تیل یا شمعوں وغیرہ کی نذر چڑھانا باطل ہے۔ 30"
علامہ حصکفی حنفی فرماتے ہیں :
"وہ نذر و نیاز جو عوام کی طرف سے قبروں پر چڑھائی جاتی ہے، خواہ وہ نقدی کی صورت میں ہو یا تیل وغیرہ کی شکل میں، وہ بالاجماع باطل اور حرام ہیں۔ 31"
فتاویٰ عالمگیری میں ہے
"قبروں پر روشنی کرنا جاہلیت کی رسموں میں سے ہے۔ 32"
علامہ آلوسی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"قبروں پر سے چراغوں اور شمعوں کو ہٹانا ضروری ہے۔ ایسی کوئی نذر جائز نہیں۔ 33"
اسی طرح
"چادر وغیرہ سے قبر کو ڈھانپنا بھی درست نہیں 34"
"یہ سب باطل کام ہے۔ ان کاموں سے بچنا چاہیے۔ 35"
نیز
"چراغ جلانا اور چادریں چڑھانا حرام ہے۔ 36"
علمائے احناف حضرت علی کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ:
"وہ کسی ایسی قبر کے پاس سے گزرے جسے کپڑے وغیرہ سے ڈھانپ دیا گیا تھا، تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے منع فرما دیا۔ 37"
ان ساری بدعات کا شریعت اسلامیہ میں کوئی وجود نہیں تھا اور نہ ہی یہ قروں اولیٰ سے ثابت ہیں اگر اس میں کسی قسم کا کوئی دینی فائدہ ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ وغیرہ سے اس کا عمل ثابت ہوتا۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تو دعاء فرمائی تھی :
اللہم لا تجعل قبری وثنا یعبد38
یعنی" اے اللہ! میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا کہ اس کی پوجا شروع کر دی جائے۔ "
بریلوی حضرات نے عرسوں، محافل میلاد، فاتحہ کی نذر، قل، گیارہویں اور چالیسویں وغیرہ کی شکل میں بہت سی اس طرح کی بدعات ایجاد کیں، تاکہ وہ ان کے ذریعہ سے پیٹ کی آگ ٹھنڈی کر سکیں۔ وہ لکھتے ہیں :
"اولیاء اللہ رحمت رب کے دروازے ہیں۔ رحمت دروازوں سے ملتی ہے۔
قرآن کریم میں ہے :
ھْنَالِکَ دَعَا زَکَرِّیَّا رَبّہْ
ثابت ہوا کہ زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم کے پاس کھڑے ہو کر بچے کی دعاء کی 39
یعنی ولیہ کے پاس دعا کرنا باعث قبول ہے۔ 40
نیز:
"قبروں پر عرس اولیاء کی خدمت میں حاضری کا سبب ہے اور یہ تعظیم شعائر اللہ ہے اور اس میں بے شمار فوائد ہیں۔ 41"
احمد رضا کے ایک اور شاگرد کہتے ہیں :
"اولیائے کرام کی قبروں پر عرس کرنا اور فاتحہ پڑھنا برکات کا باعث ہے۔ بے شک اولیاء اللہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور مرنے کے بعد ان کی طاقتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ 42"
نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں :
"عرس کرنا اور اس موقع پر روشنی، فرش اور لنگر کا انتظام کرنا شریعت 43سے ثابت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے۔ 44"
نیز:
اولیاء کے مزارات میں نماز پڑھنا اور ان کی روحوں سے مدد طلب کرنا برکات کا باعث ہے۔ 45"
"وہابیوں کا یہ کہنا کہ قبروں کو چومنا شرک ہے، یہ ان کا غلو ہے۔ 46"
نیز
نذر غیر اللہ سے آدمی مشرک نہیں ہوتا۔ 47"
قبروں کے گرد طواف کرنا بھی بریلوی شریعت میں جائز ہے :
"اگر برکت کے لیے قبر کے گرد طواف کیا تو کوئی حرج نہیں۔ 48"
اس لیے کہ : اولیاء کی قبریں شعائر اللہ میں سے ہیں اور ان کی تعظیم کا حکم ہے۔ 49"
نیز:طواف کو شرک ٹھہرانا وہابیہ کا گمان فاسد اور محض غلو و باطل ہے۔ 50"
عرس کی وجہ تسمیہ:عرس کو عرس اس لیے کہتے ہیں، کیونکہ یہ عروس یعنی دولہا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دیدار کا دن ہے۔ 51"
احمد یار گجراتی کا فتویٰ ہے :
"نماز صرف اس کے پیچھے جائز ہے جو عرس وغیرہ کرتا ہو۔ اور جو ان چیزوں کا مخالف ہو، اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔ 52"
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی غیر اسلامی عید ہے۔ قرون اولیٰ میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ خود دیدار علی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ میلاد شریف کا سلف صالحین سے قرون اولیٰ میں کوئی ثبوت نہیں۔ یہ بعد میں ایجاد ہوئی ہے۔ 53
اس کے باوجود ان کا عقیدہ ہے کہ:
"محفل میلاد شریف منعقد کرنا اور ولادت پاک کی خوشی منانا، اس کے ذکر کے موقعہ پر خوشبو لگانا، گلاب چھڑکنا، شیرینی تقسیم کرنا، غرضیکہ خوشی کا اظہار کرنا جو جائز طریقے سے ہو، وہ مستحب ہے اور بہت ہی باعث برکت۔ آج بھی اتوار کو عیسائی اس لیے عید مناتے ہیں کہ اس دن دسترخوان اترا تھا۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری اس مائدہ سے کہیں بڑھ کر نعمت ہے۔ لہٰذا ان کی ولادت کا دن بھی یوم العید ہے۔ 54"
نیز:میلاد شریف قرآن و حدیث اور ملائکہ اور پیغمبروں سے ثابت ہے۔ 55"
نیز:میلاد ملائکہ کی سنت ہے۔ اس سے شیطان بھاگتا ہے۔ 56"
دیدار علی لکھتے ہیں :"میلاد سنت اور واجب ہے 57"
نیز:ذکر میلاد کے وقت کھڑے ہونے کا قرآن مجید (کون سے قرآن مجید؟) میں حکم ہے۔ 58"
اور یہی دیدار علی ہیں، جنہوں نے کہا ہے کہ میلاد شریف کی اصل قرون اولیٰ سے ثابت نہیں۔
جناب بریلوی کہتے ہیں :"میلاد شریف میں رلا دینے والے قصے بیان کرنا ناجائز ہے۔ 59"
بریلوی قوم نے اکل و شرب کو دوام بخشنے کے لیے اس طرح کی بدعات جاری کی ہیں اور دین اسلام کو غیر شرعی رسوم و رواج کا مجموعہ بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے نبی محترم صلی اللہ علیہ و سلم کے مقدس نام کو بھی استعمال کیا، تاکہ کھانے پینے کا بازار بخوبی گرم ہو سکے۔
حالانکہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے :
من احدث فی امرنا ھٰذا فھو ردّ60
"جس نے دین کے معاملے میں کوئی نئی چیز ایجاد کی، اسے ردّ کر دیا جائے گا۔ "
نیز:ایّاکم و محدثات الامور کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة61
"دین میں نئی نئی رسموں سے بچو۔ ہر نئی رسم بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ "
اور خود عہد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے کسی عزیز کی عید میلاد نہیں منائی اور نہ ہی ان کی وفات کے بعد قل وغیرہ کروائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بیٹوں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی وفات آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں ہوئی، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے موجودہ رسموں میں سے کوئی رسم ادا نہیں کی۔ اگر ان رسموں کا کوئی فائدہ ہوتا یا ایصال ثواب کا ذریعہ ہوتیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ضرور عمل فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔
اگر کسی قبر پر عرس وغیرہ کرنا باعث ثواب اور حصول برکات کا سبب ہوتا تو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کسی صورت میں بھی اس سے محروم نہ رہتے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ان سے زیادہ محبت کس کو ہو سکتی ہے؟ مگر ان میں سے کسی سے بھی اس قسم کے اعمال ثابت نہیں۔ معلوم ہوا، یہ سب رسمیں کسب معاش کے لیے وضع کی گئیں ہیں۔ ثواب و برکات حصول محض ایک دھوکہ ہے !
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی قبر کی طرف خصوصی طور پر سفر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور قبروں پر ہونے والی بدعات بہت بری ہیں۔ خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی قبر کو میلہ نہ بننے کی دعاء فرمائی تھی۔ 62
مشہور حنفی مفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں :
"آج کل کچھ جاہل لوگوں نے قبروں کے پاس غیر شرعی حرکات شروع کر دی ہیں، ان کا کوئی جواز نہیں۔ عرس وغیرہ اور روشنی کرنا سب بدعات ہیں۔ 63
قبروں کے گرد طواف کے بارے میں ابن نجیم الحنفی کا ارشاد ہے :
"کعبہ کے سوا کسی دوسری چیز کے گرد طواف کفر ہے۔ 64"
ملا علی قاری صاحب فرماتے ہیں :
"روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے گرد طواف کرنا بھی جائز نہیں، کیونکہ یہ کعبة اللہ کی خاصیت ہے۔ آج کل کچھ جاہل لوگوں نے مشائخ اور علماء کا لبادہ اوڑھ کر یہ کام شروع کر دیا ہے، ان کا کوئی اعتبار نہیں۔ ان کا یہ فعل جہالت پر مبنی ہے۔ 65"
جہاں تک عید میلاد کا تعلق ہے، تو یہ ساتویں صدی ہجری میں ایک بدعتی بادشاہ مظفر الدین کی ایجاد ہے۔
"وہ ایک فضول خرچ بادشاہ تھا۔ وہ سب سے پہلا شخص تھا۔ جس نے یہ کام شروع کیا۔ 66"
نیز:"وہ ہر سال تقریباً تین لاکھ روپے اس بدعت پر خرچ کیا کرتا تھا۔ 67"
نیز:اس کے دور میں ایک بدعتی عالم عمر بن دحیہ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ بادشاہ نے اسے ایک ہزار دینار انعام دیا۔ 68"
البدایہ والنہایہ میں عمر بن دحیہ کے متعلق لکھا ہے کہ:
"یہ جھوٹا شخص تھا۔ لوگوں نے اس کی روایت پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا تھا اور اس کی بہت زیادہ تذلیل کی تھی۔ 69"
امام ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے متعلق فرمایا ہے :
"یہ بہت جھوٹا شخص تھا۔ احادیث خود وضع کر کے انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کر دیتا۔ سلف صالحین کے خلاف بد زبانی کیا کرتا تھا۔ ابوالعلاء اصبہانی نے اس کے متعلق ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ:
" وہ ایک دن میرے والد کے پاس آیا، اس کے ہاتھ میں ایک مصلیٰ بھی تھا۔ اس نے اسے چوما اور آنکھوں سے لگایا اور کہا کہ یہ مصلیٰ بہت بابرکت ہے۔ میں نے اس پر کئی ہزار نوافل ادا کیے ہیں اور بیت اللہ شریف میں اس پر بیٹھ کر قرآن مجید ختم کیا ہے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اسی روز ایک تاجر میرے والد کے پاس آیا اور کہنے لگا، آپ کے مہمان نے آج مجھ سے بہت مہنگا جائے نماز (مصلیٰ) خریدا ہے۔ میرے والد نے وہ مصلیٰ جو مہمان عمر بن دحیہ کے پاس تھا، اسے دکھلایا تو تاجر نے کہا کہ یہی وہ جائے نماز ہے جو اس نے مجھ سے آج خریدا ہے۔ اس پر میرے والد نے اسے بہت شرمندہ کیا اور گھر سے نکال دیا۔ 70
بہرحال ایسے شخص نے اس بادشاہ کی تائید کی اور میلاد کے سلسلے میں اس کا ساتھ دیا۔
عید میلاد صرف عیسائیوں کی مشابہت میں جاری کی گئی ہے، اسلامی شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
محفل میلاد میں بریلوی حضرات میلاد پڑھتے وقت کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ معاذ اللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم خود اس میں حاضری کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ بریلوی حضرات اکثر یہ شعر پڑھتے ہیں۔ دم بدم پڑھو درود حضور بھی ہیں یہاں موجود
ان کا کہنا ہے :میلاد شریف کے ذکر کے وقت قیام فرض ہے۔ 71"
حالانکہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے :
"جسے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ لوگ اس کی تعظیماً قیام کریں، اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ 72"
اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوا کرتے تھے، کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے ناپسند فرماتے ہیں۔ 73"
بریلوی حضرات پر تعجب ہے کہ وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا یوم میلاد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تاریخ وفات کے روز مناتے ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے 12 ربیع الاول کو انتقال فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تاریخ ولادت9 ربیع الاول ہے اور جدید تقویم سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ چند سال قبل بریلوی حضرات اسے بارہ وفات کہا کرتے تھے، مگر اب بارہ وفات سے بدل کر عید میلاد کر دیا۔
جہاں تک قل، ساتویں، دسویں اور چالیسویں وغیرہ کا تعلق ہے، یہ سب خود ساختہ بدعات ہیں۔ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کا ثبوت ملتا ہے، نہ اصحاب رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اور نہ ہی فقہ حنفی سے۔ حقیقت میں یہ لوگ حنفی نہیں، کیونکہ یہ فقہ حنفی کی پابندی نہیں کرتے۔ ان کی الگ اپنی فقہ ہے، جس پر یہ عمل پیرا ہیں۔
فقہ حنفی کے امام ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"ہمارے مذہب میں علماء کا اتفاق ہے کہ تیجا اور ساتواں وغیرہ جائز نہیں۔ 74"
ابن بزار حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"تیجا اور ساتواں مکروہ ہے۔ اسی طرح مخصوص دنوں میں ایصال ثواب کے لیے کھانا پکانا اور ختم وغیرہ بھی مکروہ ہیں۔ 75"
مگر بریلوی حضرات کسی شخص کے مر جانے کے بعد اس کے ورثاء پر قل وغیرہ کرنا فرض قرار دیتے ہیں اور ایصال ثواب کے بہانے شکم پروری کا سامان مہیا کرتے ہیں۔
گیارہویں کے متعلق بریلوی قوم کا اعتقاد ہے :
"گیارہویں تاریخ کو کچھ مقررہ پیسوں پر فاتحہ کی پابندی کی جائے تو گھر میں بہت برکت رہتی ہے۔ کتاب "یازدہ مجالس" میں لکھا ہے کہ حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ حضور علیہ السلام کی بارہویں یعنی 12 تاریخ کے میلاد کے بڑے پابند تھے۔ ایک بار خواب میں سرکار نے فرمایا کہ عبدالقادر! تم نے بارہویں سے ہم کو یاد کیا، ہم تم کو گیارہویں دیتے ہیں۔ یعنی لوگ گیارہویں سے تم کو یاد کیا کریں گے۔ یہ سرکاری عطیہ ہے۔ 76"
یہ ہے گیارہویں اور "یازدہ مجالس" سے اس کی عظیم الشان دلیل۔ نامعلوم کون کون سے دن انہوں نے حصول برکات کے لیے وضع کر رکھے ہیں۔ بریلوی مذہب میں جمعرات کی روٹی بھی معروف ہے۔ کیونکہ:
"جمعرات کے روز مومنوں کی روحیں اپنے گھروں میں آتی ہیں اور دروازے کے پاس کھڑے ہو کر دردناک آواز سے پکارتی ہیں کہ: اے میرے گھر والوں اے میرے بچو! اے میرے عزیزو! ہم پر صدقے سے مہربانی کرو۔ چنانچہ میت کی روح اپنے گھر میں جمعہ کی رات کو آ کر دیکھتی ہے کہ اس کی طرف سے صدقہ کیا گیا ہے یا نہیں؟77"
صرف جمعرات کے روز ہی روحیں صدقہ خیرات کا مطالبہ کرنے کے لیے نہیں آتیں،بلکہ:
"عید، جمعۃ المبارک، عاشورہ اور شب برات کے موقعہ پر بھی آتی اور اس قسم کا مطالبہ کرتی ہیں 78"
اکل و شرب کے لیے ایجاد کی جانے والی بریلوی حضرات کی "رسم ختم شریف" جہلا میں بہت مشہور ہے۔ ان کے ملّاؤں نے پیٹ کے لیے ایندھن فراہم کرنے کی غرض سے اس رسم کو رواج دے کر شریعت اسلامیہ کو بہت بدنام کیا ہے۔ اس رسم سے علمائے کرام کے وقار کو بھی سخت دھچکا لگا ہے اور ہمارے یہاں یہ رسم علمائے کرام کے لیے گالی سمجھی جانے لگی ہے۔ ان ملّاؤں کی شکم پروری کا سامان مہیا ہوتا رہے، باقی کسی چیز سے انہیں کوئی غرض نہیں۔
اسی طرح یہ حضرات کسی سرمایہ دار کے گھر اکھٹے ہو کر قرآن مجید ختم کرتے ہیں اور پھر اس کا ثواب میت کو ہبہ کر دیتے ہیں۔ سرمایہ دار خوش ہو جاتا ہے کہ چند ٹکوں کے عوض اس کا عزیز بخشا گیا۔ اور یہ حضرات خوش ہو جاتے ہیں کہ تھوڑے سے وقت کے عوض مختلف انواع کے کھانے بھی مل گئے اور جیب بھی گرم ہو گئی، حالانکہ فقہائے احناف کی صراحت ہے:
"اجرت لے کر قرآن ختم کرنے کا ثواب خود پڑھنے والے کو نہیں ملتا، میت کو کیسے پہنچے گا؟79"
امام عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"اس طرح قرآن مجید ختم کر کے اجرت لینے والا اور دینے والا دونوں گناہ گار ہیں۔ اس طرح کرنا جائز نہیں۔ 80"
ابن عابدین رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
"ایسا کرنا کسی مذہب میں جائز نہیں، اس کا کوئی ثواب نہیں ملتا!81"
امام شامی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں :
"قرآن مجید اجرت پر پڑھنا اور پھر اس کا ثواب میت کو ہبہ کرنا کسی سے ثابت نہیں ہے۔ جب کوئی شخص اجرت لے کر پڑھتا ہے تو اسے پڑھنے کا ثواب نہیں ملتا، پھر وہ میت کو کیا ہبہ کر سکتا ہے۔ 82"
رب تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تَشتَرْوا بِایٰٰاتِی ثَمَنًا قَلِیلاً (البقرہ)
"میری آیات کے بدلے مال کا کچھ حصہ نہ خریدو۔ "
مفسرین کہتے ہیں :"یعنی اس پر اجرت نہ لو۔ 84"
شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے :
"کچھ لوگوں کا اجرت دے کر قرآن مجید ختم کروانا اور پھر اس کا ثواب میت کو ہبہ کرنا، یہ سلف صالحین میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں۔ اور نہ اس طرح ثواب میت تک پہنچتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص اجرت دے کر اس سے نوافل وغیرہ پڑھوائے اور ان کا ثواب میت کو ہبہ کر دے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ وصیت کر جائے کہ اس کے مال کا کچھ حصہ قرآن مجید کی تلاوت کر کے اسے ہبہ کرنے والوں کو دیا جائے، تو ایسی وصیت باطل ہے۔ 85"
بہرحال اس بدعت کا ذاتی خواہشات کی تکمیل سے تو تعلق ہو سکتا ہے، دین و شریعت سے کوئی تعلق نہیں !
بریلوی حضرات نے مال و دولت جمع کرنے کے لیے "تبرکات" کی بدعت بھی ایجاد کی ہے، تاکہ جبہ و دستار کی زیارت کراکے دنیوی دولت کو سمیٹا جائے۔
بریلوی اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں :
"اولیاء کے تبرکات شعائر اللہ میں سے ہیں۔ ان کی تعظیم ضروری ہے۔ 86"
مزید:جو شخص تبرکات شریفہ کا منکر ہو، وہ قرآن و حدیث کا منکر اور سخت جاہل، خاسر اور گمراہ و فاجر ہے۔ 87"
نیز:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم کا ایک جزو یہ بھی ہے کہ جو چیز حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نام سے پہچانی جاتی ہے، اس کی تعظیم کی جائے۔ 88"
چنانچہ کسی بھی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کر دو اور پھر ا س کی زیارت کروا کے صدقے اور نذرانے جمع کرنے شروع کر دو۔ کوئی ضرورت نہیں تحقیق کی کہ اس "تبرک" کا واقعی آپ سے تعلق ہے بھی یا نہیں؟ جناب بریلوی تصریح فرماتے ہیں :
"اس کے لیے کسی سند کی حاجت نہیں، بلکہ جو چیز حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پاک سے مشہور ہو، اس کی تعظیم شعائر دین میں سے ہے۔ 89"
تعظیم کا طریقہ کیا ہے؟ جناب احمد رضا بیان کرتے ہیں :
"در ودیوار اور تبرکات کو مس کرنا اور بوسہ دینا اگرچہ ان عمارتوں کا زمانہ اقدس میں وجود ہی نہ ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی دلیل؟ مجنوں کا قول۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا خوب کسی نے کہا ہے۔

امر علی الدیار دیار لیل
اقبل ذا الجدار وذا الجدار
وماحب الدیار شغفن قلبی
ولکن حب من سکن الدیارا
"میں لیلیٰ کے شہروں پر گزرتا ہوں تو کبھی اس دیوار کو بوسہ دیتا ہوں تو کبھی اس دیوار کو۔ اور یہ شہر کی محبت کی وجہ سے نہیں، بلکہ یہ تو شہر والوں کی محبت ہے۔ 90"
نیز:حتیٰ کہ بزرگوں کی قبر پر جانے کے وقت دروازے کی چوکھٹ چومنا بھی جائز ہے۔ 91"
بریلوی قوم کے نزدیک مدینہ منورہ اور بزرگوں کی قبروں کو چومنا ہی نہیں، بلکہ مزاروں وغیرہ کی تصویروں کو بھی چومنا ضروری ہے۔ بریلوی صاحب ارشاد کرتے ہیں :
"علمائے دین نعل مطہر و روضہ حضور سید البشر علیہ افضل الصلوۃ واکمل السلام کے نقشے کاغذوں پر بنانے اور انہیں بوسہ دینے، آنکھوں سے لگانے اور سر پر رکھنے کا حکم فرماتے رہے۔ 93"
نیز:"علمائے دین ان تصویروں سے دفع امراض و حصول اغراض کے لیے توسل فرماتے تھے۔ 94"
بریلوی اعلیٰ حضرت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے نعل مبارک کی خیالی تصویر کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
جس کے پا س نقشہ متبرکہ ہو، ظالموں اور حاسدوں سے محفوظ رہے۔ عورت درد زہ کے وقت اپنے داہنے ہاتھ میں رکھے، آسانی ہو۔ جو ہمیشہ پاس رکھے گا معزز اور اسے زیارت روضہ رسول نصیب ہو۔ جس لشکر میں ہو نہ بھاگے، جس قافلے میں ہو نہ لٹے، جس کشتی میں ہو نہ ڈوبے، جس مال میں ہو نہ چرایا جائے، جس حاجت میں اس سے توسل کیا جائے پوری ہو، جس مراد کی نیت اپنے پاس رکھیں حاصل ہو۔ 95"
ان خرافات اور دور جاہلیت کی خرافات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے ان خرافات کو ختم کیا تھا، یہ لوگ دوبارہ اسے زندہ کر رہے ہیں۔
خاں صاحب نقل کرتے ہیں :
"اگر ہو سکے تو اس خاک کو بوسہ دے جسے نعل مبارک کے اثر سے نم حاصل ہوئی ورنہ اس کے نقشہ ہی کو بوسہ دے۔ 96"
مزید:اس نقشے کے لکھنے میں ایک فائدہ یہ ہے کہ جسے اصل روضہ عالیہ کی زیارت نہ ملی، وہ اس کی زیارت کر لے۔ اور شوق سے اسے بوسہ دے کہ یہ مثال اس اصل کے قائم مقام ہے۔ 97"
نیز: "روضہ منورہ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی نقل صحیح بلاشبہ معظمات دینیہ سے ہے۔ اس کی تعظیم و تکریم بروجہ شرعی ہر مسلمان صحیح الایمان کا مقتضائے ایمان ہے۔ 98"
ان چیزوں کی زیارت کے وقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا تصور ذہن میں لائیں اور درود شریف کی کثرت کریں۔ 99"
ایک جگہ لکھتے ہیں :
"حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نعل مبارک کے نقشہ کو مس کرنے والے کو قیامت میں خیر کثیر ملے گی اور دنیا میں یقیناً نہایت اچھے عیش و عشرت اور عزت و سرور میں رہے گا۔ اسے قیامت کے روز کامیابی کی غرض سے بوسہ دینا چاہئے، جو اس نقشے پر اپنے رخسار رگڑے اس کے لیے بہت عجیب برکتیں ہیں۔ 100"
اندازہ لگائیں، بریلوی حضرات کی ان حرکات اور بت پرستی میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ اپنے ہاتھوں سے ایک تصویر بناتے ہیں اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا تصور اپنے ذہن میں لا کر اسے چومتے ہیں، اپنی آنکھوں سے لگاتے اور اپنے گالوں پر رگڑتے ہیں اور پھر برکات کے حصول کی امید کرتے ہیں۔
ایک طرف تو تصویر اور مجسمے کی اس قدر تعظیم کرتے، اور دوسری طرف اللہ رب العزت کی شان میں اس قدر گستاخی اور بے ادبی کہ کہتے ہیں :
"نعل شریف (جوتے کا مجسمہ) پر بسم اللہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں۔نعوذباللہ 101"
جناب احمد رضا صاحب ان مشرکانہ رسموں کی اصل غرض وغایت کی طرف آتے ہیں :
"زائر کو چاہیے کہ وہ کچھ نذر کرے، تاکہ اس سے مسلمانوں کی اعانت ہو۔ اس طرح زیارت کرنے والے اور کرانے والے دونوں کو ثواب ہو گا۔ ایک نے سعادت و برکت دے کر ان کی مدد کی اور دوسرے نے متاع قلیل سے فائدہ پہنچایا۔ حدیث میں ہے " تم میں جس سے ہو سکے کہ اپنے مسلمان بھائی کو نفع پہنچائے تو اسے چاہئے کہ نفع پہنچائے (طرز استدلال ملاحظہ فرمائیں ) حدیث میں ہے :
"اللہ اپنے بندوں کی مدد میں ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہے۔ خصوصاً جب یہ تبرکات والے حضرات سادات ہوں تو ان کی خدمت اعلیٰ درجے کی برکت و سعادت ہے۔ 102"
یہ ہے بریلوی دین و شریعت اور یہ ہیں اس کے بنیادی اصول و ضوابط! عوام کو بے وقوف بنا کر کس طرح یہ لوگ اپنا کاروبار چمکانا چاہتے اور اپنی تجوریاں بھرنا چاہتے ہیں۔
کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ اسلام تصاویر اور مجسموں کی تعظیم کا حکم دے؟ انہیں بوسہ دینے اور ہاتھ سے چھونے کو باعث برکت بتائے اور پھر اس پر چڑھاوے چڑھانے کی ترغیب دے؟ حاشا وکلّا!
دین کو نفع بخش تجارت بنا لینے والے بعض بریلوی ملاؤں نے عوامی سرمائے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے لیے بعض ایسی بدعات ایجاد کی ہیں، جو کھلم کھلا کتاب و سنت کے خلاف اعلان بغاوت ہیں۔ بریلوی حضرات کا عقیدہ ہے کہ اگر کسی نے ساری زندگی نماز نہ پڑھی ہو روزے نہ رکھے ہوں، مرنے کے بعد دنیوی مال و متاع خرچ کر کے اسے بخشوایا جا سکتا ہے۔ جسے یہ لوگ حیلہ اسقاط کا نام دیتے ہیں۔ اس کا طریقہ ملاحظہ فرمائیں اور بریلوی ذہنیت کی داد دیں :
"میت کی عمر کا اندازہ لگا کر مرد کی عمر سے بارہ سال اور عورت کی عمر سے نو سال (نابالغ رہنے کی کم از کم مدت) کم کر دیئے جائیں۔ بقیہ عمر میں اندازہ لگایا جائے کہ ایسے کتنے فرائض ہیں جنہیں وہ ادا نہ کر سکا اور نہ قضا۔ اس کے بعد ہر نماز کے لیے صدقہ فطر کی مقدار بطور فدیہ خیرات کر دی جائے، صدقہ فطر کی مقدار نصف صاع گندم یا ایک صاع جو ہے۔ اس حساب سے ایک دن کی وتر سمیت چھ نمازوں کا فدیہ تقریباً بارہ سیر ایک ماہ کا نو من اور شمسی سال کا ایک سو آٹھ من ہو گا۔ 103"
قرآن کریم میں ہے :
اِنَّ الَّذِینَ یَاکْلْونَ اَموَالَ الیَتٰمیٰ ظْلمًا اِنَّمَا یَاکْلْونَ فِی بْطْونِھِم نَارًا وَ سَیَصلَونَ سَعِیرًا
"بلاشبہ وہ ظالم جو یتیموں کا مال کھاتے ہیں، وہ حقیقت میں اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں ایسے لوگ جہنم میں داخل ہوں گے۔ "
نیز فرمایا:
لَا تَزِرْ وَازِرَۃ وِّزرَ اْخریٰ
"کسی کا بوجھ دوسرا نہیں اٹھا سکتا"
نیز: وَاَنَّ لَیسَ لِلاِنسَانِ اِلَّا مَا سَعیٰ
"انسان کو اسی کی جزا ملے گی، جو ا س نے خود کمایا۔ "
مگر بریلوی حضرات نے نامعلوم یہ حیلے کہاں سے اخذ کیے ہیں؟
ان کا ماخذ اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تو ہو سکتا ہے، شریعت اسلامیہ میں ان کا کوئی وجود نہیں !
کہتے ہیں اپنے عزیزوں کو بخشوانے کے لیے اتنی دولت شاید ہی کوئی خرچ کرے۔ پھر اس میں تخفیف کے لیے دوسرے کئی حیلے بیان کرتے ہیں تاکہ اسے استطاعت سے باہر سمجھ کر بالکل ہی ترک نہ کر دیا جائے۔
جو لوگ ان حیلوں کے قائل نہیں، ان کے متعلق ان کا ارشاد ہے کہ:
"وہابی وغیرہ کو دنیا سے رخصت ہونے والوں کے ساتھ نہ کوئی خیرخواہی ہے اور نہ فقراء و غرباء(بریلوی ملّاؤں ) کے لیے جذبہ ہمدردی۔
اگر کوئی شخص حساب کے مطابق فدیہ ادا کرے، تو کیا اچھا ہے۔ 107"
اگر ہر محلے کے لوگ اپنے اعزا کو بخشوانے کے لیے ان حیلوں پر عمل شروع کر دیں تو ان ملّاؤں کی تو پانچوں گھی میں ہو جائیں۔
ان حیلوں سے بے نمازوں اور روزہ خوروں کی تعداد میں اضافہ تو ہو سکتا ہے، بریلوی اکابرین کی تجوریاں تو بھر سکتی ہیں، مگر عذاب کے مستحق مردوں کو بخشوایا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ ان حیلوں کا نہ قرآن میں ذکر نہ حدیث میں۔ جس نے دنیا میں جو کمایا، آخرت میں اس کا پھل پائے گا۔ اگر نیک ہے تو اسے حیلوں کی ضرورت نہیں، اور اگر بد ہے تو اسے ان کو کوئی فائدہ نہیں !
انگوٹھے چومنا بھی ایک بدعت ہے، جس کا حدیث سے کوئی ثبوت نہیں۔
بریلوی حضرات اس بدعت کو ثابت کرنے کے لیے من گھڑت اور موضوع روایات ذکر کرتے ہیں۔ جناب بریلوی لکھتے ہیں "حضرت خضر علیہ السلام سے مروی ہے کہ جو شخص (اشھدان محمدا رسول اللہ) سن کر اپنے انگوٹھے چومے گا اور پھر اپنی آنکھوں پر لگائے گا، اس کی آنکھیں کبھی نہ دکھیں گی۔ 108"
جناب احمد رضا نے اس روایت کو امام سخاوی سے نقل کیا ہے۔ جب کہ امام سخاوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ذکر کر کے لکھا ہے :
"اس روایت کو کسی صوفی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ اس کی سند میں جن راویوں کے اسماء ہیں، وہ محدثین کے نزدیک مجہول او رغیر معروف ہیں۔ یعنی خود ساختہ سند ہے۔ اور پھر خضر علیہ السلام سے کس نے سنا ہے؟ اس کا بھی کوئی ذکر نہیں۔ 109"
یعنی امام سخاوی جس روایت کو صوفیہ کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اس پر تنقید کر رہے ہیں اور اسے موضوع روایت قرار دے رہے ہیں، جناب احمد رضا مکمل علمی بددیانتی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک غیر اسلامی بدعت کو رواج دینے کے لئے اس سے استدلال کر رہے ہیں۔
امام سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں " وہ تمام روایات، جن میں انگوٹھوں کو چومنے کا ذکر ہے، وہ موضوع ومن گھڑت ہیں۔ 110"
اسی طرح امام سخاوی رحمہ اللہ، ملا علی قاری، محمد طاہر الفتنی اور علامہ شوکانی رحمہم اللہ وغیرہ نے ان تمام روایات کو موضوع قرار دیا ہے۔111
لیکن جناب احمد رضا صاحب کو اصرار ہے کہ "انگوٹھے چومنے کا انکار اجماع امت (بریلوی امت) کے منافی ہے۔ 112"
مزید:"اسے وہی شخص ناجائز کہے گا، جو سید الانام صلی اللہ علیہ و سلم کے نام سے جلتا ہے۔ 113"
بریلوی خرافات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ کہتے ہیں "جس نے ( لاالٰہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ) یہ ساری دعاء لکھ کر میت کے کفن میں رکھ دی، وہ قبر کی تنگیوں سے محفوظ رہے گا اور منکر نکیر اس کے پاس نہیں آئیں گے۔ 114"
اسی طرح بریلوی حضرات نے "عہد نامہ" کے نام سے ایک دعا وضع کر رکھی ہے، جس کا کوئی ثبوت نہیں۔ اس کے متعلق ان کا عقیدہ ہے کہ "اسے جس شخص کے کفن میں رکھا جائے، اللہ اس کے تمام گناہ معاف کر دے گا۔ 115"
احمد یار لکھتے ہیں :
عہد نامہ دیکھ کر میت کو یاد آ جاتا ہے کہ اس نے نکیرین کو کیا جواب دینا ہے؟116"
بریلوی حضرات کتاب و سنت اور خود فقہ حنفی کی مخالفت کرتے ہوئے بہت سی ایسی بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں، جن کا سلف صالحین سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ان میں سے ایک قبر پر اذان دینا بھی ہے۔ خان صاحب بریلوی لکھتے ہیں :
"قبر پر اذان دینا مستحب ہے، اس سے میت کو نفع ہوتا ہے۔ 117"
نیز:قبر پر اذان سے شیطان بھاگتا ہے اور برکات نازل ہوتی ہیں۔ 118"
حالانکہ فقہ حنفی میں واضح طور پر اس کی مخالفت کی گئی ہے۔ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"قبر پر اذان وغیرہ دینا یا دوسری بدعات کا ارتکاب کرنا درست نہیں۔ سنت سے فقط اتنا ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب جنت البقیع تشریف لے جاتے تو فرماتے (السلام علیکم دار قوم مومنین۔ ۔ ۔ ۔ الخ) اس کے علاوہ کچھ ثابت نہیں، ان بدعات سے اجتناب کرنا چاہئے 119"
امام شامی کہتے ہیں :
"آج کل قبر پر اذان دینے کا رواج ہے۔ اس کو کوئی ثبوت نہیں، یہ بدعت ہے۔ 120"
محمود بلخی رحمہ اللہ نے لکھا ہے :"قبر پر اذان دینے کی کوئی حیثیت نہیں۔ 121"
بہرحال یہ ہیں بریلوی حضرات کی وہ تعلیمات جو نہ صرف کتاب و سنت کے خلاف ہیں، بلکہ فقہ حنفی کے بھی خلاف ہیں۔ حالانکہ بریلوی قوم فقہ حنفی کا پابند ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں سنت پر عمل پیرا ہونے اور بدعات سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top