• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بریلویت کا اللہ تعالیٰ سے اختلاف

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
میں پہلے بھی اس بات کو دھرا چکا ہوں، کہ یہ نیت کا مسئلہ ہے ، آپ نے میرے دل میں جھانک کر نہیں دیکھا ہوا کہ میں نے کس نیت سے کہا تھا، اور آپ کے دماغ میں آنے والی باتوں کا میں مکلف نہیں ہوں، لہذا نیکسٹ ٹائم آپ کو اس موضوع پر کوئی وضاحت نہیں کی جائے گی۔ حسن ظن کا شکریہ
آپ کے لئے تو میں حسن ظن ہی رکھتا ہوں لیکن بعض لوگ ایسا عقیدہ رکھتے ہیں کہ جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ
نبی نا زندہ ہوتے ہوئے کچھ دے سکتے ہیں نہ فوت ہونے کے بعد
یہی بات جب امام احمد رضا بریلوی کے کانوں پہنچی تو انھوں نے اس بات کا جواب اپنے شعر میں اس طرح ارشاد فرمایا

حاکم ، حکیم داد دوا دیں یہ ﷺ کچھ نہ دیں
مردود یہ مراد کس آیت خبر کی ہے

ویسے مجھے آپ کے بارے میں حسن ظن ہے کہ آپ ایسا خیال نہیں رکھتے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ان کے رسول ہونےکی دلیل تھے، کفارِ مکہ کو چاہئے تھا کہ وہ معجزات دیکھ کر ہی سچے نبی کو پہچان لیتے اور ان صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و پیروی کر کے اپنی آخرت سنوارتے۔ معجزات دینے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ امتی اللہ کو چھور کر نبی کی عبادت کرنا شروع کر دیں۔عیسی علیہ السلام کو جو معجزات ملے ، وہ آپ نے اپنی امت کو دکھائے پھر کہا:

دیکھا آپ نے، معجزات دکھانے کے بعد وہی توحید و اطاعت رسول کی دعوت۔ کیونکہ انبیاء کا مقصد ہی یہی ہے، انبیاء اپنی دینی اور اخلاقی طور پر بگڑی ہوئی قوموں کے پاس اللہ کی شریعت لے کر جاتے ہیں اور وحی کے ذریعے ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ انبیاء کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ خود ان کی پوجا شروع کر دی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یعنی معجزات سے دلیل لی جاسکتی ہے کسی بنی یا رسول کی نبوت و رسالت کے لئے جب اتنے بھاری امر رسالت و نبوت کے لئے معجزات سے دلیل لی جاسکتی ہے تو پھر اس سے کم درجہ کے امر میں معجزات سے دلیل نہ لی جائے اس کے لئے دلیل بھی عنایت فرما دیں قرآن و حدیث سے نہ قول امام سے


آپ حقیقت مانیں تو آپ نے یہاں طفلانہ حرکت کی ہے، بھلا یہ بھی کوئی اعتراض ہے، کہ عام انسانوں کے لئے اتنے اختیارات مانتے ہیں، لیکن انبیاء کے لئے نہیں، میں نے کب عام انسانوں کے مافوق الاسباب اختیارات کی بات کی ہے۔ جہاں تک ظاہری طور پر اختیار کی بات ہے تو یہ سب ماتحت الاسباب ہے نا کہ مافوق الاسباب۔میں آپ کو مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب میں فرق سمجھاتا ہوں
"اگر ایک شخص سمندر میں کشتی پر سفر کر رہا ہے، بیچ سمندر اسے طوفان گھیر لیتا ہے اور وہ موبائل کے یا کسی اور وائرلیس کے ذریعے کنارے پر کھڑۓ لوگوں کو آگاہ کر دیتا ہے اور وہ ہیلی کاپٹر لے کر مدد کے لئے آجاتے ہیں تو یہ سارا کچھ اسباب کے تحت ہے یہ شرک نہیں ہے۔ شرک یہ ہے کہ آپ وہاں کھڑۓ کھڑے کسی معین الدین چشتی کو یا غلام فرید کو یا قلندر وغیرہ یا جتنے بھی لوگوں ني باطل معبود بنا ركهے ہیں ان کو پکارنا شروع کر دیں تو یہ شرک اکبر ہے۔ کیونکہ یہاں سوائے اللہ کے اور کسی کو نہیں پکارا جا سکتا"
فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ ﴿٦٥﴾۔۔۔سورۃ العنکبوت
ترجمہ: پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کر کے پھر جب وه انہیں خشکی کی طرف بچا ﻻتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں
انھیں باتوں کے جواب میں یہ شعر کہا گیا ہے آج سے تقریبا ایک صدی پہلے
حاکم ، حکیم داد دوا دیں یہﷺ کچھ نہ دیں
مردود یہ مراد کس آیت خبر کی ہے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
"اگر ایک شخص سمندر میں کشتی پر سفر کر رہا ہے، بیچ سمندر اسے طوفان گھیر لیتا ہے اور وہ موبائل کے یا کسی اور وائرلیس کے ذریعے کنارے پر کھڑۓ لوگوں کو آگاہ کر دیتا ہے اور وہ ہیلی کاپٹر لے کر مدد کے لئے آجاتے ہیں تو یہ سارا کچھ اسباب کے تحت ہے یہ شرک نہیں ہے۔ شرک یہ ہے کہ آپ وہاں کھڑۓ کھڑے کسی معین الدین چشتی کو یا غلام فرید کو یا قلندر وغیرہ یا جتنے بھی لوگوں ني باطل معبود بنا ركهے ہیں ان کو پکارنا شروع کر دیں تو یہ شرک اکبر ہے۔ کیونکہ یہاں سوائے اللہ کے اور کسی کو نہیں پکارا جا سکتا"
فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ ﴿٦٥﴾۔۔۔سورۃ العنکبوت
ترجمہ: پس یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں اس کے لئے عبادت کو خالص کر کے پھر جب وه انہیں خشکی کی طرف بچا ﻻتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں
یہ آیت یقینا کافر کے حق میں نازل ہوئی ہے اور خوارج کی روش پر چلتے ہوئے ہوئے آپ اس کا اطلاق مسلمانوں پر کررہے ہیں عبد اللہ بن عمر بھی یہی فرماتے ہیں کہ خوارج نے یہ کیا کہ جو آیات کفار کے حق میں نازل ہوئیں ان خوارج نے ان آیات کو مسلمانوں فٹ کردیا
اب سے تھوڑی دیر پہلے تک آپ اس بات کو نہیں مان رہے تھے کہ نہیں ہم ایسا نہیں کرتے اس لئے آپ کا لکھا ہوا ثبوت حاضر ہے لیکن

اوہ ہاں


یہ تو میں نہیں جانتا کہ آپ کی نیت کیا ہے ؟؟؟
ایک بار پھر میں حسن ظن رکھتے ہوئے آپ کی ان باتوں کا وہ مطلب نہیں لونگا جو آپ کی تحریر سے واضح ہو رہا ہے بلکہ آپ کی وضاحت ہی کو قبول کرلوں گا ! مسکراہٹ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
بہرام صاحب! ان دو پوسٹس کے اندر جو باتیں آپ نے کیں ہیں وہ اس قدر ضروری نہیں کہ ان کا جواب دیا جا سکے، بہت سارے پوائنٹس کا پچھلی پوسٹس میں جواب دے چکا ہوں مزید کوئی علمی پوائنٹس پر گفتگو کی تو پھر اپنی بحث شروع کریں گے ہم دونوں۔ ان شاءاللہ

ابھی آپ نیو پوسٹر ملاحظہ کریں۔۔۔ ابتسامہ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
قیامت کے دن انبیاء بھی موجود ہوں گے، لوگ بھی موجود ہوں گے، وہ جا کر انبیاء کو سفارش کے لئے کہیں گے، کیا اتنی سی بات سے آپ انبیاء کو خدائی اختیارات کا مالک سمجھ رہے ہیں۔ (نعوذباللہ من ذلک) اور پھر مافوق الاسباب طریقے سے مدد تو آج بھی لوگ غیراللہ سے مانگتے ہیں لیکن کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اصل بات مافوق الاسباب طریقے سے مدد کر سکنا ہے، اور وہ اللہ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی آخر اللہ کو اکیلا مشکل کشا، حاجت روا ماننے میں آپ کو کیا امر مانع ہے۔ آپ اتنی محبت اللہ سے کیوں نہیں کرتے؟ جس اللہ نے آپ کو پیدا کیا، روزی دی، آپ کو تو چاہئے کہ اسی اللہ کی عبادت کریں
انبیاء علیہم السلام کا درجات تو بہت بلند ہیں آئیں دیکھیں کہ نیک صالح امتی کا درجہ کیا ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اور یہ نیک صالح بندے کس انداز میں لوگوں کی شفاعت فرمائیں گے

فما أنتم بأشد لي مناشدة في الحق قد تبين لكم من المؤمن يومئذ للجبار ، وإذا رأوا أنهم قد نجوا ، في إخوانهم ، يقولون : ربنا إخواننا ، كانوا يصلون معنا ، ويصومون معنا ، ويعملون معنا ، فيقول الله تعالى : اذهبوا فمن وجدتم في قلبه مثقال دينار من إيمان فأخرجوه
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 7439

ما مجادلةُ أحدِكم في الحقِّ يكون له في الدنيا، بأشدَّ مجادلةً منَ المؤمنين لربهم في إخوانهم الذين أُدخلوا النارَ، قال : يقولون : ربَّنا إخوانُنا كانوا يصلون معنا، ويصومون ويحجُّون معنا، فأدخلْتَهم النارَ، قال : فيقول : اذهبوا فأَخرِجوا من عرَفتم منهم
صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 5025

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے کسی ایک شخص کا بھی دنیا میں کسی حق بات کے لئے تکرار کرنا اس قدر سخت نہیں ہو گا جو تکرار مومنین کاملین اپنے پروردگار سے اپنے ان بھائیوں کے لئے کریں گے جو جہنم میں داخل کئے جا چکے ہوں گے۔ وہ عرض کریں گے : اے ہمارے پروردگار! ہمارے یہ بھائی ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ہی ساتھ حج کرتے تھے اور تو نے انہیں دوزخ میں ڈال دیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اچھا تم جنہیں پہچانتے ہو انہیں جا کر خود ہی دوزخ سے نکال لو
کیا ایسے بھی آپ خدائی اختیارات کا مالک سے تعبیر فرماکر رد کرسکتے ہیں یہ تو انبیاء علیہم السلام کی نیک امتوں کا درجہ ہے اللہ کی بارگاہ میں پھر آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ انبیاء علیہم السلام کے درجات کیا ہونگے اور ان انبیاء کے سردار حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے درجات کی بلندی کی انتہا کیا ہوگی
اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کا خوبصورت اور جامع تبصرہ ملاحظہ فرمائیں:
"یہ کون شخص تھا جس نے یہ کہا؟ یہ کتاب کون سی تھی؟ اور یہ علم کیا تھا، جس کے زور پر یہ دعویٰ کیا گیا؟ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔ ان تینوں کی پوری حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ یہاں قرآن کریم کے الفاظ سے جو معلوم ہوتا ہے وہ اتنا ہی ہے کہ وہ کوئی انسان ہی تھا، جس کے پاس کتاب الہی کا علم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کراہت اور اعجاز کے طور پر اسے یہ قدرت دے دی کہ پلک چھپکتے میں وہ تخت لے آیا ۔ کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہری اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس لیے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس علم کے سراغ لگانے کی ضرورت، جس کا ذکر یہاں ہے۔ کیونکہ یہ تو اس شخص کا تعارف ہے جس کے ذریعے یہ کام ظاہری طور پر انجام پایا، ورنہ حقیقت میں تو یہ مشیت الہی ہی کی کارفرمائی ہے جو چشم زدن میں، جو چاہے، کر سکتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے، اس لئےجب انہوں نے دیکھا کہ تخت موجود ہے تو اسے فضل ربی سے تعبیر کیا"

سب کی گواہی ۔۔۔ ان شاءاللہ
سوال گندم جواب چنا
آپ نے جس آیت کی تفسیر پیش کی وہ سورہ نمل کی آیت 40 کی تفسیر ہے جبکہ میں نے آپ سے حضرت سلیمان علیہ السلام کا اپنے درباریوں سے مافوق الاسباب سوال کرنے پر رائے مانگی تھی اور وہ آیت یہ ہے
قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ
(سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: اے دربار والو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجائیں
سورہ نمل : 38
سوال یہ تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ سوال مافوق الاسباب سوال تھا یا ماتحت الاسباب ؟؟؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ارے یہ کیا آپ تو اپنی کہی ہوئی باتوں کے منکر ہوگئے جب آپ سے سوال کیا گیا کہ
بے شک اللہ نے نبی مکرم کو گواہیاں دینے والا بنا کر بھیجا
کیا رسول اللہ ﷺ پوری امت کی گواہی دیں گے یا صرف صحابہ کی ؟؟؟
اس سوال پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ
سب کی گواہی ۔۔۔ ان شاءاللہ
اب سوال یہ کہ جب آپ کے باطل عقیدے کے مطابق رسول اللہﷺ اس دنیا کے حالات سے باخبر نہیں یعنی اپنی امت کے حالات سے تو پھر کس طرح آپﷺ ساری امت کی گواہی دے سکتے ہیں ؟؟؟
مسکراہٹ
لگتا ہے اب ایک اور پوسٹ غائب ہوجائے گی
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
انبیاء علیہم السلام کا درجات تو بہت بلند ہیں آئیں دیکھیں کہ نیک صالح امتی کا درجہ کیا ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اور یہ نیک صالح بندے کس انداز میں لوگوں کی شفاعت فرمائیں گے
فما أنتم بأشد لي مناشدة في الحق قد تبين لكم من المؤمن يومئذ للجبار ، وإذا رأوا أنهم قد نجوا ، في إخوانهم ، يقولون : ربنا إخواننا ، كانوا يصلون معنا ، ويصومون معنا ، ويعملون معنا ، فيقول الله تعالى : اذهبوا فمن وجدتم في قلبه مثقال دينار من إيمان فأخرجوه
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 7439
ما مجادلةُ أحدِكم في الحقِّ يكون له في الدنيا، بأشدَّ مجادلةً منَ المؤمنين لربهم في إخوانهم الذين أُدخلوا النارَ، قال : يقولون : ربَّنا إخوانُنا كانوا يصلون معنا، ويصومون ويحجُّون معنا، فأدخلْتَهم النارَ، قال : فيقول : اذهبوا فأَخرِجوا من عرَفتم منهم
صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 5025
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے کسی ایک شخص کا بھی دنیا میں کسی حق بات کے لئے تکرار کرنا اس قدر سخت نہیں ہو گا جو تکرار مومنین کاملین اپنے پروردگار سے اپنے ان بھائیوں کے لئے کریں گے جو جہنم میں داخل کئے جا چکے ہوں گے۔ وہ عرض کریں گے : اے ہمارے پروردگار! ہمارے یہ بھائی ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ہی ساتھ حج کرتے تھے اور تو نے انہیں دوزخ میں ڈال دیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اچھا تم جنہیں پہچانتے ہو انہیں جا کر خود ہی دوزخ سے نکال لو
کیا ایسے بھی آپ خدائی اختیارات کا مالک سے تعبیر فرماکر رد کرسکتے ہیں یہ تو انبیاء علیہم السلام کی نیک امتوں کا درجہ ہے اللہ کی بارگاہ میں پھر آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ انبیاء علیہم السلام کے درجات کیا ہونگے اور ان انبیاء کے سردار حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے درجات کی بلندی کی انتہا کیا ہوگی
یہ اور اس طرح اور بھی احادیث میں سفارش کا ذکر ہے، اور ایسے لوگ جو نہ کافر تھے نہ مشرک، اگر ان کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا تو ایسے لوگوں کی بخشش کا ذکر ہے۔ ہم ان تمام احادیث کو من و عن تسلیم کرتے ہیں۔ ان میں کوئی اختلاف نہیں۔
لیکن اب دیکھئے کہ جن لوگوں نے اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ کیا ان کو انبیاء کی سفارش بھی نہیں بچا سکتی۔
انبیاء سے پوچھ گوچھ
يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّـهُ الرُّ‌سُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ﴿١٠٩﴾
"جس روز اللہ تعالیٰ سب رسولوں کو مخاطب کر کے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا تو وہ عرض کریں گے ہمیں کچھ علم نہیں ،غیب کی باتیں تو آپ کے علم میں ہیں"(سورہ مائدہ،آیت نمبر 109)

عیسی علیہ السلام سے عیسائیوں کے کفر کے بارے میں پوچھ گوچھ اور ان کا مشرکین سے اظہار بیزاری
وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْ‌يَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ﴿١١٦﴾ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْ‌تَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَ‌بِّي وَرَ‌بَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّ‌قِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴿١١٧﴾
"(قیامت کے دن)جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے عیسی ابن مریم کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو؟تو وہ جواب دیں گے کہ سبحان اللہ !میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا کہ جس کے کہنے کا مجھے حق ہی نہ تھا ،اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو تجھے ضرور علم ہوتا تو جانتا ہے جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے دل میں ہے بے شک تو ساری پوشیدہ باتوں سے واقف ہے ۔میں نے ان سے اس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا وہ یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے ،میں اس وقت تک ان کا نگران تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا جب تو نے مجھے واپس بلا لیا تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ساری ہی چیزوں پر نگران ہے۔(سورہ مائدہ ،آیت نمبر 116-117)

سچے اللہ کے ولیوں سے قیامت کے دن پوچھ گوچھ
وَيَوْمَ يَحْشُرُ‌هُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَـٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ ﴿١٧﴾ قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنبَغِي لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ وَلَـٰكِن مَّتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ‌ وَكَانُوا قَوْمًا بُورً‌ا ﴿١٨﴾
"اور جس روز اللہ تعالیٰ ان (مشرکوں)کو بھی اکٹھا کر لائے گا اور ان کو بھی جن کی اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے پھر ان (معبودوں)سے پوچھا جائے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود راہ راست سے بھٹک گئے تھے؟وہ عرض کریں گے پاک ہے تیری ذات ہماری تو مجال بھی نہ تھی کہ تیرے سوا کسی کو اپنا مولی بنا لیتے مگر تو نے ان کے باپ دادا کو خوب سامان زندگی دیا حتی کہ یہ (تیرے)ارشادات کو بھول گئے اور شامت زدہ ہو کر رہ گئے۔"(سورہ فرقان،آیت 17-18)
وَيَوْمَ نَحْشُرُ‌هُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَ‌كُوا مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَ‌كَاؤُكُمْ ۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَ‌كَاؤُهُم مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ ﴿٢٨﴾ فَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِن كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ ﴿٢٩﴾
"اور جس روز ہم ان سب (یعنی شریک ٹھرائے گئے اور شریک ٹھرانے والے لوگوں )کو ایک ساتھ اکٹھا کریں گے تو ان لوگوں سے جنہوں نے شریک کیا ہے کہیں گے کہ ٹھہر جاؤ تم سبھی اور ٹھہرائے ہوئے شریک بھی ،پھر ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ اٹھا لیں گے (یعنی وہ مشرک اور ان کے ٹروئائے ہوئے شریک بھی ایک دوسرے کو پہچان لیں گے)تب ان کے ٹھہرائے ہوئے شریک نہیں گے تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے (اور اس بات پر)ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے (اگر تم ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو )ہم تمہاری اس عبادت سے بے خبر تھے۔"(سورہ یونس،آیت نمبر 28-29)

ابراہیم علیہ السلام کی اپنے والد کے حق میں سفارش رد
يلقى إبراهيم أباه آزر يوم القيامة وعلى وجه آزر قترة وغبرة، فيقول له إبراهيم: ألم أقل لك لا تعصني؟ فيقول له أبوه: فاليوم لا أعصيك. فيقول إبراهيم: يا رب أنت وعدتني أن لا تخزني يوم يبعثون، وأي خزي أخزى من أبي الأبعد؟ فيقول الله عز وجل: إني حرّمت الجنة على الكافرين، ثم يقال: انظر ما تحت رجليك فينظر، فإذا هو بذيخ متلطخ فيؤخذ بقوائمه فيلقى في النار
''نبی کریم ﷺ نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آزر کو قیامت کے دن دیکھیں گے کہ اس کے منہ پر سیاہی اور گردوغبارہوگی،ان سے کہیں گے کہ میں نے (دنیا میں) تم سے نہیں کہا تھا میری نافرمانی نہ کرنا آزرکہے گا آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کرونگا اس وقت ابراہیم علیہ السلام (اللہ تعالیٰ سے) عرض کریں گے پروردگار تونے (میری دعا قبول کی تھی ،جو سورہ شعراء 87/26میں ہے )مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ قیامت کے دن تجھ کو رسو ا نہیں کرونگا اس سے زیادہ کونسی رسوائی ہوگی ۔میرا باپ ذلیل ہوا جو تیری رحمت سے محروم ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے بہشت تو کافروں پر حرام کردی ہے پھر ابراہیم علیہ السلام کوکہا جائے گا ذرا اپنے پاؤں کے تلے تو دیکھو وہ دیکھیں گے تو ایک بجّو نجاست سے لتھڑا ہواہے اور (فرشتے) اس کے پاؤں پکڑ کردوزخ میں ڈال دیں گے'' ۔
(صحیح بخاری۔کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراھیم خلیلارقم الحدیث3350)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش مشرکین کے لئے نہیں ہو گی
« لِكُلِّ نَبِىٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ فَتَعَجَّلَ كُلُّ نَبِىٍّ دَعْوَتَهُ وَإِنِّى اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِى شَفَاعَةً لأُمَّتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَهِىَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِى لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا »
'' ہر نبی کی ایک دعا ہے جسے شرف قبولیت بخشا جاتا ہے،چنانچہ ہر نبی نے اپنی دعوت کو عجلت میں کرلیا ہے، لیکن میں نے اپنی دعا کو روز قیامت کو اپنی امت کےلیے بطور سفارش چھپایا ہے پس وہ ان شاء اللہ میری امت میں سے ہراس شخص کو پہنچے گی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔(صحیح مسلم:199).
تو اس سے ثابت ہوا کہ سفارش بھی صرف ان لوگوں کو فائدے دے گی جو موحدین ہوں گے، انبیاء سفارش ضرور کریں گے لیکن انبیاء کے مقام و مرتبہ اور فضیلت کے باوجود ان کی سفارش کسی مشرک کے حق میں قبول نہیں ہو گی

سوال گندم جواب چنا
آپ نے جس آیت کی تفسیر پیش کی وہ سورہ نمل کی آیت 40 کی تفسیر ہے جبکہ میں نے آپ سے حضرت سلیمان علیہ السلام کا اپنے درباریوں سے مافوق الاسباب سوال کرنے پر رائے مانگی تھی اور وہ آیت یہ ہے
قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ
(سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: اے دربار والو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجائیں
سورہ نمل : 38
سوال یہ تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ سوال مافوق الاسباب سوال تھا یا ماتحت الاسباب ؟؟؟
مافوق الاسباب ہو یا ماتحت الاسباب، لیکن اس کا مطلب وہ نہیں جو آپ نکالنا چاہتے ہیں، پورا سیاق و سباق دیکھیں آیت کا:
قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ﴿٣٨﴾ قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ ۖ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ ﴿٣٩﴾ قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَـٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ ﴿٤٠﴾۔۔۔سورۃ النمل
آپ نے فرمایا اے سردارو! تم میں سے کوئی ہے جو ان کے مسلمان ہو کر پہنچنے سے پہلے ہی اس کا تخت مجھے ﻻدے (38) ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا آپ اپنی اس مجلس سے اٹھیں اس سے پہلے ہی پہلے میں اسے آپ کے پاس ﻻدیتا ہوں، یقین مانیے کہ میں اس پر قادر ہوں اور ہوں بھی امانت دار (39) جس کے پاس کتاب کا علم تھا وه بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں اس سے بھی پہلے میں اسے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں۔ جب آپ نے اسے اپنے پاس موجود پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب کا فضل ہے، تاکہ وه مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری، شکر گزار اپنے ہی نفع کے لیے شکر گزاری کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا پروردگار (بے پروا اور بزرگ) غنی اور کریم ہے
اس شخص کے کہنے کے باوجود بھی یوسف علیہ السلام نے کہا (هَـٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي) جی ہاں ! یوسف علیہ السلام نے اس بات کو اللہ کا فضل سمجھا، نا کہ اس شخص کی یوسف علیہ السلام کے دور میں پوجا شروع ہو گئی، نا ہی لوگ اس سے تعویذ لینے بھاگ پڑے، نا ہی اس شخص کی وفات کے بعد اس کا مزار بنا۔ اور یہ کیوں کہا اس کی تفسیر اوپر میں نے حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی زبانی بیان کر دی ہے۔ آپ نے اس آیت کی معنوی تحریف کر کے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر کے اپنی آخرت برباد کرنی ہے تو شوق سے کرتے رہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ارے یہ کیا آپ تو اپنی کہی ہوئی باتوں کے منکر ہوگئے جب آپ سے سوال کیا گیا کہ

اس سوال پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ



اب سوال یہ کہ جب آپ کے باطل عقیدے کے مطابق رسول اللہﷺ اس دنیا کے حالات سے باخبر نہیں یعنی اپنی امت کے حالات سے تو پھر کس طرح آپﷺ ساری امت کی گواہی دے سکتے ہیں ؟؟؟


مسکراہٹ
لگتا ہے اب ایک اور پوسٹ غائب ہوجائے گی
آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے حالات سے آگاہ ہیں؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
رسول اللہﷺ نے اس دنیا میں تشریف فرما ہوکر جنت کی حوض کوثر کو ملاحظہ کیا
اللہ کے حکم سے
اور جو رسول اللہﷺ عام طور سے ملاحظہ فرماتے ہیں وہ کیا حکم ربی کے بغیر ہے
اور پھر رسول اللہﷺ نے اللہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ " مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے
یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے لئے تھا
یہ کس دلیل کی بنائ پر صرف صحابہ کے لئے تھا جبکہ ایسی حدیث میں یہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ سے باہر نکلے اور شہداء احد پر نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھتے ہیں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں (حوض کوثر پر) تم سے پہلے پہنچوں گا اور قیامت کے دن تمہارے لیے میر سامان بنوں گا۔ میں تم پر گواہی دوں گا اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں، مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے۔ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا داری میں پڑ کر ایک دوسرے سے رشک و حسد نہ کرنے لگو۔
رسول اللہﷺ کی گواہی کے لئے آپ مانتے ہیں کہ یہ سب کے لئے ہوگی پھر اس ارشاد کو صرف صحابہ کے لئے مقید کرنا سمجھ سے بالا ہے
اب آپ اپنے عقائد کی اصلاح کر لیں، میں نے ایک اور بات بھی کی تھی جس کا جواب آپ سے نہیں بن پایا (کسی نبی یا رسول نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ مافوق الاسباب طریقے سے دنیا یا آخرت میں کچھ دے سکتے ہیں)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقیدہ توحید سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
لیکن صحابہ کا عقیدہ تھا کہ رسول اللہﷺ مافوق الاسباب سے ان کو وضو اور پینے کا پانی دے سکتے ہیں اللہ کے حکم سے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے حالات سے آگاہ ہیں؟
جس شہادت یا گواہی کا آپ نے اقرار کیا ہے کیا وہ بغیر حالات سے آگاہ ہوئے گواہی ہے ؟؟
 
Top