انبیاء علیہم السلام کا درجات تو بہت بلند ہیں آئیں دیکھیں کہ نیک صالح امتی کا درجہ کیا ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اور یہ نیک صالح بندے کس انداز میں لوگوں کی شفاعت فرمائیں گے
فما أنتم بأشد لي مناشدة في الحق قد تبين لكم من المؤمن يومئذ للجبار ، وإذا رأوا أنهم قد نجوا ، في إخوانهم ، يقولون : ربنا إخواننا ، كانوا يصلون معنا ، ويصومون معنا ، ويعملون معنا ، فيقول الله تعالى : اذهبوا فمن وجدتم في قلبه مثقال دينار من إيمان فأخرجوه
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 7439
ما مجادلةُ أحدِكم في الحقِّ يكون له في الدنيا، بأشدَّ مجادلةً منَ المؤمنين لربهم في إخوانهم الذين أُدخلوا النارَ، قال : يقولون : ربَّنا إخوانُنا كانوا يصلون معنا، ويصومون ويحجُّون معنا، فأدخلْتَهم النارَ، قال : فيقول : اذهبوا فأَخرِجوا من عرَفتم منهم
صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 5025
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے کسی ایک شخص کا بھی دنیا میں کسی حق بات کے لئے تکرار کرنا اس قدر سخت نہیں ہو گا جو تکرار مومنین کاملین اپنے پروردگار سے اپنے ان بھائیوں کے لئے کریں گے جو جہنم میں داخل کئے جا چکے ہوں گے۔ وہ عرض کریں گے : اے ہمارے پروردگار! ہمارے یہ بھائی ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ہی ساتھ حج کرتے تھے اور تو نے انہیں دوزخ میں ڈال دیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا : اچھا تم جنہیں پہچانتے ہو انہیں جا کر خود ہی دوزخ سے نکال لو
کیا ایسے بھی آپ خدائی اختیارات کا مالک سے تعبیر فرماکر رد کرسکتے ہیں یہ تو انبیاء علیہم السلام کی نیک امتوں کا درجہ ہے اللہ کی بارگاہ میں پھر آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ انبیاء علیہم السلام کے درجات کیا ہونگے اور ان انبیاء کے سردار حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے درجات کی بلندی کی انتہا کیا ہوگی
یہ اور اس طرح اور بھی احادیث میں سفارش کا ذکر ہے، اور ایسے لوگ جو نہ کافر تھے نہ مشرک، اگر ان کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا تو ایسے لوگوں کی بخشش کا ذکر ہے۔ ہم ان تمام احادیث کو من و عن تسلیم کرتے ہیں۔ ان میں کوئی اختلاف نہیں۔
لیکن اب دیکھئے کہ جن لوگوں نے اپنے ایمان کو ظلم (شرک) سے آلودہ کیا ان کو انبیاء کی سفارش بھی نہیں بچا سکتی۔
انبیاء سے پوچھ گوچھ
يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّـهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ﴿١٠٩﴾
"جس روز اللہ تعالیٰ سب رسولوں کو مخاطب کر کے پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا تو وہ عرض کریں گے ہمیں کچھ علم نہیں ،غیب کی باتیں تو آپ کے علم میں ہیں"(سورہ مائدہ،آیت نمبر 109)
عیسی علیہ السلام سے عیسائیوں کے کفر کے بارے میں پوچھ گوچھ اور ان کا مشرکین سے اظہار بیزاری
وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ﴿١١٦﴾ مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ﴿١١٧﴾
"(قیامت کے دن)جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے عیسی ابن مریم کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو؟تو وہ جواب دیں گے کہ سبحان اللہ !میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا کہ جس کے کہنے کا مجھے حق ہی نہ تھا ،اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی تو تجھے ضرور علم ہوتا تو جانتا ہے جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے دل میں ہے بے شک تو ساری پوشیدہ باتوں سے واقف ہے ۔میں نے ان سے اس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا وہ یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے ،میں اس وقت تک ان کا نگران تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا جب تو نے مجھے واپس بلا لیا تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ساری ہی چیزوں پر نگران ہے۔(سورہ مائدہ ،آیت نمبر 116-117)
سچے اللہ کے ولیوں سے قیامت کے دن پوچھ گوچھ
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَـٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ ﴿١٧﴾ قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنبَغِي لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ وَلَـٰكِن مَّتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا ﴿١٨﴾
"اور جس روز اللہ تعالیٰ ان (مشرکوں)کو بھی اکٹھا کر لائے گا اور ان کو بھی جن کی اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے پھر ان (معبودوں)سے پوچھا جائے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود راہ راست سے بھٹک گئے تھے؟وہ عرض کریں گے پاک ہے تیری ذات ہماری تو مجال بھی نہ تھی کہ تیرے سوا کسی کو اپنا مولی بنا لیتے مگر تو نے ان کے باپ دادا کو خوب سامان زندگی دیا حتی کہ یہ (تیرے)ارشادات کو بھول گئے اور شامت زدہ ہو کر رہ گئے۔"(سورہ فرقان،آیت 17-18)
وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ ۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُم مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ ﴿٢٨﴾ فَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِن كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ ﴿٢٩﴾
"اور جس روز ہم ان سب (یعنی شریک ٹھرائے گئے اور شریک ٹھرانے والے لوگوں )کو ایک ساتھ اکٹھا کریں گے تو ان لوگوں سے جنہوں نے شریک کیا ہے کہیں گے کہ ٹھہر جاؤ تم سبھی اور ٹھہرائے ہوئے شریک بھی ،پھر ان کے درمیان سے اجنبیت کا پردہ اٹھا لیں گے (یعنی وہ مشرک اور ان کے ٹروئائے ہوئے شریک بھی ایک دوسرے کو پہچان لیں گے)تب ان کے ٹھہرائے ہوئے شریک نہیں گے تم ہماری عبادت تو نہیں کرتے تھے (اور اس بات پر)ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے (اگر تم ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو )ہم تمہاری اس عبادت سے بے خبر تھے۔"(سورہ یونس،آیت نمبر 28-29)
ابراہیم علیہ السلام کی اپنے والد کے حق میں سفارش رد
يلقى إبراهيم أباه آزر يوم القيامة وعلى وجه آزر قترة وغبرة، فيقول له إبراهيم: ألم أقل لك لا تعصني؟ فيقول له أبوه: فاليوم لا أعصيك. فيقول إبراهيم: يا رب أنت وعدتني أن لا تخزني يوم يبعثون، وأي خزي أخزى من أبي الأبعد؟ فيقول الله عز وجل: إني حرّمت الجنة على الكافرين، ثم يقال: انظر ما تحت رجليك فينظر، فإذا هو بذيخ متلطخ فيؤخذ بقوائمه فيلقى في النار
''نبی کریم ﷺ نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام اپنے والد آزر کو قیامت کے دن دیکھیں گے کہ اس کے منہ پر سیاہی اور گردوغبارہوگی،ان سے کہیں گے کہ میں نے (دنیا میں) تم سے نہیں کہا تھا میری نافرمانی نہ کرنا آزرکہے گا آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کرونگا اس وقت ابراہیم علیہ السلام (اللہ تعالیٰ سے) عرض کریں گے پروردگار تونے (میری دعا قبول کی تھی ،جو سورہ شعراء 87/26میں ہے )مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ قیامت کے دن تجھ کو رسو ا نہیں کرونگا اس سے زیادہ کونسی رسوائی ہوگی ۔میرا باپ ذلیل ہوا جو تیری رحمت سے محروم ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے بہشت تو کافروں پر حرام کردی ہے پھر ابراہیم علیہ السلام کوکہا جائے گا ذرا اپنے پاؤں کے تلے تو دیکھو وہ دیکھیں گے تو ایک بجّو نجاست سے لتھڑا ہواہے اور (فرشتے) اس کے پاؤں پکڑ کردوزخ میں ڈال دیں گے'' ۔
(صحیح بخاری۔کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراھیم خلیلارقم الحدیث3350)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش مشرکین کے لئے نہیں ہو گی
« لِكُلِّ نَبِىٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ فَتَعَجَّلَ كُلُّ نَبِىٍّ دَعْوَتَهُ وَإِنِّى اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِى شَفَاعَةً لأُمَّتِى يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَهِىَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِى لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا »
'' ہر نبی کی ایک دعا ہے جسے شرف قبولیت بخشا جاتا ہے،چنانچہ ہر نبی نے اپنی دعوت کو عجلت میں کرلیا ہے، لیکن میں نے اپنی دعا کو روز قیامت کو اپنی امت کےلیے بطور سفارش چھپایا ہے پس وہ ان شاء اللہ میری امت میں سے ہراس شخص کو پہنچے گی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔(صحیح مسلم:199).
تو اس سے ثابت ہوا کہ سفارش بھی صرف ان لوگوں کو فائدے دے گی جو موحدین ہوں گے، انبیاء سفارش ضرور کریں گے لیکن انبیاء کے مقام و مرتبہ اور فضیلت کے باوجود ان کی سفارش کسی مشرک کے حق میں قبول نہیں ہو گی
سوال گندم جواب چنا
آپ نے جس آیت کی تفسیر پیش کی وہ سورہ نمل کی آیت 40 کی تفسیر ہے جبکہ میں نے آپ سے حضرت سلیمان علیہ السلام کا اپنے درباریوں سے مافوق الاسباب سوال کرنے پر رائے مانگی تھی اور وہ آیت یہ ہے
قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ
(سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: اے دربار والو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجائیں
سورہ نمل : 38
سوال یہ تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ سوال مافوق الاسباب سوال تھا یا ماتحت الاسباب ؟؟؟
مافوق الاسباب ہو یا ماتحت الاسباب، لیکن اس کا مطلب وہ نہیں جو آپ نکالنا چاہتے ہیں، پورا سیاق و سباق دیکھیں آیت کا:
قَالَ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِعَرْشِهَا قَبْلَ أَن يَأْتُونِي مُسْلِمِينَ ﴿٣٨﴾ قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ ۖ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ ﴿٣٩﴾ قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَـٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ ۖ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ ﴿٤٠﴾۔۔۔سورۃ النمل
آپ نے فرمایا اے سردارو! تم میں سے کوئی ہے جو ان کے مسلمان ہو کر پہنچنے سے پہلے ہی اس کا تخت مجھے ﻻدے (38) ایک قوی ہیکل جن کہنے لگا آپ اپنی اس مجلس سے اٹھیں اس سے پہلے ہی پہلے میں اسے آپ کے پاس ﻻدیتا ہوں، یقین مانیے کہ میں اس پر قادر ہوں اور ہوں بھی امانت دار (39) جس کے پاس کتاب کا علم تھا وه بول اٹھا کہ آپ پلک جھپکائیں اس سے بھی پہلے میں اسے آپ کے پاس پہنچا سکتا ہوں۔ جب آپ نے اسے اپنے پاس موجود پایا تو فرمانے لگے یہی میرے رب کا فضل ہے، تاکہ وه مجھے آزمائے کہ میں شکر گزاری کرتا ہوں یا ناشکری، شکر گزار اپنے ہی نفع کے لیے شکر گزاری کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا پروردگار (بے پروا اور بزرگ) غنی اور کریم ہے
اس شخص کے کہنے کے باوجود بھی یوسف علیہ السلام نے کہا (
هَـٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي) جی ہاں ! یوسف علیہ السلام نے اس بات کو اللہ کا فضل سمجھا، نا کہ اس شخص کی یوسف علیہ السلام کے دور میں پوجا شروع ہو گئی، نا ہی لوگ اس سے تعویذ لینے بھاگ پڑے، نا ہی اس شخص کی وفات کے بعد اس کا مزار بنا۔ اور یہ کیوں کہا اس کی تفسیر اوپر میں نے حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی زبانی بیان کر دی ہے۔ آپ نے اس آیت کی معنوی تحریف کر کے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر کے اپنی آخرت برباد کرنی ہے تو شوق سے کرتے رہیں۔