شاید آپ کی نظر میں صحیح بخاری کی دلیل دلیل نہیں لیجئے اب آپ کی طرف سے پیش کی گئی قرآن کی ادھوری آیت کو پورا تلاوت کرتے ہیں اور پھر اس آیت قرآنی پر غور کرتے کہ کیوں صحابہ نے رسول اللہﷺ کے سوال پر بھی اس آیت کو تلاوت نہیں کیا
صحابہ اس آیت قرآنی کی تلاوت اس طرح فرماتے تھے
﷽
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا
الکھف : 110
اگر اس آیت کی تلاوت وہابی طریقے سے کی جائے یعنی صرف قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ تک تو پھر انسان وہابی کی طرح گمراہ ہوسکتا ہے اور اگر صحابی کے طریقے پر اس آیت کو پورا پڑھاجائے تو پھر انسان اس آیت قرآنی سے گمراہ نہیں ہوسکتا کیونکہ صحابی یہ جانتے تھے کہ رسول اللہﷺ ایسے بشر ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ وحی نازل فرماتا ہے اس لئے رسول اللہﷺ کے سوال أيُّكم مثلي "تم میں کون میری مثل ہے "کے جواب میں صحابی ، وہابی کی طرح یہ نہیں کہتے کہ آپ بھی ہماری مثل بشر ہو بلکہ وہ خاموش ہوجاتے ہیں کیونکہ صحابی جانتے رسول اللہﷺ کی طرح اللہ ہم پر وحی نازل نہیں فرماتا
والسلام
السلام و علیکم -
اس آیت
(قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ سوره الكهف) سے واضح ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم ایک انسان (بشر تھے) دوسرے انسانوں کی طرح - یعنی نوری مخلوق نہیں تھے اور نہ کوئی اور غیر مرآئی مخلوق تھے - کیوں کہ اگلی آیت میں الله اپنے نبی سے خود کہلوا رہا ہے کہ ہوں تو میں تہماری طرح کا بشر لیکن تم میں اور مجھ میں فرق یہ ہے کہ مجھ پر الله کی وحی نازل ہوتی ہے - جسے پہلے انبیاء پر نازل ہوتی رہی -
یہ آیت کافروں کے اس اعتراض پر اتری تھی کہ ایک ہم جیسے انسان پر الله کی وحی کیسے نازل ہو سکتی ہے ؟؟؟
وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الأَسْوَاقِ سوره الفرقان ٧
یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے، اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے -
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور بشریت کے بارے میں جو قرآن نے کہہ دیا ہے اس سے تجاوز کرنا درست نہیں ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کہنا، یا آپکے بارے میں عدم سایہ کا دعوی کرنا ، یا یہ کہنا کہ آپکو نور سے پیدا کیا گیا ، یہ سب کچھ اس غلو میں شامل ہے جس کے بارے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: (مجھے ایسے بڑھا چڑھا کر بیان نہ کرو جیسے عیسی بن مریم کو نصاری نے بڑھایا، بلکہ میرے بارے میں صرف یہ کہو: اللہ کا بندہ اور اسکا رسول) بخاری (6830)
اور بخاری کی یہ حدیث کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ
"تم میں سے کون مجھ جیسا ہے؟؟" یہ غالبا ایک غزوہ کے موقعے پر جب صحابہ کرام رضوان الله اجمعین بھوک کی شدت سے نڈھال تھے تب آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے فرمایا تھا- پوری عبارت اس طرح ہے
"مجھے تو میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے- تم میں سے کون مجھ جیسا ہے؟؟"
مطلب یہ تھا کہ : الله نے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کو جو برداشت اور الله پر بھروسہ کی قوت دی تھی وہ اور کسی میں نہیں تھی- یعنی آپ کا کوئی صحابی اس معاملے میں آپ کی برابری نہیں کرسکتا تھا- لیکن اس سے یہ مطلب اخذ کرنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان نہیں بلکہ کوئی نوری مخلوق ہیں یہ ایک جہالت اور کفر کی بات ہے -
قرآن میں الله کا ارشاد ہے کہ :
وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ سوره الانبیا ء ٨
:اور ہم نے ان [انبیاء] کو ایسی جان نہیں بنایا کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں، اور نہ ہی انہیں ہمیشہ رہنے والا بنایا- (یعنی باقی انسانوں کی طرح انھیں بھی موت کا سامنا کرنا ہوتا ہے)-
والسلام -