• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بریلویت کا اللہ تعالیٰ سے اختلاف

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
سوال کیا تھا سلیمان علیہ السلام کا ؟؟
کیا آپ اس سوال کو ماتحت الاسباب سوال مانتے ہیں ؟
صرف اتنا ہی معلوم کیا تھا
مہربانی فرماکر جواب عنایت فرما دیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے بشرط یہ کہ غائب نہ ہوجاوے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جس شہادت یا گواہی کا آپ نے اقرار کیا ہے کیا وہ بغیر حالات سے آگاہ ہوئے گواہی ہے ؟؟
اگر امت کی گواہی کے لئے تمام حالات سے واقف ہونا ضروری ہے اور ہر دور میں حاضر ناظر ہونا ضروری ہے تو پھر امت کے تمام افراد کو ہر دورمیں حاضر ناظر ہونا چاہئے کیونکہ یہ امت بھی دوسری امتوں کی گواہی دیں گی۔​
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا ﴿٤١﴾
پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواه ہم ﻻئیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواه بناکر ﻻئیں گے۔۔۔سورۃ النساء
اب آپ مجھے بتائیں کہ آپ کے گمان کے مطابق کہ آپ مسلمان ہیں اور امت محمدیہ میں سے ہیں، لیکن آپ تو عیسی علیہ السلام کی امت کے دور میں موجود نہیں تھے تو کس طرح گواہی دیں گے؟​
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
سوال کیا تھا سلیمان علیہ السلام کا ؟؟
کیا آپ اس سوال کو ماتحت الاسباب سوال مانتے ہیں ؟
صرف اتنا ہی معلوم کیا تھا
مہربانی فرماکر جواب عنایت فرما دیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے بشرط یہ کہ غائب نہ ہوجاوے
کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہری اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس لیے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس علم کے سراغ لگانے کی ضرورت۔
اس سے زیادہ اور کیا وضاحت ہو آپ کے لئے۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اگر امت کی گواہی کے لئے تمام حالات سے واقف ہونا ضروری ہے اور ہر دور میں حاضر ناظر ہونا ضروری ہے تو پھر امت کے تمام افراد کو ہر دورمیں حاضر ناظر ہونا چاہئے کیونکہ یہ امت بھی دوسری امتوں کی گواہی دیں گی۔​
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلَاءِ شَهِيدًا ﴿٤١﴾
پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواه ہم ﻻئیں گے اور آپ کو ان لوگوں پر گواه بناکر ﻻئیں گے۔۔۔سورۃ النساء
اب آپ مجھے بتائیں کہ آپ کے گمان کے مطابق کہ آپ مسلمان ہیں اور امت محمدیہ میں سے ہیں، لیکن آپ تو عیسی علیہ السلام کی امت کے دور میں موجود نہیں تھے تو کس طرح گواہی دیں گے؟​
کیا بات ہے آپ کے فہم کی تعجب ہوتا ہے کہ آپ قرآن کی معنی بھی نہیں سمجھ سکتے اس آیت کا ترجمہ اب ملاحظہ فرمائیں
پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے
آپ نے اس سے جو مطلب لیا وہ تو اس آیت سے نکلتا ہی نہیں بلکہ یہ آیت تو رسول اللہﷺ کی گواہی تمام امتوں پر ثابت کررہی ہے
اور امت سے گواہ اس امت کے نبی و رسول ہونگے
وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
سورہ زمر :69
اور زمینِ (محشر) اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور (ہر ایک کے اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی اور انبیاء کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَـؤُلاَءِ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ
سورہ نحل :89
اور (یہ) وہ دن ہوگا (جب) ہم ہر امت میں انہی میں سے خود ان پر ایک گواہ اٹھائیں گے اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ کو ان سب (امتوں اور پیغمبروں) پر گواہ بنا کر لائیں گے، اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔

اب آپ بتادیں کہ اللہ کے ان فرامین کی روشنی میں کہ رسول اللہﷺ کی گواہی اپنی امت اور پچھلی تمام امتوں کے لئے اپنی امت اور پچھلی امتوں کے حالات سے آگاہی کے بغیر ہوگی یا حالات سے آگاہی کی روشنی میں ہوگی ؟؟؟؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہری اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس لیے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس علم کے سراغ لگانے کی ضرورت۔
اس سے زیادہ اور کیا وضاحت ہو آپ کے لئے۔

مطلب یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے یہ فرمایا کہ تم میں سے کون معجزہ یا کرامت دیکھا سکتا ہے کہ ملکہ بلقیس کا تخت اس کے یہاں آنے سے پہلے لے آئے
اگر ایسی کوئی بات ہے تو بغیر قرآن و حدیث کی دلیل کے آپ ایسے مانے والے نہیں اس لئے بہتر ہے آپ دلیل عنایت فرمادیں شکریہ
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہرام صاحب! ان دو پوسٹس کے اندر جو باتیں آپ نے کیں ہیں وہ اس قدر ضروری نہیں کہ ان کا جواب دیا جا سکے، بہت سارے پوائنٹس کا پچھلی پوسٹس میں جواب دے چکا ہوں مزید کوئی علمی پوائنٹس پر گفتگو کی تو پھر اپنی بحث شروع کریں گے ہم دونوں۔ ان شاءاللہ

ابھی آپ نیو پوسٹر ملاحظہ کریں۔۔۔ ابتسامہ
شاید اس بات کا جواب نہیں آیا اگر آگیا ہو تو رہنمائی فرمادیں
یعنی معجزات سے دلیل لی جاسکتی ہے کسی بنی یا رسول کی نبوت و رسالت کے لئے جب اتنے بھاری امر رسالت و نبوت کے لئے معجزات سے دلیل لی جاسکتی ہے تو پھر اس سے کم درجہ کے امر میں معجزات سے دلیل نہ لی جائے اس کے لئے دلیل بھی عنایت فرما دیں قرآن و حدیث سے نہ قول امام سے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
کیا بات ہے آپ کے فہم کی تعجب ہوتا ہے کہ آپ قرآن کی معنی بھی نہیں سمجھ سکتے اس آیت کا ترجمہ اب ملاحظہ فرمائیں
پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے
آپ نے اس سے جو مطلب لیا وہ تو اس آیت سے نکلتا ہی نہیں بلکہ یہ آیت تو رسول اللہﷺ کی گواہی تمام امتوں پر ثابت کررہی ہے
اور امت سے گواہ اس امت کے نبی و رسول ہونگے
وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
سورہ زمر :69
اور زمینِ (محشر) اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور (ہر ایک کے اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی اور انبیاء کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَـؤُلاَءِ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ
سورہ نحل :89
اور (یہ) وہ دن ہوگا (جب) ہم ہر امت میں انہی میں سے خود ان پر ایک گواہ اٹھائیں گے اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ کو ان سب (امتوں اور پیغمبروں) پر گواہ بنا کر لائیں گے، اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔

اب آپ بتادیں کہ اللہ کے ان فرامین کی روشنی میں کہ رسول اللہﷺ کی گواہی اپنی امت اور پچھلی تمام امتوں کے لئے اپنی امت اور پچھلی امتوں کے حالات سے آگاہی کے بغیر ہوگی یا حالات سے آگاہی کی روشنی میں ہوگی ؟؟؟؟
دراصل میرا اشارہ ان آیات کی طرف تھا۔ اجلت میں دوسری آیت پوسٹ کر دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا۔۔۔سورۃ البقرۃ
ترجمہ: ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواه ہوجاؤ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواه ہوجائیں
اور
لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ۔۔سورۃ الحج
ترجمہ: تاکہ پیغمبر تم پر گواه ہو جائے اور تم تمام لوگوں کے گواه بن جاؤ
صحیح بخاری میں حدیث ہے
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( يُدْعَى نُوحٌ عَلَيْهِ السَّلام يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُقَالُ لَهُ : هَلْ بَلَّغْتَ ؟ فَيَقُولُ : نَعَمْ ؛ فَيُدْعَى قَوْمُهُ فَيُقَالُ لَهُمْ : هَلْ بَلَّغَكُمْ ؟ فَيَقُولُونَ : مَا أَتَانَا مِنْ نَذِيرٍ أَوْ مَا أَتَانَا مِنْ أَحَدٍ , قَالَ : فَيُقَالُ لِنُوحٍ : مَنْ يَشْهَدُ لَكَ ؟فَيَقُولُ : مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ , قَالَ : فَذَلِكَ قَوْلُهُ : ( وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا )
رواہ البخاری
سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا :'' قیامت کے دن نوحؑ بلائے جائیں گے، وہ عرض کریں گے '' میں حاضر ہوں اے پروردگار ، جو حکم ہو بجا لاؤں '' اللہ تعالیٰ فرمائے گا ''کیا تم نے لوگوں کو ہمارے احکام بتا دیے تھے ؟ '' وہ کہیں گے ''ہاں '' پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا کہ نوح (علیہ السلام) نے تم کو میرا حکم پہنچا یا تھا (یا نہیں ؟) تو وہ کہیں گے کہ '' ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) نہیں آیا۔ '' نوح علیہ السلام سے کہا جائے گا '' کوئی تیرا گواہ ہے ؟'' وہ عرض کریں گے ''محمد (ﷺ) اور ان کی امت کے لوگ گواہ ہیں۔ ''پھر اس امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ نوح علیہ السلام نے اللہ کا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا تھا '' اور پیغمبر (محمدﷺ)تم پر گواہ بنیں گے۔ '' پس اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یہی مطلب ہے کہ ''ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول (ﷺ) تم پر گواہ ہو جائیں۔ ''
تو ان آیات اور حدیث سے واضح ہے کہ کہ امت محمدیہ لوگوں پر گواہ ہو گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر گواہ ہوں گے۔
اب آپ مجھے بتائیں کہ امت محمدیہ دوسری امتوں پر جو گواہی دے گی تو وہ کیسے دے گی؟ جبکہ آپ کے بقول گواہی کے لئے ہر وقت حاضر ناظر ہونا ضروری ہے؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا :'' قیامت کے دن نوحؑ بلائے جائیں گے، وہ عرض کریں گے '' میں حاضر ہوں اے پروردگار ، جو حکم ہو بجا لاؤں '' اللہ تعالیٰ فرمائے گا ''کیا تم نے لوگوں کو ہمارے احکام بتا دیے تھے ؟ '' وہ کہیں گے ''ہاں '' پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا کہ نوح (علیہ السلام) نے تم کو میرا حکم پہنچا یا تھا (یا نہیں ؟) تو وہ کہیں گے کہ '' ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) نہیں آیا۔ '' نوح علیہ السلام سے کہا جائے گا '' کوئی تیرا گواہ ہے ؟'' وہ عرض کریں گے ''محمد (ﷺ) اور ان کی امت کے لوگ گواہ ہیں۔ ''پھر اس امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ نوح علیہ السلام نے اللہ کا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا تھا '' اور پیغمبر (محمدﷺ)تم پر گواہ بنیں گے۔ '' پس اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یہی مطلب ہے کہ ''ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول (ﷺ) تم پر گواہ ہو جائیں۔ ''
تو ان آیات اور حدیث سے واضح ہے کہ کہ امت محمدیہ لوگوں پر گواہ ہو گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر گواہ ہوں گے۔
اب آپ مجھے بتائیں کہ امت محمدیہ دوسری امتوں پر جو گواہی دے گی تو وہ کیسے دے گی؟ جبکہ آپ کے بقول گواہی کے لئے ہر وقت حاضر ناظر ہونا ضروری ہے؟
یہ جو آپ نے اپنے من کی بات کو میری طرف نسبت دیا اس کو صحیح فرمالیں کہ
جبکہ آپ کے بقول گواہی کے لئےہر وقت حاضر ناظر ہونا ضروری ہے؟
یہ بات میں اس دھاگے میں کہیں بھی نہیں کہی پھر اس بات کو آپ میری جانب کیوں نسبت فرمارہے ہیں جبکہ میں نے اب تک یہی عرض کیا کہ گواہی دینے کے لئے حالات سے آگاہی ضروری ہے اور ہر مسلمان جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے ایسے حضرت نوح علیہ السلام کی امت کے حالات سے آگاہی ہے اور یہ آگاہی اتنی سچی ہے کہ ایسی سچی بات اور کوئی نہیں نوح علیہ السلام کی امت سے آگاہی ایک مسلمان کے ایمان کا حصہ تو کیا امت محمدیﷺ قیامت کے دن اس پر گواہی دینے میں کوئی پس وپیش کرسکتی ہے
اب آپ سے سوال ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کی امت قیامت کے دن کہے گی کہ'' ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) نہیں آیا۔ '' اس پر اللہ تعالیٰ آپ سے قیامت کے یہ گواہی مانگے کہ کیا نوح علیہ السلام نے اپنی امت کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اگر آپ قرآن مجید کو ا للہ کی سچی کتاب مانتے ہو اور اس کتاب میں آپ نے یہ پڑھ رکھا ہو کہ
إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ أَنْ أَنذِرْ قَوْمَكَ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (1)
قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ (2)
أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ (3)
يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (4)
قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا ( 5)

بے شک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ آپ اپنی قوم کو ڈرائیں قبل اس کے کہ اُنہیں دردناک عذاب آپہنچے
اُنہوں نے کہا: اے میری قوم! بے شک میں تمہیں واضح ڈر سنانے والا ہوں
کہ تم اﷲ کی عبادت کرو اور اُس سے ڈرو اور میری اِطاعت کرو
وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں مقررہ مدت تک مہلت عطا کرے گا، بے شک اﷲ کی (مقرر کردہ) مدت جب آجائے تو مہلت نہیں دی جاتی، کاش! تم جانتے ہوتے
نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! بے شک میں اپنی قوم کو رات دن بلاتا رہا
اور ایسی طرح قرآن حکیم سے جو امت محمدیﷺ کو دیگر امتوں کے حالات سے آگاہی ہوئی ایسی کی گواہی امت محمدیﷺ قیامت کے دن دے گی امید ہے اب آپ کے ذہین میں جو ابہام تھا وہ دور ہوا ہوگا کہ گواہی حالات سے آگاہی کی بناء پر ہی دی جاتی ہے
اور میرے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی آگاہی کی تو کیا بات ہے سبحان اللہ آپ ﷺ کو ابتداء خلق سے لیکر جنتیوں کے جنت میں اور جہنموں کے جہنم جانے تک کی آگاہی رکھتے ہیں اور ان سب باتوں سے رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو آگاہ بھی فرمادیا ہے اب جیسے یہ سب باتیں یاد رہی وہ چاہے اس دنیا ہو تب بھی ایسے یاد ہے یا اگر اپنی قبر انور میں تشریف فرما ہو تو بھی یاد ہے اور اگر کل قیامت کے دن میدان حشر میں کھڑا ہو تو بھی ایسے یاد رہے گی ان شاء اللہ
۔۔۔
صحیح بخاری حدیث 6604
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ دیا اور قیامت تک کوئی چیز ایسی نہیں چھوڑی جس کا بیان نہ کیا ہو، جسے یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا، جب میں ان کی کوئی چیز دیکھتا ہوں جسے میں بھول چکا ہوں تو اس طرح اسے پہچان لیتا ہوں جس طرح وہ شخص جس کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو کہ جب وہ اسے دیکھتا ہے تو فوراً پہچان لیتا ہے۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 3192
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر ہمیں وعظ فرمایا اور ابتدائے خلق کے بارے میں ہمیں خبر دی۔ یہاں تک کہ جب جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں گے (وہاں تک ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایا) جسے اس حدیث کو یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا۔
والسلام

غیر متعلقہ مواد حذف ۔ انتظامیہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
یہ جو آپ نے اپنے من کی بات کو میری طرف نسبت دیا اس کو صحیح فرمالیں کہ
جبکہ آپ کے بقول گواہی کے لئےہر وقت حاضر ناظر ہونا ضروری ہے؟
یہ بات میں اس دھاگے میں کہیں بھی نہیں کہی پھر اس بات کو آپ میری جانب کیوں نسبت فرمارہے ہیں
آپ کا تعلق اہل تشیع سے ہے لیکن آپ یہاں بریلویت کی نمائندگی کر رہے ہیں اور بریلویوں کا عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر ناظر ہیں، لیکن اگر آپ کا یہ عقیدہ نہیں ہے تو اچھی بات ہے۔
جبکہ میں نے اب تک یہی عرض کیا کہ گواہی دینے کے لئے حالات سے آگاہی ضروری ہے اور ہر مسلمان جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے ایسے حضرت نوح علیہ السلام کی امت کے حالات سے آگاہی ہے اور یہ آگاہی اتنی سچی ہے کہ ایسی سچی بات اور کوئی نہیں نوح علیہ السلام کی امت سے آگاہی ایک مسلمان کے ایمان کا حصہ تو کیا امت محمدیﷺ قیامت کے دن اس پر گواہی دینے میں کوئی پس وپیش کرسکتی ہے
اب آپ سے سوال ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کی امت قیامت کے دن کہے گی کہ'' ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) نہیں آیا۔ '' اس پر اللہ تعالیٰ آپ سے قیامت کے یہ گواہی مانگے کہ کیا نوح علیہ السلام نے اپنی امت کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اگر آپ قرآن مجید کو ا للہ کی سچی کتاب مانتے ہو اور اس کتاب میں آپ نے یہ پڑھ رکھا ہو کہ
إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ أَنْ أَنذِرْ قَوْمَكَ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (1)
قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ (2)
أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ (3)
يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (4)
قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا ( 5)
بے شک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ آپ اپنی قوم کو ڈرائیں قبل اس کے کہ اُنہیں دردناک عذاب آپہنچے
اُنہوں نے کہا: اے میری قوم! بے شک میں تمہیں واضح ڈر سنانے والا ہوں
کہ تم اﷲ کی عبادت کرو اور اُس سے ڈرو اور میری اِطاعت کرو
وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں مقررہ مدت تک مہلت عطا کرے گا، بے شک اﷲ کی (مقرر کردہ) مدت جب آجائے تو مہلت نہیں دی جاتی، کاش! تم جانتے ہوتے
نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! بے شک میں اپنی قوم کو رات دن بلاتا رہا
اور ایسی طرح قرآن حکیم سے جو امت محمدیﷺ کو دیگر امتوں کے حالات سے آگاہی ہوئی ایسی کی گواہی امت محمدیﷺ قیامت کے دن دے گی امید ہے اب آپ کے ذہین میں جو ابہام تھا وہ دور ہوا ہوگا کہ گواہی حالات سے آگاہی کی بناء پر ہی دی جاتی ہے
متفق
قرآن سے بڑھ کر کوئی اور سچی کتاب نہیں ، لہذا ہم نے قرآن میں یہ پڑھا اور سمجھا کہ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ سے ڈرایا ، لیکن قوم ان پر ایمان نہ لائی۔ اور یہ گواہی ہم قرآن پڑھ کر سمجھ کر دے سکتے ہیں، اگر آپ کا بھی یہی نظریہ ہے تو آپ کا نظریہ ہم سے ملتا جلتا ہے۔ آپ پھر اختلاف کیوں کر رہے ہیں؟
اور میرے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی آگاہی کی تو کیا بات ہے سبحان اللہ آپ ﷺ کو ابتداء خلق سے لیکر جنتیوں کے جنت میں اور جہنموں کے جہنم جانے تک کی آگاہی رکھتے ہیں اور ان سب باتوں سے رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو آگاہ بھی فرمادیا ہے اب جیسے یہ سب باتیں یاد رہی وہ چاہے اس دنیا ہو تب بھی ایسے یاد ہے یا اگر اپنی قبر انور میں تشریف فرما ہو تو بھی یاد ہے اور اگر کل قیامت کے دن میدان حشر میں کھڑا ہو تو بھی ایسے یاد رہے گی ان شاء اللہ
۔۔۔
صحیح بخاری حدیث 6604
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ دیا اور قیامت تک کوئی چیز ایسی نہیں چھوڑی جس کا بیان نہ کیا ہو، جسے یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا، جب میں ان کی کوئی چیز دیکھتا ہوں جسے میں بھول چکا ہوں تو اس طرح اسے پہچان لیتا ہوں جس طرح وہ شخص جس کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو کہ جب وہ اسے دیکھتا ہے تو فوراً پہچان لیتا ہے۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 3192
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر ہمیں وعظ فرمایا اور ابتدائے خلق کے بارے میں ہمیں خبر دی۔ یہاں تک کہ جب جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں گے (وہاں تک ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایا) جسے اس حدیث کو یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا۔
والسلام
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بھی انسانوں کو بتایا وہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ تھا۔ دین کے معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات وحی کے بغیر نہیں کی۔ لہذا جو کچھ قرآن و حدیث میں ماضی یا مستقبل کی باتیں ہیں وہ سب وحی کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾۔۔۔سورۃ النجم
ترجمہ: اور نہ وه اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں (3) وه تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ ۔۔۔سورۃ آل عمران
ترجمہ: یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم تیری طرف وحی سے پہنچاتے ہیں
اور
تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ ﴿٤٩﴾۔۔۔سورۃ ھود
ترجمہ: یہ خبریں غیب کی خبروں میں سے ہیں جن کی وحی ہم آپ کی طرف کرتے ہیں انہیں اس سے پہلے آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم، اس لئے آپ صبر کرتے رہیئے (یقین مانیئے) کہ انجام کار پرہیزگاروں کے لئے ہی ہے
اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے انبیاء و رسل پر بھی اللہ کی وحی نازل ہوتی تھی اور وہ وحی کے ذریعے بتایا کرتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِم ۔۔۔سورۃ یوسف
ترجمہ: آپ سے پہلے ہم نے بستی والوں میں جتنے رسول بھیجے ہیں سب مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی نازل فرماتے گئے
اور
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ۔۔۔سورۃ الانبیاء
ترجمہ: تجھ سے پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی
تو لہذا ان آیات و احادیث جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماضی یا مستقبل کی کوئی خبر دی تو وہ وحی کے ذریعے بتائی۔
اللہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یاد رہے کہ یہ ساری باتیں آپ کے مندرجہ ذیل پوسٹر پر ہورہی ہے جس میں آپ نے یہ کہا ہے قبر کے مردے دنیا کے حالات سے آگاہ نہیں ہوتے اور اس میں آپ نے انبیاء علیہم السلام کو بھی شامل کیا ہے
اور اب آپ یہ فرمارہے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو اللہ نے تعالیٰ نے ابتداء خلق سے لیکر لوگوں کے جنت اور جہنم میں جانے تک تمام حالات وحی کے ذریعہ بتا دئے ہیں یعنی جو کچھ آج اس دنیا میں ہورہا ہے اس کی آگاہی بھی رسول اللہ ﷺ کو پہلے ہی سے تھی اگر آج رسول اللہ ﷺ اپنے مزار اقدس میں تشریف رکھتے ہوئے ان حالات سے آگاہ ہیں اور کل قیامت کے دن بھی آگاہ ہی ہونگے تو اس حساب سے تو آپ نے اپنے پوسٹر کا رد خود ہی فرما دیا
 
Top