سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا :'' قیامت کے دن نوحؑ بلائے جائیں گے، وہ عرض کریں گے '' میں حاضر ہوں اے پروردگار ، جو حکم ہو بجا لاؤں '' اللہ تعالیٰ فرمائے گا ''کیا تم نے لوگوں کو ہمارے احکام بتا دیے تھے ؟ '' وہ کہیں گے ''ہاں '' پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا کہ نوح (علیہ السلام) نے تم کو میرا حکم پہنچا یا تھا (یا نہیں ؟) تو وہ کہیں گے کہ '' ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) نہیں آیا۔ '' نوح علیہ السلام سے کہا جائے گا '' کوئی تیرا گواہ ہے ؟'' وہ عرض کریں گے ''محمد (ﷺ) اور ان کی امت کے لوگ گواہ ہیں۔ ''پھر اس امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ نوح علیہ السلام نے اللہ کا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا تھا '' اور پیغمبر (محمدﷺ)تم پر گواہ بنیں گے۔ '' پس اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یہی مطلب ہے کہ ''ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تا کہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول (ﷺ) تم پر گواہ ہو جائیں۔ ''
تو ان آیات اور حدیث سے واضح ہے کہ کہ امت محمدیہ لوگوں پر گواہ ہو گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر گواہ ہوں گے۔
اب آپ مجھے بتائیں کہ امت محمدیہ دوسری امتوں پر جو گواہی دے گی تو وہ کیسے دے گی؟ جبکہ آپ کے بقول گواہی کے لئے ہر وقت حاضر ناظر ہونا ضروری ہے؟
یہ جو آپ نے اپنے من کی بات کو میری طرف نسبت دیا اس کو صحیح فرمالیں کہ
جبکہ آپ کے بقول گواہی کے لئےہر وقت حاضر ناظر ہونا ضروری ہے؟
یہ بات میں اس دھاگے میں کہیں بھی نہیں کہی پھر اس بات کو آپ میری جانب کیوں نسبت فرمارہے ہیں جبکہ میں نے اب تک یہی عرض کیا کہ گواہی دینے کے لئے حالات سے آگاہی ضروری ہے اور ہر مسلمان جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے ایسے حضرت نوح علیہ السلام کی امت کے حالات سے آگاہی ہے اور یہ آگاہی اتنی سچی ہے کہ ایسی سچی بات اور کوئی نہیں نوح علیہ السلام کی امت سے آگاہی ایک مسلمان کے ایمان کا حصہ تو کیا امت محمدیﷺ قیامت کے دن اس پر گواہی دینے میں کوئی پس وپیش کرسکتی ہے
اب آپ سے سوال ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کی امت قیامت کے دن کہے گی کہ'' ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا (پیغمبر) نہیں آیا۔ '' اس پر اللہ تعالیٰ آپ سے قیامت کے یہ گواہی مانگے کہ کیا نوح علیہ السلام نے اپنی امت کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اگر آپ قرآن مجید کو ا للہ کی سچی کتاب مانتے ہو اور اس کتاب میں آپ نے یہ پڑھ رکھا ہو کہ
إِنَّا أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ أَنْ أَنذِرْ قَوْمَكَ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِيَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (1)
قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ (2)
أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ (3)
يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ (4)
قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا ( 5)
بے شک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ آپ اپنی قوم کو ڈرائیں قبل اس کے کہ اُنہیں دردناک عذاب آپہنچے
اُنہوں نے کہا: اے میری قوم! بے شک میں تمہیں واضح ڈر سنانے والا ہوں
کہ تم اﷲ کی عبادت کرو اور اُس سے ڈرو اور میری اِطاعت کرو
وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں مقررہ مدت تک مہلت عطا کرے گا، بے شک اﷲ کی (مقرر کردہ) مدت جب آجائے تو مہلت نہیں دی جاتی، کاش! تم جانتے ہوتے
نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! بے شک میں اپنی قوم کو رات دن بلاتا رہا
اور ایسی طرح قرآن حکیم سے جو امت محمدیﷺ کو دیگر امتوں کے حالات سے آگاہی ہوئی ایسی کی گواہی امت محمدیﷺ قیامت کے دن دے گی امید ہے اب آپ کے ذہین میں جو ابہام تھا وہ دور ہوا ہوگا کہ گواہی حالات سے آگاہی کی بناء پر ہی دی جاتی ہے
اور میرے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی آگاہی کی تو کیا بات ہے سبحان اللہ آپ ﷺ کو ابتداء خلق سے لیکر جنتیوں کے جنت میں اور جہنموں کے جہنم جانے تک کی آگاہی رکھتے ہیں اور ان سب باتوں سے رسول اللہﷺ نے اپنی امت کو آگاہ بھی فرمادیا ہے اب جیسے یہ سب باتیں یاد رہی وہ چاہے اس دنیا ہو تب بھی ایسے یاد ہے یا اگر اپنی قبر انور میں تشریف فرما ہو تو بھی یاد ہے اور اگر کل قیامت کے دن میدان حشر میں کھڑا ہو تو بھی ایسے یاد رہے گی ان شاء اللہ
۔۔۔
صحیح بخاری حدیث 6604
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ دیا اور قیامت تک کوئی چیز ایسی نہیں چھوڑی جس کا بیان نہ کیا ہو، جسے یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا، جب میں ان کی کوئی چیز دیکھتا ہوں جسے میں بھول چکا ہوں تو اس طرح اسے پہچان لیتا ہوں جس طرح وہ شخص جس کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو کہ جب وہ اسے دیکھتا ہے تو فوراً پہچان لیتا ہے۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 3192
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر ہمیں وعظ فرمایا اور
ابتدائے خلق کے بارے میں ہمیں خبر دی۔ یہاں تک کہ جب جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں گے (وہاں تک ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایا) جسے اس حدیث کو یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا۔
والسلام
غیر متعلقہ مواد حذف ۔ انتظامیہ