محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
نمبر 1 اور نمبر 2 سے مراد پہلا ناقض اسلام جبکہ نمبر 3 سے یہاں زیادہ چانس تیسرے ناقض کے ہیں یعنی ہم اس نظریے کے تحت توسل کریں جس کے تحت وسیلہ شرک بن جاتا ہے بدعت نہیں بنتا واللہ اعلم1-اولیا سے مدد مانگنا اور 2-انہیں پکارنا 3-ان کے ساتھ توسل کرنا امر مشروع (یعنی شرعا جایز ) وشی مرغوب ھے جسکا انکار نہ کرے گا مگر 4-ھٹ دھرم یا دشمن انصاف- ( فتاوی رضویہ از احمد رضا : 300)
اسکا کیا معنی ھے۔
یہ مثال کچھ سمجھ نہیں آئی کہ ہر پنجابی کا پاکستانی تو ہوگا یعنی اس مثال کے ذریعہ آپ نے ہندوستان کے پنجاب میں رہنے والے پنجابیوں کوبھی پاکستانی بنا ڈالایہ اس سے ایک طرح سے اخص ہے یعنی عموم خصوص کی نسبت ہے (عموم خصوص کی نسبت ایسے ہوتی ہے جیسے پنجابی اور پاکستانی میں نسبت ہے کہ پنجابی اخص ہے یعنی ہر پنجابی پاکستانی تو ہو گا مگر ہر پاکستانی کا پنجابی ہونا لازم نہیں)
اللہ کے نیک بندوں کی عظمت اللہ کے نزدیک ہم جیسے لوگوں کے نیک اعمال سے بڑھکر ہے کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم جن اعمال کو اپنے تیئں نیک گمان کررہے ہیں وہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہیں یاان اعمال کو اللہ ہمارے منہ پر مار دیے گا یعنی چانس 50-50 لیکن اللہ کے سب سے ذیادہ محبوب بندے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے ہر مسلمان( وہابیوں کا نہیں ) کا ایمان ہے آپکی ذات اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے ذیادہ مقبول ہے یعنی چانس 100٪ اسی لئے مسلمان 100٪ کی طرف جاتے ہیں اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں لیکن وہابی اس کو شرک کہتے ہیںلیکن یہ سمجھتے ہیں کہ انکے نام کی عظمت ایسے ہے جیسے ہمارے نیک اعمال کی عظمت- پس جیسے نیک اعمال کا جب واسطہ دیا جاتا ہے تو اللہ دعا زیادہ قبول کرتا ہے تو اسی طرح کسی نیک ذات کا حوالہ دیا جاتا ہے تو پھر بھی قبولیت کے چانس زیادہ ہو جاتے ہیں البتہ اللہ تعالی مجبور نہیں- واللہ اعلم
اس لئے اس فتاویٰ میں وہابیوں کو ھٹ دھرم یا دشمن انصاف کہا گیا ہے1-اولیا سے مدد مانگنا اور 2-انہیں پکارنا 3-ان کے ساتھ توسل کرنا امر مشروع (یعنی شرعا جایز ) وشی مرغوب ھے جسکا انکار نہ کرے گا مگر 4-ھٹ دھرم یا دشمن انصاف- ( فتاوی رضویہ از احمد رضا : 300)
اسکا کیا معنی ھے۔
نمبر 1 اور نمبر 2 سے مراد پہلا ناقض اسلام جبکہ نمبر 3 سے یہاں زیادہ چانس تیسرے ناقض کے ہیں یعنی ہم اس نظریے کے تحت توسل کریں جس کے تحت وسیلہ شرک بن جاتا ہے بدعت نہیں بنتا واللہ اعلم
نمبر 4 سے مراد ہم یعنی وھابی ہیں
یہ مثال کچھ سمجھ نہیں آئی کہ ہر پنجابی کا پاکستانی تو ہوگا یعنی اس مثال کے ذریعہ آپ نے ہندوستان کے پنجاب میں رہنے والے پنجابیوں کوبھی پاکستانی بنا ڈالا
اوپر یعرفونھم والی آیت کا معاملہ تھا تو یہاں تلبسوا الحق والی آیت کا معاملہ نکل آیا یعنی قیاس مع الفارق -سچ کہتے ہیں کہ جس کا کام اسی کو ساجھےاللہ کے نیک بندوں کی عظمت اللہ کے نزدیک ہم جیسے لوگوں کے نیک اعمال سے بڑھکر ہے کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم جن اعمال کو اپنے تیئں نیک گمان کررہے ہیں وہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہیں یاان اعمال کو اللہ ہمارے منہ پر مار دیے گا یعنی چانس 50-50 لیکن اللہ کے سب سے ذیادہ محبوب بندے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے ہر مسلمان( وہابیوں کا نہیں ) کا ایمان ہے آپکی ذات اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے ذیادہ مقبول ہے یعنی چانس 100٪ اسی لئے مسلمان 100٪ کی طرف جاتے ہیں
اوپر دو آیتوں کے اطلاق کا شبہ پڑا تھا یہاں تیسری آیت کہ اتامرون الناس ----- کت تحت یہ لگ رہا ہے کہ جیسے چور بھی کہے چور چوراس لئے اس فتاویٰ میں وہابیوں کو ھٹ دھرم یا دشمن انصاف کہا گیا ہے
بات ہورہی ہے اللہ کی بارگاہ میں کسی مقبول کا واسطہ یا وسیلہ دینے کی نجات کے لئےاوپر یعرفونھم والی آیت کا معاملہ تھا تو یہاں تلبسوا الحق والی آیت کا معاملہ نکل آیا یعنی قیاس مع الفارق -سچ کہتے ہیں کہ جس کا کام اسی کو ساجھے
ذرا سمجھیں کہ آپ نے مندرجہ ذیل باتیں کہی ہیں
1-ہمارے اعمال کی اللہ کے ہاں مقبولیت 50٪ ہونا
2-اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا اللہ کے ہاں 100 ٪ مقبول ہونا ہے
اب "بھان متی نے کنبہ جوڑا -- کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا" کے تحت اوپر دو باتوں کو ملا کر مندرجہ ذیل تیسری بات ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے
3-ہمارے اعمال کی مقبولیت تو 50 ٪ سے بڑھ نہیں سکتی پس مسلمان ان اعمال کو چھوڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی طرف جاتے ہیں جسکے چانس 100 ٪ ہیں
بھئی ذرا یہ بتائیں کہ اوپر ایک اور دو میں یہ کہاں ثابت کیا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہماری نجات کے لئے 100 ٪ چانس دلواتی ہے بلکہ وہاں و یہ لکھا ہے کہ تمام مسلمانوں کے ہاں وہ بذات خود اللہ کے ہاں مقبول ہیں تو کسی کا اللہ کے ہاں مقبول ہونا یہ کہاں ثابت کرتا ہے کہ ہم بھی اللہ کے ہاں اتنے مقبول ہوں گے اس پر عقلی یا نقلی دلیل چاہئے
آپ کی مثالوں کا کیا ہی کہنا( ابتسامہ )اسکو میں دنیا کی مثال سے سمجھاتا ہوں
آپ کو امریکہ کا ویزہ چاہئے تو آپ اوباما کو کہتے ہیں کہ مجھے ویزہ دے دو تو اسکے چانس کم ہیں
اسکی بجائے آپ اسکی بیٹی کو وسیلہ بناتے ہیں تو اسکے تین طریقے ہو سکتے ہیں
1-آپ اسکی بیٹی سے کسی طریقے سے سفارش کرواتے ہیں
2-آپ اسکی بیٹی کو جانتے تو نہیں کہ سفارش کروا سکیں البتہ کہتے ہیں کہ اپنی بیٹی کے صدقے مجھے ویزا دے دو
3-آپ اسکی بیٹی کا صدقہ بھی نہیں کہتے کیونکہ عیسائی کو آپ صدقے پر کیسے قائل کریں گے بلکہ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ تمھاری پیاری بیٹی ہے پس مجھے ویزہ دے دو
اللہ کے ہاں وسیلہ بنانے پر ہم پہلے طریقے کا انکار نہیں کرتے البتہ کچھ شرائط کے ساتھ
دوسرا طریقہ اللہ کے لئے ممکن نہیں کیوں کہ دنیا میں کوئی بیٹی کا صدقہ اس لئے دیتا ہے کہ اسکی آخرت بن جائے مگر اللہ کو کسی نبی کے لئے صدقہ کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے
تیسری صورت عقل کے خلاف ہے جیسے دنیا میں اوباما آپ سے کہے گا کہ اگرچہ میری بیٹی مجھ کو عزیز ہے مگر آپ کو کس لئے ویزہ دوں آپ کا میری بیٹی سے کیا تعلق ہے
اب آپ اسکے علاوہ کوئی تیسرا طریقہ وسیلہ کا بتائیں تاکہ اس پر بات کر سکیں یا پھر انکی اوپر کی گئی وضاحت کا رد کر دیں
کسی نے پوچھا کہاوپر دو آیتوں کے اطلاق کا شبہ پڑا تھا یہاں تیسری آیت کہ اتامرون الناس ----- کت تحت یہ لگ رہا ہے کہ جیسے چور بھی کہے چور چوراس لئے اس فتاویٰ میں وہابیوں کو ھٹ دھرم یا دشمن انصاف کہا گیا ہے
تو اللہ نے قرآن میں بغیا بینھم کس کے لئے کہا ہے
اس پر آپ نے ارشاد فرمایا کہاولیا سے مدد مانگنا اور انہیں پکارنا ان کے ساتھ توسل کرنا امر مشروع (یعنی شرعا جایز ) وشی مرغوب ھے جسکا انکار نہ کرے گا مگر ھٹ دھرم یا دشمن انصاف- ( فتاوی رضویہ از احمد رضا : 300)
اسکا کیا معنی ھے۔
نمبر 1 اور نمبر 2 سے مراد پہلا ناقض اسلام جبکہ نمبر 3 سے یہاں زیادہ چانس تیسرے ناقض کے ہیں یعنی ہم اس نظریے کے تحت توسل کریں جس کے تحت وسیلہ شرک بن جاتا ہے بدعت نہیں بنتا واللہ اعلم
نمبر 4 سے مراد ہم یعنی وھابی ہیں
چلیں آپ کی اس بات کو ایک دوسرے انداز سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیںپس جب کوئی اس عقیدے سے کسی نبی ولی سے سفارش چاہئے کہ وہ لازمی یہ کام اللہ سے کروا سکتا ہے کیونکہ اللہ اسکی محبت یا کسی اور چیز سے مجبور ہے تو ایسا شرک اکبر ہو گا واللہ اعلم
بہرام صاحب ابھی ایک بات ختم ہونے دیں کہ کیا وسیلہ دینے کا کوئی فائدہ بھی ہوتا ہے کہ نہیں- اسکے بعد اس پر بات ہو جائے گی کہ کون سا وسیلہ شرک اکبر ہے اور کونسا صرف بدعت جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھاکیا یہ بھی شرک اکبر ہو گا؟[/h2]
فرض کریں کہ اللہ کسی چیز کی محبت سے مجبور بھی ہے تو اوپر اوباما والی وہ تیسری صورت بنتی ہے کہ اوباما اپنی بیٹی کی محبت سے مجبور ہے مگر میرا اسکی بیٹی سے کوئی تعلق نہیں تو جب تک اسکی بیٹی میری سفارش نہیں کرے گی اوباما کی اپنی بیٹی سے محبت کو میں کیسے کیش کروا سکتا ہوں فاعتبروا یا اولی--------چلیں آپ کی اس بات کو ایک دوسرے انداز سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
جب کوئی اس عقیدے سے کہ اپنے تیئں گمان کئے گئے نیک اعمال کے وسیلےسے سفارش چاہئے کہ یہ اعمال لازمی یہ کام اللہ سے کروا سکتے ہیں کیونکہ اللہ ان نیک اعمال سے محبت یا کسی اور چیز سے مجبور ہے