یہ کلمات تو حق ہیں لیکن وہابی اس سے جو مراد لیتے ہیں وہ باطل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہمَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖکیا اللہ تعالیٰ کسی کے سامنے مجبور ہے ؟
کون ہے کہ اسکی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کرسکے۔
قرآن ، سورت البقرۃ ، آیت نمبر 255ۭمَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ
کوئی (اس کے پاس) اس کا اذن حاصل کئے بغیر (کسی کی) سفارش نہیں کرسکتا۔
قرآن ، سورت یونس ، آیت نمبر 03يَوْمَىِٕذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِيَ لَهٗ قَوْلًا ١٠٩
اس روز (کسی کی) سفارش کچھ فائدہ نہ دے گی مگر اس شخص کی جسے اللہ اجازت دے اور اسی کی بات کو پسند فرمائے۔
قرآن ، سورت طٰہٰ ، آیت نمبر 109يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُوْنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى وَهُمْ مِّنْ خَشْيَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ 28
جو کچھ ان کے آگے ہو چکا ہے اور جو پیچھے ہوگا وہ سب سے واقف ہے اور وہ (اسکے پاس کسی کی) سفارش نہیں کر سکتے مگر اس شخص کی جس سے اللہ خوش ہوا اور وہ اس کی ہیبت سے ڈرتے رہتے ہیں۔
قرآن ، سورت الانبیاء ، آیت نمبر 28وَلَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗ ۭ
اور اللہ کے ہاں (کسی کے لئے) سفارش فائدہ نہ دے گی مگر اس کے لئے جس کے بارے میں وہ اجازت بخشے۔
قرآن ، سورت سباء ، آیت نمبر 23وَكَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِي السَّمٰوٰتِ لَا تُغْـنِيْ شَفَاعَتُهُمْ شَـيْــــًٔا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ يَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَرْضٰى 26
اور آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں جن کی سفارش کچھ بھی فائدہ نہیں دیتی مگر اس وقت کہ اللہ جس کے لئے چاہے اجازت بخشے اور (سفارش) پسند کرے۔
قرآن ، سورت النجم ، آیت نمبر 26
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سے محبت و تعلق کے باعث نجاتفرض کریں کہ اللہ کسی چیز کی محبت سے مجبور بھی ہے تو اوپر اوباما والی وہ تیسری صورت بنتی ہے کہ اوباما اپنی بیٹی کی محبت سے مجبور ہے مگر میرا اسکی بیٹی سے کوئی تعلق نہیں تو جب تک اسکی بیٹی میری سفارش نہیں کرے گی اوباما کی اپنی بیٹی سے محبت کو میں کیسے کیش کروا سکتا ہوں فاعتبروا یا اولی--------
أَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ أَفَأَنتَ تُنقِذُ مَن فِي النَّارِ ﴿١٩﴾یہ کلمات تو حق ہیں لیکن وہابی اس سے جو مراد لیتے ہیں وہ باطل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ
ما مجادلةُ أحدِكم في الحقِّ يكون له في الدنيا، بأشدَّ مجادلةً منَ المؤمنين لربهم في إخوانهم الذين أُدخلوا النارَ،
صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 5025
السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 3054
اور اسی مفہوم کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں بھی بیان کیا ہے
ترجمہ شیخ السلام ڈاکٹر طاہر القادری
''حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ راویت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے کسی ایک شخص کا بھی دنیا میں کسی حق بات کے لئے تکرار کرنا اس قدر سخت نہیں ہو گا جو تکرار مومنین کاملین اپنے پروردگار سے اپنے ان بھائیوں کے لئے کریں گے جو جہنم میں داخل کئے جا چکے ہوں گے"
یہ ہے مومنین کاملین کی شان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تو پھر انبیاء علیہم السلام کی شان کا کیا کہنا اور سب سے بڑھکر امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و منزلت کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے ؟
بالکل، جائز وسیلے کی ایک صورت یہی ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں اپنے نیک اعمال کو وسیلہ بنایا جائے ، جیسے غار میں پھنس جانے والے تین لوگوں نے بنایا تھا، اور یہ وسیلہ وہ وسیلہ نہیں ہے جس سے اللہ کی توہین اور شرک کا پہلو نکلتا ہو،اسی لئے یہ وسیلہ جائز ہے اور شرک نہیں ہے۔بات ہورہی ہے اللہ کی بارگاہ میں کسی مقبول کا واسطہ یا وسیلہ دینے کی نجات کے لئے
اوپر کسی نے یہ کہا کہ
اپنے نیک اعمال کا وسیلہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنا چاہئے اپنی نجات کے لئے
یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس کے ساتھ قیامت والے دن کیا معاملہ ہو گا، البتہ ہمیں جو قرآن و حدیث سے رہنمائی ملتی ہے اس کے مطابق ہر مشرک چاہے وہ قبر پرست ہو، حجر پرست ہو، شجر پرست ہو ، بت پرست ہو یا صنم پرست ہو، اس کے اعمال غارت اور ٹھکانہ جہنم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:اس پر میں نے عرض کی تھی کہ
وہابی اپنے جن اعمال کو نیک گمان کرتے ہیں تو یقینا وہابیوں کے ان نام نہاد نیک اعمال کو اللہ ان کے کے منہ پر مار دے گا تو پھر چانس تو - 100 ٪ ہوگیا کیونکہ وہابیوں کے ان نیک اعمال پر اللہ انھیں سخت سزا دیگا جس کا اعتراف تو اب سعودی عرب کے حکمرانوں کے تخواہ دار وہابی علماء برملا کرتے ہیں پھر کس بناء پر وہابی اپنے ان نام نہاد نیک اعمال کا وسیلہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کرکے نجات حاصل کر سکتے ہیں ؟
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ جو اللہ نے اپنے رسول کو عطا فرمایا ہے سب سے زیادہ ہے، جہاں تک اس مقام و مرتبے کو مد نظر رکھ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کرنے کو شرک اور حرام قرار دیا گیا ہے تو اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں:اس کے برعکس وہابی بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ مقبول ذات حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے لیکن اس یقینی بات کا وسیلہ وہابی مذہب میں حرام ہے بلکہ شرک بھی ہے
اہل شرک چونکہ اللہ کے دشمن ہوتے ہیں، لہذا وہ اپنی گفتگو میں اللہ کے لئے ادب و آداب کا خیال نہیں رکھتے (مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّـهِ وَقَارًا ﴿١٣﴾۔۔۔سورة نوح) اہل شرک کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کسی سے کوئی مجبور نہیں ہے، اللہ جو چاہے کرے چاہے تو کسی کی دعا کو قبول کر لے، چاہے تو نہ کرے، اس نے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا، ہم سب نے اس کے آگے جواب دہ ہونا ہے۔ لہذا ہم اللہ کو پکاریں گے، ضرور پکاریں گے، زمین و آسمان کے اکیلے رب کے سامنے جھولیاں پھیلا پھیلا کر اور گڑ گڑا کر مانگیں گے، رب العزت چاہے گا تو قبول فرما لے گا نہیں چاہے گا تو قبول نہیں فرمائے گا (وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٢٩﴾۔۔۔التكوير) ہم اس کے عاجز بندے ہیں اس کی رحمت سے مایوس نہیں (قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿٥٣﴾۔۔۔سورة الزمر)چلیں آپ کی اس بات کو ایک دوسرے انداز سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
جب کوئی اس عقیدے سے کہ اپنے تیئں گمان کئے گئے نیک اعمال کے وسیلےسے سفارش چاہئے کہ یہ اعمال لازمی یہ کام اللہ سے کروا سکتے ہیں کیونکہ اللہ ان نیک اعمال سے محبت یا کسی اور چیز سے مجبور ہے تو کیا یہ بھی شرک اکبر ہو گا؟
اہل شرک کا انبیاء و رسل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اگرچہ وہ نبی کی سگی اولاد ہی کیوں نہ ہو۔نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا:آپ نے فرمایا " اوباما اپنی بیٹی کی محبت سے مجبور ہے مگر میرا اسکی بیٹی سے کوئی تعلق نہیں"
بیشک جس طرح آپ کا تعلق اوباما کی بیٹی سے نہیں ٹھیک اسی طرح آپ کا کوئی تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی نہیں اسی لئے امام احمد رضا خان صاحب نے فرمایا ہے کہ
نجدیوں کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا
اہل شرک اگر واقعی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دنیا کی ہر شے سے زیادہ تعلق استوار کا دعویٰ کرتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ عقیدہ توحید قبول کر لیں، شرک کی صورت میں چاہے لاکھ بار اس تعلق کا دعویٰ کر لیا جائے ، عبث و بیکار ثابت ہو گا۔ جیسے کہ اوپر حدیث مبارکہ میں دیکھ لیں۔لیکن میرا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دنیا کی ہر شےء سے زیادہ ہے کیونکہ میں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے
کوئی شک نہیں کہ انبیاء کا مقام و مرتبہ خاص کر امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ واقعی میں بہت زیادہ ہے بلکہ سب انسانوں سے بڑھ کر ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اللہ کے انبیاء کسی مشرک کی سفارش کریں گے، اگر کوئی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ قبروں کے پجاری، قبروں کے مجاور، قبروں پر طواف کرنے والے، حسین رضی اللہ عنہ کی شبیہ بنا کر اس پوجا کرنے والے، علی رضی اللہ عنہ سے مشکل میں مدد مانگنے والے، قلندر کی قبر کا حج کرنے والے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ امام الانبیاء کا درجہ چونکہ سب انسانوں سے زیادہ ہے اس لئے بخشش ہو جائے گی تو یہ سراسر دھوکہ اور شیطان کی چال ہے اور کچھ نہیں، مشرک کی بخشش نہیں ہو سکتی، بلکہ مشرک کا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، ہاں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی موحد ہے لیکن ساری زندگی اس نے گناہوں میں گزار دی، اور دین پر عمل کرنے کی طرف توجہ کم ہی رکھی لیکن وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا تھا اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا تھا تو وہ ان شاءاللہ ان شاءاللہ شفاعت کا مستحق ٹھہرے گا۔ موحد مگر بہت زیادہ گناہ گار کے متعلق بالکل کہا جا سکتا ہے کہ وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی بخشش ممکن ہے۔ ان شاءاللہیہ کلمات تو حق ہیں لیکن وہابی اس سے جو مراد لیتے ہیں وہ باطل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ
ما مجادلةُ أحدِكم في الحقِّ يكون له في الدنيا، بأشدَّ مجادلةً منَ المؤمنين لربهم في إخوانهم الذين أُدخلوا النارَ،
صحيح النسائي - الصفحة أو الرقم: 5025
السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 3054
اور اسی مفہوم کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں بھی بیان کیا ہے
ترجمہ شیخ السلام ڈاکٹر طاہر القادری
''حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ راویت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے کسی ایک شخص کا بھی دنیا میں کسی حق بات کے لئے تکرار کرنا اس قدر سخت نہیں ہو گا جو تکرار مومنین کاملین اپنے پروردگار سے اپنے ان بھائیوں کے لئے کریں گے جو جہنم میں داخل کئے جا چکے ہوں گے"
یہ ہے مومنین کاملین کی شان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تو پھر انبیاء علیہم السلام کی شان کا کیا کہنا اور سب سے بڑھکر امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان و منزلت کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے ؟