حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
بعض اہل علم بليوں كى خريد و فروخت كے جواز كے قائل ہيں، اور بعض اہل علم اس كے حرام ہونے كے قائل ہيں، اور يہ ظاہريوں كا قول اور امام احمد سے ايك روايت ہے، اور ابن منذر رحمہ اللہ نےاسے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے.
اس كى خريد و فروخت حرام ہونے والا قول راجح ہے، كيونكہ اس كى بيع كى ممانعت اور نہى كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثبوت ملتا ہے اور اس كے مخالف كوئى حديث نہيں.
امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو زبير رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے كتے اور بلى كى خريد و فروخت كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے فرمايا:" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے ڈانٹا ہے "صحيح مسلم حديث نمبر ( 1569 ).
اور ابوداود اور ترمذى نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے اور بلى كى قيمت سے منع فرمايا ہے "سنن ابو داود حديث نمبر ( 3479 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1279 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
اور " السنور " بلى كو كہتے ہيں.
اور بعض اہل علم نے ان احاديث كو ضعيف قرار ديا ہے، ليكن ان كا يہ قول مردود ہے صحيح نہيں.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں لكھتے ہيں:
" خطابى اور ابن منذر نے جو يہ بيان كيا ہے كہ يہ حديث ضعيف ہے، تو ان كا يہ كہنا غلط ہے، كيونكہ يہ حديث مسلم ميں صحيح سند كے ساتھ موجود ہے " : المجموع للنووى ( 9 / 269 ).
اور " نيل الاوطار " ميں امام شوكانى رحمہ اللہ جمہور كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں جنہوں نے حديث ميں نہى كو كراہت تنزيہى پر محمول كيا ہے، اور يہ كہ اس كى فروخت مكارم اخلاق ميں سے نہيں، اور ايسا كرنا خلاف مروءت ميں شامل ہوتا ہے، اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" يہ مخفى نہيں كہ يہ نہى كو بغير كسى مقتضى كے نہى كو اس كے حقيقى معنى سے نكالنا ہے " : نيل الاوطار ( 6 / 227 ).
اور امام بيھقى رحمہ اللہ بھى جمہور كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" بعض اہل علم نے اسے اس پر محمول كيا ہے كہ جب بلى وحشى بن جائے اور اسے سپرد كرنے پر قدرت نہ ركھى جائے، اور بعض نے يہ گمان كيا ہے كہ يہ ابتدائے اسلام ميں تھا جب كہ بلى كے نجس ہونے كا حكم تھا، پھر جب اس كے جھوٹے كے طاہر ہونے كا حكم جارى ہوا تو اس كى قيمت حلال ہو گئى، ان دونوں ميں سے كسى بھى قول كى كوئى واضح دليل نہيں ہے " : سنن البيھقى ( 6 / 18 ).
اور ابن قيم رحمہ اللہ نے " زاد المعاد " ميں اسكى خريد و فروخت كو بالجزم حرام قرار ديتے ہوئے كہا ہے:
" اور اسى طرح ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ نے بھى فتوى ديا، اور طاؤس، مجاھد، اور جابر بن زيد، اور سب اہل ظاہر كا يہى مسلك ہے، اور امام احمد كى ايك روايت بھى يہى ہے، اور اس كے متعلق بيان كردہ حديث كے صحيح ہونے كى بنا پر يہى قول صحيح ہے، اور اس كے مخالف كوئى نہيں تو اس كى حرمت كا كہنا واجب اور ضرورى ہے "
: زاد المعاد ( 5 / 773 ).
اور ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كى خريد و فروخت كى نہى اور ممانعت ثابت ہوجائے تو اس كى خريد و فروخت باطل ہے، وگرنہ جائز ہو گى: المجموع ( 9 / 269 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كى نہى اور ممانعت كا ثبوت ملتا ہے، جيسا كہ صحيح مسلم كى حديث بيان ہو چكى ہے.
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل فتوى درج ہے:
" بليوں اور كتوں كى خريد و فروخت جائز نہيں، اور اسى طرح دوسرے چيڑ پھاڑ كرنے والے درندے جن كى كچلى ہو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے منع فرمايا اور ايسا كرنے سے ڈانٹا ہے، اور اس ليے بھى كہ اس ميں مال كا ضياع ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے سے منع فرمايا ہے " : فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 37 ).
واللہ اعلم .
اس كى خريد و فروخت حرام ہونے والا قول راجح ہے، كيونكہ اس كى بيع كى ممانعت اور نہى كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثبوت ملتا ہے اور اس كے مخالف كوئى حديث نہيں.
امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو زبير رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے كتے اور بلى كى خريد و فروخت كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے فرمايا:" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے ڈانٹا ہے "صحيح مسلم حديث نمبر ( 1569 ).
اور ابوداود اور ترمذى نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كتے اور بلى كى قيمت سے منع فرمايا ہے "سنن ابو داود حديث نمبر ( 3479 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1279 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
اور " السنور " بلى كو كہتے ہيں.
اور بعض اہل علم نے ان احاديث كو ضعيف قرار ديا ہے، ليكن ان كا يہ قول مردود ہے صحيح نہيں.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں لكھتے ہيں:
" خطابى اور ابن منذر نے جو يہ بيان كيا ہے كہ يہ حديث ضعيف ہے، تو ان كا يہ كہنا غلط ہے، كيونكہ يہ حديث مسلم ميں صحيح سند كے ساتھ موجود ہے " : المجموع للنووى ( 9 / 269 ).
اور " نيل الاوطار " ميں امام شوكانى رحمہ اللہ جمہور كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں جنہوں نے حديث ميں نہى كو كراہت تنزيہى پر محمول كيا ہے، اور يہ كہ اس كى فروخت مكارم اخلاق ميں سے نہيں، اور ايسا كرنا خلاف مروءت ميں شامل ہوتا ہے، اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" يہ مخفى نہيں كہ يہ نہى كو بغير كسى مقتضى كے نہى كو اس كے حقيقى معنى سے نكالنا ہے " : نيل الاوطار ( 6 / 227 ).
اور امام بيھقى رحمہ اللہ بھى جمہور كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" بعض اہل علم نے اسے اس پر محمول كيا ہے كہ جب بلى وحشى بن جائے اور اسے سپرد كرنے پر قدرت نہ ركھى جائے، اور بعض نے يہ گمان كيا ہے كہ يہ ابتدائے اسلام ميں تھا جب كہ بلى كے نجس ہونے كا حكم تھا، پھر جب اس كے جھوٹے كے طاہر ہونے كا حكم جارى ہوا تو اس كى قيمت حلال ہو گئى، ان دونوں ميں سے كسى بھى قول كى كوئى واضح دليل نہيں ہے " : سنن البيھقى ( 6 / 18 ).
اور ابن قيم رحمہ اللہ نے " زاد المعاد " ميں اسكى خريد و فروخت كو بالجزم حرام قرار ديتے ہوئے كہا ہے:
" اور اسى طرح ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ نے بھى فتوى ديا، اور طاؤس، مجاھد، اور جابر بن زيد، اور سب اہل ظاہر كا يہى مسلك ہے، اور امام احمد كى ايك روايت بھى يہى ہے، اور اس كے متعلق بيان كردہ حديث كے صحيح ہونے كى بنا پر يہى قول صحيح ہے، اور اس كے مخالف كوئى نہيں تو اس كى حرمت كا كہنا واجب اور ضرورى ہے "
: زاد المعاد ( 5 / 773 ).
اور ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كى خريد و فروخت كى نہى اور ممانعت ثابت ہوجائے تو اس كى خريد و فروخت باطل ہے، وگرنہ جائز ہو گى: المجموع ( 9 / 269 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كى نہى اور ممانعت كا ثبوت ملتا ہے، جيسا كہ صحيح مسلم كى حديث بيان ہو چكى ہے.
اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ذيل فتوى درج ہے:
" بليوں اور كتوں كى خريد و فروخت جائز نہيں، اور اسى طرح دوسرے چيڑ پھاڑ كرنے والے درندے جن كى كچلى ہو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے منع فرمايا اور ايسا كرنے سے ڈانٹا ہے، اور اس ليے بھى كہ اس ميں مال كا ضياع ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے سے منع فرمايا ہے " : فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 37 ).
واللہ اعلم .