بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(قسط:38)
جواب از: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ -سعودی عرب
سوال(1): ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ حقوق العباد کی اہمیت ہے تو جب عورتیں کھانا بناتی ہیں اور مردوں کو کھلانے میں مشغول رہتی ہیں، ادھر اذان ہورہی ہوتی ہے ایسے میں لوگوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہےاس سے عورتیں کہیں شرک میں تو نہیں واقع ہوتیں جبکہ حقوق العباد کی اہمیت زیادہ ہے اور کھانا کھلانا تو حقوق العباد میں آتا ہے ؟
جواب:حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں اہم ہیں ، ان میں سےکسی کی اہمیت کم نہیں ہے ، ہمیں دونوں کو اس طرح ادا کرنا ہے جیسےقرآن وحدیث میں حکم دیا گیا ہے ۔ نماز کا ایک وقت متعین ہے اول و آخر ، مرد کو مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے جبکہ عورت حسب سہولت نماز کے اول و آخر کے درمیان کسی بھی وقت نماز ادا کرسکتی ہے تاہم اول وقت میں مردوں کی طرح عورتوں کے لئے بھی نماز ادا کرنا افضل ہے ۔ رہا مسئلہ گھر کے مردوں کو کھانا کھلانے کا تو مسجد میں اذان مردوں کے لئے ہورہی ہے ، مردوں کو چاہئے کہ اذان کے وقت مسجد جائے، نماز پڑھ کر آئے اس دوران عورت بھی اپنی نماز پڑھ لے پھر کھانا کھایا جائے ۔اس طرح عورت ومر د سب کی وقت پر نماز ادا ہوگی اور کھانے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ کبھی نماز کے وقت شدید بھوک لگی ہوتو آدمی نماز کے وقت کھانا بھی کھاسکتا ہے اور مرد کھانا خود لے کر کھاسکتا ہے، کھانا عورت ہی نکال کر دے یہ ضروری نہیں ہے، نبی ﷺ گھر کے کاموں میں خود بھی ہاتھ بٹاتے تھے ، یہ تو بنابنایا کھانا اپنے پیٹ میں کھانا ہےاس میں تو اور بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نماز چھوڑکر نماز کے وقت کھانا کھانا معمول نہیں بنانا چاہئے، یہ تو عذر کے وقت کا معاملہ ہے۔ اور مجبوری میں عورت کو ہی کھلانا پڑے تو اس میں شرک جیسی کوئی بات نہیں ہے ، یہاں ضرورت کے وقت کام کرنے والی بات ہے۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا قُدِّمَ الْعَشَاءُ فَابْدَءُوا بِهِ قَبْلَ أَنْ تُصَلُّوا صَلَاةَ الْمَغْرِبِ، وَلَا تَعْجَلُوا عَنْ عَشَائِكُمْ.(صحیح البخاری:672)
ترجمہ: جب شام کا کھانا حاضر کیا جائے تو مغرب کی نماز سے پہلے کھانا کھا لو اور کھانے میں بے مزہ بھی نہ ہونا چاہئے اور اپنا کھانا چھوڑ کر نماز میں جلدی مت کرو۔
بہرحال عورت، کام کے وقت کام کرے اور نماز کا وقت ہوجائے تو نماز کو ترجیح دے اور کام کاج چھوڑ کر وقت پر نماز ادا کرے پھر کام کرے ۔
سوال(2):ایک بہن کا سوال ہے کہ اس کا بچہ بہت روتا ہے تو اس پر کیا پڑھ کر دم کریں ؟
جواب: بچہ پر بھی دم کرنے کا وہی طریقہ ہے جو بڑوں کے لئے ہے اور بچوں کے دم کرنے میں بھی وہی چیزیں پڑھیں گے جو اپنے لئے پڑھتے ہیں گویا بچوں پر دم کرنے کا کوئی مخصوص طریقہ نہیں ہے ۔ نبی ﷺ کے دم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ تکلیف کے وقت تین سورتیں (سورہ اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس) پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیتے چنانچہ صحیح بخاری میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ۔
عن عائشة رضي الله عنها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:كان إذا اشتكى يقرا على نفسه بالمعوذات وينفث، فلما اشتد وجعه كنت اقرا عليه وامسح بيده رجاء بركتها(صحيح البخاري:5016)
ترجمہ:عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑتے تو معوذات کی سورتیں پڑھ کر اسے اپنے اوپر دم کرتے پھر جب (مرض الموت میں) آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو میں ان سورتوں کو پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور برکت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ آپ کے جسم مبارک پر بھی پھیر لیتی تھی۔
ٹھیک اسی طرح اس بہن کو چاہئے کہ مذکورہ تینوں سورتیں پڑھ کر اپنے بچے پر دم کیا کرے ، ان تین سورتوں کے علاوہ بھی قرآن سے دوسری آیات پڑھ سکتی ہے مگر اپنی طرف سے کسی آیت کو خاص کرکے اور تعداد متعین کرکے پڑھنا غلط ہے ، ہمارے لئے محمد ﷺ کا طریقہ ہے، اسی طریقہ پر دم کریں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب بچہ زیادہ روئے تو ممکن ہے کہ اس کو جسمانی کوئی تکلیف ہواس وجہ سے ڈاکٹر سے بھی دکھائے اور اس بچے کا علاج کرائے ۔
سوال(3): بیوی کو تین طلاق دینے کا کیا طریقہ ہے اور کوئی تین دے تو کیا حکم ہے ؟
جواب:اللہ تعالی نے مرد کو ناگزیرحالات میں شرعی عذر کے تحت طلاق دینے کی اجازت دی ہے لیکن اللہ نےیہ نہیں کہا ہے کہ تم اپنی بیوی کو تین طلاق دو، تین طلاق تو اختیاری معاملہ ہے یعنی ایک مرد کو اللہ نے تین مرتبہ طلاق دینے کا اختیار دیا ہے ۔ یہ لوگوں کی لاعلمی ہے جو اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دینا ضروری سمجھتے ہیں ۔
طلاق دینے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ جو کسی شرعی عذر کی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے وہ حالت طہر میں جس میں بیوی سے جماع نہ کیا ہو بیوی کو صرف اور صرف ایک طلاق دے ۔ طلاق دینے کے بعد اسے اپنے ساتھ ہی اپنے گھررکھے (گھر سے نہ نکالے)، یہاں تک کہ عدت یعنی تین حیض آجائے ۔ اگر شوہر عدت کے دوران بیوی کو لوٹانا چاہے تو رجوع کرسکتا ہے اور رجوع کئے بغیر عدت گزر جائے تو یہی طلاق بائن ہوجاتی ہے یعنی اس سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجاتی ہے ۔
گوکہ ایک مرد کوتین عدد طلاق کا اختیار ہے مگر وہ ایک وقت میں ایک ہی طلاق دے سکتا ہے، اگر کوئی نادانی میں ایک وقت میں ایک سے زیادہ طلاق دیتا ہے تو ایک ہی واقع ہوگی۔
یہاں تین طلاق کا اختیار بھی سمجھ لیں کہ کسی مرد نے اپنی بیوی کو ایک مرتبہ طلاق دی پھر اس نے عدت میں رجوع کرلیا ، اس طرح ایک طلاق کا اختیار ختم ہوگیا، پھر کسی موقع پر دوسری مرتبہ طلاق دی اور عدت میں رجوع کرلیا تو دوسری طلاق کا اختیار ختم ہوگیا، یہ دو مرتبہ والی طلاق رجعی کہلاتی ہے ،اس لئے ان دونوں طلاق کے بارے میں اللہ نے کہا ہے کہ بیوی کو گھر سے نہ نکالو، تمہیں نہیں معلوم ممکن ہے اللہ کوئی نئی بات پیدا کردے ۔یعنی دومرتبہ تک طلاق رجعی کہلاتی ہیں اور ان میں بیوی کو گھر سے نکالنے سے منع کیاگیا ہے ، ممکن ہے کہ اللہ شوہر کا دل پھیردے اور وہ رجوع کرلے ۔ یہ حکمت ہےدو مرتبہ والی طلاق رجعی کی ، جو لوگ اکٹھی تین طلاق دیتے ہیں اور بیوی کو فورا گھر سے نکال دیتے ہیں یہ اللہ کے حکم کے ساتھ مذاق ہے۔
پھر جب شوہر تیسری مرتبہ طلاق دیتا ہے تو اب بیوی پر طلاق مغلظہ واقع ہوجاتی ہے یعنی تیسری طلاق دیتے ہی میاں بیوی میں فورا جدائی ہوجاتی ہے، اس صورت میں کوئی رجوع نہیں ہے۔ اب بیوی شوہر سے بالکل آزادہے، اپنے میکے جائے اور عدت گزار کر کسی مرد سے شادی کرے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
سوال(4): ایک شوہر اکثر اپنی والدہ کونئے نئے کپڑا خریدکردیتا ہے جبکہ پہلے دو تین بیگ کپڑے موجود ہوتے ہیں اور یہی شوہر نکاح کے تقریبا دو سال ہونے کا ہیں بیوی کا مہر نہ ادا کرے تو ایسے شوہر کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: نکاح کے وقت عورت کے لئے جو مہر طے کیا جاتا ہے وہ عورت کا ثابت حق ہے ، مرد کو چاہئے کہ وہ نکاح کے وقت ہی ادا کردے اور اس وقت ادا کرنے کی طاقت نہ ہو تونکاح کے بعد جس قدر جلدی ممکن ہو مہر ادا کردے ۔ اللہ تعالی فرمان ہے: اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔
ہمارے سماج کا حال یہ ہے کہ نکاح کے وقت لڑکا من مرضی کا سارا جہیز حاصل کرلیتا ہے جو اس کا حق نہیں ہے لیکن بیوی کے لئے طے کیا ہوا مہر نکاح کے بعد بھی سالوں سال تک نہیں ادا کرتا ۔ ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہئے ، نہ ناحق لوگوں کا مال کھانا چاہئے اور نہ حق والوں کی حق تلفی کرنا چاہئے۔
یاد رہے کہ جس مرد نے نکاح کرلیا اور بیوی کو اس کا مہر نہیں ادا کیا اس کے ذمہ قرض باقی ہے ، کہیں اس حال میں وہ مرد دنیا سے چلا گیا تو آخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہی ہوگی ۔ رسول اللہ ﷺ ایسے شخص کا جنازہ نہیں پڑھاتے جس کے ذمہ قرض ہوتا تھا اور مہر نہ دینا گویا اپنے سر پر قرض کا بوجھ اٹھائے رکھنا ہے ۔ آخرت میں اللہ تعالی اپنے حق میں ہوئی کوتاہی کو معاف کرسکتا ہے مگر بندوں کے حقوق کو ہرگز معاف نہیں کرے گااورحق دبانے والوں کا محاسبہ کرے گا۔
جو اپنی والدہ کوبلاضرورت نئے نئے جوڑے خرید کر دے سکتا ہے وہ آسانی سے مہر بھی ادا کرسکتا ہے اور وہ مہر نہ ادا کرے تو عمدا مہر کی ادائیگی میں غفلت برت رہا ہے ، اس کو چاہئے کہ فضول خرچی اور بلاضرورت خریدوفروخت چھوڑ کر بیوی کا مہر ادا کرے ورنہ بعدمیں افسوس ہوگا۔
سوال(5):ایک حدیث آتی ہے ۔لَا تَتْرُكُوا النَّارَ فِي بُيُوتِكُمْ حِينَ تَنَامُونَ(جب سونے لگو تو گھر میں آگ نہ چھوڑو)(بخاری:6293)اس حدیث کی روشنی میں کیا ہیٹر ،گیزر،کوائل بھی اسی زمرے میں آتا ہے اور کیا یہ چیزیں بھی رات کو بند کرنا چاہئے جبکہ گیزر بند کریں گے تو فجر میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے میں مشکل پیش آئیگی ؟
جواب:جس آگ کو جلتی ہوئی نہ چھوڑنے کا حکم ہے، وہ ، شعلے والی آگ ہے جس سے گھر میں آگ لگنے کا اندیشہ ہے اور جو اس قبیل سے نہیں ہے اس کا مسئلہ نہیں ہے جیسے رات میں بلب جلتا ہے یا کوائل اور گیزر جلتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، یہ آگ کا شعلہ نہیں ہے جیسے چراغ میں ہوتا ہے۔
امام بخاری نے مذکورہ بلا حدیث (6293)کے بعد ایک دوسری حدیث(6294) ذکر کی ہے جس میں ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مدینہ منورہ میں ایک گھر رات کے وقت جل گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "آگ تمہاری دشمن ہے اس لیے جب سونے لگو تو اسے بجھا دیا کرو"۔یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے آگ لگنے والی چیزوں کو رات میں بجھاکر سونے کا حکم دیا ہے ۔
کبھی کبھی بجلی والی چیزوں سے بھی خطرہ ہوجاتا ہے، گھر میں آگ لگ جاتی اور سامان وغیرہ جل جاتا ہے ایسے میں ہمیں جس چیز میں کہیں خطرہ کا شبہ ہو اس میں جو احتیاطی تدابیر ہوتی ہیں وہ اپنائیں جیسے ہیٹر جلا کر سونا خطرے کا سبب ہوسکتا ہے ، بسا اوقات کوائل اور موم بتی سے بھی خطرہ ہوتا ہے اگر اس کو محفوظ جگہ نہ رکھا جائے ۔ہمارے گھروں میں مختلف قسم کے بجلی کے آلات ہوتے ہیں اور ان سب کے لئے کمپنی والوں نے گائیڈ بگ دی ہوتی ہے ہمیں کمپنی کے رول کے حساب سے بجلی کے سامان استعمال کرنا چاہئے ۔
سوال(6):ایک بہن عمرہ پر گئی تھی اس کو کسی دوسری عورت نے حرم میں کہا کہ اگر وضو ٹوٹ جائے تو اسپرے والے بوتل سے وضو کرلو کیونکہ وضو خانہ دور ہوتاہے اور ناک و منہ میں پانی نہیں ڈالنا کیونکہ یہ سنت ہے وضو کے فرائض میں سے نہیں ہے ، کیا اس طرح وضو ہو جائے گا ؟
جواب:وضو میں گلی اور ناک میں پانی ڈالنا واجب ہے ، اس کے بغیر وضو نہیں ہوگا ، یہ غسل میں بھی واجب ہے جو غسل میں کلی اور ناک میں پانی نہ ڈالے اس کا غسل بھی نہیں ہوگا۔
اسپرے سے چھینٹے کی طرح پانی نکلتا ہے جس سےتین تین بار میں اعضائے وضو مکمل طور پر نہیں بھیگ سکتے ہیں ، کچھ بھیگ جائیں اور کچھ خشک رہ جائیں گے اس لئے اسپرے والی بوتل سے وضو نہیں ہوگا ۔ وضو میں تین تین بار عضو دھونا ہے اور تین بار سے زیادہ عضو دھوتے ہیں تو یہ سنت کی خلاف ورزی ہے ۔ اگر کوئی اسپرے والی بوتل سے پورے اعضاء دھل بھی لے مگرکلی نہ کرے اور ناک میں پانی نہ چڑھائے تب بھی اس کا وضو نہیں ہوگا کیونکہ کلی کرنا اور ناک کی صفائی کرنا واجب ہے بلکہ نبی ﷺ نے ناک میں پانی مبالغہ کے ساتھ چڑھانے کا حکم دیا ہے اور اس طرح کرنے کو مکمل وضو کہا ہے چنانچہ لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أسبغِ الوضوءَ وبالغ في الاستنشاقِ إلاَّ أن تَكونَ صائمًا(صحيح ابن ماجه:333)
ترجمہ:تم مکمل طور پر وضو کرو، اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرو، الا یہ کہ تم روزے سے ہو۔
ایسی عورتوں کو ایک مشورہ بھی دوں گا کہ آپ حرم شریف میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے پر وقت دینا چاہتی ہیں مگر وضو کے لئے آپ کے پاس وقت نہیں ہے تو اس عبادت کا کیا فائدہ جب صحیح سے وضو نہ کیا جائے اور آپ جان لیں کہ وضو عبادت کے لئے بہت اہم چیز ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ بغیر پاکی کے کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی ۔
سوال(7) : میں ایک پاکستانی لیڈی خاتون ہوں اور ہاسپیٹل میں نرسری میں مکمل حجاب کے ساتھ جاب کرتی ہوں ،پوری نرسری میرے سوپرویزن میں ہوتی ہے ،وہاں ایک کارنر میں نماز کے وقت پورا چہرہ ڈھک کر نماز پڑھ لوں تو نماز ہوگی، وہاں پر فیمیل اسٹاف ہے ،ایک میل اسٹاف بھی ہے جو آتا جاتا ہے تو کیا ہماری نماز ہو جائے گی؟
جواب:نماز تو اپنے وقت پر پڑھنا ہے اور جہاں جس نماز کا وقت ہوجائے اسی جگہ ادا کرنا ہے تاکہ نماز قضا نہ ہوجائے ۔ آپ جس ہاسپیٹل میں ہیں اس میں جو جگہ نماز کے مخصوص یا مناسب ہے وہاں پر پورے جسم کو ڈھک کر نماز پڑھ سکتے ہیں چاہے اس جگہ کوئی مرد بھی آجائے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ پورا جسم سرتاپیرڈھک کرنماز پڑھیں ، اس میں آپ کا چہرہ ، ہاتھ و پیر سب ڈھکا ہوا ہو ، اس طرح پردہ کے ساتھ ہاسپیٹل کے کارنر میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ہندوستان کے حالات پاکستان سے مختلف ہیں اس لئے ڈیوٹی کے وقت ہندوستانی بہن اور بھائی نماز کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کرے جہاں پر نماز پڑھنے سے کوئی ہندو فتنہ نہ کھڑا کرے ۔
سوال(8):مجھ سے کسی خاتون نے پوچھا کہ تم کس امام کو مانتی ہو تو میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم ، اس سوال کی وجہ یہ ہے کہ میں عصر کا وقت داخل ہوتے ہی نماز پڑھ لیتی ہوں ، باقی نمازیں اذان کے بعد یا اذان کے ساتھ پڑھتی ہوں ، اس کا کیا جواب ہے؟
جواب:اللہ تعالی نے قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے ، دین میں اللہ اور رسول کے علاوہ کسی اور کی بات نہیں مانی جائے گی ۔ اللہ کا فرمان:وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ(آل عمران:32)
ترجمہ:اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اس طرح اللہ نے قرآن میں بہت ساری جگہوں پر اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا بلکہ اسی کی نیکی قبول کی جائے گی جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے جیساکہ اللہ ارشاد فرماتا ہے:
وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ(الحجرات:14)
ترجمہ:تم اگر اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرنے لگو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ان ہی دو دلیلوں سے آپ اندازہ لگاسکتی ہیں کہ اللہ نے دینی معاملات میں صرف اللہ اور رسول کو ماننے کا حکم دیا ہے، اور کسی تیسری ہستی یا کسی امام کے ماننے کا پورے قرآن میں کہیں حکم نہیں دیا ہے ۔اس لئے ہم لوگ دین کے معاملہ میں صرف اللہ اور رسول کی پیروی کرتے ہیں اور اگراپنا امام کسی کو بناتے بھی ہیں تووہ صرف اور صرف محمد ﷺ ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے محمد ﷺ کی ذات میں ہی عمدہ نمونہ رکھا ہے، آپ سے بہتر نہ انسانوں میں کوئی ہے اور نہ انبیاء میں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا(الاحزاب:21)
ترجمہ:یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے ۔
اس آیت میں اللہ نے صاف صاف بتادیا کہ تمہارے اسوہ ، تمہارے نمونہ ، تمہارے رہبر ، تمہارے قائد صرف اور صرف محمدﷺ ہیں جن کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔جب آپ ﷺ جیساکوئی نہیں ہے پھر آپ کو چھوڑ کر دوسرے کو کیوں امام بنایا جائے گا؟۔نبی کو رہبر بنانے کی قرآن سے دلیل ملتی ہے جبکہ نبی کے علاوہ دوسرے کو اپنا امام بنانے کی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے ۔ نبی ﷺ دنیا میں بھی ہمارے امام ہیں اور آخرت میں بھی یہ امت نبی ﷺ کے جھنڈا تلے ہوگی ۔ جو لوگ نبی کو چھوڑ کر دوسرے کو اپنا امام بناتے ہیں ان کےلئے دنیاوآخرت دونوں جگہ ناکامی ہے ۔ اللہ نے اعلان کردیا ہے ۔
وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا(الاحزاب:71)
ترجمہ: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ یقیناً بڑی کامیابی سے سرفراز ہوگا۔
آپ بہن جو نمازوں کو اپنے اوقات میں ادا کرتی ہیں ، صحیح کرتی ہیں کیونکہ رسول نے نمازوں کو اول اوقات میں ادا کرنے کو افضل قرار دیا ہے ۔ نماز اللہ کی عبادت ہے اور عبادت اسی طرح اور اس وقت میں انجام دینی ہے جیسے اللہ اور اس کے رسول نے کہا ہے ۔
جس بہن نے آپ سے امام کے بارے میں پوچھا آپ اس سے پوچھیں کہ آپ جس امام کو مانتی ہو اس کو ماننے کے لئے اللہ اور رسول نے کہاں حکم دیا ہے اوراس کی دلیل کیا ہے ؟اور کیا تمہارے امام محمد ﷺ سے بڑھ کر ہیں؟ جب تمہارے امام نبی سے افضل نہیں اور تمہارے امام کے لئے اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی تو تم محمد ﷺ کو چھوڑ کر کیوں دوسرے کو اپنا امام بناتی ہو؟۔
سوال(9):ایک عورت کی چھ سال پہلے شادی ہوئی ، دو سال تک دونوں ساتھ رہے، پھر شوہر اپنی بیوی کا مال وغیرہ ہڑپ کر کہیں چلا گیا پھر پتہ چلا کہ اس آدمی نے اس عورت سے دوسری شادی کی تھی ، اس کی پہلی بیوی موجود تھی اور اب وہ تیسری شادی بھی کر چکا ہے ۔جب اس عورت نے ملنے کی کوشش کی تو مرد نے ڈرایا دھمکایا کہ اس کے گھر کے قریب بھی نہ آئے ۔اور اس کو ایک مرتبہ سامنے سے طلاق بھی دیا پھر فون کے ذریعہ ایک طلاق دیا ۔ اب چار سالوں سے اس آدمی کا کوئی پتہ نہیں ہے، نہ اس نے عورت سے ملنے کی کوشش کی، عورت کا سوال ہے کہ اس حالت میں وہ کیا کرے ،دوسری شادی کے لئے لوگ پروف مانگیں گے کہ طلاق ہوئی یا نہیں جبکہ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے ، زبانی طلاق دی گئی ہے اب یہ کیا کرے ؟
جواب:جس عورت نے کسی شادی شدہ مرد سے شادی کی پھر اس کا شوہر اسے چھوڑ کر چلا گیا ، بعد میں اس کو سامنے سے یعنی منہ پر ایک طلاق دیا پھر فون پر دوسری طلاق دیا توایسی صورت میں صرف پہلی طلاق معتبر ہوگی اور دوسری طلاق لغو ہوگی اس کی وجہ یہ ہے کہ شوہر نے پہلی طلاق دی اوربغیر رجوع کے فون پر عدت میں دوسری طلاق دی تو یہ دوسری طلاق نہیں ہوگی کیونکہ عدت میں دوسری طلاق معتبر نہیں اور اگرپہلی طلاق کے بعد عدت گزر گئی ہوپھرفون پرطلاق دی ہو تو اس وقت یہ عورت اس مرد کی بیوی ہی نہیں تھی اس لئے دوسری طلاق لغو ہے کیونکہ عدت گزرنے سے رشتہ نکاح ختم ہوگیا تھا ایسے میں دوسری طلاق دینے کا مرد کو اختیار نہیں ہے ۔
بہرکیف ! اگر شوہر نے بیوی کو طلاق دی تھی اوراس نے عدت میں رجوع نہیں کیا تھا تو میاں بیوی کا رشتہ اس مرد سے ختم ہوگیا ہے ، یہ عورت اب دوسرےکسی مرد سے شادی کرسکتی ہے ۔ اگرشادی کے وقت سماج کو دکھانے کے لئے کوئی ثبوت چاہئے تو کسی مستند ادارے سے اپنا یہ معاملہ لکھ کر فتوی حاصل کرے ، جب اس کو لیٹرپیڈ پردستخط کے ساتھ مستند ادارے کا فتوی حاصل ہوجائے گا تو شادی کے لئے یہ فتوی کافی ہوگا۔
سوال(10): خاتون کی نماز پڑھنے کے لئےایک سنگل جائے نماز ہے جس میں ایک ساتھ بچے کے لئے بھی چھوٹی جائے نماز اٹیچ ہے یعنی دونوں ایک ساتھ ہے ، دونوں جائے نماز کے درمیان میں دل کی تصویر ہے اور جائے نماز کے اوپری سرے پر سجدہ کے پاس قرآن کی آیت "رب اجعلنی مقیم الصلاۃ ومن ذریتی" لکھی ہوئی ہے، اس قسم کی جائے نماز کا کیا حکم ہے ؟
جواب:قرآن کی آیت کو اس طرح جائے نماز پر لکھنا قرآن کی توہین ہے ، جب قرآنی آیات کو دیوار پر نہیں لٹکا سکتے ہیں تو زمین پر بچھائے جانے والی جائے نماز پر کیسے قرآنی آیت لکھ سکتے ہیں ، نعوذباللہ من ذلک ، یہ بڑی گستاخی ہے، لوگ کس درجہ دین میں جہالت کا ثبوت پیش کررہے ہیں؟ ۔
دل کا نشان حرمت میں داخل نہیں ہے پھربھی اس کے استعمال سے بچنا بہتر ہے کیونکہ اسےعشاق وفجارقسم کے لوگ عشق وعاشقی کے لئے استعمال کرتے ہیں اس لئے ایسی علامت جائے نماز جیسی مقدس جگہ پر ہونا باکل مناسب نہیں ہے ۔سادے قسم کے بھی نقش ونگار جائے نماز کے لئے صحیح نہیں کیونکہ یہ نماز میں اپنی طرف توجہ مبذول کرنےو الی چیز ہے۔
بہرحال مسلم ماں اور بہنوں کو اس طرح کی چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور جو اس طرح کی چیز استعمال کرے اس کو غلطی پر متنبہ کریں بلکہ جو اس طرح کی جائے نماز بنانے کا کام کررہی ہے اس کے بارے میں پتہ چلے تو اس کو سخت لہجے میں تنبیہ کریں اور ڈرائیں تاکہ وہ اس عمل سے باز آجائے۔
سوال(11):اگر کسی عورت کے بال مضبوط بندھے ہوں تو کیاغسل حیض کے وقت اس کا دھونا ضروری ہے ، اگر ہم نہ کھولیں تو کیسا ہے اور غسل کے بعد پھر حیض آجائے تو کیا اگلے غسل کے لئے بال کھولنا ضروری ہے؟
جواب:اگر کسی عورت کا بال مضبوطی سے چوٹی کی شکل میں بندھا ہوا ہو تو غسل حیض میں اسے کھولنے کی ضرورت نہیں ہے ، سر پر چلو سے اس طرح پانی بہائیں کہ بالوں کی جڑوں کوپانی پہنچ جائے یہ کافی ہے ۔ اس سلسلے میں یہ حدیث ملاحظہ کریں ۔حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے عرض کی کہ:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي امْرَأَةٌ أَشُدُّ ضَفْرَ رَأْسِي، فَأَنْقُضُهُ لِغُسْلِ الْجَنَابَةِ؟ قَالَ: لَا، إِنَّمَا يَكْفِيكِ أَنْ تَحْثِي عَلَى رَأْسِكِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ، ثُمَّ تُفِيضِينَ عَلَيْكِ الْمَاءَ فَتَطْهُرِينَ (صحیح مسلم:330)
ترجمہ:اے اللہ کے رسول! میں ایک ایسی عورت ہوں کہ کس کر سر کے بالوں کی چوٹی بناتی ہوں تو کیا غسل جنابت کے لیے اس کو کھولوں؟آپ نے فرمایا: نہیں، تمہیں بس اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے سر پر تین چلو پانی ڈالو، پھر اپنے آپ پر پانی بہا لو تم پاک ہو جاؤں گی۔
یہاں پر غسل جنابت کا ذکر ہے اور یہی غسل، حیض ونفاس کے لئے بھی کیا جاتا ہے یعنی حیض ونفاس کا وہی غسل ہے جو جنابت کا غسل ہے ۔ غسل کے بعد پھر سے حیض آجائے تو اس میں ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ حیض ہے کہ نہیں ؟ اگر طہارت کے بعد کچھ زردی وغیرہ آئے تو حیض نہیں ہوتا ہے اورجب وہ حیض نہیں ہے تو پھر اس میں غسل حیض بھی نہیں ہے ۔ ہاں کسی عورت کو رک رک کربھی حیض آتا ، اس طرح اگر دوبارہ حیض آگیا تو پاک ہونے پر دوبارہ غسل کرنا ہے اور چوٹی کا وہی مسئلہ ہے کہ غسل کے وقت چوٹی کھولنے کی ضرورت نہیں ہے ، سر پر پانی بہانا ہی کافی ہے ۔
سوال(12): ایک شخص کی وفات ہوگئی ہے ، وہ سرکاری ملازم تھا، وفات کے بعد اس کی بیوی کے اکاؤنٹ میں پینشن آتا ہے تو کیا اس میں سے میت کی والدہ کا شرعا کوئی حصہ ہے ؟
جواب: اس مسئلہ میں حکومت کی پالیسی دیکھی جائے گی ، اگر حکومت کی پالیسی کے حساب سے یہ پینشن بیوی کے لئے دیا جارہا ہے تو اس میں میت کی والدہ کا حصہ یا دوسرے وارث کا حصہ نہیں ہوگا، اس پیسے کو حکومت کی پالیسی کے حساب سے میت کی بیوی استعمال کرے گی کیونکہ یہ صرف اسی کا حق ہے ، یہی وجہ ہے کہ حکومت اس پیسے کو صرف بیوی کے اکاؤنٹ میں بھیجتی ہے اور بیوی وفات پاجائے تو یہ پینشن بھی بند ہوجاتا ہے ۔ میت کی بیوی اپنی طرف سے کسی کو کچھ دے تو یہ الگ معاملہ ہے۔
سوال(13):ایک لیڈیز پرس ہے جس پرپورے پرس میں چوکور کالےو سفید رنگ کا مربع نماز کلر ہےیعنی جس تخت پر شطرنج کھیلا جاتا ہے اس جیسا کلرتو کسی نے کہا کہ اس بیگ کا استعمال نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ یہ شطرنج کا کلر ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب: اگرکسی پرس پر شطرنج کھیلے جانے والے تخت جیسا کالے وسفید میں مربع مربع نقش بنا ہوا ہے تو اس بیگ کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ محض ایک کلر ہے جس کی کسی حدیث میں ممانعت نہیں آئی ہے ۔ایسا کلر کسی کپڑے میں ہو یا بیگ میں ہو یا کسی بورڈ میں ہو اس کے استعمال میں حرج نہیں ہے ۔اسلام میں شطرنج منع ہے جو کہ ایک قسم کا کھیل اور جوا ہے ، رنگ منع نہیں ہے ۔ ہاں اگر شطرنج میں استعمال ہونے والے مہرے کی تصویر کہیں بنی ہو جو جاندار والی ہو تو اس چیز کا استعمال نہیں کریں گے ۔
سوال(14):شریعت کے لحاظ سے حج وعمرہ کے لئے عورت کو محرم کا ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن جب یہ بات کی جاتی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ بغیر محرم کے بھی حج وعمرہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ ازواج مطہرات نے عبدالرحمن کے ساتھ بغیر محرم کے حج کیا تھا، اس سلسلے میں صحیح بات کیا ہے؟
جواب:سفر کے معاملہ میں رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے کہ عورت بغیر محرم سفر نہ کرے ، خواہ حج و عمرہ کا سفر ہو یا کوئی اور سفر۔اور جہاں تک ازواج مطہرات کے حج کا معاملہ تو ہے اس بارے میں صحیح بخاری (1860) میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری حج کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو حج کی اجازت دی تھی اور ان کے ساتھ عثمان بن عفان اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہما کو بھیجا تھا۔ اس سے دلیل پکڑتے ہوئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ عورت بغیر محرم سفر حج کرسکتی ہے، ہرگز نہیں کیونکہ اصلا دین اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کا نام ہے جو آپ ﷺ کے عہد میں ہی مکمل ہوگیا تھا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ نبی کی بیویاں امت کی مائیں ہیں ، اس لحاظ سے سارے مرد ازواج کے لئے محرم ہوگئے ۔ بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ ازواج مطہرات نے محارم کے ساتھ حج کیا تھا اور ساتھ میں عثمان رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو شرف و اکرام کے لئے بھیجا تھا ۔ نبی کی بیویاں دین کو اوروں سے زیادہ سمجھتی تھیں وہ سنت رسول کی مخالفت نہیں کرسکتی ہیں جس میں کہاگیا ہے کہ کوئی عورت بغیر محرم سفر نہ کرے اس لئے ان کے عمل میں بغیر محرم سفرکرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
سوال(15):ایک بہن کے پاس عمرہ کے لئے پیسے جمع ہیں ، اب ان کا جانا نہیں ہورہا ہے تو جو پیسے ان کے پاس ہیں ان کی زکوۃ دی جاسکتی ہے؟
جواب:جس بہن نے عمرہ کا ارادہ کیا ہوا ہے خواہ وہ عمرہ کرے یا نہ کرے، یہ الگ مسئلہ ہے لیکن اگر اس کے پاس نصاب کے بقدر پیسے جمع ہوگئے ہیں اور اس پیسے پر ایک سال مکمل ہوگیا ہے تو اس کی زکوۃ دینا ہوگا۔سال مکمل ہونے سے پہلے اگر وہ پیسے کسی کام میں استعمال ہوجاتے ہیں مثلا عمرہ میں یا اور کسی کام میں یا پھراس پیسے میں سال مکمل ہونے سے پہلے اتنے پیسے کم ہوجاتے ہیں کہ باقی بچے پیسے زکوۃ کے نصاب کو نہیں پہنچتے تو ان دونوں صورتوں میں زکوۃ نہیں دینا ہے ۔
سوال(16): ایک عورت کو پورے ہاتھ میں تکلیف ہے ، اس کو ڈاکٹر نے گلفس پہننے کے لئے دیا ہے ، اس کو وضو کے لئے باربار اتارنے میں حرج ہے تو گلفس کے اوپر سے وضو کیا جاسکتا ہے ؟
جواب:اس گلفس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اس گلفس کو نکالنے سے ڈاکٹر نے منع کیا ہو تو ایسی صورت میں اس گلفس پر مسح کرلیا جائے گا لیکن بقیہ حصے جیسے چہرہ و پیر کو دھلاجائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ گلفس آسانی نے نکال سکتے ہیں اور پانی بھی استعمال کرسکتے ہیں، اس میں کوئی ضرر نہ ہو تو پھر وضو کرتے وقت گلفس نکال کراس کو پانی سے وضو کی طرح وضو کیا جائے گالیکن اگرآسانی سے گلفس نہ نکلے اس میں دشواری ہو تو پھر ایسی صورت میں اس پر مسح کیا جاسکتا ہے تاہم بقیہ حصہ کو دھونا ہے ۔ اور پھر ایک مرتبہ وضو کرکے وضو باقی ہو تو اسی وضو سے دوسرے وقت کی نماز پڑھ سکتے ہیں ۔
سوال(17):ایک بچی تین ماہ کی فوت ہوگئی ، ماں نے بچی کو دودھ پلایا تھا ، اس کے بعد ماں بھی سوگئی اور بچی بھی، شاید نیند میں ہی جب بچی قے کرتی ہے تو الٹا سانس کی نالی میں چلا گیا جس سے بچی کی وفات ہوگئی ،اس پہ کسی بہن نےاس ماں سے کہا کہ یہ تم سے بچی مری ہے اس لئے اس کے کفارہ کے طور پر تین ماہ کا روزہ رکھو ،کیا ایسا کہنا اور ایسا کرنا صحیح ہے ؟
جواب:جس نے یہ بات کہی ہے کہ تین ماہ کے روزے رکھو اس نے غلط کہا ہے، اس پر عمل نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس میں ماں کا کوئی قصور نہیں ہے ، اگر ماں کا کچھ قصور نکل بھی آئے تو اس پہ تین ماہ کے روزے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ قے کی وجہ سے بچی کی موت ہوئی ہو یا بغیر قے کے، اس کی موت اللہ کی طرف سے مقدر تھی ، وفات پاگئی اور بچی کی ماں کے ذمہ کوئی روزہ نہیں ہے ۔
جس بہن نے بغیر علم کے فتوی دیا ہے اس کو کہیں کہ بغیر علم کے فتوی نہ دیا کریں ، اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کو سخت تنبیہ کی ہے ، فرمان الہی ہے :
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ(الاسراء:36)
ترجمہ:اور ایسی بات کے پیچھے نہ پڑو جس کا تجھے علم نہیں۔
سوال(18):ایک ہفتہ کے لڑکے کی میت کو کیا عورت غسل دے سکتی ہے؟
جواب: یہ ابھی بچہ ہے، جیسے اس بچے کو اس کی عام حالت میں یعنی زندہ رہتے ہوئے اس کی ماں نہلا سکتی ہے اسی طرح اس کی ماں اپنے اس میت بچے کو غسل دے سکتی ہے حتی کہ کوئی دوسری عورت بھی اس بچے کو غسل دے سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال(19):اگر کوئی عورت جہنم میں جانے کے ڈر سے شوہر سے علاحدگی چاہے کہ کہیں اس کی نافرمانی کرکے جہنم میں نہ داخل ہوجاؤں اور باقی زندگی اکیلے گزارنا چاہے تو کیا صحیح ہے ؟
جواب:اس نیت سے کوئی عورت خلع نہیں لے سکتی ہے، خلع کے لئے شرعی عذر ہونا چاہئے ورنہ عورت گنہگار ہوگی اور شوہر بلاوجہ طلاق دے تو شوہر بھی گنہگار ہوگا۔ صرف اس نیت سے کہ میں شوہر کی ناشکری کرسکتی ہوں خلع لینا جائز ٹھہرے گا تو پھر ایسی عورت کے لئے شادی کرنا بھی ناجائز ہوگی کہ شادی کرکے کہیں شوہر کی ناشکری نہ ہو، پھر کہیں کوئی یہ نہ کہےکہ اللہ نے اس عورت کو کیوں پیدا کیا جس سے ناشکری ہوگی ؟ یہ سوچ و نیت غلط ہے ۔ اسلام میں شادی مسنون ہے ، انبیاء کی سنت ہے ۔ عورت و مرد کو شادی کرکے اپنے حقوق ادا کرنا چاہئے ۔ عورت ومرد کے بہت سارے مسائل کا حل شادی ہے خصوصا شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے ۔
سوال(20):چیونٹی کو مارنے سے متعلق ایک حدیث میں ہےکہ آگ کا عذاب صرف اللہ دے سکتا ہے تو میرا سوال یہ ہے کہ عورتیں ہیئر اسٹریٹینر استعمال کرتی ہیں جس سے وہ جوئیں بھی جل جاتی ہیں جو بالوں میں ہوں تو کیا یہ استعمال کرسکتے ہیں ؟
جواب:ہیئر اسٹریٹینر ایک قسم کا الیکٹرانک برش ہے جو بالوں کو سیدھا کرتا ہے اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اگر اس سے جوئیں مرجاتی ہیں تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ جوئیں مار سکتے ہیں ، آپ شیمپو ، لوشن یا عام کنگھیوں سے بھی جوئیں مارتے ہیں ۔یہ عمل آگ کے عذاب کی طرح نہیں ہے ، یہ تو محض برقی چیز ہے جیسے برقی جھٹکے سے موذی قسم کے حشرات الارض کو مارنا جائز ہے ۔
سوال(21):ایک لڑکی کا کڈنی آپریشن ہوا ہے اس کو ڈاکٹر نے اس حصے کو دھونے سے منع کیا ہے تو اس لڑکی کو حیض کے بعد کیسے غسل کرنا ہے اور نماز پڑھے گی تو نماز ہوجائے گی ؟
جواب:آپریشن کی وجہ سے جس حصہ کو پانی لگانا منع ہے ، غسل کے وقت اس حصہ کو پانی نہ لگائے ، باقی حصے کو دھل لے اور آپریشن والے حصہ پر تر ہاتھ سے مسح کرلے ۔ اس طرح اس کا غسل ہوجائےگا اور وضو کرکے نماز پڑھتی رہے ، اس کی نماز صحیح رہے گی ۔
سوال(22):ایک عورت اپنے گھر اذان سے ایک دو منٹ پہلے نماز کی نیت کرسکتی ہے؟
جواب:عورتوں کی نماز کا مسئلہ یہ ہے کہ جب نماز کا وقت داخل ہوجائے وہ نماز پڑھ سکتی ہے، ان کو اذان کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اگر نماز کا وقت ہوگیا ہے اور اذان ہونے میں ایک دو منٹ باقی ہے تو عورت اپنی نماز پڑھ سکتی ہے کیونکہ نماز کے لئے اصل وقت کا داخل ہونا ہے، اس سلسلے میں صحیح کلینڈر اپنے پاس رکھیں جس سے نمازوں کے اصل اوقات جان سکیں ۔مساجد کی اذان کبھی نماز کے اول وقت پر بھی ہوسکتی ہے اور کبھی تاخیر سے بھی ہوسکتی ہےایسے میں کلینڈر آپ کی صحیح رہنمائی کرسکتا ہے ۔
اگرمستند کلینڈر کے حساب سے نماز کا وقت ہوجائے تو آپ اپنی نماز کی نیت کرسکتے ہیں اور نماز پڑھ سکتے ہیں ،آپ کے لئے اذان کا انتظار کرناضروری نہیں ہے اور یہ اذان تو اصلامسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے والوں کے لئے دی جاتی ہے۔
سوال(23):سالگرہ منانا غلط ہے تو کیا ایک عورت اپنی پیدائش کے دن نیا لباس پہن سکتی ہے اور اچھا کھانا پکا سکتی ہے؟
جواب:اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سالگرہ منانا جائز نہیں ہے، یہ غیروں کی نقالی اور ان کی مشابہت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو غیر قوم کی مشابت اختیار کرتا ہے وہ ان ہی میں سے ہے اس لئے کسی مسلمان مرد یا عورت کو اپنے جنم دن یا شادی کی سالگرہ نہیں منانا چاہئے ۔ سالگرہ چاہے تقریب و مجلس کی صورت میں دھوم دھام سے منائیں یا اچھا کپڑا پہن کر اور اچھا کھانا پکاکر گھر والوں کے ساتھ منائیں ، یہ بھی سالگرہ منانا ہے ۔ جب آپ نے سالگرہ کی مناسبت سے اچھا کپڑا پہنا اور اچھا کھانا بنایا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے سالگرہ منایا کیونکہ آپ نے اس کے لئے اہتمام کیا۔ لہذا یہ عمل بھی جائز نہیں ہے ،آپ اس کام سے بچیں ۔
سوال(24):عورت کا مال ورثے میں کیسے تقسیم کریں گے ، کیا شوہر ، والدین اور اولاد کو دینا ہے؟
جواب:جیسے مرد کا مال تقسیم ہوتا ہے ویسے ہی عورت کا بھی مال تقسیم ہوتا ہے ۔ اگر عورت زندہ ہے تو اس کی جائیداد تقسیم نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وراثت کی تقسیم وفات کے بعد ہوتی ہے ۔ اس وقت اگر میتہ(عورت) کے والدین ، اولاد اور شوہر زندہ ہوں تو سب کو حصہ ملے گا۔ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں شوہر کو چوتھائی حصہ ، ماں کو چھٹا حصہ ، باپ کو چھٹا حصہ اور لڑکے و لڑکی کو اکہرا و دہرا حصہ ملے گا۔
سوال(25): ایک عورت کسی جاننے والے کے ذریعہ صدقہ یا زکوۃ کے پیسوں سے حرم شریف میں کرسیاں خرید کر دینا چاہتی ہے کیا یہ جائز ہے اور ایک دوسری عورت یونہی پیسے بھیج رہی ہے تاکہ مصحف خرید کر حرم میں رکھ دیا جائے صدقہ یا زکوۃ کی نیت نہیں ہے محض اجر کی نیت سے کیا یہ بھی جائز ہے؟
جواب:مسجد حرام اور مسجد نبوی میں ضرورت کی تمام چیزیں حکومت مہیا کرتی ہے اور اس مقدار میں مہیا کرتی ہے جس تناسب میں ضرورت ہواس لئے حرمین شریفین کی مساجد میں کوئی چیز وقف کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے مزید برآں حکومت کی طرف سے یہاں کچھ رکھنے کی بھی ممانعت ہے کیونکہ ممکن ہے کوئی یہاں پر ایسی چیز چھوڑ جائے جو صحیح نہیں ہے جیسےکوئی صوفی یہاں تصوف کی کتاب چھوڑ جائے یا کوئی یہاں پرایسا مصحف رکھ دے جس میں اپنی طرف سے کچھ بدعی چیزیں شامل کی گئی ہوں۔ اس بنیاد پر میں یہ کہوں گا کہ آپ جو چیز مساجد کو وقف کرنا چاہتے ہیں اس کو ایسی مسجد میں وقف کریں جہاں اس کی ضرورت ہوخصوصا اپنے قریب کی مسجد میں ۔ ہمارے یہاں بہت ساری مساجد میں مصحف کی کمی ہوتی ہے، ایسے میں ہم اپنے یہاں کی مساجد میں قرآن وقف نہ کرکے انڈیا وپاکستان سے حرمین کی مساجد کے لئے بھیجتے ہیں جہاں ضرورت بھی نہیں ہے ، ہم صحیح نہیں کرتے ہیں ۔ آپ وقف کی چیز ضرورت والی جگہ میں وقف کریں اور دوسری بات یہ ہے زکوۃ کے پیسوں سے سامان خرید کر مسجد کے لئے کوئی چیز وقف نہیں کریں گے ، زکوۃ کا پیسہ مستحقین کو پیسہ کی شکل میں دیں گے اور مسجد میں کوئی چیز وقف کرتے ہیں تو صدقہ کی نیت سے دیں ۔
سوال(26):میں حمل سے ہوں ، حمل میں کافی تکلیف ہوتی ہے، مسلسل خون بھی جاری رہتا ہے ، سارا وقت بیڈ پر گزرتا ہے، کام کرنا میرے لئے مشکل ہوتا ہے، میرے جوڑواں بیٹے ہیں ، اس کے بعد بھی بیٹا ہے ۔ اب بچے اسکول جانے لگے ہیں ، مجھے ان بچوں کو تیار کرنا ، ناشتہ بنانا، نہانا ، کپڑے صاف کرنا اور دیکھ بھال کرنا ہوتا ہے ۔ اگر پھر سے حمل ہوا تو نوماہ ان بچوں کو اسکول کی تیاری کیسے ہوگی اور دیکھ بھال کیسے ہوگی ، اس وجہ سے کیا میں بچہ دانی بند کرواسکتی ہوں، اس میں کوئی گناہ تو نہیں ہوگا جبکہ میرے ساتھ عذر ہے ؟
جواب:حمل کی حالت میں تمام عورتوں کو تکلیف ہوتی ہے، تکلیف اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ قرآن نے اسے "وھنا علی وھن" یعنی تکلیف در تکلیف کہا ہے اس لئے بلاشبہ حمل تکلیف دہ مرحلہ ہے لیکن تکلیف کی وجہ سے کوئی عورت کہے کہ ہم بچہ دانی بند کروالیں ، یہ جائز نہیں ہے ۔ آپ کے تین بچے پہلے ہیں یہ چوتھا بچہ ہوگا۔ گویا اولاد کی کثرت بھی نہیں ہے ۔ آپ کا اصل مسئلہ حمل کی حالت میں بچوں کے اسکول کی تیاری ہے ۔ اس وجہ سے خاندانی منصوبہ بندی کرانا جائز نہیں ہے، یہ کوئی شرعی عذر نہیں ہے ۔ گھریلو کام صرف بیوی کا ہی نہیں ہے اس میں مرد کوبھی تعاون کرنا چاہئے ، اگر وہ نہ کرسکے ، باہر رہتا ہو تو کسی کو خدمت پر مامور کرنا چاہئے ۔ آپ وقفہ کے لئے یعنی کچھ ماہ و سال حمل روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر کرسکتے ہیں مگر پوری طرح نسل ہی بند ہوجائے ایسا راستہ اختیار نہیں کرسکتے ہیں ۔ اسلام نے مردوں کو تو زیادہ بچہ پیدا کرنے والی عورتوں سے شادی کا حکم دیا ہے اور آپ اس کو بند کرانے کا سوچ رہی ہیں ۔ یہ غلط سوچ ہے ۔ آپ بچہ بند کرانے کا نہ سوچیں بلکہ احتیاط کریں اور احتیاطی تدابیر اپنائیں یا احیتاط نہیں کرپاتے ہیں تو تکلیف وضرورت کے وقت شوہر یا رشتہ دار یا دائی کی خدمت حاصل کریں ۔