• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(قسط:33)

جواب از مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ -سعودی عرب

سوال(1):استحاضہ والی عورت کیسے نماز پڑھے گی ، دو نمازوں کو جمع کرسکتی ہے یا نہیں اورکیا نماز سے قبل غسل کرنا ضروری ہے؟

جواب:جس عورت کو استحاضہ کا خون آئے تو نماز کے وقت پہلے استنجا کرے تاکہ شرمگاہ کی نجاست دور ہوجائے اور پیڈیا انڈرویئر لگالے تاکہ خون نہ گرے پھر وضو کرے اور نماز پڑھے ۔ ہر نماز کو اپنے اپنے وقت پر ادا کرے اور اسی طرح ہر مرتبہ استنجا کرے، پیڈ یاکپڑا یاروئی وغیرہ لگاکر وضو کرے اور نماز پڑھے ۔ خون تسلسل کے ساتھ آئے اور طہارت ونماز میں مشقت ہو تو مستحاضہ دو نمازوں کو جمع کرسکتی ہے ۔ ابوداؤد (294) میں حدیث ہے نبی ﷺ نے استحاضہ والی ایک عورت کو حکم دیا: عصر جلدی پڑھے اور ظہر میں دیر کرے، مغرب کو مؤخر کرےاور عشاء میں جلدی کرے ۔ اس کو جمع صوری کہتے ہیں۔ ظہر کو آخر وقت میں اور عصر کو اول وقت میں پڑھیں اور مغرب کو آخری وقت میں اور عشاء کو اول وقت میں پڑھیں اور فجر اپنے وقت پر۔
جب استحاضہ کے دوران حیض آجائے تو حیض ختم ہونے پر غسل کرنا ہے، ورنہ صرف استحاضہ کی وجہ سے غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہر نماز کے لئے وضو کافی ہے۔

سوال(2): ایک بہن کا سوال ہے کہ پہلے میں جنس اور مغربی ٹاپس پہنتی تھی جو پرانے ہوگئے، رکھے ہوئے ہیں کیا وہ کسی دوسرے کو دے سکتی ہوں؟
جواب :اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ کیا عورت جنس پینٹ اور شرٹ پہن سکتی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جنس پینٹ اور شرٹ میں پردہ نہیں ہوتا ، یہ چست اور ہرہنہ لباس ہوتا ہے ، اسے عموما کفار استعمال کرتے ہیں اس لئے مسلم عورت کو اس لباس سے بچنا ہے۔ تاہم عورتوں کے لئے بنے مخصوص جنس و شرٹ عورتیں اپنے گھر میں یعنی شوہر کے سامنے یا اکیلے میں پہن سکتی ہے حتی کہ عبایا کے نیچے بھی استعمال کرسکتی ہے لیکن چونکہ اپنے معاشرے میں اس کو معیوب سمجھا جاتا ہے اس لئے اس قسم کے لباس سے ہمیں بچنا چاہئے ، ورنہ محلے میں شور ہوجاتا ہے کہ فلاں عورت جنس پینٹ پہنتی ہے اور اس عورت کو باحیا نہیں سمجھا جاتاگرچہ وہ اپنے گھر میں ہی کیوں نہ استعمال کرتی ہو۔
اب آپ کے اصل جواب کی طرف آتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ آپ اپنے پرانے کپڑے کسی ضرورت مند کو دے سکتی ہیں تاہم اسے نصیحت ضرور کردیں کہ اس کپڑے کو کیسے پہننا ہے یعنی یہ واضح کردیں کہ اس کو مردوں کی نظروں سے چھپاکر پہننا ہے یا اکیلے میں یا عبایا کے نیچے یا شوہر کے پاس استعمال کرنا ہے۔ جس عورت کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ نصیحت پر عمل نہیں کرے گی اس کو کپڑا نہیں دینا ہے ورنہ اس لباس کے غلط استعمال کا گناہ دینے والی بہن کو بھی ہوگا۔ نیز اس بہن کو آئندہ اس قسم کے مغربی لباس خریدنے سےپرہیز کرنا ہے۔

سوال(3):کیا عورت کو ہمیشہ مہندی لگانا واجب ہے؟
جواب:عورتوں کے لئے مہندی لگانا جائز اور مستحب ہے ، وہ حسب چاہت مہندی استعمال کرسکتی ہے لیکن مہندی لگانا عورتوں کے حق میں کبھی بھی واجب نہیں ہے ۔ واجب کا مطلب ہے کہ اس کو چھوڑنے سے عورتوں کو گناہ ملے گا ۔ تو مہندی لگانا واجب نہیں ہے بلکہ جائز عمل ہے، وہ اپنی مرضی سے جب چاہے لگائے اور جب نہ چاہے نہ لگائے۔

سوال(4): بیماری سے بچاؤ کے لئے نیلم، عقیق، مرجان نامی پتھر استعمال کرنا کیسا ہے؟
جواب: شفا کی غرض سے پہننے یا لٹکانے والی کوئی بھی چیز تعویذ میں شمار ہوگی اور تعویذ لٹکانا شرکیہ عمل ہے، نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا ۔ لہذا کسی مسلمان کو اس نیت سے کسی قسم کا پتھر یا انگوٹھی پہننا اور استعمال کرنا جائز نہیں کہ اس کے استعمال سے شفا ملے گی اور فائدہ پہنچے گا چاہے نیلم و عقیق نامی پتھر ہو یا کوئی چیز مثلا ہار، دھاگہ ، کڑا چھلہ وغیرہ ۔

سوال(5):لڑکی والوں سے نقد جہیز لے کر اسی پیسے سے مہر دینا کیسا ہے یعنی لڑکی والوں سے ہی مہر کے پیسے لے کر مہر دینا جائز ہے اور جو اس قسم کی شادی ہوئی ہے اس شادی کا کیا حکم ہے؟
جواب: عموما جہیز کے نام پر لڑکے کے گھر والے ناجائز قسم کا جبری و ظالمانہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور مہر تو لڑکے کو دینا ہوتا ہے لیکن جوائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سےاکثر سرپرستوں کی طرف سے مہر ادا کیاجاتا ہے اور جس سرپرست نے نقدی جہیز لیا ہوگا ظاہر سی بات ہے وہ اسی میں سے مہر بھی ادا کیا ہوگا۔ایسی صورت میں نکاح تو درست ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن حرام طریقے سے مال حاصل کرنے کا گناہ ان سب کو ملے گا جو جہیز لینے دینے میں معاون ہو۔لڑکی والوں سے نقدی پیسہ لینا یا جہیز کا مطالبہ کرنا حرام ہےاس عمل سے مسلمانوں کو باز آناچاہئے۔

سوال(6): ایک عورت ہاسپیٹل یا اسکول میں ڈیوٹی کرتی ہے وہاں وضو کرنے کی سہولت نہیں ہے جبکہ وہاں نامحرم لوگ بھی ہیں اور انڈیا کے حالات کیسے ہیں سب کو معلوم ہے ۔پھر وہ کیسے وضو کرے، پانی ہے مگر لوگوں کے سامنے چہرہ ، ہاتھ و پیر اور سر کیسے کھولے گی ؟
جواب: آج کل ہرجگہ عموما اٹیچ باتھ روم وغیرہ کی سہولت ہوتی ہے تو عورت باتھ روم میں وضو کرسکتی ہے یا اٹیچ نہ ہو تو بوتل میں پانی لے کر ایسی مخفی جگہ پر وضو کرسکتی ہے جہاں نجاست لگنے کا خطرہ نہ ہو مثلا چھت پر، صاف واش روم وغیرہ میں حتی کہ اپنی آفس یا کسی کمرے میں بھی وضو کرسکتی ہے اس طورکہ بوتل سے اس طرح وضو کرے کہ پانی نیچے کسی برتن میں گرے تاکہ فرش نہ گیلا ہو۔ کوشش کے باوجود پانی سے وضو کرنا دشوار ہو تو تیمم کرکے نماز پڑھ سکتی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے بندوں پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا ہے ۔یہاں پر مسلم بہن کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اس جگہ اجنبی مردوں کی خلوت سے بچے ، باحجاب ڈیوٹی کرے ،اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرتی ہے اور ان مفاسد سے بچتی رہے جو برائی تک لے جانےوالے ہوں۔

سوال(7): خوشی کے موقع پر بچیاں ڈانس(رقص) کرسکتی ہیں، کیا اس کی اجازت ہے؟
جواب:رقص مسلم ماں بہن، بیٹی کے لئے کسی طور جائز نہیں ہے چاہے خوشی کا موقع ہو یا کوئی اور موقع ہو،یہ فساق و فجار کی مشابہت اور فتنے کا سبب ہے اس فتنے سے ہم اپنے گھر اور سماج کو بچائیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم بچیاں اسکولوں میں رقص کرتی نظرآتی ہیں اور والدین کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ یاد رکھیں ایسی بچیاں آگے چل کر کبھی باحیا نہیں بن سکتیں بلکہ یہی بچیاں ٹک ٹاک وغیرہ پر رقص کریں گی اور ذرہ برابر شرم محسوس نہیں کریں گی۔آج کل دینی مدارس میں بھی ایکشن نظم کے نام پر بچیاں رقص کی طرح حرکات کرتی ہیں جو مدارس سے ختم ہونا چاہئے۔

سوال(8): مصنوعی مہندی جس کو لگانے سے ہاتھ پر تہ جمے تو اس سے وضو اور غسل ہوجائے گا؟
جواب:ایسی کوئی مہندی جس کو لگانے سے عضو وضو پر تہ جم جائے اور پانی جلد تک نہ پہنچ سکے تو اس پر وضو کرنے سے وضو نہیں ہوگا اور غسل بھی نہیں ہوگا۔اس لئے کسی مسلم بہن کو ایسی مصنوعی مہندی نہیں لگانی چاہئے جس سے جلد پہ پرت جم جائے بلکہ ایسی مہندی خریدنی اور لگانی چاہئے جس سے جلد پر بس رنگ نکھرے اور پرت نہ جمے۔

سوال(9): اگر کبھی میاں بیوی کہیں گھومنے جائیں تو کیا دونمازیں جمع کرکے گھر میں پڑھ سکتے ہیں؟
جواب:اللہ نے نماز کو مقررہ وقت پر فرض کیا ہے، جب جس نماز کا وقت جہاں ہوجائے وہاں پڑھنا ہے اس لیے گھومنے پھرنے جاتے وقت دو نمازوں کو جمع کرکے نہیں پڑھیں گے بلکہ جب جس نماز کا وقت ہو جائے اس وقت وہ نماز ادا کرنی چاہئے ۔ہاں اگر گھومنے کے مقصد سے دور دراز مقام کی جانب سفر کررہے ہیں تو بلاشبہ دوران سفر قصر کریں گے اور جمع کرکے نماز بھی پڑھنا جائز ہے۔

سوال(10): ایک بہن پوچھ رہی ہے کہ ایک حاملہ لڑکی ہے جس کی شادی نہیں ہوئی ہے وہ مجھ سے حمل گرانے والی دوا مانگ رہی ہے کیا اس کو دوا دینے سے ہم بھی گنہگار ہوں گے ؟
جواب:سوال سے یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ ایک غیر شادی شدہ لڑکی نے زنا کرلیا ہے جس سے حمل ٹھہر گیا ہے اور اب وہ حمل گرانا چاہتی ہے وہ کسی دوسری بہن سے حمل گرانے والی دوا مانگ رہی ہے۔یاد رکھیے حمل کیسا بھی ہو وہ ایک جان ہے، حاملہ کے پیٹ میں پل رہا بچہ معصوم ہے، اس کو گرانا بچے کو قتل کرنا ہے اس لیے جو بہن حمل گرانے والی دوا لاکردے گی اس کو بھی اتنا ہی گناہ ملے گا جتنا گناہ حمل گرانے والی عورت کو ملے گا بلکہ جو عورت یا مرد حمل والابچہ گرانے کا مشورہ دے، یا کسی طرح کی مدد کرے سب اللہ کے یہاں مجرم وقاتل ہیں، ان سب کی آخرت میں پکڑ ہوگی۔

سوال(11): ایک عورت حیض میں تھی اسے عمرہ کرنا تھا مگر اس نے مدینہ سے احرام نہیں باندھا ہے وہ پاک ہوکر جدہ سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں ، کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب: جو عورت حیض سے ہو اور عمرہ کا ارادہ رکھتی ہو تو اسی حالت میں اپنی میقات سے احرام باندھے گی ، جس حائضہ بہن کا مدینہ سے عمرہ کا ارادہ تھا مگر اس نے مدینہ کی میقات ذوالحلیفہ سے احرام نہیں باندھا اور وہ راستے میں ہو تو اسے لوٹ جانا چاہئے اور اپنی میقات سے احرام باندھ کرمکہ مکرمہ آنا چاہئے اور احرام میں باقی رہنا چاہئے ، جب وہ پاک ہوجائیں تو غسل کرکے عمرہ کرنا چاہئے اور ایسی صورت میں اس پر کوئی فدیہ نہیں ہوگا لیکن اگر اس نے بغیر احرام باندھے میقات پار کرلیا اور جدہ آکر یہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کیا تو اس کو ایک دم دینا ہوگا کیونکہ میقات سے احرام باندھنا واجب ہے اور اس نے عمرہ میں واجب ترک کیا ہے۔

سوال(12):ایک عورت کا بچہ ابھی چار مہینے کا ہوا ہے،وہ اپنی ماں کا دودھ پی رہا ہے اور پھر سےاس عورت کو حمل ٹھہر گیا ہے جو کہ چالیس دن کے قریب قریب ہے اور ماں کو کچھ ایسی دوا کی ضرورت ہے جس کو پینے سے حمل ساقط ہوسکتا ہے تو کیا ایسی صورت میں حمل کا اسقاط جائز ہے ان دو وجہوں سے پہلی وجہ یہ ہے کہ اس عورت کو دودھ پیتا بچہ ہے اگر حمل برقرار رکھے تو بچے کے دودھ پینے کا مسئلہ ہے اوردوسری وجہ ان دنوں ماں کو کچھ ایسی دوا کھانے کی ضرورت ہے جس سے حمل ضائع ہو سکتا ہے؟
جواب: حمل والیوں کے لئے ہرقسم کی دوا بازار میں موجود ہے، ایک نہیں سیکڑوں قسم کی موجود ہیں ، اس لئےاچھے ڈاکٹر سےمراجعہ کرکے وہ دوا لکھوائی جائے جو حمل کے لئے مناسب ہو یعنی دوا کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، دوسری متبادل دوائیں جن میں حمل کو ضرر نہ ہووہ استعمال کی جائیں ۔اور دوسری بات یہ ہے کہ بچہ دودھ پیتا ہے تو اس وجہ سے حمل ساقط کروانا جائز نہیں ہے۔ حمل ایک نفس اور ایک جان ہے اس کو بغیر عذر کے ساقط کرنا قتل کے زمرے میں آتا ہے اور اسقاط حمل کے لئے جو دو وجوہات بیان کی گئی ہیں وہ شرعی عذر میں داخل نہیں ہیں اس لئے حمل ساقط کروانا جائز نہیں ہے۔

سوال(13): اگر دبر یعنی پاخانہ کے راستہ سے سفید مادہ یا پیلا مادہ نکلے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: اکر تسلسل کے ساتھ پیچھے کے راستے سے کوئی سیال مادہ نکلے تو جیسے استحاضہ یا سلسل بول (پیشاب کی بیماری)میں عمل کیا جاتا ہے وہی عمل کیا جائے گایعنی اس جگہ اور کپڑے کو پہلے صاف کیا جائے گا جہاں پر خارج ہونے والا مادہ لگا ہوا ہے پھر وضو کرکے نماز ادا کی جائے گی ۔اگر کبھی کبھار پیچھے کے راستے سے کوئی مادہ خارج ہو توبھی یہ ناقض وضو ہے ، نماز سے قبل پہلے اس کی صفائی کی جائے جہاں جہاں لگا ہو پھر وضو بناکر نماز ادا کی جائے۔

سوال(14): اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:گھر میں ایک بستر آدمی کے لیے، ایک بستر اس کی اہلیہ کے لیے ، تیسرا مہمان کے لیے اور چوتھا(اگر ہو تو وہ) شیطان کے لیے ہے۔(مشکوۃ المصابیح :4310)
جواب:یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے ، اس کا مطلب ہے کہ ضرورت کے مطابق ہی گھر میں بستر رکھیں ، ضرورت سے زیادہ نہیں ، ورنہ پھر اسے شیطان استعمال کرے گا یعنی گھر کے استعمال اور ضرورت سے زائدچیز فضول واسراف ہے۔صحیح مسلم میں حدیث اس طرح سے ہے۔
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَهُ فِرَاشٌ لِلرَّجُلِ، وَفِرَاشٌ لِامْرَأَتِهِ، وَالثَّالِثُ لِلضَّيْفِ، وَالرَّابِعُ لِلشَّيْطَانِ(صحیح مسلم:2084)
ترجمہ:‏‏‏‏ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان سے ایک بچھونا آدمی کے لئے چاہیے اور ایک بچھونا اس کی بیوی کے لیے اور ایک بچھونا مہمان کے لئے اور چوتھا شیطان کا ہو گا۔

سوال(15):عورت حمل میں ہے اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے کیا وہ شادی کرسکتی ہے؟
جواب:حالت حمل میں شوہر کا انتقال ہوا ہے تو اس بہن کی عدت وضع حمل ہے یعنی جب تک بچہ پیدا نہیں ہوجاتا ہے تب تک وہ عدت میں رہے گی اور وہ حمل میں شادی نہیں کرسکتی نہیں ہے یعنی کسی عورت کے لئے عدت میں شادی کرنا جائز نہیں ہے اور حمل میں بھی شادی کرنا جائز نہیں ہے۔اس بہن کو تو سوگ میں ہونا چاہئے کہ یہ شوہر کے حقوق میں سے ایک حق ہے یعنی بیوی پر شوہر کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ جب اس کی زندگی میں شوہر کی وفات ہوجائے تو وہ سوگ منائے اور حمل والی عورت وضع حمل تک سوگ منائے گی ۔

سوال(16): کسی خاتون کا سوشل میڈیا پر اپنی خوبصورت آواز میں نظم وغیرہ پڑھ کر اپلوڈ کرنا شرعی نقطہ نظر سے کیساہے ؟
جواب:عورت سراپا پردہ ہے، اسے اپنا بدن چھپانا ہے اور فتنے کی چیز سے بچنا ہے ، عورت اگر اپنے بدن کے ساتھ ویڈیو بناتی ہے تو وہ گنہگار ہوگی کیونکہ وہ اپنی طرف لوگوں کو دیکھنے کی دعوت دے رہی ہے اورصرف آواز کے ساتھ نظم رکارڈ کرے تویہ بھی جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ نے عورتوں کو بات کرنے میں لچک ، نرمی اور شیرینی سے منع کیا ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا(الأحزاب:32)
ترجمہ:اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو ۔
نظم پڑھنے میں آواز کوسردینا پڑتا ہے ، آواز میں کشش پیدا کرنی پڑتی ہے ، ظاہر سی بات ہے اللہ کے مذکورہ کلام کی روشنی میں ایسی سریلی ، شیرینی اور پرکشش آواز بناکر ویڈیو بنانا یا آواز رکارڈ کرنا جائزنہیں ہے ۔یہ فتنے کا باعث ہے اس لئے لڑکیوں کو اس عمل سے باز رہنا چاہئے۔

سوال(17):ایک بہن کا پوچھنا کہ کیا خوشبو کی نیت سے اپنے گھر میں اگربتی جلاسکتی ہوں، مقصد صرف خوشبو حاصل کرنا ہے ؟
جواب:ہاں ، اگربتی خوشبو والی چیز ہے ، اس کو آپ خوشبو حاصل کرنے کے مقصد سے اپنے گھر میں جلاسکتی ہیں ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال(18):ٹوٹے ہوئے برتن ،ٹوٹی ہوئی کھنگی اور ٹوٹا ہوا جوتا استعال کرنا جائز ہے یاپھینک دینا چاہئے؟
جواب:ٹوٹے ہوئے برتن ، کنگھی اور جوتا سے جب تک کام چلتا ہے چلائیں، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ عوام میں مشہور ہے کہ اس قسم کی چیزوں سے گھر میں غریبی آتی ہے، یہ جھوٹی اور جہالت بھری بات ہے کیونکہ اسلام نے ہمیں ایسی کوئی بات نہیں بتائی ہے ۔ اس سلسلے میں میں نے چالیس باتوں کا خلاصہ بیان کیا ہے اس کو ضرور پڑھیں جومیرے بلاگ پر "فقرسے متعلق عوام میں پھیلی چالیس غلط فہمیاں"کے نام سے ہے۔

سوال(19): ایک گھر میں دو بہنوں میں ایک سے بیٹا شادی کرے اور دوسری بہن سے باپ شادی کرے،کیا یہ جائز ہے ؟
جواب: ہاں ، یہ جائز ہے، باپ کے لئے بیٹے کی سالی غیرمحرم ہے اس سے باپ شادی کرسکتا ہے۔

سوال(20): کیا شوہر کی وفات کے بعد اس کی بیوہ کا پردہ اپنے سسر سے بھی ہوتا ہے۔عدت میں بھی اور بعد میں بھی ؟
جواب:یہ لوگوں کی غلط فہمی ہے جو یہ کہتے ہیں شوہر کے مرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے ، اسی طرح یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ شوہر کی وفات کے بعد بیوہ اپنے سسر سے پردہ کرے گی ۔ سسر تو محرمات ابدیہ میں سے ہے اس لئے بہو اپنے سسر سے نہ شوہر کی زندگی میں پردہ کرے گی اور نہ ہی شوہر کی وفات کے بعد پردہ کرے گی ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط:34)
جواب: مقبول احمدسلفی ، جدہ دعوہ سنٹر، سعودی عرب
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سوال(1): ایک خاتون گھر میں سلائی کا کام کرتی ہے، اس کے پاس غیرمسلم خاتون بھی سلائی کے لئے آتی ہے ، غیرمسلم کا ایک تہوار دیوالی ہے اس کی نو راتوں میں ڈانڈیا نامی ایک ناچ کی محفل ہوتی ہے اس میں مردو عورت ڈانڈیا رقص کرتے ہیں ، اس رقص میں غیرمسلم عورتیں "گاگرا "نامی لباس پہنتی ہیں ، یہ گاگرا لباس صرف اسی رقص کے لئے استعمال ہوتا ہے یعنی اس محفل کا مخصوص لباس ہے تو کیا مسلم عورت کا گاگرا سلنا اور اس کا پرچار کرنا کہ جس کو گاگرا سلانا ہو وہ ہمارے یہاں سے سلائے جائز ہے ؟

جواب:غیرمسلم تہوار میں استعمال ہونے والے مخصوص لباس جو ناچ گانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں ، اگر یہ لباس خاص اسی عمل کے لئے ہوتا ہے جس کو گاگرا کہتے ہیں یعنی عام پہناجانے والا لباس نہیں ہے تو کسی مسلمان عورت کے لئے اس قسم کا لباس سلنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس قسم کے لباسوں کے لئے اڈورٹائز کرنا جائز ہے کیونکہ یہ گناہ کے کام پر تعاون ہے اور اللہ تعالی نے ہمیں گناہ کے کاموں پر تعاون کرنے سے منع کیا ہے ۔

سوال(2): سننے میں آتا ہے کہ خواتین کے لئے پیروں میں سونے کا پازیب پہننا جائز نہیں ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب:عورت کے لئے سونا اور چاندی کا استعمال جائز ہے اس لئے سونے و چاندی کے زیورات ہاتھوں ، پیرو ں ، گلے اور بازو وغیرہ میں عورت استعمال کرسکتی ہے ، اس میں شرعا کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ اگر اللہ نے سونے کے پازیب بنانے کی طاقت دی ہے تو عورتیں بلاشبہ پیروں میں سونے کے پازیب پہن سکتی ہیں، پازیب چاندی کا ہی ہو ضروری نہیں ہے ۔اگر کوئی آپ سے کہے کہ پیر میں سونا پہننا جائز نہیں ہے تو اس سے دلیل طلب کریں، دلیل نہ دے تو تنبیہ کریں کہ جس بات کی تمہارے پاس دلیل نہیں ہے ایسی بات کیوں بولتی ہو۔ پیر میں کچھ بھی لگائیں آواز والی چیزنہ ہو جو اجنبی مرد کے کان تک پہنچے اورپیر کی اس زینت کو اجنبی مرد پر ظاہر بھی نہیں ہونے دینا ہے ۔

سوال(3): میری جوڑواں نندیں ہیں ، ایک نند کو بیٹا ہے اور دوسری نند کو بیٹی ہے کیا ایک دوسرے سے رشتہ ہوسکتا ہے؟
جواب:دونوں بہن کے بچے آپس میں خالہ زاد بھائی بہن ہیں اور خالہ زاد بھائی بہن کا آپس میں رشتہ جائز ہےاس لئے ایک نند کے بیٹے کا دوسری نند کی بیٹی سے رشتہ کرنا جائز ہے۔

سوال(4):چالیس سال سے بڑی عمر کی عورتوں کے حیض میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے ، کبھی عادت سے کم اور کبھی عادت سے زیادہ دن تک خون آتے ہیں اور ڈاکٹر کا بھی کہنا ہے کہ حیض ختم ہونے سے قبل یہی حالت ہوتی ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں ہے ایسی صورت میں نماز و روزہ کا کیا حکم ہے؟
جواب:اگر ایسی بات ہے کہ بڑی عمر میں ماہواری کا نظم بگڑ جاتا ہے اور آگے پیچھے ہوتا ہے تو اس میں ماہواری کے ایام کا اعتبار ہوگا یعنی جتنا دن حیض کا خون آئے گا اتنے دن ناپاکی مانی جائے گی اور جب عورت پاک ہوجائے تو غسل کرکے نماز پڑھے گی گویا مہینہ میں چند دن آگے حیض آجائے یا چند دن بعد حیض آجائے اور اسی طرح کسی ماہ دو تین دن حیض آئے اور کسی ماہ ہفتہ عشرہ دن حیض آجائے تو اصل دنوں کا اعتبار ہوگا ۔ حیض کے دن ناپاکی کے ہوں گے اور حیض سے پاک ہوجانے کے بعد نماز کی پابندی کی جائے گی ۔

سوال(5)؛ایک بہن کے رمضان کے قضا روزے باقی ہیں تیس سال کے تقریبا ،اب وہ بیمار رہتی ہیں وہ پوچھ رہی ہیں کیا وہ اپنے روزے اپنے بیٹے اور بہو سے رکھوا سکتی ہیں ؟
جواب:یہ بڑا ہی سنگین معاملہ ہے کہ ایک عورت کے ذمہ تیس سالوں کے روزے قضا ہیں ۔ رمضان تو ہرسال آتا ہے اور ہر سال اپنے وقت پر روزہ رکھنا ہوتا ہے ، جس کو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں ہوتی ہے وہ اسی رمضان میں روزہ کا کفارہ ادا کردیتا ہے یا عذر کی وجہ سے فرض روزے چھوٹ جاتے ہیں تو رمضان بعد فورا اس کی قضا کرنی ہوتی ہے ۔ اس بہن سے بڑی غفلت واقع ہوئی ہے، اول وحلہ میں اس بہن کو اللہ سے سچی توبہ کرنا چاہئے جو اس نے روزے رکھنے اور قضا کرنے میں کوتاہی برتی ہے ۔ اس کے بعد اگر ان دنوں مسلسل بیمار رہتی ہے اور بڑھاپا یا ضعیفی ایسی ہے جس سے ٹھیک ہونا ممکن نہیں ہے تو گزشتہ تمام روزوں کا فدیہ ادا کردے لیکن کوئی دوسرا ان کی طرف سے نہیں رکھے گا یعنی روزہ قضا کرنے کی استطاعت نہیں ہے اور بیماری بھی طویل ہے اس سے ابھرنا ممکن نہیں ہے تب فدیہ دینا ہے ۔اور اگر بیماری سے صحت یابی ممکن ہے تو اللہ سے آسانی کی دعا کرے اور آسانی وفرصت ملتے ہی خود سے حسب سہولت چھوٹے روزوں کی قضا کرتی رہے ، یاد رہے بلوغت کے بعدوالے چھوٹے ہوئےروزوں کی قضا کرنا ہے۔

سوال(6):کوئی عورت اپنے گھر میں کھانا بناکر بیچتی ہے تو ظاہر سی بات ہے کوئی بھی آڈر کرسکتا ہے ، ایسے میں اگر کسی خاتون اداکار ہ کی طرف سے آرڈر آتا ہےیا برتھ ڈے پارٹیوں اور میلاد کے لیے آرڈر آتا ہے، تو ان لوگوں کو کھانافروخت کرنا چاہئے یا نہیں؟
جواب:جو عام کھانا ہے ، جس کا کھانا حلال ہے وہ کھانا کسی سے اور کسی بھی وقت بیچ سکتے ہیں لیکن کوئی مخصوص قسم کا کھانا ہو جو گناہ کے کاموں میں یا گناہ کے وقت کھایا جاتا ہو تو اس سے پرہیز کریں جیسے برتھ ڈے کا مخصوص کیک بناکر بیچنا یہ غلط ہے لیکن عام کیک جو کھاتے ہیں اس کو بناکر بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اسی طرح کوئی بدعتی محفل قائم ہونے والی ہو یا منکرات والی پارٹی ہونے والی ہواور یقین ہو کہ کھانا فروخت کرنے سے اسی گناہ کی محفل والے کھائیں گے تو ایسی محفلوں کے لئے کھانا بنانا جائز نہیں ہے ، یہ بھی گناہ کے کام پر تعاون شمار ہوگا۔

سوال(7): کیا مال واولاد کی برکت کے لئے یہ دعا پڑھ سکتے ہیں ؟
اللھم اکثر مالی وولدی وبارک لی فیما اعطیتنی واطل حیاتی علی طاعتک واحسن عملی واغفرلی۔

جواب:اس قسم کی دعا احادیث میں منقول ہے مگر ایک ہی حدیث میں اس طرح مکمل الفاظ کے ساتھ دعا وارد نہیں ہے تاہم یہ دعا بہترین ہے اور مختلف احادیث کو جمع کرنے سے یہ دعاثابت ہوتی ہے ۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے انس رضی اللہ عنہ کوجو دعا دی تھی ، وہ دعا صحیح بخاری میں اس طرح سے ہے ۔
اللهم اكثر ماله وولده، وبارك له فيما اعطيته (بخاري:6344)
اسی دعا کو اپنے لئے "ی" ضمیر کے ساتھ استعمال کی گئی ہے اور مزید کچھ اس میں اضافہ کیا گیا ہے جواضافہ بھی صحیح ہے جیسے الادب المفرد میں جو دعا مروی ہے وہ اس طرح سے ہے ۔
اللهم، اكثر ماله وولده، واطل حياته، واغفر له (الأدب المفر:653)
اور حسن عمل کے لئے بھی دعا کرنا ثابت ہے جیسے ترمذی میں ہے کہ ایک اعرابی نے نبی ﷺ سے پوچھا کون شخص بہتر ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
" مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ "(ترمذی:2329) جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو۔
ان ساری احادیث کی روشنی میں اپنے لئے اس طرح دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
اللَّهُمَّ أكْثِرْ مَالِي، وَوَلَدِي، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أعْطَيْتَنِي وَأطِلْ حَيَاتِي عَلَى طَاعَتِكَ، وَأحْسِنْ عَمَلِي وَاغْفِرْ لِي ۔

سوال(8):آج کل گرمی کے موسم میں ہرجگہ ٹھنڈا پانی اور ستو کا اسٹال لگا ہوتا ہے ، کیا عورتیں وہاں سے ستو کھاسکتی ہیں اور اسی طرح بازار وغیرہ میں کھانا پینا عورت کے لئے کیسا ہے ؟
جواب:عورتوں کا معاملہ مردوں سے مختلف ہے ، مرد تو کہیں بھی کھا پی سکتے ہیں مگر عورتیں ہرجگہ اور لوگوں کے سامنے نہیں کھائے گی کیونکہ اس میں بے پردگی ہوتی ہے ۔ اس لئے بازاروں یا کھلی جگہوں میں عورتیں کھانا، پانی یا ستو نہ استعمال کرے ۔ ہاں اگر کوئی محفوظ جگہ ہے جہاں وہ اجنبی مردوں سے چھپ کراور الگ ہوکر کھاپی سکتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے بعض ہوٹلوں میں فیملی سسٹم ہوتا ہے یا کوئی محفوظ گھر ہو۔گویا عام گزر گاہ ہو یا بازار ہو عورت مردوں کے سامنے نہیں کھائے پئےبلکہ اجنبی مردوں سے چھپ کر کھائے پئے۔

سوال(9): ایک عورت کو حالت حمل میں کافی زیادہ خون آرہا ہے ، ڈاکٹر بہت احتیاط سے بیڈ ریسٹ کے لئے کہا ہے ، پیر اوپر کے اور سر کے نیچے کچھ نہیں رکھنے کہاہے ایسے میں اسے نماز پڑھنا ہو تو کیسے پڑھنا ہے؟
جواب:اس حال میں بھی نماز پڑھنا ہے اور نماز کے لئے مریض جس کیفیت میں ہے اسی کیفیت میں ادا کرے ، پیر قبلہ کی طرف ہو یہ کافی ہے تاکہ چہرہ کی سمت بھی قبلہ جانب ہو۔ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھے ۔ رکوع اور سجدہ کے لئے سرجھکائے اور سر نہ جھکاسکے تو جتنی حرکت کرسکے وہی کافی ہے ۔

سوال(10):ایک گلے کا ہار ہے اس میں نیچے تتلی کی تصویر جیسا ڈیزائن لٹک رہا ہےکیا اس میں نماز ہوجائے گی ؟
جواب:یہ پہن کر اگر آپ نماز پڑھتی ہیں تو نماز ہوجائے گی مگر چونکہ اس میں جاندار کی تصویر ہے اس لئے اس کو سرے سے پہننا ہی نہیں چاہئے ، جاندار کی تصویر والی کوئی چیز استعمال کرنا جائز نہیں ہے چاہے وہ ہار ہو، کپڑا ہو یا پھرزیورات ہوں ۔

سوال(11): آج کل اکثر لڑکیاں اپنے شوہر کو نام سے پکارتی ہیں کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟
جواب:بیوی اپنے شوہر کواس کے نام سے پکار سکتی ہے، اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک صحابیہ اپنے شوہر کا نام لے کر نبی ﷺ سے شکایت کرتی ہیں۔ الفاظ اس طرح ہیں۔
قالت هند:يا رسول الله، إن ابا سفيان رجل شحيح(بخاري:5370)ترجمہ: ہند نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ابوسفیان بخیل ہیں۔
تاہم اس مسئلہ میں عرف و سماج کا اعتبار کیا جائے گا جہاں نام لے کر پکارنے کا رواج ہے وہاں تو کوئی معاملہ نہیں ہے لیکن جس سماج میں اس کو معیوب سمجھا جاتا ہے اور عموما ایسے سماج میں شوہر بھی اسے ناپسند کرتا ہے تو وہ جس نام کو شوہرپسند کرے اس نام سے شوہر کو پکارے یا کنیت کے ساتھ پکارے جیسے لڑکے کا نام فیصل ہو تو ابوفیصل کہہ کر، اسی طرح شوہر بھی بیوی کو اس کے نام سے پکار سکتا ہے اور چاہے تو کنیت یا کسی پسندیدہ نام سےاسے مخاطب کرے۔

سوال(12):اگر کوئی میاں بیوی حالت حیض کے شروع دنوں میں جماع کرتے ہیں تو ایک دینار اور پاکی سے پہلےکرتے ہیں تو نصف دینارہے کیا یہ صحیح ہے اور ایک دینار کی انڈین قیمت کیا ہوگی اور پھر کسی کو کفار دینے کی طاقت نہ ہو تو کیا کرے ؟
جواب:سوال میں مذکور بات صحیح نہیں ہے ، صحیح بات یہ ہے کہ حیض کی ابتداء سے لے کر آخر دن تک پاک ہونے سے پہلے جماع کرنے پر ایک دینار یا آدھا دینار صدقہ کرنا ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يتصدق بدينار أو بنصف دينار۔ ترجمہ:وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے۔(ابو داؤد ، نسائی، دارمی، ابنِ ماجہ)
ایک دینار 4.25 گرام سونا ہوتا ہےاور ہر شہر میں سونے کا الگ الگ ریٹ ہوتا ہے۔اس وقت ممبئی میں ایک گرام سونا 5729 روپیہ تقریباً ہوتا ہے،اس اعتبار سے4.25 گرام سونا کی قیمت 24348 روپے بنتے ہیں۔
جماع کرنے کا کفارہ دینے کی طاقت نہ ہو توآدمی معذور ہے، اللہ معاف فرمائے گا تاہم جو غلطی کی ہے اس کےلئے اللہ سے سچے دل سے توبہ کرےاور آئندہ اس کام کی طرف نہ پلٹے۔

سوال(13): کسی نے اپنی بیوی کو لکھ کر موبائل پر میسیج بھیج دیا ہے کہ میں اپنا ہر قسم کا تعلق تم سے ختم کرتا ہوں ، کیا ایسی صورت میں طلاق ہوجاتی ہے یا نہیں اور رجوع وغیرہ کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:ان الفاظ میں طلاق کی صراحت نہیں ہے تاہم یہ طلاق کنایہ مانا جائے گا اور اس جگہ شوہر کی نیت کا اعتبار ہوگا، اگر اس نے طلاق کی نیت سےکہا ہے کہ " میں اپنا ہر قسم کا تعلق تم سے ختم کرتا ہوں "تو طلاق رجعی واقع ہوجائے گی اور طلاق کی نیت نہیں کی ہے، صرف ڈرانے کے لیے لکھا ہے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔طلاق رجعی واقع ہونے کی صورت میں رجوع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر یہ میسیج کردے کہ میں رجوع کرتا ہوں رجوع ہوجائے گایا پھر فون کرکے یا پاس موجود ہوتو زبان سے یہی بات کہہ دےرجوع ہوجائے گا ۔

سوال(14):گانا بغیر میوزک کے سن یا گا سکتے ہیں اگر شرکیہ الفاظ نہ ہوں تو اور شادی بیاہ میں گانے گا سکتے ہیں دلہن یا دلہا کے لئے ۔
جواب:شادی کے موقع سے عورتیں بغیر موسیقی کے عام گیت گا سکتی ہیں جس میں شرکیہ یا فحش الفاظ نہ ہو لیکن اس میں لاؤڈ سپیکر کا استعمال نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی مردوں کے بیچ گانا چاہیے، یہ عورتوں کی محفل میں ہوفحش و منکرات سے بچتے ہوئے، اسی طرح عورتوں کا دولہا کے پاس یا دولہا اور اس کے دوستوں کے پاس گیت گانا جائز نہیں ہے، یہ سراسر بے حیائی ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔

سوال(15): جب سر میں تیل لگا ہو تو وضو نہیں ہوتا ایسے سنتے ہیں ، بال میں تیل لگاہو تو غسل کے وقت ہی اس کی صفائی ممکن ہےکیونکہ عورتوں کے بال لمبے ہوتے ہیں پھر ہم کیسے وضو کریں ؟
جواب:آپ نے جو سنا ہے وہ بات غلط ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، صحیح بات یہ ہے کہ سر کے بال پہ تیل لگا ہویا ہاتھ وپیراورچہرے پہ تیل لگا ہو اس حالت میں وضو کرسکتے ہیں کیونکہ اس حالت میں پانی جلد تک پہنچ جاتا ہے اور جب تیل لگے ہونے کے باوجود جلد تک پانی پہنچ جائے تو وضو ہوجائے گا اور سر کا مسح بھی ہوگا ، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔
 
Last edited:

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط:35)
جواب از : شیخ مقبول احمد سلفی (جدہ دعوہ سنٹر)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ


سوال(1):کیا والدین کی طرف دیکھنے سے حج کا ثواب ملتا ہے؟
جواب: لوگوں میں یہ بات عام ہے کہ والدین کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے اور مسکرا کر انہیں دیکھنے سے حج کا ثواب ملتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے ایسی بات ثابت نہیں ہے اس لئے کسی مسلمان مردوعورت کو ایسی بات نہیں بولنا چاہئے خصوصا اللہ اور اس کے رسول کی طرف ایسی بات منسوب کرکے اجر بیان کرنا اللہ اور رسول کے بارے میں جھوٹ بولنا ہے ۔
امام بیہقی نے شعب الایمان اور دیلمی نے الفردوس میں ذکر کیا ہے ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما منْ ولدٍ بارٍّ ينظر إلى والدَيهِ نظرةَ رحمةٍ ؛ إلا كتب اللهُ لهُ بكل نظرةٍ حجةً مبرورةً، قالوا : وإن نظر كلَّ يومٍ مائةَ مرةٍ ؟ ‍ قال : نعَم، اللهُ أكبرُ وأطيبُ .
ترجمہ :جو بھی فرمانبردار شخص اپنے والدین کی طرف رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر نظر کے بدلے مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے، لوگوں نے کہا: اگروہ ہرروز سوبار دیکھے تو؟ فرمایا: ’’ہاں،اللہ بہت بڑا اور بہت پاکیزہ ہے۔
یہ حدیث من گھڑت اور جھوٹی ہے ، شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کو موضوع قرار دیا ہے ۔ دیکھیں :(هداية الرواة:4872 ، السلسلة الضعيفة:6273، 3298)
اس کی سند میں محمد بن حمید نامی جھوٹا راوی ہے جس کے بارے میں اسحاق بن منصورؒ حلفیہ کہتے ہیں :’’میں اللہ کے سامنے اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ جھوٹا ہے‘‘۔اور امام ابوزرعہ رازیؒ فرماتے ہیں:’’وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولتا تھا‘‘۔
لہذا جھوٹی بات کو اللہ اور رسول کی جانب منسوب کرنا بڑا بہتان ہے اور اس بات کو لوگوں میں بیان کرنا اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں جھوٹ بولنا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ والدین کی طرف دیکھنے سے عبادت یا حج کا ثواب ملتا ہے یہ بات جھوٹ ہے، کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

سوال(2):کیا طلاق صرف بولنے سے واقع ہو جاتی ہے، یا دو لوگوں کو بٹھا کر سنجیدگی سے دی جاتی ہے، میرے شوہر نے کہا آج سے میرا اور تمہارا رشتہ ختم، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، کیا ایسا کہنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے جبکہ شوہر کا کہنا ہے کہ انہوں نے غصہ میں کہہ دیا تھا؟
جواب:جی ہاں، طلاق بول دینے سے واقع ہوجاتی ہے، یہ نازک معاملہ ہے اس لئے شوہر نے زبان سے بول دیا میں طلاق دیتا ہوں طلاق واقع ہوگئی ۔ طلاق کے لئے دو لوگوں کا آپس میں بیٹھنا ، سمجھنا اور سنجیدگی سے طلاق دینا ضروری نہیں ہے ، یہ شوہر کا اختیاری معاملہ ہے وہ زبان سے بول دیا طلاق ہوگئی ۔ اور شوہر غصہ میں ہی عموما طلاق دیتا ہے ، کوئی بھی خوشی خوشی طلاق نہیں دیتا۔

سوال(3):کیا عورتیں اپنے مختلف قسم کے حقوق حکومت سے منوانے کے لیے مظاہرہ کر سکتی ہیں؟
جواب:شرعی طور پر مظاہرہ کرنے کی اجازت مردوں کو بھی نہیں ہے کیونکہ مظاہرے میں متعدد قسم کی شرعی خامیاں ہیں اور عورتوں کا معاملہ برعکس ہے ۔ ان کو"وقرن فی بیوتکن" کے ذریعہ اپنے گھروں میں ٹھہری رہنے کا قرآن نے حکم دیاہےاس لئے ضرورت کے تحت ہی وہ گھر سے باہر نکلے گی اور عام حالات میں اپنے گھروں میں سکونت اختیار کرے گی ۔
یہاں پر یہ یاد رہے کہ انتظامی امور اور سماجی اصلاحات کے کام مردوں کے ذمہ ہیں خواہ ان امور کا تعلق مردوں سے ہو یا عورتوں سے جس کا مفہوم قرآنی آیت "الرجال قوامون" سے مترشح ہے۔
المختصر عورتوں کےحقوق کے واسطے مردوں کے لیے پرامن مظاہرے شدید حاجت کی بنیاد پر وہ بھی جمہوری ملک میں جائز کہے جا سکتے ہیں مگر عورتوں کے لیے کسی قسم کا مظاہرہ روا نہیں ہوسکتا ہے۔جس اسلام نے عورتوں کو پیر پٹک کرچلنے سےمنع کیا ہے حتی کہ سڑک پر آخری کنارے چلنے کا حکم ہے ، انہیں مظاہرہ کرنے کی کیسے اجازت ہوسکتی ہے؟

سوال(4):ایک بہن نے مکہ سے نبی بوٹی منگوائی ہے وہ پوچھ رہی ہیں اس کو استعمال کیسے کرتے ہیں اور اسکا استعمال کرنا کیسا ہے؟
جواب:مکہ و مدینہ میں اجنبی دوکاندار ایک بوٹی بیچتے ہیں جس کا نام مریم بوٹی ہے اور اس کو حاملہ عورت استعمال کرتی ہے تاکہ زچگی میں آسانی ہو۔
مریم بوٹی کی نسبت عیسی علیہ السلام کی طرف کی جاتی ہےاور خیال کیا جاتا ہے کہ اسے مریم علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کے وقت استعمال کیا تھا۔دراصل یہ نسبت اور خیال دونوں غلط ہیں یعنی مریم بوٹی کے تعلق سے جو بات کہی جاتی ہے وہ من گھڑت ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
جس عقیدہ و خیال سے مریم بوٹی کا استعمال کیا جاتا ہے سراسر بے دینی ، جہالت اور ضعیف الاعتقادی ہے اس لئے ایک مسلمان عورت کو اس بدعقیدگی سے دوری اختیار کرنا چاہئے ۔ مسلمان عورت کو زچگی کے عالم میں اللہ رب العالمین سے دعائیں کرنی چاہئے اور تکلیف دور کرنے کے لئے دنیاوی جائز اسباب اختیار کرنا چاہئے جس سے آسانی ہو۔

سوال(5):کیا ہم حالت حیض میں قرآن لکھ سکتے ہیں، ہم نے قرآن لیا ہے جو لائٹ پرنٹ ہے، کیا ہم اسے اس وقت بھی گلوب پہن کر لکھ سکتے ہیں؟
جواب:عورتوں میں ایک غلط حرکت رواج پاگئی ہے وہ ہے قرآن شوقیہ لکھنا اور اس کو نیکی سمجھنا،آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن لکھنا ایک ضرورت ہے، یہ کوئی شوقیہ عمل نہیں ہے۔اور جبکہ زمانہ کمپیوٹرائزڈ ہوگیا ہے، ہاتھ کا لکھا نہیں چلتا، نہ کوئی پڑھتا ہے ایسے وقت میں ہاتھ سے قرآن لکھ کر ایسے مصحف کا ڈھیر لگایا جاتا جسے پڑھا نہیں جائے گا، دل سے پوچھیں کہ کیا یہ عمل درست ہے، اس سے قرآن کا کوئی حق ادا ہوتا ہے؟بلکہ کچھ دن بعد اس کو ضائع کرنا پڑے گا جو افسوسناک ہے۔
دنیا بھر میں ہزاروں لاکھوں سلفی ادارے ہیں، کہیں بھی مردوں والے اداروں میں یہ عمل نہیں ہے، مستند سلفی ادارے جو خواتین کے ہیں ان میں بھی یہ عمل نہیں ہےمگر پتہ کیسے بعض نسواں اداروں میں طالبات کے لئے یہ کیسے کورس میں شامل کیا گیا ہے اور خواتین کو اس کام کے لئے ابھارا جاتا ہے؟
میں سمجھتا ہوں اس کام پر روک لگنا چاہیے، اس سے بہتر ہے جتنا وقت قلم چلانے پر دیتے ہیں، اتنی دیر آیات حفظ کریں، یا تلاوت کریں یا تفسیر پڑھیں۔

سوال(6): پیر میں کچھ تکلیف تھی ، ایک ڈاکٹر سے دکھایا تو انہوں نے کہا کہ پیر کا حجامہ کردوں گا ، ٹھیک ہوجائے گا، میں بہت سی عورتوں کا حجامہ بھی کرتا ہوں ، کیا مجھے اس ڈاکٹر سے حجامہ کرانا چاہئے ؟
جواب:آپ کی مراد ہے کہ کیا مرد ڈاکٹر سے پیر کا حجامہ کراسکتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ حجامہ کرنے والی بہت سی خواتین موجود ہیں ، آپ حجامہ کرانا چاہتی ہیں تو کسی خاتون سے پیر کا حجامہ کروائیں ، اگر مرد ڈاکٹر پیر کا حجامہ کرے تو وہ پیر کو چھوئے گا، وہ حصہ ڈاکٹر کے پاس ننگا ہوگا اس لئے آپ کسی خاتون سے حجامہ کروائیں ۔

سوال(7): اگر شوہر نے دو طلاق دی ہو اور رجوع کرلیا ہو، پھر اس نے کہا کہ "دے تو دی ہے" کیا اس بات سے پھر طلاق ہوجائے گی ؟
جواب:اگر شوہر نے ایک طلاق دی رجوع کرلیا اور پھر دوسری طلاق دی اور رجوع کرلیا تو اس طرح سے دو طلاق کا اختیار شوہر سے ختم ہوگیا ہے لیکن اگراکٹھے دو طلاق دی تھی تو ایک ہی مانی جائے گی ۔ اگر شوہر یہ کہے کہ "دے تو دی ہے" تو یہ طلاق نہیں ہے ، یہ مہمل بات ہے اس سے طلاق مراد نہیں ہوگی ۔

سوال(8): کیا اس طرح کے کپڑے بچوں کو پہناسکتے ہیں جس پہ ہاتھی گھوڑا کی تصویر بنی ہوئی ہو؟
جواب:جاندار کی تصویر سے بڑے اور چھوٹے سبھی کو بچنا چاہیےخواہ یہ تصویر استعمال کی کسی بھی چیز میں ہو،اور ان کپڑوں کو بڑے چھوٹے سبھی استعمال کرنے سے بچیں جن میں جاندار کی تصویر بنی ہے۔

سوال(9)؛ ایک خاتون کی عمر 65 سال ہے، وہ تیس سال پہلے شوہر سے علاحدہ ہوکر میکے آگئی تھی مگر طلاق نہیں ہوئی تھی ، شوہر سے کوئی تعلق نہیں تھا ہاں ، کبھی کبھار وہ بیوی کے گھر آجاتا ہے مگر کسی قسم کا ربط و تعلق نہیں تھا، اب اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے تو کیا اس کو عدت گزارنی ہوگی؟
جواب:جب میاں بیوی کے درمیان طلاق، خلع یا فسخ نکاح نہیں ہوا تھا بلکہ بیوی اپنے میکے میں الگ رہتی تھی تو میاں بیوی کا رشتہ باقی تھا چاہے دونوں آپس میں ملتے ہوں یا نہیں ملتے ہوں، اور چاہے جتنے سال سے بھی الگ رہتے ہوں۔
اب جب شوہر وفات پاگیا ہے تو بیوی عدت کرے گی اور شوہر کی جائیداد میں حصہ بھی ملے گا،ساتھ ہی بیوی کو توبہ کرنا چاہیے کہ وہ شوہر سے بلا تعلق ہوکرتیس سالوں سے الگ رہ رہی تھی، شوہر کے لیے بھی اللہ سے مغفرت طلب کرے کیونکہ اس معاملہ میں وہ بھی گنہگار ہے۔

سوال(10): اگر کسی عورت کے ذمہ رمضان میں جماع کے سبب کفارے کے روزے ہوں اور ان روزوں کی ادائیگی کرتے ہوئے درمیان میں کوئی عذر پیش آجائے مثلا بیماری ، یا حیض تو کیا پھر سے روزہ دہرانا ہوگا؟
جواب: اگر کسی عورت پر بطور کفارہ تسلسل کے ساتھ دو ماہ کے روزہ رکھنا واجب ہو اور روزہ رکھتے ہوئے کوئی شرعی عذر آجائے یعنی وہ بیمار ہوجائے یا حیض آجائے تو ان دنوں روزہ سے رک جانا ہے اور جب عذر ختم ہوجائے تو پھر سے روزہ رکھناشروع کردے اور پہلے جو روزہ رکھا تھا وہ بھی شمار کیا جائے گا،عذر کے سبب درمیان میں انقطاع ہوجانے سے پہلے والے روزوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

سوال(11):جب جمعہ کے دن خواتین مسجدجاتیں ہیں تو جو چھوٹے بچے ہوتے مثلا چھ سال پانچ سال کے ،وہ اکثر صف کے بیچ میں سو جاتے ہیں تو کیا سوئے ہوئے بچے کے بازو سے صف بناکر نماز ہوجائے گی اور دوسری بات کہ یہی چھوٹے بچے اکثر ماؤں کو دوران خطبہ مخاطب بھی کرتے ہیں توکیا ماں جواب دے سکتی ہے جبکہ دوران خطبہ بات کرنا منع ہے ؟
جواب:نماز میں صفوں کے درمیان خلا نہیں رکھنا ہے، صف کے درمیان بچہ رکھ کر نماز پڑھنے سے نماز تو ہوجائے گی مگر خلا تو پیدا ہوا۔
صف بندی میں قدم سے قدم ملا کر کھڑا ہونا ہے اس لیے بچے کو صف سے الگ رکھ سکیں تو بہتر ہے ورنہ حالت مجبوری میں پاس میں رکھ سکتے ہیں،
نماز کا مسئلہ نہیں ہے، نماز صحیح ہے۔
رہا خطبہ کے دوران باتیں کرنے کا تو آپ بولنے والے بچوں کو گھر پہ تربیت کریں کہ مسجد میں کیسے رہنا ہے۔خطبہ اہم موقع ہے جس وقت بالکل کچھ بھی نہیں بولنا ہے، بچہ مخاطب کرے تو اشارے سے چپ ہونے کو کہیں اور گھر پہ اچھی تربیت کریں کہ مسجد میں ایسی نوبت نہ آئے ، نماز کا شوق بھی دلائیں بلکہ کسی معمولی تحفہ کا وعدہ کریں اگر وہ مسجد میں خاموشی اختیار کرے تو یہ زیادہ کارگر نسخہ ہوگا۔

سوال(12): بچے کے احرام کا کیا حکم ہے، بچے کا احرام باندھ لیا جائے اور عمرہ نہ کرسکے تو کفارہ دینا ہوگا اور کیا شرط کے ساتھ بچے کا احرام باندھ سکتے ہیں؟
جواب:پہلی بات تو یہ ہے کہ بچہ بھی حج و عمرہ کر سکتا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ حج و عمرہ کے لئے بچے کو بھی احرام باندھنا پڑے گا اور ممنوعات سے بچنا ہوگا۔لہذا بچے کے سر پرست کو چاہیے کہ جب بچے کے لیے احرام سہل ہو اسی وقت اس کو احرام باندھے ورنہ نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ کسی نے بچے کو احرام باندھ دیا مگر اس کی پابندی مشکل ہوگئی تو احرام کھول سکتے ہیں اور کوئی دم نہیں ہے کیونکہ بچہ مکلف نہیں ہے اور شرط کے ساتھ بچے کو احرام باندھنے کی ضرورت نہیں ہے، سہولت دیکھ کر احرام باندھے یا احرام نہ باندھے ۔

سوال(13):ایک والدہ کا سوال ہے کہ اس کے بیٹے کا انتقال ہو گیا ہےکیا وہ اپنے بیٹے کے بچوں پر صدقہ کر سکتی ہے یعنی اپنے صدقے کے پیسے بیٹے کے بچوں کو یا اپنی بہو کو دے دے تاکہ وہ اس سے اپنی ضروریات پوری کر سکیں اور اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کریں،صدقہ کرتے وقت ان کی نیت فوت شدہ بیٹے کی طرف سے صدقہ کرنا بھی ہوتا ہے کہ اللہ اسے بھی اس صدقے کا اجر دے؟
جواب:اپنی بہو اور پوتے پوتیوں پر جو محتاج ہوں صدقہ کی نیت سے خرچ کرنا جائز ہے بلکہ اجر کے اعتبار سے دہرا اجر ملے گا، ایک صدقہ کا اور دوسرے رشتہ دار پر خرچ کرنے کا اور اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ فوت شدہ بچے کی طرف سے ان لوگوں پرصدقہ کیا جائے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: الصَّدقةُ على المسْكينِ صدقةٌ، وعلى ذي القرابةِ اثنتان: صدقةٌ وصلةٌ(صحيح ابن ماجه:1506)
ترجمہ:مسکین و فقیر کو صدقہ دینا (صرف) صدقہ ہے، اور رشتہ دار کو صدقہ دینا دو چیز ہے، ایک صدقہ اور دوسری صلہ رحمی۔

سوال(14): کاسمیٹولوجی ڈاکٹر (خوبصورتی والے ) سے جلد ی علاج یا لیزر سے بال ریموو کرنا اور دوسرا علاج کروانا جائز ہے ؟
جواب: کسی عورت کو جلد سے متعلق کوئی تکلیف یا بیماری ہے تو اس بیماری کا علاج کاسمیٹولوجی ڈاکٹر سے کراسکتی ہے ، اس علاج میں حرج نہیں ہے تاہم عورت کو کسی لیڈی ڈاکٹر سے ہی علاج کرانا چاہئے ، لیڈی ڈاکٹر نہ ملے تو بوقت ضرورت مرد طبیب سے اپنا علاج کرا سکتی ہے۔
جہاں تک جسم کے داغ دھبے ، اور بال زائل کرنے کے لئے لیزر کا استعمال کرنے کا مسئلہ ہے تو یہ عمل بھی جائز ہے مگر کسی خاتون کے لئے جائز نہیں کہ اپنے جسم کے کسی جگہ کا بال کسی مرد ڈاکٹرسے زائل کرائے یا اس سے جلدی تجمل کا کام کروائے ، یہ عمل صرف لیڈی ڈاکٹر سے ہی کرانا جائز ہے ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ایک عورت کے لئے دوسری عورت کا جو ستر ہے اس کی صفائی ستھرائی کا کام خود سے کرنا ہے نہ کہ کسی بیوٹی پارلرسے کرانا جیساکہ آج کل خاتون زیرناف کی صفائی دوسری عورتوں سے کراتی ہے ، یہ جائز نہیں ہے۔

سوال (15): وہ کس قسم کے چار برتن ہیں جن کے استعمال سے منع کیا گیا ہے؟
جواب:صحیح مسلم کی روایت ہے۔عن ابن عباس ، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الدباء والحنتم والمزفت والنقير ".(صحیح مسلم:17)
ترجمہ:‏‏‏‏ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تونبے اور سبز برتن اور لاکھی اور چوبین سے۔
ان برتنوں کی تفصیل حدیث کی روشنی میں اس طرح آئی ہے۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَال: سَمِعْتُ زَاذَانَ يَقُولُ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَمَّا نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَوْعِيَةِ، أَخْبِرْنَاهُ بِلُغَتِكُمْ وَفَسِّرْهُ لَنَا بِلُغَتِنَا فَقَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَنْتَمَةِ وَهِيَ الْجَرَّةُ، وَنَهَى عَنِ الدُّبَّاءِ وَهِيَ الْقَرْعَةُ، وَنَهَى عَنِ النَّقِيرِ وَهُوَ أَصْلُ النَّخْلِ يُنْقَرُ نَقْرًا أَوْ يُنْسَجُ نَسْجًا، وَنَهَى عَنِ الْمُزَفَّتِ وَهِيَ الْمُقَيَّرُ، وَأَمَرَ أَنْ يُنْبَذَ فِي الْأَسْقِيَةِ (سنن ترمذی:1868، صححہ البانی)
ترجمہ:عمرو بن مرہ سے روایت ہے ، انہوں نے کہازاذان کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے ان برتنوں کے متعلق پوچھا جن سے آپ نے منع فرمایا ہے اور کہا: اس کو اپنی زبان میں بیان کیجئے اور ہماری زبان میں اس کی تشریح کیجئے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «حنتمة» سے منع فرمایا ہے اور وہ مٹکا ہے، آپ نے «دباء» سے منع فرمایا ہے اور وہ کدو کی تونبی ہے۔ آپ نے «نقير» سے منع فرمایا اور وہ کھجور کی جڑ ہے جس کو اندر سے گہرا کر کے یا خراد کر برتن بنا لیتے ہیں، آپ نے «مزفت» سے منع فرمایا اور وہ روغن قیر ملا ہوا (لاکھی) برتن ہے، اور آپ نے حکم دیا کہ نبیذ مشکوں میں بنائی جائے ۔
اس حدیث میں ان چاروں برتنوں کی کیفیت بیان کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے ۔
الدباء والحنتم والمزفت والنقير
الدباء: یہ کدو کا برتن ہے، جب کدو سوکھ جاتا تو اس کے اندر کا دانہ نکال کر اسے برتن بنالیا جاتا۔
الحنتم: یہ سبز رنگ کا مٹکا ہے۔
النقیر:کھجورکی درخت کی جڑ کو کھوکھلا کرکے بنایا جانے والا برتن ۔
المزفت: روغنی برتن جس پہ تارکول ملا ہوتا تاکہ شراب نہ گرے۔
یہ چار قسم کے برتن شراب رکھنے کے لئے استعمال کئے جاتے تھے اس لئے ان کو استعمال سے منع کیا گیا پھر یہ حکم منسوخ کردیا گیا اور ان برتنوں کے استعمال کی اجازت دیدی گئی جیساکہ ترمذی کی مندرجہ ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنِ الظُّرُوفِ، وَإِنَّ ظَرْفًا لَا يُحِلُّ شَيْئًا وَلَا يُحَرِّمُهُ، وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ (ترمذی:1869، صححہ البانی)
ترجمہ:میں نے تمہیں (اس سے پہلے باب کی حدیث میں مذکور) برتنوں سے منع کیا تھا، درحقیقت برتن کسی چیز کو نہ تو حلال کرتے ہیں نہ حرام (بلکہ) ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(قسط:36)

جواب از : مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب


سوال(1):ایک بہن پوچھتی ہے کہ جو مطلقہ ہوتی ہے اس کی عدت تین مہینے ہوتی ہے تو کیا وہ تین مہینے گھر سے باہر نہیں نکلے گی یا پھر کن کن ضرورتوں کے وقت نکلے گی اس کی وضاحت کریں ؟

جواب:جس عورت کو طلاق دی جائے اس کی عدت تین مہینے نہیں بلکہ تین حیض ہوتی ہے اور عدت کے دنوں میں اسےاپنے گھر میں رہنا ہے لیکن اگر کوئی ایسی ضرورت پیش آئے جس کے لیے باہر نکلنا ضروری ہو تو باہر جاسکتی ہے جیسے علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس ۔ بنیادی طور پر یہ جاننا ہے کہ جس کام کے لیے مطلقہ کا باہر نکلنا ناگزیر ہو اس کے لیے باہر نکل سکتی ہے اور جب ایسی عورت کوعدت میں باہر نکلنےکوئی ضرورت پیش آئےاور اسے اس بابت شرعی علم نہ ہو تو وہ اس ضرورت کو ذکر کرکے عالم سے رہنمائی حاصل کرلے کہ اس صورت میں گھر سے نکل سکتی ہے کہ نہیں ؟

سوال(2): اگر کوئی عورت حج پہ جارہی ہو اور اس عورت کا اپنی بہو سے نااتفاقی ہو تو حج پہ جانے سے پہلے اس سے معافی مانگنا ضروری ہے، جبکہ غلطی بہو کی ہو اس نے ساس سے بدتمیزی کی ہو، اگر ساس معافی مانگے تو بہو سمجھے گی کہ ساس کی غلطی ہے، ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟
جواب:اگر کوئی عورت حج پہ جارہی ہے اور ساس و بہو میں نا اتفاقی ہے تو آپس میں صلح کرلے، بات چیت کرلے اور دلوں کی رنجش دور کرلے۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی تیسری عورت کو حکم بنائے وہ ساس و بہو کے درمیان آکر دونوں کی صلح کرا دے۔اس معاملہ میں ساس کو ہرگزیہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم صلح کی پیش قدمی کرتے ہیں تو بہو کو لگے گا ساس غلطی پر ہے ، حق پر ہوتے ہوئے بھی آگے بڑھ کرجو صلح کی پیش قدمی کرے وہ بڑے اجر اور نصیب کا کام کرتاہے۔
ذرا غور کریں کہ حج کتنی عظیم عبادت ہے اوراس عبادت کا مقصد اللہ کی رضا ، گناہوں سے پاکی اور مغفرت حاصل کرنا ہےپھرحج پہ جانے والے جب صلح کرنے میں اتنی چھوٹی سوچ رکھیں گے تو وہ اللہ سے اپنی معافی کی کیسے امید لگائیں گے جبکہ انسان تو اللہ کا سراپا گنہگار ہے ۔معافی وصلح کے معاملہ میں اصل بات یہ ہے کہ صلح صرف حج کے لیے نہیں ہوتی ہے بلکہ کبھی بھی تین دن سے زیادہ آپس میں دو مسلمان کو بات چیت بند کرکے نفرت سے نہیں رہنا چاہیے بلکہ آگے بڑھ کر صلح کرلینا چاہئے۔ یہ انجام کے اعتبار سے بہتر ہے۔

سوال(3): ایک شخص کو دو بیویاں تھیں، دونوں کو اولاد ہیں ، مرد کا انتقال ہوگیا ہے اس نے مرنے سے پہلے اپنی ساری جائیداد ایک بیوی کے نام کردیا ہے ، بیویاں بھی فوت ہوگئی ہیں ، کیا یہ جائیداد صرف ایک بیوی کی اولاد کے لئے ہے یا سب کو اس میں حصہ ملے گا؟
جواب: کوئی اپنے مال میں سے کسی کو کچھ دیتا ہے وہ معمولی مقدار میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اپنی پوری جائیداد کسی ایک کو دے کر باقی کو محروم نہیں کرسکتا ہے ، اگر کسی نے اس طرح کسی ایک بیوی کے نام ساری جائیداد لکھ دیا تھا تو اس لکھنے کو نہ دیکھا جائے بلکہ جائیداد کو تمام وارثوں میں نظام وراثت کے تحت تقسیم کیا جائے تاکہ سب کو اپنا حق ملے اور میت کے حق میں مغفرت کی دعا کی جائے تاکہ ان سے جو غلطی ہوگئی اللہ تعالی معاف فرمائے ۔

سوال(4):میرا بیٹا تیرہ برس کا ہے، اس کی آواز تبدیل ہوگئی ہے اور زیر ناف بال بھی ہیں،کیا وہ بالغ ہے یعنی محرم بننے کے قابل ہے اور کیا وہ میری پھوپھی اور اپنی پھوپھی کا بھی محرم ہےاور کیا وہ میری بہن کے محرم کے طور پر عمرہ پہ جاسکتا ہے؟
جواب:لڑکے میں مونچھ ، داڑھی، زیر ناف ، بغل کا بال یا احتلام ان میں سے کوئی بھی چیز پائی جائے تو وہ بالغ ہے اور محرم بننے کے قابل ہے لہذا آپ کا بیٹا آپ کی بہن کے لئے یعنی اپنی خالہ کے لئے محرم ہے اور اسی طرح وہ اپنی پھوپھی کا بھی محرم ہے اور ماں کی پھوپھی یعنی نانا کی سگی بہن کا بھی محرم ہے۔اس وجہ سے آپ کا بیٹا آپ کی بہن یعنی خالہ کا محرم بن کرعمرہ پہ جاسکتا ہے۔

سوال(5) :اسلام میں عورت کو مہندی لگانے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ مہندی زینت ہے اور ہاتھوں کو چھپا نا ایک ناممکن کام ہے کیونکہ میں جوائنٹ فیملی میں رہتی ہوں تو اس معاملہ میں کیا جائے؟
جواب:جوائنٹ فیملی میں صرف مہندی کا معاملہ نہیں ہے، متعدد معاملات ہیں جو عورتوں کے لئے غیرمحرم سےمتعلق ہیں ، وہاں چہرے کا پردہ کرنا مشکل ہوتا ہے، ایک عورت زینت کی جتنی چیزیں استعمال کرتی ہیں ، میک اپ ہو، زیورات کا استعمال ہو ، زینت کی ان چیزوں کے استعمال میں گھر کے غیرمحرموں سے دشواری پیش آتی ہے۔ایک عورت کو دیور کے لئے دسترخوان پرکھانا لگانا، پانی لانا، کپڑے دھلنا، پریس کرنا ، ایک جگہ بیٹھنا ، کھانا پینا ، حتی کہ ہنسی مذاق کرنا ، یہ سب جوائنٹ فیملی میں عام ہے، صرف مہندی لگانا ہی یہاں مسئلہ نہیں ہے۔ آپ جوائنٹ میں فیملی میں جس قدر ہوسکے حرام امور سے بچتے رہیں، مہندی لگانے سے آپ کے لئے دقت ہو تو مہندی نہ لگائیں بلکہ زینت کی دوسری چیزیں بھی اسی قدر اور اسی طرح استعمال کریں جس سے آپ ممنوع امور سے بچ سکیں ۔

سوال(6):کیا عورت عمرہ پر جانے سے قبل مہندی لگاسکتی ہے، اور خوشبو والا تیل تو نہیں لگاسکتی ہے مگر ناریل تیل لگانا کیسا ہے، اسی طرح محرمہ عورت سفر کرکے مکہ پہنچے توپرانا عبایا اتار کر نیا عبایا پہن سکتی ہے، ساتھ میں ایک بچی ہے وہ قے وغیرہ کردے تو عبایا بدلنا اور دھونا کیسا ہے؟
جواب:عمرہ جانے سے قبل عورت مہندی لگاسکتی ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مہندی والے ہاتھ غیرمردوں پر ظاہر نہیں کرنا ہے۔ خوشبو والا تیل احرام کی حالت میں نہیں لگاسکتے ہیں، ناریل تیل میں خوشبو نہیں ہے تو اس کو احرام کی حالت میں لگاسکتے ہیں، آپ احرام کی حالت میں ضرورت کے وقت جتنی بار چاہیں عبایا بدلیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، بچی قے کردے یا گندگی لگ جائے ، کوئی بھی ضرورت ہو عبایا بدل سکتے ہیں اور دھو بھی سکتے ہیں ۔ احرام اصل میں عمرہ کی نیت کو کہتے ہیں ، احرام کسی کپڑے کا نام نہیں ہےکہ اس کو بدلنے سے کوئی فرق پڑے گا۔

سوال(7):میری لڑکی کے لئے ایک رشتہ آیا ہے ، لڑکا پولیس میں ٹی آئی کا کام کرتا ہے ، کیا یہ رشتہ صحیح ہوگا؟
جواب:ٹی آئی جاب نہیں جانتا ہوں ، پولیس کوجانتا ہوں ، پولیس کی نوکری اپنے آپ میں جائز ہے بشرطیکہ حرام کاموں سے ،ظلم سے اور رشوت سے بچتا رہے، اس لئے آپ اس لڑکےکے کام کے بارے میں تفصیل جانیئےکہ وہ کس نوعیت کا کام کرتا ہے اور کس طرح اپنا فریضہ انجام دیتا ہے، براہ راست اس لڑکا سے پوچھیں ، یہ آپ کا حق ہے ۔رشتہ سے کرنے سے قبل اس بات کی جانکاری حاصل کرنا ضروری کہ وہ دیندار ہے کہ نہیں اور کمائی کرتا ہے تو یہ جاننا کہ اور اس کی کمائی حلال ہے کہ نہیں؟

سوال(8):ایک لڑکی اپنی فیملی کے ساتھ عمرہ پہ گئی ہے، وہ حالت حیض میں مسجد حرام میں بیٹھ سکتی ہے اپنی فیملی کے ساتھ کیونکہ وہ اکیلی کہاں رہے گی ؟
جواب:عورت حالت حیض میں مسجد حرام میں نہیں ٹھہر سکتی ہے ، مسجد سے باہر میدان وصحن میں بیٹھ سکتی ہے اور گھر والے حرم جائیں تووہ اپنی رہائش پر رہے جو گھر والوں کی رہائش ہے یا مسجد حرام کے باہری حصے یعنی میدان میں بیٹھے ۔

سوال(9): ایک بہن نے آن لائن ایک کپڑا منگایا ، پہلے پتہ نہیں چلا ،سلاکر پہننے کےبعد پتہ چلا کہ اس میں جاندار جیسی تصویر ہے تو کیا اس کپڑے میں پڑھی گئی نماز صحیح ہے؟
جواب:پہلی بات تو یہ کہ عورتوں کو عموما آن لائن کپڑے خریدنے سے بچنا چاہئے کیونکہ آپ نے آنکھوں سے مکمل کپڑا نہیں دیکھاہوتا ہے کہ اس میں کیسے نقش ونگار ہیں، محض ایک تصویر میں اس کا کچھ حصہ دیکھتے ہیں ، ممکن ہو کہ وہ تصویر بھی دوسری ہو۔اگر آن لائن کپڑا خرید بھی لیتے ہیں تو پہلے اچھی طرح دیکھ لیں تاکہ اس میں جاندار کی تصویر ہو یا چست یا باریک یا چھوٹا جس سے ستر نہ چھپے یابھڑکیلا یا فاسق و فاجر والاکپڑاہوتوایسے کپڑے لوٹادیں ۔
دوسری بات یہ کہ اگر آپ نے کسی ایسے کپڑے میں نماز پڑھ لی جس میں جاندار کی تصویر بنی تھی تو آپ کی نماز ہوجائے ، نماز کا اصل مسئلہ نہیں ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ ایسا کپڑا ہی نہ پہنیں جس میں جاندار کی تصویر بنی ہو، ایسا کوئی کپڑا ہے جس میں تصویر بنی ہو تو اس کو ہٹادیں یا پھر اس پہ اس طرح سلائی کرلیں کہ تصویر کا پتہ نہ چلےیا مٹ جائے۔

سوال(10): ہمارے ہاں رواج پایا جاتا ہے کہ شادی کی تاریخ متعین کر دینے کے بعد اگر لڑکی کو یا لڑکے کو کہیں جانے کی نوبت آتی ہے سفر وغیرہ کی تو دونوں کو اپنے گھروالے یا سماج والے کہیں جانے نہیں دیتے ، یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ شادی کی تاریخ متعین ہونے کے بعد لڑکا یا لڑکی کہیں جائے تو اس کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، یہ عقیدہ رکھنا اسلام کی رو سے درست ہے؟
جواب: آپ نے جو بات بتائی کہ شادی کی تاریخ متعین ہونے کے بعد لڑکا اور لڑکی کو کہیں جانے سے روکا جاتا ہے اس عقیدہ سے کہ کوئی نقصان ہوجائے گا۔ یہ سماج میں ایک پھیلنے والا غلط عقیدہ ہے، شادی کی تاریخ متعین ہونے کے بعد بھی لڑکا اور لڑکی پہلے جیسے ضرورت کے تحت باہر جا آ سکتے ہیں، شریعت میں شادی کی تاریخ متعین ہونے کے بعد کہیں جانے کی ممانعت نہیں ہے ، ہاں بلاضرورت گھوم گھام نہیں کرنا چاہئے اور نفع ونقصان کا مالک تو اللہ ہے ، ایک مسلمان کو اللہ کی ذات پر بھروسہ ہونا چاہئے ۔ یہاں پر اسلامی بہنوں کی ذمہ داری ہے کہ جہاں اس قسم کی باتیں سنیں وہاں اس کی اصلاح کریں اور اس قسم کے پھیلے غلط نظریات سے سماج کو آگاہ کریں اور اسلام کی صحیح بات بتائیں ۔ خود تو ان غلط باتوں سے دور رہنا ہی ہے ، دوسروں کو بھی صحیح باتوں سے آگاہ کرنا ہے تاکہ سماج کی اصلاح ہو۔

سوال(11): اگر کوئی ماں یا باپ اپنی کچھ اولاد کی شادی بیاہ کی تمام ذمّہ داری ادا کر دے لیکن ابھی ایک دو اولاد باقی ہیں جنکی ذمّہ داریاں مکمل نہیں ہوئی ہیں تو کیا ایک ماں اس طرح کی وصیت کرسکتی ہے کہ اب میرے بعد جو میرا گھر یا زیور ہے وہ سب غیر شادی شدہ اولاد کو دے دئے جائیں؟
جواب:شادی کی ذمہ داری والد کی ہے، والدہ کے سر پر اولاد کی شادی کی ذمہ نہیں ہوتی کیونکہ بچوں کا کفیل والد ہے البتہ ماں کے جو زیورات ہیں وہ ان کی ذاتی ملکیت ہے وہ اپنی صوابدید سے بغیر جابنداری کےاپنی زندگی میں ضرورت مند اولاد کو دے سکتی ہیں ، جو بچ جائے وہ مال وراثت ہے۔یاد رہے ظلم کرنے کی نیت سے ایک کو کچھ دینا اور دوسری اولاد کو محروم کرنا شرعا غلط اور یہ ناانصافی ہے۔
رہا والد کا معاملہ ، وہ جب تک باحیات ہیں بچوں کی شادی کریں گے ، جب وہ فوت ہوجائیں تو گھر کے سرپرست باقی بچے بچوں کی شادی کردیں ، شادی میں پیسے کی ضرورت ہو تو افراد خانہ مل کر آپسی رضامندی سے والد کی جائیداد سے یا اپنی طرف سے لگاکر شادی کرادیں اور جو جائیداد بچ جائے اس کو ورثاء میں تقسیم کردی جائے۔ گویا شادی کے لئے باقی بچے بچوں کے واسطے ساری پروپرٹی وقف نہیں کریں گے ، نہ اس کی قسم کی وصیت کرنا ہے تاہم غیرشادی شدہ بچوں کے لئے باپ اتنی رقم مختص کرسکتا ہے جس سے ان کی شادی ہوسکے۔

سوال(12):نیا کپڑا کس دن اور کس وقت پہننا چاہئے؟
جواب:نیاکپڑا پہننے کا کوئی خاص دن یا کوئی خاص وقت نہیں ہے، جب مرضی ہو رات و دن کے کسی بھی حصے میں نیا کپڑا پہن سکتے ہیں ۔ اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے ۔ ہاں نیا کپڑا پہننے کی دعا آئی ہے ہمیں اس کا التزام کرنا چاہئے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نیا کپڑا پہنتے تو قمیص یا عمامہ (کہہ کر) اس کپڑے کا نام لیتے پھر فرماتے:
اللَّهمَّ لك الحمدُ أنت كسوْتنِيهِ أسألُك من خيرِه وخيرِ ما صُنِعَ له ، وأعوذُ بك من شرِّهِ وشرِّ ما صُنِعَ له(صحيح أبي داود:4020)
ترجمہ:اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں تو نے ہی مجھے پہنایا ہے، میں تجھ سے اس کی بھلائی اور جس کے لیے یہ کپڑا بنایا گیا ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس کی برائی اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
کپڑا پہننے کی ایک اور دعا ہے ابوداؤد میں ، وہ دعا یہ ہے ۔
الحمدُ للهِ الذي كساني هذا الثوبَ ورزقنِيهِ من غيرِ حولٍ مني ولا قوةٍ(صحيح أبي داود:4023)
ترجمہ:تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ کپڑا پہنایا اور میری طاقت و قوت کے بغیر مجھے یہ عنایت فرمایا ”تو اس کے اگلے اور پچھلے سارے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔
اس دوسری دعا کے بارے میں بعض اہل علم نے کہا ہے کہ نیا پرانا کوئی بھی کپڑا پہنتے وقت اسےپڑھنا چاہیے اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ بھی نئے کپڑا پہننے کی دعا ہے جبکہ حدیث میں نئے کپڑا کا ذکر نہیں ہے ، اور امام ابوداؤد نے نیا کپڑا پہننے کے باب میں اسے ذکر کیا ہے ۔

سوال(13):کیا عورت نامحرم میت کی طرف سے عمرہ کرسکتی ہے؟
جواب:ہاں عورت نامحرم میت کی طرف سے عمرہ کر سکتی ہے ۔

سوال(14): اگر کوئی بچہ نہ ہونے کا ڈیوائس لگائے ہاتھ یا پیٹ پر، اس وجہ سے کہ بچے بڑے ہوگئے ہوں یا کوئی اور مجبوری ہو تو کیا یہ عمل صحیح ہے؟
جواب:کوئی شرعی عذر ہو تو بچہ روکنے کی جائز تدبیر اختیارکر سکتے ہیں جیسے عورت کا آپریشن ہوا ہولیکن جائز عذر نہ ہو تو حمل روکنے کا کام نہیں کرنا ہےاور بچوں کا بڑا ہونا کوئی عذر نہیں ہے۔
نبی ﷺنے زیادہ بچہ پیدا کرنے والی عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا ہے گویا حمل روکنا مقصد نکاح کے خلاف ہے اور بلا ضرورت بچہ دانہ ہٹانا دینا سراسر غلط ہے ، ضرورت کےتحت وقتی طور پر مانع حمل گولی یا دوا استعمال کر سکتے ہیں اور بچہ دانی میں خرابی ہونے کے سبب اس کو ہٹانا پڑے تو جائز ہے۔

سوال(15):شوہر اگر بیوی کو میکے جانے سے منع کرے تو اس کی بات مان لینا چاہئے ، یا نہیں ہے ، ان کا کہنا ہےکہ تمہارا گھر اب سسرال ہے؟
جواب :یہ صحیح ہے کہ شادی کے بعد ایک عورت کا اپنا گھر شوہر کا گھر ہوتا ہے اور شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی گھر سے باہر نہیں جاسکتی ہے اس لئے اگر شوہر گھر سے باہر جانے سے منع کرے یا میکہ جانے سے منع کرے تو شوہر کی بات مانے اور اس کے حکم کی تابعدار ی کرے ۔
شوہر اگر میکہ جانے سے بیوی کو منع کرے تو اس میں کوئی نہ کوئی وجہ ہوگی وہ بیوی کے علم میں ہوگی مثلا باربار میکہ جانے کی ضد کرنا، میکہ جاکے بیٹھ جانا، شوہر کی نافرمانی کرنا، میاں بیوی کے تعلقات خراب ہونااور سسرالی رشتہ میں خرابی پیدا ہوناوغیرہ ۔ایسی صورت میں بیوی کو چاہئے کہ اس وجہ کو دور کرےجس سبب شوہر اسے میکہ جانے سے منع کرتا ہے ، ایسا ممکن نہیں ہے کہ میاں بیوی میں محبت ہو اور سسرالی رشتہ ٹھیک ٹھاک ہو پھربھی شوہر بیوی کو میکہ جانے سے منع کرے ۔ایک بیوی بحسن وخوبی اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اور شوہر کی اطاعت کرتے ہوئے اس کے گھر میں وفاشعار وعبادت گزار بن کر سکونت پذیر ہو تو اس کی زندگی بہتر گزرے گی، ایسی صورت میں اللہ کی مدد بھی شامل حال ہوتی ہے ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-37)​
جواب از : مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ - سعودی عرب

سوال(1): کیا اٹھارہ قیراط کے زیورات پہ زکوۃ دینی ہوگی ؟

جواب: زیورات پہ زکوۃ کا مسئلہ اختلافی ہے تاہم دلائل سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ استعمال کے زیورات پر زکوۃ ہے ۔ اور جو زیورات اٹھارہ قیراط کے ہوں ان پر بھی زکوۃ لگے گی ۔ اب سوال یہ ہے کہ اٹھارہ قیراط کا سونا تو خالص نہیں ہوتا پھر اس کی زکوۃ کیسے نکالی جائے گی ۔اس سلسلہ میں شیخ محمدبن صالح المنجد نے طریقہ بتایا ہے ۔ انہوں نے اکیس قیراط کی مثال دے کر سمجھایا ہے، میں اٹھارہ قیراط کی مثال دے رہا ہوں مثلا کسی کے پاس 170 گرام اٹھارہ قیراط کے زیورات ہوں تو پہلے 170 گرام کو اٹھارہ سے ضرب دیں پھر چوبیس سےاسے تقسیم دیں ، اس تقسیم سے جتنا گرام سونا آئے گا اس کی ڈھائی فیصدزکوۃ دیں ۔اس کا طریقہ دیکھیں ۔
170٭18تقسیم 24= 127.5 گرام ۔ اب اس ٹوٹل گرام سونے میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ دیں ، چاہے سونا کی زکو ۃ سونا ہی دیں یا ڈھائی فیصد سونا کی قیمت ادا کریں ۔

سوال(2):کیا بیوہ عورت اپنے گھر میں رہتے ہوئے اپنے داماد سے عدت کے دوران کلام کر سکتی ہے ؟
جواب:ہاں، بیوہ عورت عدت کے دوران اپنے داماد سے کلام کرسکتی ہے ، داماد ساس کے لئے محرم ہےاس لئے ساس اپنے داماد کے سامنے چہرہ بھی کھول سکتی ہے اور بوقت ضرورت ایک عورت پردہ میں رہتے ہوئے کسی اجنبی مرد سے بھی بات کرسکتی ہے تاہم بات کرتے وقت تصنع سے بچے اور بقدر ضرورت بات کرے خواہ وہ عدت میں ہو یا عدت میں نہیں ہو۔

سوال(3):میری ایک چھوٹی بیٹی ہےجس کانام آمنہ ہے،وہ بچپن سے سیربل پالسی مریض ہے ، اس کی کمر میں مسئلہ ہے ، بات نہیں کرسکتی ہے، چل نہیں سکتی ہے، اس کے بارے میں پتہ کرنا ہے کہ اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے ، دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ میرا شوہر ایر فورس میں ہے، ان کا پروموشن ہونا ہے مگر کچھ لوگ بیچ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں جس کی وجہ سے پروموشن نہیں ہورہا ہے ، اس کے لئے کیا پڑھنا چاہئے، مجھے کسی نے ظہر کی نماز کے بعد اللھم انصرنا کی تسبیح پڑھنے کو کہا ، ساتھ میں ان اللہ علی کل شی قدیراور صبح و شام 21 مرتبہ اول و آخر درود کے ساتھ سورہ قریش پڑھنا ہے، یہ سب پڑھتی ہوں اور بھی تسبیح پڑھتی ہوں، نفل بھی پڑھتی ہوں ، کیا یہ کافی ہے یا اور بھی زیادہ کرنا چاہئے تو مجھے بتادیں ؟
جواب:سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عاملوں پر بھروسہ کرنے والی ہیں، آپ توبہ کریں اور اللہ پر بھروسہ کریں، جس بیٹی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے اس کے لئے اچھے سے اچھےطبیب سے مراجعہ کریں، وہ جو کہتے ہیں اس پر عمل کریں، آج ترقی یافتہ دور میں سیربل پالسی بچوں کے لئے اچھی سی اچھی سہولیات آرہی ہیں ۔ ساتھ ہی رقیہ شرعیہ بھی کرتے رہیں مگر اس بچی کے لئے کسی عامل کے پاس نہ جائیں اور نہ ہی بچی کا نام بتاکر کسی سے غیب کی خبر معلوم کریں ، یہ سب غلط اعمال ہیں ۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جاب پرموشن کے لئے مخصوص وظیفہ کرنا جس طرح کسی نے آپ کو بتایا ہے ، اور آپ کررہی ہیں وہ بدعت ہے، اس طرح کا عمل ہمارے دین کا حصہ نہیں ہے، یہ بدعتیوں کی ایجاد ہے ۔ پروموشن صلاحیت و محنت کی بنیاد پر ہوتا ہے، انسان اللہ کی پانچ وقت عبادت کرے، نیک کام کرے، برے کاموں سے بچے اوراللہ سے اپنی ضرورت کے لئے دعا کرے اور جو کام چاہتا ہےیا جس کام میں پروموشن چاہتا ہے اس کے لئے محنت کرے اللہ کامیابی دینے والا ہے، پروموشن نہ بھی ملے تو ہمیں بالکل بھی پریشان نہیں ہونا چاہئے ، اپنی تقدیر پر خوش رہنا چاہئے ۔باقی دشمنوں اور رکاوٹوں اور عاملوں کا خیال دل سے نکال دیں ، دنیا میں ہر چیز اللہ کی طرف سے ہورہی ہے، اس میں عاملوں کا دخل نہیں ہے ۔آپ یہ سمجھ لیں کہ اپنے آپ میں نیک وصالح ہیں اور اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے والے ہیں تو آپ اللہ کی حفاظت میں ہیں ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ تم اللہ کی حفاظت کرو یعنی اللہ کے دین کی حفاظت کرو ، اللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔ (صحيح الترمذي:2516)

سوال(4):میرے شوہر مصروف ہوتے ہیں، مجھے اور میرے بچّوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں رکاوٹ پیش آرہی ہے۔ہم ریاض میں مقیم ہیں، کیا میں گاڑی چلانا سیکھ سکتی ہوں تاکہ میں خود مدرسہ جا سكوں اور بچّوں کو لے جاسکوں ؟
جواب:عورتوں کے گاڑی چلانے کے سلسلے میں متعدد علماء نے یہ فتوی دیا ہے کہ انہیں گاڑی نہیں چلانا چاہئےاور میں بھی اس کا قائل ہوں کیونکہ عورتوں کے گاڑی چلانے میں فتنہ اور مسائل ہیں اس لئے اس سے عورتوں کو باز رہنا چاہئے ۔ جہاں تک پریشانی کا مسئلہ ہے تو اس کے متعدد حل ہوسکتے ہیں ۔ شوہرمصروف ہے بچوں کو نہیں لاسکتا ہے تو اجرت پہ بہت سارے لوگ لانے لے جانے کا کام کرتے ہیں یا پھر اسکول کے قریب رہائش اختیار کی جائےتاکہ سواری کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔

سوال(5):لڑکیوں کے اسکول میں نماز کے لیے ایک جگہ مخصوص کرکے اس کو مسجد نما شکل دی گئی تھی، اب اس جگہ کو کیاری بنا دیا ہے۔کیا مسجد ختم کرکےاسکول والوں نے غلط کیا ہے ؟
جواب:جو جگہ مسجد کے لئے وقف نہ ہواور نہ وہاں باقاعدہ مسجد بنی ہو بلکہ کسی گھریااسکول یا فیکٹری وغیرہ میں نماز پڑھنے کے لئے کوئی جگہ مخصوص کرلی گئی ہوچاہے اسے مسجد نماز شکل دی گئی ہو اس کو مصلی کہتے ہیں یعنی نماز پڑھنے کے لئے مخصوص جگہ ، اس مصلی میں کسی وقت کی نماز ہوسکتی ہے اور کسی وقت کی نماز نہیں بھی ہوسکتی ہے ، جب لوگ رہیں تو نماز ادا کریں گے اور جب نہ رہیں تو وہاں نماز نہیں ہوگی ۔گویا مصلی وقتی نماز کی جگہ ہے اس مصلی کو ضرورت پڑنے پر ہٹا سکتے ہیں یا بدل سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

سوال(6): کہا جاتا ہے کہ ماں اپنی اولاد کی غیبت کرسکتی ہے ، کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب: کوئی بھی ماں اپنی اولاد کی غیبت نہیں کرسکتی ہے، نہ اولاد کو اپنے والدین کے بارے میں غیبت کرنا چاہئے۔ غیبت بدترین گناہ ہے اور یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے ۔ کل قیامت میں اس گناہ کا سخت محاسبہ ہوگا لہذا کوئی کسی کے بارے میں غیبت نہ کرے ۔کبھی انسان ظلم سے نجات کے لئے یا اصلاح و ضرورت کے مدنظر کسی کی غیبت کرسکتا ہے مگر عام طور پر غیبت ممنوع ہے ۔

سوال(7): ایک عورت شوگر کی مریض ہے، ابھی حالت تھوڑی نازک ہے، پچھلے رمضان کے بارہ روزے قضا باقی ہیں، پہلے کبھی قضا باقی نہیں رکھتی تھی۔ ابھی صحت کا مسئلہ ہے تو کیا روزہ رکھنا ضروری ہے؟
جواب:جو خاتون شوگر کی مریضہ ہے اور جن سے بارہ روزے چھوٹے ہیں ، یہ روزے ان کے ذمہ قرض کی حیثیت سے رہیں گے وہ سہولت و آسانی کا انتظار کرتی رہے یہاں تک کہ ان روزوں کی قضا کرلے، ایک ساتھ سارے روزےقضا نہیں کرنے ہیں، ایک ساتھ یا متفرق طور پر دونوں طرح قضا کرسکتے ہیں اور کبھی دن چھوٹا بھی ہوتا ہے جس میں آسانی سے روزہ رکھا جاسکتا ہے جیسے ٹھنڈی کے دنوں میں اس لئے اللہ کی طرف سے آسانی کا انتطار کرے اور حسب سہولت قضا کرتی رہے چاہے امسال ہو یا اگلے سال ہو، روزہ رکھنے کی استطاعت ہے تو فدیہ نہیں ہے قضا ہی کرنا ہے چاہے ایک دو سال کے بعد ہی سہی ۔ لیکن جب یہ کنفرم ہو کہ روزہ رکھنے کی استطاعت ہی نہیں ہے، رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتی ہے تب ہرروزہ کے بدلے فدیہ دینا ہے ۔

سوال(8):عورتوں کے ساتھ جو شرعی عذر ہوتا ہے اس کے سبب دو سال قبل کے چند روزوں کی قضاء ہے،کیاروزوں کی قضا کے ساتھ فدیہ بھی دینا ہے ، اگر فدیہ دینا ہے تو پیسے کی شکل میں ایک روزے کا فدیہ کتنا اور اناج کا کتنا ھو گا؟
جواب:دوسال قبل کے جو روزے چھوٹے ہوئے ہیں محض ان روزوں کی قضا کرنا ہے ، فدیہ نہیں دینا ہے کیونکہ قضا میں تاخیر کرنے پر فدیہ دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ جن کے ذمہ روزہ قضا ہے وہ اللہ سے توبہ کرے کیونکہ اس سے تاخیر ہوئی ہے اور جتنے روزے چھوٹے ہیں بس ان کی قضا کرے ۔

سوال(9):کیا شادی کے بعد عورت کا نصیب مرد کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے؟
جواب:اللہ تعالی نے مکمل تقدیر کائنات کی تخلیق کے وقت ہی لکھ دی ہے ، شادی کے وقت کسی کے ساتھ کسی کا نصیب نہیں لکھا جاتا ہے ، تقدیر پہلے سے لکھی ہوئی ہے اور اس تقدیر کے حساب سے دنیا میں کام ہورہے ہیں ۔ عموما سماج میں یہ کہا جاتا ہے مرد کو عورت کے نصیب سے رزق دیا جاتا ہے ، شاید سوال کرنے والی بہن یہی بات کہنا چاہتی ہو۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات بالکل بھی صحیح نہیں ہے کہ شوہر کو رزق بیوی کے نصیب سے ملتا ہے، اللہ تعالی ماں کے پیٹ میں ہی ہر کسی کے نصیب کا رزق لکھ دیتا ہے ، اس لئے دنیا میں ہر کسی کو اپنے نصیب کا رزق ملتا ہے چاہے بیوی ہو یا شوہر ۔یعنی بیوی کو بھی اپنے نصیب کا رزق ملتا ہے اور شوہر کو بھی اپنے نصیب کا رزق ملتا ہے ۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا:
إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ إِلَيْهِ مَلَكًا بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ فَيُكْتَبُ عَمَلُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ(صحیح البخاری:3332)
ترجمہ: انسان کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں پہلے چالیس دن تک پوری کی جاتی ہے۔ پھر وہ اتنے ہی دنوں تک «علقة» یعنی غلیظ اور جامد خون کی صورت میں رہتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں کے لیے «مضغة» (گوشت کا لوتھڑا) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے۔ پس وہ فرشتہ اس کے عمل، اس کی مدت زندگی، روزی اور یہ کہ وہ نیک ہے یا بد، کو لکھ لیتا ہے۔

سوال(10):اگر ولی کے بغیر نکاح نہیں تو عورت کی رضامندی کے بغیر بھی نکاح نہیں ہوتا ، ایسی صورت میں اگر عورت کے گھر والے کسی ایسی جگہ شادی کرتے ہیں جہاں عورت کی رضامندی نہیں ، اس نے بتایا بھی ہو کہ وہ رضا مند نہیں ۔اور مرد کو بھی اس بات کا علم ہو ۔اور اس عورت کے انکار کرنے یا ڈٹ جانے پر عورت کی جان کو خطرہ ہو اور اس پر دباؤ ڈالا جارہا ہو ۔اور ان حالات میں والدین صرف اپنی عزت کی خاطر ،اپنی ناک کی خاطر زبردستی نکاح کر دیں تو ایسے میں عورت کوکیا حکم ہے ۔عورت توحید پرست ہو جبکہ وہ مرد مشرک ہو اور نشہ بھی کرتا ہو ۔اور نکاح کے بعد عورت کو طلاق کی بھی امید نہ ہو کہ بعد میں عورت اس سے چھٹکارہ حاصل کر سکے تو پھر عورت کے لیے کیا حکم ہے ۔اور اس عورت کا یہ بھی سوال ہے کہ زبردستی کا نکاح زنا میں شمار ہوگا؟
جواب:پہلی بات تو یہ ہے کہ ولی کو جب یہ بات معلوم ہو کہ فلاں شادی سے لڑکی راضی نہیں ہے ، لڑکی نے زبانی طور پر کہہ دیا ہے تو ایسی صورت میں ولی کو اس جگہ شادی نہیں کرانا چاہیے ۔جو ولی لڑکی کی رضامندی کے خلاف شادی کرتا ہے وہ ظلم ہوتا ہے الا یہ کہ لڑکی کے انکار کی وجہ غلط ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر جبری نکاح کر بھی دیا جائے تو کیا یہ نکاح ہوگا یا نہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نکاح ہو جائے گا ، یہ زنا نہیں ہوگا لیکن لڑکی چاہے تو نکاح فسخ کرالے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ولی بے دین یا شرک کرنے والے سے جبرا شادی کرانے کی کوشش کرے تو ایسی صورت میں ولیہ پہلے باپ کو دیندار لڑکے سے شادی کرنے کی اپیل کرے، ہرممکن باپ کو اچھے مسلمان سے شادی کرانے کی نصیحت کرے ، پھربھی باپ مشرک و بے دین اور نشیڑی سے شادی کرانے پر اڑا رہے اور جبر کرے تو باپ کی ولایت چھن جائےگی پھر لڑکی باپ کے علاوہ دوسرے قریبی ولی کی رضامندی سے کسی دیندار لڑکے سے شادی کرسکتی ہے۔

سوال(11):دومہینے کا بچہ ساقط ہوگیا ہے اور دس دن کے بعد خون آنا بند ہوگیا ہے تو کیا عورت اب غسل کرکے نماز پڑھ سکتی ہے؟
جواب:دو ماہ کا حمل ساقط ہونے پر آنے والا خون نفاس نہیں کہلائے گابلکہ یہ بیماری کا خون مانا جائے گا اور اول دن سے ہی اس خاتون کو نماز پڑھنا چاہئے تھا، دس دنوں سے نماز سے رکے رکنا اللہ کی عبادت سے غفلت ہے ۔ اس وقت نظافت بدن کے لئے غسل کرلے اور نماز کی پابندی کرے اور گزشتہ نمازوں کی قضا کرلے ۔ بعض علماء یہ بھی کہتے ہیں کسی ماہ کا حمل ساقط ہو جاری ہونے والا خون نفاس کا ہے اس میں نماز ممنوع ہے مگر پہلا قول راجح معلوم ہوتا ہے کہ جب حمل ایسی صورت میں ساقط ہو کہ بچے کی تخلیق مکمل نہیں ہوئی ہے ، اس کی شکل و صورت واضح نہیں ہوئی ہے تو یہ گوشت کا لوتھڑا ہےاور اس کے ساقط ہونے پر جو خون آئے وہ دم فاسد یا استحاضہ کا خون ہے ۔ جب گرنے والے حمل میں شکل و صورت واضح ہوتب اس وقت آنے والا خون نفاس کا ہوگا۔

سوال(12):کیا عورتیں سر کے بالوں کی طرح ابرو کے بال کو بھی رنگ سکتی ہیں ؟
جواب:ابرو کے بال کو رنگنے میں حرج نہیں ہےمثلا ابر ومیں سرمہ یا اور کوئی زینت کی چیز لگائے اس میں حرج نہیں ہے تاہم کالے رنگ سے بچنا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے کالے رنگ سے منع فرمایا ہے ۔یہاں یہ بھی معلوم رہے کہ عورت اس قسم کی زینت کا اظہار اجنبی مردوں کے سامنے نہ کرے ، ورنہ وہ گنہگار ہوگی ۔

سوال(13):ایک ایک ماہ کے وقفہ سے عورت کو تین طلاق دی گئی ہے پاکی کی حالت میں جبکہ لڑکی شروع سے والدین کے گھر ہے۔ عدت کب سے شمار کی جائے گی اور کیا تیسری طلاق کے بعد بھی عدت ہوگیاور کتنی عدت ہوگی ؟
جواب:مذکورہ مسئلہ میں اکثرعلمائے اہل حدیث کا یہی فتوی ہے کہ جو وقفہ وقفہ سے تین بار الگ الگ ماہ میں حالت طہر میں تین طلاق دی ہے تو یہ تینوں طلاق واقع ہوجائیں گی مگر اس مسئلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ بغیر رجوع کے دوسری طلاق یا تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی یعنی اگر کوئی اپنی بیوی کو پہلی طلاق دیتا ہے تو شوہر کے ذمہ یا تو عدت میں رجوع کرنا ہے یا چھوڑ دینا ہے تاکہ عدت پوری ہوجائے، عدت پوری ہونے سے بیوی جدا ہوجائے گی ، اس عدت میں شوہر کو دوسری طلاق کا اختیار نہیں لیکن چاہے تو رجوع کرسکتا ہے ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ پہلی طلاق کی عدت میں شوہر دوسری یا تیسری طلاق نہیں دے سکتا ہے یعنی بغیر رجوع کئے شوہر دوسری طلاق نہیں دے سکتا ہے، آپ کے پوچھے گئے سوال میں صرف پہلی طلاق معتبر ہوگی ، اس کی عدت تین حیض ہوگی، پہلی طلاق کے حساب سے تین حیض سے عورت پاک ہوجائے تو اس کی عدت پوری ہوجائے گی ۔

سوال(14):کیا لڑکیاں ایسے کپڑے نہیں پہن سکتی ہیں جن سے لڑکوں کی مشابہت ہو، یعنی جیم کرتے وقت ٹی شرٹ اور ٹراؤزر نہیں پہن سکتی ہیں ؟
جواب:لڑکیوں کو لڑکوں کا لباس اور لڑکوں کو لڑکیوں کا لباس پہننے سے منع کیا گیا ہے ، ایسے لوگوں پر لعنت برسائی گئی ہے اس لئے کسی بھی وقت خواہ کسرت کرتے وقت ہو یا سوتے وقت لڑکیوں کو لڑکوں کا مخصوص لباس نہیں پہننا چاہئے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلَ يَلْبَسُ لِبْسَةَ الْمَرْأَةِ، وَالْمَرْأَةَ تَلْبَسُ لِبْسَةَ الرَّجُل(صحيح أبي داود:4098)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد پر جو عورتوں کا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر جو مردوں کا لباس پہنتی ہے لعنت فرمائی ہے۔
آپ ایسے کپڑے پہنیں جو مخصوص طورپر لڑکیوں کے لئے تیارکئے گئے ہوں اور وہ ٹی شرٹ اور ٹراؤزر جو لڑکیوں کے لئے مخصوص طور پر بنائے گئے وہ پہن سکتی ہیں اور یہ غیرساترلباس ہے اس لئے پوشیدہ جگہ یہ لباس لگانا ہےجہاں اجنبی مرد نہ ہواور نہ اجنبی مرد والی جگہ جیم کرنا ہے۔

سوال(15):ایک عورت نے عمرہ کا احرام باندھا وہ جدہ پہنچی اور وہاں اسپاٹنگ شروع ہوگئی جو کہ حیض کا وقت نہیں تھا، اس کے بعد اس نے کچھ گولی کھائی پھر بغیر معلومات کئے مسجد عائشہ سے غسل کرکے اور احرام باندھ کر عمرہ کیا اس حالت میں دم دینا پڑے گا یا جو خون آیا تھا اسی خون میں عمرہ کرسکتی تھی؟
جواب:جب کسی خاتون کو ایسی صورت حال پیش آئےاور شرعی مسئلہ معلوم نہ ہو تو وہ کچھ کرنے سے پہلے عالم سے رہنمائی حاصل کرے ، ایسا نہیں ہے کہ آپ اپنی مرضی سے پہلے عمل کرلیں بعد میں مسئلہ معلوم کریں ۔ اس میں پہلی بات یہ ہے کہ جو اسپاٹنگ ہوئی تھی وہ اگر حیض نہیں تھا یعنی حیض جیسا نہیں تھا اور نہ ہی حیض کا وقت تھا تو اسے بیماری کا خون مان کر لنگوٹ باندھ کر عمرہ کرلیتی ، خون آنے سے احرام فاسد نہیں ہوتا ہے چاہے استحاضہ کا خون ہو یا حیض کا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر حیض کے دن قریب تھے اور حیض آیا تھا ، خون میں حیض کے صفات (گاڑھاپن، کالی رنگت اور بدبو) تھے تو اس وقت اسے احرام میں ہی رکنا تھا، اور کہیں نہیں جانا تھا جب وہ پاک ہوجاتی تو اپنی رہائش سے ہی غسل کرکے عمرہ کرنے چلی جاتی ، مسجد عائشہ جانے کی ضرورت نہیں تھی ۔

سوال(16):اگر کوئی شخص سونے کی دوکان میں ہر ماہانہ کچھ رقم جمع کرتا ہے تو دوکاندار ایک سال ختم ہونے پر جو رقم جمع ہوئی ہے اس رقم میں جتنا سونا آرہا ہے اتنا سونا دے رہا ہے اور سونا بنانے کی قیمت نہیں لے رہا ہے تو کیا اس طرح بغیر سونے کی بناوٹ کی رقم کے وہ سونا خرید سکتے ہیں یا پھر یہ سود ہوگا؟
جواب:سونا چاندی کی خرید و فروخت میں یہ اصول دھیان رکھیں کہ یہ معاملہ ہاتھوں ہاتھ ہونا چاہئے یعنی معاملہ نقدی اور ایک ہی مجلس میں ہو، ایک طرف سے پیسہ دیں اور دوسری طرف سے سونا یا چاندی لیں، وہ بھی ایک ہی مجلس میں ، تاخیر والا معاملہ نہ ہو۔ اس لحاظ سے آپ نے جو سوال کیا ہے وہ معاملہ صحیح نہیں ہے کیونکہ پہلی مجلس میں سونا خریدنے کی بات طے ہوتی ہے، تھوڑا پیسہ دیا جاتا ہے پھر سال بھر پیسہ دیاجائے گا اور تب سونا لیا جائے گا، یہ معاملہ صحیح نہیں ہے ۔ خریدار کو چاہئے کہ وہ پیسہ جو سونار کے پاس جمع کررہا ہے اپنے پاس سال بھر جمع کرے اور سال مکمل ہونے پر اس پیسے سےجتنا سونا ہو خرید لے، سامان بنانے کی قیمت بہت زیادہ نہیں ہوتی ہے اس لئے بنانے کی قیمت سے بچنے کے لئے غلط معاملہ نہ کریں ۔

سوال(17): ایک خاتون کو بچے ہیں ، ساتواں بچہ حمل میں ہے، وہ بچہ کو بند کروانا چاہتی ہیں، اتنی بیمار نہیں ہیں لیکن ان کی پرورش کا مسئلہ ہے ، شوہر باہر رہتا ہے اور کمائی زیادہ نہیں ہے، کئی بچے اسکول نہیں جاپاتے ہیں ، کوئی مدد کرنے والا بھی نہیں ہے تو کیا وہ فیملی پلاننگ کرسکتی ہے؟
جواب:پہلی بات یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی اسلام میں جائز نہیں ہے لیکن کبھی ضرورت کے تحت وقتی طور پر بچوں کے درمیان وقفہ کرنے کے لئے مانع حمل تدبیر اپنائی جاسکتی ہے مگر مکمل طور پر نس بندی نہیں کرائی جاسکتی ہے ۔
جس کے ساتھ شرعی عذر ہو یعنی جس عورت کے لئے حمل ہونا خطرہ کا سبب ہو وہ حمل روکنے کی تدبیر کرسکتی ہے۔ اور جو پوچھا گیا سوال ہے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ عورت احتیاط سے کام لے، اپنے شوہر سے الگ رہے یعنی جماع سے پرہیز کرے یا وقتی مانع حمل والی تدبیر کرے یا عزل کرے یعنی جماع کے بعد منی باہر خارج کرلے اس کی گنجائش ہےمگر روزی روٹی اور تعلیم کے سبب انقطاع نسل صحیح نہیں ہے۔
آج ہم زمانہ کے حساب سے چلنے کی کوشش کرتے ہیں اس وجہ سے بہت ساری مشکلات آتی ہیں ، بچوں کو پڑھانے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ فیس والے اسکول میں بھیجیں ، دینی تعلیم دلائیں جہاں فری تعلیم دی جاتی ہے اور جو بھی روزی ملے اس پر قناعت کریں ۔

سوال(18):عورت عموما گھر میں نماز پڑھتی ہے جہاں اور بھی لوگ ہوتے ہیں ، گھر میں نماز پڑھتے ہوئے کبھی کسی کی کوئی بات سن لیتے ہیں اور ہنسی آجاتی ہے تو کیا اس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟
جواب:پہلی بات یہ ہے کہ عورتوں کو گھر میں ایسی جگہ نماز پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے جہاں نماز میں خشوع و خضوع زیادہ حاصل ہوجیساکہ کہاگیا ہے عورتوں کی نماز گھر کے سب سے آخری کونے میں افضل ہے اس لئےلوگوں کی آمد و رفت یا شور و غل والی جگہ میں نماز نہ پڑھیں ، ورنہ نماز میں دھیان نہیں رہے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر کبھی نماز میں کوئی ایسی بات سنائی دے جس سے نماز میں معمولی سی ہنسی آجائے یا مسکرا دیں تو اس سے نماز نہیں ٹوٹتی ہے لیکن یاد رہے کہ نماز میں کھل کھلا کر ہنسنے یا قہقہ لگانے سے نماز باطل ہوجاتی ہے ۔

سوال(19):ایک بچی کو حیض آیا اور اس نے نیل پالش ٹرانسپیرینٹ(جو نظر نہ آئے) وہ لگائی پھر وہ بھول گئی اور غسل کر لیا پھر وہ لوگ مدینہ چلے گئے اور وہاں نماز پڑھتی رہی واپسی پر اس نے غور کیا کہ نیل پر کچھ ہے تو اس کو یاد آیا کہ اس نے وہ نیل پالش لگائی تھی اب وہ پوچھ رہی ہیں کہ جو نماز پڑھی اور مسجد نبوی میں چلی گئی اس حالت میں جب وہ پاک نہیں تھی اب اس کا کیا کفارہ ہے ؟
جواب:ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ناخنوں پرایسی پالش لگی ہو جس کی وجہ سے وضو و غسل کرتے وقت پانی سطح ناخن تک نہیں پہنچتا ہے تو ایسی حالت میں وضو یا غسل کرنے سے طہارت حاصل نہیں ہوگی ۔ ٹرانسپیرنٹ نیل پالش تو استعمال ہی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس میں بھولنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے ۔
بہرکیف! ٹرانسپیرنٹ نیل پالش کی حالت میں جو غسل کیا وہ غسل نہیں ہوا اور جو وضو کیا وہ وضو نہیں ہوا اس لئے اس پالش کو ریموو کرکے پھر سے غسل کرے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس حالت میں پڑھی گئی نمازیں دہرائے، اور اپنے اس عمل کے لئے اللہ سے سچی توبہ کرے ۔

سوال(20): ایک شخص نے نکاح کے وقت نکاح نامہ پہ لکھا کہ اگر بیوی کو طلاق ہوتی ہے تو حق مہر دینا ہوگا اور طلاق نہیں ہوتی ہے تو حق مہر نہیں ہے تو کیا ایسی صورت میں مہر دینا پڑے گا؟
جواب : مہر کو حق اللہ نے مردوں پر واجب ومقرر کردیا ہے اس متعین حق کو کوئی مرد دینے سے انکار نہیں کرسکتا ہے اور اگر نکاح نامہ پر نہ دینے کا ذکر بھی کردے تو اس سے مہر معاف نہیں ہوجائے گا لہذا مرد کو چاہئے کہ اپنی بیوی کو طے شدہ مہر ادا کردے ، یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے، مہر نہ دینے پر آخرت میں پکڑ ہوگی اور لوگوں کو نکاح کے معاملہ میں اس طرح غلط بات لکھنے سے اللہ کا خوف کھانا چاہئے ۔

سوال(21): ایک فیملی عمرہ پر گئی ، طواف کے دوران ہی مرد کو کوئی تکلیف لاحق ہوگئی وہ ہوٹل پر واپس آگیا اور احرام کھول دیا، بیوی بھی شوہر کی وجہ سے واپس آگئی ہے ایسی صورت میں ان کو کیا کرنا چاہئے؟
جواب: مرد کو چاہئے کہ وہ احرام کا لباس پھر سے لگالے، اور آرام کرے ،اس دوران وہ احرام کی حالت میں رہیں گے ، احرام عمرہ کی نیت کا نام ہے نہ کہ کپڑا کا، اور محظورات احرام سے بچتے رہیں گے، جب افاقہ ہوجائے اور عمرہ کی استطاعت ہو عمرہ کرلے ، بیوی کے لئے یہ ہے کہ اگر شوہر سے پہلے جاکر عمرہ کرسکتی ہے تو جاکر عمرہ کرلے یا شوہر کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرے اور ساتھ عمرہ کرلے کوئی حرج نہیں تاہم وہ بھی شوہر کی طرح احرام میں باقی رہے گی جب تک عمرہ نہیں کرلیتی ۔

سوال(22): کیا کوئی ایسی حدیث یا قرآنی آیت کا ایسا مفہوم ہے جس سے معلوم ہو کہ عورت شوہر کے ظلم سے بہت تکلیف میں ہو پھربھی شوہر سے طلاق نہ لے بلکہ صبر کرے تو بغیر حساب کے وہ جنت میں جائے گی ، کوئی ایسی بات بولے اور ایسا عقیدہ رکھے تو اس کو کیا کہا جائے گا ؟
جواب:میرے علم میں نہ ایسی کوئی قرآنی آیت ہے اور نہ ہی ایسی کوئی صحیح حدیث ہے کہ شوہر کے ظلم سے عورت تکلیف میں ہو اور وہ صبر کرے ، طلاق نہ لے تو بغیر حساب کے جنت میں جائے گی ۔ اگر کوئی عورت ایسی بات کہے تو اس کو قرآن و حدیث سے دلیل دینا ہے ، دلیل نہ دے سکے تو اسے اپنی بات سے رجوع کرلینا چاہئے اور آئندہ ایسی بات سے پرہیز کرنا چاہئے جس کی اسے دلیل معلوم نہ ہو۔ ایسی بات کہنے والی کوئی عورت کا کسی خاص عقیدہ سے تعلق ہونا، نہیں کہا جائے گا بلکہ یہ لوگوں کی نادانی اور جہالت کہی جائے گی کہ بغیر دلیل کے کچھ بھی بول دیتے ہیں ۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ تکلیف پر صبر کا بڑا بدلہ ہے ، جس قسم کا صبر ہوگا اللہ تعالی صبر کرنے والوں کو اتنا بڑا بدلہ عطا کرے گا۔ صبر کا بدلہ بے حساب وبے پناہ ہے ۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: بلاشبہ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بلا حساب دیا جائے گا۔(الزمر:10)

سوال(23) : کیا اکیلے رات گزارنے سے منع کیا گیا ہے اور شوہر گھر سے باہر رہتا ہو تو عورت کیا کرے؟
جواب:یہ بات صحیح ہے کہ اکیلے گھر میں رات گذارنے سے منع کیا گیاہے بطورخاص اکیلے سفر کرنے سے کیونکہ ممکن ہے سفر میں یا پھر رات میں کسی تکلیف کے سبب کسی کی ضرورت پڑجائے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
نهى عن الوحدة: ان يبيت الرجل وحده، او يسافر وحده.(سلسلہ صحیحہ:60)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنہائی، یعنی آدمی کو اکیلا رات گزارنے اور اکیلا سفر کرنے سے منع فرمایا۔
اسی طرح نبی ﷺ فرماتے ہیں:لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي الْوَحْدَةِ، مَا أَعْلَمُ مَا سَارَ رَاكِبٌ بِلَيْلٍ وَحْدَهُ(بخاري:2998)
ترجمہ:جتنا میں جانتا ہوں، اگر لوگوں کو بھی اکیلے سفر (کی برائیوں) کے متعلق اتنا علم ہوتا تو کوئی سوار رات میں اکیلا سفر نہ کرتا۔
یہ حدیث عورت ومرد سب کے لئے ہے کہ وہ اکیلا کہیں سنسان جگہ پر رات نہ گزارے لیکن مجبوری ہو تو کوئی حرج نہیں ہے اور انسانی بستی میں جہاں بہت سارے لوگ رہتے سہتے ہوں وہاں کسی گھر میں اکیلے رہنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہاں دوسرے گھروں میں افراد موجودہیں مدد کے لئے بلاسکتے ہیں ۔ہاں ایسی جگہ جہاں برے لوگ ہوں وہاں عورت کا اپنے گھر میں تنہا رہنا رات ودن ہمہ وقت پرخطر ہے ایسے میں گھر کے ذمہ دار کو مامون جگہ یا محفوظ انتظام کرنا چاہئے تاکہ لوٹ ومار کی حفاظت کے ساتھ عفت و عصمت کی بھی حفاظت ہو۔

سوال(24):اگر بہو نے چہرے پہ میک اپ کیا ہو یا زینت کی ہو تو اس حال میں سسر سے پردہ کرسکتی ہے، کسی کو اس طرح سسر کے سامنے آنے سے حیا آئے تو ہلکی گھونگھٹ کرسکتی ہے تاکہ زینت چھپ جائے یا بالکل چہرہ کھلا ہی رکھنا ہوگا چاہے میک کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو؟
جواب:سسر محارم میں سے ہے اس لئےبہو زینت کی چیز اس پر ظاہر کرسکتی ہے مگر ظاہر سی بات ہے سسر، بہو کے لئے اپنے سگے باپ کی طرح تو نہیں ہوتے ، فتنہ کا زمانہ ہے ، فتنہ کا اندیشہ رہتا ہے اس لئے میک اپ کرکے بہو کو سسر کے سامنے آنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ میک اپ خاص طور سے شوہر کے لئے ہونا چاہئے اور اگربہومیک اپ میں ہو تو سسر سے چھپانے کے لئے گھونگھٹ کر سکتی ہے ۔یہ بات صرف فتنہ سے بچنے کے لئےکہی جارہی ہے ورنہ سسر سے بہوکاپردہ نہیں ہے ۔

سوال(25): میں احرام کی حالت میں تھی اور سعی کے بعد بال کاٹے بغیر نِقاب باندھ لی۔ پھر میں نے گھر پہنچ کر بال کٹ کیا۔ میں ہمیشہ ایسا ہی کرتی آئی ہوں۔ اب مجھے اُس غلطی کا علم ہوا، اُس غلطی کا کوئی کفّارہ ہے کیا ؟
جواب:احرام عمرہ کی نیت کو کہتے ہیں ، یہ معلوم ہی ہوگا اور احرام کی حالت میں عورتوں کے لئے نقاب و برقع منع ہے ۔ اگر کوئی عورت بحالت احرام لاعلمی میں محظورات احرام کا ارتکاب کرلے تو اس پر کچھ بھی نہیں ہے اور آپ سے بھی یہ غلطی لاعلمی میں ہوئی ہے اس لئے آپ پر کوئی فدیہ نہیں ہے البتہ آگے سے اب اس مسئلہ کو یاد رکھیں گے ۔

سوال(26): اگر کوئی بیوی سے جماع نہ کرنے کی قسم کھالیتا ہے اور اس کی مدت چار ماہ سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے ، شوہر رجوع نہ کرے تو کیا میاں بیوی کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے یا شوہر کے لئے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ طلاق دے ؟
جواب:اس کو ایلاء کہتے ہیں یعنی کوئی شخص اپنی بیوی سے ایک مدت تک مجامعت نہ کرنے کی قسم کھا لیتا ہے ۔ اگر شوہر نے ایلاء کیا ہے یعنی جماع نہ کرنے کی قسم کھالی ہے تو بیوی چار تک انتظار کرے، چار ماہ کے اندر اگر شوہر رجوع کرلے تو ٹھیک ہے ورنہ بیوی کو حق حاصل ہے کہ وہ چار ماہ بعد رجوع کرنے کا مطالبہ کرے، رجوع نہیں کرتا تو طلاق کا مطالبہ کرے ۔اگر شوہر چار ماہ بعد بھی رجوع نہیں کرتا یا طلاق نہیں دیتا تو اس سے رشتہ ختم نہیں ہوگا، رشتہ اپنی جگہ باقی رہے گا اور چاہے تو بیوی مزید کچھ صبر کرے تاوقتیکہ آسانی پیدا ہوجائے ۔ یا پھر عدالت کے ذریعہ نکاح فسخ کرالے ۔

سوال(27):ایک بہن حاملہ ہیں چھٹا مہینہ ہے اور پیٹ میں پانی بھی بھر گیا ہے ان سے زمین پر سجدہ نہیں ہوتا وہ پوچھ رہی ہیں کہ کیا میں تکیہ رکھ کراس پر سجدہ کرسکتی ہوں؟
جواب:حمل کی وجہ سےزمین پر سجدہ کرنےدشواری ہو توتکیہ رکھ کر اس پر سجدہ نہیں کریں گی البتہ جتنا جھک سکتی ہیں سجدہ میں اتنا ہی جھکیں ، زمین پر سجدہ نہیں کر سکتی ہیں تو معذور ہیں ، سجدہ کے وقت استطاعت کے مطابق سر کو نیچے جھکائیں، یہی ان کے لئے کافی ہے ۔

سوال(28): کیا بیوہ عورت عدت کے دنوں میں کوئی بھی کپڑا یا دوپٹہ پہن سکتی ہے اور کیا اس سے جسم کے سارے زیور اتارنے ہیں ، مثلا ناک میں نوزپن ہو اور نہ نکلے تو کیا کیا جائے گا؟
جواب:بیوہ عورت کو عدت میں سوگ کرنا ہے اور سوگ کے دنوں میں زینت کی کوئی چیز استعمال نہیں کرنا ہے۔ اس وجہ سے بیوہ نئے اور بھڑکیلے یا نقش ونگار والے کپڑے سے پرہیز کرے ، اسی طرح میک اپ نہ کرے اور زینت کی جو چیزیں یا زیورات جسم پر ہوں انہیں اتار دینا چاہئے ۔ نوز پن لگاہو جس کو نکالنے میں دقت ہو تو زیورات کے ماہرین سے مدد لی جائے، آج کل ایک سے ایک تکنیک بھی پائی جاتی ہے ۔ اسے کاٹ کر بھی نکال سکتے ہیں ۔

سوال(29): نماز کے بعد ہم عورتوں کو گھر میں کون سی مخصوص عبادت کرنا چاہئے جیسے کوئی عورت تلاوت پر زور دیتی ہے تو کوئی اذکار پر، اس میں ہمارے لئے کیا بہتر ہے؟
جواب:نماز کے ساتھ ہر قسم کی عبادت پر وقت لگانا چاہئےکیونکہ دین پورے مجموعہ اعمال کا نام ہے جس میں نماز ، روزہ ، تلاوت ،تہجد، دعا، ذکر، صدقہ، علم، دعوت سارے نیک اعمال داخل ہیں اس لئے نماز کے بعد کسی عورت کا صرف ایک عمل کو مخصوص کرلینا غلط ہے، شریعت نے ہمیں ایسی تعلیم نہیں ہے۔اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سارے مسلمان وظائف پر اپنا سارا وقت لگا دیتے ہیں ، وہ بھی مصنوعی وظائف اور من مرضی سے وقت و تعداد متعین کرکے ۔ اس طرح کا معاملہ عورتوں میں بھی ہے وہ اپنا سارا دھیان وظائف پر لگاتی ہیں ، کسی نے ایک وظیفہ مخصوص کرلیا تو کسی نے چند مخصوص کام کے مخصوص وظیفے متعین کرلئے اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں وظیفہ پڑھ رہی ہے ، یاد رہے مصنوعی وظیفے یعنی جن کا ذکر قرآن وحدیث میں نہ ہو ان کا ورد کرناغلط ہے اور اسی طرح سے اپنی طرف سے وظیفہ کی تعداد یا وقت متعین کرکے پڑھنا بھی غلط ہے۔آپ وہی اذکار کریں جو ہمیں اسلام نے سکھائے ہیں اور وہی طریقہ اختیار کریں جو محمد ﷺ سے منقول ہے مثلا صبح وشام کے اذکار، فرض نمازوں کے بعد کے اذکار، سونے جاگنے کے اذکار وغیرہ ۔نمازوذکر کے ساتھ مناسب وقت میں تلاوت بھی کریں ، دینی کتب کا مطالعہ بھی کریں ، پڑھ نہیں سکتے تو علماء کے بیانات سنیں، دین سیکھنے اور سکھانے کے لئے بھی وقت نکالیں ، فقیر ومحتاج میں صدقہ بھی کریں ، غرض یہ کہ جو بھی آپ کے سامنے خیروبھلائی کی صورت ہے آپ کرنے کی کوشش کریں ۔

سوال(30):کسی گاؤں میں میرےایک رشتہ دار مرد کا انتقال ہوگیا ہے اور گھر کے سارے لوگ تعزیت کے لئے جارہے ہیں ، کیا میں ایک عورت ہوتے ہوئے مرد میت کو دیکھنے کے لئے جاسکتی ہوں اور کیا عورت غیرمحرم میت کو دیکھ سکتی ہے ؟
جواب: عورت مرد میت کو دیکھ سکتی ہے، اس میں شرعا حرج نہیں ہے اس لئے جب گھر کے سارے افراد تعزیت کے لئے جارہے ہیں تو گھر کی عورتیں بھی جاسکتی ہیں اور عورتیں بھی مرد میت کو دیکھ سکتی ہیں ، جنازہ کی نماز میں بھی شریک ہوسکتی ہیں ۔ صحیح حدیث سے دلیل ملتی ہے کہ عورت اجنبی مرد کو دیکھ سکتی ہے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے اپنی چادر سے پردہ کئے ہوئے ہیں۔ میں حبشہ کے ان لوگوں کو دیکھ رہی تھی جو مسجد میں (جنگی) کھیل کا مظاہرہ کر رہے تھے(صحیح البخاری:5236)
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(قسط:38)

جواب از: مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ -سعودی عرب

سوال(1): ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ حقوق العباد کی اہمیت ہے تو جب عورتیں کھانا بناتی ہیں اور مردوں کو کھلانے میں مشغول رہتی ہیں، ادھر اذان ہورہی ہوتی ہے ایسے میں لوگوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہےاس سے عورتیں کہیں شرک میں تو نہیں واقع ہوتیں جبکہ حقوق العباد کی اہمیت زیادہ ہے اور کھانا کھلانا تو حقوق العباد میں آتا ہے ؟
جواب:حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں اہم ہیں ، ان میں سےکسی کی اہمیت کم نہیں ہے ، ہمیں دونوں کو اس طرح ادا کرنا ہے جیسےقرآن وحدیث میں حکم دیا گیا ہے ۔ نماز کا ایک وقت متعین ہے اول و آخر ، مرد کو مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے جبکہ عورت حسب سہولت نماز کے اول و آخر کے درمیان کسی بھی وقت نماز ادا کرسکتی ہے تاہم اول وقت میں مردوں کی طرح عورتوں کے لئے بھی نماز ادا کرنا افضل ہے ۔ رہا مسئلہ گھر کے مردوں کو کھانا کھلانے کا تو مسجد میں اذان مردوں کے لئے ہورہی ہے ، مردوں کو چاہئے کہ اذان کے وقت مسجد جائے، نماز پڑھ کر آئے اس دوران عورت بھی اپنی نماز پڑھ لے پھر کھانا کھایا جائے ۔اس طرح عورت ومر د سب کی وقت پر نماز ادا ہوگی اور کھانے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ کبھی نماز کے وقت شدید بھوک لگی ہوتو آدمی نماز کے وقت کھانا بھی کھاسکتا ہے اور مرد کھانا خود لے کر کھاسکتا ہے، کھانا عورت ہی نکال کر دے یہ ضروری نہیں ہے، نبی ﷺ گھر کے کاموں میں خود بھی ہاتھ بٹاتے تھے ، یہ تو بنابنایا کھانا اپنے پیٹ میں کھانا ہےاس میں تو اور بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نماز چھوڑکر نماز کے وقت کھانا کھانا معمول نہیں بنانا چاہئے، یہ تو عذر کے وقت کا معاملہ ہے۔ اور مجبوری میں عورت کو ہی کھلانا پڑے تو اس میں شرک جیسی کوئی بات نہیں ہے ، یہاں ضرورت کے وقت کام کرنے والی بات ہے۔انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا قُدِّمَ الْعَشَاءُ فَابْدَءُوا بِهِ قَبْلَ أَنْ تُصَلُّوا صَلَاةَ الْمَغْرِبِ، وَلَا تَعْجَلُوا عَنْ عَشَائِكُمْ.(صحیح البخاری:672)
ترجمہ: جب شام کا کھانا حاضر کیا جائے تو مغرب کی نماز سے پہلے کھانا کھا لو اور کھانے میں بے مزہ بھی نہ ہونا چاہئے اور اپنا کھانا چھوڑ کر نماز میں جلدی مت کرو۔
بہرحال عورت، کام کے وقت کام کرے اور نماز کا وقت ہوجائے تو نماز کو ترجیح دے اور کام کاج چھوڑ کر وقت پر نماز ادا کرے پھر کام کرے ۔

سوال(2):ایک بہن کا سوال ہے کہ اس کا بچہ بہت روتا ہے تو اس پر کیا پڑھ کر دم کریں ؟
جواب: بچہ پر بھی دم کرنے کا وہی طریقہ ہے جو بڑوں کے لئے ہے اور بچوں کے دم کرنے میں بھی وہی چیزیں پڑھیں گے جو اپنے لئے پڑھتے ہیں گویا بچوں پر دم کرنے کا کوئی مخصوص طریقہ نہیں ہے ۔ نبی ﷺ کے دم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ تکلیف کے وقت تین سورتیں (سورہ اخلاص ، سورہ فلق اور سورہ ناس) پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیتے چنانچہ صحیح بخاری میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ۔
عن عائشة رضي الله عنها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:كان إذا اشتكى يقرا على نفسه بالمعوذات وينفث، فلما اشتد وجعه كنت اقرا عليه وامسح بيده رجاء بركتها(صحيح البخاري:5016)
ترجمہ:عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار پڑتے تو معوذات کی سورتیں پڑھ کر اسے اپنے اوپر دم کرتے پھر جب (مرض الموت میں) آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو میں ان سورتوں کو پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور برکت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ آپ کے جسم مبارک پر بھی پھیر لیتی تھی۔
ٹھیک اسی طرح اس بہن کو چاہئے کہ مذکورہ تینوں سورتیں پڑھ کر اپنے بچے پر دم کیا کرے ، ان تین سورتوں کے علاوہ بھی قرآن سے دوسری آیات پڑھ سکتی ہے مگر اپنی طرف سے کسی آیت کو خاص کرکے اور تعداد متعین کرکے پڑھنا غلط ہے ، ہمارے لئے محمد ﷺ کا طریقہ ہے، اسی طریقہ پر دم کریں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب بچہ زیادہ روئے تو ممکن ہے کہ اس کو جسمانی کوئی تکلیف ہواس وجہ سے ڈاکٹر سے بھی دکھائے اور اس بچے کا علاج کرائے ۔

سوال(3): بیوی کو تین طلاق دینے کا کیا طریقہ ہے اور کوئی تین دے تو کیا حکم ہے ؟
جواب:اللہ تعالی نے مرد کو ناگزیرحالات میں شرعی عذر کے تحت طلاق دینے کی اجازت دی ہے لیکن اللہ نےیہ نہیں کہا ہے کہ تم اپنی بیوی کو تین طلاق دو، تین طلاق تو اختیاری معاملہ ہے یعنی ایک مرد کو اللہ نے تین مرتبہ طلاق دینے کا اختیار دیا ہے ۔ یہ لوگوں کی لاعلمی ہے جو اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دینا ضروری سمجھتے ہیں ۔
طلاق دینے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ جو کسی شرعی عذر کی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے وہ حالت طہر میں جس میں بیوی سے جماع نہ کیا ہو بیوی کو صرف اور صرف ایک طلاق دے ۔ طلاق دینے کے بعد اسے اپنے ساتھ ہی اپنے گھررکھے (گھر سے نہ نکالے)، یہاں تک کہ عدت یعنی تین حیض آجائے ۔ اگر شوہر عدت کے دوران بیوی کو لوٹانا چاہے تو رجوع کرسکتا ہے اور رجوع کئے بغیر عدت گزر جائے تو یہی طلاق بائن ہوجاتی ہے یعنی اس سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجاتی ہے ۔
گوکہ ایک مرد کوتین عدد طلاق کا اختیار ہے مگر وہ ایک وقت میں ایک ہی طلاق دے سکتا ہے، اگر کوئی نادانی میں ایک وقت میں ایک سے زیادہ طلاق دیتا ہے تو ایک ہی واقع ہوگی۔
یہاں تین طلاق کا اختیار بھی سمجھ لیں کہ کسی مرد نے اپنی بیوی کو ایک مرتبہ طلاق دی پھر اس نے عدت میں رجوع کرلیا ، اس طرح ایک طلاق کا اختیار ختم ہوگیا، پھر کسی موقع پر دوسری مرتبہ طلاق دی اور عدت میں رجوع کرلیا تو دوسری طلاق کا اختیار ختم ہوگیا، یہ دو مرتبہ والی طلاق رجعی کہلاتی ہے ،اس لئے ان دونوں طلاق کے بارے میں اللہ نے کہا ہے کہ بیوی کو گھر سے نہ نکالو، تمہیں نہیں معلوم ممکن ہے اللہ کوئی نئی بات پیدا کردے ۔یعنی دومرتبہ تک طلاق رجعی کہلاتی ہیں اور ان میں بیوی کو گھر سے نکالنے سے منع کیاگیا ہے ، ممکن ہے کہ اللہ شوہر کا دل پھیردے اور وہ رجوع کرلے ۔ یہ حکمت ہےدو مرتبہ والی طلاق رجعی کی ، جو لوگ اکٹھی تین طلاق دیتے ہیں اور بیوی کو فورا گھر سے نکال دیتے ہیں یہ اللہ کے حکم کے ساتھ مذاق ہے۔
پھر جب شوہر تیسری مرتبہ طلاق دیتا ہے تو اب بیوی پر طلاق مغلظہ واقع ہوجاتی ہے یعنی تیسری طلاق دیتے ہی میاں بیوی میں فورا جدائی ہوجاتی ہے، اس صورت میں کوئی رجوع نہیں ہے۔ اب بیوی شوہر سے بالکل آزادہے، اپنے میکے جائے اور عدت گزار کر کسی مرد سے شادی کرے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال(4): ایک شوہر اکثر اپنی والدہ کونئے نئے کپڑا خریدکردیتا ہے جبکہ پہلے دو تین بیگ کپڑے موجود ہوتے ہیں اور یہی شوہر نکاح کے تقریبا دو سال ہونے کا ہیں بیوی کا مہر نہ ادا کرے تو ایسے شوہر کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: نکاح کے وقت عورت کے لئے جو مہر طے کیا جاتا ہے وہ عورت کا ثابت حق ہے ، مرد کو چاہئے کہ وہ نکاح کے وقت ہی ادا کردے اور اس وقت ادا کرنے کی طاقت نہ ہو تونکاح کے بعد جس قدر جلدی ممکن ہو مہر ادا کردے ۔ اللہ تعالی فرمان ہے: اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔
ہمارے سماج کا حال یہ ہے کہ نکاح کے وقت لڑکا من مرضی کا سارا جہیز حاصل کرلیتا ہے جو اس کا حق نہیں ہے لیکن بیوی کے لئے طے کیا ہوا مہر نکاح کے بعد بھی سالوں سال تک نہیں ادا کرتا ۔ ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہئے ، نہ ناحق لوگوں کا مال کھانا چاہئے اور نہ حق والوں کی حق تلفی کرنا چاہئے۔
یاد رہے کہ جس مرد نے نکاح کرلیا اور بیوی کو اس کا مہر نہیں ادا کیا اس کے ذمہ قرض باقی ہے ، کہیں اس حال میں وہ مرد دنیا سے چلا گیا تو آخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہی ہوگی ۔ رسول اللہ ﷺ ایسے شخص کا جنازہ نہیں پڑھاتے جس کے ذمہ قرض ہوتا تھا اور مہر نہ دینا گویا اپنے سر پر قرض کا بوجھ اٹھائے رکھنا ہے ۔ آخرت میں اللہ تعالی اپنے حق میں ہوئی کوتاہی کو معاف کرسکتا ہے مگر بندوں کے حقوق کو ہرگز معاف نہیں کرے گااورحق دبانے والوں کا محاسبہ کرے گا۔
جو اپنی والدہ کوبلاضرورت نئے نئے جوڑے خرید کر دے سکتا ہے وہ آسانی سے مہر بھی ادا کرسکتا ہے اور وہ مہر نہ ادا کرے تو عمدا مہر کی ادائیگی میں غفلت برت رہا ہے ، اس کو چاہئے کہ فضول خرچی اور بلاضرورت خریدوفروخت چھوڑ کر بیوی کا مہر ادا کرے ورنہ بعدمیں افسوس ہوگا۔

سوال(5):ایک حدیث آتی ہے ۔لَا تَتْرُكُوا النَّارَ فِي بُيُوتِكُمْ حِينَ تَنَامُونَ(جب سونے لگو تو گھر میں آگ نہ چھوڑو)(بخاری:6293)اس حدیث کی روشنی میں کیا ہیٹر ،گیزر،کوائل بھی اسی زمرے میں آتا ہے اور کیا یہ چیزیں بھی رات کو بند کرنا چاہئے جبکہ گیزر بند کریں گے تو فجر میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے میں مشکل پیش آئیگی ؟
جواب:جس آگ کو جلتی ہوئی نہ چھوڑنے کا حکم ہے، وہ ، شعلے والی آگ ہے جس سے گھر میں آگ لگنے کا اندیشہ ہے اور جو اس قبیل سے نہیں ہے اس کا مسئلہ نہیں ہے جیسے رات میں بلب جلتا ہے یا کوائل اور گیزر جلتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، یہ آگ کا شعلہ نہیں ہے جیسے چراغ میں ہوتا ہے۔
امام بخاری نے مذکورہ بلا حدیث (6293)کے بعد ایک دوسری حدیث(6294) ذکر کی ہے جس میں ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مدینہ منورہ میں ایک گھر رات کے وقت جل گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کہا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "آگ تمہاری دشمن ہے اس لیے جب سونے لگو تو اسے بجھا دیا کرو"۔یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے آگ لگنے والی چیزوں کو رات میں بجھاکر سونے کا حکم دیا ہے ۔
کبھی کبھی بجلی والی چیزوں سے بھی خطرہ ہوجاتا ہے، گھر میں آگ لگ جاتی اور سامان وغیرہ جل جاتا ہے ایسے میں ہمیں جس چیز میں کہیں خطرہ کا شبہ ہو اس میں جو احتیاطی تدابیر ہوتی ہیں وہ اپنائیں جیسے ہیٹر جلا کر سونا خطرے کا سبب ہوسکتا ہے ، بسا اوقات کوائل اور موم بتی سے بھی خطرہ ہوتا ہے اگر اس کو محفوظ جگہ نہ رکھا جائے ۔ہمارے گھروں میں مختلف قسم کے بجلی کے آلات ہوتے ہیں اور ان سب کے لئے کمپنی والوں نے گائیڈ بگ دی ہوتی ہے ہمیں کمپنی کے رول کے حساب سے بجلی کے سامان استعمال کرنا چاہئے ۔

سوال(6):ایک بہن عمرہ پر گئی تھی اس کو کسی دوسری عورت نے حرم میں کہا کہ اگر وضو ٹوٹ جائے تو اسپرے والے بوتل سے وضو کرلو کیونکہ وضو خانہ دور ہوتاہے اور ناک و منہ میں پانی نہیں ڈالنا کیونکہ یہ سنت ہے وضو کے فرائض میں سے نہیں ہے ، کیا اس طرح وضو ہو جائے گا ؟
جواب:وضو میں گلی اور ناک میں پانی ڈالنا واجب ہے ، اس کے بغیر وضو نہیں ہوگا ، یہ غسل میں بھی واجب ہے جو غسل میں کلی اور ناک میں پانی نہ ڈالے اس کا غسل بھی نہیں ہوگا۔
اسپرے سے چھینٹے کی طرح پانی نکلتا ہے جس سےتین تین بار میں اعضائے وضو مکمل طور پر نہیں بھیگ سکتے ہیں ، کچھ بھیگ جائیں اور کچھ خشک رہ جائیں گے اس لئے اسپرے والی بوتل سے وضو نہیں ہوگا ۔ وضو میں تین تین بار عضو دھونا ہے اور تین بار سے زیادہ عضو دھوتے ہیں تو یہ سنت کی خلاف ورزی ہے ۔ اگر کوئی اسپرے والی بوتل سے پورے اعضاء دھل بھی لے مگرکلی نہ کرے اور ناک میں پانی نہ چڑھائے تب بھی اس کا وضو نہیں ہوگا کیونکہ کلی کرنا اور ناک کی صفائی کرنا واجب ہے بلکہ نبی ﷺ نے ناک میں پانی مبالغہ کے ساتھ چڑھانے کا حکم دیا ہے اور اس طرح کرنے کو مکمل وضو کہا ہے چنانچہ لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے وضو کے بارے میں بتائیے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أسبغِ الوضوءَ وبالغ في الاستنشاقِ إلاَّ أن تَكونَ صائمًا(صحيح ابن ماجه:333)
ترجمہ:تم مکمل طور پر وضو کرو، اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرو، الا یہ کہ تم روزے سے ہو۔
ایسی عورتوں کو ایک مشورہ بھی دوں گا کہ آپ حرم شریف میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے پر وقت دینا چاہتی ہیں مگر وضو کے لئے آپ کے پاس وقت نہیں ہے تو اس عبادت کا کیا فائدہ جب صحیح سے وضو نہ کیا جائے اور آپ جان لیں کہ وضو عبادت کے لئے بہت اہم چیز ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ بغیر پاکی کے کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی ۔

سوال(7) : میں ایک پاکستانی لیڈی خاتون ہوں اور ہاسپیٹل میں نرسری میں مکمل حجاب کے ساتھ جاب کرتی ہوں ،پوری نرسری میرے سوپرویزن میں ہوتی ہے ،وہاں ایک کارنر میں نماز کے وقت پورا چہرہ ڈھک کر نماز پڑھ لوں تو نماز ہوگی، وہاں پر فیمیل اسٹاف ہے ،ایک میل اسٹاف بھی ہے جو آتا جاتا ہے تو کیا ہماری نماز ہو جائے گی؟
جواب:نماز تو اپنے وقت پر پڑھنا ہے اور جہاں جس نماز کا وقت ہوجائے اسی جگہ ادا کرنا ہے تاکہ نماز قضا نہ ہوجائے ۔ آپ جس ہاسپیٹل میں ہیں اس میں جو جگہ نماز کے مخصوص یا مناسب ہے وہاں پر پورے جسم کو ڈھک کر نماز پڑھ سکتے ہیں چاہے اس جگہ کوئی مرد بھی آجائے اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ پورا جسم سرتاپیرڈھک کرنماز پڑھیں ، اس میں آپ کا چہرہ ، ہاتھ و پیر سب ڈھکا ہوا ہو ، اس طرح پردہ کے ساتھ ہاسپیٹل کے کارنر میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ہندوستان کے حالات پاکستان سے مختلف ہیں اس لئے ڈیوٹی کے وقت ہندوستانی بہن اور بھائی نماز کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کرے جہاں پر نماز پڑھنے سے کوئی ہندو فتنہ نہ کھڑا کرے ۔

سوال(8):مجھ سے کسی خاتون نے پوچھا کہ تم کس امام کو مانتی ہو تو میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم ، اس سوال کی وجہ یہ ہے کہ میں عصر کا وقت داخل ہوتے ہی نماز پڑھ لیتی ہوں ، باقی نمازیں اذان کے بعد یا اذان کے ساتھ پڑھتی ہوں ، اس کا کیا جواب ہے؟
جواب:اللہ تعالی نے قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے ، دین میں اللہ اور رسول کے علاوہ کسی اور کی بات نہیں مانی جائے گی ۔ اللہ کا فرمان:وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ(آل عمران:32)
ترجمہ:اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اس طرح اللہ نے قرآن میں بہت ساری جگہوں پر اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا بلکہ اسی کی نیکی قبول کی جائے گی جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے جیساکہ اللہ ارشاد فرماتا ہے:
وَإِن تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ(الحجرات:14)
ترجمہ:تم اگر اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرنے لگو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ان ہی دو دلیلوں سے آپ اندازہ لگاسکتی ہیں کہ اللہ نے دینی معاملات میں صرف اللہ اور رسول کو ماننے کا حکم دیا ہے، اور کسی تیسری ہستی یا کسی امام کے ماننے کا پورے قرآن میں کہیں حکم نہیں دیا ہے ۔اس لئے ہم لوگ دین کے معاملہ میں صرف اللہ اور رسول کی پیروی کرتے ہیں اور اگراپنا امام کسی کو بناتے بھی ہیں تووہ صرف اور صرف محمد ﷺ ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے محمد ﷺ کی ذات میں ہی عمدہ نمونہ رکھا ہے، آپ سے بہتر نہ انسانوں میں کوئی ہے اور نہ انبیاء میں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا(الاحزاب:21)
ترجمہ:یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے ۔
اس آیت میں اللہ نے صاف صاف بتادیا کہ تمہارے اسوہ ، تمہارے نمونہ ، تمہارے رہبر ، تمہارے قائد صرف اور صرف محمدﷺ ہیں جن کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔جب آپ ﷺ جیساکوئی نہیں ہے پھر آپ کو چھوڑ کر دوسرے کو کیوں امام بنایا جائے گا؟۔نبی کو رہبر بنانے کی قرآن سے دلیل ملتی ہے جبکہ نبی کے علاوہ دوسرے کو اپنا امام بنانے کی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے ۔ نبی ﷺ دنیا میں بھی ہمارے امام ہیں اور آخرت میں بھی یہ امت نبی ﷺ کے جھنڈا تلے ہوگی ۔ جو لوگ نبی کو چھوڑ کر دوسرے کو اپنا امام بناتے ہیں ان کےلئے دنیاوآخرت دونوں جگہ ناکامی ہے ۔ اللہ نے اعلان کردیا ہے ۔
وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا(الاحزاب:71)
ترجمہ: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، وہ یقیناً بڑی کامیابی سے سرفراز ہوگا۔
آپ بہن جو نمازوں کو اپنے اوقات میں ادا کرتی ہیں ، صحیح کرتی ہیں کیونکہ رسول نے نمازوں کو اول اوقات میں ادا کرنے کو افضل قرار دیا ہے ۔ نماز اللہ کی عبادت ہے اور عبادت اسی طرح اور اس وقت میں انجام دینی ہے جیسے اللہ اور اس کے رسول نے کہا ہے ۔
جس بہن نے آپ سے امام کے بارے میں پوچھا آپ اس سے پوچھیں کہ آپ جس امام کو مانتی ہو اس کو ماننے کے لئے اللہ اور رسول نے کہاں حکم دیا ہے اوراس کی دلیل کیا ہے ؟اور کیا تمہارے امام محمد ﷺ سے بڑھ کر ہیں؟ جب تمہارے امام نبی سے افضل نہیں اور تمہارے امام کے لئے اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی تو تم محمد ﷺ کو چھوڑ کر کیوں دوسرے کو اپنا امام بناتی ہو؟۔

سوال(9):ایک عورت کی چھ سال پہلے شادی ہوئی ، دو سال تک دونوں ساتھ رہے، پھر شوہر اپنی بیوی کا مال وغیرہ ہڑپ کر کہیں چلا گیا پھر پتہ چلا کہ اس آدمی نے اس عورت سے دوسری شادی کی تھی ، اس کی پہلی بیوی موجود تھی اور اب وہ تیسری شادی بھی کر چکا ہے ۔جب اس عورت نے ملنے کی کوشش کی تو مرد نے ڈرایا دھمکایا کہ اس کے گھر کے قریب بھی نہ آئے ۔اور اس کو ایک مرتبہ سامنے سے طلاق بھی دیا پھر فون کے ذریعہ ایک طلاق دیا ۔ اب چار سالوں سے اس آدمی کا کوئی پتہ نہیں ہے، نہ اس نے عورت سے ملنے کی کوشش کی، عورت کا سوال ہے کہ اس حالت میں وہ کیا کرے ،دوسری شادی کے لئے لوگ پروف مانگیں گے کہ طلاق ہوئی یا نہیں جبکہ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے ، زبانی طلاق دی گئی ہے اب یہ کیا کرے ؟
جواب:جس عورت نے کسی شادی شدہ مرد سے شادی کی پھر اس کا شوہر اسے چھوڑ کر چلا گیا ، بعد میں اس کو سامنے سے یعنی منہ پر ایک طلاق دیا پھر فون پر دوسری طلاق دیا توایسی صورت میں صرف پہلی طلاق معتبر ہوگی اور دوسری طلاق لغو ہوگی اس کی وجہ یہ ہے کہ شوہر نے پہلی طلاق دی اوربغیر رجوع کے فون پر عدت میں دوسری طلاق دی تو یہ دوسری طلاق نہیں ہوگی کیونکہ عدت میں دوسری طلاق معتبر نہیں اور اگرپہلی طلاق کے بعد عدت گزر گئی ہوپھرفون پرطلاق دی ہو تو اس وقت یہ عورت اس مرد کی بیوی ہی نہیں تھی اس لئے دوسری طلاق لغو ہے کیونکہ عدت گزرنے سے رشتہ نکاح ختم ہوگیا تھا ایسے میں دوسری طلاق دینے کا مرد کو اختیار نہیں ہے ۔
بہرکیف ! اگر شوہر نے بیوی کو طلاق دی تھی اوراس نے عدت میں رجوع نہیں کیا تھا تو میاں بیوی کا رشتہ اس مرد سے ختم ہوگیا ہے ، یہ عورت اب دوسرےکسی مرد سے شادی کرسکتی ہے ۔ اگرشادی کے وقت سماج کو دکھانے کے لئے کوئی ثبوت چاہئے تو کسی مستند ادارے سے اپنا یہ معاملہ لکھ کر فتوی حاصل کرے ، جب اس کو لیٹرپیڈ پردستخط کے ساتھ مستند ادارے کا فتوی حاصل ہوجائے گا تو شادی کے لئے یہ فتوی کافی ہوگا۔

سوال(10): خاتون کی نماز پڑھنے کے لئےایک سنگل جائے نماز ہے جس میں ایک ساتھ بچے کے لئے بھی چھوٹی جائے نماز اٹیچ ہے یعنی دونوں ایک ساتھ ہے ، دونوں جائے نماز کے درمیان میں دل کی تصویر ہے اور جائے نماز کے اوپری سرے پر سجدہ کے پاس قرآن کی آیت "رب اجعلنی مقیم الصلاۃ ومن ذریتی" لکھی ہوئی ہے، اس قسم کی جائے نماز کا کیا حکم ہے ؟
جواب:قرآن کی آیت کو اس طرح جائے نماز پر لکھنا قرآن کی توہین ہے ، جب قرآنی آیات کو دیوار پر نہیں لٹکا سکتے ہیں تو زمین پر بچھائے جانے والی جائے نماز پر کیسے قرآنی آیت لکھ سکتے ہیں ، نعوذباللہ من ذلک ، یہ بڑی گستاخی ہے، لوگ کس درجہ دین میں جہالت کا ثبوت پیش کررہے ہیں؟ ۔
دل کا نشان حرمت میں داخل نہیں ہے پھربھی اس کے استعمال سے بچنا بہتر ہے کیونکہ اسےعشاق وفجارقسم کے لوگ عشق وعاشقی کے لئے استعمال کرتے ہیں اس لئے ایسی علامت جائے نماز جیسی مقدس جگہ پر ہونا باکل مناسب نہیں ہے ۔سادے قسم کے بھی نقش ونگار جائے نماز کے لئے صحیح نہیں کیونکہ یہ نماز میں اپنی طرف توجہ مبذول کرنےو الی چیز ہے۔
بہرحال مسلم ماں اور بہنوں کو اس طرح کی چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور جو اس طرح کی چیز استعمال کرے اس کو غلطی پر متنبہ کریں بلکہ جو اس طرح کی جائے نماز بنانے کا کام کررہی ہے اس کے بارے میں پتہ چلے تو اس کو سخت لہجے میں تنبیہ کریں اور ڈرائیں تاکہ وہ اس عمل سے باز آجائے۔

سوال(11):اگر کسی عورت کے بال مضبوط بندھے ہوں تو کیاغسل حیض کے وقت اس کا دھونا ضروری ہے ، اگر ہم نہ کھولیں تو کیسا ہے اور غسل کے بعد پھر حیض آجائے تو کیا اگلے غسل کے لئے بال کھولنا ضروری ہے؟
جواب:اگر کسی عورت کا بال مضبوطی سے چوٹی کی شکل میں بندھا ہوا ہو تو غسل حیض میں اسے کھولنے کی ضرورت نہیں ہے ، سر پر چلو سے اس طرح پانی بہائیں کہ بالوں کی جڑوں کوپانی پہنچ جائے یہ کافی ہے ۔ اس سلسلے میں یہ حدیث ملاحظہ کریں ۔حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے عرض کی کہ:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي امْرَأَةٌ أَشُدُّ ضَفْرَ رَأْسِي، فَأَنْقُضُهُ لِغُسْلِ الْجَنَابَةِ؟ قَالَ: لَا، إِنَّمَا يَكْفِيكِ أَنْ تَحْثِي عَلَى رَأْسِكِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ، ثُمَّ تُفِيضِينَ عَلَيْكِ الْمَاءَ فَتَطْهُرِينَ (صحیح مسلم:330)
ترجمہ:اے اللہ کے رسول! میں ایک ایسی عورت ہوں کہ کس کر سر کے بالوں کی چوٹی بناتی ہوں تو کیا غسل جنابت کے لیے اس کو کھولوں؟آپ نے فرمایا: نہیں، تمہیں بس اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے سر پر تین چلو پانی ڈالو، پھر اپنے آپ پر پانی بہا لو تم پاک ہو جاؤں گی۔
یہاں پر غسل جنابت کا ذکر ہے اور یہی غسل، حیض ونفاس کے لئے بھی کیا جاتا ہے یعنی حیض ونفاس کا وہی غسل ہے جو جنابت کا غسل ہے ۔ غسل کے بعد پھر سے حیض آجائے تو اس میں ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ حیض ہے کہ نہیں ؟ اگر طہارت کے بعد کچھ زردی وغیرہ آئے تو حیض نہیں ہوتا ہے اورجب وہ حیض نہیں ہے تو پھر اس میں غسل حیض بھی نہیں ہے ۔ ہاں کسی عورت کو رک رک کربھی حیض آتا ، اس طرح اگر دوبارہ حیض آگیا تو پاک ہونے پر دوبارہ غسل کرنا ہے اور چوٹی کا وہی مسئلہ ہے کہ غسل کے وقت چوٹی کھولنے کی ضرورت نہیں ہے ، سر پر پانی بہانا ہی کافی ہے ۔

سوال(12): ایک شخص کی وفات ہوگئی ہے ، وہ سرکاری ملازم تھا، وفات کے بعد اس کی بیوی کے اکاؤنٹ میں پینشن آتا ہے تو کیا اس میں سے میت کی والدہ کا شرعا کوئی حصہ ہے ؟
جواب: اس مسئلہ میں حکومت کی پالیسی دیکھی جائے گی ، اگر حکومت کی پالیسی کے حساب سے یہ پینشن بیوی کے لئے دیا جارہا ہے تو اس میں میت کی والدہ کا حصہ یا دوسرے وارث کا حصہ نہیں ہوگا، اس پیسے کو حکومت کی پالیسی کے حساب سے میت کی بیوی استعمال کرے گی کیونکہ یہ صرف اسی کا حق ہے ، یہی وجہ ہے کہ حکومت اس پیسے کو صرف بیوی کے اکاؤنٹ میں بھیجتی ہے اور بیوی وفات پاجائے تو یہ پینشن بھی بند ہوجاتا ہے ۔ میت کی بیوی اپنی طرف سے کسی کو کچھ دے تو یہ الگ معاملہ ہے۔

سوال(13):ایک لیڈیز پرس ہے جس پرپورے پرس میں چوکور کالےو سفید رنگ کا مربع نماز کلر ہےیعنی جس تخت پر شطرنج کھیلا جاتا ہے اس جیسا کلرتو کسی نے کہا کہ اس بیگ کا استعمال نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ یہ شطرنج کا کلر ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب: اگرکسی پرس پر شطرنج کھیلے جانے والے تخت جیسا کالے وسفید میں مربع مربع نقش بنا ہوا ہے تو اس بیگ کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ محض ایک کلر ہے جس کی کسی حدیث میں ممانعت نہیں آئی ہے ۔ایسا کلر کسی کپڑے میں ہو یا بیگ میں ہو یا کسی بورڈ میں ہو اس کے استعمال میں حرج نہیں ہے ۔اسلام میں شطرنج منع ہے جو کہ ایک قسم کا کھیل اور جوا ہے ، رنگ منع نہیں ہے ۔ ہاں اگر شطرنج میں استعمال ہونے والے مہرے کی تصویر کہیں بنی ہو جو جاندار والی ہو تو اس چیز کا استعمال نہیں کریں گے ۔

سوال(14):شریعت کے لحاظ سے حج وعمرہ کے لئے عورت کو محرم کا ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن جب یہ بات کی جاتی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ بغیر محرم کے بھی حج وعمرہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ ازواج مطہرات نے عبدالرحمن کے ساتھ بغیر محرم کے حج کیا تھا، اس سلسلے میں صحیح بات کیا ہے؟
جواب:سفر کے معاملہ میں رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے کہ عورت بغیر محرم سفر نہ کرے ، خواہ حج و عمرہ کا سفر ہو یا کوئی اور سفر۔اور جہاں تک ازواج مطہرات کے حج کا معاملہ تو ہے اس بارے میں صحیح بخاری (1860) میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے آخری حج کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو حج کی اجازت دی تھی اور ان کے ساتھ عثمان بن عفان اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہما کو بھیجا تھا۔ اس سے دلیل پکڑتے ہوئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ عورت بغیر محرم سفر حج کرسکتی ہے، ہرگز نہیں کیونکہ اصلا دین اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کا نام ہے جو آپ ﷺ کے عہد میں ہی مکمل ہوگیا تھا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ نبی کی بیویاں امت کی مائیں ہیں ، اس لحاظ سے سارے مرد ازواج کے لئے محرم ہوگئے ۔ بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ ازواج مطہرات نے محارم کے ساتھ حج کیا تھا اور ساتھ میں عثمان رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو شرف و اکرام کے لئے بھیجا تھا ۔ نبی کی بیویاں دین کو اوروں سے زیادہ سمجھتی تھیں وہ سنت رسول کی مخالفت نہیں کرسکتی ہیں جس میں کہاگیا ہے کہ کوئی عورت بغیر محرم سفر نہ کرے اس لئے ان کے عمل میں بغیر محرم سفرکرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔

سوال(15):ایک بہن کے پاس عمرہ کے لئے پیسے جمع ہیں ، اب ان کا جانا نہیں ہورہا ہے تو جو پیسے ان کے پاس ہیں ان کی زکوۃ دی جاسکتی ہے؟
جواب:جس بہن نے عمرہ کا ارادہ کیا ہوا ہے خواہ وہ عمرہ کرے یا نہ کرے، یہ الگ مسئلہ ہے لیکن اگر اس کے پاس نصاب کے بقدر پیسے جمع ہوگئے ہیں اور اس پیسے پر ایک سال مکمل ہوگیا ہے تو اس کی زکوۃ دینا ہوگا۔سال مکمل ہونے سے پہلے اگر وہ پیسے کسی کام میں استعمال ہوجاتے ہیں مثلا عمرہ میں یا اور کسی کام میں یا پھراس پیسے میں سال مکمل ہونے سے پہلے اتنے پیسے کم ہوجاتے ہیں کہ باقی بچے پیسے زکوۃ کے نصاب کو نہیں پہنچتے تو ان دونوں صورتوں میں زکوۃ نہیں دینا ہے ۔

سوال(16): ایک عورت کو پورے ہاتھ میں تکلیف ہے ، اس کو ڈاکٹر نے گلفس پہننے کے لئے دیا ہے ، اس کو وضو کے لئے باربار اتارنے میں حرج ہے تو گلفس کے اوپر سے وضو کیا جاسکتا ہے ؟
جواب:اس گلفس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ اس گلفس کو نکالنے سے ڈاکٹر نے منع کیا ہو تو ایسی صورت میں اس گلفس پر مسح کرلیا جائے گا لیکن بقیہ حصے جیسے چہرہ و پیر کو دھلاجائے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ گلفس آسانی نے نکال سکتے ہیں اور پانی بھی استعمال کرسکتے ہیں، اس میں کوئی ضرر نہ ہو تو پھر وضو کرتے وقت گلفس نکال کراس کو پانی سے وضو کی طرح وضو کیا جائے گالیکن اگرآسانی سے گلفس نہ نکلے اس میں دشواری ہو تو پھر ایسی صورت میں اس پر مسح کیا جاسکتا ہے تاہم بقیہ حصہ کو دھونا ہے ۔ اور پھر ایک مرتبہ وضو کرکے وضو باقی ہو تو اسی وضو سے دوسرے وقت کی نماز پڑھ سکتے ہیں ۔

سوال(17):ایک بچی تین ماہ کی فوت ہوگئی ، ماں نے بچی کو دودھ پلایا تھا ، اس کے بعد ماں بھی سوگئی اور بچی بھی، شاید نیند میں ہی جب بچی قے کرتی ہے تو الٹا سانس کی نالی میں چلا گیا جس سے بچی کی وفات ہوگئی ،اس پہ کسی بہن نےاس ماں سے کہا کہ یہ تم سے بچی مری ہے اس لئے اس کے کفارہ کے طور پر تین ماہ کا روزہ رکھو ،کیا ایسا کہنا اور ایسا کرنا صحیح ہے ؟
جواب:جس نے یہ بات کہی ہے کہ تین ماہ کے روزے رکھو اس نے غلط کہا ہے، اس پر عمل نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس میں ماں کا کوئی قصور نہیں ہے ، اگر ماں کا کچھ قصور نکل بھی آئے تو اس پہ تین ماہ کے روزے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ قے کی وجہ سے بچی کی موت ہوئی ہو یا بغیر قے کے، اس کی موت اللہ کی طرف سے مقدر تھی ، وفات پاگئی اور بچی کی ماں کے ذمہ کوئی روزہ نہیں ہے ۔
جس بہن نے بغیر علم کے فتوی دیا ہے اس کو کہیں کہ بغیر علم کے فتوی نہ دیا کریں ، اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کو سخت تنبیہ کی ہے ، فرمان الہی ہے :
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ(الاسراء:36)
ترجمہ:اور ایسی بات کے پیچھے نہ پڑو جس کا تجھے علم نہیں۔

سوال(18):ایک ہفتہ کے لڑکے کی میت کو کیا عورت غسل دے سکتی ہے؟
جواب: یہ ابھی بچہ ہے، جیسے اس بچے کو اس کی عام حالت میں یعنی زندہ رہتے ہوئے اس کی ماں نہلا سکتی ہے اسی طرح اس کی ماں اپنے اس میت بچے کو غسل دے سکتی ہے حتی کہ کوئی دوسری عورت بھی اس بچے کو غسل دے سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال(19):اگر کوئی عورت جہنم میں جانے کے ڈر سے شوہر سے علاحدگی چاہے کہ کہیں اس کی نافرمانی کرکے جہنم میں نہ داخل ہوجاؤں اور باقی زندگی اکیلے گزارنا چاہے تو کیا صحیح ہے ؟
جواب:اس نیت سے کوئی عورت خلع نہیں لے سکتی ہے، خلع کے لئے شرعی عذر ہونا چاہئے ورنہ عورت گنہگار ہوگی اور شوہر بلاوجہ طلاق دے تو شوہر بھی گنہگار ہوگا۔ صرف اس نیت سے کہ میں شوہر کی ناشکری کرسکتی ہوں خلع لینا جائز ٹھہرے گا تو پھر ایسی عورت کے لئے شادی کرنا بھی ناجائز ہوگی کہ شادی کرکے کہیں شوہر کی ناشکری نہ ہو، پھر کہیں کوئی یہ نہ کہےکہ اللہ نے اس عورت کو کیوں پیدا کیا جس سے ناشکری ہوگی ؟ یہ سوچ و نیت غلط ہے ۔ اسلام میں شادی مسنون ہے ، انبیاء کی سنت ہے ۔ عورت و مرد کو شادی کرکے اپنے حقوق ادا کرنا چاہئے ۔ عورت ومرد کے بہت سارے مسائل کا حل شادی ہے خصوصا شرمگاہ کی حفاظت کا ذریعہ ہے ۔

سوال(20):چیونٹی کو مارنے سے متعلق ایک حدیث میں ہےکہ آگ کا عذاب صرف اللہ دے سکتا ہے تو میرا سوال یہ ہے کہ عورتیں ہیئر اسٹریٹینر استعمال کرتی ہیں جس سے وہ جوئیں بھی جل جاتی ہیں جو بالوں میں ہوں تو کیا یہ استعمال کرسکتے ہیں ؟
جواب:ہیئر اسٹریٹینر ایک قسم کا الیکٹرانک برش ہے جو بالوں کو سیدھا کرتا ہے اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اگر اس سے جوئیں مرجاتی ہیں تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ جوئیں مار سکتے ہیں ، آپ شیمپو ، لوشن یا عام کنگھیوں سے بھی جوئیں مارتے ہیں ۔یہ عمل آگ کے عذاب کی طرح نہیں ہے ، یہ تو محض برقی چیز ہے جیسے برقی جھٹکے سے موذی قسم کے حشرات الارض کو مارنا جائز ہے ۔

سوال(21):ایک لڑکی کا کڈنی آپریشن ہوا ہے اس کو ڈاکٹر نے اس حصے کو دھونے سے منع کیا ہے تو اس لڑکی کو حیض کے بعد کیسے غسل کرنا ہے اور نماز پڑھے گی تو نماز ہوجائے گی ؟
جواب:آپریشن کی وجہ سے جس حصہ کو پانی لگانا منع ہے ، غسل کے وقت اس حصہ کو پانی نہ لگائے ، باقی حصے کو دھل لے اور آپریشن والے حصہ پر تر ہاتھ سے مسح کرلے ۔ اس طرح اس کا غسل ہوجائےگا اور وضو کرکے نماز پڑھتی رہے ، اس کی نماز صحیح رہے گی ۔

سوال(22):ایک عورت اپنے گھر اذان سے ایک دو منٹ پہلے نماز کی نیت کرسکتی ہے؟
جواب:عورتوں کی نماز کا مسئلہ یہ ہے کہ جب نماز کا وقت داخل ہوجائے وہ نماز پڑھ سکتی ہے، ان کو اذان کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اگر نماز کا وقت ہوگیا ہے اور اذان ہونے میں ایک دو منٹ باقی ہے تو عورت اپنی نماز پڑھ سکتی ہے کیونکہ نماز کے لئے اصل وقت کا داخل ہونا ہے، اس سلسلے میں صحیح کلینڈر اپنے پاس رکھیں جس سے نمازوں کے اصل اوقات جان سکیں ۔مساجد کی اذان کبھی نماز کے اول وقت پر بھی ہوسکتی ہے اور کبھی تاخیر سے بھی ہوسکتی ہےایسے میں کلینڈر آپ کی صحیح رہنمائی کرسکتا ہے ۔
اگرمستند کلینڈر کے حساب سے نماز کا وقت ہوجائے تو آپ اپنی نماز کی نیت کرسکتے ہیں اور نماز پڑھ سکتے ہیں ،آپ کے لئے اذان کا انتظار کرناضروری نہیں ہے اور یہ اذان تو اصلامسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے والوں کے لئے دی جاتی ہے۔

سوال(23):سالگرہ منانا غلط ہے تو کیا ایک عورت اپنی پیدائش کے دن نیا لباس پہن سکتی ہے اور اچھا کھانا پکا سکتی ہے؟
جواب:اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سالگرہ منانا جائز نہیں ہے، یہ غیروں کی نقالی اور ان کی مشابہت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو غیر قوم کی مشابت اختیار کرتا ہے وہ ان ہی میں سے ہے اس لئے کسی مسلمان مرد یا عورت کو اپنے جنم دن یا شادی کی سالگرہ نہیں منانا چاہئے ۔ سالگرہ چاہے تقریب و مجلس کی صورت میں دھوم دھام سے منائیں یا اچھا کپڑا پہن کر اور اچھا کھانا پکاکر گھر والوں کے ساتھ منائیں ، یہ بھی سالگرہ منانا ہے ۔ جب آپ نے سالگرہ کی مناسبت سے اچھا کپڑا پہنا اور اچھا کھانا بنایا تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے سالگرہ منایا کیونکہ آپ نے اس کے لئے اہتمام کیا۔ لہذا یہ عمل بھی جائز نہیں ہے ،آپ اس کام سے بچیں ۔

سوال(24):عورت کا مال ورثے میں کیسے تقسیم کریں گے ، کیا شوہر ، والدین اور اولاد کو دینا ہے؟
جواب:جیسے مرد کا مال تقسیم ہوتا ہے ویسے ہی عورت کا بھی مال تقسیم ہوتا ہے ۔ اگر عورت زندہ ہے تو اس کی جائیداد تقسیم نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وراثت کی تقسیم وفات کے بعد ہوتی ہے ۔ اس وقت اگر میتہ(عورت) کے والدین ، اولاد اور شوہر زندہ ہوں تو سب کو حصہ ملے گا۔ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں شوہر کو چوتھائی حصہ ، ماں کو چھٹا حصہ ، باپ کو چھٹا حصہ اور لڑکے و لڑکی کو اکہرا و دہرا حصہ ملے گا۔

سوال(25): ایک عورت کسی جاننے والے کے ذریعہ صدقہ یا زکوۃ کے پیسوں سے حرم شریف میں کرسیاں خرید کر دینا چاہتی ہے کیا یہ جائز ہے اور ایک دوسری عورت یونہی پیسے بھیج رہی ہے تاکہ مصحف خرید کر حرم میں رکھ دیا جائے صدقہ یا زکوۃ کی نیت نہیں ہے محض اجر کی نیت سے کیا یہ بھی جائز ہے؟
جواب:مسجد حرام اور مسجد نبوی میں ضرورت کی تمام چیزیں حکومت مہیا کرتی ہے اور اس مقدار میں مہیا کرتی ہے جس تناسب میں ضرورت ہواس لئے حرمین شریفین کی مساجد میں کوئی چیز وقف کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے مزید برآں حکومت کی طرف سے یہاں کچھ رکھنے کی بھی ممانعت ہے کیونکہ ممکن ہے کوئی یہاں پر ایسی چیز چھوڑ جائے جو صحیح نہیں ہے جیسےکوئی صوفی یہاں تصوف کی کتاب چھوڑ جائے یا کوئی یہاں پرایسا مصحف رکھ دے جس میں اپنی طرف سے کچھ بدعی چیزیں شامل کی گئی ہوں۔ اس بنیاد پر میں یہ کہوں گا کہ آپ جو چیز مساجد کو وقف کرنا چاہتے ہیں اس کو ایسی مسجد میں وقف کریں جہاں اس کی ضرورت ہوخصوصا اپنے قریب کی مسجد میں ۔ ہمارے یہاں بہت ساری مساجد میں مصحف کی کمی ہوتی ہے، ایسے میں ہم اپنے یہاں کی مساجد میں قرآن وقف نہ کرکے انڈیا وپاکستان سے حرمین کی مساجد کے لئے بھیجتے ہیں جہاں ضرورت بھی نہیں ہے ، ہم صحیح نہیں کرتے ہیں ۔ آپ وقف کی چیز ضرورت والی جگہ میں وقف کریں اور دوسری بات یہ ہے زکوۃ کے پیسوں سے سامان خرید کر مسجد کے لئے کوئی چیز وقف نہیں کریں گے ، زکوۃ کا پیسہ مستحقین کو پیسہ کی شکل میں دیں گے اور مسجد میں کوئی چیز وقف کرتے ہیں تو صدقہ کی نیت سے دیں ۔

سوال(26):میں حمل سے ہوں ، حمل میں کافی تکلیف ہوتی ہے، مسلسل خون بھی جاری رہتا ہے ، سارا وقت بیڈ پر گزرتا ہے، کام کرنا میرے لئے مشکل ہوتا ہے، میرے جوڑواں بیٹے ہیں ، اس کے بعد بھی بیٹا ہے ۔ اب بچے اسکول جانے لگے ہیں ، مجھے ان بچوں کو تیار کرنا ، ناشتہ بنانا، نہانا ، کپڑے صاف کرنا اور دیکھ بھال کرنا ہوتا ہے ۔ اگر پھر سے حمل ہوا تو نوماہ ان بچوں کو اسکول کی تیاری کیسے ہوگی اور دیکھ بھال کیسے ہوگی ، اس وجہ سے کیا میں بچہ دانی بند کرواسکتی ہوں، اس میں کوئی گناہ تو نہیں ہوگا جبکہ میرے ساتھ عذر ہے ؟
جواب:حمل کی حالت میں تمام عورتوں کو تکلیف ہوتی ہے، تکلیف اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ قرآن نے اسے "وھنا علی وھن" یعنی تکلیف در تکلیف کہا ہے اس لئے بلاشبہ حمل تکلیف دہ مرحلہ ہے لیکن تکلیف کی وجہ سے کوئی عورت کہے کہ ہم بچہ دانی بند کروالیں ، یہ جائز نہیں ہے ۔ آپ کے تین بچے پہلے ہیں یہ چوتھا بچہ ہوگا۔ گویا اولاد کی کثرت بھی نہیں ہے ۔ آپ کا اصل مسئلہ حمل کی حالت میں بچوں کے اسکول کی تیاری ہے ۔ اس وجہ سے خاندانی منصوبہ بندی کرانا جائز نہیں ہے، یہ کوئی شرعی عذر نہیں ہے ۔ گھریلو کام صرف بیوی کا ہی نہیں ہے اس میں مرد کوبھی تعاون کرنا چاہئے ، اگر وہ نہ کرسکے ، باہر رہتا ہو تو کسی کو خدمت پر مامور کرنا چاہئے ۔ آپ وقفہ کے لئے یعنی کچھ ماہ و سال حمل روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر کرسکتے ہیں مگر پوری طرح نسل ہی بند ہوجائے ایسا راستہ اختیار نہیں کرسکتے ہیں ۔ اسلام نے مردوں کو تو زیادہ بچہ پیدا کرنے والی عورتوں سے شادی کا حکم دیا ہے اور آپ اس کو بند کرانے کا سوچ رہی ہیں ۔ یہ غلط سوچ ہے ۔ آپ بچہ بند کرانے کا نہ سوچیں بلکہ احتیاط کریں اور احتیاطی تدابیر اپنائیں یا احیتاط نہیں کرپاتے ہیں تو تکلیف وضرورت کے وقت شوہر یا رشتہ دار یا دائی کی خدمت حاصل کریں ۔
 
Top