مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 461
- پوائنٹ
- 209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط- ۲۳)
جواب از مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، مسرہ طائف-سعودی عرب
سوال(1):عورتوں میں یہ خیال عام ہے کہ بیوہ چار ماہ دس دن کسی اجنبی مرد کے سامنے نہیں آسکتی ہے اور نہ اس سے کوئی بات کرسکتی ہے کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: عورتوں کا یہ خیال غلط ہے بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ پڑھے لکھے مردوں میں بھی یہ بات عام ہے ، اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اگر بیوہ نصف عدت پہ کسی اجنبی کو دیکھ لے تو پھر نئے سرےسے عدت گزارنی ہوگی۔ مجھ سے کتنی عورتوں نے سوال کیا ہے کہ کیا میرا شوہر فون پر بیوہ عورت کی تعزیت کرسکتا ہے؟ اس مسئلے کی حقیقت یہ ہے کہ بغیرپردہ کے عورت کبھی بھی اجنبی مرد کے سامنے نہیں آسکتی ہے اور نہ بلا ضرورت اس سے بات کرسکتی ہے لیکن اگر ضرورت پڑے تو پردے کے ساتھ مرد کے سامنے بھی آسکتی ہے اور اس سے ضرورت کے مطابق بات بھی کرسکتی ہےیعنی پردہ اور گفتگو کا وفات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سوال(2):گود بھرائی کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
جواب: بے بی شاور (حاملہ عورت کی گودبھرائی)دراصل مغربی تہذیب ہےجو ہندی فلموں اور ٹی وی سیریلوں کے ذریعہ مسلم معاشرے میں رواج پاگیا ہے۔حمل کے ساتویں یا آٹھویں ماہ میں گودبھرائی کی تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں عورت ومرد کے اختلاط کے ساتھ ناچ وگانے انجام دئے جاتے ہیں ، تحائف اور پھلوں سے حاملہ کی گود بھری جاتی ہےاور زچہ بچہ کے نام پر خوشی منائی جاتی ہے۔ غرض یہ کہ مختلف علاقوں میں مختلف طرح سے بچے کی آمد پر اس کا خیرمقدم اور حاملہ کی خدمت میں مبارکبادی پیش کی جاتی ہے۔
قرآن نے حمل کے مرحلے کو تکلیف درتکلیف کا نام دیا ہے یعنی عورت حالت حمل میں بہت تکلیف سے گزر رہی ہوتی ہےخصوصا حمل کے آخری مرحلے میں، اس تکلیف کے باعث اسلام نے عورت کا درجہ اونچا کیا ہے بلکہ زچگی شدید تکلیف کا مرحلہ ہے اس میں عورت کی جان بھی جاسکتی ہے ، اس موت کو شہادت کا مقام ملا ہے۔ ان باتوں کو مدنظر رکھنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حمل کے واسطے سادگی والی خوشی کی تقریب بھی صحیح نہیں اورفحش ومنکرات والی تقریب تو سرے سے جائزہی نہیں ہے، ساتھ ہی اس میں غیراقوام کی مشابہت بھی ہے ۔ آپ خوشی منائیں اور مناسب صورت میں دعوتی تقریب بھی منعقد کریں مگر بچے کی پیدائش کے بعد اس کے ساتویں دن جسے اسلام نے عقیقہ کا نام دیا ہے۔
سوال(3): جب بیوہ کی دوسری شادی ہوگی اس وقت سابقہ شوہر کی وراثت سے حصہ نہیں لےسکتی ہے؟
جواب: شوہر کی وفات کے بعد بلاشبہ بیوہ کا اس کے شوہر کی جائداد میں حصہ ہے ، اولاد ہو تو آٹھواں اور اولاد نہ ہو چوتھا۔لہذا میت کی وراثت تقسیم کرنے والوں کو بیوہ کا بھی حصہ نکالنا چاہئے ۔ یہاں یہ واضح رہے کہ بیوہ کی وراثت کا دوسرے نکاح سے کوئی تعلق نہیں ہےیعنی بیوہ دوسرا نکاح کرے تو وراثت نہیں ملے گی اور نکاح نہ کرے تو وراثت ملے گی ،شرعا اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
سوال(4): کیا بعض عورتوں کو نبوت ملی تھی جیسے مریم علیہا السلام ؟
جواب: بعض علماء (ابوالحسن اشعری، قرطبی اور ابن حزم وغیرہم) نے کہا ہے کہ بعض عورتوں کو نبوت ملی ہے ، ان میں حوا، سارہ، ہاجرہ، ام موسیٰ، آسیہ زوجہ فرعون اور مریم علیہن الصلوٰۃ و السلام کا نام آتا ہے۔یہ علماء ان نصوص سے استدلال کرتے ہیں جن میں ان عورتوں کی بابت وحی، اصطفاء(چن لینا) اور فضیلت کا ذکر ہے جیساکہ ام موسی کے متعلق آیا ہے ۔ وَأَوْحَيْنَآ إِلَىَ أُمّ مُوسَىَ(القصص:7) ترجمہ: ہم نے موسی علیہ السلام کی ماں کو وحی کی ۔
مریم علیہا السلام کے متعلق آیا ہے ۔يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ[آل عمران:42)
ترجمہ: اے مریم! اللہ تعالی نے تجھے چن لیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:كَمَلَ مِنَ الرِّجالِ كَثِيرٌ، ولَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّساءِ إلَّا مَرْيَمُ بنْتُ عِمْرانَ، وآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ(صحيح البخاري:3769)
ترجمہ: مردوں میں سے تو بہت سے کامل ہو گزرے ہیں لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کے سوا اور کوئی کامل پیدا نہیں ہوئی۔
یہ اور ان جیسے دیگر نصوص میں کہیں عورتوں کے متعلق نبوت کی صراحت نہیں ، اس وجہ سے ہم ان کی فضیلت دنیا کی خواتین پر تسلیم کرسکتے ہیں مگر نبوت نہیں تسلیم کرسکتے ہیں بلکہ ایک آیت میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ نبوت مردوں کو ہی ملی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى(یوسف: 109)
ترجمہ: ہم نے آپ سے پہلے صرف مردوں کو ہی پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جنکی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے۔
سوال(5): عورتوں کے لئے اپنے گھنگھرالے بالوں کو سیدھا کرنا یا سیدھے بالوں کو گھنگھرالا بنانا کیسا ہے ؟
جواب : بسا اوقات بعض عورتوں کے بال طبعی طور پر گھونگھرالے ہوتے ہیں ایسے میں بالوں کو سیدھا کرنا ایک ضرورت ہے اس میں کوئی حرج ہی نہیں ہے البتہ بلاضرورت زینت کے مقصد سے سیدھے بال کو گھونگھرالےبنوانا شوہر کے واسطے ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن لوگوں کو مائل کرنےاور غیروں کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے ہو تو جائزنہیں ہے ۔(ماخوذ از مسلم خواتین کے سر کے بال کے احکام-مقبول احمد سلفی)
سوال(6): کیا اندھے مرد سے بھی پردہ کیا جائے گا؟
جواب: اندھے سے پردہ نہیں ہے کیونکہ پردہ کرنے کا مقصداجنبی مردوں کی نظر سے بچنا ہے جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
إنَّما جُعِلَ الِاسْتِئْذَانُ مِن أجْلِ البَصَرِ(صحيح البخاري:6241)
ترجمہ: اجازت مانگنا تو ہے ہی اس لیے کہ (اندر کی کوئی ذاتی چیز)نہ دیکھی جائے۔
اوراس بات پر صریح دلیل بھی موجودہے کہ اندھے سے پردہ نہیں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس سے جب اس کے شوہر نے اسے طلاق دی تو فرمایا:اعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فإنَّه رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ(صحيح مسلم:1480)
ترجمہ؛ تم ابن ام مکتوم کے گھر عدت پوری کرو اس لیےکہ وہ ایک اندھے آدمی ہیں وہاں تم اپنے کپڑے اتار سکتی ہو۔
ابو داود(4112)، ترمذي(2778)، اور مسند احمد (26579) وغیرہ کی حدیث جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام سلمہ اور میمونہ رضی اللہ عنہما سے فرماتے ہیں کہ تم دونوں ابن ام مکتوم سے پردہ کرو۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔ دیکھیں :ضعيف أبي داود : 4112
سوال(7): تاخیر سے مہر کی ادائیگی کے وقت ، موجودہ زمانے کے حساب سے مہر دینا ہوگا یا پہلے والا ہی دینا ہے؟
جواب :پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ مہر کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کرے تاہم مجبوری ہو تو وسعت ملتے ہی ادا کردے اور مہر کی ادائیگی تاخیر کی صورت میں بھی اتنا ہی ادا کیاجائے گا جتنا نکاح کے وقت طے کیا گیا تھا۔
سوال(8): عورت کا ٹخنے سے اوپر شلوار پہننے کا کیا حکم ہے؟
جواب: عہد رسول میں خواتین ایسے کپڑے پہنتی تھیں جو زمین سے گھسٹتے مگر آج کل کی خواتین فیشن کے چکر میں عریاں لباس لگارہی ہیں ، ٹخنے سے اوپر شلوار کا پہننا بھی ننگے پن میں شامل ہوگا کیونکہ یہ شرعی لباس کی مخالف اور فتنے کا سبب ہے۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کی ایک ام ولد سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے کہا:
إنِّي امرأةٌ أطيلُ ذَيلي وأمشي في المكانِ القذرِ ؟ فقالت : قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يطَهرُه ما بعدَه(صحيح الترمذي:143)
ترجمہ: میں لمبا دامن رکھنے والی عورت ہوں اور میرا گندی جگہوں پر بھی چلنا ہوتا ہے، (تو میں کیا کروں؟) انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے:اس کے بعد کی (پاک) زمین اسے پاک کر دیتی ہے۔
اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
رخَّصَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ لأمَّهاتِ المؤمنينَ في الذَّيلِ شبرًا ، ثمَّ استَزدنَهُ ، فزادَهُنَّ شبرًا ، فَكُنَّ يُرسلنَ إلينا فنذرعُ لَهُنَّ ذراعًا(صحيح أبي داود:4119)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امہات المؤمنین (رضی اللہ عنہن) کو ایک بالشت دامن لٹکانے کی رخصت دی، تو انہوں نے اس سے زیادہ کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے انہیں مزید ایک بالشت کی رخصت دے دی چنانچہ امہات المؤمنین ہمارے پاس کپڑے بھیجتیں تو ہم انہیں ایک ہاتھ ناپ دیا کرتے تھے۔
آج کی مسلمان عورتیں ذرا ان احادیث پہ غور کریں کہ عہد رسول کی خواتین کا لباس کیسا تھا اور پردہ سے کس قدر محبت تھی ؟ جب رسول اللہ نے ایک بالشت دامن لٹکانے کی اجازت دی تو عورتوں نے اس سے زیادہ کی خواہش ظاہرکیں اور آج کل کی خواتین کی خواہش فاحشہ عورتوں کی نقالی کرنا ہے ۔
سوال(9): ایک عورت کی حالت حمل میں طلاق ہوئی ، اس عورت سے بچہ ساقط کروالیا، اب اس کی عدت کیا ہوگی؟
جواب: اس میں دیکھنا یہ ہے کہ بچے کے اعضا ء مثلا ناک ،کان، آنکھ ، سرظاہر ہوئے یا نہیں ؟ عموما چار ماہ بعد اعضاء ظاہر ہوجاتے ہیں ، اگر اعضاء ظاہر ہوگئے تو جاری ہونے والا خون نفاس کے حکم میں ہےاور بچے کے لئے غسل، تکفین ،جنازہ اور تدفین ہے اور طلاق کی عدت ختم ہوچکی ہے لیکن اگر اعضاء ظاہر نہیں ہوئے تو پھر طلاق کی عدت تین حیض گزارنی ہے ۔
سوال(10): کیا دلہن شادی کے روز دو تین وقت کی نماز ایک ساتھ ادا کرسکتی ہے کیونکہ وقت پر پڑھنا مشکل ہے؟
جواب: اللہ کا فرمان ہے:اِنَّ الصَّلَاةَ کَانَتْ عَلَی الْمُوٴمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوْتاً (النساء: ۱۰۳)بے شک نماز اہلِ ایمان پرمقررہ وقتوں میں فرض ہے۔اس فرمان کی روشنی میں ہرنماز کو اپنے اپنے وقت پہ ادا کرنا ضروری ہے اورشریعت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ نکاح کی وجہ سے کئی نمازوں کو ایک ساتھ جمع کرکے پڑھی جائے۔ جنگ سے زیادہ مشکل کا وقت کون سا ہوسکتا ہے ، حالت جنگ میں بھی امکانی حد تک وقت پر ہی نماز ادا کرنی ہے۔اس لئے دلہن کو چاہئے کہ وقت پر ہر نماز پڑھے اور ایسا کوئی تکلف والا کام نہ کرے جس سے نماز چھوڑنی پڑے ۔
سوال(11): کیا مسلم لڑکی بھاگ کر غیرمسلم سے شادی کرنے سے مرتد ہوجاتی ہے؟
جواب: غیروں کے ساتھ بھاگنے اور شادی کرنے کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں مثلا بہکاوا، عشق ومحبت اور جبر واکراہ وغیرہ۔جہالت وجبر کی حالت میں کفر کرنے پر مرتد کا حکم نہیں لگے گا لیکن برضا ورغبت کفریہ دین قبول کرنے یا پسند کرنے کا علم ہوجائے تو یقینا وہ اسلام سے خارج اور مرتد مانی جائے گی۔ایسی کسی لڑکی سے بات ہوسکے تو ہم حکمت سے اسلام کی حقانیت بتائیں اور توبہ کراکر اسلام میں داخل کرانے کی کوشش کریں۔
سوال(12): اجنبی مرد سے عورت کا رقیہ کروانا کیسا ہے ؟
جواب: اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم شرعی حدود کا خیال رکھنا ضروری ہے، معالج کے ساتھ خلوت نہ ہویعنی مریضہ کے ساتھ کوئی اور بھی ہو اور معالج عورت کا بدن چھو کر علاج نہ کرے بلکہ پڑھ کر بغیر چھوئے جسم پردم کرے یا کھانے وپینے والی چیز میں دم کرکے دے۔اسی طرح ایسے مردوں کے پاس بھی نہ جائے جو شرکیہ وبدعیہ دم کرتے ہوں۔
سوال(13): والد ووالدہ کے چچا اور ماموسے پردہ کیا جائے کہ نہیں ؟
جواب: والد ووالدہ کے چچا اور مامو عورت کے محارم ہیں لہذا ان سے پردہ نہیں کیا جائے گا۔
سوال(14): سونے کا ہار قسط پر ملتاہے، ہم نے جو قیمت ایک بار متعین کرلی اب وہی جمع کرنی ہے خواہ سونے کی قیمت گرتی اور بڑھتی ہی کیوں نہ رہے۔کیا اس طرح کا ہار خریدا جاسکتا ہے؟
جواب: سونے کی خرید وفروخت میں اسلام کا ایک ضابطہ یہ بھی ہے کہ سونا ادھار نہیں خریدا جائے گا بلکہ مکمل قیمت دے کر فورا سونے پر قبضہ حاصل کیا جائے گااس لئے قسطوں پہ بکنے والے ہار خریدنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہاں یکبارگی مکمل قیمت ادا نہیں کی جارہی ہے۔
سوال(15): شادی کے وقت ولی راضی نہیں تھامگر چند دنوں بعد وہ راضی ہوگیا ،کیا نکاح دوبارہ کرنا پڑے گا؟
جواب: نہیں ، وہی نکاح کافی ہے۔
سوال(16): جوائنٹ فیملی میں شوہر کے انتقال کے بعد بہو کو کچھ بھی نہیں ملتا ایسا کیوں ہے ؟
جواب: اولا جوائنٹ فیملی اسلام کا حصہ نہیں ہے بلکہ ہمارا بنایا ہوا نظام ہے ، اس نظام میں جہاں متعدد خرابیاں ہیں وہی وراثت کے معاملے میں بیحد خرابی ہے۔ جہاں تک شوہر کے انتقال پر بہو کو کچھ نہ ملنے کا معاملہ ہے وہ جوائنٹ فیملی کی خرابی کی وجہ سے ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ اگر بیٹا باپ کی زندگی میں وفات پاجائے تو وہ بات کی وراثت میں حقدار نہیں ہوگا لیکن اگر بیٹا جوائنت فیملی سے الگ ہوتا تو ضرور اس کے پاس کچھ نہ کچھ جائیداد ہوتی جو بیوی اور بچوں کو بھی ملتی مگر جوائنٹ فیملی میں ایک بیٹے کی کمائی پر سارے بیٹوں کا حق ہوتا ہے، یہ شرعا غلط ہے، اس لئے جوائنٹ فیملی کی مروجہ شکل کو ختم کرنا چاہئے۔
سوال(17): مشترکہ خاندانی نظام میں پردے کا اہتمام ناممکن ہوتا ہے ایسی صورت میں شوہراگر استطاعت رکھتا ہو تو الگ گھر کا مطالبہ کرنا شریعت کے خلاف ہے؟
جواب: عورت کو اگر مشترکہ فیملی کے تحت دین پر عمل کرنے میں دشواری ہو تو الگ جگہ یا الگ گھر کے مطالبے میں کوئی حرج نہیں ہےبلکہ شوہر پربیوی رہائش اور نان ونفقہ کا انتظام کرنا واجب ہے ۔جوائنٹ فیملی والا گھر باپ کی زندگی میں کسی بیٹے کا نہیں ہے اس لئے عورت اگرالگ گھر کامطالبہ کرتی ہے اس حال میں کہ شوہر الگ گھر لے بھی سکتا ہے توشوہر کوحسب استطاعت بیوی کا مطالبہ پورا کرنا چاہئے۔
سوال(18): کیا وضو میں کان کا مسح ضروری ہے جبکہ عورتوں کے کان میں بالی لگی ہوتی ہے؟
جواب: وضو میں کان کا مسح بعض کے نزدیک مستحب ہے مگر صحیح بات یہ ہے کہ واجب ہے کیونکہ یہ سر کا حصہ ہے، شیخ ابن باز اسی کے قائل ہیں۔
سنن نسائی میں رسول اللہ کی بابت منقول ہے:ثمَّ مسحَ برأسِه وأذنيهِ باطنِهما بالسَّبَّاحتينِ وظاهرِهما بإبهاميهِ(صحيح النسائي:102)
ترجمہ: پھر آپ نے اپنے سر اور اپنے دونوں کانوں کے اندرونی حصہ کا شہادت کی انگلی سے اور ان دونوں کے بیرونی حصہ کا انگوٹھے سے مسح کیا۔
کان کا مسح کرتے وقت کان کی بالی اتارنے کی ضرورت نہیں ہے ، شہادت کی دونوں اگلیوں سے اندرون کان اور انگوٹھے سے کان کے باہری حصے پر مسح کرلیں۔
سوال(19): ایک عورت نے اپنے شوہر سے متعدد دنوں تک فون پر خلع کا مطالبہ کیا ، شوہر نے چند دن بعد مطالبہ قبول کرتے ہوئے واٹس ایپ پہ خلع کی رضامندی کا پیغام بھیج دیا کیا یہ خلع ہوگیا، واضح رہے کہ جس وقت شوہرنے خلع کی رضامند ی کا پیغام بھیجا عین اس وقت عورت نے مطالبہ نہیں کیا تھا نہ ہی شوہر نے اس وقت مطالبہ کی جانکاری لی تھی گویا مطالبہ اور شوہر کی رضامندی میں کئی گھنٹے کا فرق ہے؟
جواب : یہ خلع واقع نہیں ہوا کیونکہ عین خلع کی رضامندی کے وقت بیوی کی طرف سے خلع کا مطالبہ یا رضامندی موجود نہیں ہے ۔ خلع صحیح ہونے کے لئے بیک وقت میاں بیوی دونوں کی طرف سے رضامندی کا پایا جانا ضروری ہے جوکہ یہاں مفقود ہے۔
سوال(20): کپڑے کو دھوتے ہوئے اسے پاک کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:اسلام میں نظافت کی بڑی اہمیت ہے ، اس لئے بدن ، کپڑا اور جگہ صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ کپڑا اصلا پاک ہوتا ہے ، اکثر و بیشتر آدمی کپڑا میلا ہونے کی وجہ سے دھلتا ہے نہ کہ ناپاک ہونے کی وجہ سے ۔
اگر کوئی محض میل کچیل کی وجہ سے دھو رہا ہے تو صابن وغیرہ سے اسے صاف کرکے اور پانی سے صابن کے اثرات زائل کرلے،کافی ہے ۔
اوراگر کپڑا ناپاک ہونے کی وجہ سے دھل رہا ہے تو جس جگہ گندگی لگی ہے اسے پہلے صاف کرلے۔ گندگی والی جگہ جتنے پانی سے صاف ہو صاف کرے تاآنکہ بدبو اور اثرات زائل ہوجائیں۔ اس میں ایک بار دو بار کی کوئی تعیین نہیں ہے ، یہ صفائی پہ منحصر ہے ۔ پھر بقیہ کپڑا دھلے ۔