• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط- ۲۳)

جواب از مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، مسرہ طائف-سعودی عرب

سوال(1):عورتوں میں یہ خیال عام ہے کہ بیوہ چار ماہ دس دن کسی اجنبی مرد کے سامنے نہیں آسکتی ہے اور نہ اس سے کوئی بات کرسکتی ہے کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: عورتوں کا یہ خیال غلط ہے بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ پڑھے لکھے مردوں میں بھی یہ بات عام ہے ، اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اگر بیوہ نصف عدت پہ کسی اجنبی کو دیکھ لے تو پھر نئے سرےسے عدت گزارنی ہوگی۔ مجھ سے کتنی عورتوں نے سوال کیا ہے کہ کیا میرا شوہر فون پر بیوہ عورت کی تعزیت کرسکتا ہے؟ اس مسئلے کی حقیقت یہ ہے کہ بغیرپردہ کے عورت کبھی بھی اجنبی مرد کے سامنے نہیں آسکتی ہے اور نہ بلا ضرورت اس سے بات کرسکتی ہے لیکن اگر ضرورت پڑے تو پردے کے ساتھ مرد کے سامنے بھی آسکتی ہے اور اس سے ضرورت کے مطابق بات بھی کرسکتی ہےیعنی پردہ اور گفتگو کا وفات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سوال(2):گود بھرائی کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟
جواب: بے بی شاور (حاملہ عورت کی گودبھرائی)دراصل مغربی تہذیب ہےجو ہندی فلموں اور ٹی وی سیریلوں کے ذریعہ مسلم معاشرے میں رواج پاگیا ہے۔حمل کے ساتویں یا آٹھویں ماہ میں گودبھرائی کی تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں عورت ومرد کے اختلاط کے ساتھ ناچ وگانے انجام دئے جاتے ہیں ، تحائف اور پھلوں سے حاملہ کی گود بھری جاتی ہےاور زچہ بچہ کے نام پر خوشی منائی جاتی ہے۔ غرض یہ کہ مختلف علاقوں میں مختلف طرح سے بچے کی آمد پر اس کا خیرمقدم اور حاملہ کی خدمت میں مبارکبادی پیش کی جاتی ہے۔
قرآن نے حمل کے مرحلے کو تکلیف درتکلیف کا نام دیا ہے یعنی عورت حالت حمل میں بہت تکلیف سے گزر رہی ہوتی ہےخصوصا حمل کے آخری مرحلے میں، اس تکلیف کے باعث اسلام نے عورت کا درجہ اونچا کیا ہے بلکہ زچگی شدید تکلیف کا مرحلہ ہے اس میں عورت کی جان بھی جاسکتی ہے ، اس موت کو شہادت کا مقام ملا ہے۔ ان باتوں کو مدنظر رکھنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حمل کے واسطے سادگی والی خوشی کی تقریب بھی صحیح نہیں اورفحش ومنکرات والی تقریب تو سرے سے جائزہی نہیں ہے، ساتھ ہی اس میں غیراقوام کی مشابہت بھی ہے ۔ آپ خوشی منائیں اور مناسب صورت میں دعوتی تقریب بھی منعقد کریں مگر بچے کی پیدائش کے بعد اس کے ساتویں دن جسے اسلام نے عقیقہ کا نام دیا ہے۔

سوال(3): جب بیوہ کی دوسری شادی ہوگی اس وقت سابقہ شوہر کی وراثت سے حصہ نہیں لےسکتی ہے؟
جواب: شوہر کی وفات کے بعد بلاشبہ بیوہ کا اس کے شوہر کی جائداد میں حصہ ہے ، اولاد ہو تو آٹھواں اور اولاد نہ ہو چوتھا۔لہذا میت کی وراثت تقسیم کرنے والوں کو بیوہ کا بھی حصہ نکالنا چاہئے ۔ یہاں یہ واضح رہے کہ بیوہ کی وراثت کا دوسرے نکاح سے کوئی تعلق نہیں ہےیعنی بیوہ دوسرا نکاح کرے تو وراثت نہیں ملے گی اور نکاح نہ کرے تو وراثت ملے گی ،شرعا اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

سوال(4): کیا بعض عورتوں کو نبوت ملی تھی جیسے مریم علیہا السلام ؟
جواب: بعض علماء (ابوالحسن اشعری، قرطبی اور ابن حزم وغیرہم) نے کہا ہے کہ بعض عورتوں کو نبوت ملی ہے ، ان میں حوا، سارہ، ہاجرہ، ام موسیٰ، آسیہ زوجہ فرعون اور مریم علیہن الصلوٰۃ و السلام کا نام آتا ہے۔یہ علماء ان نصوص سے استدلال کرتے ہیں جن میں ان عورتوں کی بابت وحی، اصطفاء(چن لینا) اور فضیلت کا ذکر ہے جیساکہ ام موسی کے متعلق آیا ہے ۔ وَأَوْحَيْنَآ إِلَىَ أُمّ مُوسَىَ(القصص:7) ترجمہ: ہم نے موسی علیہ السلام کی ماں کو وحی کی ۔
مریم علیہا السلام کے متعلق آیا ہے ۔يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ[آل عمران:42)
ترجمہ: اے مریم! اللہ تعالی نے تجھے چن لیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:كَمَلَ مِنَ الرِّجالِ كَثِيرٌ، ولَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّساءِ إلَّا مَرْيَمُ بنْتُ عِمْرانَ، وآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ(صحيح البخاري:3769)
ترجمہ: مردوں میں سے تو بہت سے کامل ہو گزرے ہیں لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کے سوا اور کوئی کامل پیدا نہیں ہوئی۔
یہ اور ان جیسے دیگر نصوص میں کہیں عورتوں کے متعلق نبوت کی صراحت نہیں ، اس وجہ سے ہم ان کی فضیلت دنیا کی خواتین پر تسلیم کرسکتے ہیں مگر نبوت نہیں تسلیم کرسکتے ہیں بلکہ ایک آیت میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ نبوت مردوں کو ہی ملی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى(یوسف: 109)
ترجمہ: ہم نے آپ سے پہلے صرف مردوں کو ہی پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جنکی طرف ہم وحی بھیجا کرتے تھے۔

سوال(5): عورتوں کے لئے اپنے گھنگھرالے بالوں کو سیدھا کرنا یا سیدھے بالوں کو گھنگھرالا بنانا کیسا ہے ؟
جواب : بسا اوقات بعض عورتوں کے بال طبعی طور پر گھونگھرالے ہوتے ہیں ایسے میں بالوں کو سیدھا کرنا ایک ضرورت ہے اس میں کوئی حرج ہی نہیں ہے البتہ بلاضرورت زینت کے مقصد سے سیدھے بال کو گھونگھرالےبنوانا شوہر کے واسطے ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن لوگوں کو مائل کرنےاور غیروں کی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے ہو تو جائزنہیں ہے ۔(ماخوذ از مسلم خواتین کے سر کے بال کے احکام-مقبول احمد سلفی)

سوال(6): کیا اندھے مرد سے بھی پردہ کیا جائے گا؟
جواب: اندھے سے پردہ نہیں ہے کیونکہ پردہ کرنے کا مقصداجنبی مردوں کی نظر سے بچنا ہے جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
إنَّما جُعِلَ الِاسْتِئْذَانُ مِن أجْلِ البَصَرِ(صحيح البخاري:6241)
ترجمہ: اجازت مانگنا تو ہے ہی اس لیے کہ (اندر کی کوئی ذاتی چیز)نہ دیکھی جائے۔
اوراس بات پر صریح دلیل بھی موجودہے کہ اندھے سے پردہ نہیں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس سے جب اس کے شوہر نے اسے طلاق دی تو فرمایا:اعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فإنَّه رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ(صحيح مسلم:1480)
ترجمہ؛ تم ابن ام مکتوم کے گھر عدت پوری کرو اس لیےکہ وہ ایک اندھے آدمی ہیں وہاں تم اپنے کپڑے اتار سکتی ہو۔
ابو داود(4112)، ترمذي(2778)، اور مسند احمد (26579) وغیرہ کی حدیث جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام سلمہ اور میمونہ رضی اللہ عنہما سے فرماتے ہیں کہ تم دونوں ابن ام مکتوم سے پردہ کرو۔ یہ حدیث ضعیف ہے۔ دیکھیں :ضعيف أبي داود : 4112

سوال(7): تاخیر سے مہر کی ادائیگی کے وقت ، موجودہ زمانے کے حساب سے مہر دینا ہوگا یا پہلے والا ہی دینا ہے؟
جواب :پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ مہر کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کرے تاہم مجبوری ہو تو وسعت ملتے ہی ادا کردے اور مہر کی ادائیگی تاخیر کی صورت میں بھی اتنا ہی ادا کیاجائے گا جتنا نکاح کے وقت طے کیا گیا تھا۔

سوال(8): عورت کا ٹخنے سے اوپر شلوار پہننے کا کیا حکم ہے؟
جواب: عہد رسول میں خواتین ایسے کپڑے پہنتی تھیں جو زمین سے گھسٹتے مگر آج کل کی خواتین فیشن کے چکر میں عریاں لباس لگارہی ہیں ، ٹخنے سے اوپر شلوار کا پہننا بھی ننگے پن میں شامل ہوگا کیونکہ یہ شرعی لباس کی مخالف اور فتنے کا سبب ہے۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کی ایک ام ولد سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے کہا:
إنِّي امرأةٌ أطيلُ ذَيلي وأمشي في المكانِ القذرِ ؟ فقالت : قالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يطَهرُه ما بعدَه(صحيح الترمذي:143)
ترجمہ: میں لمبا دامن رکھنے والی عورت ہوں اور میرا گندی جگہوں پر بھی چلنا ہوتا ہے، (تو میں کیا کروں؟) انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے:اس کے بعد کی (پاک) زمین اسے پاک کر دیتی ہے۔
اسی طرح عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:
رخَّصَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ لأمَّهاتِ المؤمنينَ في الذَّيلِ شبرًا ، ثمَّ استَزدنَهُ ، فزادَهُنَّ شبرًا ، فَكُنَّ يُرسلنَ إلينا فنذرعُ لَهُنَّ ذراعًا(صحيح أبي داود:4119)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امہات المؤمنین (رضی اللہ عنہن) کو ایک بالشت دامن لٹکانے کی رخصت دی، تو انہوں نے اس سے زیادہ کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے انہیں مزید ایک بالشت کی رخصت دے دی چنانچہ امہات المؤمنین ہمارے پاس کپڑے بھیجتیں تو ہم انہیں ایک ہاتھ ناپ دیا کرتے تھے۔
آج کی مسلمان عورتیں ذرا ان احادیث پہ غور کریں کہ عہد رسول کی خواتین کا لباس کیسا تھا اور پردہ سے کس قدر محبت تھی ؟ جب رسول اللہ نے ایک بالشت دامن لٹکانے کی اجازت دی تو عورتوں نے اس سے زیادہ کی خواہش ظاہرکیں اور آج کل کی خواتین کی خواہش فاحشہ عورتوں کی نقالی کرنا ہے ۔

سوال(9): ایک عورت کی حالت حمل میں طلاق ہوئی ، اس عورت سے بچہ ساقط کروالیا، اب اس کی عدت کیا ہوگی؟
جواب: اس میں دیکھنا یہ ہے کہ بچے کے اعضا ء مثلا ناک ،کان، آنکھ ، سرظاہر ہوئے یا نہیں ؟ عموما چار ماہ بعد اعضاء ظاہر ہوجاتے ہیں ، اگر اعضاء ظاہر ہوگئے تو جاری ہونے والا خون نفاس کے حکم میں ہےاور بچے کے لئے غسل، تکفین ،جنازہ اور تدفین ہے اور طلاق کی عدت ختم ہوچکی ہے لیکن اگر اعضاء ظاہر نہیں ہوئے تو پھر طلاق کی عدت تین حیض گزارنی ہے ۔

سوال(10): کیا دلہن شادی کے روز دو تین وقت کی نماز ایک ساتھ ادا کرسکتی ہے کیونکہ وقت پر پڑھنا مشکل ہے؟
جواب: اللہ کا فرمان ہے:اِنَّ الصَّلَاةَ کَانَتْ عَلَی الْمُوٴمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوْتاً (النساء: ۱۰۳)بے شک نماز اہلِ ایمان پرمقررہ وقتوں میں فرض ہے۔اس فرمان کی روشنی میں ہرنماز کو اپنے اپنے وقت پہ ادا کرنا ضروری ہے اورشریعت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ نکاح کی وجہ سے کئی نمازوں کو ایک ساتھ جمع کرکے پڑھی جائے۔ جنگ سے زیادہ مشکل کا وقت کون سا ہوسکتا ہے ، حالت جنگ میں بھی امکانی حد تک وقت پر ہی نماز ادا کرنی ہے۔اس لئے دلہن کو چاہئے کہ وقت پر ہر نماز پڑھے اور ایسا کوئی تکلف والا کام نہ کرے جس سے نماز چھوڑنی پڑے ۔

سوال(11): کیا مسلم لڑکی بھاگ کر غیرمسلم سے شادی کرنے سے مرتد ہوجاتی ہے؟
جواب: غیروں کے ساتھ بھاگنے اور شادی کرنے کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں مثلا بہکاوا، عشق ومحبت اور جبر واکراہ وغیرہ۔جہالت وجبر کی حالت میں کفر کرنے پر مرتد کا حکم نہیں لگے گا لیکن برضا ورغبت کفریہ دین قبول کرنے یا پسند کرنے کا علم ہوجائے تو یقینا وہ اسلام سے خارج اور مرتد مانی جائے گی۔ایسی کسی لڑکی سے بات ہوسکے تو ہم حکمت سے اسلام کی حقانیت بتائیں اور توبہ کراکر اسلام میں داخل کرانے کی کوشش کریں۔

سوال(12): اجنبی مرد سے عورت کا رقیہ کروانا کیسا ہے ؟
جواب: اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم شرعی حدود کا خیال رکھنا ضروری ہے، معالج کے ساتھ خلوت نہ ہویعنی مریضہ کے ساتھ کوئی اور بھی ہو اور معالج عورت کا بدن چھو کر علاج نہ کرے بلکہ پڑھ کر بغیر چھوئے جسم پردم کرے یا کھانے وپینے والی چیز میں دم کرکے دے۔اسی طرح ایسے مردوں کے پاس بھی نہ جائے جو شرکیہ وبدعیہ دم کرتے ہوں۔

سوال(13): والد ووالدہ کے چچا اور ماموسے پردہ کیا جائے کہ نہیں ؟
جواب: والد ووالدہ کے چچا اور مامو عورت کے محارم ہیں لہذا ان سے پردہ نہیں کیا جائے گا۔

سوال(14): سونے کا ہار قسط پر ملتاہے، ہم نے جو قیمت ایک بار متعین کرلی اب وہی جمع کرنی ہے خواہ سونے کی قیمت گرتی اور بڑھتی ہی کیوں نہ رہے۔کیا اس طرح کا ہار خریدا جاسکتا ہے؟
جواب: سونے کی خرید وفروخت میں اسلام کا ایک ضابطہ یہ بھی ہے کہ سونا ادھار نہیں خریدا جائے گا بلکہ مکمل قیمت دے کر فورا سونے پر قبضہ حاصل کیا جائے گااس لئے قسطوں پہ بکنے والے ہار خریدنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہاں یکبارگی مکمل قیمت ادا نہیں کی جارہی ہے۔

سوال(15): شادی کے وقت ولی راضی نہیں تھامگر چند دنوں بعد وہ راضی ہوگیا ،کیا نکاح دوبارہ کرنا پڑے گا؟
جواب: نہیں ، وہی نکاح کافی ہے۔

سوال(16): جوائنٹ فیملی میں شوہر کے انتقال کے بعد بہو کو کچھ بھی نہیں ملتا ایسا کیوں ہے ؟
جواب: اولا جوائنٹ فیملی اسلام کا حصہ نہیں ہے بلکہ ہمارا بنایا ہوا نظام ہے ، اس نظام میں جہاں متعدد خرابیاں ہیں وہی وراثت کے معاملے میں بیحد خرابی ہے۔ جہاں تک شوہر کے انتقال پر بہو کو کچھ نہ ملنے کا معاملہ ہے وہ جوائنٹ فیملی کی خرابی کی وجہ سے ہے ۔ یہ بات صحیح ہے کہ اگر بیٹا باپ کی زندگی میں وفات پاجائے تو وہ بات کی وراثت میں حقدار نہیں ہوگا لیکن اگر بیٹا جوائنت فیملی سے الگ ہوتا تو ضرور اس کے پاس کچھ نہ کچھ جائیداد ہوتی جو بیوی اور بچوں کو بھی ملتی مگر جوائنٹ فیملی میں ایک بیٹے کی کمائی پر سارے بیٹوں کا حق ہوتا ہے، یہ شرعا غلط ہے، اس لئے جوائنٹ فیملی کی مروجہ شکل کو ختم کرنا چاہئے۔

سوال(17): مشترکہ خاندانی نظام میں پردے کا اہتمام ناممکن ہوتا ہے ایسی صورت میں شوہراگر استطاعت رکھتا ہو تو الگ گھر کا مطالبہ کرنا شریعت کے خلاف ہے؟
جواب: عورت کو اگر مشترکہ فیملی کے تحت دین پر عمل کرنے میں دشواری ہو تو الگ جگہ یا الگ گھر کے مطالبے میں کوئی حرج نہیں ہےبلکہ شوہر پربیوی رہائش اور نان ونفقہ کا انتظام کرنا واجب ہے ۔جوائنٹ فیملی والا گھر باپ کی زندگی میں کسی بیٹے کا نہیں ہے اس لئے عورت اگرالگ گھر کامطالبہ کرتی ہے اس حال میں کہ شوہر الگ گھر لے بھی سکتا ہے توشوہر کوحسب استطاعت بیوی کا مطالبہ پورا کرنا چاہئے۔

سوال(18): کیا وضو میں کان کا مسح ضروری ہے جبکہ عورتوں کے کان میں بالی لگی ہوتی ہے؟
جواب: وضو میں کان کا مسح بعض کے نزدیک مستحب ہے مگر صحیح بات یہ ہے کہ واجب ہے کیونکہ یہ سر کا حصہ ہے، شیخ ابن باز اسی کے قائل ہیں۔
سنن نسائی میں رسول اللہ کی بابت منقول ہے:ثمَّ مسحَ برأسِه وأذنيهِ باطنِهما بالسَّبَّاحتينِ وظاهرِهما بإبهاميهِ(صحيح النسائي:102)
ترجمہ: پھر آپ نے اپنے سر اور اپنے دونوں کانوں کے اندرونی حصہ کا شہادت کی انگلی سے اور ان دونوں کے بیرونی حصہ کا انگوٹھے سے مسح کیا۔
کان کا مسح کرتے وقت کان کی بالی اتارنے کی ضرورت نہیں ہے ، شہادت کی دونوں اگلیوں سے اندرون کان اور انگوٹھے سے کان کے باہری حصے پر مسح کرلیں۔

سوال(19): ایک عورت نے اپنے شوہر سے متعدد دنوں تک فون پر خلع کا مطالبہ کیا ، شوہر نے چند دن بعد مطالبہ قبول کرتے ہوئے واٹس ایپ پہ خلع کی رضامندی کا پیغام بھیج دیا کیا یہ خلع ہوگیا، واضح رہے کہ جس وقت شوہرنے خلع کی رضامند ی کا پیغام بھیجا عین اس وقت عورت نے مطالبہ نہیں کیا تھا نہ ہی شوہر نے اس وقت مطالبہ کی جانکاری لی تھی گویا مطالبہ اور شوہر کی رضامندی میں کئی گھنٹے کا فرق ہے؟
جواب : یہ خلع واقع نہیں ہوا کیونکہ عین خلع کی رضامندی کے وقت بیوی کی طرف سے خلع کا مطالبہ یا رضامندی موجود نہیں ہے ۔ خلع صحیح ہونے کے لئے بیک وقت میاں بیوی دونوں کی طرف سے رضامندی کا پایا جانا ضروری ہے جوکہ یہاں مفقود ہے۔

سوال(20): کپڑے کو دھوتے ہوئے اسے پاک کرنے کا کیا طریقہ ہے؟
جواب:اسلام میں نظافت کی بڑی اہمیت ہے ، اس لئے بدن ، کپڑا اور جگہ صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ کپڑا اصلا پاک ہوتا ہے ، اکثر و بیشتر آدمی کپڑا میلا ہونے کی وجہ سے دھلتا ہے نہ کہ ناپاک ہونے کی وجہ سے ۔
اگر کوئی محض میل کچیل کی وجہ سے دھو رہا ہے تو صابن وغیرہ سے اسے صاف کرکے اور پانی سے صابن کے اثرات زائل کرلے،کافی ہے ۔
اوراگر کپڑا ناپاک ہونے کی وجہ سے دھل رہا ہے تو جس جگہ گندگی لگی ہے اسے پہلے صاف کرلے۔ گندگی والی جگہ جتنے پانی سے صاف ہو صاف کرے تاآنکہ بدبو اور اثرات زائل ہوجائیں۔ اس میں ایک بار دو بار کی کوئی تعیین نہیں ہے ، یہ صفائی پہ منحصر ہے ۔ پھر بقیہ کپڑا دھلے ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط -24)
جواب ازشیخ مقبول احمد سلفی / اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

(1)سوال: کیاوضو کے بعد شرمگاہ پر چھینٹے مارنا مردوں کے ساتھ مخصوص ہے یا اس حکم میں عورتیں بھی شامل ہیں ؟
جواب: یہ بات ذہن نشیں رہے کہ دین کے جملہ احکام میں عورتیں بھی مردوں کی طرح ہیں یعنی جوحکم مردوں کے لئے یا مردوں کو مخاطب کرکے دیا گیا ہے وہی حکم عورتوں کے لئے بھی ہوگا ۔ ہاں اگر الگ سےمردوں کو یاالگ سے عورتوں کو مخصوص حکم دیا گیا ہو تو مردوں کے ساتھ مخصوص حکم مردوں کے لئے اور عورتوں کے ساتھ مخصوص حکم عورتوں کے لئے ہوگا۔ وضو کے بعد شرمگاہ پر چھینٹے مارنا رسول اللہ کی سنت ہے ،اس میں خصوصیت کا کوئی ذکر نہیں ہے اس لئے یہ مردوں کی طرح عورتوں کے لئے بھی ہے۔

(2)سوال: کیا بچہ کو چمچہ سے دودھ پلانے پر رضاعت ثابت ہوجائے گی؟
جواب: رضاعت کے لئے دو شرطیں ہیں ۔ پہلی شرط یہ ہے کہ بچے کو دوسال کے اندر دودھ پلایا گیا ہو اور دوسری شرط یہ ہے کہ پانچ مرتبہ دودھ پلایا گیا ہو۔ جس بچے کو دوسال کے اندر پانچ مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ دودھ پلادیا جائے تو رضاعت ثابت ہوجائے گی چاہے دودھ پستان سے لگاکر بچے کو پلایا جائے یا پھر کسی برتن /چمچہ /بوبل میں نکال کر پانچ مرتبہ پلایا جائے ۔اصل یہ ہے کہ بچے کے پیٹ میں دودھ چلا جائے ۔

(3)سوال: میک اپ والی دلہن تیمم کرسکتی ہے یا وضو کرنا پڑے گا جبکہ وضو کرنے میں سارامیک اپ چلا جائے گاجس پر محنت اور پیسہ دونوں لگے ہیں؟
جواب: میک اپ کوئی ایسا عذر نہیں ہے جس کی وجہ سے دلہن تیمم کرے گی بلکہ اس پر لازم ہے کہ نماز کے لئے پانی سے وضو کرکے نماز پڑھے چاہے وضو سے میک اپ ہی کیوں نہ چلاجائے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ شوہر کے لئے میک اپ کرنا جائز ہے مگر ایسا میک اپ جس کی وجہ سے نماز چھوڑنا پڑے جائز نہیں ہے۔اس لئے دلہن ہو یا کوئی اور خاتون میک اپ نماز کے بعد کرے اور اتنی دیر کے لئے کرے جس سے نماز نہ ضائع ہویا ایسا ہلکا میک اپ کرے کہ وضو کرنے اور نماز پڑھنے میں حرج محسوس نہ ہو۔

(4)سوال: ایام بیض کے دو روزےرکھنے کے بعد تیسرے دن حیض آگیا ، لہذا تیسرے روزہ کا کیا حکم ہے؟
جواب: ایام بیض کا روزہ ہرماہ قمری تاریخ کے اعتبارسے تیرہ ،چودہ اور پندرہ کو رکھاجائے گا ۔اگر کسی عورت کو ان ایام میں حیض آجائے تو ماہ کے آخر میں ایام بیض کا روزہ رکھ لے یعنی ۲۷،۲۸،۲۹ کو۔ جیساکہ سوال میں مذکور ہے کہ دوروزہ رکھنے کے بعد حیض آگیا تو تیسرے کا کیا حکم ہے اس کا حواب یہ ہے کہ جیسے ہی حیض سے پاک ہو اس وقت سے لیکرآخر ماہ تک کسی بھی دن ایام بیض کی نیت سےایک روزہ رکھ سکتی ہے۔

(5)سوال: عورتوں کے لئے پراندہ استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر پراندہ بالوں کی حفاظت یا ضرورت مثلا چھوٹے بال کواس کی مدد سےلمبا کرنے کی غرض سے ہوتو پراندہ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر وہی مقصد ہو جو نقلی بالوں کو اصلی بال میں جوڑنے کا ہوتا ہے تو جائز نہیں ہے اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ۔

(6)سوال: میں نے سنا ہے کہ کالے عبایا پر رنگین دوپٹہ لگانا جائز نہیں ہے کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب: عبایا اور دوپٹے کا مقصد جسم عورت کو اچھی طرح ڈھانپنا اور حجاب کرنا ہے چاہے کسی بھی رنگ کا عبایا اور کسی رنگ کا دوپٹہ ہو ۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہےلیکن جس عبایا اور دوپٹہ سے مکمل پردہ نہ ہوتاہو بلکہ اس سے جسم کی ساخت نمایاں ہویالوگوں کی نظروں کو مائل کرنے والا ہوتو ایسا عبایا یا دوپٹہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔اس لئے عورتوں کو چاہئے کہ عبایا/نقاب اور دوپٹہ سادہ والا اورکشادہ والا خریدے اور نقش ونگار،جاذب نظر اور تنگ کپڑوں سے پرہیز کرے ۔

(7)سوال: اگر عورت دستانے پر گھڑی لگائے تو یہ زینت میں شمار ہوگی؟
جواب: گھڑی ضرورت کی چیز ہے اس لئے عورتیں بھی اپنی کلائی پرگھڑی باندھ سکتی ہے تاہم یہ خیال رہے کہ گھڑی ضرورت کے ساتھ زینت بھی شمار کی جاتی ہےلہذا عورتیں جب گھڑی پہنیں تو کپڑے اور دستانے کے نیچے پہنیں تاکہ اس پرغیرمحرم کی نظر نہ پڑے ۔محرموں کے درمیان جس طرح پہنے کوئی حرج نہیں ہے۔

(8)سوال: کیا شادی کے موقع پر عورتیں فلمی گانے بناموسیقی کے پڑ ھ سکتی ہیں؟
جواب: عورتیں شادی کے موقع پر ایسے نغمات پڑھ سکتی ہیں جن میں فحش اور غلط سلط باتیں نہ ہوں ۔ اس قسم کے فلمی نغمات بھی پڑھے جاسکتے ہیں مگر بہتر یہ ہے کہ فلمی نغمات کی بجائے ہزاروں نغمات غیرفلمی ہیں انہیں پڑھاجائے اس کی وجہ یہ ہے کہ فلمی نغمات کا چلن بڑھنے سے عورتوں کی توجہ فلم دیکھنےاور فلمی نغمے سیکھنے کی طرف ہوگی اوراس طرح فلم میں موجود فحش باتوں کا اثر خواتین پر پڑے گابلکہ پورے مسلم گھرانے اور سماج پر پڑے گا۔

(9)سوال: اگر حوا نہ ہوتی تو کوئی عورت اپنے شوہر کی خیانت نہ کرتی، اس میں خیانت سے کیا مراد ہے؟
جواب: صحیح مسلم میں 3647 نمبر کی حدیث ہے، ‏‏‏‏سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لولا حواء لم تخن انثى زوجها الدهر.ترجمہ:اگر حوا نہ ہوتیں تو کوئی عورت اپنے شوہر کی خیانت نہ کرتی۔
چونکہ حوا علیہ السلام تمام عورتوں کی ماں ہیں اور حوا علیہ السلام نے ابلیس کے بہکاوے میں آکر آدم علیہ السلام کو اس درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کیا جس سے اللہ نے انہیں منع کیا تھا۔ نہ آدم وحوا اس درخت کا پھل کھاتے نہ دنیا میں اتارے جاتے اور نہ دنیا میں خیانت ظاہر ہوتی۔ یہاں شوہر کی خیانت سے بستر کی خیانت یا فحش کاموں کا ارتکاب مراد نہیں ہے بلکہ مذکورہ بالا واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔

(10)سوال: عورت کو غسل دے کر کفن دینے کے بعد خون نکل آیا ایسی صورت میں کیا کیا جائے ؟
جواب: ایک مرتبہ میت کو غسل دینے اور کفن دینے کے بعد پھر سے نہ غسل دیا جائے گا اور نہ ہی کفن بدلا جائے گا لیکن اگر نجاست ظاہر ہورہی ہو تو فقط نجاست کا زائل کرنا کافی ہوگا۔ خون کا دھبہ نظر آرہا ہے تو تر کپڑے سے اس کو پوچھ دیا جائے کافی ہے ۔

(11)سوال: ٹھنڈا پانی کی وجہ سےرات میں پیشاب کرنے پر ٹیشوپیپر سے استنجا کرلیتی ہوں پھر فجر کے وقت وضو سے پہلے پانی سے شرمگاہ کی صفائی کرتی ہوں کیا ایسا کرنا صحیح ہے ؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے سے منع کیا اور تین پتھروں سے استنجاکرنے کی اجازت دی ہے ۔اس اعتبارسے ٹیشو پیپر پتھر کے قائم مقام ہے لہذا آپ کا ٹیشوپیپر سے استنجاکرنا کافی ہے چاہے پانی کیوں نہ موجود ہولیکن ٹیشو پیپر سے کم ازکم تین بار صفائی کریں اور پھر فجر کے وقت پانی سے صفائی کرنا ضروری نہیں ہےلیکن صفائی کرلیتی ہیں تو بہتر ہی ہے۔

(12)سوال: بازار جانے کی وجہ سے کیا ظہر کے وقت ظہروعصر کی یا عصر کے وقت عصرومغرب کی نماز جمع کرکے پڑھ سکتی ہوں کیونکہ بازار میں نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے؟
جواب: بازار جانے کی وجہ سے کوئی عورت کسی دوسری نماز کو وقت سے پہلے نہیں ادا کرسکتی ہے ۔ اللہ تعالی نے نمازوں کو اپنے اپنے اوقات میں پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔ اگر کوئی عورت ظہر کے وقت ظہر کی نماز پڑھ کربازار جاتی ہے تو اس کے لئے عصر کا وقت جہاں ہوگا وہیں عصر کی نماز ادا کرےگی اور عصر کے وقت عصر کی نماز پڑھ کر بازار جارہی ہے تو مغرب کی نماز وہاں پڑھنی ہے جہاں مغرب کا وقت ہورہا ہے ۔اور نمازکے لئے مسجد کا ہونا بھی لازم نہیں ہے ساری زمین مسجد کے حکم میں ہے کہیں بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔کوشش کی جائے کہ ضرورت کی اشیاء جلدخریدکرگھر لوٹ آیاجائے لیکن اگر خریداری کی وجہ سے تاخیرہوجائے اور بازار میں نماز پڑھنے کا موقع نہ ملے تو گھر آکر پہلے نماز ادا کی جائے ۔

(13)سوال: اگر باپ بیمار ہوتو کیا بیٹی اپنے باپ کے ہاتھ ، پیر اور منہ وغیرہ دھل سکتی ہے؟
جواب: بیٹی اپنے باپ کے ہاتھ پیراورچہرہ دھل سکتی ہے۔کوئی بات نہیں ہے ۔

(14)سوال: دیکھنے میں آرہا ہے کہ عورتیں حالت حمل میں ایسی دوائی استعمال کرتی ہیں جن سے گمان کیا جاتا ہے کہ لڑکا پیدا ہوگا اس کی کیا حقیقت ہے؟
جواب: اگر کہیں پر عورتیں لڑکا پیدا کرنے کے لئے کوئی مخصوص دوا استعمال کررہی ہیں تو یہ ان کے ایمان کی کمزوری اور اللہ پر توکل کی کمی ہے ۔ اولاد دینا، لڑکا اورلڑکی دینا اللہ کی صفت ہے اوریہ اسی کے اختیار میں ہے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ * أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ (الشورى: 49-50)
ترجم: آسمان و زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لئے ہے ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ،جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا انہیں جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کردے ، وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔
اس لئے عورتوں کو چاہئے کہ اپنے اندر سے ایمان و توکل کی کمزوری دور کرے اور اولاد کے لئے اللہ سے دعا کرے ۔

(15)سوال : اخوات مومنات سے کون مراد ہیں؟
جواب: چار مومن بہنوں کا ذکر اس حدیث میں ہے جو صحیح الجامع میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
الأخواتُ الأربعُ ، ميمونةُ ، و أمُّ الفضلِ ، و سَلمى ، و أسماءُ بنتُ عُمَيسٍ أختُهنَّ لأُمِّهنَّ مؤمناتٌ(صحيح الجامع:2763)
ترجمہ: یہ چار بہنیں مومنہ ہیں: میمونہ، ام الفضل، سلمیٰ اور اسما بنت عمیس۔ مؤخر الذکر، اول الذکر تینوں کی اخیافی (‏‏‏‏یعنی ماں کی طرف سے) بہن ہے۔
سنن کبری ، درالسحابہ، شرح مشكل الآثار اور طبرانی وغیرہ میں بایں الفاظ مروی ہے :
الأخواتُ المؤمناتُ ميمونةُ زوجُ النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ وأمُّ الفضلِ امرأةُ العبَّاسِ وأسماءُ بنتُ عُمَيسٍ امرأةُ جعفرٍ وامرأةُ حمزةَ۔
ترجمہ: یہ چار بہنیں مومنہ ہیں: میمونہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ، ام الفضل عباس کی زوجہ، اسما بنت عمیس جعفر کی زوجہ اور حمزہ کی زوجہ۔

(16)سوال: ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ اللہ تعالی قیامت میں سب سے پہلے حکم دے گا کہ مرد کا اس کی بیوی کے ساتھ کیسا سلوک تھا وہ تولو ۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
جواب: میرے علم کی روشنی میں ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ، صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حقوق اللہ کے معاملے میں سب سے پہلے نماز کا فیصلہ ہوگا اور حقوق العباد کے معاملے میں ناحق خون کا فیصلہ ہوگا۔ کچھ حقوق شوہر پر بیوی کے واسطے اور کچھ حقوق بیوی پر شوہر کے واسطے ہیں ، جو اپنے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا قیامت میں اس کا محاسبہ ہوگا مگر سب سے پہلے مردوں کا بیوی کے ساتھ سلوک تولا جائے گا صحیح بات نہیں ہے۔

(17)سوال: ایک بہن نے پوچھاہے کہ وہ زکوۃ کی نیت سے سال بھر تھوڑا تھوڑا پیسہ فقراء ومساکین میں تقسیم کرتی رہتی ہیں کیا اس طرح زکوۃ ادا ہوجائے گی جبکہ یکبارگی زکوۃ دینا مشکل ہے؟
جواب: زکوۃ دینے کی یہ شکل جائز نہیں ہے کیونکہ زکوۃ یکبارگی ادا کی جاتی ہے ۔ سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید آپ زیورات کی زکوۃ نکالتی ہوں تو گزارش ہے کہ آپ جو تھوڑا تھوڑا زکوہ کی نیت سے رقم نکالتی ہیں وہ کسی تھیلی میں جمع کرتے رہیں اور سال پورا ہونے پر زیوارات کی جو زکوۃ بنتی ہے ادا کردیں ۔ اور سائل وغیرہ کو تھوڑا بہت صدقہ وخیرات کی نیت سے دیتی رہیں۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل – قسط: ۲۵
جواب از شیخ مقبول احمد سلفی /اسلامک دعوۃ سنٹر-مسرہ(طائف)​


(1)سوال: شوہر نماز نہیں پڑھتا ، کیا اس سے طلاق لے لینا چاہئے یا اسی کے ساتھ زندگی بسر کرنی چاہئے ؟
جواب: مجھے امید ہے کہ آپ کا شوہر جمعہ کی نماز کے علاوہ کبھی کبھار دیگر نمازیں بھی ادا کرلیا کرتا ہوگااور وہ نماز کا منکر نہیں ہوگا بلکہ سستی کی وجہ سے پنج وقتہ نمازیں نہیں پڑھتا ہوگاایسی صورت میں وہ مسلمان مانا جائے گا ۔آپ اس سے طلاق کا مطالبہ نہ کریں بلکہ مسلسل نماز کی تلقین کرتے رہیں ، اس کا ماحول بہتر بنائیں اور دین سے جوڑنے کے لئے جتنی کوشش کرسکتی ہیں کریں ، مفیدکتاب دے کر، ناصحانہ تقریر سناکر، علماء کی صحبت یا دینی مجلس میں شریک کرواکر۔میاں بیوی کو ایک دوسرے کا کس قدر خیرخواہ ہونا چاہئے خصوصا نماز کے تئیں مندرجہ ذیل حدیث سے اندازہ لگانا چاہئے ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رحِمَ اللَّهُ رجلًا قامَ منَ اللَّيلِ فصلَّى وأيقظَ امرأتَهُ فصلَّت فإن أبَت نضحَ في وجهِها الماءَ رحِمَ اللَّهُ امرأةً قامَت منَ اللَّيلِ فَصلَّت وأيقَظَت زَوجَها فإن أبَى نضَحَت في وجهِهِ الماءَ(صحيح أبي داود:1450)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی بیدار
کرے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے۔
اسی طرح ابوداود کی دوسری حدیث میں ہے کہ ایک صحابیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے شوہر(صفوان بن معطل) کے بارے میں کچھ شکایات کرتی ہیں ان میں ایک شکایت کرتے ہوئے کہتی ہیں :ولا يصلي صلاةَ الفجرِ حتى تطلعَ الشمسُ (صحيح أبي داود:2459) یعنی وہ فجر کی نماز سورج نکلنے کے بعد پڑھتے ہیں۔ رسول اللہ سے صفوان نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ہم اس گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ سورج نکلنے سے پہلے ہم اٹھ ہی نہیں پاتے، اس بات پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: جب بھی جاگو نماز پڑھ لیا کرو ۔
ان دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی میں سے ہرایک کو چاہئے کہ دوسرے کی نماز کی فکر کرے بلکہ شوہر میں اگر غفلت و سستی ہو تو بیوی اس کی غفلت دور کرنے کی کوشش کرے اور بیوی میں کوتاہی ہو تو شوہر اس کی کوتاہی دور کرے۔

(2)سوال: آٹھ سال کا لڑکا اپنی ماں کو لپٹ کر سوتا ہے ، منع کرنے کے باوجود نہیں مانتا، ذرا بتائیں کہ لڑکا کب تک اپنی ماں کے ساتھ سو سکتا ہے؟
جواب: ابوداود میں ایک حدیث ہے جسے شیخ البانی حسن صحیح کہا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
مُروا أولادَكم بالصلاةِ وهم أبناءُ سبعِ سنينَ واضربوهُم عليها وهمْ أبناءُ عشرٍ وفرِّقوا بينهُم في المضاجعِ(صحيح أبي داود:495)
ترجمہ: جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو۔
اس حدیث کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ دس سال کی عمر والا بچہ ماں باپ سے الگ ہوکر علاحدہ بستر پر سوئے گا بلکہ شیخ البانی نے صحیح الجامع میں سات سال والی حدیث ذکر کی ہے ۔نبی کا فرمان ہے:
إذا بلغ أولادُكم سبعَ سنينَ ففرِّقوا بين فُرُشِهم(صحيح الجامع:418)کہ جب بچے سات سال کے ہوجائیں تو ان کے بستر الگ کردو۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور کے بچےماحول اور انٹرنیٹ کی وجہ سے بہت جلد باشعور ہوجاتے ہیں اس لئے آپ اپنے بچوں کو چھ سات سال کے بعد جب سے ان میں شعور ، تمیز اور سمجھداری آنے لگتی ہے اس وقت سے الگ بستر پر سلائیں۔
الگ بستر کا مطلب یا تو ہر بچے کا الگ الگ مستقل بستر ہو یا ایک لمبے بستر پر کئی بچے ہوں مگر ان سب کا مخصوص لحاف/چادر ہو تاکہ آپس میں فصل وجدائی رہے ۔ رہا مسئلہ آٹھ سالہ لڑکے کا اپنی ماں سے لپٹ کر سونا تو اب اس لڑکے کو ماں سے الگ کرکے سلایا جائے گا۔

(3)سوال: کیاسورہ واقعہ کی تلاوت سے فقر وفاقہ دور ہوتا ہے ،کیا یہ سورت عورتوں کو سیکھنا چاہئے ؟
جواب: سورہ کی فضیلت میں یہ روایت آتی ہے : مَن قرأ سورةَ الواقعةِ كلَّ ليلةٍ لم تُصِبْهُ فاقةٌ أبدًا(السلسلة الضعيفة:289)
ترجمہ: جو آدمی ہر رات سورہ واقعہ پڑھے گا اسے کبھی فاقہ نہ پہنچے گا۔
یہ حدیث ضعیف ہے ، اسی طرح جس میں یہ مذکور ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی بیٹیوں کو یہ سورت سکھاتے وہ حدیث بھی ضعیف ہے۔ عورتوں کو اس کی تعلیم دینے سے متعلق یہ حدیث بھی ضعیف ہے۔
علموا نساءَكم سورةَ الوَاقِعَةِ ؛ فإنَّها سورةُ الغنى(السلسلة الضعيفة:5668)
ترجمہ: تم اپنی عورتوں کو سورہ واقعہ کی تعلیم دو کیونکہ مالداری والی سورت ہے۔

(4)سوال: کسی عورت کو بچہ پیدا نہ ہو تو وہ کسی قریبی رشتہ دار سے یا یتیم خانے سے بچہ خرید سکتی ہے؟
جواب: کسی عورت کو بچہ پیدا نہ ہو تو وہ کسی دوسری عورت کا بچہ گود لے سکتی ہے اسلام ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے لیکن کوئی بچہ کسی سے خریدنا جائز نہیں ہے ، نہ یتیم خانے اور نہ ہی کسی رشتے دار سے ۔ حتی کہ انسانی اعضاء میں سے کوئی بھی عضو بیچنا جائز نہیں ہے کیونکہ پورا جسم اللہ کی ملکیت ہے اور انسان صرف اسی چیز کو بیچ سکتا ہے جو اس کی ملکیت میں ہے ۔

(5)سوال: جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تعظیم میں کھڑےہوتے تھے تو دوسروں کی تعظیم میں کیوں نہیں کھڑا ہونا چاہیے ؟
جواب: یہ بات صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آمد پر استقبال کے لئے کھڑے ہوکر آگے بڑھتے جیساکہ ابوداود اور مسند احمد وغیرکی روایت میں ہے : ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
كانت إذا دخَلَتْ عليه قام إليها ، فأخَذَ بيدِها وقبَّلَها وأَجْلَسَها في مجلسِه ، وكان إذا دخَلَ عليها قامت إليه ، فأَخَذَتْ بيدِه فقَبَّلَتْه وأَجَلَسَتْه في مجلسِها(صحيح أبي داود:5217)
ترجمہ:وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ کھڑے ہو کر ان کی طرف لپکتے اور ان کا ہاتھ پکڑ لیتے، ان کو بوسہ دیتے اور اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ آپ کے پاس لپک کر پہنچتیں، آپ کا ہاتھ تھام لیتیں، آپ کو بوسہ دیتیں، اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔
اس طرح کسی آنے والے کے استقبال میں کھڑا ہونا ، سلام ومصافحہ کرنا اور جگہ پر بٹھانا مشروع وجائز ہے لیکن کسی بیٹھے شخص کی تعظیم میں کھڑا ہونا یا کسی آنے /جانے والےوالے کی تعظیم محض میں اپنی جگہ کھڑا ہونا جائز نہیں ہے۔

(6)سوال: کیا انگڑائی لینے میں گناہ ہے ؟
جواب: انگڑائی لینے میں کوئی گناہ نہیں ہے ، ابوداود کی ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں جسے شیخ البانی نے حسن قرار دیا ہے ۔ قبیلہ بنی نجار کی ایک عورت کہتی ہے:
كان بيتي منْ أطولِ بيتٍ حولَ المسجدِ وكان بلالُ يؤذنُ عليهِ الفجرَ فيأتي بسَحَرٍ فيجلسُ على البيتِ ينظرُ إلى الفجرِ فإذا رآهُ تمطَّى، ثم قال : اللهمَّ إني أحمدُكَ وأستعينُكَ على قريشٍ أن يُقيموا دِينَكَ .قالتْ : ثم يُؤذِّنُ .قالتْ : واللهِ ما علمتُهُ كان تركها ليلةً واحدةً تعني هذهِ الكلماتِ(صحيح أبي داود:519)
ترجمہ: مسجد کے اردگرد گھروں میں سب سے اونچا میرا گھر تھا، بلال رضی اللہ عنہ اسی پر فجر کی اذان دیا کرتے تھے، چنانچہ وہ صبح سے کچھ پہلے ہی آتے اور گھر پر بیٹھ جاتے اور صبح صادق کو دیکھتے رہتے، جب اسے دیکھ لیتے تو انگڑائی لیتے، پھر کہتے:اے اللہ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تجھ ہی سے قریش پر مدد چاہتا ہوں کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں، وہ کہتی ہے: پھر وہ اذان دیتے، قسم اللہ کی، میں نہیں جانتی کہ انہوں نے کسی ایک رات بھی ان کلمات کو ترک کیا ہو۔
ایک خیال یہ رہے کہ انگڑائی لینے میں جسم کی کیفیت عجیب سی ہوجاتی ہے لہذا عورت کوانگڑائی لیتے وقت اجنبی نظروں سے بچنا چاہئے۔

(7)سوال:بہت ساری عورتیں آن لائن قرآن کی تعلیم دیتی ہیں ،کیا انہیں مجلس کا اجر وثواب ملے گا؟
جواب: آن لائن قرآن کی تعلیم بھی ایک طرح کی مجلس ہی ہے اور اس کام پر پڑھنے اور پڑھانے والیوں کو وہ تمام فضیلت ملے گی جن کا ذکر قرآن وحدیث میں مذکور ہے تاہم وہ مجلس ذکر جسے فرشتے ڈھانپ لیتے ہیں اور اس پر رحمت و سکینت نازل ہوتی ہے وہ مجلس ایک مقام پہ جسمانی طور پر دینی تعلیم اور ذکر کے لئے جمع ہونا ہے جیساکہ مندرجہ ذیل حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا يَقْعُدُ قَوْمٌ يَذْكُرُونَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا حَفَّتْهُمُ المَلَائِكَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَنَزَلَتْ عليهمِ السَّكِينَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَن عِنْدَهُ.(صحيح مسلم:2700)
ترجمہ:جو لوگ بیٹھ کر یاد کریں اللہ تعالیٰ کی تو ان کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور سکینہ (اطمینان اور دل کی خوشی) ان پر اترتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں میں ان کا ذکر کرتا ہے۔

(8)سوال: کیا کوئی دلہن اپنی تصویر کسی سہیلی کو موبائل پر بھیج سکتی ہے ؟
جواب: اسلام میں جاندار کی تصویر حرام ہے اس لحاظ سے دلہا یا دلہن کو چاہئے کہ شادی کے موقع پر تصویر کشی سے پرہیز کرے ۔ اگر کسی دلہن کے موبائل میں اس کی شادی کی تصاویر ہوں تو سہیلیوں کو بھیجنے کی بجائے دلہن کو چاہئے کہ ان تصاویر کو ڈیلیٹ کردے تاکہ جاندار کی تصویر رکھنے کے گناہ سے بچ جائے ۔ گوکہ ایک عورت دوسری عورت کی تصویر دیکھ سکتی ہے مگر چونکہ جاندار کی تصویر حرام ہے اس لئےبلاضرورت موبائل میں رکھنا یا کسی کو بھیجنا جائز نہیں ہے ۔ ڈیجیٹل تصویرکو بعض علماء نے جائز کہا ہے مگر ان کا موقف دلائل کی رو سے کمزور ہے ، صحیح اور قوی موقف یہ ہے کہ ڈیجیٹل تصویر بھی حرمت والی تصویر میں داخل ہے ۔

(9)سوال: میں پاکستان کی لیڈی ڈاکٹر ہوں ، میرے پاس شادی شدہ اورغیرشادی شدہ دونوں قسم کی عورتیں اسقاط حمل کے لئے آتی ہیں ،اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مجھےکیا کرنا چاہئے ؟
جواب: صحیح مسلم میں غامدیہ کی ایک عورت کا واقعہ مذکور ہے جس نے زنا کرلی تھی اور حمل ٹھہر گیا تھا ، گناہ کے خوف سے رسول اللہ سے پاک کرنے کی گزارش کرتی ہیں، رسول نے فرمایا،بچہ جننے کے بعد آنا، جب بچہ جن کر لائی تو آپ نے کہا جا دودھ پلاجب اس کا دودھ چھٹے تب آنا، دودھ چھٹنے کے بعد واپس آئی اس حال میں کہ بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا۔ آپ نے سنگسار کرنے کا حکم دیا۔اس واقعہ میں یہ بھی مذکور ہےکہ سر پہ ایک پتھر مارنے سے خالد رضی اللہ عنہ کے منہ پرخون گرا تو برابھلا کہنے لگے ، جب رسول نے یہ بات سنی تو فرمایا:
مَهْلًا يا خَالِدُ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بيَدِهِ لقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لو تَابَهَا صَاحِبُ مَكْسٍ لَغُفِرَ له(صحيح مسلم:1695)
ترجمہ:خبردار اے خالد (ایسا مت کہو) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس نےاتنی (خلوص کے ساتھ ) توبہ کی ہے اگر حرام ٹیکس کھانے والا بھی ایسی توبہ کرلے تو بخش دیا جائے ۔
ایک دوسری روایت میں ہے :لقد تابت توبةً لو قُسِّمَتْ بين سبعين من أهلِ المدينةِ لوسعَتْهم ( صحيح الجامع :۵۱۲۸)
اس نے اتنی (خلوص سے توبہ کی ہے) کہ اگر ستر اہل مدینہ میں تقسیم کردی جائے تو ان کے لیےکافی ہوجائے۔
اس واقعہ کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد زنا کی سنگینی ، ایمان والی خاتون سے زنا سرزدہونے پر غذاب الہی کا خوف ، بھیانک سزا اور غامدیہ کی خالص توبہ کوذکرکرنا ہےتاکہ آج کی مسلم خواتین اس واقعہ سے عبرت حاصل کرے ۔
اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اگرزنا کرنے سے حمل ٹھہر جائے تو اس کو ساقط نہیں کیا جائے گا چاہے عورت شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ حتی کہ کوئی بھی حمل ضائع کرنابڑا گناہ ہے۔ حمل ایک جان اور ایک نفس ہے اس کا اسقاط ایک نفس کا قتل ہے لہذا آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کا خوف کھاتے ہوئے کسی بھی عورت کا حمل ساقط نہ کریں الا یہ کہ حمل سے عورت کی جان کو خطرہ ہو تو ضائع کیا جاسکتا ہے۔اس بارے میں میرے بلاگ پر "اسقاط حمل پہ دیت وکفارہ کا حکم" پڑھنا مفید رہے گا۔

(10)سوال:کیاماہواری سے پاک ہونے کے بعد غسل کرنے سے پہلے مباشرت کرنا جائز ہے اور اگر کسی نے غسل سے پہلے مباشرت کرلیا تو کیا حکم ہے؟
جواب: اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ حیض سے پاک ہونے کے بعد اس وقت تک جماع کرنا جائز نہیں ہے جب تک عورت غسل نہ کرلے ۔ اگر کوئی غسل حیض سے قبل جماع کرلیتا ہے اسے توبہ واستغفار کے ساتھ ایک یا آدھا دینار صدقہ کرنا چاہئے ۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے غسل حیض سے قبل جماع کرنے پرکفارہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے کہا کہ غسل سے قبل جماع کرے تو کفارہ دینا پڑے گا۔ (بن بازڈاٹ آرگ ڈاٹ ایس اے)

(11)سوال:میں نے سناہے کہ ماں کوطلاق ملنے پر اس کی اولاد کو باپ کی وراثت سے حصہ ملے گا مگر خلع ہونے کی صورت میں حصہ نہیں ملے گا کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب: آپ نے جو سنا ہے وہ صحیح نہیں ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ حقیقی اولاد اپنے باپ کی جائیداد سے حصہ پائے گی چاہے ماں کو طلاق ملے یا خلع ملے ۔

(12)سوال:کسی کسی عورت کا ابرو ہلکا ہوتا ہے تو کیا وہ بلیک قلم سے اس جگہ کو ڈارک کرسکتی ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آنکھوں کی پلکوں کو بھی کالا سرمہ لگایا جاتا ہے ؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بالوں کو کالے رنگ سے رنگنے سے منع فرمایا ہے ، یہ حکم عورت ومرد دونوں کے لئے ہے اس لئے کوئی عورت بالوں کو رنگنے کے لئے کالے رنگ کا استعمال نہیں کرسکتی ہے ۔ابرو کا ہلکا ہونا کوئی عیب نہیں ہے جس کے علاج کی ضرورت ہو، اس کو ویسے ہی رہنے دینا چاہئے ۔رہا سرمہ کا مسئلہ تو وہ پلکوں پر نہیں لگایا جاتا بلکہ آنکھوں میں ان کی حفاظت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور پھر سرمہ کی اجازت ہے تو یہ اجازت صرف آنکھوں کے لئے ہے نہ کہ ابرو کے لئے ۔

(13)سوال:عورت اگر انگشت زنی کرے تو کیا غسل واجب ہوجاتا ہے جبکہ مذی نکلے مگر منی کا خروج نہ ہو؟
جواب: اولا میں مسلم بہنوں کو اس بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ غیرفطری طریقے سے شہوت پوری کرنا جائز نہیں ہے اس عمل سے باز رہیں ، اللہ کا خوف کھائیں اوراپنے اندر اعمال صالحہ کی طرف رغبت پیدا کریں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ شہوت کے ساتھ منی کا خروج ہونے سے غسل واجب ہوجاتا ہے چاہے انگشت زنی سےہو یا کسی اور طریقے سے۔ عورت کی منی باہرنکلنے کی بجائے رحم کی طرف جاتی ہے اس لئے اگر عورت کو شہوت کے ساتھ منی نکلنے کا احساس ہو تو غسل واجب ہوجاتا ہے تاہم فقط لیس دار مادہ جسے مذی کہتے ہیں اس کے نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا۔

(14)سوال:ہمارے یہاں دلہن کو اسٹیج پر لایا جاتا ہے کیا عورتیں پردے میں رہتےہوئے دلہا ودلہن کے رسم ورواج کو دیکھ سکتی ہیں؟
جواب: اصل میں دلہن کو اسٹیج پہ لانا اور وہاں پہ مردوعورت کا ایک ساتھ اکٹھا ہونا شریعت کے مخالف ہے ۔ مردوں کی محفل میں دلہن کو نہیں لانا چاہئے اور اسی طرح عورتوں کو بھی مردوں کی محفل میں جمع نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ الگ بات ہے کہ عورتیں مردوں کو دیکھ سکتی ہیں ، دلہا کو بھی دیکھ سکتی ہیں مگر کسی محفل میں مردوعورت کا اختلاط نہیں ہونا چاہئے ۔

(15)سوال:کیا عورت فوت شدہ فرض روزےشوہرکی اجازت کے بغیر قضا کرسکتی ہے ؟
جواب: عورت فوت شد ہ فرض روزے شوہر کی اجازت کے بغیر قضا کر سکتی ہے ، کوئی حرج نہیں ہے ،صرف نفلی روزوں میں شوہر کی اجازت چاہئے ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط:26)

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ/دعوہ سنٹرجدہ ، حی السلامہ ، سعودی عرب


سوال(1):عورت مریض کے سینے میں گانٹھ وغیرہ ہوتو ڈاکٹر کے مریض کا کپڑا ہٹا کر چیک کرنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اسی طرح ہاتھ میں دستانہ لگاکر مقعد کے زخم کو دیکھنے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے؟
سوال:سوال غالبا ڈاکٹر کے وضو سے متعلق ہے اس کا جواب یہ ہے کہ وضو کی حالت میں سینہ کا حصہ کھولنے، اس کو چیک کرنے اور دیکھنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے اسی طرح اگر ڈاکٹر دستانہ لگاکرمریض کے مقعد کا زخم دیکھےیا کپڑے کے اوپرسے مقعد کوچھوئے تو اس سے بھی ڈاکٹر کا وضو نہیں ٹوٹے گابلکہ ان دونوں کاموں سے مریض کا بھی وضو نہیں ٹوٹے گا۔
یعنی پردہ کے ساتھ کپڑا کے اوپر سے اگلی یا پچھلی شرمگاہ کو ہاتھ لگ جائے تو وضو نہیں ٹوٹے گاالبتہ اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ بغیرپردہ کے پچھلاحصہ یعنی مقعد چھونے سے وضو باقی رہے گا یا ٹوٹ جائے گا؟ اس بارے میں ایک قول یہ ہے کہ حدیث میں صرف اگلی شرمگاہ کے چھوجانے سے وضو کرنے کا حکم ہوا ہے اس لئےبغیر حائل کےمقعد چھونے سے وضو نہیں ٹوٹے گاجیساکہ یہ حدیث دیکھیں اس میں ذکر(مردکی اگلی شرمگاہ) اور فرج (عورت کی اگلی شرمگاہ)کا لفظ آیاہے ۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلْيَتَوَضَّأْ، وَأَيُّمَا امْرَأَةٍ مَسَّتْ فَرْجَهَا فَلْتَتَوَضَّأْ(مسند احمد:7076 اسنادہ حسن(
ترجمہ: جو شخص اپنی شرمگاہ کو چھوئے اسے نیا وضو کر لینا چاہئے اور جو عورت اپنی شرمگاہ کو چھوئے وہ بھی نیا وضو کر لے۔
جبکہ متعدد علماء اس جانب گئے ہیں کہ پچھلی شرمگاہ یعنی مقعدکا بھی وہی حکم ہےجو اگلی شرمگاہ ہے کیونکہ یہ بھی نجاست کے نکلنے کی جگہ ہے، ایسی صورت میں بغیرحائل کے مقعد چھونے سے وضو ٹوٹ جائے گا، یہاں پورا مقعد مراد نہیں ہے بلکہ پاخانہ نکلنے کی جگہ ، اس کا حلقہ مراد ہے۔

سوال(2): جس کو کمردرد ہو اور جھکنے اور بیٹھنے سے ڈاکٹر نے منع کیا ہو تو کیا کھڑے کھڑے پیر دھوئے تو وضو ہوجائے گا اور کیا پیروں میں خلال کرنا ضروری ہے؟
جواب:اگر کسی کو جھکنے میں پریشانی ہو تو وہ کھڑے کھڑے پیر دھو لے اور اس طرح پیر دھوئے کہ پیر کا مکمل حصہ دھل جائے تو وضو صحیح ہے ، وضو کرنے والے کے لئے پیر کا خلال کرنا آسان ہو تو خلال کرلے اور خلال کرنا آسان نہ ہو تو پیر تک پانی پہنچ جانا کافی ہوگا۔

سوال(3): میت کی مغفرت کے لئے جو دعا ہے مثلا اللھم اغفرلہ وارحمہ۔۔۔۔یہ دعا تو مرد کے لیے پڑھی جاتی ہے کیا عورت کے لئے بھی اسی طرح پڑھیں گے جیسے یہ دعا وارد ہے اور بھی دعائیں ہیں۔اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَهُ وَ ارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِی الْمَھْدِیِّیْنَ وَ اخْلُفْهُ فِیْ عَقِبِهِ فِی الْغَابِرِیْنَ وَ اغْفِرْلَنَا وَلَهُ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ وَ افْسَحْ لَهُ فِیْ قَبْرِهِ وَ نَوِّرْ لَهُ فِیْهِ۔کیا اس میں عورت کا اعتبار کرکے ھا ضمیر لگاسکتے ہیں یا اس جگہ میت کا نام لے سکتے ہیں؟
جواب : جب میت عورت ہو تو اس دعا کو پڑھتے وقت "ہ" کی جگہ مؤنث کی ضمیر "ھا" استعمال کریں گے اور مذکورہ دعا کو اس طرح پڑھیں گے ۔
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَها وَ ارْفَعْ دَرَجَتَها فِی الْمَھْدِیِّیْنَ وَ اخْلُفْها فِیْ عَقِبِها فِی الْغَابِرِیْنَ وَ اغْفِرْلَنَا وَلَها یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ وَ افْسَحْ لَها فِیْ قَبْرِها وَ نَوِّرْ لَها فِیْهِ.
گویا دعا میں عورت کے حساب سے بس ضمیر کی تبدیلی کریں اور اس دعا میں میت کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے ، مونث کی ضمیر استعمال کرنا ہی کافی ہے۔

سوال(4): میں دلہن بننے والی ہوں ، میں جب کسی جگہ شادی ہال میں رہوں گی تو وہاں نماز پڑھنے کے لئے قبلہ معلوم کرنا میرے لئے بہت مشکل ہے، مجھے انٹرنیٹ اور موبائل سے قبلہ معلوم کرنا نہیں آتا اس لئے اس مسئلے میں میری رہنمائی کیجئے؟
جواب: آج کے زمانے میں قبلہ کا رخ کہیں سے بھی معلوم کرنا آسان ہوگیا ہے، انٹرنیٹ پر متعدد ویب سائٹ موجود ہے، ایک مشہور ویب eqibla.com ہے، اسے اوپن کرکے اس میں اپنے شہر اور ملک کا نام لکھیں اور لوکیشن پر کلک کرکے قبلہ دیکھ لیں ۔ موبائل ایپ میں بھی یہ سہولت دستیاب ہے اور کوئی مشکل نہیں ہے ، کسی جاننے والے سے ایک مرتبہ اس عمل کو برت کا دیکھیں۔
ان ساری باتوں کو چھوڑ کر ویسے بھی آپ مسلمانوں کے بیچ رہیں گے، وہاں نماز پڑھنے والے موجود ہوں گے، آپ کے ساتھ کتنی خواتین ہوں گی ، کسی کے ذریعہ قبلہ رخ معلوم کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اگرآپ اکیلے کہیں جنگل و صحرا میں ہوتے تو شاید آپ کے لئے قبلہ معلوم کرنا مشکل ہوتا مگر آپ کا معاملہ مختلف ہے، آپ جہاں بھی رہیں گے مسلمانوں کے بیچ رہیں گے لہذا مسلمانوں سے قبلہ پوچھ کر نماز پڑھیں گے بلکہ آپ کے ساتھ جو خواتین ہوں انہیں بھی اپنے ساتھ نماز پڑھوائیں۔

سوال(5):کیا عورت گھر میں اذان و اقامت کے درمیان دو رکعت نماز پڑھ سکتی ہے اور بعض دفعہ کچھ تاخیر ہوجاتی ہے تو تب بھی پڑھ سکتی ہے؟
جواب:صحیحین کی حدیث میں مذکور ہے کہ اذان واقامت کے درمیان دو رکعت ہے، اس حدیث میں مردوعورت دونوں شامل ہیں کیونکہ یہ حدیث عام ہے۔ لہذا عورت گھر میں رہتے ہوئے جب عام مساجد میں اذان ہوجائے تو یہ دورکعت(اذان واقامت کے درمیان والی) پڑھ سکتی ہے حتی کہ اگر کسی مسجد میں اقامت بھی ہوجائے یا نماز بھی ختم ہوجائے تب بھی اپنے گھر میں عورت یہ دو رکعت پڑھ سکتی ہے پھر وہ فرض نماز پڑھے ۔ تاہم کوشش یہ کرے کہ اذان کے فورا یا کچھ دیر میں یہ نماز ادا کرلے ۔

سوال(6): ہمیں یہ معلوم ہے میاں بیوی ایک دوسرے کو وفات کے وقت غسل دے سکتے ہیں لیکن اگر بیوی شوہر کو غسل کراتے وقت اکیلے نہ کرپائے تو کیا اپنے محارم مثلا بیٹا یا بھائی سے مدد لے سکتی ہے کیونکہ مدد کی ضرورت پڑتی ہے؟
جواب: شوہر اگر بیوی کو یا بیوی اگر شوہر کو غسل دے تو کسی اور کو ساتھ میں میت کے پاس نہیں رکھ سکتے ہیں کیونکہ میاں بیوی کے درمیان پردہ نہیں ہے لیکن ایک مرد کا اپنی بیوی کے علاوہ دوسری عورت کے غسل کی جگہ ہونا یا غسل کرانا ، اسی طرح ایک عورت کا اپنے شوہر کے علاوہ دوسرے مرد کے غسل کی جگہ ہونا یا غسل کرانا جائز نہیں ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ اکیلی عورت کا میت کو غسل دینا ذرا مشکل امر ہے اس لئے جو عورت اپنے شوہر کو اکیلی غسل نہ دے سکے وہ غسل نہ دلائے ، مردوں کے لئے چھوڑ دے وہ غسل دلائے۔ یا پھر ایسا کرسکتے ہیں کہ میت کو غسل خانہ لانے سے قبل غسل کے سامان وغیرہ کی تیاری میں دوسروں سے مدد لے پھر بیوی اپنے شوہر کو اکیلی غسل دلائے ،اٹھاکرلانا اور کفن پہنانا مردوں کےلئےچھوڑ دے ۔رہا مسئلہ مرد مرد کو نہلانے یا عورت عورت کو نہلانے کا تو حسب ضرورت مددگار رکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔

سوال(7) : کسی بہن نے سوال کیا ہے سعودی حکومت نے کہا ہے کہ حج و عمرہ کے لئے محرم ہونا ضروری نہیں ہے ، اسلام کے حساب سے اس کی کیا حیثیت ہے؟
جواب : حج یا عمرہ کے لئے اسلام نے محرم کی شرط نہیں لگائی ہے، محرم کی شرط سفر کے لئے ہے اس لئے جو عورت مکہ میں مقیم ہو وہ حج یا عمرہ بغیر محرم کے کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جو عورت جدہ، طائف، ریاض، مدینہ یا پھر انڈیا، پاکستان سے حج یا عمرہ کے لئے آئے تو اس کو محرم کے ساتھ سفر کرنا ضروری ہے۔

سوال(8): میرا بیٹا پانچ سال کا ہے، اس کا نام ابوذر ہے ۔ پچھلے کچھ دنوں سے وہ سوکر جب اٹھتا ہے تو ایک ہی طرف ہاتھ کا اشارہ کرکے روتا ہے اور کافی دیر تک روتا ہے ، دوبار ایسا ہوچکا ہے اور عشاء کے بعد جب وہ سوجاتا ہے تب ایسا ہوتا ہے؟
جواب :ہوسکتا ہے کچھ ڈراؤنا خواب دیکھ لیا ہو اس لئے اس میں گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے۔ رات کو جب بچے کو سلائیں تو آپ عشاء کی نماز کے بعد بچے پر دم کردیا کریں اور مسلسل کریں یہاں تک کہ ٹھیک ہوجائے اور ان شاء اللہ دم کرنے سے ٹھیک ہوجائے گا۔ بچے کو بھی سونے کی دعا پڑھا کرسلائیں۔
میری چھوٹی بچی کے ساتھ بھی کئی ماہ تک ایسا ہوتارہا کہ اچانک نیند سے بیدار ہوکر بیٹھ جاتی اور زور زور سے رونے لگتی، دیکھنے میں بہت ڈری سہمی اور گھبرائی ہوئی لگتی، اہلیہ سے عشاء کی نماز کے بعد بچی پر دم کرنے کو کہا، مسلسل دم کیا گیا اور الحمدللہ کئی سال ہوگئے اب دوبارہ کبھی ویسا نہیں ہوا۔

سوال(9): آج کل جو مصنوعی زیورات پہنے جاتے ہیں سونے چاندی کے علاوہ جیسے Bentex دھات کی چوڑیاں اور انگوٹھی تو کیا ان کو پہننے سے نماز نہیں ہوتی ہے؟
جواب : زیورات پہن کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، زیورات چاہے سونے چاندی کے ہوں یا کسی دوسرے دھات سے بنے ہوئے ، ان میں نماز پڑھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال(10) : کیا عورت لیزر سے ہمیشہ کے لئے بغل کے بال صاف کرواسکتی ہے؟
جواب: اس بارے میں کسی ماہر طبیب سے پہلے اچھی طرح یقین کرلیں کہ اگر لیزر سے ہمیشہ کے لئے بغل کے بالوں کی صفائی کرتے ہیں تو کیا اس سے کوئی نقصان پہنچے گا ؟ اگر کہے کہ اس میں کوئی نقصان نہیں ہے تو ہمیشہ کے لئے بھی بغل کے بال صاف کرواسکتے ہیں لیکن اگر اس میں کوئی جسمانی ضرر ہو تو اس کام سے بچیں کیونکہ اسلام نے خود کو نقصان پہنچانے سے منع کیا ہے۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(قسط-27)

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ ، سعودی عرب

سوال(1): نکاح نامہ پر حق مہر عند الطلب لکھاہے مگر شوہر بیوی کو ادا نہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: حق مہرعندالطلب کا مطلب ہے جب بیوی مہر طلب کرے اس وقت مہر دینا ہے ۔ اس لئےبیوی کو جب پیسو ں کو ضرورت ہو وہ اپنے خاوندسےمہر طلب کرے ،ا س وقت شوہر کا حق یہ ہے کہ بیوی حق مہر ادا کرے ، نہ دینے کی صورت میں شوہر جواب دہ ہے ، ایسے حال میں بیوی چاہے تو شوہر کو(اگرمجبوری ہے تو) مزید مہلت دے یا پھرگھروالوں اور صلح کروانے والوں کے تعاون سے اپنا حق حاصل کرے ۔ مہر تو حق ہے یہ معاف نہیں ہوگا، الا یہ کہ بیوی خوش دلی سے (بغیرجبرکے) معاف کردے تو معاف ہوسکتا ہے ۔ شوہر مہر ادا کئے بغیردنیا سے چلا جائے تو عنداللہ اس کا مواخذہ ہوگا ، یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے۔

سوال(2): کیا زم زم کے پانی میں گھر کا پانی مکس کرکے مریض کو دے سکتے ہیں؟
جواب: ہاں زمزم میں عام پانی جسے ہم اپنے گھروں میں کھانے پینے میں استعمال کرتے ہیں مکس کرکے مریض کو پلا سکتے ہیں ، اللہ کے فضل سے زمزم میں شفا ہے اسے پینے سے اللہ چاہےتومریض کو شفایابی مل سکتی ہے۔

سوال(3): اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے مگر بیوی نے طلاق کا لفظ سنی نہ ہو تو کیا اس طرح سے طلاق واقع ہو جائے گی؟
جواب: طلاق واقع ہونے کے لئے بیوی کا سننا ضروری نہیں ہے اس تک خبر پہنچ جائے یہی کافی ہے چاہے جس طرح خبر پہنچے اور جس کے ذریعہ خبر پہنچے۔اس لئے اس صورت میں بھی طلاق واقع ہوجائے گی لیکن ایک وقت میں تین طلاق دینے سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے۔

سوال(4): اگر کسی عورت کے پاس بارہ تولے سونا ہو اور اس میں سے سات تولہ سونا اپنی بہو کو دے دے، اب اس عورت کے پاس باقی پانچ تولہ سونا ہےتو کیایہ عورت اب بھی پورے بارہ تولہ سونا کی زکوة ادا کرے گی جس طرح ہر سال نکال رہی تھی، یا ان کے پانچ تولہ پر زکوة نہیں ہے اور جو بہو کو سات تولہ دیا ہے اس کی زکوة بیٹے اور بہو نے ادا کرنی ہے؟
جواب: جس بہن کے پاس بارہ تولہ سونا تھا اس نے سات تولہ سونااپنی بہو کو دے دیا تو وہ سات تولہ سونا اب بہو کا ہوگیایعنی وہ بہو کی ملکیت ہے۔ اب اس عورت کے پاس صرف پانچ تولہ سونا ہے اس پر زکوة نہیں ہے کیونکہ پانچ تولہ سونا نصاب کو نہیں پہنچ رہا ہے۔ بہو کے پاس جو سونا ہے سات تولہ اور مزید کچھ سونا ہو جس سے ساڑے سات تولہ ہوجائے تو بہو کوسال پوراہونے پرزکوة دینی ہے ،یا سات تولہ سونا مع کچھ نقدی جس سے نصاب پورا ہوجائے تب بھی زکوۃ دینی ہےلیکن صرف سات تولہ سونا (مزید سونا یا نقدی نہ ہوجس سے نصاب مکمل ہو)تو زکوة نہیں ہے۔سونا پر زکوۃ کے لئےساڑھے سات تولہ ہونا اور اس پر ایک سال کا گزرنا ضروری ہےنیزکچھ سونا اور کچھ نقدی ہو جونصاب تک پہنچ جائے تب بھی زکوۃ ہے۔

سوال(5):کھانا بناتے وقت انجانے میں میڈک آگ میں چلا کیالیکن فورااسے آگ سے نہ نکال سکے چند منٹ بعد نکالے تو کیااس پر ہمیں گناہ ہوگا؟ اگر اس گناہ کا کوئی کفارہ ہے تو بتا دیں؟
جواب: خود سے میڈک آگ میں کودکر چلا جائے تو اس پر آپ گنہگار نہیں ہیں، آپ نے کسی کو تکلیف نہیں دی ہے ،میڈک تو آپ خود آگ میں کودا ہے اس لئے اس میں آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی کفارہ ادا کرنا ہے ، آپ نے اسے آگ سے نکال دیا یہی کافی ہے ۔

سوال(6)ہم واش روم استعمال کر نے کے بعد وضو کر کے نماز پڑھ لیتے ہیں کپڑے سوکھنے کا انتظارنہیں کرتے اور ہمیں شرعی عذر بھی لاحق ہے ، کیاہماری نماز یا وضو میں کوئی کمی ہے؟
جواب:مریض کے لئے ویسے بھی شریعت نے چھوٹ رکھی ہے اور نماز کے وقت کپڑے کچھ گلےہ ہوں یا وضو کے پانی اعضاء پر لگے ہوں تو نماز پڑھنےمیں کوئی حرج نہیں ہے، سکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال(7): ہم گھر میں پانچ افراد رہتے ہیں، میں ، میرا شوہر اور تین بچے۔ کیا ہم کبھی کبھی گھر میں جماعت بنا کر نماز پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: ہاں کبھی ضرورت پڑے تو گھرکے سارے لوگ ایک ساتھ مل کر نماز پڑھ سکتے ہیں ، جب نمازیوں میں مرد بھی ہو جیساکہ آپ نے بتایا کہ ہم مع شوہر پانچ لوگ ہیں تو ایسی صورت میں مرد ہی امامت کرائے گا ، صف بندی میں شوہر یا بیٹاجو پڑھالکھا ہوامام کی حیثیت سے سب سے آگےپھر اس کے پیچھے مرد اور اس کے پیچھے عورتیں ۔شوہر اور ماں بیٹیاں ہوں تو شوہر آگے اور ماں بیٹیاں پیچھے ایک صف میں ۔ اگر شوہر ، ایک بیٹا ، چند بیٹی اور بیوی ہو تو شوہر کے بغل میں بیٹا کھڑا ہو اور عورتیں سب پیچھے کھڑی ہوں گی۔جب صرف عورتیں ہی عورتیں ہوں تو عورت امامت کرائے گی، عورتوں کا امام درمیان صف میں رہے۔

سوال(8):میرے دو چھوٹے بچے ہیں ، دو سال کا بیٹا اور ایک سال کی بیٹی، ان کی وجہ سے اکثر میری فجر کی نماز ضائع ہو جاتی ہے۔ بچے اٹھنے نہیں دیتے، رونے لگ جاتے ہیں اور کبھی ان کے گرنے کا خطرہ، کبھی انہیں دودھ دینا ہوتا ہے، ایسی صورت میں کیا کیا جائے گا،کیامیرا شمار منافقوں میں ہوگاجبکہ میں جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتی بلکہ بچوں کی وجہ سے مجبور ہو جاتی ہوں؟
جواب: بلاشبہ جب بچے چھوٹے ہوں اور ایک سے زیادہ ہوں اور کوئی مددگار بھی نہ ہو تو ایک عورت کے لئے بہت ساری پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے،اللہ نیت سے باخبر ہے اور بندوں کی مجبوری کو بھی سمجھتا ہے اس لئے اس بہن کو جو ہزار پریشانی کے باوجود نماز کی فکر کرتی ہے اور وقت پر ادا کرنے کی کوشش کرتی ہے اللہ بہترین بدلہ عطا فرمائے گا۔
مجبوری اور عذر کی وجہ سے کبھی وقت پر نماز نہ پڑھ سکیں تو جیسے ہی وقت ملے اس کو ادا کرلیں ایسی صورت میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، اسے منافقت نہیں کہیں گے بلکہ مجبوری کہیں گےلیکن فکر وکوشش نماز ادا کرنے کی ہو۔ اس کا طریقہ یہ اپنائیں کہ آپ نماز سے پہلے دونوں بچوں کی ضرورت پوری کردیں پھر جس سے امید ہو کہ یہ روئے گا اس کو گود میں لے کر نماز پڑھ سکتی ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ ہر نماز کا اول و آخر وقت ہوتا ہے اس درمیان کبھی بھی پڑھ سکتے ہیں، نماز فجر کاوقت طلوع فجر سے لیکر سورج نکلنے تک ہے اس درمیان آپ نماز ادا کرسکتی ہیں تاہم اول وقت پر پڑھنا افضل ہے۔

سوال(9)آج کل بہت سی رکارڈ شدہ تلاوت میں میوزک ہوتاہےیا ووکل ساؤنڈ ہوتے ہیں جو میوزک سے ہی ملتے جلتے ہیں، ایسے میوزک کی آوازیں منہ سے نکالنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: جس طرح موسیقی اور اس کے آلات حرام ہیں ویسے ہی منہ سے بھی نکالی گئی موسیقی حرام ہوگی کیونکہ یہ بھی فتنے کا سبب ہے اور موسیقی کی حرمت کی علت سر وتال ہے جو انسان کو پرکیف ومسحور کردےاس لئے منہ سے نکالی گئی موسیقی کی آوازسے یاایسی آواز والی تلاوت سے بچنا ہے۔

سوال(10): اگر بچے قاعدہ ختم کریں تو قرآن شروع کرنے سے پہلے بچے کو خوشی کے طور پر پھول پہنا سکتے ہیں یا کچھ پکوان پکانا یا گفٹ دینا جائز ہے ایسے موقع پر؟
جواب:بچے کو خوش کرنے کے لئے اسے گفٹ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن رسم و رواج سے بچنا چاہئے، پھول مالا بعد میں ایک طریقہ اختیا ر کر لیتا ہے اور آج ایسا ہی ہورہاہے، پہلے کسی ایک نے اپنے بچے کو ختم قاعدہ یا ختم قرآن پرپھول مالاپہنایا ہوگا پھر لوگ دیکھادیکھی ایسا کرنے لگےحالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہےبچے کو گفٹ دیناہی کافی ہے ، وہ اسی سے خوش ہوجائے گا، پھول مالا تو لوگوں کو دکھانے کے لئے ہوتا ہے۔لہذا آپ اس موقع سے اپنے بچے کو جتنا بڑا گفٹ دینا چاہتے ہیں اسے دیں لیکن اس موقع سے پکوان پکانااورمالا پہنانا چھوڑدیں تاکہ رسم ورواج اور فضول کاموں کا خاتمہ ہو۔

سوال(11): ایک بہن کا سوال ہے ، میرے گھر میں پریشانی ہے شوہر کو جاب نہیں مل رہی اور نہ مجھے، ہم نماز بھی پڑھتے ہیں اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں لیکن پتا نہیں کیا برائی ہے، آپ بتائیں میں کیا پڑھوں ؟
جواب:اس بہن کو معلوم ہونا چاہئے کہ جاب کرنا عورت کی ذمہ داری نہیں ہے اس لئے اپنا ٹینشن ختم کریں، باقی رہا شوہر کا معاملہ، اگراسےکوئی خاص قسم کی نوکری نہیں مل رہی ہے تو کیا دنیا میں کوئی کام نہیں ہے؟ ہزاروں کام موجود ہیں لوگ کرنا نہیں چاہتے ۔ دہاڑی مزدوری کے لئے لوگ نہیں ملتے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ کام نہیں ہے ۔ کیا سرکاری جاب اور مخصوص نوکری کرنا ہی کام ہے ، روزانہ کے بیس پر کام کرنا یہ نوکری نہیں ہے، یہ کام نہیں ہے ۔ انبیاء نے بکریاں چرائی ہیں پھر ہم کسی کام کو کیوں چھوٹا یابراسمجھتے ہیں ۔ پڑھے لکھے لوگ بھی چاہیں تو ہزاروں کام کرسکتے ہیں مگر لوگوں نے دماغ میں اپنے حساب کا کام بٹھا رکھا ہے، وہ کام جب تک نہ ملے سمجھتے ہیں ہمیں نوکری نہیں ملی ۔ کوئی بھی کام کرکے زندگی بسر کرسکتے ہیں اور کسی پیشہ کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے ۔ اس لئے فوری طور پر جو کام سامنے ہے اسے کرنے لگ جائیں ، ایک کام کرتے ہوئے آگے اس سے بھی بڑا کام کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور اللہ پر توکل کے ساتھ نماز میں اللہ تعالی سے خوشحالی کی دعا بھی کریں، ممکن ہے آئندہ بڑا روزگارمل جائے۔ ہمیں یہی کرنا ہےاور نوکری پانے کا کوئی خاص وظیفہ اسلام میں نہیں ہے ۔

سوال(11): میں نے کچھ ایسا سناکہ جس مرد سے عورت کا نکاح ہوتا وہ اسی مرد کی پسلی سے پیدا کی گئی ہے،مطلب جب روحیں بنیں اور انسان کے وجود کی تخلیق کیا خدا نے تو اسے اسی مرد کی پسلی سے پیدا کیا جس سے اس کا نکاح ہوا؟اور کہاجاتا ہے کہ انسان جس جگہ دفن ہوتا ہے اس کی مٹی سے پیدا ہوتا ہے؟
جواب:حوا علیہا السلام کو آدم علیہ کی پسلی سے پیدا کیا گیا اس وجہ سے عورتوں کے بارے میں حدیث میں کہا گیا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ ہر عورت مرد کی پسلی سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ جس طرح مرد پیدا ہوتے ہیں اسی طرح عورت بھی پیدا ہوتی ہے ، پسلی والی بات حوا علیہاالسلام کی نسبت سے کہی جاتی ہے ۔ اور سوال میں جو بات کہی گئی کہ جس مرد سے نکاح ہوتا ہے وہ عورت اسی کی پسلی سے پیدا ہوتی ہے غلط بات ہے ، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ عقل کے بھی خلاف ہے ۔ہم دیکھتے ہیں زندگی بھر کتنی عورتوں کی شادی نہیں ہوتی ، کتنی عورتیں شادی ہونے سے پہلے فوت ہوجاتی ہیں یا کتنی عورتوں کی متعدد شادی ہوتی ہے ایسی صورت میں وہ عورت کس مرد کی پسلی سے پیدا ہوئی؟ اسی طرح دوسری بات بھی غلط ہے کہ انسان جس جگہ دفن ہوتا ہے اس کی مٹی سے پیدا کیا گیا ، اس بات کی کوئی دلیل اور کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

سوال (12): ایک بہن کا سوال ہے میری پھوپھی عدت میں ہیں 13 ستمبر کو عدت مکمل ہوگی، عدت مکمل ہو جانے پر کوئی دعا پڑھنی ہوتی ہے یا اس دن خیرات وغیرہ کرناہے یا پھر عدت سے اٹھنے پر کون سا عمل کرنا چاہیے وضاحت فرمادیں؟
جواب: عدت مکمل ہونے پر نہ کوئی دعا پڑھنی ہے ، نہ صدقہ و خیرات کرنا ہےاور نہ ہی کوئی خصوصی عمل انجام دینا ہے ۔ شاید وفات کی عدت کے بارے میں سوال ہے تو عدت ختم ہونے سے جو عدت میں پابندی تھی وہ پابندی ختم ہوجاتی ہے اور کوئی بات نہیں ہے ۔بیوہ سے متعلق مزید مسائل کی جانکاری میرے مفصل مضمون سے حاصل کرسکتے ہیں ۔

سوال(13):ڈاکٹر نے ایک مریضہ کو شرم گاہ میں ایک گولی رکھنے کے لیے دی ہے جو پگھل پگھل کر شرم گاہ سے نکلتی رہتی ہے اس میں لیکوریا یا منی بھی شامل ہوسکتی ہے تو ایسے میں کیا وہ ہرنماز سے پہلے غسل کرے گی؟
جواب:ایسی صورت میں شرمگاہ سے نکلنے والی رطوبت دوا یا کسی مرض کی وجہ سے ہوسکتی ہے اور ہرنماز کے لئے وضو کرناکافی ہے ، غسل کی حاجت نہیں ہے ۔

سوال(14): کیا یہ ضروری ہے کہ عورت کے ہاتھ میں کنگن وغیرہ ہونا ہی چاہئے،ہم جہاں رہتے ہیں اس جگہ عورتیں خالی ہاتھ کو برا سمجھتی ہیں اور ایسا بھی کہتی ہیں کہ اس طرح بنا کنگن وغیرہ کے (خالی ہاتھ سے) کسی کو پانی پلانا بھی حرام ہے؟
جواب:کوئی ضروری نہیں ہے کہ عورت کے ہاتھ میں کنگن ہو، کنگن زیب و زینت کے قبیل سے ہے، کوئی لگائے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے اور کوئی نہ لگائے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے، یہ اپنی طبیعت وچاہت پر منحصر ہےیعنی اس کا تعلق دینی معاملہ سے نہیں دنیاوی معاملہ سے ہے اس لئے خالی ہاتھ کو برا سمجھنے والی یا اس سے پانی دینے کو حرام کہنے والی عورت بغیر علم کے جہالت میں بول رہی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ عورت کے لئےخالی ہاتھ رہنے میں کوئی برائی اور کوئی گناہ نہیں ہےالبتہ جو بغیرعلم کے مسئلہ بتائے وہ ضرور گنہگار ہوسکتی ہے۔

سوال(15):کیا عورت کے واسطےنماز کے لیے اذان کا سننا ضروری ہے ، بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ کم ازکم ایک مسجد میں اذان ہونا ضروری ہے؟
جواب:عورتوں کے لئے نہ اذان ہے اور نہ ہی اقامت ہے ، وہ بغیر اذان واقامت نماز ادا کرے گی اس وجہ سے عورت کو اذان سننا، اذان کا انتظار کرنا اور اذان ختم ہوجانا یا مسجد میں نماز ختم ہوجاناان باتوں سے کوئی مطلب نہیں ہے ۔اس کے لئے نماز کا وقت ہوجانا ہی کافی ہے ۔ عورتوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی نماز مسجد سے بہتر گھر میں ہے اور اول وقت پر نماز ادا کرنا افضل ہے جبکہ عموما مساجد میں تاخیر سے اذان ہوتی ہے اس لئے وہ نماز کا وقت ہوتے ہی اول وقت پر نماز ادا کر لیا کرے ۔ ہاں اگر پڑوس کی کسی مسجد میں اذان وقت پر ہوتی ہو تو پہلے اذان سن لے پھر نماز پڑھے لیکن عورت کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی ایک مسجد میں اذان ہوجائے تب ہی نماز پڑھے ، یہ بات غلط ہے۔یہ بات بھی علم میں رہے کہ اگر عورت نےوقت پر اپنی نماز پڑھ لی ہے اور بعد میں کسی مسجد سے اذان کی آواز آرہی ہے تو ایسا نہیں ہے کہ ہم نے نماز پڑھ لی تو اذان کا جواب نہیں دے سکتے ہیں ، اذان کا جواب دینا چاہئے ، اس کا بہت اجر ہے۔

سوال(16) : کیا عورت بہرے آدمی سے سر پر پیار لے سکتی ہے ؟
جواب:سر پر پیار لینے سے مطلب بہرا آدمی عورت کے سر کو چھوئے ؟ تو یہ جائز نہیں ہے ۔آدمی بہرا ہویااندھا ہویاگونگا ہو ، اجنبی مرد ہے تو کسی عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ اپنے بدن کا کوئی حصہ اسے چھونے دے۔

سوال(17): کیا حاملہ عورت سمندر کے پاس گھومنے جاسکتی ہے ؟
جواب:حاملہ عورت سمندر کے پاس گھومنے جاسکتی ہےلیکن چونکہ یہ فتنے کا دور ہے اور لوگوں کی بھیڑ والی جگہوں پر فتنہ زیادہ ہوتا ہےاس لئے سمندر کی طرف جائے تو برائی والے مقامات کی طرف نہ جائے ، نیز اپنے محرم کے ساتھ باپردہ جائے۔

سوال(18):جس مجلس میں ایک بندی ایسی ہو جس نے رشتہ توڑا ہو تو کیا اس پوری مجلس کی دعا قبول نہیں ہوگی؟
جواب:دعا تو انفرادی عبادت ہے، ہر کوئی اپنے لئے دعا کرتا ہےاور دعا کی قبولیت و عدم قبولیت کا تعلق اس سے ہے جو دعا مانگتاہے نہ کہ اس سے ہے جو مجلس میں ہےلہذا کسی مجلس میں عورتیں جمع ہوں، اس میں کوئی ایک عورت رشتہ توڑنے والی ہو تو اس کی وجہ سے مجلس میں دعا کرنے والیوں کی دعاپر کوئی برا اثر نہیں ہوگا ۔ خود دعاکرنے والا جس قدر پرہیزگارہوگا اس کی دعا میں اس قدر اثر ہوگا۔

سوال(19) : ایک بہن کا سوال ہے کہ وہ سات سالوں سے ایک ہی دعا مانگ رہی ہے ،اس کی قبولیت کا کوئی اثر ہی نہیں ہواتو اب کیا کرے ، مانگنا چھوڑدے یا جاری رکھے؟
جواب:پہلے ایک حدیث پڑھ لیں پھر کچھ وضاحت کرتا ہوں ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے:
ما من مسلمٍ يدعو بدعوةٍ ليس فيها إثمٌ ، ولا قطيعةُ رَحِمٍ ؛ إلا أعطاه بها إحدى ثلاثَ : إما أن يُعجِّلَ له دعوتَه ، وإما أن يدَّخِرَها له في الآخرةِ ، وإما أن يَصرِف عنه من السُّوءِ مثلَها . قالوا : إذًا نُكثِرُ . قال : اللهُ أكثرُ .(صحيح الترغيب:1633)
ترجمہ:جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ یا قطع رحمی نہ ہو، تو اللہ ربّ العزت تین باتوں میں سے ایک ضرور اُسے نوازتے ہیں: یا تو اس کی دعا کو قبول فرما لیتے ہیں یا اس کے لئے آخرت میں ذخیرہ کردیتے ہیں اور یا اس جیسی کوئی برائی اس سے ٹال دیتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا: پھر تو ہم بکثرت دعا کریں گے۔ تو نبیؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ بخشنے (عطا کرنے) والا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہورہا ہے کہ اللہ تعالی ہردعا کا کوئی نہ کوئی فائدہ ضروردیتا ہے ، چاہے اللہ ہوبہووہی دعا قبول کرلے جو مانگی جارہی ہے یا اس کا بدلہ آخرت میں محفوظ کردے یا اس دعا کے بدلے دنیا کی کوئی برائی ٹال دے ۔ اس بہن کو اللہ کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہئے ، اللہ نے اس کے حق میں جو بہتر فیصلہ کیا ہوگا وہ ہوکررہےگا اور جو اس کی تقدیر میں نہیں ہے وہ اللہ کو ہی معلوم ہے ، ایمان والوں کو اللہ کے فیصلےپر راضی ہونا چاہئے اور اسی پر کامل توکل کرنا چاہئے ۔ اس بہن کو ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ سے مانگنے کے لئے ایک ہی چیز نہیں ہے ، آپ مزید مانگیں، ہزارچیزوں کا سوال کریں، آپ کے حق میں جو بہتر ہوگا اللہ عطا فرمائے گا اور سب سے بڑی چیز جو اللہ سے مانگنے والی ہے اور جو ہمارے اسلاف اللہ سے مانگا کرتے تھے وہ جنت کا سوال ہے ۔ دنیا کی کوئی چیز آپ کو ملے نہ ملے ، اس پر افسوس نہ کریں، دنیا اور دنیا کی ہرنعمت جو آپ کو ملتی ہے ایک نہ دن چھوٹ جاتی ہے ، آخرت اور اس کی نعمت ہمیشہ کے لئےہے اس لئے رب کی بندگی کریں اور اس سے کثرت کے ساتھ جنت الفردوس کا سوال کریں ۔

سوال(20) : کیا عورت سونے چاندی کا لباس پہن سکتی ہے ؟
جواب:عورتوں کے لئے سونا چاندی حلال ہے، وہ اس کو لباس کے طور پر استعمال کرے یا پازیب و انگوٹھی وغیرہ کے طور پر کوئی حرج نہیں ہے البتہ یہ دھیان رہےکہ سونا اور چاندی دولت کے ساتھ زینت کی بھی چیز ہے اورعورتوں کو اپنی زینت اجنبی مردوں پر ظاہر نہیں کرنی ہے، اسے شوہریا محارم یا عورتوں کے سامنے استعمال کرے۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-28)

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ –سعودی عرب


سوال(1): کیا ہاتھ سے یا مشین سے کفن کے کپڑے میں سلائی کر سکتے ہیں مثلا عورت کے لیے پاجامہ سلائی کرنا اور لپیٹنے والی چادروں کو سلائی کردینا ؟

جواب: رسول اللہ ﷺ سےسادہ کپڑے کے ٹکڑے میں کفن دینا ثابت ہے،آپ نےکفن کو نہ سلا ہے اور نہ سلنے کا حکم دیا ہے اس لئے ہمیں بھی کفن کو سلنا نہیں ہے، کفن کے سادہ ٹکڑے میں ہی میت کو لپیٹ کر دفن کرنا ہے چاہے عورت ہو یا مرد ۔ ویسے میت کے لئے سلائی کی ضرورت بھی معلوم نہیں ہوتی ، اسے تو قبر میں ڈال کر اس پر مٹی ڈال دی جاتی ہے، اگر سلائی کی کوئی ضرورت معلوم ہوتی تو اس بارے میں شریعت خود ہماری رہنمائی کرتی۔ہاں اگر کہیں کفن میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں لباس میں بھی کفن دے سکتے ہیں مگر الگ سے لباس کی طرح سل کر کفن تیار نہیں کرنا ہے، رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی زینت رضی اللہ عنہا کی وفات پر برکت کی نیت سے اپنا ازاردیا تھااور فرمایااسے جسم سے متصل کفن میں سب سے نیچے رکھو۔(ابن ماجہ:1458)

سوال(2): جمعہ کو ایک ساعت ہو تی ہے جس میں دعائیں قبول ہو تی ہیں ، گھریلو مصروفیت کی وجہ سے جیسے عورت عموما مصروف رہتی ہے اگر دعا مانگنے کا ٹائم نہ پا سکے تو کیا نیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی دعائیں بغیر مانگے بھی قبول کر تا ہے؟
جواب: دعا کے لئے الگ سے وقت نکالنے کی ضرورت نہیں ہے ، کام کاج کرتے ہوئے دل سے دعا مانگ سکتے ہیں ، اس لئے ایسا عمل جو انجام دیا جاسکتا ہے اس کی محض نیت پر اجر نہیں ملے گا بلکہ انجام دینے پر ملے گااور دعا بھی مانگنے والی عبادت ہے، جب دعا مانگی نہیں گئی تو پھر کون سی دعا قبول کی جائے گی لہذا عورت کو چاہئے کہ دعا کے لئے یا تو خود کو افضل وقت میں متفرغ کرے یا کام کرتے ہوئے ہی دعا کا التزام کرے ۔

سوال(3): ہمارے سندھی لوگ زمین کو ماں کہتے ہیں یعنی مٹی ماں کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: ہندؤں کے یہاں زمین کی عبادت کی جاتی ہے اس وجہ سے وہ لوگ زمین کودھرتی ماتا کہتے ہیں، اس سے ان کی مراد زمین ان لوگوں کا معبود ہے۔میں سمجھنا ہوں ، سندھی لوگ اس عقیدہ کے حساب سے زمین کو ماں نہیں کہتے ہوں گے بلکہ عرفا ایک لفظ مشہورہوگیا جس سے مراد پیدائش کی جگہ ہے جیسے مادری زبان کی طرح مادری زمین کہی جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔تاہم دھرتی ماں کا ایک ہندوانہ تصور پایا جاتا اس کی مشابہت سے بچنے کے لئے مٹی ماں کہنے سے بچا جائے تو بہتر ہے ۔ کسی کا سوال ہو کہ تمہاری مادری زمین کیا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں فلاں جگہ ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے جس کا اوپر ذکر کیا ہوں۔

سوال(4):مرد تو مسجد میں نماز پڑھتے ہیں لیکن عورتیں گھر میں نماز پڑھتی ہیں اس وجہ سے کبھی غلطی سے دوسری نماز پڑھ لیتی ہیں جیسے مجھے عصر کی نماز پڑھنی تھی غلطی سے مغرب کی نماز پڑھ لی ، ایسے میں کیا گناہ ہوگا اور عصر کی نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی؟
جواب: وہ وقت کون سا تھا جس وقت آپ نے مغرب کی نماز پڑھی تھی؟ عصر کا ہی وقت تھا یا مغرب کا وقت ؟ اگر مغرب کا وقت تھا اور مغرب کی نیت سے نمازپڑھی گئی تو یہ پڑھی گئی نماز مغرب کی ہوجائے گی اور عصر الگ سے پڑھ لیں گے ۔ لیکن اگر عصر کا وقت تھا اور عصر کی جگہ غلطی سے مغرب کی نیت سے مغرب کی طرح نماز پڑھ لی گئی تو گناہ نہیں ہوگا مگر عصر کی نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی کیونکہ نماز میں نیت اور وقت دونوں کا اعتبار کیا جائے گا یعنی جس نماز کا جو وقت ہو وہی نماز اس وقت پر اس نماز کی نیت سے پڑھیں گے۔

سوال(5): اھل حدیث مسلک کی لڑکی حنفی مسلک کے لڑکے سے شادی کرسکتی ہے ؟
جواب: دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر ایسے سوال کا جواب یہ لکھا ہے کہ غیرمقلد سے نکاح نہ کریں جیسے 166027 نمبر کا جواب دیکھ لیں ۔ایسے بعض فتاوے اہل حدیث کی جانب سے بھی ہوسکتے ہیں کہ احناف میں شادی نہ کریں لیکن ہم یہ عرض کریں گے کہ شادی میں ترجیح اہل حدیث کو ہی دیں کیونکہ وہ عقیدہ کے باب میں خالص ہوتے ہیں تاہم مجبوری میں دیوبندی کے یہاں بھی شادی کرسکتے ہیں ۔ ایک عورت جب دیوبندی کے یہاں جاتی ہے تواسے مردوں کی طرح نماز پڑھنے کا طعنہ کچھ زیادہ ہی دیا جاتا ہے جو کبھی کسی اہل حدیث بہن کے لئے حد سے زیادہ تکلیف کا باعث بن سکتا ہے اس لئے دیکھ بھال کر شادی کریں ،لڑکے کے دین واخلاق اور گھریلو ماحول کا جائزہ ضرور لیں ۔

سوال(6): فراہم کردہ ویڈلنک میں قلم کے ذریعہ جسم پردم کرنے کا طریقہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ صحیح ہے؟
جواب : قرآن وحدیث میں دم کرنے کا ایسا طریقہ کہیں مذکور نہیں ہے، یہ اس صاحب کا خودساختہ طریقہ ہے ۔ یہ مسلکا دیوبندی لگتے ہیں ، اور دیوبندیوں یہاں دم کے معاملہ میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ اپنی مرضی کسی آیت کو کسی بیماری کے لئے خاص کرتے ہیں، اپنی مرضی سے الگ الگ بیماری کا الگ الگ وظیفہ گھڑتے ہیں اور مجرب وظیفہ کہہ کر عمل کرتے ہیں ۔ عوام کے علاوہ ان کے علماء بھی اپنی طرف سے وظائف بناتے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ شرعی دم نہیں ، خودساختہ طریقہ ہے ، اس طریقہ کا اسلام سے تعلق نہیں ہے ۔دم کرنے میں وہی پڑھنا ہے جو رسول ﷺ نے سکھایا ہے اور اسی طریقہ سے دم کرنا جیساکہ آپ سے منقول ہے۔ یہ حضرت قلم سے دم کرنے کا جو طریقہ بتارہے ہیں اس طریقہ کا اسلام سے تعلق نہیں ہے ۔ دین ،رسول اللہ کی سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔ آپ کو رسول اللہ ﷺ کے دم کرنے کا طریقہ بتاتاہوں اس طرح دم کیا کریں ۔
عن عائشة رضي الله عنها" ان النبي صلى الله عليه وسلم كان ينفث على نفسه في المرض الذي مات فيه بالمعوذات، فلما ثقل كنت انفث عليه بهن، وامسح بيد نفسه لبركتها"، فسالت الزهري: كيف ينفث؟، قال: كان ينفث على يديه ثم يمسح بهما وجهه(صحيح البخاري:5735)
ترجمہ:عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات میں اپنے اوپر معوذات (سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کا دم کیا کرتے تھے۔ پھر جب آپ کے لیے دشوار ہو گیا تو میں ان کا دم آپ پر کیا کرتی تھی اور برکت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ آپ کے جسم مبارک پر بھی پھیر لیتی تھی۔ پھر میں نے اس کے متعلق پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح دم کرتے تھے، انہوں نے بتایا کہ اپنے ہاتھ پر دم کر کے ہاتھ کو چہرے پر پھیرا کرتے تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کوئی خود پر دم کرے تو معوذات (سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس ) پڑھ کر اپنے ہاتھوں میں پھونک مار کر اپنے چہرہ اور بدن پر پھیرلے اور جب کوئی دوسرے پر دم کرے تو یہی معوذات پڑھ کر مریض پر پھونک ماردے۔

سوال(7): ایک بہن کو اپنی کسی حاجت کے لیے ایک آیت محدود وقت تک پڑھنی ہے اور لوگوں سے بھی پڑھوانی ہے کیا یہ طریقہ درست ہے؟
جواب: یہ بدعت ہے ، نہ وہ بہن ایسا کام کرے اور نہ آپ خواتین اس کام پر اس بہن کی مدد کریں۔ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے کسی حاجت کے لئے اس طرح ایک آیت مخصوص کرکے متعین تعداد کے ساتھ وظیفہ کرنے کی تعلیم نہیں دی ہے اور ایک آیت کو چند عورتیں مل کر متعدد بار پڑھے اس کی بھی کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے یہ طریقہ بدعت ہے ۔ اس بدعتی طریقہ سے ہم کو بچنا ہے۔اسلام نے مشکلات کے حل کے لئے جو تعلیمات پیش کی ہے ان کو مدنظر رکھیں ، اس بارے میں میرے بلاگ پر میرا مضمون بھی پڑھ سکتے ہیں اور یوٹیوب پر بیان بھی سن سکتے ہیں۔

سوال(8): میں مدرسہ میں بچوں کو تعلیم دیتی ہوں، جو بچیاں بالغ ہو چکی ہیں کیا وہ اپنے پیریڈ کے دنوں میں سبق لے سکتی ہیں؟
جواب: ہاں پیریڈ میں آپ بچیوں کو ان کا سبق دے سکتی ہیں ، ان دنوں قرآن چھونے کے لئے دستانہ کا استعمال کرائیں ، بقیہ دوسری کتابوں اور کاپی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال(9): طلب علم کے لیے جو گھر سے چل کے جاتا ہے اس کے لیے مچھلیاں دعا کرتی ہیں، ہم طالبات قرآن پڑھنے کے لیے گاڑی میں جاتے ہیں کیا ہمارا شمار ان لوگوں میں ہوگا؟
جواب: جوکوئی گھر سے تعلیم حاصل کرنے نکلتا ہے خواہ سوار یا پیدل اس کے حق میں مچھلیاں دعائیں کرتی ہیں، اس دعا میں وہ طالبات بھی شامل ہیں جو گاڑی پہ سوار ہوکر دینی تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں ۔

سوال(10): کسی نے پوچھا ہے کہ اگر لڑکا شیعہ ہو تو کیا ایک سنی لڑکی اس سے شادی کر سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ شیعہ مسلک میں کون سے کام غیر شرعی ہیں؟
جواب: سنی لڑکی شیعہ لڑکا سے شادی نہیں کرے کیونکہ شیعہ کے پاس کفریہ عقائد ہیں ۔ ہم میں اور شیعہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ہم محمد ﷺ پرنازل کردہ شریعت(قرآن و حدیث) کی پیروی کرتے ہیں جبکہ شیعہ حضرات قرآن پر من مانی طریقے سے ایمان لاتے ہیں اور الگ ڈھنک سے اس کو سمجھتے ہیں بلکہ کتنے تو اس میں تحریف کےبھی قائل ہیں ، اور حدیث کے نام پر خودساختہ اماموں کی طرف منسوب باتوں کو دین کا درجہ دے کر ان پر عمل کرتے ہیں جبکہ ہم مسلمان رسول اللہ ﷺ سے ایک قول برابر بھی تجاوز کرناکفر سمجھتے ہیں ۔

سوال(11): ایک بہن کا سوال ہے کہ وہ اپنے رشتہ کے لیے لڑکے کے والد سے بات کر سکتی ہے جس کی عمر 65 سال ہے اور لڑکی کا ولی لاپرواہ قسم کا ہے، لڑکی کے بات کرنے سے ولی تک بات پہنچے گی اور ممکن ہے پھر نکاح پر توجہ دے ؟
جواب:اصل تو یہی ہے کہ لڑکی کی جانب سے رشتہ کے لئے اس کا محرم یا ولی بات کرے گا ، محرم موجود نہ ہو یا موجود ہو مگر شادی کے بارے میں لاپرواہی برت رہا ہوتوپھر ایسی صورت میں لڑکی خود بھی اپنے رشتہ کے لئے ذمہ دار سے بات کرسکتی ہے ۔بات کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ لڑکا سے فضول بات کرے بلکہ جو ذمہ دار ہو اس سے بقدر ضرورت بات کرلے تاہم شادی کی بات چلانے کے لئے اپنی خبر کسی کے معرفت بھی بھجوا سکتی ہے ۔ بہرکیف اسلام نے ضرورت کا خیال رکھا ہے ، ضرورت کے وقت کوئی عورت یا لڑکی بقدر ضرورت مرد سے شادی کی بات کرسکتی ہے ۔

سوال(12): کیا میاں بیوی ایک دوسرے کے غیرضروری بال صاف کرسکتے ہیں؟
جواب : میاں بیوی کے درمیان کسی قسم کا پردہ نہیں ہے اس لئے میاں بیوی ایک دوسرے کے غیرضروری بال صاف کرسکتے ہیں۔

‏‏‏‏سوال(13):اس بات کی کیا دلیل ہے کہ عورت کا عورت کے لئے ستر ناف سے گھٹنے تک ہے؟
جواب:سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يَنْظُرُ الرَّجُلُ إلى عَوْرَةِ الرَّجُلِ، ولا المَرْأَةُ إلى عَوْرَةِ المَرْأَةِ، ولا يُفْضِي الرَّجُلُ إلى الرَّجُلِ في ثَوْبٍ واحِدٍ، ولا تُفْضِي المَرْأَةُ إلى المَرْأَةِ في الثَّوْبِ الواحِدِ (صحيح مسلم:338)
ترجمہ:مرد دوسرے مرد کے ستر کو (یعنی عورت کو جس کا چھپانا فرض ہے) نہ دیکھے اور نہ عورت دوسری عورت کے ستر کو دیکھے اور مرد دوسرے مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لیٹے اور نہ عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے۔
یہ دلیل اقتران ہے، اس حدیث میں مرد کا مرد کے لئے ستر بتایا گیا ہے وہ ظاہر سی بات ہے، ناف سے گھٹنے کے درمیان ہے، اس بنیاد پر عورت کا ستر عورت کے لئے بھی وہی ہوگا جو مرد کاسترمردکے لئے ہے۔

سوال(14): ایک بہن کا شوہر بیرون ملک رہتا تھا، اس کے ساتھ بیوی کی ناراضگی تھی ، ابھی پتہ چلا ہے کہ اس کے شوہر کا انتقال دوماہ قبل ہی ہوگیا تھا، ایسے میں عدت کب سے شروع ہوگی اور پہلے کا وقت کیا مانا جائے گا؟
جواب: جب شوہر فوت ہوا ہے اسی وقت سے عدت شمار کی جائے گی لہذا وفات سے لیکر چار ماہ دس دن تک عدت کے دن پورے کرےاورجو وقت پہلے گزرگیا، اس پہ عورت کے لئے کچھ بھی نہیں ہے البتہ آپس میں ناراضگی تھی جوکہ میاں بیوی دونوں کی خطا ہےاس لئے اللہ تعالی سے اپنی طرف سے اور شوہر کی طرف سے کثرت سے توبہ واستغفار کرے ۔

سوال(15): کوئی لڑکی کسی نامحرم کو نکاح کے لے اپنی دعاؤں میں مانگ سکتی ہے؟
جواب: اگرکسی لڑکی کو کوئی لڑکا دینی اعتبار سے پسند ہو تووہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگ سکتی ہے کہ اے اللہ ! میرا نکاح فلاں کے ساتھ ہونا میسرفرمادے، ساتھ ہی اس کام کی کوشش بھی کرے یعنی اپنے سرپرست تک یہ بات کسی ذریعہ سے پہنچائے کہ فلاں لڑکا دین واخلاق کے اعتبار سے بہتر ہے، اس سے میرے نکاح کی بات کی جائے۔ ولی کی کوشش ورضامندی سے وہاں نکاح میسر ہوجائے تو اللہ کا شکر بجائے اور اگر وہاں سے پیغام نکاح مسترد کردیاجائے تو اسی کا خیال لے کر زندگی نہ گزارےبلکہ اس سے شادی کا خیال چھوڑ کر تقدیر پر راضی رہے ، دوسری جگہ کوشش کرے، جہاں تقدیر میں لکھا ہوگا اللہ کی توفیق سے وہاں شادی ہوجائے گی ۔

سوال(16): شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے محبت کرتا ہے لیکن اس آدمی کا دنیا میں اس سے نکاح نہیں ہوتا تو وہ اس کا حق مہر صدقہ کردیتا ہے اور اللہ تعالی سے دعا کرتا ہے کہ آخرت میں وہ عورت اس کی بیوی ہو تو اللہ تعالی سے اس کی امید کی جاسکتی ہے ۔ (الفتاوی الکبری: 5/461)کیا یہ بات صحیح ہے اور مہر کتنا صدقہ کرنا چاہئے ؟
جواب: دنیا کا کوئی بھی آدمی جو جنت میں جائے گا ، وہ بنا شادی نہیں رہے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :"وما في الجنة اعزب" یعنی جنت میں کوئی بن بیوی کے نہ ہوگا۔(صحیح مسلم:7147)
اور پھر جنت میں عورتوں کے مختلف حالات ہوں گے ، جس کا شوہر بھی جنتی ہوگا وہ بیوی اس شوہر کے ساتھ ہوگی لیکن جس بیوی کا دنیاوی شوہر جنتی نہ ہو یا جس عورت کی دنیا میں شادی نہ ہوئی ہو اس بارے میں اہل علم کی متعدد آراء ہیں ، ان میں سے ایک رائے یہ ہے کہ دنیا کے مردوں میں سے کسی کے ساتھ شادی کردی جائے گی۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسی عورت جو جنتی ہو مگرشادی شدہ نہ ہو یا شادی شدہ تو ہو مگر اس کا شوہر جنتی نہ ہو تو دنیاوی مردوں میں سے جن کی شادی نہ ہوئی ہو کسی سے شادی کردی جائے گی ۔ اس بحث میں مزید تفاصیل ہیں ۔
بہرحال یہ مسئلہ غیبی امور میں سے ہے اس لئے بہتر ہے کہ انسان اللہ سے ان چیزوں کے لئے دعاکرے جن کے بارے میں صریح دلائل ہیں بطور خاص جنت الفردوس کا سوال کرے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے اور جو جنت میں چلا جائے گا، اس کو وہاں ہر چیز ملے گی جس کی وہ خواہش کرے گا، اس لئے انسان دنیا میں جنت میں لے جانے والے اعمال انجام دے اور اس میں داخلہ پانے کی اللہ سے بکثرت دعا کرے، اپنی لئے بھی اور اپنے گھروالوں کے لئے بھی ۔ جس سے شادی نہ ہو اس کے نام سے مہر صدقہ کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے لہذا بغیر شادی کے مہر صدقہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال(17) : جب ہم کوئی دینی بیان ویڈیو کی شکل میں سنتے ہیں تو عام طور سے پہلے سلام کیا جاتا ہے ،کیاہمیں اس سلام کا جواب دینا چاہئے ؟
جواب:ہاں جب ہم کوئی اسلامی ویڈیو دیکھیں اور اس میں سلام سنیں تو اس کا جواب دیں، تاہم جواب دینا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس سلام کے اصل مخاطب وہ ہیں جو مقرر کے سامنے بیٹھےتقریرسن رہے تھے ، اس لئےجواب دیتے ہیں تو اجر ملے گا اور جواب نہیں دیتے ہیں تو کوئی گناہ نہیں ہے ۔

سوال(18):کہا جاتا ہے کہ جو بچیاں سکول و کالج جاتی ہیں اگر انہیں سورہ یاسین کی آیت نمبر 9 یاد کروا دی جائے تو وہ ہر شر سے محفوظ رہیں گی، کیا یہ بات درست ہے؟
جواب:کسی کی کوئی بات اسی وقت صحیح ہوگی جب اس کی دلیل ہوگی اور ہم کو قرآن وحدیث میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے لہذا یہ بات غلط ہے اور یہ طریقہ بھی غلط ہے۔ہم لڑکیوں کویہ بتائیں کہ گھرسے نکلتے وقت باحجاب نکلیں،خوشبولگاکر باہر نہ نکلیں،چلتے ہوئے نگاہیں نیچی کرکےچلیں، بغیرضرورت کسی اجنبی مرد سے نہ بات کریں، نہ اس سے سلام ومصافحہ کریں،کسی اجنبی مرد کی خلوت سے بچیں ، مخلوط تعلیم نہ حاصل کریں ، بغیر محرم سفر نہ کریں ، برائی اور بے حیائی والی جگہ نہ جائیں ، سواری پر بیٹھیں تو سواری کی دعا کریں اور گھر میں داخل ہونے اور نکلنے کی دعا کریں بلکہ راستہ بھراذکار پڑھتی رہےتو ان باتوں سے اللہ تعالی بچیوں کی حفاظت فرمائے گا۔

سوال(19):کیا کوئی مسلمان عورت کسی کرسچن کو غسل میت کروا سکتی ہے؟
جواب:کافر میت کے غسل ، تکفین اور دفن کے متعلق شریعت کے نصوص اور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان عمومی طور پر کافر کے غسل ، اس کی تکفین اور دفن کے کام میں شریک نہیں ہوگا البتہ کسی مسلمان کا کافررشتہ دار فوت ہوجائے اس حال میں کہ اس کو دفن کرنے والا کوئی دوسرا نہ ہو تو اسے کسی جگہ گڈھا کھود کر اس میں دفن کردیا جائے گا ، اسے غسل دینے کی ضرورت نہیں ، اور ویسے بھی کافر نجس ہوتا ہے مگرجن کافروں کے یہاں میت کونہلانے کا رواج ہے اور اسے کوئی دفن کرنے والا بھی نہیں ہے تو مسلمان اسے نہلاکر کسی کپڑے میں لپیٹ کر ایک گڈھے میں چھپا دے گا۔ یہاں معلوم رہے کہ غسل ، تکفین اور دفن کا مطلب اسلامی طریقے سےکافوروبیری کے ساتھ غسل دینا، یا تین کپڑوںمیں کفن دینا اورقبرستان میں باقاعدہ قبرکھودکر دفن کرنا نہیں ہے بلکہ نہانے سے مراد بدن پر پانی بہانا، کفن سے مراد کسی کپڑے میں لپیٹ دینا اور دفن سے مراد کسی کھائی میں یا گڈھا کھود کر گاڑ دیناہے ۔

سوال(20):ایک خاتون ہیں انہوں نے لگ بھگ 20 سال پہلے آنت کا آپریشن کرایا تھا تب سے لیکر آج تک وہ رمضان المبارک کا روزہ نہیں رکھ پا رہی ہیں اور ان کو کفارے کے بارے میں علم بھی نہیں تھا ، اب انہیں اس بات کا علم ہوا تو وہ کفارہ آئندہ رمضان سے دینا شروع کرے گی اور پہلے جو قضاء روزے تھے ان کے کفارے کا کیا حکم ہے؟
جواب:اللہ تعالی سے دعا کرتاہوں اس بہن کو صحت و تندرستی عطا فرمائے ۔ اس مسئلہ میں اس بہن سے اور اس کے گھروالوں سے غفلت ہوئی ہے۔ غفلت یہ ہے کہ بیس سال سے رمضان گزررہا ہے مگر کبھی یہ بات جاننے کی کوشش نہیں کی گئی کہ اس بہن کے روزہ کا کیا حکم ہے؟ اللہ تعالی اس بہن کو معاف فرمائے اور دنیاوی تکلیف کو گناہوں کا کفارہ بنادے ۔ اس بہن کو چاہئے کہ اس معاملہ میں غفلت ہوجانے کی وجہ سے اللہ تعالی سے توبہ کرے اور پھر ابھی ہی بغیر تاخیر کے بیس سالوں کے روزوں کا فدیہ ادا کرے، جب اگلا رمضان آئے تو اگلے رمضان کا فدیہ دے، ابھی سابقہ روزوں کافدیہ ادا کرے۔ اور فدیہ میں غلہ دینا ہے ۔ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو نصف صاع(تقریبا ڈیڑھ کلو) گیہوں، چاول یا کھائی جانے والی دوسری کوئی چیز دے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ(البقرة:184)
ترجمہ :اور اس کی طاقت رکھنے والےفدیہ میں ایک مسکین کو کھانادیں۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(قسط:29)

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ ، سعودی عرب

سوال(1): ہم اپنے سر میں کون سا تیل لگائیں، نبی ﷺ کون سا تیل استعمال کرتے تھے ، دلیل سے بتائیں ؟

جواب : ترمذی کی ایک حدیث سے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ زیتون کا تیل بہت مفید ہے، وہ کھانے اور بدن دونوں میں استعمال کے قابل ہے ۔
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كُلُوا الزَّيْتَ وَادَّهِنُوا بِهِ فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ( صحيح الترمذي:1851)ترجمہ:زیتون کا تیل کھاؤ اور اسے (جسم پر) لگاؤ، اس لیے کہ وہ مبارک درخت ہے۔
ویسے کوئی بھی مفید تیل آپ استعمال کرسکتے ہیں اور اگر چاہیں تو زیتون کا تیل استعمال کریں ۔

سوال(2): اگربچہ ماں کے دودھ کے علاوہ باہر کا دودھ پیتا ہوں تو اس کے پیشاب کا کیا حکم ہے ؟
جواب : شیرخوار بچہ جو ماں کا دودھ پیتا ہو اس کا حکم تو واضح ہے، لڑکا ہو تو اس کے پیشاب پر چھینٹا مارنا کافی ہے اور لڑکی کا پیشاب دھلا جائے گا لیکن ماں کے دودھ کے علاوہ باہر کا مصنوعی دودھ پیتا ہو تو اس سلسلے میں علماء کے درمیاں اختلاف ہے ۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ درست بات یہ ہے کہ اس دودھ کا بھی حکم ماں کے دودھ کی طرح ہے یعنی باہری دودھ پینے پر بھی لڑکا کے پیشاب پر چھینٹا مارنا کافی ہے اور لڑکی کے پیشاب کو دھلا جائے گا۔

سوال(3) : ساؤتھ افریقہ میں آب و ہوا کی وجہ سے بال جھڑ جاتے ہیں اور انڈیا میں نیچرل بال کی طرح بال ملتے ہیں تو کیا ایک شخص تجارت کی غرض سے عورت و مرد کے بال انڈیا سے لے جاکر وہاں فروخت کرسکتا ہے ؟
جواب: بالوں میں بال جوڑنا یا سر پہ مصنوعی بال اور وگ پہننا جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے مصنوعی بال لگانے والی اور لگوانی والی پر لعنت بھیجی ہے حتی کہ آپ نے ایک خاتون جس کا بال بیماری سے جھڑگیا تھا اس کے شوہر کی خواہش تھی کہ وہ مصنوعی بال لگائے مگر آپ نے اسے مصنوعی بال لگانے کی اجازت نہیں دی اور فرمایاکہ مصنوعی بال لگانے والی اور لگوانے والی پر لعنت ہے ۔(بخاری :5935)
صحیح بخاری میں ایک دوسری حدیث ایک طرح سے آئی ہے ۔حمید بن عبدالرحمٰن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما حج کے سال مدینہ منورہ میں منبر پر یہ فرما رہے تھے انہوں نے بالوں کی ایک چوٹی جو ان کے چوکیدار کے ہاتھ میں تھی لے کر کہا کہاں ہیں تمہارے علماء میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ اس طرح بال بنانے سے منع فرما رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ بنی اسرائیل اس وقت تباہ ہو گئے جب ان کی عورتوں نے اس طرح اپنے بال سنوارنے شروع کر دیئے۔(بخاری:5932)
ان احادیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ مصنوعی بال استعمال کرنا جائز نہیں ہے ۔ جب مصنوعی بال کا استعمال جائز نہیں ہے تو اس کی تجارت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ بعض علماء جن میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ بھی ہیں کہتے ہیں کہ جس کے بال جھڑگئے ہوں ، دوبارہ بال آنے کی امید نہیں ہے تو اس کے لئے وگ پہننے میں حرج نہیں ہے کیونکہ یہ زینت کے لئے نہیں عیب چھپانے کے لئے ہے ۔ شیخ کے اس کلام کی روشنی میں گنجاپن دورکرنے کی حد تک مصنوعی بال کی اجازت ہے اس لحاظ سے کوئی چاہےتو ضرورت مندوں کو مصنوعی بال بیچ سکتا ہےلیکن فیشن کے طورپر بیچنا جائز نہیں ہے ۔ ساتھ ساتھ یہ معلوم رہے کہ بال اگانے کے لئے متعدد دوائیں ملتی ہیں ، اس لئےبہترہے کہ گنجاپن دور کرنے کے لئے دوا کا استعمال کیا جائے ۔

سوال(4): ایک عورت نے بچے کو جنم دیا ہے، ولادت کے ابتدائی دنوں میں پیٹ پر کچھ بھی دباؤ ہوتا ہے تو عورت کے اگلے حصے سے ہوا خارج ہوجاتی ہے، اصل مسئلہ یہ ہے کہ نماز میں بھی اگلے حصے سے ہوا خارج ہوجاتی ہے ایسے میں کیا جائے ؟
جواب :جب عورت کو آگے والے حصے سے ہوا خارج ہو تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا اس لئے نماز کی حالت میں اگلے حصے سے ہوا نکلنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوگا ، پچھلے حصے سے ہوا خارج ہونے سے وضو ٹوٹتا ہے۔

سوال(5): ایک لڑکی نے بھاگ کر شادی کرلی، اس میں اس کے والدین شریک نہیں تھے، شادی کےبعد دو بچے ہوئے، ایک لڑکی اور ایک لڑکا۔ اب پیداشدہ لڑکی کی شادی ہونے والی ہے، اس لڑکی سے دوسرے لڑکے کا نکاح کیسا ہے؟
جواب : جس لڑکی کے نکاح سے متعلق سوال کیا جارہاہے اس لڑکی سے نکاح کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، بالکل اس سے نکاح کیا جاسکتاہے جبکہ اس کی ماں نے بغیر ولی کے نکاح کیا ہے اس نے غلط کیا ہے ، اسے اللہ سے ڈرنا چاہئے اور توبہ کرکےشرعی طورپرولی کی رضامندی کے ساتھ اپنے نکاح کی تجدید کرلیناچاہئے تاکہ ازدواجی رشتہ صحیح ہوسکے ۔

سوال(6): میں نے غروب سے قبل غسل کرکے ظہر و عصر پڑھی ، پھر مغرب و عشاء کی نماز پڑھی ، رات میں قیام اللیل کے لئے اٹھی ہو تو حمام میں کچھ اسپاٹنگ دیکھتی ہوں تو مجھے نماز پڑھنا ہے یا نہیں ؟
جواب:سوال سے معلوم ہورہا ہے کہ آپ کو ماہواری آئی ہوئی تھی ، مغرب سے پہلے پاکی حاصل ہوئی تو آپ نے غسل کرکے ظہر وعصر پڑھی پھر مغرب و عشاء کی نماز بھی ادا کی لیکن رات میں حمام میں کچھ زردی محسوس ہوئی ۔ اگر ایسی ہی بات ہے تو یہ جان لیں کہ حیض سے پاکی حاصل ہونے کے بعد اگر کچھ زردی نظر آئے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا ، آپ اس حال میں نماز ادا کریں گے لیکن عادتا وہ حیض کے ایام ہوں اور حیض منقطع ہوکردوبارہ حیض جیسی صفات کے ساتھ خون آئے تو پھر وہ حیض ہے اورعبادت سے رکنا ہے ۔

سوال(7): قرآن میں ہے کہ خبیث عورتیں خبیث مرد کے لئے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لئے ہے ۔پاک عورتیں پاک مرد وں کے لئے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے ہے ؟تو پھر ایسا کیوں ہے کہ فرعون کے لئے آسیہ، لوط اور نوح کے لئے نافرمان بیوی ؟
جواب: سابقہ شریعت میں کافر کا مومنہ سے اور مومن کا کافرہ سے شادی کرنا جائز تھا اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ نوح علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کی بیوی کافرہ تھیں اور فرعون کی بیوی مومنہ تھی ، شریعت محمدی میں آج بھی اہل کتاب کافرہ سے شادی جائز ہے ۔

سوال(8): اگر کوئی جوڑاشادی کے بعد آپس کی رضامندی سے اس بات کا فیصلہ کریں کہ وہ ایک سال تک اولاد کی پیدائش نہیں چاہتے تو کیا وہ گناہ گار ہوں گے؟
جواب:رسول اللہ ﷺ نے مرد کو زیادہ بچہ پیدا کرنے والی عورت سے شادی کرنے کا حکم دیا ہے ، اس کا تقاضہ ہے کہ نسل انسانی کی روک تھام کرنا حکم رسول اورمصلحت نکاح کے خلاف ہے بلکہ شادی کے بعد ایک مدت تک بچہ کے بغیر میاں بیوی کا مستی کرنا دراصل مغربی تہذیب ہے، جو ہندی فلموں اور سیریلوں کے ذریعہ مسلمانوں میں پھیل رہی ہے ۔ ہاں اگر کچھ بچے پیدا ہوجانے کے بعد اس میں ضرورت اور مصلحت کے تحت وقفہ کرنا چاہتے ہیں تو کوئی حرج نہیں مگر شروع شادی میں وقفہ کی کوئی مجبوری نہیں سوائے مغربی تہذیب کے ۔

سوال(9): ایک بہن کا کہنا ہے کہ سونے کی ہرچیز پر زکوۃ ہے، چاہے ناک کا ایک نتھونا ہی کیوں نہ ہو یعنی مقدار ضروری نہیں ہے ، کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب:سونے اور چاندی کی زکوۃ کے لئے دو شرطیں ہیں (1) نصاب(85گرام سونا، 595گرام چاندی) کو پہنچنا (2) ایک سال گزرنا ،، ان میں سے ایک بھی شرط کم ہوئی تو زکوۃ نہیں ہے ۔ اس لئےجس کسی مسلمان بھائی یا بہن کے پاس سونے یا چاندی کی ڈلی یا زیورات موجود ہوں اور وہ نصاب تک پہنچ رہے ہوں تو سال مکمل ہونے پراس کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی لیکن جو سونا یا چاندی نصاب کو نہ پہنچے اس پر زکوۃ نہیں ہے ۔ابوداؤد(1565) کی حدیث جسے شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے اس میں ہے کہ نبی ﷺ نے سیدہ عائشہ کے ہاتھ میں چاندی کی کچھ انگوٹھیاں دیکھیں تو آپ نے پوچھا کہ ان کی زکوۃ ادا کرتی ہوتو انہوں نے کہا کہ نہیں تو اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ تمہیں جہنم میں لے جانے کے لئے کافی ہیں ۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چاندی کی چند انگوٹھی پر زکوۃ ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ یہ انگوٹھیاں(چاندی) نصاب کو پہنچ جائیں تو زکوۃ ادا کی جائیں لیکن سیدہ عائشہ کے پاس نصاب کے بقدر چاندی نہیں تھی اس لئے ان انگوٹھیوں کی زکوۃ نہیں ادا فرماتیں۔

سوال(10): پارکوں میں جو جھولے ہوتے ہیں، اس جگہ عورت و مرد سبھی ہوتے ہیں وہاں عورت کو جھولنا کیسا ہے؟
جواب: خواتین کو جنرل پارک میں نہیں جھولنا چاہئے کیونکہ خواتین کو اسلام نے بڑا مقام دیا ہے ، بڑی عزت دی ہے، اس کی عفت کا خاص خیال کیا ہے لہذا عورت کوئی ایسا کام نہ کرے جو اس کی حیا کے خلاف ہو۔ حیا والی عورت کبھی مردوں کے سامنے جھولا نہیں جھولے گی، اکیلے میں جھولنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اپنے گھر میں جھولا ہو یا اپنے مخصوص پارک میں جھولا ہو تو وہاں ایک عورت بالکل جھول سکتی ہے ، عورت کے لئے جھولنا منع نہیں ہے بلکہ اس کے لئے حیا کے خلاف کام کرنا منع ہے ۔

سوال(11): میں باہر ملک میں رہتی ہوں ، دوماہ قبل میں نے خلع کا کیس فائل کردیا اور اور ایک ماہ کی عدت بھی گزاری ، میرا کیس کہاں تک پہنچا پتہ نہیں، اس درمیان شوہر نے گھر پہ طلاق کی نوٹس بھیج دی اور میں جاب کرتی ہوں ، اس کو چھوڑنا مشکل ہے ، کیا کیا جائے؟
جواب:خلع کا کیس فائل کرتے ہی عدت نہیں گزارنی ہے بلکہ جب آپ کا صحیح طورپر خلع ہو یا صحیح طورپرخلع کی کاروائی کے ذریعہ آپ کو نوٹس ملے کہ آپ کا خلع ہوگیا ہے پھر نکاح ختم ہوتا ہے اور تب سے ایک حیض عدت گزارنی ہے ۔ کیس فائل کرکے خلع کا حکم نہیں لگایا گیا ہے تو خلع ہوا ہی نہیں ۔ اور اس دوران شوہر نے طلاق دے دیا ہے تو طلاق واقع ہوجائے گی اور جب طلاق پڑگئی تو اس وقت سے تین حیض عدت گزارنی ہے ۔ رہا مسئلہ جاب کا تو اگر جاب کے لئے ہرحال میں جانا ضروری ہے تو مجبوری میں جاب پرجاسکتی ہیں۔

سوال(12) : سگی بھتیجی اور سگی بھانجی کے شوہر سے عورت پردہ کرے گی؟
جواب : ہاں بھتیجی اور بھانجی کا شوہر عورت کے لئے نامحرم ہے اس لئے اس سے پردہ کرے گی ۔

سوال(13): میں پردہ کے ساتھ گھر میں نماز پڑھ رہی ہوں ، اچانک کوئی غیرمحرم آجائے تو کیا کرنا ہے، نماز چھوڑ دینی ہے ؟
جواب:عورتوں کےلئے سب سے اندرونی جگہ نماز پڑھنا افضل بتایاگیا ہے اس لئے عورت ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں اجنبی مرد نہ آئے ، پھر بھی آپ کہیں نماز پڑھ رہی تھیں اچانک کوئی نامحرم آگیا ہے تو آپ اپنی نماز جاری رکھیں گی اورجو چہرہ کھلا تھا اب اسے ڈھک لینا ہے یعنی اجنبی سے پردہ کرلینا ہے ، ساتھ ہی اپنی آواز پست رکھیں ۔یہ یاد رہے کہ نماز مکمل پردہ میں ادا کرنا ہے چاہے گھر میں ہی کیوں نہ ادا کریں حتی کہ قدم بھی چھپانا بہتر ہے اور ایسی جگہ نماز پڑھیں جہاں مردوں کا گزر نہ ہو۔

سوال(14): zunera نام رکھ سکتے ہیں ؟
جواب:آپ نے جو انگریزی میں لفظ لکھا ہے، وہ نام نہیں رکھیں البتہ " زِنِّيرَةُ" زاء کے زیر اور نون کو شد کے ساتھ نام رکھ سکتے ہیں، اس نام کی ایک صحابیہ تھیں جنہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خریدکرآزادکیا تھا۔

سوال(15): استحاضہ میں ہر نماز کے وقت الگ الگ وضو کیا جاتا ہے لیکن اگر نماز جمع وقصر ہو تو کیا کیا جائے ؟
جواب:استحاضہ کے وقت اگر دونمازوں کو جمع و قصر کررہے ہیں تو ایک ہی وضو سے دونوں نماز ادا کریں گے۔

سوال(16): میں نے اکثر عورتوں سے سنا ہے کہ جب عورت کو غسل دے دیا جائے تو پہلے کوئی کپڑا پہنایا جائے پھر کفن پہنایا جائے ، کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب: نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ میت عورت ہو یا مرد اسے غسل دے کر کفن پہنا سکتے ہیں، جو بات آپ نے ذکر کی کہ پہلے دوسرا کپڑا پہنایا جائے پھر کفن ، اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

سوال(17):شہید کی بیوہ دوسرا نکاح کرسکتی ہے؟
جواب:جب شوہر وفات پاجائے یا شہید ہوجائے تو اس کی بیوہ دوسرا نکاح کرسکتی ہے، ہر قسم کی بیوہ کا ایک ہی حکم ہے، شہید کی بیوہ کے لئے الگ سے کوئی حکم نہیں ہے اس لئے جس طرح ایک عام بیوہ شادی کرسکتی ہے وہ بھی شادی کرسکتی ہے۔ کہیں لوگوں میں یہ غلط فہمی ہو کہ شہید تو زندہ ہوتے ہیں پھر اس کی بیوی کیسے شادی کرے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ شہید ہونے کے بعد وہ بھی وفات پانے والوں کی طرح ہیں، یعنی اس کو بھی موت آگئی البتہ برزخ میں زندگی ملتی ہے ، وہ زندگی ہر میت کو ملتی ہے تبھی تو برزخ میں مردوں کو عذاب یا نعمت ملتی ہے اس لئے تمام قسم کی بیوہ کا دنیاوی معاملہ ایک جیسا ہے ۔

سوال(18): عدت میں عورت کیسے پردہ کرے گی، اس کی دلیل بھی بتادیں؟
جواب:عدت میں پردہ کا الگ سے کوئی طریقہ نہیں ہے، عورت جس طرح پہلے پردہ کیا کرتی تھی اسی طرح عدت میں بھی پردہ کرے گی ۔ پردہ سے میری مراد اسلامی پردہ یعنی پورے جسم کو ڈھکنا ،وہی اسلامی پردہ عدت میں بھی ہے، اس کے لئے الگ سے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ اجنبی مردوں سے پورا جسم عدت سے پہلے بھی چھپانا تھا، عدت میں بھی چھپانا ہے اور عدت کے بعد بھی چھپانا ہے ۔

سوال(19) : ایک لڑکی بول چال میں مذکر کا صیغہ استعمال کرتی ہے، گھر میں بھی اور سہیلیوں کے ساتھ بھی کیا یہ لڑکوں کی مشابہت ہے، وہ لڑکیوں کی طرح بولنے میں شرماتی ہے کیونکہ اس کی عادت نہیں ہے اور لوگ بھی عجیب محسوس کریں گے اگر لڑکیوں کی طرح بولے؟
جواب: اس بہن کو لازما لڑکیوں کی طرح بولنا چاہئےکیونکہ وہ لڑکی ہے اور لوگ کیا کہیں گے اس کی پرواہ نہیں کرنا چاہئے، ابھی سے نئی عادت اپنائیں اور مونث کا صیغہ استعمال کرنا شروع کریں ،گھر والے اور سہیلیاں دھیرے دھیرے اس نئی عادت جو دراصل اپنی اصل عادت ہے سے مانوس ہوجائیں گے اور کچھ دنوں بعد خاموش ہوجائیں گے ، ساتھ ساتھ یہ بھی کوشش کرے کہ اگر اس ماحول میں خواتین مردوں کی طرح بولتی ہیں تو ان سب کی اصلاح بھی کرے ۔ آپ جانتے ہیں یہ نیا فیشن چل پڑا ہے جبکہ اسلام نے عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنے اور مردوں کو عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا ہے۔

سوال(20):میری بیٹی کا نکاح دوبئی میں ہوگیا ہے ، اب لڑکا والے ریسیپشن سے ایک دن پہلے انڈیا میں نکاح پڑھانا چاہتے ہیں کیا یہ شرعا جائز ہے ؟
جواب: ایک مرتبہ جب نکاح کی شرائط پورے کرکے نکاح منعقد ہوجائے تو لڑکا اورلڑکی دونوں میاں بیوی ہیں اور ایک دوسرے کے لئے حلال ہیں ، جب میاں بیوی کا رشتہ قائم ہو گیا تو پھر کس بات کے لئے دوبارہ نکاح ہوگا؟ اس لئے لڑکے والوں کو سمجھائیں کہ دین کا مذاق نہ بنائیں ، نکاح ہوچکا ہے دوبارہ اس کی ضرورت نہیں ہےالبتہ لڑکے کے ذمہ دعوت ولیمہ ہے جو باقی ہو تو اس مناسبت سے ولیمہ کرلیں ۔

سوال(21): لڑکی کا ایمان اور لڑکے کا صلاہ نام رکھنا کیسا ہے ؟
جواب: لڑکی کا ایمان نام رکھنے میں حرج نہیں ہے لیکن لڑکے کا نام صلاۃ نہیں رکھیں گے ، ہاں صلاح رکھ سکتے ہیں یا ایمان کی طرح اسلام رکھ سکتے ہیں ۔

سوال(22):جس کا شوہر زندہ ہو کیا اس کا کفن لال رنگ کا ہوگا؟
جواب:میت عورت ہو یا مرد ، اسے سفید کپڑوں میں دفن کیا جائے گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسی کا حکم دیا ہے ، الگ سے کسی میت کے لئے کوئی دوسرا کفن یا رنگ منقول نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم سفید کپڑے پہنو، کیونکہ یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں سے ہیں اور اسی میں اپنے مردوں کو بھی کفناؤ(ترمذی:994، شیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے)
اگر مجبوری ہو تو دوسرے رنگ کا بھی کپڑا بطور کفن استعمال کرسکتے ہیں۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(قسط:30)

جواب از مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ، سعودی عرب

سوال(1): کسی بہن کا رشتہ لگاہو اور شوہر چاہتا ہوں کہ لڑکی کے بارے میں جانکاری حاصل کرے کہ وہ اس کے حق میں صحیح ہے یا نہیں تو یہ جائز ہے ؟

جواب:شادی سے قبل منگیتر کو دیکھنے کی اجازت ہے ، لڑکا لڑکی کو دیکھ سکتا ہے ۔اور اس لڑکی سے متعلق جانکاری حاصل کرنے کا مسئلہ ہے کہ وہ دین و اخلاق میں ٹھیک ہے کہ نہیں تو یہ معلومات بھی پاس پڑوس کے لوگوں سے یا اس کے رشتہ داروں سے لے سکتا ہے لیکن اگر لڑکی کو جاننے کا مطلب اس سے تنہائی میں ملنا، باتیں کرنا، اس کے ساتھ ڈیٹنگ کرنا، چائے پہ بلانا یا اس کے ساتھ کچھ وقت گزار کراس کو سمجھنا تو سارے کام ناجائز ہیں ۔یہ مغربی تہذیب اور فساق و فجار کا کلچر ہے ، اسلام ہمیں ان باتوں کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔نکاح سے قبل لڑکالڑکی کو دیکھ سکتا ہے اور لوگوں سے اس کے دین واخلاق کی معلومات لے سکتا ہے ، اس کی اجازت ہےمگر لڑکی کوسمجھنے کے لئےمروجہ مغربی تہذیب کی اجازت نہیں ہے ۔

سوال(2): ایک عورت نے اپنا عمرہ کرلیا ، وہ اپنے زندہ شوہر کی جانب سے عمرہ کرنا چاہتی ہے ، کیا یہ عمل درست ہوگا؟
جواب:اگر شوہر خود سے عمرہ کرنے کی قدرت واستطاعت رکھتا ہو تو بیوی اس کی طرف سے عمرہ نہیں کرے گی لیکن اگر شوہر خود سے عمرہ کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو، عاجز ہو یعنی بیماری یا بڑھاپا کی وجہ سے لاچار ہو تو پھر ایسے شوہر کی طرف سےعمرہ کرسکتی ہے ۔
عن الفضل : ان امراة من خثعم، قالت: يا رسول الله، إن ابي شيخ كبير عليه فريضة الله في الحج وهو لا يستطيع ان يستوي على ظهر بعيره، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " فحجي عنه ".(صحيح مسلم:3252)
‏‏‏‏ترجمہ: فضل سے روایت ہے کہ ایک عورت قبیلہ خثعم کی اس نے کہا: یا رسول اللہ! میرا باپ بوڑھا ہے اور اس پر حج اللہ تعالیٰ کا فرض کیا ہوا ہے اور وہ سواری کی پیٹھ پر بخوبی نہیں بیٹھ سکتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کہ تم اس کی طرف سے حج کرو۔“
گوکہ یہ دلیل فرض حج سے متعلق ہے مگر اہل علم نفلی حج بدل کی بھی اجازت دیتےہیں ۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے کسی نے سوال کیا کہ میری والدہ فرضی حج کرچکی ہیں، ان کی طرف سے حج کرنا چاہتا ہوں کیا ان سے اجازت لینا ضروری ہے تو شیخ نےجواب دیا کہ اگر آپ كى والدہ بڑھاپہ يا لاعلاج مريض جس سے شفا ممكن ہو كى بنا پر حج كرنے سے عاجز ہيں تو ان كى جانب سے حج كرنے ميں كوئى حرج نہيں چاہے بغير اجازت ہى كيا جائے۔(فتاوى ابن باز:16/414)

سوال(3):بہت ساری عورتیں آنکھوں میں کانٹیکٹ لینس لگاتی ہیں کیا جب آنکھوں میں لینس لگے ہوں تو وضو ہو جائے گا؟
جواب:اس سوال سے متعلق ایک ذیلی سوال پیدا ہوتا ہے جس کو پہلے جاننا ضروری ہے تاکہ اصل سوال کا جواب بخوبی سمجھ میں آسکے ۔ وہ ذیلی سوال یہ ہے کہ کیا آنکھوں میں کانٹکٹ لینس استعمال کی اجازت ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک لینس ضرورت کے تحت لگایا جاتا ہے ، آنکھوں کی کمزوری کی وجہ سے ، یہ جائز ہے اس میں کوئی کلام نہیں لیکن وہ لینس جو زینت وفیشن کے طور پہ آنکھوں کا رنگ بدلنے کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے وہ جائز نہیں ہے ۔ اب رہا اصل سوال کہ آنکھوں پر لینس لگے ہوں تو وضو ہوگا کہ نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ وضو ہوجائے گا کیونکہ وضو میں آنکھوں کے داخلی حصے کو دھونے کا حکم نہیں ہے بلکہ اوپری حصہ ہی کو دھونا کافی ہے جسے آنکھوں کا پپوٹا (غلاف چشم) کہتے ہیں اس لئے کوئی مرد یا عورت ضرورت کے تحت آنکھوں میں لینس لگائے ہوئے ہو تو بغیر لینس اتارے وضو کرسکتے ہیں ، وضو ہوجائے گا حتی کہ غسل بھی ہوجائے گا کیونکہ غسل میں بھی آنکھوں کے اندرونی حصے میں پانی داخل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال(4): کیا چار ماہ کا بچہ گرجائے تو اس کو غسل و کفن کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر دفن کیا جائے گااور نام بھی رکھا جائے گا اور عقیقہ بھی کیا جائے گا؟
جواب:یہ بات صحیح ہے کہ چار ماہ بعد اگر کوئی بچہ گرجائے تو اس کو غسل دیا جائے گا ، کفن دیا جائے اور نماز جنازہ پڑھ کر دفن کیا جائے گا۔جہاں تک نام رکھنے اور اس کی طرف سے عقیقہ کرنے کا سوال ہے تو حدیث میں ساتویں دن نام رکھنے اور عقیقہ کرنے کا حکم ہے ، جو بچہ اس سے پہلے مرجائے تو نام رکھنے اور عقیقہ کرنے کا مسنون دن نہیں پاتا ہے اس لئے اس مردہ بچے کا نہ نام رکھا جائے گا اور نہ ہی اس کا عقیقہ کیا جائے گا۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ اگر چار ماہ کے بعد مردہ بچہ پیدا ہو تو اس کا نام بھی رکھا جائے گا اور ساتویں دن اس کی طرف سے عقیقہ بھی کیا جائے گا۔اس موقف سے مجھے اختلاف ہے ، نام کا بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن عقیقہ اہم مسئلہ ہے ، ہم دیکھتے ہیں کہ جو میت شب عید نہیں پاتا تو اس کی طرف سے فطرانہ نہیں ہے کیونکہ اس نے وقت وجوب نہیں پایا ہے پھر جو بچہ عقیقہ کا مسنون دن نہ پائے اس کی طرف سے کیوں عقیقہ دیا جائے گا؟ شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں کہ اگر انسان چاند رات سورج غروب ہونے سے قبل فوت ہو گيا تو اس پر فطرانہ واجب نہيں كيونكہ وہ وجوب كے سبب سے قبل ہى فوت ہو گيا ہے۔(فقہ العبادات:211)فطرانہ کی طرح ٹھیک یہی حکم میت بچہ کے لئے عقیقہ کے سلسلہ میں ہے۔

سوال(5):استعمال کے زیورات میں جب زکوۃ دیں گے تو قیمت خرید کے حساب سے زکوۃ دیں گے یا قیمت فروخت کے حساب سے ؟
جواب:یہ بات واضح رہے کہ استعمال کے زیوارت پر بھی زکوۃ ہے اور سونے چاندی کے زیورات جو نصاب کو پہنچ رہے ہوں ، ان پر جب سال گزر جائے تو بازار سے ان زیورات کی موجودہ قیمت فروخت معلوم کی جائے ، جو موجودہ قیمت بنے گی اس قیمت میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ دینی ہوگی ۔

سوال(6): کیا اپنی بیٹی کا نام سدرۃ المنتہی رکھ سکتے ہیں ؟
جواب:قرآن میں سدرۃ المنتہی کا لفظ آیا ہے جو بیری کے درخت کو کہتے ہیں ، یہ درخت چھٹے یا ساتویں آسمان پر ہے۔ سدرہ کے ساتھ المنتہی کا جولفظ مستعمل ہے اس سے مرادفرشتوں کی آخری حد ہےیعنی فرشتے اس حد سے آگے نہیں جاسکتے ہیں۔ سدرہ ٹھیک ہے بطور نام رکھ سکتے ہیں ، اس میں المنتہی لگانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ویسے ناموں کےلئے صحابیات اور صالحات کے ناموں پررکھاجائے تو بہتر ہے ۔

سوال(7):ہماری ایک پڑوسن ہیں وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے دین کا علم حاصل نہیں کیا لیکن ان پر جن ہیں اور اس جن نے انہیں علم سیکھایا ہے لوگ ان کے پاس آتے ہیں اپنے مسائل لے کر وہ ان کو قرآن کی آیت یا اللہ کے ناموں میں سے کوئی نام مخصوص تعداد میں پڑھنے کے لئےدیتی ہیں اور کہتی ہیں ان کو یہ علم جنات نے سیکھایا ہے اور وہ اس کو دین سمجھتی ہیں اور ایک شرف سمجھتی ہیں۔کیا جنات سے اس طرح مدد لینا جائز ہے اگر نہیں تو ان کو کس طرح نصیحت کریں ؟
جواب:اگر وہ عورت سچ بول رہی ہے تب بھی اس کے پاس جانا جائز نہیں ہے کیونکہ جنات سے مدد لینا جائز نہیں ہے اور اگر وہ جھوٹ بول رہی ہے جس کا امکان زیادہ ہے تب تو ویسے ہی اس سے دور رہنا ہے ۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس نے عالم سے کتاب و سنت کا علم نہ لیا ہو اور دعوی کرے کہ ہمیں جنات بتاتے ہیں ایسا آدمی جھوٹا، مکار اور فریبی ہے کیونکہ دین کا علم قرآن اور حدیث میں ہے جوکتاب و استاد سے حاصل کیا جاتا ہے، نبی ﷺ نے یہ بھی بتایا ہے کہ شیطان جھوٹا ہے ۔اور مجرب وظائف یعنی اپنی طرف سے وظیفہ گھڑنا کسی حاجت و ضرورت کے لئے جائز نہیں ہے، یہ بدعتیوں کا عمل ہے۔ ہم وہی اذکار کریں گے جو مسنون ہیں اور اسی طرح عمل کریں گے جو کیفیت نبی ﷺ نے بتائی ہے ۔ یہاں ہماری ذمہ داری ہے کہ دوسروں کو بھی اس قسم سے عورت سے دور رکھیں بلکہ سماج کے بااثرفردکی ذمہ داری ہے کہ اس عورت کی بےدینی وجہالت کو بندکرائے تاکہ سماج میں گمراہی نہ پھیلے ۔

سوال(8):حیض کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کتنی ہے ؟
جواب:ویسے حیض کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت متعین نہیں ہے لیکن اہل علم نے قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ حیض کی مدت پندرہ دن ہوسکتی ہے ، اس سے زیادہ خون آئے تو وہ فاسد مانا جائے گا اور کم سے کم کی کوئی تحدید نہیں ہے ، ایک دن بھی حیض آسکتا ہے تو جس عورت کو جتنا وقت یا جتنا دن خون حیض کی صفات میں آئے حیض مانے اور نماز و روزہ سے پرہیز کرے اور یہ یاد رکھے کہ پندرہ دن سے زیادہ آنے پر زائد ایام کو حیض شمار نہ کرے، ان ایام میں مستحاضہ کی طرح نماز کی پابندی کرے ۔شیخ ابن باز ؒ نے ذکر کیا ہے کہ حیض کے زیادہ سے زیادہ 15 دن ہیں، ان سے زیادہ ہوں تو یہ استحاضہ ہے۔

سوال(9):میت کو نیل پالش لگی ہو اور اتارنے سے بھی نہیں اترے تو کیا کیا جائے؟
جواب:میت کو وضو بھی کرانا ہے اور غسل بھی دینا ہے اور وضو کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اعضائے وضو تک پانی پہنچ جائے اور اسی طرح غسل کی شرائط میں بھی ہے کہ پانی پورے جسم تک پہنچ جائے اس لئے اگر میت کے ناخن پر پالش لگی ہو جس سے پانی ناخن کی تہ تک پہنچنے سے مانع ہو تو نیل پالش کو کھرچا جائے گا تاکہ وضو اور غسل میں پانی جسم کی اصل تہ تک پہنچ جائے ۔ جولوگ میت کو غسل دلانے کا کام کرتے ہیں ان لوگوں کو چاہئے کہ نیل پالش زائل کرنے والا کیمیکل اپنے پاس رکھے جس سے بآسانی پالش ختم کرسکتے ہیں ۔ اگر کبھی کوشش کے باوجود کچھ نیل پالش نہ صاف ہوسکے تو حرج نہیں ہے ، اللہ کا فرمان ہے : فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ۔ (تم اللہ سے اپنی طاقت بھر خوف کھاؤ)۔

سوال(10):ایک عورت بیمارہے اس کو پین کیرنا کی شکایت ہے ،پیٹ میں پانی بھرا ہوا ہے۔ جب وہ نماز پڑھتے وقت سجدہ میں جاتی ہے تو ہوا شرمگاہ سے خارج ہونے کی طرح آواز آتی ہیں حتی کہ بغل کے لوگ بھی سن سکتے ہیں ۔ جب ہاتھوں کو زمین پر بچھاکر سجدہ کرتی ہے تو آواز نہیں آتی ہے لیکن بازو کو اٹھاکر نماز پڑھتی ہے تو آواز آتی ہے ایسی صورت میں کیا کرے اور اس کی نمازو و ضو کیا حکم ہے ؟
جواب: اللہ اس بہن کو شفا عطا فرمائے ۔ اگر عورت سے نماز کی حالت میں اگلی شرمگاہ سے ہوا خارج ہونے کی آواز آئے تو اس سے نماز اور وضو پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اس لئے اس کا وضو بھی صحیح ہے اور نماز بھی صحیح ہے اور نماز پڑھتے ہوئے اسی طرح سجدہ کرے جوسجدہ کا مسنون طریقہ ہے یعنی اپنے بازوں کو زمین سے ہٹاکر سجدہ کرے کیونکہ نبی ﷺ نے حکم دیا ہے : تم میں کوئی شخص سجدے میں اپنے دونوں بازو (زمین پر) کتے کے بچھانے کی طرف نہ بچھائے۔(صحيح النسائي:1102) ساتھ ہی گھر میں ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں اجنبی مرد نہ آئے اور نماز کے وقت لنگوٹ باندھ کر دیکھے، اگر اس سے آواز بندہوجائے تونماز کے وقت لنگوٹ باندھ لیا کرے ۔

سوال(11):کیا یہ دعا صحیح ہے ،اللھم اجعلنی من المقربین واجعل امی من الحورالعین ۔ ترجمہ : اے اللہ ! مجھے اپنے مقرب بندوں میں شامل فرمااور مری والدہ کو حورعین(جنتی عورتوں) کے ساتھ ملادے۔ (الادب المفرد:504)
جواب:ہاں یہ دعا صحیح ہے، اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔مذکورہ حدیث میں جس کتاب کا حوالہ دیا گیا اس کی تحقیق میں شیخ البانی ؒ نے اسے صحیح کہا ہے ، وہ الدررالسنیہ کے حوالہ سے آپ کی خدمت میں پیش کررہاہوں ۔
اللَّهمَّ اجعَلْني من المقرَّبينَ واجعلْ أمِّي من الحورِ العِينِ
الراوي : - | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الأدب المفرد
الصفحة أو الرقم : 389 | خلاصة حكم المحدث : صحيح الإسناد

سوال(12):مجھے کہیں پر ایک سوال وجواب ملا ہےجوانگلش میں ہے ، اس کا اردو میں ترجمہ کرکے بھیج رہی ہوں کیا یہ سوال و جواب صحیح ہے؟
((سوال :کیا یہ بات صحیح ہے کہ عورت کی نمازبغیرقدم ڈھاکے قبول نہیں کی جاتی ہے؟جواب:ہاں بالکل یہ آتھینٹک بات ہے))
جواب: نماز میں عورتوں کا قدم ڈھاکنا اختلافی مسئلہ ہے، بعض اہل علم واجب مانتے جبکہ بعض اسے واجب نہیں مانتے ہیں اس لئے دوٹوک الفاظ میں یہ کہنا کہ نماز ہی نہیں قبول ہوگی محل نظر ہے ۔ ہاں احتیاط کا تقاضہ ہے اور بہتر ہے کہ عورت نماز پڑھتے وقت باقی سارے اعضاء کی طرح دونوں قدم کو بھی ڈھک لےلیکن اگر بغیرقدم ڈھکے کسی عورت نے نماز پڑھ لی تو اس کی نماز درست ہے۔

سوال(13): انڈیا سے عمرہ کے لئے احرام باندھنے کے بعد اگر وضو کی ضرورت پڑجائے تو کیسے مسح کرنا ہے جبکہ احرام میں بال نہیں دکھنا چاہئے؟
جواب:احرام باندھنے والی بہن یہ سمجھ رہی ہے کہ احرام باندھ لینے کے بعد بال نہیں دکھنا چاہئے جبکہ ایسی بات نہیں ہے کہ احرام کی حالت میں بال نہیں کھول سکتے ہیں یا نہیں دکھنا چاہئے ۔ بال کا مسئلہ یہ ہے کہ اجنبی مردوں سے اسے چھپانا ہے لیکن اگر وضو ٹوٹ جائے تو آپ اکیلے میں یا لوگوں کی نظروں سے چھپ کر وضو کرتے وقت بالکل اپنے بال کو کھول سکتے ہیں ، اس پر مسح کرسکتے ہیں حتی کہ غسل کی ضرورت پڑے تو غسل بھی کرسکتے ہیں ، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ احرام حج وعمر ہ میں داخل ہونے کی نیت کو کہتے ہیں ، وہ کسی کپڑے اور لباس کا نا م نہیں ہے اور احرام میقات سے باندھا جاتا ہے ۔ خلامیں سفر کرنے والے میقات کے ٹھیک اوپر خلا ہی میں حج یا عمرہ کی نیت کریں گے ۔

سوال(14): ایک نکاح کو تین چارسال ہوگئے وہ انٹرنیٹ پرہوا تھا کیا اس طرح نکاح ہوجاتا ہے اور اس کی کمائی کیسی ہے ؟
جواب:نکاح کے کچھ ارکان اور شروط ہیں ، اگر ان کو پورا کیا گیا تو انٹرنیٹ پر بھی نکاح ہوسکتا ہے ۔ نکاح کے دوارکان ہیں ۔
(الف)زوجین کا وجود اور ان دونوں کا آپس میں شادی جائز ہونا یعنی شادی میں رضاعت ،نسب ،عدت ،حمل وغیرہ کی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
(ب) ولی یا اس کے وکیل کی طرف سے ایجاب یعنی تعیین کے ساتھ فلانہ کی شادی کرانے کا ذکر اور لڑکے کی جانب سے قبول کرناحاصل ہو ۔
اورنکاح کی دو شرطیں بھی ہیں ۔ایک ولی کی اجازت ورضامندی اور دوسری دو عادل گواہ کی موجود گی ہیں اور نکاح کا اعلان کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔ اس لئے اس عقد میں اگر دوارکان اور دو شرطیں پائی گئیں تو نکاح درست ہے تاہم فون اور انٹرنیٹ پہ نکاح کرکے دھوکہ دیاجاسکتا ہے ، ممکن ہے عورت کا استحصال کیاجائے ، فتنے کا زمانہ ہے کچھ بھی دھوکہ ہوسکتا ہے اس لئے مجلس میں نکاح ہو تو بہتر ہے۔
اور کمائی کا نکاح سے تعلق نہیں ہے، حلال طریقے سے کمایا ہواپیسہ حلال ہے اور جو پیسہ حرام طریقے سے کمایا جائے وہ حرام ہے ۔

سوال(15): ایک بہن کا سوال ہے کہ نماز میں زور زور سے پڑھنا کیسا ہے ؟
جواب:نماز میں کیا اور کیسے پڑھنا ہے ساری باتیں رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں اس لئے ہمیں اپنی طرف سے کچھ ایجاد نہیں کرنا ہے ۔ کیا آہستہ پڑھنا ہے اور کیا زور سے پڑھنا ہے اس کی مکمل جانکاری کے لئے نماز کی مسنون کتاب لے کر تعلیم حاصل کرے ۔مختصر طور پر یہاں جان لیں کہ عورتوں کوعموما اپنی آواز پست رکھنا ہےیعنی جہری نماز(فجر، مغرب اور عشاء) کو بھی ہلکی آواز میں پڑھنا ہے ، آواز تو رہے گی مگر دھیمی رہے گی تاکہ آواز دور نہ جائے اور کوئی اجنبی مردآس پاس نہ ہو تو جہری نماز کوعورت اچھی طرح جہر کے ساتھ پڑھ سکتی ہے ۔سری نماز (ظہروعصر)خاموشی سے پڑھنی ہے ۔

سوال(16):ایک عورت حمل سے ہے اور اس کو تین چار سال سے لیکوریا کی شکایت ہے، عورت بھی کمزور ہے ، حمل کی وجہ سے ڈاکٹر قوت والی دوا نہیں دیتا بلکہ نارمل دوا دیتا ہے جس سے فائدہ نہیں ہورہا ہے کیا عورت بچے کو گراکر صحیح سے اپنا علاج کراسکتی ہے، اس میں کوئی گناہ تو نہیں ہوگا؟
جواب: عورت کے لئے جائز نہیں ہے کہ حمل گراکرلیکوریا کا علاج کرائے ، حمل ایک جان اور ایک نفس ہے اس کی حفاظت کرنا عورت کی ذمہ داری ہے ، اگرحمل ضائع کرتی ہے تو گنہگار ہوگی۔
وہ جو علاج کررہی ہے اسے جاری رکھے یا دوسرے ماہرڈاکٹر سے دکھائے ، بہت ساری عورتوں کو لیکوریا کی شکایت ہوتی ہے ، علاج دیر سویر فائدہ کرتا ہے اس لئے علاج جاری رکھے ، ماہر سے ماہر طبیب کو دکھائے مگر حمل نہ گرائے ۔

سوال(17):اگر کوئی عورت انتقال کر جائے اور اس کا بہت سارا سونا ہو تو کیا اس کے حقدار اس کی بیٹیاں ہی ہوگی جبکہ کہ اس کے بیٹے بھی ہیں اور معاشرے میں مشہور یہ ہے کہ ماں کے انتقال کے بعد اس کے زیورات کے حقدار اُس کی بیٹیاں ہی ہوگی؟
جواب:ایسی بات نہیں ہے کہ ماں کے زیورات پر حق صرف بیٹیوں کا ہے بلکہ اس میں تمام وارثین شامل ہوں گے ۔ جیسے باپ کی وراثت میں بیٹا اور بیٹی دونوں حصہ دار ہوتے ہیں اسی طرح ماں کی وراثت میں بیٹی کی طرح بیٹا بھی حصہ دار ہے۔اس لئے ماں کے انتقال کے بعد ان کا کل ترکہ جمع کرکے اسے تمام وارثوں میں شرعی قانون کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے گا۔ استعمال کی معمولی چیزوں کا کوئی مسئلہ نہیں ہےجیسے کپڑے اور کانچ کی چوڑیاں وغیرہ ۔ان کو میت کی طرف سے کسی کو صدقہ کردیں یا ضرورت منداولاد میں سے جسے چاہیں دیدیں ۔

سوال(18):کیا اگر کسی بہن کو انٹرنل الٹرا ساؤنڈ کروانی پڑے تو اس کے بعد اس پر غسل واجب ہو گا یا صرف وضو کر کے عبادت کرسکتی ہے یعنی نماز پڑھ سکتی ہے؟
جواب:اگلی شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹتا ہے اس بناپر عورت کی اگلی شرمگاہ کو ہاتھ لگ جائے خواہ الٹراساؤنڈ کے لئے ہو یا کسی اور کام کے لئے تو اس سے صرف وضو ٹوٹے گا ، غسل کی ضرورت نہیں ہے یعنی الٹراساؤنڈ کے بعد عورت وضو کرکے نماز پڑھ سکتی ہے ، اسے غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال(19): جس عورت کا عقیقہ نہ ہوا وہ اپنا عقیقہ شادی کے بعد خود کرے یا شوہر بھی دے سکتا ہے اور اگر کسی نے عقیقہ نہ دیا تو کیا وہ گنہگار ہوگی؟
جواب:جس عورت کا عقیقہ بچپن میں نہ ہوا تو اس کی طرف سے بعد میں بھی (حتی کہ شادی کے بعد بھی) عقیقہ کرسکتے ہیں ، بیوی اپنا عقیقہ خود کرنا چاہے تو خود بھی کرسکتی ہے یا ذمہ دار لوگوں میں سے جو بھی اس کی طرف سے عقیقہ کرنا چاہے کرسکتا ہے خواہ وہ شوہر ہو یا باپ و بھائی ۔
جہاں تک ترک عقیقہ پر گناہ کا سوال ہے تو چونکہ عقیقہ سنت موکدہ ہے اس لئے اس کے ترک سے گناہ لازم نہیں آئے گا لیکن کوئی وسعت کے باوجود عقیقہ نہ کرے تووہ ایک تاکیدی سنت کا تارک ضرور ہوگا۔

سوال(20): کیا عورت دانتوں کے گیپ کو ختم کرنے کے لئے کلپ لگائے تو جائز ہے؟
جواب: اگر کسی عورت کے دانتوں میں گیپ ہو تو اس کی اصلاح کے لئے دانتوں میں کلپ لگائے یا اس کا علاج کرائے اس میں حرج نہیں ہے لیکن لوگوں کی نقالی میں دانتوں کا فیشن کروائے یہ ممنوع ہے یعنی دانتوں کی اصلاح اور اس کا علاج ممنوع نہیں ہے ، دانتوں کا جمالیاتی فیشن کروانا ممنوع ہے ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(قسط:31)
جواب از : مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ ، سعودی عرب

سوال(1): ایک بہن کا سوال ہے اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے اورشوہرکی کمپنی کی طرف سےاسے چار پانچ لاکھ روپئے ملے ہیں ، کیا وہ بہن اس پیسے کو بنک میں رکھ کر اس کے نفع سے گھر چلا سکتی ہے کیونکہ اس کے یہاں کوئی کمانے والا نہیں ہے اور نہ ہی آمدنی کا کوئی ذریعہ ہے ؟
جواب: مال حرام ہرکسی کے لئے حرام ہے، چاہے غریب ہو یا امیر ، اس لئے اس بہن کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے پیسےسودی بنک میں رکھ کر اس کے نفع سے گھر چلائے ۔ کیا مجبوری میں کوئی ناچ گانا گاکر یا چوری کرکے گھر چلا سکتا ہے ؟ یقینا نہیں ،اسی طرح سودی کمائی بھی حرام ہےخواہ حالات کیسے بھی ہوں ۔ بیوہ خود بھی کام کرکے کھاسکتی ہے، تجارت کرسکتی ہے، نوکری کرسکتی ہے یادوسرے مرد سے شادی بھی کرسکتی ہے ایسی صورت میں اسے معاش کا مسئلہ نہیں ہوگا، ان میں سے کوئی آبشن اختیارکرلےحتی کہ مجبوری میں زکوۃ وخیرات لے سکتی ہے تاہم سودی بنک کے نفع سے گھرچلانے کی سوچ ختم کردے ۔ اصل میں ضرورت مندوں کی خبرگیری مالداروں اور بیت المال کی ذمہ داری ہے مگر ہمارے یہاں اس ذمہ داری کو نبھانے میں کوتاہی پائی جاتی ہے۔

سوال(2):بیان کیا جاتا ہے کہ حوا علیہا السلام نے جنت کا پھل کھایا تھا اس وجہ سے بطور سزا عورتوں کو حیض آتا ہے ، کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: جویہ کہاجاتا ہے کہ عورتوں کے حیض کی وجہ حوا علیہا السلام کا جنت کا پھل کھاناہے سویہ بات نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے، مستدرک حاکم میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ایک قول ہے جوہوسکتا ہے اسرائیلیات سے منقول ہو جیساکہ شیخ صالح المنجد نے بتایا ہے تاہم صحیح حدیث سے ہمیں بس یہ معلوم ہوتا ہے کہ حیض بنات آدم پر اللہ نے لازم کردیا ہے یعنی اللہ کی طرف سے یہ عورتوں کی خلقت میں شامل کیا گیا ہے۔

سوال(3):ایک بہن کا کہنا ہے کہ اگر ہماری کوئی چھوٹی بہن یا بھائی غیر محرم سے تعلق میں ہو تو کیا اسکی خبر والدہ کو کرنا صحیح ہے؟ہم کو اللہ کا خوف محسوس ہورہا ہے پھر یہ بھی گمان ہوتا ہے کہ کہیں یہ غیبت نہ ہوجائے، اس بارے میں آپ صحیح رہنمائی کریں اور بتائیں کہ کیا کرنا چاہئے؟
جواب:آپ کو اپنے کسی بھائی یا بہن کے بارے میں غیرمحرموں سے بات کا علم ہو تو آپ بھی ذمہ دار ہیں، آپ انہیں سمجھائیں، اللہ کا خوف دلائیں اور روکنے کی کوشش کریں ساتھ ہی بچوں کا سرپرست ہونے کے ناطے والدین کی اصل ذمہ داری ہے اس لئے بغیر تاخیر کے اس بات کی اطلاع والدہ کوبھی دیں تاکہ والد کے ذریعہ بہن بھائیوں کو سخت نگرانی اور اچھی نگہداشت میں رکھاجائے اور وقت پر ہی اصلاح ہوسکے ۔یہ وقت بہت برا چل رہا ہے، تھوڑی سی غفلت سے نوجوان کہاں سے کہاں بہک جاتے ہیں ۔ اصلاح کی غرض سےبہن /بھائی کی برائی کی خبر والدہ کو دینا غیبت نہیں ہے ، یہ تو نیکی ہے ۔ ہاں محلے ، سماج یا اپنے رشتہ داروں میں اس بات کو عام نہ کریں۔

سوال(4):اگر میں حیض کی حالت میں تلاوت سن رہی ہوں اور آیت سجدہ آجائے تو سجدہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:حیض کی حالت میں قرآن کی تلاوت سننے میں کوئی حرج نہیں ہے اور دوران تلاوت سجدہ والی آیت آجائے تو آپ اس حالت میں سجدہ بھی کرسکتی ہیں ، کوئی حرج نہیں ہے تاہم سجدہ واجب نہ ہونے کی وجہ سے آپ سجدہ تلاوت چھوڑ بھی دیتی ہیں تو کوئی گناہ نہیں ہے ۔

سوال(5) : ہم عورتیں گھر میں ہی نماز ادا کرتے ہیں ، اس گھر میں ایک چار پائی ہے ، اگر چارپائی پر ٹھیک سامنے کوئی بیٹھا ہو یا لیٹا ہو توکیا وہاں نماز پڑھ سکتی ہوں اور کیا نمازی کے پاس اس کے سامنے کچھ لینے دینے میں مسئلہ تونہیں ہے ؟
جواب :آپ اس چار پائی کے پاس جس پر آدمی بیٹھا ہے یا لیٹا ہے نماز پڑھ سکتے ہیں، نبی ﷺ اپنے گھر میں نماز پڑھاکرتے تھے اس حال میں کہ آپ کے سامنے بیڈپر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا لیٹی ہوتی تھیں ۔تاہم بہتر ہے کہ ایسی جگہ نماز پڑھیں جہاں آپ سکون اور حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھ سکیں جیساکہ آپ نے کہا نمازی کے پاس لین دین کرناہوتا ہے، ایسے میں نمازی کی توجہ نماز کی بجائے لین دین کی طرف ہوسکتی ہے اس لیے اکانت میں نماز پڑھیں، ویسے وہاں بھی پڑھنے میں حرج نہیں ہے۔اصل معاملہ یہ ہے کہ سکون و توجہ سے نماز پڑھیں ۔

سوال(6):ایک بہن کے سر کے بال جھڑ گئے ہیں تو کسی نے کہا ہے کہ مرے ہوئے چوہاکاتیل فرائی کرکے اس تیل سے مساج کرو،بال واپس آجائے گا کیا یہ عمل بطور علاج ٹھیک ہوگا ؟
جواب : علاج کے لئے ضروری ہے کہ جس چیز سے علاج کیا جائے وہ پاک اور حلال چیز ہو، ناپاک اور حرام چیزوں سے علاج ممنوع ہے اور چوہا اپنی خباثت ونجاست کی وجہ سے فاسق میں شمار ہوتا ہے جس کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ جانور ایسے ہیں جو سب کے سب فاسق( موذی )ہیں اور انہیں حرم میں بھی مارا جا سکتا ہے کوا، چیل، بچھو، چوہا اور کاٹنے والا کتا۔(صحیح بخاری:1829)
اور اسی طرح اللہ نے نجس چیزوں سے علاج کو ممنوع قرار دیا ہے ۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجس یا حرام دوا سے منع فرمایا ہے۔(صحیح ابوداؤد:3870)
اس لئے اس طرح کا علاج نہ کریں، بالوں کے لئے ہزاروں صحیح علاج موجود ہیں ان میں سے کوئی طریقہ اپنائیں۔

سوال(7):ایک بہن کا سوال ہے کہ مجھے والد کی طرف سے میراث کا حصہ ملا ہے ، یہ جائیداد میں سے نہیں ہے بلکہ پیسوں میں سے حصہ ملا ہے ، کیا اس میں بھی زکوۃ دینی پڑے گی ؟
جواب:آپ کے پاس پیسہ کہیں سے بھی آئے، وراثت سے آئے، کمائی سے آئے یا کوئی آپ کو تحفہ دے ، جب وہ پیسہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ دینی ہوگی ۔

سوال(8): عورتوں کا خوشبو لگاکر باہر نکلنا کیسا ہے ، عورتیں پاؤڈر لگاتی ہیں اس میں بھی خوشبو ہوتی ہے تو وہ استعمال کرسکتی ہے یا نہیں ؟
ٍجواب:عورتوں کا خوشبو لگاکر باہر جانا صحیح نہیں ہے تاہم پاؤڈر جیسی چیز کے استعمال میں حرج نہیں ہے کیونکہ اس کی خوشبو اپنے آپ تک محدود رہتی ہے ، ایسی خوشبو لگاکر باہر نکلنا جس کو دوسراآدمی محسوس کرے وہ خوشبو منع ہے جیسے ابوداؤد کی اس حدیث پہ غور کریں، نبی ﷺ کا فرمان ہے:إذا استعطرت المراة فمرت على القوم ليجدوا ريحها فهي كذا وكذا، قال: قولا شديدا.(صحيح أبي داود:4173)
ترجمہ:جب عورت عطر لگائے پھر وہ لوگوں کے پاس سے اس لیے گزرے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ ایسی اور ایسی ہے، آپ نے (ایسی عورت کے متعلق) بڑی سخت بات کہی۔

سوال(9): جب دودھ پیتے بچے کو انجکش لگایا جائے یا دوا پلائی جائے تو ایسے بچے کے پیشاب کا کیا حکم ہے؟
جواب:دوا کا استعمال علاج کے طور پر ہے، اور دودھ بطور غذا ہے اس لیے انجکشن اور دوا سے کوئی فرق نہیں پڑے گایعنی اس شیرخوار بچے کے پیشاب کا وہی حکم رہے گا جو حدیث میں بتایا گیا ہے ، بچی ہو تو اس کا پیشاب دھلا جائے گا اور بچہ ہو تو اس کے پیشاب پر چھینٹا مارنا کافی ہوگا۔

سوال(10):ایک بہن کو عمرہ کا سفر کرنا ہے ، اسے حیض آگیا ہے ، وہ پہلے پانچ دن مکہ میں ٹھہرے گی پھر مدینہ جائے گی ، وہاں سے پانچ دن بعد پھر مکہ آجائے گی ؟
جواب:چونکہ وہ عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ کا سفر کررہی ہیں اس لئے وہ حیض کی حالت میں ہی عمرہ کی نیت کرلے گی اور ممنوعات احرام سے بچتی رہے گی ، جب پاک ہوجائیں تو غسل کرکے اپنا عمرہ مکمل کریں گی ، اور پھر سے احرام باندھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے سے ہی احرام میں ہے ۔

سوال(11): ایک بہن کا سوال ہے کہ اگر اس کے شوہر نے طلاق دی مگر وہاں کوئی گواہ موجود نہیں تھا تو کیا طلاق ہوجائے گی ؟
جواب:طلاق اور رجوع میں سنت یہ ہے کہ آدمی دو عادل گواہ بنالے لیکن اگر کوئی بغیر گواہ کے اپنی بیوی کو طلاق دیدے، طلاق دیتے وقت وہاں میاں بیوی کے علاوہ کوئی نہیں تھاتب بھی یہ طلاق واقع ہوجائے گی کیونکہ طلاق واقع ہونے کے لئے گواہ کا ہونا شرط نہیں ہے ۔ اگر یہ رجعی طلاق یعنی پہلی یا دوسری طلاق ہوتو شوہر عدت میں رجوع کرسکتا ہے اور رجوع کرتے وقت بھی بہتر ہے کہ گواہ بنالے لیکن گواہ موجود نہ ہو تب بھی رجوع ہوجائے گا۔تیسری طلاق کے بعدشوہرکو رجوع کا حق نہیں ہے۔

سوال(12):اگر کوئی خاتون حجاب کے ساتھ پکنک اسپوٹ پہ فٹبال اور بیڈ منٹن وغیرہ کھیلے تو کیا یہ عمل جائز ہے؟
جواب:کسی مسلمان خاتون کو ایسی جگہ جانا ہی نہیں چاہئے جہاں پکنک منایا جاتا ہو، لوگوں کی بھیڑ ہو، وہ فتنے کی جگہ ہے اور آج کل تو کچھ زیادہ ہی فتنے ہیں ممکن نہیں ہے کہ پکنک اسپوٹ جیسی جگہوں پر آج کل بے حیائی نہ ہواس لئے مسلم خاتون کا ایسی جگہوں پرجاکرفٹبال وبیڈمنٹن کھیلنا جائز نہیں ہے ۔ باقی صحت و تندرستی کے لئے مناسب کھیل کود میں حرج نہیں ہے ، شرط یہ ہے کہ اجنبی لوگوں کی نظروں سے اوجھل اور بے حیائی و فتنے کی جگہوں سے دور رہا جائے۔

سوال(13): نماز میں سدل سے منع کیا گیا جبکہ عورت کے سر پر کپڑا ہوتا ہے تو چہرہ تک پہنچتا ہے اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب: یہ بات صحیح ہے کہ نماز میں سدل کرنے اور اپنے چہرہ کو ڈھکنے سے منع کیا گیا ہے :عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ السَّدْلِ فِي الصَّلَاةِ، وَأَنْ يُغَطِّيَ الرَّجُلُ فَاهُ(أبوداؤد)
ترجمہ:ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل کرنے اور آدمی کو منہ ڈھانپنے سے منع فرمایا ہے۔ (اس حدیث کو شیخ البانی نے حسن کہا ہے ، دیکھیں :صحیح ابی داؤد:643)
چہرہ ڈھکنا تو معلوم ہےجبکہ سدل کی مختلف صورتیں بیان کی جاتی ہیں، ایک صورت یہ ہے کہ چادر کو اس کے درمیان سے اپنے سر یا کندھوں پر ڈال لیا جائے اور اس کی دائیں بائیں اطراف لٹکتی رہیں یا چادر کو اس انداز سے اپنے اوپر لپیٹ لیا جائے کہ ہاتھ بھی اندر ہی بند ہو جائیں۔
گوکہ اس حدیث کو بعض محدثین نے ضعیف کہا ہے مگر شیخ البانی نے اسے قابل حجت قرار دیا ہے اس لئے آدمی کو نماز میں سدل کرنے اور اپنا چہرہ ڈھکنے سے بچنا چاہئے لیکن بوقت ضرورت آدمی اپنا چہرہ ڈھک سکتا ہے جیسے سخت ٹھندی ہو یا کسی وجہ سے ماسک لگانا پڑے تو چہرہ ڈھکا جاسکتا ہے ، یہ بوجہ مجبوری ہے ۔
عورت کا معاملہ پردہ کے معاملہ میں مردوں سے الگ ہے ، عورت سراپا پردہ کی چیز ہے، وہ نماز ہو یا نماز سے باہر ہو اسے اپنا پورا بدن چھپانا ہے۔ جب ایک عورت نماز پڑھ رہی ہو تو نماز کی حالت میں افضل ہے کہ اپنا چہرہ کھلا رکھے اور جسم کے باقی تمام حصے کو ڈھک کر نماز پڑھے لیکن اگر وہاں کوئی اجنبی مرد ہو تو پھر اپنے چہرہ کو بھی ڈھک کر نماز پڑھے ۔

سوال(14): ایک بہن کو استحاضہ کا خون آتاہے لیکن وہ عموما وضو میں رہتی ہے ، کیا اس نے مثلا گیارہ بچے وضو کیا ہو اس سے ظہر کی نماز پڑھ سکتی ہے اور اسی طرح عشاء سے پہلے کا وضو ہو تو عشاء کی نماز پڑھ سکتی ہے ؟
جواب:استحاضہ کی حالت میں ہر نماز کے لئے الگ الگ وضو کرنا ہے ، اگر کسی نماز کا وقت داخل ہوگیا ہے اور نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد مستحاضہ نے وضو کیا ہے تو اس وضو سے مستحاضہ اس وقت کی نماز پڑھ سکتی ہے چاہے کچھ دیر بعد ہی سہی لیکن ابھی نماز کا وقت داخل نہیں ہوا ہے اس سے پہلے وضو کیا گیا ہے تو وہ وضو آنے والی نماز کے لئے کافی نہیں ہے ۔ گویا کوئی مستحاضہ ظہر کا وقت آنے سے پہلے وضو کرلے تو اس وضو سے ظہر کی نماز نہیں پڑھے گی بلکہ پھر سے وضو کرنا ہوگا ، اسی طرح دوسری نمازوں کا حال ہے ۔

سوال(15):کیا عورت اپنی حفاظت کے لئے ڈیفینس کی تعلیم لے سکتی ہے تاکہ اپنی حفاظت کرسکے ؟
جواب:حدیث میں مومن کی تعریف کی گئی ہے : المومن غرکریم یعنی مومن بھولا بھلا اور شریف ہوتا ہے ۔ مومن میں خونخواری نہیں ہوتی ہے تاہم جہاد کے لئے وہ کمربستہ ہوتے ہیں اور اس علم میں ماہر ہوتے ہیں ۔ رہا مسئلہ عورتوں کا تو جہاد سے انہیں الگ کیا گیا ہے ، اس لئے انہیں قتال کی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے تاہم جو اصل مسئلہ ہے دفاع کا اس حد تک تعلیم سیکھنے میں حرج نہیں ہے جیساکہ آج کا زمانہ بھی اس کا متقاضی ہے بلکہ پولیس محکمہ میں جو عورتوں کا خاص شعبہ ہے یا عورتوں کے لئے سکورٹی ادارہ ہے اس سے خواتین جڑ سکتی ہیں۔یاد رہے یہ علم فرض و واجب نہیں ہےتاہم کوئی دفاعی تعلیم سیکھنا چاہے تو اس میں حرج نہیں ہےاوردفاعی تعلیم عورت سے ہی سیکھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عورتوں کو ان مقامات سے دور رہنا چاہئے جہاں فتنے اور لڑائیاں ہوں ، کیا آپ نہیں جانتے کہ عورت کو محرم کے ساتھ سفر کرنے اور گھروں کو لازم پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

سوال(16): ایک عورت کو پانچ بچے ہوگئے ، کیا اب وہ بچہ روکنے کے لئے بچہ دانی بند کرواسکتی ہے ؟
جواب: نبی ﷺ نے زیادہ بچہ پیداکرنے والی عورت سے شادی کا حکم دیا ہے، اس پس منظر میں اس عورت کا نس بندی کروانا جائز نہیں ہے ، ہاں کوئی مصلحت یا ضرورت ہو تو وقتی طور پر حمل روکنے کی تدابیر اختیارکرنےمیں حرج نہیں ہے تاہم نسل منقطع کرنے کے لئے کوئی ذریعہ اپنانا جائز نہیں ہے الا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو۔پانچ بچہ پیدا ہوجانا کوئی شرعی عذر نہیں ہے جس کی وجہ سےعورت نس بندی کراسکتی ہے ۔

سوال(17): کیا ہم نکاح میں یہ شرط لگاسکتے ہیں کہ لڑکا دوسری شادی نہیں کرے گا اور اس وہ اس مقدار میں پیسہ دے گا؟
جواب:شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ اگر نکاح میں لڑکی اس بات کی شرط لگاتی ہے کہ لڑکا دوسری شادی نہیں کرے گا تو یہ شرط اپنی جگہ صحیح ہے ، لڑکا کو اس پر عمل کرنا ہے ۔ (شیخ کے کلام کا مفہوم ختم ہوا)۔
رہا نفقہ کا معاملہ تو نفقہ شوہر پر واجب ہے ہی الگ سےمتعین طورپر مطالبہ نہیں کیاجائے گااور پھر انسان کے ساتھ کبھی مجبوری اورکبھی مسائل ہوسکتے ہیں البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو کھائے وہ کھلائے گا، جو پہنے وہ پہنائے گا اور جہاں رہے وہاں رکھے گا۔دراصل یہی مرد کے ذمہ واجب ہے۔

سوال(18): ایک لے پالک بہن کا کہنا ہے کہ ایک عورت نے مجھے گود لیا ہے ، تو میں اسے پیار سے ماں جی کہتی ہوں ، کیا یہ درست ہے؟
جواب:پیار و محبت میں گودلینے والی عورت کو ماں کہنے میں حرج نہیں ہے جیسے کوئی اپنی ساس کو احتراما ماں کہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

سوال(19): احرام کی حالت میں خواتین کا نزلہ کی وجہ سے ماسک لگانا کیسا ہے ، کیا یہ نقاب میں شامل ہے ؟
جواب:خواتین کے لئے احرام کی حالت میں سلا ہوا کپڑا کسی بھی قسم کا ہوا استعمال کرنا جائز ہے ماسوا نقاب و دستانہ کے اورماسک نقاب نہیں ہے ، نقاب سے الگ چیز ہے ۔

سوال(20):ایک دردمند ماں کا سوال ہے کہ میری بیٹی بری صحبت میں پڑکر نافرمانی کے کام کررہی ہے اس کے بارے میں کچھ رہنمائی کریں ؟
جواب:واقعی ایک دردمند ماں کے لئے یہ بیحد تکلیف دہ مرحلہ ہے جب اس کی اولاد برائی کے راستے پر چل پڑی ہو، میں اللہ تعالی سے دعاکرتا ہوں کہ اس ماں کو سکون و راحت نصیب فرمائے اور اس کی اولاد کو بری صحبت سے بچاکر اچھائی کے راستے پر چلائے ۔ تجربہ اور مشاہدہ کی بات ہے کہ بچوں میں برائی کی لت بری صحبت اور برے ماحول سے آتی ہے خصوصا مخلوط تعلیم جیسے کوچنگ سنٹراور عصری کالج ویونیورسٹی سے ۔ اگر بچوں کو بری صحبت اوربرے ماحول سے دور کیا جائے تو ان کو برائی سے بچاسکتے ہیں ۔ آج کے زمانے میں بچوں کے بگڑنے کی ایک وجہ موبائل بھی ہے ، والدین بچوں کو موبائل کی چھوٹ دیتے ہیں تو بچے دھیرے دھیرے ایسے راستے پر چل پڑتے ہیں جہاں پھر بعد میں اصلاح کرنا بہت دشوار ہوجاتا ہے ۔ اس ماں کو چاہئے کہ وہ معلوم کرے اولاد کی صحبت کیسی ہے، وہ کس کس ماحول میں جاتی ہے، موبائل کے ساتھ اس کا تعلق کیساہے؟ ان تمام باتوں کی چھان بین کرکے ان سب باتوں کی اصلاح کی جائے اور اگربیٹی شادی کے قابل ہوگئی ہے تو پھر شادی کردی جائے ۔ بہرکیف! جب والدین کو معلوم ہوجائے کہ اولاد غلط راستہ پرچل رہی ہے تو پھر سختی کرے اور سخت قدم اٹھاکر اصلاح کرے ، اللہ نے آپ کے سر یہ ذمہ داری دی ہے ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط:32)

جواب از : مقبول احمد سلفی
جدہ دعوہ سنٹر، حی السلامہ ، سعودی عرب
13/02/2023

سوال(1): ایک عورت جو صاحب استطاعت ہے، اس کا شوہر حج نہیں کررہا ہے کیا وہ اپنے بھائی کے ساتھ حج کرسکتی ہے یا شوہر ہی بیوی کو حج کرائے گا جیساکہ ہمارے یہاں کا ماحول ہے ، شوہر حج نہ کرائے تو بیوی حج نہیں کرسکتی ہے ۔اور کیا صاحب استطاعت بیوی شوہر کو چھوڑ کراپنے بھائی کے ساتھ حج کرتی ہے ، تو وہ گنہگارہوگی؟
جواب:اللہ نے فرمایا ہے کہ جو اس کے گھر کی طرف جانے کی طاقت رکھتا ہو اس پر حج فرض ہے ۔ اس فرمان الہی کی روشنی میں اگر بیوی کو بیت اللہ تک جانے کی مالی اور جسمانی استطاعت ہے تو اس پر حج فرض ہے اس عورت کو بلاتاخیرحج کرنا پڑے گا اور حج کے سفر کے لئے عورت کو محرم چاہئے ، محرم کے طور پر عورت شوہر کو یا بھائی کو یا بیٹا کویا باپ کو، ان میں سے کسی کو اپنےساتھ لے جاسکتی ہے یعنی ضروری نہیں ہےکہ بیوی شوہر کے ساتھ ہی حج کے لئے سفر کرے وہ کسی بھی محرم کے ساتھ حج پہ جاسکتی ہے اور وہ گنہگار نہیں ہوگی کیونکہ یہ فریضہ ہے جو بیوی کے ذمہ ہے، نہ کہ شوہر کے ذمہ ۔
اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ شوہر ہی بیوی کو حج کرائے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر شوہر بیوی کو اپنے پیسے سے حج کرادے تویہ اس کا احسان ہے مگر شوہر کے ذمہ بیوی کا حج کرانا نہیں ہے اور جس بیوی پر حج فرض ہوجائے وہ شوہر کےساتھ یا شوہر کے علاوہ کسی اور محرم کے ساتھ حج کرسکتی ہے۔

سوال(2):ایک بہن کو بہت دنوں سے درد کی شکایت ہے اور وہ دردناف کے نیچے نجاست کی جگہ پر ہے کیا وہ اس جگہ پر دم کرسکتی ہے ؟
جواب:اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ بہن مسنون اذکار پڑھ کر جہاں درد ہورہا ہووہاں پھونک مارے ، پڑھنا تو زبان سے ہی ہے ، درد والی جگہ صرف پھونکنا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ عثمان بن ابی العاص ثقفی سے روایت ہے، انہوں نے شکوہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک درد کا اپنے بدن میں جو پیدا ہو گیا تھا جب سے وہ مسلمان ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ضَعْ يَدَكَ عَلَى الَّذِي تَأَلَّمَ مِنْ جَسَدِكَ، وَقُلْ بِاسْمِ اللَّهِ ثَلَاثًا، وَقُلْ سَبْعَ مَرَّاتٍ أَعُوذُ بِاللَّهِ، وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ (صحیح مسلم:5737)
ترجمہ:تم اپنا ہاتھ درد کی جگہ پر رکھو اور کہو: «بسم الله» تین بار، اس کے بعد سات بار کہو «أَعُوذُ بِاللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِر» ۔ یعنی میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ کی برائی سے اس چیز کی جس کو پاتا ہوں میں اور جس سے ڈرتا ہوں۔
اسی طرح یہ بھی صحیح ہے کہ مسنون اذکار پڑھ کر ہاتھ پر پھونک مارلیں اور اپنے ہاتھ کو چہرہ ، بدن اور درد والی جگہ پر پھیر لیں نیز پانی پر دم کرکے بھی پینا جائز ہے ۔

سوال(3):ایک بہن کو سفر پہ جانا ضروری ہے مگر اس کا کوئی محرم نہیں ہے تو کیا ایک دوسری بہن کو اس کا ساتھ دینا چاہئے یا اپنے گھر میں رہنا چاہئے ؟
جواب:جس بہن کو سفر کے لئے محرم نہیں ہے اور سفر کرنا ضروری ہے تو مجبوری میں بغیر محرم کے اکیلی سفر کرسکتی ہے ، رہا مسئلہ ایک دوسری بہن کا اس کے ساتھ ہونا تو چونکہ عورت کسی عورت کا محرم نہیں بن سکتی ہے اس لئے شرعا تو فائدہ نہیں ہے لیکن سفر میں بھی اس بہن کو کسی کی سخت ضرورت ہو تو احسان وسلوک کے طور پر ساتھ دینا جانا جائز ہے اور دوسری بہن بھی عذرکے سبب بغیر محرم کے سفر کرنے کی وجہ سے گنہگار نہیں ہوگی ۔
یہاں پر ایک اور بات جان لی جائے کہ جو ضرورت اپنے شہر میں پوری ہوسکتی ہو اس کے لئے دوسرے شہر جانا جائز نہیں ہے اور سامان وغیرہ کی خرید وفروخت آج کل آن لائن ہونے کی وجہ سے سہولت ہوگئی ہے اس لئے ناگزیر ضرورت کے تحت ہی سفر کرے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہت ساری عورتوں کا کوئی نہ کوئی محرم موجود ہوتا ہے مگر آپسی تعلقات اچھے نہیں ہونے کی وجہ سے ان سے بات چیت بند کربیٹھتی ہے حتی کہ کتنی عورت کا شوہر موجود ہوتا ہے مگر آپسی رنجش میں شوہر کے بغیر سفر کرتی ہے ایسی صورت کو عورت کو اپنے اختلاف بھول کر میل جول اورتعلقات استوار کرلیناچاہئےکیونکہ قطع تعلق گناہ کبیرہ ہے پھر محرم کے ساتھ سفر کرنا چاہئے۔

سوال(4): ایک عورت کا انتقال ہواہے، اس کا ترکہ جو زیور اور نقدی کی شکل میں تھا تقسیم ہوگیا ہے۔میت کا ایک گھر بھی ہے، اس میں گھر کے لوگ اورشوہر رہتے ہیں، باپ کی وجہ سے بیٹے گھرتقسیم نہیں کرنا چاہتے کہ کیا بیٹوں کایہ فیصلہ صحیح ہے ؟
جواب:میت کے انتقال کے بعد اس کی وراثت کو تدفین کے بعد فورا تقسیم کردیا جائے گا کیونکہ حقوق کا معاملہ ہے ، ہمارے یہاں عموما تقسیم وراثت میں تاخیر کی جاتی ہے جو شریعت سے غفلت اور حقوق میں لاپرواہی کے سبب ہے یا مجبوری میں مشترکہ فیملی سسٹم کے سبب ۔ عورت کے انتقال پرجب اس کے زیورات اور نقدی تقسیم کئے گئے اسی وقت گھر بھی تقسیم ہوجانا تھا۔میت کے ترکہ کو تقسیم کرتے وقت اس کےتمام ترکہ کو جمع کرکے وراثت کے نظام کے تحت وارثوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
مذکورہ مسئلہ میں گھر کی تقسیم میں باپ کی وجہ سے جو تاخیر کی جارہی ہے وہ بالکل صحیح نہیں ہے ۔ تقسیم وراثت میں باپ کا گھر میں رہنے یا نہ رہنے سے تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ ترکہ ہے جو باپ کی نہیں بیوی کی ملکیت تھی ۔اس وجہ سے یہاں باپ کا خیال کرنا اہم نہیں ہے بلکہ وقت پر وارثوں کے درمیان میت کی جائیداد کی منصفانہ تقسیم اہم ہے ۔ وراثت کی تقسیم کا مطلب ہی یہ ہے کہ میت کی جائیداد اس کی تدفین کے بعد تقسیم کردی جائے تاکہ حقداروں کو وقت پر اور صحیح سے حق مل جائے ۔ آج مکان صحیح سالم ہے اوراس کی مالیت زیادہ ہےلیکن کل یہی مکان گر جائے ، ٹوٹ جائے یا کسی فتنہ اورحادثہ کاشکارہوجائے اور تمام وارثوں کو اس کا حق نہ مل سکے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اس لئے بلاخیر اس گھرکو بھی تقسیم کردیا جائے اور باپ اپنے حصے کی جگہ میں رہے گا یا جگہ نہ ہو تو بیٹے کے ساتھ رہے گا ۔

سوال(5):رمضان کے فرض روزے جو حیض یا نفاس کی وجہ سے چھوٹ گئے تھے کیا رجب میں ان روزوں کی قضا کرناممنوع ہے اور اس ماہ میں ایام بیض کی نیت سے روزہ رکھ سکتے ہیں؟
جواب:کسی عذر کی وجہ سےجس سے رمضان کا روزہ چھوٹ جائے وہ اگلا رمضان آنے سے قبل کبھی بھی اور کسی ماہ میں اس کی قضا کرسکتا ہے ، رجب میں بھی اور شعبان میں بھی قضا کرسکتا ہے ، کسی ماہ میں روزہ قضا کرنے کی ممانعت نہیں ہے، صرف بعض ایام میں روزہ رکھنے کی ممانعت ہے جیسے جمعہ کا اکیلاروزہ رکھنا منع ہے ، عیدین اور ایام تشریق میں بھی روزہ رکھنا منع ہے۔ اور جو بھائی یا بہن ایام بیض کا روزہ پہلے سے رکھتے آرہے ہیں وہ اس ماہ رجب میں بھی ایام بیض کا روزہ رکھیں گے لیکن اگر کوئی اس مہینہ میں روزہ رکھنے کو افضل سمجھ کر صرف اسی ماہ میں ایام بیض کا روزہ رکھے تو غلط ہے ۔

سوال(6):کیا بیٹی کو صدقہ دینے کی فضیلت میں یہ حدیث صحیح ہے ؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا میں تم کو افضل صدقہ نہ بتا دوں؟ اپنی بیٹی کو صدقہ دو جو (شوہر کی موت یا طلاق کی وجہ سے )تمہارے پاس آ گئی ہو اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا بھی نہ ہو۔(سنن ابن ماجہ:3667)
جواب:ابن ماجہ میں یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے:
عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى أَفْضَلِ الصَّدَقَةِ؟ ابْنَتُكَ مَرْدُودَةً إِلَيْكَ لَيْسَ لَهَا كَاسِبٌ غَيْرُكَ.
ترجمہ:سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا میں تم کو افضل صدقہ نہ بتا دوں؟ اپنی بیٹی کو صدقہ دو، جو تمہارے پاس آ گئی ہو، اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا بھی نہ ہو۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ (حوالہ کے لئے دیکھیں ضعیف ابن ماجہ :3667)
گویا بیٹی کی فضیلت میں یہ حدیث ثابت نہیں ہے لیکن چونکہ وہ مطلقہ یا بیوہ ہونے کے سبب محتاج و نادار ہے اور اس کے بچےبھی ہوں تو بچے یتیم کہلائیں گے ایسے میں ان یتیموں اور ضرورت مند بیٹی پر خرچ کرنا بڑے اجر کا کام ہے ۔

سوال(7): کیا سونے کے وقت حیض والی عورت وضو کرسکتی ہے ؟
جواب:صحیح بخاری(282) و مسلم(305) میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اگر جنابت میں ہوتے تو کھانے سے پہلے یا سونے سے پہلے نماز کی طرح وضو کرتے ، اس حدیث پر قیاس کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ حائضہ بھی وضو کرسکتی ہے ۔ سونے کے وقت وضو کرکے سونا اجر کا باعث ہے تو حائضہ بھی وضو کرکے سو سکتی ہے۔شیخ عبدالرحمن بن عبداللہ السحیم رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا حائضہ عورت وضو کرکے اپنے مصلی میں بیٹھ سکتی تاکہ ذکرکرے اور اسی طرح قیام اللیل کے وقت حائضہ کا وضو کرنا اوراپنے مصلی میں ذکر کے لئے بیٹھنا جائز ہے تو شیخ نے جنبی والی روایت سے استدلال کرتے ہوئے جائز کہا ہے اور بطور استشہاد فتوی کے آخر میں سنن دارمی کے تین آثارجوحکم بن عتیبہ، عطاء اور مکحول سے مروی ہیں بیان کئے جن میں مذکور ہے کہ حائضہ عورت ہرنماز کے وقت وضو کرسکتی ہے تاکہ وہ اللہ کا ذکر اور دعاکرے ۔شیخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا حائضہ عورت کے لئے سونے کے وقت وضو کرنا مستحب ہے تو شیخ نے جواب دیا کہ ہاں ،جب جنبی اور حائضہ سونے کا ارادہ کرے تومستحب ہے کہ کم ازکم وضو کرے کیونکہ وضو سے حدث(ناپاکی) میں تخفیف ہوتی ہے۔
بہرکیف! حائضہ عورت سونے کے وقت وضو کرکے سوسکتی ہے اور اسی طرح نماز کے وقت بھی وضو کرکے اپنے مصلی میں بیٹھ کر ذکرودعا کرے تو جائز ہے تاہم وضو ضروری نہیں ہے ، بغیر وضو کے بھی اذکار ودعا کا اہتمام کرسکتی ہے۔

سوال(8):کہیں کہیں عورتوں کے اعتکاف کے لئے مساجد میں اس طرح پردہ لٹکائے جاتے ہیں جس سے الگ الگ گھر یا خیمہ کی طرح بن جاتا ہے اور کہیں تو کوئی پردہ نہیں ہوتا ، اعتکاف کرنے والی عورتیں سب ایک دوسرے کے سامنے چہرہ کھولے رکھتی ہیں جبکہ میں نے سنا ہے کہ اعتکاف میں چہرہ دکھانا منع ہے اور اعتکاف میں تنہائی ضروری ہے،ان باتوں کی حقیقت بتائیں۔
جواب: عورتوں کا اعتکاف بھی مسجد میں ہی ہوگا، گھر میں اعتکاف جائز نہیں ہے اور عورت کا عورت سے چہرے کا پردہ نہیں ہے خواہ عورت اعتکاف میں ہی کیوں نہ ہویعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ اعتکاف کی حالت میں ایک عورت دوسری عورت سے اپنا چہرہ چھپائے ۔ عورت کے اعتکاف کے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ مسجد میں مردوں سے الگ تھلگ عورتوں کا مخصوص حصہ ہو جہاں وہ اعتکاف کرے ، اس مخصوص حصے میں اعتکاف کرنے والی عورتیں چاہیں تو الگ الگ اپنے لئے کپڑ ااور پردہ وغیرہ سے خیمہ کی شکل بنالیں جیسے ازواج مطہرات مسجد نبوی میں اپنا اپنا خیمہ لگالیا کرتی تھیں ۔نبی ﷺ کے متعلق بھی آتا ہے کہ آپ کا بھی خیمہ ہوتا تھا مگر یہ ضروری امر نہیں ہے، مسجد میں ٹھہرنا ہی تنہائی ہے کیونکہ مسجد میں ٹھہرنے والا بستی اور لوگوں سے الگ ہوتا ہے ۔ اگر خیمہ لگانے میں آسانی ہو تو خیمہ لگانا چاہئے تاکہ مزید تنہائی حاصل ہوجائے عبادت کے لئے لیکن مسجد میں خیمہ لگانے سے نمازیوں کے لئے مشکل پیدا ہو تو خیمہ نہیں لگانا چاہئے ۔مسجد کے کسی گوشے میں بیٹھ کر عبادت ، تلاوت اور ذکر و اذکار کرسکتے ہیں، یہی کافی ہے یعنی خیمہ ضروری نہیں ہے۔مسجد میں جب پانچ اوقات اور تراویح کی نمازہوتی ہے تو سارے نمازی بشمول معتکف ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں اور جمعہ کے دن تو بستی کے سارے لوگ مسجد میں جمع ہوتے ہیں جس سے تنہائی نہیں رہتی اور اس سے اعتکاف پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے کیونکہ اعتکاف کی اصل عبادت کی نیت سے مسجد میں وقوف کرنا ہےاور یہی کافی ہے۔

سوال(9): ہروقت عورتوں کے لئے کوئی نہ کوئی کام ہوتا ہے ، صبح کے وقت بھی شوہرکو آفس اور بچوں کو سکول بھیجنے کی تیاری اور دیگرمشاغل تو کیا عورتیں فجر کی نماز کے بعد ان کاموں سے فارغ ہوکراشراق کی نماز ادا کرے تو اشراق کی فضیلت حاصل ہوگی؟
جواب:اشراق کی خاص فضیلت اسی شکل میں حاصل ہوگی جیسے حدیث میں بیان کی گئی ہے، جماعت سے نماز نہ پڑھنا، یا نماز کی جگہ چھوڑ دینا یا ذکر میں مشغول نہ رہنا ، یہ سب اشراق کی فضلیت کو منقطع کردیتےہیں ۔ مختصریہ کہ جو جماعت سے فجر کی نماز پڑھے خواہ مرد ہو یا عورت ، وہ اسی جگہ بیٹھے ذکر میں مشغول رہے اور پھر سورج نکلنے کے بعد یعنی جو اشراق کا وقت ہوتا ہے اس سے دس پندرہ منٹ بعد دو رکعت ادا کرے وہ اشراق کی نماز ہے اس سے حج و عمرہ کا اجر ملے گا۔جن عورتوں کو صبح میں مشغولیت نہیں رہتی ہے یا آپ کے لئے بھی جب کبھی مشغولیت نہ رہے تو آپ فجر کی نماز پڑھ کراپنے مصلی پر بیٹھی ذکر کرتی رہیں اور جب سورج نکل کرکچھ بلند ہوجائے تو اشراق کی نیت سے دو رکعت ادا کرلیں، اللہ نیت و دل دیکھتا ہے اور بہتر اجر دینے والا ہے۔

سوال(10): ایک عورت نے ٹسٹ ٹیوب بیبی ( ivf )کا علاج کرایا ہے ، اس کے لئے جسم پر پانی بہانا توصحیح ہے مگر سر پر پانی نہیں بہا سکتی ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ رحم میں انجکشن کے ذریعہ جو منی رکھی گئی ہے اس کی وجہ سے غسل کرنا پڑے گا اور کیسے غسل کرے گی ؟
جواب:ایک مسلمان عورت کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی رحم میں صرف اپنے شوہر کی منی ہی رکھی جانی چاہئے ، شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کی منی رکھنا حرام ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ منی حکما پاک ہے گویا کہ ایک پاک چیز رحم میں داخل کی جارہی ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ بغیر جماع کے انجکش کے ذریعہ مرد کی منی بیوی کے رحم میں رکھنے سے غسل واجب نہیں ہوتاحتی کہ اس سے نہ روزہ پر اثر پڑے گا اور نہ ہی وضو پریعنی اس عمل سے نہ روزہ ٹوٹے گا اور نہ ہی وضو ٹوٹے گاپھرغسل کی بدرجہ اولی حاجت نہیں ہے۔

سوال(11): عورت حمل میں پیٹ پر کالا دھاگہ باندھتی ہے کیا یہ جائز ہے؟
جواب: نظر بد سے حفاظت اور حمل کو نقصان نہ پہنچے اس نیت سے حاملہ عورت اپنے پیٹ پر کالا دھاگہ باندھتی ہوگی ۔ یہ جہالت اور بے دینی کی وجہ سےہے، اسلام میں برکت کے حصول یا شفا کی نیت سے بدن پر کچھ لٹکانا جائز نہیں ہے ۔اس طرح کی کوئی چیز جسم پر کہیں بھی لٹکائی جائے یا پہنی جائے وہ تعویذ میں شمار کی جائے گی اور تعویذلٹکانا شرک ہے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے: مَن عَلَّق تميمةً فقد أشرَكَ(صحيح الجامع:6394)
ترجمہ:جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔
اس تعویذ میں مروجہ تعویذجو عموما گردن میں لٹکایا جاتا ہے وہ اور اس جیسی کوئی چیز دھاگہ، کڑا، چھلہ سب شامل ہیں۔

سوال(12):چند عورت مل کر گھر میں جماعت سے نماز پڑھے تو اشراق کی نیت سے نماز پڑھ سکتی ہے؟
جواب: اصل جماعت والی نماز وہ ہے جو مسجد میں ادا کی جاتی ہے ، کسی عورت کے لئے آسانی ہو تو وہ مسجد میں حاضرہوکر جماعت سے نماز پڑھ سکتی ہے ، ورنہ اپنے گھر میں اکیلی پڑھے اور اور عورت کی نماز گھر میں افضل ہے ۔ گھر میں چند عورتیں ہوں اور وہ جماعت بناکر فجر کی نماز اور دیگر نمازیں ادا کرے تو اچھی بات ہے ، عورت بھی جماعت بناکر نماز پڑھ سکتی ہے اس کا جواز ملتا ہے ۔جہاں تک فجر کی جماعت اور اشراق کا مسئلہ ہے تو عورت چاہے اکیلی فجر کی نماز پڑھے یا چند عورتیں مل کرجماعت سے نماز پڑھے پھر اس جگہ بیٹھی اللہ کا ذکر کرتی رہے یہاں تک کہ سورج نکل آئے اور کچھ بلند ہوجائے تو دورکعت ادا کرے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اللہ بہتر بدلہ دینے والا ہے ۔

سوال(13): بیوی سو رہی ہو اور شوہر پاس آکر ڈس چارج کرلے اور بیوی پہ منی کا ایک قطرہ بھی نہ گرے تو کیا بیوی کو غسل کرنا پڑے گا؟
جواب:اگر بیوی نیند میں ہو، شوہر بیوی کے جسم سے فائدہ اٹھا کر منی خارج کرلے لیکن بیوی کی شرمگاہ میں دخول نہ کرے تو بیوی پر غسل نہیں ہوگا، صرف شوہر پر غسل ہوگاتاہم شوہر کو چاہئے کہ شہوت کی تکمیل مشروع طریقے سے کرے یعنی جماع کے ذریعہ ۔

سوال(14):اگر کسی عورت کو برص کی بیماری ہو تو اس کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھا سکتے ہیں جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم برص ، دیوانگی اور کوڑھ جیسے مرض سے پناہ مانگتے تھے؟
جواب:یہ بات صحیح ہے کہ برص ایک بیماری ہے ، رسول اللہ ﷺ نے اس سے پناہ طلب کی ہے۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من البرص، والجنون، والجذام، ومن سيئ الأسقام» ترجمہ:اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں برص، دیوانگی، کوڑھ اور تمام بری بیماریوں سے۔ (ابوداؤد:1554،قال الشيخ الألباني: صحيح)
اس حدیث کی روشنی میں کوئی شک نہیں ہے کہ برص بری بیماری ہے جو متعدی بھی مانی جاتی ہے اور عموما لوگ ایسے مریض سے تنفر اختیار کرتے ہیں لیکن نبی ﷺ نے کوڑھ کی طرح برص والوں سے دور بھاگنے کی تعلیم نہیں دی ہے۔ ساتھ ہی ایک مسلمان کا عقیدہ ہے کہ کوئی بیماری آپ خود کسی کو منتقل نہیں ہوتی ہے ، ہاں متعدی امراض سے احتیاطی تدبیر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ برص کی بیماری میں مبتلا عورت کے ہاتھ کا بناہوا کھاناکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس کے ساتھ بیٹھنے اور کھانے پینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ، ہاں برص والی لڑکی سے شادی میں احتیاط کرتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ برص لاعلاج بھی نہیں ہے اس کا علاج ہوتا ہے اور مریض کو شفا ملتی ہے اس لئے اس کا بہتر علاج کرایا جائےاور اس سے شادی بھی کی جاسکتی ہے ۔

سوال(15):آج کی میڈیکل سائنس یہ کہتی ہیکہ اپنی فرسٹ کزن سے شادی کرنا بچوں کیلئے نقصان دہ ہے یعنی بچے اپاہچ وغیرہ پیدا ہوتے ہیں اور یہ بات عام مشاہدے میں بھی آتی ہے،اس بارے میں اسلام کا حکم کیا ہے؟
جواب:شادی کے معاملے میں ہمیں اسلام دیکھنا ہے، اللہ نے ہمیں جو حکم دیا ہے وہ حکم انسانی مصلحت ، حکمت اور ضرر سے خالی فائدے پر منحصر ہے۔ میڈیکل سائنس کی یہ بات اس معاملے میں قابل قبول نہیں ہے کیونکہ وہ ظن وگمان ہے۔ بہت سارے کیس میں ڈاکٹر ماں کے پیٹ کے بچہ کو گرانے کا مشورہ دیتے ہیں کہ یہ بچہ ناقص پیدا ہوگا ، یا بچے کو دماغ نہیں ہوگا وغیرہ مگر اس کے برعکس ہوتا ہے۔اس لئےکزن سے شادی کو نقصان دہ ماننامحض گمان ہے ، ہمیں اللہ کے حکم پر عمل کرنا ہے جو علم یقین ہے۔ اگر بسا اوقات کہیں کزن سے شادی پربچوں میں عذریا موروثی بیماری نظر آتی ہے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے، وہ جس کو جیسے چاہے پیدا کرےاور یہ خیال نہیں کرنا ہےکہ اپنے کزن سے شادی کی اس لئے ایسا ہوا ۔
صحت اور بیماری اللہ کی طرف سے ہے وہ جسے چاہتا ہے کامل صحت کے ساتھ پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے معذور مثل اندھا، کانا، گونگا، لنگڑااور دیوانہ بناکر پیداکرتا ہے، اس میں اللہ کی طرف سے بندوں کے لئے آزمائش ہے اور یہ دنیا آزمائش کی جگہ ہے ۔ ایک مسلمان لڑکا دین وایمان کی بنیاد پر کسی بھی لڑکی سے شادی کرسکتا ہے جس سے اس کا نکاح کرنا حلال ہے خواہ وہ خاندان کی لڑکی ہو یا خاندان سے باہر کی لڑکی ہو۔ مذکورہ ظنی سائنسی فکرکی وجہ سےکزن یا فرسٹ کزن سے شادی نہ کرنے کا تصور غیراسلامی ہے اس تصور کا خاتمہ ہونا چاہئے ۔
 
Top