• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا حل ۔ (قسط :۱۳)

جواب ازشیخ مقبول احمد سلفی طائف

سوال {۱}۔ اگر کوئی غریب عورت روزہ نہ رکھ سکے اور فدیہ دینے کی طاقت نہ رکھتی ہو اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اللہ کی طرف سے روزہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے خواہ وہ غریب ہو یا امیر لیکن مالی معاملات میں فقراء ومساکین کے احکام امیروں جیسے نہیں ہیں ۔ اگر کوئی غریب عورت بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتی تو اس پر فدیہ دینا لازم نہیں ہے کیونکہ وہ غریب ہے جس طرح اس کے ذمہ صدقۃ الفطر نہیں ہے ، وہ تو خود دوسرے کے فدیوں اور صدقہ کی مستحق ہے ۔ اللہ نے کسی بندہ کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کیا ہے ۔
سوال{۲{۔ رقیہ کی آیات پڑھ کر لوگ پیسے لیتے ہیں کیا یہ جائز ہے ؟
جواب : دم کرنے پہ عطیہ لینا جائز ہے جیساکہ صحیح بخاری میں موجود ہے کہ ایک صحابی نے عرب کے ایک قبیلہ کے سردار کو سورہ فاتحہ کے ذریعہ دم کیا تو قبیلہ والے نے تیس بکریاں دی ۔ اس لئے دم کرنے پہ عطیہ یا اجرت لینے میں حرج نہیں ہے مگر آج کل کچھ لوگ شرعی دم کے نام پر لوگوں کو لوٹ رہے ہیں بلکہ کچھ نوجوان لڑکوں نے خصوصا عورتوں کو لوٹنااپناپیشہ بنا رکھا ہے کیونکہ یہ ان کی باتوں میں آجاتی ہیں، یہ بات اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہاہوں۔ اس معاملے میں دم کرنے والوں کو اللہ سے ڈرنا چاہئے اور اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ دم کرنا اگر تجارت محض ہوجائے تو قرات میں تاثیر کیسے پیدا ہوگی ؟ عوام کو بھی چاہئے کہ اولا خود سے دم کرے اور دوسروں سے دم کرانے کی ضرورت ہوتو نیک وصالح آدمی سے دم کرائے ۔
سوال{۳}۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری ماں زندہ ہوتی، میں نماز میں اللہ کے حضورکھڑا ہوتا ، ماں آواز دیتی اور میں نماز چھوڑ کر دوڑ کر ماں کے پاس چلا جاتا اور دنیا والوں کو بتاتا کہ ماں کی عظمت کیا ہوتی ہے ؟
جواب :ماں کی فضیلت میں بیان کیا جانے والا یہ واقعہ صحیح نہیں ہے، اس قسم کی کئی احادیث بیان کی جاتی ہیں مگر کوئی بھی صحیح نہیں ہیں ، بعض احادیث میں عشاء کی نماز کا ذکر ہے ۔ کسی بھی صحیح حدیث سے یہ بات ثابت نہیں ہے کہ ماں یا باپ کے بلانے پر فرض نماز توڑ دی جائے ۔ ہاں نفل نماز ہو تو توڑی جاسکتی ہے جیساکہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں موجود واقعہ جریج سے معلوم ہوتا ہے۔ ضرورت کے تخت مثلا موذی جانور آجائے ، آگ لگ جائے تو فرض نماز بھی توڑی جاسکتی ہے محض کسی کے بلاوے پر نہیں۔
سوال{۴}۔ عورت گھر میں نماز پڑھتی رہتی ہے کبھی کوئی دروازے پہ آجاتا ہے ایسے میں نماز توڑ سکتی ہے ؟
جواب : عورت گھر میں نماز پڑھتی رہے اور کوئی دروازے پہ آجائے تو اس کے لئے نماز نہیں توڑی جائے گی ،یہ آنے والے کی ذمہ داری ہے کہ گھر کے دوسرے افراد سے پوچھ لے ۔ ہاں ایک عمل یہ انجام دیا جاسکتا ہے کہ تلاوت کی تھوڑی آواز اونچی کردے یا تکبیر زور سے پڑھ دے تاکہ آنے والے کو نماز میں ہونے کا اندازہ ہوسکے۔
سوال{۵}۔ عورت گھر میں اعتکاف کر سکتی ہے ؟
جواب : جس طرح مرد کے لئے اعتکاف مسنون ہے اسی طرح عورت کے لئے بھی اعتکاف مشروع ہے ۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ اعتکاف کی جگہ صرف مسجد ہے۔ اگر عورت اعتکاف کرے تو اسے بھی مسجد میں ہی اعتکاف کرنا ہوگا خواہ جامع مسجد ہو یا غیر جامع ۔ صرف جامع مسجد میں اعتکاف والی روایت (لاَ اعْتِكَافَ إِلاَّ فِى مَسْجِدٍجَامِعٍ) پر کلام ہے ۔ اگر جامع مسجد میں اعتکاف کرے تو زیادہ بہترہے تاکہ نماز جمعہ کے لئے نکلنے کی ضرورت نہ پڑے ۔
سوال{۶}۔ اگر کسی محلے میں عورتوں کے لئے اعتکاف کی مسجد نہ ہو اور وہ اعتکاف کرنا چاہتی ہو تو کیا کرے ؟
جواب : اللہ نے عورتوں کو عزت بخشی، گھر میں لزوم اختیار کرنے کاحکم دیا تاکہ دین وآبرومحفوظ رہے ، مسجد میں عورت نماز پڑھ سکتی ہے مگر اسلام نے اس بات کو عورتوں کے لئے مردوں کی طرح لازم نہیں قرار دیا۔ اسلام کی اس حکیمانہ تعلیم میں بڑے فوائد ہیں ۔عورتوں کے لئے اگر کہیں محلے میں اعتکاف کی جگہ مخصوص نہ ہو تو اعتکاف نہ کرے ، یہی حل ہے اور ان شاء اللہ نیت کا ثواب اللہ کی طرف سے ملے گا۔ ساتھ ہی محلے کی عورتیں پیسہ لگاکر یا مرد ذمہ داروں کو کہہ کر الگ انتظام کرواسکیں تو اچھی بات ہے ۔کتنے سارے مسلمان حج وعمرہ کی تمنا کرتے ہیں مگر سب کی تمنا پوری نہیں ہوتی، ہمیں اللہ سے ہمیشہ نیکی کی توفیق طلب کرنی چاہئے ۔
سوال{۷}۔ اگر روزہ کی حالت میں منہ بھر کر قے آجائے تو کیا روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
جواب : قے تھوڑا ہو یا منہ بھر کر ،اگر آپ خود آیا ہے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا لیکن قصدا قے کیا جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔
سوال{۸}۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے ، ان للصائم عندفطرہ لدعوۃ ماترد{ابن ماجہ :۱۷۷۵} یعنی افطار کے وقت روزہ دار کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے ؟
جواب : اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ، شیخ نے اس دعا کو صحیح کہا ہے :
ثلاثُ دَعَواتٍ مُستجاباتٍ : دعوةُ الصائِمِ ، ودعوةُ المظلُومِ ، ودعوةُ المسافِرِ( صحيح الجامع:3030)
ترجمہ: تین قسم کی دعائیں قبول کرلی جاتی ہیں ، روزہ دار کی دعا، مظلوم کی دعا اور مسافر کی دعا۔

سوال{۹}۔ گھر میں کام کرتے وقت موبائل سے تقریر یا تلاوت سننا کیسا ہے ، کبھی اٹیج باتھ روم میں کپڑے دھوتے وقت موبائل وہاں رکھ کر یا بلوتوتھ سے تلاوت وتقریر سن سکتی ہوں اور نبی کا نام آنے پر درود پڑھ سکتی ہوں ؟
جواب : گھر میں کام کرتے وقت تلاوت سننے میں حرج نہیں ہے جبکہ تلاوت سنی جائے اور وہاں شور شرابہ نہ ہو البتہ اٹیچ باتھ روم میں موبائل لے جاکر یا بلوتوتھ سے تلاوت یا قرآن سننا جائز نہیں ہےاور نہ ہی وہاں درود پڑھنا اور اللہ کا نام لینا جائز ہے ۔گھر میں تلاوت وتقریر لگی ہو اور آواز باتھ روم میں جائے تو مضائقہ نہیں ہے ۔
سوال{۱۰}۔ کیا عورت نماز جمعہ اور تراویح کے لئے مسجد جا سکتی ہے اور کیا محرم کا ساتھ ہونا بھی ضروری ہے اس سلسلے میں صحابیات کا کیا عمل تھا؟
جواب : نبی ﷺ کا فرمان ہے : لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّہ (صحیح بخاری:900 /صحیح مسلم:442)
ترجمہ: اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو۔
یہ حدیث دلیل ہے کہ عورتیں مسجد میں جاکر جمعہ ، تراویح حتی کہ پنج وقتہ نمازیں پڑھ سکتی ہیں اور عہد رسول سے آج تک رسول کی مسجد (مسجدنبوی) میں خواتین پنج وقتہ نمازیں، جمعہ اور تراویح میں شامل ہوتی آرہی ہیں ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ صحابیہ ام ہشام رضی اللہ عنہاجمعہ کی نماز میں شریک ہوتی تھیں ، جمعہ میں شرکت کی وجہ سے خطبہ نبوی میں پڑھی جانے والی سورت ق انہیں حفظ ہوگئی۔ مسجد جانے کے لئے عورت کو محرم کی ضرورت نہیں ہے ،محرم کی شرط سفر کے لئے ہے ۔

سوال{۱۱}۔ کچھ سال پہلے ہم نے ایک عمرہ کیا پھر مدینہ گئے ، مدینہ سے مکہ دوبارہ جاتے وقت وہاں سے احرام نہیں باندھا بلکہ مکہ کی قریبی میقات طائف سے احرام باندھ کر عمرہ کیا، کیا اس پہ کوئی دم وغیرہ ہے ؟
جواب : اس کی دو صورتیں ہیں ، اگر طائف کسی غرض سے آئے تھے پھر یہاں سے عمرہ کا ارادہ ہوا اور احرام باندھ کر عمرہ کیا تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر عمرہ کی نیت مدینہ سے ہی تھی اور اس میقات کو تجاوز کرگئے حتی کہ طائف آکر احرام باندھا تو ایسی صورت میں میقات تجاوز کرنے پر دم دینا واجب ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہر سمت والوں کے لئے میقات متعین کردی ہے ، وہ اسی میقات سے احرام باندھ کر آئیں گے ۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر کسی کا گزر دو میقات سے ہو تو پہلی چھوڑ کر دوسری میقات پہ احرام باندھنے میں حرج نہیں ہے مگر جمہور کے نزدیک دم ہے اور یہ دلیل سے قریب ہے۔
سوال{۱۲}۔ ایک بہن کا سوال ہے کہ میت کو کلمہ پڑھ کر بخشنا کیسا ہے یا میت خواب میں کلمہ پڑھ کر بخشنے کا حکم دے تو کیا کرنا چاہئے ؟
جواب : میت کو کلمہ پڑھ کر نہیں بخشا جائے گا اور نہ ہی اس قسم کے کسی خواب پہ عمل کیا جائے گا۔ میت کو جن طریقوں سے ایصال ثواب کرنا کتاب وسنت سے ثابت ہے بس انہیں طریقوں سے ایصال ثواب کیا جائے گا۔کلمہ پڑھ کر میت کو بخشنا قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے اس لئے اس طریقہ سے میت کو نہیں بخشا جائے گا۔
سوال{۱۳}۔ غم والم دور کرنے کے لئے آیات سکینہ کے نام سے چند آیات مشہور ہیں کیا ان آیات کا پڑھنا درست ہے؟
جواب : مکمل قرآن غم والم دور کرنے کا ذریعہ ہے ، کسی ایک آیت یا چند آیات کو اپنی طرف سے پریشانی دور کرنے کے لئے خاص کرنا غلط ہے ، آیات سکینہ نام سے بھی قرآن وحدیث میں دلیل نہیں ملتی اس وجہ سے ان آیات کو غم دور کرنےکے لئے مخصوص کرنا اور پورے قرآن سے مستغنی ہوجانا صحیح نہیں ہے ۔
سوال{۱۴}۔ ہیوی ڈپازٹ پہ روم کرایہ پر لینا جائز ہے ؟
جواب : ہیوی ڈپازٹ پہ روم کرایہ پر لینا جائز نہیں ہے ،ڈپازٹ ایک قسم کی ضمانت ہے اور یہ ضمانتی رقم سماج میں رائج رقم کے حساب سے ہونا چاہئے۔
سوال{۱۵}۔ عصری تعلیم کے لئے طالبات کو زکوۃ دینا جائز ہے ؟
جواب : شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ طالب علم دنیاوی تعلیم کے لئے متفرغ ہو تو اسے زکوۃ کی رقم نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ ہم اس سے کہیں گے کہ تم دنیا کے لئے عمل کررہے ہو ،ممکن ہے کہ نوکری پاکر دنیا کمانے میں لگ جاؤ،اس لئے ہم تمہیں زکوۃ نہیں دیں گے ۔ شیخ کی اس بات پہ اضافہ کرتے ہوئے میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی مسکین طالبہ یاطالب مباح دنیاوی علوم کے ذریعہ مسلمانوں کو فائدہ پہنچاناچاہتی ہو/چاہتا ہوتو اسے زکوۃ دی جاسکتی ہے۔
سوال{۱۶}۔ کیا زکوۃ کے پیسوں سے بچوں کو حافظ بنایا سکتا ہے اور کیا معلمات کی تنخواہ زکوۃ کی رقم سے دی جاسکتی ہے؟
جواب : غریبوں کے بچوں کی دینی تعلیم پر زکوۃ خرچ کی جاسکتی ہے اور اسی طرح وہ معلمات جن کا شمار فقراء ومساکین میں ہوتا ہو ان کو بھی زکوۃ سےتنخواہ دے سکتے ہیں ۔
سوال{۱۷}۔ کیا حالت حمل میں طلاق واقع ہوجاتی ہے ؟
جواب : حالت حمل میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے ، اس کی دلیل حضرت ابن عمر ؓ سے مروی وہ روایت ہے جس میں مذکور ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی۔یہ بات نبیﷺ کے سامنے ذکر ہوئی تو آپ نے فرمایا:
مُرْه فلْيُراجِعْها ، ثم لْيُطَلِّقْها وهي طاهرٌ – أو حاملٌ -(صحيح النسائي:3397)
ترجمہ:اسے کہو کہ اس سے رجوع کرے‘ پھر طہر یا حمل کی حالت میں اسے طلاق دے۔

سوال{۱۸}۔ ایک شخص امریکہ میں رہتا ہے اسے ڈالر میں کتنا فطرہ دینا ہوگا؟
جواب : فطرانہ ایک آدمی کی طرف سے تقریبا ڈھائی کلو اناج ہوتا ہے اور ہمیں سنت کی پیروی کرتے ہوئے اناج سے ہی فطرانہ ادا کرنا چاہئے لیکن اگر کسی مسکین کو پیسے کی سخت ضرورت ہو تو اسے ڈھائی کلو اناج کے حساب سے نقد روپیہ دیا جاسکتا ہے ۔ حساب بہت آسان ہے ، امریکہ میں بطور غذا استعمال ہونے والے ڈھائی کلو اناج کی قیمت کتنی ہوگی آسانی سے حساب جوڑ سکتے ہیں ۔ جہاں کہیں کوئی عالم فطرہ کی ایک مخصوص رقم رائج کردیتے ہیں وہ سنت کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ قیمت تو بطور ضرورت ہے اور اناج کی مختلف اقسام ہیں ،کوئی کسی اناج کے حساب سے دے ، کوئی کسی اناج سے دے ۔
سوال{۱۹}۔ ایک عورت کا پچھلے سال کا روزہ باقی ہے وہ گردے کی مریضہ ہے اور اپنے روزہ کا فدیہ آٹا سے دینا چاہتی ہے مگر اسے خریدکر لانے والا اس کا سسر ہے یعنی وہ مشترکہ سامان ہوتا ہے۔کیا وہ اس سے فدیہ دے سکتی ہے یا اپنے ذاتی پیسے سے خریدکر دینا ہے ؟
جواب : گردے کی مریضہ اگر روزہ نہ رکھ سکے یا پہلے والا روزہ قضا کرنے کی طاقت نہ رکھ سکے تو اپنے ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو فدیہ دے دے ، فدیہ میں آٹا بھی دے سکتی ہے ، اگر سسر کی طرف سے ممانعت نہیں ہے تو مشترکہ غذا میں سے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
سوال{۲۰}۔ کیا یہ بات صحیح ہے کہ رمضان میں نئے کپڑے پہننے کا کوئی حساب نہیں ہوتا ہے؟
جواب : ایسی بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔
سوال{۲۱}۔ کیا لڑکی جماعت میں نکل سکتی ہے ؟
جواب : شاید آپ کی مراد تبلیغی جماعت میں نکلنا ہے ۔ تو میرا یہ عرض کرنا ہے کہ تبلیغی جماعت کی جومروجہ شکل ہے اس میں مردوں کو بھی جاناجائز نہیں ہے ۔عورت کا معاملہ تو اور بھی نازک اور سنگین ہے ۔ اللہ نے اسے اپنے گھروں میں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے ۔ عورتوں کو تبلیغ کرنے کی ممانعت نہیں ہے مگر مروجہ تبلیغی جماعت کی شکل میں دعوت کا کام کرنا بدعت والا کام ہےکیونکہ اس کی نظیر کتاب وسنت سے نہیں ملتی ۔ کتنی تعجب کی بات ہے کہ تبلیغ والے عورتوں کا مسجد جانا فتنہ قرار دیتے ہیں اور تبلیغ کے نام پہ گاؤں گاؤں بڑے شوق سے گھماتے اورباعث اجر وثواب سمجھتے ہیں ۔
سوال{۲۲}۔ "اللھم مغفرتک اوسع من ذنوبی ورحمتک ارجی عندی من عملی "(اے اللہ تیری مغفرت میرے گناہوں سے زیادہ وسعت والی ہے اور مجھے اپنے عمل سے زیادہ تیری رحمت کی امید ہے) کیا اس دعا کو تین دفعہ پڑھنے سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ؟
جواب : اسے امام حاکم اور بیہقی نے روایت ہے اور شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ (ضعيف الترغيب:1007)
سوال{۲۳}۔ اس نیت سے ڈالر رکھنا کہ اس کی قیمت بڑھے گی تو بیچیں گے حرام ہے ؟
جواب : معمر بن عبداللہ بن نضلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا يَحْتَكِرُ إلَّا خاطئٌ( صحيح مسلم:1605)
ترجمہ: گنہگار ہی احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرتاہے یعنی مال روک کر رکھنے والا گنہگار ہے ۔
یہ حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ ایسا کوئی سامان جس کی لوگوں کو ضرورت ہو اسے روک کر رکھنا اور اس کی قیمت منگنی ہونے پر بیچنا جائز نہیں ہے ۔ڈالر کا بھی حکم یہی ہے ۔ یہ لوگوں کی ضرورت اور گردش کی چیز ہے ،اسے مہنگے داموں پر بیچنے کے لئے روک کر رکھنے والا گنہگار ہوگا۔

سوال{۲۴}۔ کیا ہم فرض یا نوافل کے سجدوں میں تسبیحات پڑھنے کے بعد مسنون یا قرآنی دعائیں پڑھ سکتے ہیں ؟
جواب : فرض ونوافل کے سجدوں میں تسبیحات پڑھنے کے بعد دیگر ماثورہ دعائیں اورقرآنی دعائیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ سجد ے میں آدمی اپنے خالق سے بہت قریب سے ہوتا ہے اس حالت میں کثرت سے دعا کرنی چاہئے اور ہمارے رسول نے اس بات کی تعلیم بھی دی ہے ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط- 14)
جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر طائف

سوال(1):دعا سے پہلے الله کی تعریف کرنا ہے تو سورة فاتحہ پڑھنا صحیح ہے کہ نہیں ؟
جواب : دعا میں بلاشبہ اللہ کی تعریف کرنی چاہئے اور بھی بہت سے مقامات ہیں جہاں اللہ کی تعریف بیان کی جاتی ہے مثلا جمعہ اور عید کے خطبہ میں ۔ ان تمام جگہوں پر کہیں بھی نبی ﷺ سے اللہ کی حمد کے طور پر سورہ فاتحہ پڑھنا ثابت نہیں ہے لہذا ہمیں دعا سے پہلے یا دعا کو ختم کرنے کے لئے سورہ فاتحہ کو مخصوص نہیں کرنا ہے ۔
سوال(2): تحیة الوضو نماز کے بارے میں بتائیں کیا عورتیں گھر میں بھی پڑھ سکتی ہیں، سنت اور تحیة الوضو کی نیت ایک ساتھ کر کے؟
جواب: تحیۃ المسجد اور سنت الوضوء یہ کوئی مستقل بالذات نماز نہیں ہے بلکہ مسجد میں داخل ہونے اور وضو کرکے پڑھی جانے والی نماز ہے اس لئے اس کو دوسری نماز میں داخل کرسکتے ہیں ۔ کوئی مسجد میں داخل ہو اس وقت چاشت کی نماز کا وقت ہو تو تحیہ المسجد اور چاشت کی ایک ساتھ نیت کرکے پڑھ سکتاہے یا سنت الوضوء اور چاشت کی ایک ساتھ نیت کرسکتا ہے۔ اسی طرح سوال میں مذکور سنت الوضوء اور نماز کی سنت ایک ساتھ نیت کرکے پڑھ سکتے ہیں ۔
سوال(3): تلاوت کے لئے وضو کیا تو تحیة الوضو پڑھ کر تلاوت کر سکتے ہیں کیا؟
جواب : ہاں ،بالکل ۔جب بھی ہم وضو کریں تو دو رکعت، سنت الوضو کی نیت سے ادا کرسکتے ہیں ۔ تلاوت کے لئے وضو ضروری نہیں ہے بلکہ افضل ہے ، اگر آپ نے تلاوت کے لئے وضو کیا اوروضو کی دو رکعت ادا کرنا چاہتے ہیں تو ادا کرلیں پھر تلاوت کریں ۔
سوال(4): کیا ایک ہی دفعہ قرآن پاک پڑھ کر 14 سجدے ایک ساتھ کر سکتے ہیں؟
جواب : سجدہ تلاوت اسی وقت کرنا ہے جب آیت سجدہ کی تلاوت کی جائے ، وقت گزرنے کے بعد سجدہ تلاوت نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن میں موجود آیات سجدہ کی تلاوت ایک ساتھ کرنا غلط ہے ، اپنے اپنے وقت پریعنی آیت سجدہ پر سجدہ کرنا ہے ۔ ساتھ ساتھ یہ معلوم رہے کہ سجدہ کی آیات چودہ نہیں پندرہ ہیں ، اس موضوع پہ مستقل میرا مضمون میرے بلاگ میں موجود ہے۔
سوال(5): کیا لیلة القدر مغرب سے شروع ہونے سے لے کر پوری فجر تک ہے یا سورج نکلنے تک وقت رہتا ہے ؟
جواب : لیل عربی میں رات کو کہتے ہیں جس کا اطلاق سورج ڈوبنے سے لیکر طلوع فجر تک ہوتا ہے۔ سورہ القدر میں اللہ نے شب قدر کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ رات سلامتی والی ہے اور طلوع فجر تک رہتی ہے اس لئے شب قدر کے واسطے اجتہاد غروب شمس سے طلوع فجر کے درمیان ہونا چاہئے ۔

سوال(6): کیا ہم دعا کے شروع میں سورة فاتحہ اس بنا پر پڑھ سکتے ہیں کہ اس میں الله تعالی کی تعریف بھی ہے اور ہمارے لئے دعا بھی ہے؟
جواب : نہیں پڑھ سکتے ہیں کیونکہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اس کی تعلیم نہیں دی ہے ۔
سوال(7): وصیت کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو یہ ہرمسلمان کے لئے لازمی ہے؟
جواب : وصیت کا حکم احکام شرعیہ کی طرح پانچ احوال پر منحصر ہے ۔ اگر آدمی کے ذمہ بندوں کے حقوق ہیں مثلا قرض، امانت، ہڑپا ہوا مال ، چوری کی ہوئی چیز، زکوۃ وکفارہ وغیرہ تو ان حقوق کی وصیت کرنا واجب ہے ۔ اعزاء واقرباء(وارث کے علاوہ) کے لئے وصیت کرنا مستحب ہے مثلا کسی مسکین رشتہ دار یا نیکی کے کاموں کی وصیت کرنا ۔اللہ کی معصیت میں وصیت کرنا حرا م ہے جیسے کوئی بیٹے کو ڈاکو بننے کی وصیت کرے یااپنے مال سے اپنی قبر پہ مزارتعمیر کرنے کا حکم دے۔ وارث محتاج ہوتو فقیر کے لئےمال کی وصیت کرنا مکروہ ہے ۔ مالدار آدمی، مالدا ر رشتہ دار یا اجنبی کے لئے وصیت کرے مباح کے درجے میں ہے ۔ (ماخوذازوصیت کے مختصراحکام ، شیخ مقبول احمد سلفی)
سوال (8): کیا تراویح اور تہجد الگ الگ ہے ، ہمارے کچھ احناف رشتہ داروں کا کہنا ہے؟
جواب : جواب : یہ دونوں ایک ہی نمازیں ہیں جو کہ حدیث عائشہ میں مذکور ہے کہ رمضان یا غیر رمضان میں آپ کا قیام آٹھ رکعت کا ہوا کرتا تھا۔اگر یہ تہجد کی نماز مان لی جائے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ آپ ﷺ نے رمضان میں دوبارہ تراویح الگ سے پڑھی جس کی کوئی دلیل نہیں ۔
یہ حدیث میں بڑی ٹھوس دلیل ہے من قام رمضان ۔۔۔۔الخ اس کا ترجمہ کیا کرتے ہیں جو رمضان میں تراویح پڑھے یا قیام اللیل کرے؟ ۔ اگر رمضان میں عشاء کے بعد پڑھی جانے والی تراویح کو تہجد اور قیام اللیل نہیں کہیں گے تو سابقہ گناہوں کی معافی کا اجر کس کو ملے گا اور کیوں؟ یہاں یہ بھی معلوم رہے کہ نبی نے تہجد کی نماز عشاء کے بعد، درمیانی رات اور آخری پہر تمام اوقات میں پڑھی ہے اس لئے رمضان میں لوگوں کی آسانی کے لئے عشاء کے فورا بعد قیام کرنے پہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے، نہ ہی قیام اللیل سے خارج کیا جا سکتا ہے۔ مشہور حنفی عالم مولانا انور شاہ کشمیری نے بھی تہجد اور تراویح کو ایک ہی نماز تسلیم کیا ہے ۔ (دیکھیں:عرف الشذی :309)

سوال (9): کیا مردوں کو ٹخنہ نہ ڈھکنے میں کوئی گناہ ہے ؟
جواب : مردوں کو ٹخنہ سے نیچے کپڑا لٹکانے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے اس لئے اگر کوئی مرد اپنا کپڑا ٹخنہ سے نیچے لٹکاتا ہے تو گناہ ملے گا ۔ ہاں موزہ سے ٹخنہ ڈھکتا ہے تو کوئی بات نہیں ہے۔
سوال(10): کچھ لوگ سنت سمجھ کر سجدہ تلاوت نہیں کرتے اور کچھ کرتے بھی ہیں تو زمین پر نہیں کرتے بلکہ مصحف پرکرتے ہیں اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
جواب : یہ بات صحیح ہے کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں ہے اس لئے کوئی اسے چھوڑ دے تو کوئی گناہ نہیں ہے ، رسول اللہ سے بھی آیت سجدہ پر سجدہ نہ کرنا ثابت ہے اور اگر سجدہ تلاوت کرے تو صرف زمین پر سجدہ کرے ،مصحف پر سر جھکا لینے سے سجدہ نہیں ہوگا۔
سوال(11): حمیم کا اصل معنی کیا ہے ، ہم نے قرآن میں بعض جگہ دوست، بعض جگہ پانی اور بعض جگہ کھولتا پانی متعدد معنی دیکھا ہے ؟
جواب : یہ ذو معنی لفظ ہے یعنی اس کے کئی معانی ہیں ،اس لئے قرآن میں یہ مختلف معانی کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان کی بڑی خاصیت ہے کہ کتنے ا لفاظ اپنے اندر کئی معانی رکھتے ہیں ، کہاں پر لفظ کا کون سا معنی ہوگا سیاق وسباق سے طے کیا جاتا ہے۔
سوال (12): استعمال کے زیورات پہ زکوۃ ہے کہ نہیں اس کی دلیل وضاحت دلیل سے کریں ؟
جواب : سونے چاندی کے زیورات پہ زکوۃ ہے کہ نہیں اس سلسلے میں شدیدعلمی اختلاف ہے، اس مسئلے میں میں ان علماء کے ساتھ ہوں جو استعمال کے زیورات میں زکوۃ نکالنے کے قائل ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض قرآنی آیات اور احادیث کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ سونا یا چاندی کسی شکل میں ہو اگر نصاب تک پہنچ جائے تو زکوۃ ہے ،نیز صراحت کے ساتھ زیور پہ زکوۃ نکالنے کی حدیث بھی پائی جاتی ہے ۔ ابوداؤد(ح:1563) میں حسن درجے کی روایت ہے ، ایک خاتون رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئیں ۔ ان کے ساتھ ان کی بیٹی بھی تھی اور بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے۔ آپ ﷺ نے اس خاتون سے پوچھا:(أتُعطينَ زَكاةَ هذا)کیا تم اس کی زکوٰۃ دیتی ہو ؟
اس نے کہا ، نہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:(أيسرُّكِ أن يسوِّرَكِ اللَّهُ بهما يومَ القيامةِ سوارينِ من نارٍ)کیا تمہیں یہ بات اچھی لگتی ہے کہ قیامت کے روز اللہ تمہیں ان کے بدلے آگ کے دو کنگن پہنائے ؟
چنانچہ اس عورت نے ان کو اتارا اور نبی کریم ﷺ کے سامنے ڈال دیا اور کہنے لگی ، یہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں۔

سوال(13): ہماری ایک جاننے والی خاتون ہیں ، وہ زیارت کے ویزا پر اپنے بیٹے کے پاس جدہ آئی ہیں، انہیں اب عمرہ کرنا ہے ،سوال یہ ہے کہ وہ عمرہ کی نیت کے لئے میقات پہ جائے گی یا بیٹے کا گھر ہی میقات بن سکتی ہے ؟
جواب : پہلے ایک بات یہ سمجھ لیں کہ زیارت کے ویزا سے نیت عمرہ کرنے کی ہو تو اپنے ملک سے سفر کرتے ہوئے میقات سے گزرتے وقت عمرہ کی نیت کرنی ہوگی ورنہ میقات تجاوز کرکے اندرون میقات سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے پر دم لازم آئے گا۔ ہاں اگر زیارت کی نیت ملاقات کے ساتھ یہ ہو کہ اگر میسر ہوا تو عمرہ کرے گی ورنہ نہیں ۔ اور عمرہ میسر ہوجائے تو جدہ میں جہاں بھی رہائش پذیر ہو وہیں سے عمرہ کا احرام باندھے گی ۔
سوال(14): مجھے موت کی سختیوں سے بچنے کی کوئی دعا بتادیں ۔
جواب : سب سے پہلے ضروری یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں نیک کام کریں ، برائی سے بچیں،اللہ تعالی سے اچھی موت طلب کریں اور بری موت سے پناہ طلب کریں ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے : إذا أرادَ اللهُ بعبدٍ خيرًا استعملَه ، فقيل : كيف يستعملُه يا رسولَ اللهِ ؟ قال : يوفِّقُه لعمَلٍ صالحٍ قبلَ الموتِ(صحيح الترمذي:2142)
ترجمہ: جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کام پر لگاتا ہے،عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیسے کام پر لگاتا ہے؟ آپ نے فرمایا:موت سے پہلے اسے عمل صالح کی توفیق دیتا ہے۔
اس لئے ہم اعمال صالحہ کے ذریعہ پہلے اللہ کا پسندیدہ بندہ بنیں تاکہ موت کے وقت وہ ہمیں عمل صالح کی توفیق دے ۔ جب موت کا وقت قریب ہو تو کثرت سے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنا چاہئے، مرنے والے کی زبان سے کلمہ نہ نکلنے تو پاس والوں کو آہستہ آہستہ کلمہ پڑھنا چاہئے تاکہ اس کی زبان پر کلمہ جاری ہوجائے ،حدیث ہے کہ جس کی زبان سے آخری کلمہ لاالہ الااللہ نکلے وہ جنت میں داخل ہوگا ۔

سوال(15): میرے والد نے اپنی بیٹیوں کی شادی کے واسطے پلاٹ خریدا ہے جسے شادی کے وقت فروخت کیا جائے گا کیا اس پہ زکوۃ دینی ہوگی ؟
جواب : اگر کسی زمین کو بیچنے کی نیت کرلی جائے تو اس کی حیثیت سامان تجارت کی ہوجاتی ہے ، اس وجہ سے فروخت کرنے کی غرض سے رکھی ہوئی زمین پر زکوۃ دینی ہوگی چاہے شادی کے لئے فروخت کرنی ہو یا کسی اور کام سے ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط- 15)
__________________
جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر طائف

سوال (1): معاشرے میں مشہور ہے کہ خوشبو کا تحفہ سب سے بہترین ہوتا ہے اور خوشبو کا تحفہ لوٹانا نہیں چاہئے کیا حدیث میں ایسی کوئی بات ہے؟
جواب : نبی ﷺ کو خوشبو بیحد عزیز تھی ، اس وجہ سے خوشبو کا کثرت استعمال آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں ملتا ہے ۔ آپ نے تحفہ کے طور پر پیش کی گئی خوشبو کو لوٹانے سے منع فرمایا ہے۔ یہ ممانعت اس وجہ سے ہے کہ خوشبو کم قیمت والی چیز ہے، کوئی اسے حقیر سمجھ کر لوٹا نہ دے حالانکہ اس کی مہک عمدہ ہے ۔ عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :ثلاثٌ لا تُرَدُّ : الوسائدُ ، والدُّهنُ واللَّبنُ(صحيح الترمذي:2790)
ترجمہ: ین چیزیں (ہدیہ وتحفہ میں آئیں) تو وہ واپس نہیں کی جاتی ہیں: تکئے ، دُہن(خوشبو) ، اوردودھ ۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مَن عُرِضَ علَيهِ طيبٌ فلا يرُدَّهُ، فإنَّهُ طيِّبُ الرِّيحِ، خفيفُ المَحملِ(صحيح أبي داود:4172)
ترجمہ:جسے خوشبو پیش کی جائے تو وہ اسے واپس نہ کرے ،بلاشبہ اس کی مہک عمدہ ہوتی ہے اور اس میں کوئی بوجھ بھی نہیں ہوتا ۔
خوشبو آپ ﷺ کو عزیز ہونے کے سبب یہ کہہ سکتے ہیں کہ تحفہ میں دی جانے والی عمدہ چیز ہے اور جس کسی کو بھی یہ تحفہ دیا جائے اسے ناپسند یا واپس نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کی خصوصیت کے ساتھ ممانعت آگئی ہے ۔

سوال (2): میری والدہ بیماری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکتیں آگے بھی صحتیاب ہونے کی کوئی امید نہیں ہے اور والدہ روزوں کا فدیہ دے دیتی ہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ صحتیاب ہونے کی کوئی امید نہیں ہے تو فدیہ بھی نہ دیں اس بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب : وہ بیمار جن کی شفا یابی کی امید نہ ہو اور ایسے ہی بوڑے مردوعورت جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہو ان دونوں کو روزہ چھوڑنا جائز ہے اور ہرروزے کے بدلے روزانہ ایک مسکین کو نصف صاع(تقریبا ڈیڑھ کلو) گیہوں، چاول یا کھائی جانے والی دوسری اشیاء دیدے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ(البقرة:184)یعنی جو بیمار نہایت مشقت سے روزہ رکھ سکیں وہ فدیہ میں ایک مسکین کو کھانادیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ دائمی مریض اور عمر رسیدہ مرد وعورت کو روزہ چھوڑنے کے بدلے فدیہ دینا ہوگا ، یہی درست بات ہے اور جو لوگ فدیہ کا انکار کرتے ہیں ان کی بات درست نہیں ہے ۔
سوال (3): تراویح میں آیت سجدہ آگئی اور امام جب سجدہ میں گئے تو ہم رکوع سمجھ کر رکوع میں چلے گئے ، پھر جب سجدہ کا پتا چلا تو ہم سجدہ میں چلے گئے، کیا اس کے لیے سجدہ سہو کرنا ہے؟
جواب : ایسی صورت میں نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرلے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :لِكُلِّ سَهْوٍ سَجدتانِ بعدَ ما يسلِّمُ(صحيح أبي داود:1038)
ترجمہ: ہر سہو کے لیے سلام کے بعد دو سجدے ہیں ۔

سوال (4): ابوداود کی حدیث میں اپنے محبوب ( بیٹے ، بیٹی یا بیوی وغیرہ ) کو سونے کا حلقہ پہنانے کو جہنم کی آگ کے حلقہ سے تعبیر کیا گیا ہے کیا اس حدیث کی روشنی میں عورتوں کے لئے سونے کا حلقہ ممنوع ہے ؟
جواب : ہاں یہ بات ابوداود میں موجود ہے ، حدیث دیکھیں ،سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من أحبَّ أن يحلِقَ حبيبَه حلقةً من نارٍ فليُحلِقْه حلقةً من ذهبٍ ، ومن أحبَّ أن يُطوِّقَ حبيبَه طوقًا من نارٍ فليُطوِّقْه طوقًا من ذهبٍ ، ومن أحبَّ أن يُسوِّرَ حبيبَه سِوارًا من نارٍ فليُسوِّرْه سِوارًا من ذهبٍ ، ولكن عليكم بالفضَّةِ فالعبوا بها(صحيح أبي داود:4236)
ترجمہ:جو شخص اپنے محبوب ( بیٹے ، بیٹی یا بیوی وغیرہ ) کو آگ کا حلقہ پہنانا پسند کرتا ہو تو وہ اسے سونے کا حلقہ پہنا دے اور جسے پسند ہو کہ وہ اپنے محبوب کے گلے میں آگ کا طوق ڈالے تو وہ اسے سونے کی ہنسلی پہنا دے اور جسے پسند ہو کہ وہ اپنے محبوب کو آگ کا کنگن پہنائے تو وہ اسے سونے کا کنگن پہنا دے ۔ لیکن تم لوگ چاندی ، اختیار کرو اور اس سے دل بہلاؤ ۔
یہ حدیث صحیح ہے اور اس حدیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ مرد کے ساتھ عورت کے لئے بھی سونے کا حلقہ، سونے کی ہنسلی اور سونے کا کنگن منع ہے مگر یہ حکم منسوخ ہے ، ابوموسیٰ اشعری ؓ کی روایت کی روشنی میں جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے:
حُرِّمَ لباسُ الحريرِ والذَّهبِ على ذُكورِ أمَّتي وأُحلَّ لإناثِهم(صحيح الترمذي:1720)
ترجمہ: ریشم کا لباس اورسونا میری امت کے مردوں پر حرام ہے اور ان کی عورتو ں کے لیے حلال کیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ سونا مردوں پر حرام ہے مگر عورتوں پر حرام نہیں ہے ۔

سوال (5): زمین خریدتے وقت ہماری بیچنے کی نیت نہیں ہے، ہم نے اپنے پیسے محفوظ کرنے کے کے لیے زمین خریدی کہ بعد میں خود استعمال کریں گے یا بچوں کو دے دیں گے یا کوئی ضرورت پیش آئی تو اس کو بیچ کر ضرورت پوری کر لیں گے تو کیا اس زمین پر زکوة ہے؟
جواب : جب زمین خریدتے وقت بیچنے کی نیت کی جائے تو یہ سامان تجارت کے حکم میں ہے اس پر زکوۃ دینی ہوگی ، یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب پیسے محفوظ کرنے کے لئے زمین خریدی جائے کیونکہ اب زمین کی حیثیت پیسے کی ہوگئی ہے اور پھر آپ نے کسی نہ کسی شکل میں بیچنے کی بھی نیت کی ہے۔ لہذا آپ مستقبل میں خود استعمال کریں یا بچوں کو دیں یا کسی ضرورت کے تحت بیچ دیں اس پہ زکوۃ دینی ہوگی۔
سوال (6): کیامسجد عائشہ سے عمرہ کا احرام کا باندھ سکتے ہیں ؟
جواب : پہلے یہ جان لی جائے کہ مسجد عائشہ کیا ہے ؟ مسجد عائشہ کوئی میقات نہیں ہے بلکہ حدود حرم کا باہری حصہ ہے ، یہاں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عمرے کا احرام باندھی تھیں۔جو لوگ میقات سے باہر رہتے ہیں وہ جب عمرہ کریں گے تو لازما کسی نہ کسی میقات سے احرام باندھیں گے البتہ وہ لوگ جو مکہ میں یعنی حدود حرم میں رہتے ہیں انہیں عمرے کا احرام باندھنے کے لئے میقات پر جانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ حدود حرم سے باہر جاکر کسی بھی جگہ سے احرام باندھ سکتے ہیں اور چونکہ مسجد عائشہ حدود حرم سے باہر ہے لہذا مکہ کا رہائشی عمرہ کے لئے مسجدعائشہ جاکر احرام باندھ سکتے ہیں ۔ جہاں تک مسئلہ ہے ہندوپاک یا دیگر ممالک سے آنے والوں کا کہ وہ مسجد عائشہ سے احرام باندھ سکتے ہیں کہ نہیں ؟ تو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کا پہلا عمرہ لازما میقات سے احرام باندھ کر ہوگا جبکہ ایک سفر میں دوسرے عمرہ کی دلیل نہیں ،حتی کہ دوران حج بھی ایک ہی عمرہ ہے۔ عمرہ کرنے والوں اور حج کرنے والوں کو ایک سفر میں ایک ہی عمرہ پر اکتفا کرنا چاہئے ۔
سوال (7): استخارہ کی دعا تشھد میں پڑھنا چاہيے یا سلام پھیرنے کے بعد؟
جواب : استخارہ کی دعا تشہد میں نہیں پڑھنی ہے بلکہ سلام پھیرنے کے بعد پڑھنی ہے ، سیدنا جابر بن عبداللہ سلمی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ اپنے صحابہ کرام ؓ کو تمام (جائز) کاموں میں استخارہ کرنے کی تعلیم دیتے تھے جس طرح آپ انہیں قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے، آپ فرماتے: إذَا هَمَّ أحَدُكُمْ بالأمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِن غيرِ الفَرِيضَةِ، ثُمَّ لِيَقُلْ: اللَّهُمَّ إنِّي أسْتَخِيرُكَ،،الخ (صحيح البخاري:7390)
ترجمہ:جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھ لے،پھر یوں کہے :اللَّهُمَّ إنِّي أسْتَخِيرُكَ،،،،
استخارہ والی یہ حدیث دلیل ہے کہ دعائے استخارہ نماز کے بعد پڑھنی ہے ۔

سوال (8): اگر کوئی وضو کرتے وقت بسم الله پڑھنا بھول جائے تو جب یاد آئے اسی وقت پڑھ لے یا دوبارہ وضو کرے؟
جواب : وضو میں بسم اللہ پڑھنا مشروع ومسنون ہے ،واجب نہیں ہے لہذا اگر کوئی وضو کرتے وقت بسم اللہ بھول جائے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اسے اپنا وضو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہاں جان بوجھ کر وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا ترک نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس کا ہمیشہ اہتمام کرنا چاہئے ۔
سوال (9): میرے ساس وسسر کے عقائد ٹھیک نہیں ہیں، کیا میں اپنے شوہر کو ان کے ساتھ حج و عمره پر جانے سے انکار کردوں کہ وہاں بدمزگی نہ ہو؟
جواب : آپ کے شوہر ،آپ کے ساس وسسر کے ساتھ حج وعمرہ کے سفر پر جاسکتے ہیں ، آپ کو اس سے نہیں روکنا چاہئے ، اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کے شوہر کو حج وعمرہ کا مسنون طریقہ بتانے کا موقع ملے گا بلکہ مکہ ومدینہ میں حق واضح کرنا بہت آسان ہے کیونکہ یہاں کتاب وسنت پر عمل کیا جاتا ہے ، اگر کوئی حق کا متلاشی ہو تو مکہ ومدینہ کا سفر کرکے خود ہی حق تک پہنچ سکتا ہے اور اگر ساتھ میں کوئی رہبر بھی ہوتو سونے پہ سہاگہ ہوجائے گا ۔ دعوت حق کےلئے اعلی کردار، نرمی ، صبراور حکمت کی ضرورت ہے آپ ان باتوں کی تلقین شوہر کو کریں ۔
سوال (10): لے پالک بچے کو پستان سے لگانے سے کیا وہ محرم بن جاتے ہیں؟
جواب : صرف پستان کو منہ لگانے سے لے پالک محرم نہیں بن جائے گا، رضاعت {دودھ پالانا} جس سے حرمت ثابت ہوتی ہے اس کی دو شرطیں ہیں ، پہلی شرط یہ ہے کہ رضاعت دوسال کے درمیان ہو اور رضاعت کی تعداد پانچ ہویعنی بچہ پانچ بار اپنی خوراک پوری کرے تب رضاعت ثابت ہوگی ورنہ نہیں ۔
سوال (11): اگر کوئی ہم سے معافی مانگے اور ہم چاہ کر بھی اسے معاف نہ کر پائیں اور نہ ہی اسے بتائیں ۔ تو سامنے والا غلط فہمی میں رہتا ہے کہ ہم نے معافی مانگ لی ہے، کیا اس پر ہمیں گناہ تو نہیں؟
جواب : اگر ہم سے کوئی اپنی غلطی کی معافی مانگے تو ہمیں صاف لفظوں میں اس کے سامنے یا کسی کی معرفت ہی سہی معاف کرنے کی خبر بھیج دینی چاہئے ۔اسلام میں معاف کرنے والے کادرجہ بڑا ہے ، ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنی چاہئے کہ اللہ کے حق میں ہم نے بھی ہزاروں غلطیاں کی ہیں بلکہ حقوق العباد کے معاملے میں بھی کتنی ساری غلطیاں ہوں گی ۔جب ہم خود یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں معاف کردیا جائے تو دوسروں کو بھی ہمیں معاف کردینا چاہئے ۔اگر غلطی کرنے والے نے اپنی غلطی کے بقدر معافی مانگ لی ہے تو معاف نہ کرنا زیادتی ہے اور اگر غلطی کو ہتھیار بناکر ذلیل کرنا مقصد ہے تو پھر آپ اللہ کے یہاں گنہگار ہوں گے ۔
سوال (12): کیا زکاة کی رقم زکاة کے مستحق افراد کو عمرہ پر جانے کیلئے دی جا سکتی ہے؟
جواب : بہتر یہ ہے کہ مسکین افراد کو صدقہ وخیرات یا عطیات سے عمرہ یا حج کرایا جائے تاکہ زکوۃ کو ان کے اصل مصارف میں خرچ کرکے اللہ کے حکم کی ہوبہو پاسداری ہوسکے تاہم اہل علم نے فقیرومحتاج کو مال زکوۃ سے فریضہ حج اداکروانا جائز قرار دیا ہے ۔
سوال (13): عورت کی میت کو غسل دینے اور دفنانے کا طریقه بتا دیں اور کیا حالت حیض میں غسل دے سکتے ہیں؟
جواب : میت کو غسل دینے کا طریقہ یہ ہے کہ گرم پانی اور اس میں بیری کا پتہ استعمال کرنے کے لئے پہلےسے انتظام کرلیا جائے پھر میت کے جسم کا کپڑا اتارلیا جائے اور ستر ڈھانپ دئے جائیں، یاد رہے ایک عورت کامکمل بدن ستر ہے مگر عورت کا عورت کے لئےناف سے گھٹنے تک ستر ہے۔ عورت کو عورت ہی غسل دے گی سوائے اس کے شوہر کے ۔
٭غسل دیتے وقت سب سے پہلے میتہ کے ہاتھ وپیر کے ناخن کاٹ دئے جائیں اگر بڑے ہوں ، اسے بعد میں میتہ کے کفن میں ہی رکھ دیا جائے ۔
٭پھرغسل دینے والی اب نرمی سے میتہ کا پیٹ دبائے تاکہ فضلات باہر نکل جائیں اور ہاتھ پہ دستانہ لگاکر اگلے اور پچھلے شرم گاہ کی تیار شدہ بیری والے پانی سے صفائی کرے ۔
٭اس کے بعد نماز کی طرح وضو کرائے ، دونوں ہتھیلیاں کلائی تک تین بار، منہ اور ناک صاف کرے ۔تین بار چہرہ، تین بار دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت، سر اور کان کا مسح پھر دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھوئے۔
٭ وضو کراکر بیری والا پانی پہلے سرپر بہائے پھر دائیں اوربائیں پہلو پر بہائے ۔اس کے بعد پورے بدن پر پانی بہائے۔کم ازکم تین بار جسم پر بہائے تاکہ مکمل طہارت حاصل ہویہ افضل ہے تاہم ایک مرتبہ سر سے پیر تک پورےجسم کادھونا بھی کفایت کرجائے گا۔ ضرورت کے تحت تین سے زائد بار بھی پانی بہاسکتے ہیں ۔ آخری بارغسل دیتے ہوئے کافور بھی ملالے تاکہ بدن خوشبودار ہوجائے اور نجاست کی مہک ختم ہوجائے۔
٭ اور آخر میں بالوں کی تین چوٹیاں بنا دے گی۔
حیض والی عورت میتہ کو غسل دے سکتی ہے، ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے ، حیض میں نمازوروزہ ، طواف اور مسجد میں ٹھہرنا منع ہے باقی سارے کام کرسکتی ہے ۔

سوال (14): گھر میں آگ لگ گئی اور دھوئیں سے گھٹن کی وجہ سے روزہ توڑنا پڑا، کیا اس روزہ کی قضا دینی ہے اور اس کا کفارہ بھی ہے؟
جواب : ضرورت اور مجبوری کے تحت فرض روزہ توڑنا پڑجائے تو محض اس کی قضا دینی ہے ، اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے ۔
سوال (15): وتر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھنا بھول جائیں تو کیا کریں؟
جواب : دعائے قنوت پڑھنی واجب نہیں ہے مستحب ہے۔کوئی اگر وتر کی نماز میں دعائے قنوت بھول جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، نہ ہی سجدہ سہو کرنا لازم ہے تاہم سجدہ سہو کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں، نبی ﷺ کا فرمان ہے :لِكُلِّ سَهْوٍ سَجدتانِ بعدَ ما يسلِّمُ(صحيح أبي داود:1038)
ترجمہ: ہر سہو کے لیے سلام کے بعد دو سجدے ہیں ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209

آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-16)

____________________
جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر طائف

سوال (1): ایک بہن کے بنک کے اکاؤنٹ میں 2018 سے اب تک 4, 5 لاکھ روپے ہیں جو کبھی زیادہ ہو جاتے ہیں اور کبھی کم، کیا ان پیسوں پر زکوة ہے اور زکوة کا حساب کیسے لگائیں گی؟
جواب : ہاں ، ان پیسوں پر زکوۃ ہے بلکہ بہن نے زکوۃ کی ادائیگی میں تاخیر کی ہے اس کے لئے اللہ سے توبہ کرے اور زکوۃ کے لئے اندازہ لگائے کہ کتنے پیسوں پر ایک سال، دوسال، تین سال، چال سال اور پانچ سال گزرا ہے۔یہ کام مشکل ہے مگر بنک والوں سے تفصیل لیکر آسانی ہوسکتی ہے ۔ جن پیسوں پر جتنا سال گزارا ہوگاان پیسوں میں اتنے سال کی زکوۃ دینی ہوگی ۔ مثلا ایک لاکھ پر پانچ سال گزرے ہیں تو اس کی زکوۃ پانچ سال کی اور اگر ایک لاکھ پہ ایک سال گزرا ہے تو ایک لاکھ پہ ایک سال کی زکوۃ ہوگی ، اس طرح سے ۔

سوال (2): 6 تولہ سونا اور 10 لاکھ روپے ہیں ان میں زکوۃ کیسے نکالی جائے گی؟
جواب : 6 تولہ سونا میں اصلا زکوۃ نہیں ہے لیکن چونکہ نقد رقم بھی ہے اور نقد سونا کے ساتھ مل کر ایک ہی چیز کے قائم مقام ہوجائے گی ۔ اس طرح 10 لاکھ اور 6 تولہ سونا کی قیمت جوڑ کر اس میں سے ڈھائی فیصد زکوۃ دینی ہوگی بشرطیکہ ایک سال گزر گیا ہو۔ اس کومثال سے یوں سمجھیں کہ مثلا 6 تولہ سونا کی قیمت اس وقت بازار میں دو لاکھ ہے تو دس میں دو اور جوڑکر بارہ لاکھ کی زکوۃ دینی ہوگی اور بارہ لاکھ میں ڈھائی فیصد تیس ہزار روپئے بنتے ہیں ۔

سوال (3): آپ صلی ‌الله ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’جب ’’فرق‘‘ (سورطل) نشہ آور ہو تو اس کا چلو بھر پینا بھی حرام ہے ۔‘‘ (حسن، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد ۔ ) مندرجہ بالا حدیث میں کس چیز کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جب نشہ آور ہو تو نہیں پینا چاہئے؟
جواب : سوال میں مذکور حدیث صحیح ہے اور ابوداؤد(3687)، ترمذی(1866) اور مسند احمد(24992) میں موجود ہے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:كلُّ مسكرٍ حرامٌ ، ما أسكرَ الفرَقُ منهُ فَمِلْءُ الكفِّ منهُ حرامٌ(صحيح الترمذي:1866)
ترجمہ: ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور جو چیز فرق بھر نشہ لاتی ہے اس کا ایک چلو بھی حرام ہے۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہرنشہ والی چیز حرام ہے یعنی اگر کوئی نشہ آورچیز زیادہ پینے سے نشہ لائے تو اس کا کم پینا بھی حرام ہے ۔ اسی معنی کی ایک دوسری حدیث پڑھنے سے بات مزید واضح ہوجائے گی ۔جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما أسكرَ كثيرُهُ ، فقليلُهُ حرامٌ( صحيح أبي داود:3681)
ترجمہ:جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔
نوٹ : پہلی حدیث میں مذکور "فرق" سے مراد پیمانہ ہے جو (16) رطل کے برابرہوتا ہے اور فرق میں راء کو سکون دینے سے 120 رطل ہوتا ہے۔

سوال (4): کیا شیعہ کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟
جواب : زکوۃ صرف مسلمانوں کا حق ہے ، اس لئے شیعہ کو زکوۃ نہیں دے سکتے ہیں ۔

سوال (5): امام تراویح پڑھا رہا ہو كيا دیر سے آنے والا شخص اس امام کے پیچھے عشاء کی نماز کی نیت سے نماز پڑھ سکتا ہے اور جب امام سلام پھیرے تو یہ شخص اپنی نماز مکمل کرلے؟
جواب : ہاں ، جب کوئی تاخیر سے آئے اس حال میں کہ امام تراویح کی نماز پڑھا رہاہے تو وہ امام کے ساتھ عشاء کی نماز کی نیت سے شامل ہوجائے گا اور جب امام سلام پھیردے تو بقیہ رکعات پوری کرلے ۔

سوال (6): افطار کے وقت روزہ دار کی دعا قبول ہوتے ہے، جس نے روزہ نہیں رکھا اگر وہ افطار کے وقت دعا مانگے تو کیا اس کی دعا بھی قبول ہوگی؟
جواب : اس سلسلے میں جو احادیث وارد ہیں ان میں غور کرنے سے جواب واضح ہوجاتا ہے ۔ ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
"للہ عند کل فطرعتقاء " (رواہ احمد وقال الالبانی ؒ : حسن صحیح )
ترجمہ : اللہ تعالی ہرافطار کے وقت (روزہ داروں کوجہنم سے ) آزادی دیتاہے ۔
ترمذی اور ابن ماجہ کی ایک روایت جسے علامہ البانی ؒ نے حسن قرار دیاہے اس میں مذکور ہے کہ ہررات اللہ تعالی اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی دیتا ہے ۔
روایت اس طرح ہے : إنَّ للَّهِ عندَ كلِّ فِطرٍ عتقاءَ وذلِك في كلِّ ليلةٍ ( صحيح ابن ماجه:1340)
ترجمہ: اللہ تعالی ہرافطار کے وقت (روزہ داروں کوجہنم سے ) آزادی دیتاہے، یہ آزادی ہررات ملتی ہے۔
ان احادیث میں جس بات کی فضیلت ہے وہ یہ ہے کہ افطار کے وقت یعنی جب روزہ دار افطار کرے اس وقت اللہ اپنے روزہ داربندوں کوجہنم سے آزاد کرتا ہے یعنی یہ فضلیت روزہ دار سے متعلق ہے۔

سوال (7): اسلام میں اکیلے سفر کرنے کی اجازت کہاں تک ہے؟میں بیرون ملک اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہوں، اور میرے ماں باپ پاکستان ہیں۔ اگر میں پاکستان آنا چاہوں تو کیا شوہر کے بغیر آ سکتی ہوں؟ اگر شوہر مجھے وہاں ائیر پورٹ پر چھوڑ کر یہاں سے پاکستان میرا کوئی محرم مجھے لینے آ جائے تو کیا یہ صحیح ہو گا؟
جواب : اسلام میں عورت کو اکیلے یعنی بغیر محرم کے سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان عام ہے :
لا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم(صحيح البخاري:1862)
ترجمہ: کوئی عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے ۔
یہ فرمان ہرسفر کو شامل ہے خواہ ٹرین وجہاز کا سفر ہو یا سوار وپیدل ۔ جہاں تک شیخ ابن جبرین کا فتوی ہےکہ عذر کے تحت عورت بغیر محرم کے جہاز سے سفر کرسکتی ہے ،وہ اس طرح کہ کوئی محرم ایک ایرپورٹ پر سوار کردے اور دوسرے ایرپورٹ پر دوسرا محرم رسیو کرلے ۔یہ فتوی محل نظر اور سنت کے مخالف ہے۔ جہاز میں بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں ، کبھی کبھی جہاز کو دوسری جگہ لینڈنگ کرنا پڑتا ہے اس صورت میں عورت کے لئے کس قدر پریشانی اور غیرشرعی باتوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔عورت کے لئے سفر میں محرم کی قید بہت ساری حکمتوں کو لئے ہوئے ہے۔

سوال (8): گھر میں کام کرنے والے ملازموں کو زکوة دی جا سکتی ہے؟
جواب : ملازم کو اس کے کام کے بدلے تنخواہ دینی ہوگی اور وہ زکوۃ کا مستحق ہے تو الگ سے زکوۃبھی دے سکتے ہیں مگر تنخواہ کی جگہ زکوۃ نہیں دے سکتے ہیں ۔

سوال (9): کیا کسی چیز کو چکھنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟ جیسے ہنڈیا میں نمک وغیرہ چکھنا؟
جواب : چکھنے کا مطلب ہے کہ ذائقہ دار چیز زبان پر رکھ کر چکھ کر پھینک دینا ، اس کام کی روزہ کی حالت میں اجازت ہے اگر اس کی ضرورت پڑے ، بلاضرورت اس سے بچنا ہے۔

سوال (10): کیا سجدے کے علاوہ رکوع میں بھی دعا کر سکتے ہیں؟
جواب : رکوع میں دعا نہیں کرنی ہے ، صرف تسبیحات پڑھنی ہے ۔

سوال (11): کیا خریداری کرتے وقت دکاندار سے چیز کی قیمت کم کرنے کا کہہ سکتے ہیں؟
جواب : بالکل کہہ سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے ۔

سوال (12): حج پر جانے کی نیت سے بنک میں پیسے جمع کر رہے ہیں اور ہر سال اس پر زکوة بھی دیتے رہے ہیں، اس سال وہ پیسے حج پر جانے کے لیے استعمال کر لیے جائیں گے کیا ان پیسوں کی اب اس رمضان میں زکوة دیں؟
جواب : اگر حج پر جاتے وقت پیسوں پر سال گزرگیا ہے تو زکوۃ دینی ہوگی ورنہ زکوۃ نہیں ہے۔

سوال (13): دال کی کئی اقسام کو مکس کر کے ڈھائی کلو کا ایک پیک بنا کر اور چنا کی اقسام کو مکس کرکے فطرانہ دیا جا سکتا ہے؟
جواب : نہیں ، فطرانہ میں ایک شخص کی طرف سے ایک جنس سے اناج دینا ہے ۔

سوال (14): مسجد میں داخل ہونے کے بعد پھر کسی کام سے باہر نکل گئے تو واپس آکر پھر تحیة المسجد ادا کرنے ہوں گے؟
جواب : مسجد میں داخل ہوکر کھڑے کھڑے ہی واپس ہوگئے تو تحیۃ المسجد نہیں پڑھنی ہے ، یہ نماز بیٹھنے سے پہلے پڑھی جاتی ہے ۔

سوال (15): مسجد میں داخل ہوں اور فرض نماز کھڑی ہو جائے تو کیا فرض نماز ادا کرنے کے بعد تحیة المسجد ادا کر سکتے ہیں؟
جواب : تحیۃ المسجد کوئی مستقل نماز نہیں ہے ، جب فر ض نماز کی جماعت کھڑی ہوگئی تو فرض نماز ہی اس کے قائم مقام ہوگئی ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-17)

جواب ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ) سعودی عرب

سوال(1):بواسیر میں بہنے والا خون ناقض وضو ہے ، اس سے طہارت کیسے کریں اور نماز کیسے پڑھیں؟
جواب: جسم کے کسی حصے سے خون بہنے سے وضو نہیں ٹوٹتا،شریعت نے خون بہنے کو کہیں ناقض وضو نہیں کہاہے،ہاں بواسیر میں مقعد کے داخل سے خون نکلے تو ناقض وضو ہوگا کیونکہ سبیلین سےبہنے والی چیز نکلنے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ جہاں تک طہارت حاصل کرنے کا مسئلہ ہے تو جس جگہ خون لگا رہے اسے دھولیا جائےاور مسلسل خون آئے توہرنماز کے لئے وضو کرلے۔نماز پڑھنے میں حسب طاقت وسہولت کیفیت اخیتار کی جائے جیساکہ نبی ﷺ نے صحابی رسول کو حکم دیا تھا۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ مجھے بواسیر کا مرض تھا اس لئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بارے میں دریافت کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:صَلِّ قَائِمًا، فإنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا، فإنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ.( صحيح البخاري:1117)
ترجمہ: کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔

سوال(2): جس طرح رمضان میں سحری کے لئے اذان ہوتی ہے کیا دوسرے روزوں کے لئے مثلا عاشوراء ، عرفہ اور ایام بیض وغیرہ لئے سحری کی اذان دے سکتے ہیں ؟
جواب : اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ سحری کی اذان رمضان کے ساتھ خاص نہیں ہے اس لئے ضرورت وحاجت کے وقت اذان دی جاسکتی ہے لہذا اگر کسی جگہ نفلی روزوں کے لئے سحری کی اذان دینا چاہے تو دی جاسکتی ہے ۔
سوال(3): ایک بہن اپنی کسی رشتہ دار کے آپریشن پہ روزہ رکھنا چاہتی ہے کیا ان کا یہ عمل درست ہوگا؟
جواب : یہ عمل صحیح نہیں ہے کہ کسی کا آپریشن ہورہاہو تو اس کے واسطے روزہ رکھا جائے ، ہاں ایک کام کیا جاسکتا ہے کہ وہ بہن منت مان سکتی ہے کہ اگر آپریشن کامیاب رہا تو میں اتنے روزہ رکھوں گی ۔ اس طرح کرنا درست ہوگا۔
سوال(4): آج کل مساجد میں نکاح کرنا عام ہوگیا ہے ، اس موقع پر عورتین بن سنور کر مسجدمیں آتی ہیں اور بغیر حجاب وعبایا کے پورے مسجد میں فنکشن ہال کی طرح گھومتی ہیں اس عمل کا اسلام میں کیا حکم ہے ؟
جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ جو لوگ مسجدمیں نکاح کرنے کو باعث فضیلت اور مسنون سمجھتے ہیں وہ غلط ہے ، ہاں یہ الگ بات ہے کہ مسجد میں نکاح جائز ہے۔ آج کل عقد نکاح میں قسم قسم کے خرافات پائے جاتے ہیں ، عورتوں کی بھی جم غفیر ہوتی ہے ایسے میں مسجدمیں نکاح کرنا مسجد کی توہین ہوسکتی ہے ۔ کتنی حائضہ عورت اور کتنے جنبی مرد وعورت مسجد میں داخل ہوجائیں گے ، شورشرابہ، لغو باتیں ، ہنسی مذاق اپنی جگہ پھر عورتوں کا برہنہ پن ظاہر کرنا اپنی جگہ ۔ چند افراد مل کرمسجد میں عقد نکاح کریں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن عورت ومرد کی جم غفیر کے ساتھ وہاں نکاح کاعمل انجام دینا فساد واہانت کا باعث ہوسکتا ہے۔
سوال(5): کیا حجامہ کروانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
جواب : بدن سے آپ خود خون نکلنے یا ضرورت کے تحت نکالنے سے وضو نہیں ٹوٹتاکیونکہ شریعت نے خون نکلنا ناقض وضو نہیں قرار دیا ہے بلکہ متعدد آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ بدن سے خون نکلنے پر بھی وضو نہیں دہراتے اوراسی حالت میں نماز ادا کرتے تھے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مثال جب وہ زخمی ہوئے تھے۔بعض اہل علم نے قلیل اور کثیر مقدار میں خون کی بحث کی ہے مگر راحج یہی ہے کہ حجامہ سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا ہے تاہم وضو کرلینا بہتر ہوگا ۔
سوال(6): نبوت کے بعد نبی ﷺ کا ذریعہ معاش کیا تھا ، حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ کئی کئی دن تک گھر میں چولہا نہیں جلتا تھا؟
جواب : نبوت کے بعد آپ ﷺ نے نہ تو بکریاں چرائیں اور نہ ہی کوئی تجارتی مشغلہ اپنا یا بلکہ دعوت وتبلیغ اور نبوت ورسالت کے لئے پورے طور پر متفرغ ہوگئےاور اللہ تعالی نے آپ کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال سے اور مال غنیمت ومال فےسے مالدار بنادیاجیساکہ اللہ کا فرمان ہے : وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى(الضحى:8)یعنی اے نبی ہم تجھے نادار پائے توآپ کو مالدار بنا دیا۔
سوال(7): کیا مقلدو ں کے چینل کو سبسکرائب کر سکتے ہیں؟
جواب : تقلید کرنے والوں کا بیان تقلید کی طرف بلانے پر ہی مشتمل ہوگا، وہ جب بھی کوئی بات کرےگا اپنا مسئلہ امام کی طرف منسوب اقوال سے بیان کرے گاجبکہ ایک مسلمان کو قرآن وحدیث کا علم حاصل کرنا ہے تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر ٹھیک ٹھیک عمل کر سکے ۔ یہ مقصد مقلدوں کے چینل سے پورا نہیں ہوگا بلکہ کم پڑھے لکھے اور دین سے انجان لوگ مقلدوں کی بات سے بہک سکتے ہیں اس لئے عام آدمی تو ان کے چینل کو سبسکرائب کرے ہی نا، البتہ دین کا مستحکم علم رکھنے والےاس وجہ سے ان کا چینل سبسکرائب کریں کہ ان کی غلطیوں اور خطاؤں پر عوام کو متنبہ کرسکیں تو ٹھیک ہے ۔ قرآن وحدیث پر مشتمل بہت سارے سلفی چینلز ہیں عوام کو ان سے ہی فائدہ اٹھانا چاہئے ۔
سوال(8): نقلی زیورات پہن سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب : بلاشبہ عورت مصنوعی زیوارت کا استعمال کرسکتی ہے خواہ کسی بھی دھات مثلا لویا، تانبا، پلاسٹک،اسٹیل، کانچ وغیرہ کے بنے ہوں حتی کہ ان چیزوں کی انگوٹھی بھی پہن سکتی ہے اور اس میں نماز بھی ادا کرسکتی ہے ۔ لوگوں میں جو یہ خیال ہے کہ عورتیں لوہے کا استعمال نہیں کرسکتی یا سونا چاندی کے علاوہ دوسرے دھات کی انگوٹھی نہیں پہن سکتی یا لوہے کی انگوٹھی وغیرہ پہن کر نماز نہیں ہوتی ، یہ سب خیالات باطل ہیں، ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
سوال(9): کتنے کلو میٹر پر اورکتنے دن تک نماز قصر کرکے پڑھ سکتے ہیں؟
جواب : اس میں شدید اختلاف ہے کہ کتنے کلومیٹر تک سفر کرنے پر قصر کریں گے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں مختلف قسم کے نصوص ملتے ہیں گویا یہ ایک طرح سے اجہتاد ی نوعیت کا مسئلہ بن گیاہے۔ اس مسئلہ میں مجھے جس بات پر اطمینان حاصل ہے وہ یہ کہ تقریبا اسی کلومیٹر کا سفرکرنے پر قصر کیا جائے گاکیونکہ اونٹ یا پیدل ایک رات اور ایک دن کا سفر اسی مقدار کا ہے۔لہذا جو اسی کلومیٹر یا اس سے زائد کا سفر کرے وہ قصر کرے اورچار دن تک جہاں قیام کا ارادہ کرے قصر کرے گا اور چار دن سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو تو پھر مسافر نہیں رہ جاتا مقیم کے حکم میں ہے اس صورت میں مکمل نماز پڑھنی ہے ۔
سوال(10)ایکشن اور حرکت کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرنا کیسا ہے ؟
جواب : قرآن کی تلاوت عبادت ہے ، جس طرح اس کا پڑھنا عبادت ہے اسی طرح اس کا غور سےسننا بھی عبادت ہے ۔ اور قرآن کی تلاوت کا مقصد محض برکت کا حصول نہیں بلکہ اصل مقصد غوروفکر کےساتھ پڑھنا اور ہدایت حاصل کرنا ہے ۔ تلاوت محفل میں ہو تب قاری کے ساتھ سامع پر بھی دھیان سے سننا اور اس میں غورکرنا ضروری ہے ۔ ایکشن کے ساتھ تلاوت کرنے پر قاری کی اصل توجہ ایکشن کی حسن ادائیگی پرہوگی اور سامع بھی انہیں حرکات وایکشن میں تحسن تلاش کرے گا۔ پھر سوال یہ ہے کہ تلاوت جیسی عبادت کے لئے ایکشن کی کیوں ضرورت پڑرہی ہے اور اس ایکشن کا سرا کہاں سے جڑا ہے؟۔ جواب تلاش کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سرا غیروں کی نقالی اور رقص سے جڑا ہوا ہے ۔ گوکہ اس کی انجام دہی چھوٹے بچےاور بچیوں کے ذریعہ ہوتی ہے مگر یہ فساد کا پیش خیمہ ہے اس وجہ سے اس کا سدباب ہونا چاہئے ۔
سوال(11): ایک شخص کسی کو گاڑی خریدکر دیتا ہے یا کسی کو دوکان کرکے دیتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ روزانہ یا ماہانہ اتنے روپئے دینا ہےتو کیا اس طرح متعین صورت میں رقم لینا جائز ہے ؟
جواب: اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی سامان خرید کر کسی کوتجارت کی غرض سے دے اور اس سے منافع لے مگر منافع لینے کا طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ جو آمدنی ہو اس میں سے پانچ یا دس فیصد پیسہ لگانے والے کا ہو یعنی مناسب پرسینٹ پر آپس میں منافع طے ہو، ساتھ ساتھ نقصان میں بھی دونوں شریک ہوں گے۔رقم لگانے والا اگر منافع اس طرح طے کرے کہ ماہانہ بیس یا تیس ہزار مجھے ملنا چاہئے تو غلط ہے۔ یہ تو تجارت کرنے والی چیزہے اورکرائے والی چیز کا مسئلہ الگ ہے ، اگر کوئی اپنی گاڑی یا مکان کرایہ پر دے تو اس سے ماہانہ یا یومیہ کرایہ طے کرسکتا ہے۔
سوال(12):کیا میاں بیوی کے درمیاں محبت پیدا کرنے کے لئے کوئی وظیفہ یا دعا ہے ، اگر ہے تو براہ کرم مجھے بتلادیں ؟
جواب : میاں بیوی کے درمیان محبت پیدا کرنے کے ہزاروں قسم کے ڈھونگ سماج میں رائج ہیں اور باطل طریقوں سے عیارومکار عاملین عوام کا خصوصا خواتین کا پیسہ لوٹتے ہیں ۔ ڈھونگی مولوی قرآن کے نام پردھوکہ دیتا ہے،کوئی تعویذ دیتا ہے تو کوئی کھانے پینے کی چیز میں دم کرکےدیتاہے ۔ کوئی وظیفہ خاص بتلاتا ہے۔ سورہ فاتحہ ایسے پڑھو، سورہ اخلاص اس دھنگ سے پڑھو، الم نشرح کا وظیفہ اتنی بار ایسے پڑھو، رات میں روزانہ سورہ نساء کی تلاوت کرو۔ حیرت ہے دارالعلوم دیوبند کے مفتی بھی اس میدان میں پیچھے نہیں ، وہ فتو ی دیتے ہیں بسم اللہ 786 مرتبہ پڑھو، کبھی کہتے ہیں یا لطیف کا گیارہ سو گیارہ مرتبہ وظیفہ پڑھو۔
یہ سب دھوکے باز میں اور امت کو گمراہ کررہے ہیں اور باطل طریقے سے مال کھارہے ہیں۔ قرآن وحدیث میں ایسا کوئی خاص عمل یا خاص وظیفہ نہیں ہے جس کے انجام دینے سے میاں بیوی میں اچانک محبت پیدا ہوجائے گی ۔ میاں بیوی میں محبت پیدا ہونے کے لئے اس سلسلے میں جو اسلامی تعلیمات ہیں ان کو برئے کار لانا پڑے گا۔ اسلام نے شوہر کو کچھ حقوق دئے ہیں بیوی وہ حقوق شوہر کے لئے اداکرے اور جو حقوق بیوی کے لئے ہیں وہ شوہر ادا کرے ہمیشہ آپس میں پیارومحبت قائم رہے گی اور جھگڑے لڑائی کی نوبت نہیں پیدا ہوگی ۔

سوال(13):کیا مسجد میں ہنسنا اندھیرا لاتا ہے ؟
جواب : جواب: ایسی کوئی بات نہیں ہے ،ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جس کو دیلمی نے مسند الفردوس (3891) میں ذکر کیا ہے ۔ حدیث اس طرح ہے ۔ الضَّحِكُ في المسجدِ ظُلْمَةٌ في القبرِ۔
ترجمہ: مسجد میں ہنسنا قبر میں اندھیرے کا باعث ہے ۔
اس کو شیخ البانی نے موضوع قرار دیا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة:3818)
مسجد میں اچھی باتیں کرنا اور ہنسنا منع نہیں ہے ، عہد رسول میں صحابہ کرام بھی نبی ﷺ کی موجودگی میں مسجد میں ہنسا کرتے تھے آپ نے منع نہیں فرمایا۔سماک بن حرب نے کہا کہ میں نے سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کہا:
أَكُنْتَ تُجَالِسُ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ؟ قالَ: نَعَمْ كَثِيرًا، كانَ لا يَقُومُ مِن مُصَلَّاهُ الذي يُصَلِّي فيه الصُّبْحَ، أَوِ الغَدَاةَ، حتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ قَامَ، وَكَانُوا يَتَحَدَّثُونَ فَيَأْخُذُونَ في أَمْرِ الجَاهِلِيَّةِ، فَيَضْحَكُونَ وَيَتَبَسَّمُ.(صحيح مسلم:670)
ترجمہ: کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ بہت، پھر کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ اپنی نماز کی جگہ بیٹھے رہتے صبح کے بعد جب تک کہ آفتاب نہ نکلتا۔ پھر جب سورج نکلتا اٹھ کھڑے ہوتے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر ذکر کیا کرتے تھے کفر کے زمانہ کا اور ہنستے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہتے تھے۔

سوال(14): ہر چیز میں طاق کا استعمال کرنا سنت ہے ؟
جواب : علی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إنَّ اللهَ وِترٌ يحبُّ الوِترَ(صحيح الترمذي:453) کہ اللہ وتر (طاق) ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں اہل علم بیان کرتے ہیں کہ تمام اقوال و افعال میں طاق عدد کا خیال کرنا مسنون ہے، اس لئے کوئی طاق عدد کا خیال کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اچھی بات ہے مگر اس کو واجب خیال کرنا غلط ہے اور ہرحال میں طاق ہی برتنا اپنے نفس پر مشقت لازم کرنا ہے۔

سوال(15): کیا میراث نہ دینے والا جہنم میں جائے گا؟
جواب: مجھے صحیح حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں ملی، ضعیف احادیث میں اس قسم کی متعدد باتیں موجود ہیں مثلا "جو اپنے وارث کی میراث سے راہ افرار اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ روز قیامت جنت سے اس کی میراث منقطع فرما دیں گے"۔اسی طرح یہ بات کہ ساٹھ سال عبادت کرنے والےمرد یا عورت کوجب موت آتی ہے تو وہ وصیت میں نقصان پہنچانےوالے ہوتے ہیں اس وجہ سے ان دونوں کے لئے جہنم واجب ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح ایک آدمی ستر سال خیروالا عمل کرتا ہے اور جب وصیت کرتا ہے تو ظلم کرتا ہے اور اس کا خاتمہ بالشر ہوتا اور وہ جہنم میں داخل ہوتا ہے ۔ ان ساری روایات کو شیخ البانی نےضعیف ابن ماجہ اور ضعیف الترغیب وغیرہ میں ضعیف کہا ہے ۔
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ حقوق العباد بہت اہم ہے اور اس بابت لوگوں کا معاملہ قیامت میں بڑا سخت ہوگا، مسلم شریف میں ہے کہ ظالم کے سر مظلوم کا گناہ کردیا جائے گا۔ جب حقوق العباد ختم کرتے کرتے ظالم کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تب وہ جہنم رسید ہوگا۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(قسط-18)

جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ) سعودی عرب

سوال (1):لوگ کہتے ہیں کہ عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں ، ان کی وجہ سے ہی گھروں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے کیا ایسی بات حدیث میں آئی ہے ؟
جواب : صحیح مسلم میں ہے کہ عورت کےدین اوراس کی عقل میں نقص ہوتا ہے ،یہ بات علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ دین میں نقص سے مراد حیض ونفاس کی حالت میں نماز وروزہ ادا نہ کرنا ہے اور عقل میں نقص سے مرادمالی گواہی میں (تمام قسم کی گواہی میں نہیں )مردوں کے مقابلے میں آدھی گواہی ہے ۔ عقل کے اعتبار سے عورت مردوں سے کم نہیں ہے ،اسی مذکورہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو"امراۃ جزلۃ"سے تعبیرکیا ہےجس کے معنی زیادہ عقل والی عورت ہے جو رسول اللہ سے پوچھتی ہیں کہ ہماری عقل اور دین میں کیا کمی ہے ؟ اگر عورت عقل میں علی الاطلاق مردوں سے کم ہوتی تو آپ اسے عقلمند عورت نہ کہتے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بہت تیز ، ذہین وفطین اور بڑی علم والی تھیں ، کبارصحابہ آپ سے علمی استفادہ کرتے تھے ۔(۲۲۱۰) احادیث بیان کرنے والی زوجہ رسول کی کسی روایت پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی ہے کہ اسے بیان کرنے والی عورت ہے اور عورت کی عقل میں نقص ہے۔ آپ کی بہن کے بیٹے عروہ جنہیں نہ صرف آپ کی مصاحبت نصیب ہوئی بلکہ ان کے علم سے بہت فائدہ بھی اٹھائے وہ کہتے ہیں :"ما رأيت أحداً أعلم بفقه ولا طب ولا شعر من عائشة - رضي الله عنها" یعنی میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ فقہ، طب اور شعر کا زیادہ جانکار نہ دیکھا۔ طبقات ابن سعد میں ہے : كانت عائشة - رضي الله عنها - أعلم الناس، يسألها الأكابر من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا لوگوں میں سب سے زیادہ جانکار تھیں ، آپ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اکابر صحابہ مسائل دریافت کرتے تھے ۔
آپ کی علمی اور فقہی بصیرت کے بارے میں تو بہت کچھ بیان کیا جاتا ہے اور ان لوگوں کی تردیدکے لئے آپ کی مثال ہی کافی ہے جو عورتوں کو ہراعتبار سے بے عقل کہتے ہیں اس لئےکسی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ عورتوں کو بے عقل کا طعنہ دے ۔ گھروں میں ہونے والے جھگڑوں کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں ہمیں ان کو جاننے اور دور کرنےکی ضرورت ہے اور حاکمیت مردوں کا حق ہے اس حق کی ادائیگی ٹھیک ڈھنگ سے کرنی ہے ، زیادہ تر جھگڑے حاکمیت میں بے توجہی ، حق تلفی اور مشترکہ خاندانی نطام کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

سوال (2):ایک عورت سلائی سے کچھ پیسے جمع کی ہے اور اپنے بھتیجے کے ساتھ عمرہ کرنا چاہتی ہے مگر ابھی بھی کچھ رقم کی ضرورت ہے ایسے میں کیا زکوۃ کی رقم سے ان کی مدد کی جاسکتی ہے ؟
جواب :بعض اہل علم جن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ بھی ہیں کہتے ہیں کہ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے فقراء ومساکین کوزکوۃ کی رقم سے امداد کی جاسکتی ہے اس لئے کوئی صاحب خیرحج کے سلسلے میں اس عورت کی امداد کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ۔
سوال (3): مجھے بیماری کے لئے دعائیں بتائیں تاکہ ان کو پڑھتی رہوں اور دل کو سکون ملے اور بیماری میں افاقہ نصیب ہو ۔
جواب : عموما خواتین بیماری، گھریلو مسائل، نوکری اور اولاد کے واسطے مجھ سے مخصوص قسم کاوظیفہ پوچھتی رہتی ہیں اور ایسے مواقع پرمیں نے عوام میں مختلف قسم کے خیالات اور اعمال کا مشاہدہ کیا ہے، اس وجہ سے اپنی بہنوں کو چند باتوں کی نصیحت کرنا چاہتا ہوں ۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ پریشانی اللہ کی جانب سے ہے ، ہم اس بات کا عقیدہ رکھیں اور دل سے یہ خیال نکال دیں کہ کسی دوسرے کی وجہ سے پریشانی آئی ہے یا ہمارے اوپر یا گھر پہ کوئی سایہ رہتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب ہمارے اوپر پریشانی آئے تو اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے کیونکہ بسا اوقات اعمال کی خرابی کی وجہ سے پریشانی آتی ہے اوراعمال صالحہ و توبہ کے ساتھ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا چاہئے ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اسلام نے ہر بیماری اور پریشانی کا علاج بتلایا ہے ، جب کسی کو بیماری لاحق ہو تو اس کا طبی معائنہ کرائے اور اچھے سے علاج کرائے ، بیماری کو لاعلاج چھوڑ کر صرف اللہ پر بھروسہ کرنا غلط ہے۔ اللہ نے ہی ہمیں علاج کرنے کو کہا ہے ۔
چوتھی بات یہ ہے کہ نبی ﷺ نے جو مسنون دعائیں سکھائی ہیں ان کا بھی ورد کریں مثلا صبح وشام، نماز اور سونے جاگنے کی دعائیں وغیرہ ۔ ان اذکار کی برکت سےموجودہ پریشانی میں راحت ملے گی اور بہت ساری انہونی آفات سے حفاظت ہوگی ۔
پانچویں بات یہ ہے کہ ہمیں رسول اللہ نے ہر بیماری کی مخصوص دعا نہیں بتائیں ، چند بیماریوں کی دعا بتائی ہیں ۔ آپ کو آپ کی پریشانی کے مطابق مسنون دعا مل جائے تو بغیر عدد اور وقت خاص کئے وہ دعا پڑھتے رہیں اور اس پریشانی کی مسنون دعا نہ ملے تو عام پریشانی سے متعلق وارد تمام دعائیں پڑھ سکتے ہیں۔ یاد رہے من گھرنت وظیفے اور ضعیف دعاؤں سے پرہیز کریں ۔
آخری سب سے اہم نصیحت یہ ہے کہ سماج میں بہت سے لوگ پیسہ کمانے کے لئے عملیات کرتے ہیں ، ان کے پاس نہ جائیں وہ آپ میں ڈر پیدا کرکے آپ سے مال کمائیں گے۔

سوال (4):کیا مسلمان عورت شیعہ کے بچوں کو قرآن پڑھا سکتی ہے ؟
جواب : شیعہ بچے کو قرآن کی تعلیم دینے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک اچھا موقع ہوگا کہ اسے قرآن کی تعلیمات اور دین حق سے بھی متعارف کرایا جائے۔اس کے گھر سے بھی اچھے روابط رکھے جائیں اور بچہ کے ساتھ اس کے گھروالوں کو بھی صحیح مسلمان بنانے کی کوشش کی جائے۔
سوال (5):کیا عورت کے لئے گھر میں اور بیت الخلا میں داخل ہوتے وقت سر کے بالوں کو چھپانا واجب ہے ؟
جواب : شریعت میں ایسی بات مذکور نہیں ہے کہ عورت گھر میں داخل ہو یا بیت الخلاء جائے تو سر پہ دوپٹہ رکھ لے ۔ جہاں کوئی اجنبی مرد نہیں ہو وہاں عورت اپنا سر کھول سکتی ہے ۔
سوال (6): کیا ایسی جگہ جہاں ایک عورت موجود نہ ہو اور اس جگہ عورت کا ذکر ہو تو اس سے بھی نظر لگ سکتی ہے ؟
جواب : نظر کہتے ہیں کسی چیز کو آنکھ سے دیکھنے کو ، جب کوئی چیز سامنے نہیں ہوگی تو اس پہ نظر نہیں پڑے گی اور جس پہ نظر نہ پڑے اسے نظر نہیں لگ سکتی ۔
سوال(7):ایک عورت کا انتقال ہوا ہے اس نے بہت سارا جہیز کا سامان اور ذاتی ملکیت چھوڑی ہے ، یہ چیزیں اور استعمال کی چیزیں کیا کرنی ہے ؟
جواب : عورت کی وفات کے بعد اس کا چھوڑا ہوا ترکہ اس کے وارثین یعنی شوہر، اولاد اور اس کے ماں باپ میں تقسیم ہوگااور جو استعما ل کی چیزیں ہیں مثلا کپڑے وغیرہ تو انہیں آپس میں جس طرح تقسیم کرنا چاہیں کرلیں اور دوسروں کو ہدیہ کرنا چاہیں تو یہ بھی کرسکتے ہیں ۔ میت کے استعمال کی چیزیں اگر استعمال کے قابل ہوں تو انہیں استعمال کی جاسکتی ہیں انہیں پھینک کر ضائع نہیں کرنا چاہئے ۔
سوال(8):قرآن کو تھیلے میں لٹکاکر اوپر رکھنا کیسا ہے جبکہ نیچے کوئی اونچی چیز رکھنے کے لئے نہ ہو ؟
جواب : قرآن کا ادب واحترام ہمارے اوپر واجب ہے اورجس پہلو سے بھی اس کی اہانت ہو اس سے پرہیز کرناہے۔ اہل علم نے قرآن کو اونچی جگہ رکھنا بہتر خیال کیا ہے تاکہ جس طرح یہ کتاب اعلی وارفع ہے اسی طرح کسی جگہ رکھنے میں بھی بلند رہے،اسی طرح تھیلے میں لٹکاکر بھی اسے بلند رکھ سکتے ہیں۔ جہاں بلند جگہ قرآن رکھنے کی گنجائش نہ ہو وہاں نیچے پاک فرش وزمین پربھی رکھ سکتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا مجبوری کے تحت ہے۔
سوال (9):ایک خاتون نے بالوں کا علاج کرایا ہے جس کی وجہ سے تین دن تک اس میں پانی نہیں لگنا چاہئے ، ایسے میں وضو اور غسل کے لئے تیمم کر سکتی ہے؟
جواب : مسلمان عورت کو ایسا شوق نہیں رکھنا چاہئے جس کی وجہ سے حقوق وفرائض متاثر ہوں ۔ غسل طہارت میں لازما سر کے بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا ہے اور وضو میں پورے سر کا مسح کرنا ہے ، اگر کسی نے ایسا نہ کیا تو اس کاغسل اور وضو نہ ہوگا اور جب غسل نہ ہو یا وضو نہ ہو تو نماز نہیں ہوگی ۔ تیمم اس صورت میں جائز ہے جب پانی نہ ملے یا پانی کا استعمال مضر ہو ۔اس لئے میری بہنو! عبادتیں ضائع نہ کرو ،ماہواری یا نفاس کے ایام میں ہیرٹریٹمنٹ کرائیں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال (10):ایک بیٹے نے ذاتی کمائی کا ایک مکان ماں کے نام سے کردیا تو وہ مکان بعد میں ماں کی جائیداد ہوگی اور اس کی اولاد میں تقسیم ہوگی یا پھر اسی بیٹے کا رہے گا؟
جواب : جس بیٹے نے ماں کے نام مکان کیا ہے اس کی نیت پوچھی جائے گی کہ اس نے یہ مکان ماں کو ہدیہ کردیا ہے یا حکومتی کاروائی میں مشکلات کی وجہ سے محض کاغذی طور پر ماں کے نام کیا ہے ؟۔اگر بیٹے نے ماں کو ہدیہ نہیں کیا ہے تو وہ مکان بیٹے کی ملکیت ہے اور اگر ماں کو کفٹ کردیا ہے تو وہ ماں کی ملکیت ہے ۔ ماں یا بیٹے کی وفات ہوجائے تو اس مکاں کی تقسیم ملکیت کے حساب سے وارثوں میں ہوگی ۔
سوال (11):میں ایک طبیبہ ہوں میرے پاس لوگ الٹراساؤنڈ کے لئے آتے ہیں اور مجھ سے انتہائی درخواست کے ساتھ بچے کا جنس (لڑکا /لڑکی) پوچھتے ہیں ، میرے لئے ایسے میں قرآن وحدیث سے کیا حکم ہے ؟
جواب : طبی ضرورت کے تحت الٹراساونڈ کی اجازت ہے تاہم جولوگ محض بچے کا جنس معلوم کرنے کے لئے الٹراساونڈ کرواتے ہیں جائز نہیں ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت کا پورا جسم پردہ ہے اسے کوئی اجنبی مرد بلاضرورت نہیں دیکھ سکتا جبکہ عموما الٹراساونڈ کرنے والا مرد ہی ہوتا ہے اور عورت بھی ہو تب بھی بلاضرورت کسی دوسری عورت کا بدن ناف سے گھٹنے کے درمیان نہیں دیکھ سکتی ہے ۔طبی ضرورت کے تحت کرائے گئے الٹراساونڈ کے وقت آپ نے جنین کا جنس بتلادیا تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن صرف جنس بتلانے کے لئے الٹراساونڈ نہیں کرسکتے اور اگر کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ جنین لڑکی ہو تو ساقط کرواسکتا ہے تب تو اسے ہرگز جنس کی خبر نہیں دینا چاہئے ۔
سوال (12):دوا کمپنی والے ڈاکٹرکے پاس نئی دوائیاں پرچار کے لئے لاتے ہیں اور ساتھ ہی کچھ پیسہ ہدیہ میں دیتے ہیں کیا یہ پیسے ڈاکٹر لے سکتے ہیں ؟
جواب : اگر دوائیاں مریض کے حق میں معیاری اور مفید ہیں تو ان دوائیوں کے اشتہار کے بدلے دوا کمپنی والوں کی طرف سے دئے گئے ہدیہ قبول کرنے میں حرج نہیں ہے لیکن اگر دوا غیرمعیاری اور غیرمفید ہو تو ڈاکٹر کو چاہئے کہ اس کا پرچار نہ کرے ۔
سوال(13):بیوی کے زیورات کی زکوۃ شوہر کے ذمہ ہے یا بیوی نکالے گی اور پھر بیوی کے پاس پیسے نہ ہوں تو کیا کرے ؟
جواب : بیوی کے زیورات کی زکوۃ بیوی کے ذمہ ہے کیونکہ وہ زیورات کی مالکن ہے اور اگر شوہر بیوی کی طرف سے زیورات کی زکوۃ ادا کرنا چاہے تو اداکرسکتا ہے ۔ بیوی کے پاس زکوۃ کی ادائیگی کے لئے روپیہ نہ ہو تو شوہر یا میکے سے مدد طلب کرسکتی ہے یا پھر زیورات کا کچھ حصہ بیچ کر زکوۃ ادا کرے ۔
سوال (14):ایک خاتون کے دادا ابو بیمار ہیں تو ان کی دیکھ بھال کرتی ہے، رات میں تاخیر سے سوتی ہے اور فجر کی نماز چھوٹ جاتی ہے اس عورت کو کیا کرنا چاہئے ؟
جواب : یہ اچھی بات ہے کہ عورت گھر کے بوڑھوں کی خدمت کرے ، یہ احسان کے درجے میں ہےاور احسان کرتے ہوئےیہ بات بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ حقوق وواجبات کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔عورت کو چاہئے کہ احسان وخدمت کے ساتھ وقت پر نماز فجر کی ادائیگی کے لئے مناسب طریقہ اختیار کرے ،کم ازکم یہ کرسکتی ہے کہ سورج نکلنے سے پہلے پہلے یعنی فجر کو آخری آخری وقت ادا کرنے کی کوشش کرے ۔
سوال (15): ایک لڑکا شادی کی نیت سے ایک لڑکی سے بات کرنا چاہتا ہے تو کیا یہ جائز ہے ؟
جواب : نکاح سے متعلق مباح بات چیت اس لڑکی سے کرنا جائز ہے جس سے نکاح کا ارادہ ہے جیساکہ نبی ﷺ نے مخطوبہ (منگیتر) کو شادی سے پہلو دیکھنے کی اجازت دی ہے ۔ یاد رہے بات چیت یا منگیتر کو دیکھنا خلوت میں نہ ہو بلکہ لڑکی کے باپ ، بھائی اور ماں وغیرہ کے سامنے ہو اور غیرضروری بات چیت ، طول کلامی یا فون پہ مسلسل روابط جائز نہیں ہے۔
سوال (16): ہندوستان میں جب کسی لڑکی کی شادی ہو جاتی ہے اورجب اس کا کوئی سرکاری کاغذ بنتا ہے مثلا آدھار کارڈ، ووٹرکارڈ، بینک پاس بک، پاسپورٹ وغیرہ تو اپنے نام کے ساتھ باپ کے نام کے بجائے شوہر کا نام ہوتا ہے مثلا بیوی عائشہ اور شوہرعبدالرحمن ہو تو عائشہ عبدالرحمن ہوجاتا ہے کیا یہ غلط ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ باپ کے علاوہ دوسروں کی طرف نسبت حرام ہے اور دلیل بھی دئیے ہیں: مَنْ انْتَسَبَ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ .. فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ(رواه ابن ماجة: 2599)
جواب : اس مسئلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ جب ہندوستان میں اس قسم کا کوئی کارڈ بنتا ہے تو پہلے فارم پر کیا جاتا ہے جس میں لڑکی کی معلومات درج کی جاتی ہے اور شوہر کا نام بحیثیت شوہر ہی لکھا جاتا ہے نہ کہ باپ کی حیثیت سے حتی کہ بعض کارڈز میں وائف(فلاں کی بیوی ) کا لفظ بھی مکتوب ہوتا ہےاس لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور حدیث میں جس بات کی ممانعت ہے وہ غیرباپ کی طرف نسبت کا دعوی کرنا ہے یعنی کوئی غیرباپ کو اپنا باپ کہہ کر نہیں بلا سکتا ہےلیکن فلاں کی بیوی ، فلاں کی بہن اور فلاں کی بہو جیسے الفاظ قطعی ممنوع نہیں ہیں ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-19)

جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

سوال(1): کیا اولاد کے تمام عملوں کا اجر والدین کو بھی ملتا ہے ؟
جواب : اصل تو یہی ہے کہ انسان کو خود ان کے عملوں کا ہی اجروثواب ملتا ہے ، کسی کا عمل دوسرے کو فائدہ نہیں پہنچاتا جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى(النجم:39)
ترجمہ: اور یہ کہ ہرانسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔
والد اور والدہ کو بھی خود اپنے کئے کا اجر ملتا ہے ، اولاد کے عملوں کا اجر نہیں پہنچتا سوائے ان عملوں کے جن میں اولاد کی تربیت، نصیحت اور تعلیم وترغیب شامل ہے یعنی اگر ماں باپ نے اپنی اولاد کو کسی عمل کی خاص ترغیب اور تعلیم دی ہو اور اولاد نے وہ عمل انجام دیا تو اس کا اجر والدین کو بھی ملتا ہے جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:إنَّ الدالَ على الخيرِ كفاعلِه (صحيح الترمذي:2670)
ترجمہ: بھلائی کی طرف رہنمائی کرنے والا (ثواب میں) بھلائی کرنے والے ہی کی طرح ہے۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ فرمان نبوی ہے :
مَن دَعا إلى هُدًى، كانَ له مِنَ الأجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَن تَبِعَهُ، لا يَنْقُصُ ذلكَ مِن أُجُورِهِمْ شيئًا(صحيح مسلم:2674)
ترجمہ:جو شخص ہدایت کی طرف بلائے اس کو ہدایت پر چلنے والون کا بھی ثواب ملے گا اور چلنے والوں کا ثواب کچھ کم نہ ہو گا۔
ہمیں قرآن وحدیث سے ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے جس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکیں کہ اولاد کے تمام عملوں کا اجر ان کے والدین کو بھی پہنچتا ہے ۔ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک لڑکا پیچھے چھوڑنا میت کے لئے اجرکا باعث ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
إنَّ مِمَّا يلحقُ المؤمنَ من عملِهِ وحسناتِه بعدَ موتِه عِلمًا علَّمَه ونشرَه وولدًا صالحًا ترَكَه ومُصحفًا ورَّثَه أو مسجِدًا بناهُ أو بيتًا لابنِ السَّبيلِ بناهُ أو نَهرًا أجراهُ أو صدَقةً أخرجَها من مالِه في صِحَّتِه وحياتِه يَلحَقُهُ من بعدِ موتِهِ(صحيح ابن ماجه:200)
ترجمہ: مومن کو اس کے اعمال اور نیکیوں میں سے اس کے مرنے کے بعد جن چیزوں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے وہ یہ ہیں: علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا، نیک اور صالح اولاد جو چھوڑ گیا، وراثت میں قرآن مجید چھوڑ گیا، کوئی مسجد بنا گیا، یا مسافروں کے لیے کوئی مسافر خانہ بنوا دیا ہو، یا کوئی نہر جاری کر گیا، یا زندگی اور صحت و تندرستی کی حالت میں اپنے مال سے کوئی صدقہ نکالا ہو، تو اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی اسے ملتا رہے گا۔
اس حدیث میں مطلق نیک لڑکا چھوڑنے کا ذکر ہے جبکہ صحیح مسلم میں قید ہے کہ نیک لڑکا جب والد کے لئے دعا کرے تو اس کو ثواب پہنچتا ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:إذا مات الإنسانُ انقطع عنه عملُه إلا من ثلاثةٍ : إلا من صدقةٍ جاريةٍ . أو علمٍ ينتفعُ به . أو ولدٍ صالحٍ يدعو له(صحيح مسلم:1631)
ترجمہ: جب انسان وفات پاجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے مگر تین عمل ایسے ہیں جن کا اجروثواب اسے مرنے کے بعدبھی ملتا رہتا ہے ۔ صدقہ جاریہ،علم جس سے فائدہ اٹھایاجاتا ہو،صالح اولاد جو مرنے والے کے لیے دعا کرے ۔
خلاصہ یہ ہوا کہ اولاد کے ان ہی عملوں کا اجر والدین کو پہنچتا ہے جن عملوں کی ترغیت وتعلیم انہوں نے دی ہو۔ نیز اولاد کو چاہئے کہ والدین کے حق میں کثرت سے دعا و استغفار اور ان کی طرف سے صدقہ وخیرات کرے۔

سوال(2):مفتی فیصل جاپان والا اپنے ایک بیان میں قرآن کے حوالے سےبات کرتا ہے اور گھر میں کتا پالنے کی بات کرتا ہے یعنی اس سے رحمت کے فرشتے نہیں رکتے، ایک دلیل دیتا ہے کہ سورہ مائدہ آیت 4 میں شکاری کتے کا ذکر ہے ان کتوں کے بارے میں اللہ نے یہ نہیں کہا کہ انہیں گھر میں نہیں رکھو کیونکہ اس سے رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔دوسری دلیل سورہ کہف آیت 10 میں صراحت ہے کہ غار میں اصحاب کہف کے ساتھ کتا بھی تھا ان لوگوں نے اللہ سے رحمت کی دعا کی ہے، اس نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ بعض حدیث میں ہےکہ ایک مرتبہ جبریل نبی کے پاس آئے اور آپ کے گھر میں کتا تھا جس پر نجاست لگی تھی تو جبریل صرف اپنےذاتی ذوق کی وجہ سے گھر میں داخل نہیں ہوئے ۔ اس فتوی کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ یہ مفتی فیصل جاپان والاغامدی فکر کا حامل ہے،اس کے بیانات سے دور ہی رہیں۔اس نے غامدی کی تائید میں کتاب بھی شائع کی ہے بلکہ غامدی کے داماد اورشاگرد محمد حسن الیاس حیدری سے ایک انٹریو میں اعتراف کیا ہے کہ غامدی کے افکار منہج سلف صالحین کے مطابق ہیں۔ اب اس مفتی کے فتوی کے بارے میں سنیں کہ اس کا فتوی سراسر قرآن وحدیث کے خلاف ہے ، نبیﷺ کا فرمان ہے:
لَا تَدْخُلُ المَلَائِكَةُ بَيْتًا فيه كَلْبٌ ولَا صُورَةٌ(صحيح البخاري:3322)
ترجمہ:(رحمت کے) فرشتے ان گھروں میں نہیں داخل ہوتے جن میں کتا یا (جاندار کی) تصویر ہو۔
اس لئے کوئی بھی مسلمان اپنے گھر میں شوقیہ کتا نہیں پال سکتا ہے ، ہاں شریعت نے تین قسم کے کتوں کو پالنے کی اجازت دی ہے جن کا ذکر اس حدیث میں ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:مَنِ اتَّخَذَ كَلْبًا إلَّا كَلْبَ ماشِيَةٍ، أوْ صَيْدٍ، أوْ زَرْعٍ، انْتَقَصَ مِن أجْرِهِ كُلَّ يَومٍ قِيراطٌ(صحيح مسلم:1575)
ترجمہ: جو شخص کتا پالے اور وہ شکاری نہ ہو اور نہ جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو، نہ زمین کے (یعنی کھیت کے) تو اس کے ثواب میں سے دو قیراط کا ہر روز نقصان ہوگا۔
جہاں تک مفتی کا پیش کردہ قرآن میں مذکور کتوں کی بات ہے تو ان میں ایک کتا شکاری ہے جس کی ہمیں اجازت ہے اور ایک کتا اصحاب کہف والا رکھوالی کے لئے ہے اس کی بھی علماء نے رخصت دی ہے یعنی ہم حفاظت اور گھروں کی رکھوالی کے لئے کتا پال سکتے ہیں اورمفتی کا یہ کہنا کہ جبریل علیہ السلام ذاتی ذوق کی وجہ سے رسول کے گھر میں نہیں داخل ہوئے سراسر جھوٹ ہے، حقیقت یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام کتے کی وجہ سے ہی آپ کے گھر میں داخل نہیں ہوئے ، پھر آپ نے کتے کو گھر سے نکال دیا۔ تفصیل کے لئے دیکھیں أبوداود(4158)، سنن الترمذي(2806)، صحیح ابن حبان(5854)۔
جن کتوں کو ہمیں رکھنے کی اجازت ہے وہ کتے اگر گھر میں ہوں تو فرشتوں کے گھر میں داخل ہونے سے مانع نہیں ہے۔

سوال (3):کہا جاتا ہے کہ قرض کا ایک روپیہ ادا کرنا ہزار روپیہ صدقہ کرنے سے بہتر ہے اس بات کی کیا حقیقت ہے ؟
جواب : ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے ایسی کوئی بات کی خبر نہیں دی ہے کہ قرض کا ایک روپیہ ادا کرنا ہزار روپیہ صدقہ کرنے سے بہتر ہے، کسی نے اپنے من سے یہ جملہ گھڑ لیا ہے۔ صدقہ کی اپنی جگہ اہمیت ہے ، قرض حسنہ دینے کی اپنی جگہ فضیلت ہے اور قرض کی احسن طریقے سے ادائیگی کا اپنا مقام ہے۔ نبی ﷺ نے قرض کی ادائیگی سے متعلق ارشاد فرمایا:
إنَّ خِيَارَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَاءً.(صحيح مسلم:1600)
ترجمہ:اچھے وہ لوگ ہیں جو قرض کو اچھی طرح سے ادا کریں۔
اسی طرح یہ بھی آپ ﷺ کا فرمان ہے :
إنما جزاءُ السَّلَفَ ، الحمدُ والأداءُ.(صحيح النسائي:4697)
ترجمہ: قرض کا بدلہ اس کو پورا کا پورا چکانا اور قرض دینے والے کا شکریہ ادا کرنا ہے۔
یہاں ایک بات یہ جاننی اہم ہے کہ صدقہ کرنا افضل ہے یا کسی کو قرض دینا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ صدقہ کرنا قرض دینے سے افضل ہے کیونکہ اس میں ادائیگی کی کلفت نہیں ہوتی ہے۔

سوال (4):جنت میں سب سے پہلے کون سی عورت داخل ہوگی ؟
جواب : مردوں میں اس بات کی صراحت ہے کہ نبی ﷺ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے جیساکہ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
آتي بابَ الجَنَّةِ يَومَ القِيامَةِ فأسْتفْتِحُ، فيَقولُ الخازِنُ: مَن أنْتَ؟ فأقُولُ: مُحَمَّدٌ، فيَقولُ: بكَ أُمِرْتُ لا أفْتَحُ لأَحَدٍ قَبْلَكَ.(صحيح مسلم:197)
ترجمہ:میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دروازہ کھلواؤں گا چوکیدار پوچھے گا: تم کون ہو؟ میں کہوں گا: محمد! وہ کہے گا: آپ ہی کے واسطے مجھے حکم ہوا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولنا۔
لیکن عورتوں میں سب سے پہلے جنت میں کون داخل ہوگی اس بات کی کسی حدیث میں صراحت نہیں ملتی ہے ، یہ غیبی امور میں سے ہے اس لئے بلادلیل کچھ نہیں بولنا چاہئے ، فاطمہ رضی اللہ عنہا جنتی عورتوں کی سردار ہوں گی ،نبی ﷺ فرماتے ہیں :
إنَّ هذا ملَكٌ لم ينزلِ الأرضَ قطُّ قبلَ اللَّيلةِ استأذنَ ربَّهُ أن يسلِّمَ عليَّ ويبشِّرَني بأنَّ فاطمةَ سيِّدةُ نساءِ أَهْلِ الجنَّةِ وأنَّ الحسَنَ والحُسَيْنَ سيِّدا شبابِ أَهْلِ الجنَّةِ(صحيح الترمذي:3781)
ترجمہ: یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی الله عنہما اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان) کے سردار ہیں۔

سوال(5):حرم میں خواتین کو دیکھتے ہیں کہ وہ سونے کے بعد اٹھ کر اس کے پاس اسپرے والا پانی کا چھوٹابوتل ہوتا ہے اس سے چھینٹے مار کر وضو کرلیتی ہیں کیا اس سے وضو ہوجاتا ہے ؟
جواب :وضو میں تین تین مرتبہ عضو دھونا اس لئے مسنون ہے تاکہ اچھی طرح سے اعضائے وضو بھیگ جائیں جبکہ ایک ایک مرتبہ بھی عضو دھونا کافی ہے اس شرط کے ساتھ دھونے والی جگہ مکمل بھیگ جائے ،بالکل ہی خشک نہ رہے ۔ وضو میں کسی حصے کا خشک رہ جانا باعث گناہ ہے ، اس پہ سخت وعید آئی ہے ۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا:
رَجَعْنَا مَعَ رَسُولِ مِنْ مَكَّةَ إِلَى المَدِينَةِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِمَاءٍ بِالطَّرِيقِ، تَعَجَّلَ قَوْمٌ عِنْدَ العَصْرِ، فَتَوَضَّؤُوا وَهُمْ عِجَالٌ، فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِمْ، وَأعْقَابُهُمْ تَلُوحُ لَمْ يَمَسَّهَا المَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ: «وَيْلٌ لِلأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ، أسْبِغُوا الوُضُوءَ. (صحیح مسلم :241)
ترجمہ : ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ مکہ سے مدینہ کو واپس لوٹے یہاں تک کہ جس وقت ہم پانی پر پہنچے جو راستہ میں تھا تو کچھ لوگوں نے نماز عصر کے لیے وضو کرنے میں جلدی کی اور وہ لوگ بہت جلدی کرنے والے تھے ، چنانچہ جب ہم ان لوگوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ ان کی ایڑیاں چمک رہی تھیں (خشک رہ جانے کی وجہ سے) کیونکہ ان تک پانی نہیں پہنچا تھا (ان خشک ایڑیوں کو دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ کی صورت میں ہلاکت ہے، مکمل طور پر وضو کرو۔
اعضائے وضو میں سے کسی حصے یا حصے کے بعض حصے کا خشک رہ جانا عدم وضو کی دلیل ہے یعنی وضو ہوا ہی نہیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے وضو کیا اور اس نے اپنے پیر پہ ناخن کے برابر حصہ چھوڑ دیا یعنی ناخن کے برابر پیر پہ خشک رہ گیا۔ آپ نے اسے دیکھا اور فرمایا:ارجِعْ فأحسنْ وضوءَكَ فرجع ثم صلُّى(صحیح مسلم:243)
ترجمہ : لوٹ جاؤ اور اچھے ڈھنگ سے اپنا وضو کرکے آؤ پس وہ لوٹ گیا پھر اس نے (دوبارہ وضو کرکے) نماز پڑھی۔
اسپرے والی چھوٹی بوتل سے اعضائے وضو کامل طور پر نہیں بھیگ سکتے ہیں اور جب وضو نہیں خشکی رہ جائے تو وضو نہیں ہوگا اور وضو نہیں ہوگا تو نماز بھی نہیں ہوگی لہذا مسلم بہنوں سے گزارش ہے کہ اسپرے سے وضو نہ کریں نل پہ جاکر اچھی طرح کامل وضو کریں اور وضو کی خاطر سستی کا مظاہرہ نہ کریں ۔

سوال(6): روٹی کے چار ٹکڑے کرکے کھانا مسنون ہے ؟
جواب: سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ روٹی چار ٹکڑے کرکے کھانا چاہئے ، جتنی مرضی ٹکڑے کریں اور روٹی کھائیں ، کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
سوال(7): مجھے میری امی جمعہ کے دن کپڑے بھگونے سے منع کرتی ہے ، وہ عہد رسالت کا ایک واقعہ بیان کرتی ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سےتنگی کی شکایت کی تو آپ نے اسے کہا اپنی بیوی کوجمعہ کے دن کپڑا دھونے سے منع کرو، اس آدمی نے اس پر عمل کیا دولت اس قدر بڑھ گئی کہ سنبھالنا مشکل ہوگیا پھر اس نے نبی سے اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے کہا جمعہ کے دن کپڑے کا ایک کونہ بھگودو ایسا کرنے سے دولت برابر ہوگئی، اس بات کی کیا حقیقت ہے؟
جواب :آپ کی والدہ نے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ میرے علم میں کسی کتاب میں موجودنہیں ہے ، جمعہ کے دن کپڑا دھونے سے کوئی تنگی نہیں آتی اور نہ ہی اس دن کپڑا نہ دھونے سے اس کے سبب کوئی رزق ملتا ہے ، یہ جہالت اور بداعتقادی ہےاس لئے اپنے ذہن سے اس بات کو نکال دیں ۔ جمعہ تو غسل کا افضل دن ہے، اس دن خصوصی طور پر ہمیں رسول اللہ ﷺ نے غسل کا حکم دیا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ جب ہم کپڑا پہن کر غسل کریں گے تو بھیگے ہوئے کپڑے بھی دھونے ہوں گے ۔ معلوم یہ ہوا کہ جمعہ کے دن غسل کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس دن کپڑا بھی دھوسکتے ہیں ۔
سوال(8):حیض کا غسل جمعہ کے دن نہیں کرسکتے بلکہ کپڑے میں بھی نجاست لگی ہو تو اسے بھی نہیں دھونا ہے ، یہ میری امی کی تعلیم ہے کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب :یہ بات بھی جہالت پر مبنی ہے ، اس جہالت کو بھی اپنے گھروں سے دفع کریں ، کس قدر حیرانی کی بات ہے کہ ایک عورت جمعہ کو حیض سے پاک ہورہی ہے اور محض جہالت کی وجہ سے غسل نہ کرکے اس دن کی ساری نمازیں چھوڑتی ہے ۔یہ تو بہت بڑے گناہ کا کام ہے اس سے باز آئیں ۔ جمعہ ہفتے کی عید ہے، اس دن غسل کرنا ،عمدہ لباس لگانا، خوشبو استعمال کرنا، سورہ کہف کی تلاوت کرنا ، دعا کرنا اور نبی ﷺ پر کثرت سے درود پڑھنا مسنون ہے۔ عورتوں کے لئے مسجد میں جمعہ پڑھنے کا مخصوص انتظام ہو تو مردوں کے ساتھ مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کریں ورنہ ظہرپڑھیں۔
سوال(9): کیا عورت اپنی عزت بچانے کے لئے خودکشی کرسکتی ہے ؟
جواب: اسلام نے ہمیں کسی بھی حال میں خود کو ہلاک کرنے کی اجازت نہیں دی ہے کیونکہ خود کو ہلاک کرنا گناہ کبیرہ ہے اس گناہ کی وجہ سے آدمی آخرت میں بھی خود کو تکلیف پہنچاتا رہے گا، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
مَن تَرَدَّى مِن جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَهو في نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّى فيه خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَن تَحَسَّى سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَسُمُّهُ في يَدِهِ يَتَحَسَّاهُ في نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَن قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ، فَحَدِيدَتُهُ في يَدِهِ يَجَأُ بِهَا في بَطْنِهِ في نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيهَا أَبَدًا.(صحيح البخاري:5778)
ترجمہ: جس نے پہاڑ سے اپنے آپ کو گرا کر خودکشی کرلی وہ جہنم کی آگ میں ہوگا اور اس میں ہمیشہ پڑا رہے گا اور جس نے زہر پی کر خودکشی کر لی وہ زہر اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں وہ اسے اسی طرح ہمیشہ پیتا رہے گا اور جس نے لوہے کے کسی ہتھیار سے خودکشی کر لی تو اس کا ہتھیار اس کے ساتھ میں ہو گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے وہ اسے اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔
اس لئے کسی بھی مسلمان بہن کو کسی بھی حال میں خودکشی نہیں کرنی چاہئے ۔واقعی آج کل مسلمانوں کے حالات بہت برے ہیں،کہیں عزت نفس تو کسی کے لئے گھریلومسائل شدید ہیں ، برے سے برے حالات میں بھی میں اپنی بہنوں سے کہوں گا کہ دلیری سے ان کا مقابلہ کریں اور اللہ سے مدد طلب کریں ۔عزت پہ بن آئے تو عزت بچانے کے لئے حتی المقدوراپنا دفاع کریں ۔ جو کوئی مردوعورت جان ومال اور دین وعزت کے دفاع میں قتل کیا جائے شہید کے حکم میں ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
من قُتِلَ دونَ مالِهِ فَهوَ شَهيدٌ ومن قتلَ دونَ دينِهِ فَهوَ شَهيدٌ ومن قتلَ دونَ دمِهِ فَهوَ شَهيدٌ ومن قتلَ دونَ أَهلِهِ فَهوَ شَهيدٌ(صحيح الترمذي:1421)
ترجمہ:جو اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے، جو اپنی جان کی حفاظت کی خاطر مارا جائے وہ شہید ہے اور جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔
مشکل حد سے زیادہ بڑھ جائے اور صبرکرنا ناممکن ہوتب بھی خودکشی کا راستہ اختیار نہیں کرنا ہے تاہم ایسے حالات میں اللہ سے یہ دعا کرسکتے ہیں:
اللَّهُمَّ أحْيِنِي ما كانَتِ الحَياةُ خَيْرًا لِي، وتَوَفَّنِي إذا كانَتِ الوَفاةُ خَيْرًا لِي.(صحيح مسلم:2680)
ترجمہ :یااللہ! جلا مجھ کو جب تک جینا میرے لیے بہتر ہو اور مار مجھ کو جب مرنا میرے لیے بہتر ہو۔

سوال(10): میری ایک سہیلی کی شادی کئی سالوں سے نہیں ہورہی ہے کوئی وظیفہ بتائیں، شادی کا رشتہ آتا ہے مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں آتاوہ کیا کرے؟
جواب : اسلام میں ایسا کوئی وظیفہ نہیں ہے جسے پڑھنے سے فورا شادی ہوجاتی ہے جو ایسا کہتا ہے وہ لوگوں کا مال ٹھگنے کے لئے کہتا ہے ، مال کےایسے لٹیروں سے ہوشیار رہیں ۔ شادی زندگی کا ایک اہم ترین اور نازک مرحلہ ہے ،اس سلسلے میں اسلام نے ہمیں رہنمائی کی ہے کہ جو شادی کے لائق ہوجائے وہ بلاتاخیردیندار سے شادی کرلے۔ آج کل شادی میں تاخیراورپریشانی اکثر ہماری غفلت اوربے دینی کا نتیجہ ہے۔اولا وقت پر شادی نہیں کرتے ، ثانیا تاخیر سے شادی کا ارادہ کرتے ہیں پھر معیار شادی دولت، حسن وجمال، نوکری،ذات وبرادری ، جاہ ومنصب اور اعلی تعلیم ٹھہراتے ہیں ، اس معیار کی تلاش میں عمر کا ایک حصہ گزرجاتا ہےجبکہ شادی میں معیار فقط دین ہے۔ کبھی شادی ہمارے لئے اللہ کی طرف سے آزمائش بھی ہوسکتی ہے اس لئے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ سے مدد طلب کرنا چاہئے ۔
آپ اپنی سہیلی سے کہیں کہ نماز اورصبر کے ذریعہ اللہ سے مدد مانگے اور اپنے اولیاء سے کہے کہ نکاح کی کوشش جاری رکھے اور دیندار لڑکا مل جائے تو رشتہ طے کرلے خواہ وہ غریب اور کسی ذات کا ہو بس دیندار ہونا چاہئے حتی کہ کوئی شادی شدہ مرد بھی مل جائے تو اس سے شادی میں عار نہیں ہونی چاہئے۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط:۲۰)

جوابات ازشیخ مقبول احمد سلفی
داعی اسلامک دعوۃ سنٹرشمالی طائف-مسرہ

سوال (۱):ایک عورت نے انجانے میں دس دن کا حمل ساقط کیا ہے اب اسے اس عمل پہ افسوس ہورہا ہے اور ڈر رہی ہے کہ قیامت میں بچہ مجھ سے سوال کرے گا کہ میں نے کیوں اس کا قتل کی تھی ، اس عمل کے لئے کیا کفارہ دینا ہوگا؟
جواب : حمل کا اسقاط انجانے میں نہیں ہوتا، یہ ایک سوچا سمجھا اسکیم ہے ، ایساکرنے والوں کو اللہ بہت سے ڈرنا چاہئے،کیا پتہ یہی ایک غلطی اس کی تباہی کا سبب بن جائے ۔ جس عورت نے ایسا کیا ہے اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے ، اس پہ قتل کا گناہ تونہیں ہوگا کیونکہ روح چار ماہ بعد پھونکی جاتی ہے اس لئے اس عورت پہ دیت یا کفارہ نہیں ہے پھر بھی بڑا جرم ہونے کی وجہ سے اسے اللہ سے سچے دل سے توبہ کرنا چاہئے ، اللہ بہت معاف کرنے والا ہے اور آئندہ اس جرم سے بالکلیہ بچنا چاہئے ۔
سوال (۲):کیا ہم نفلی روزوں کی بھی قضا کریں گے اگر کسی وجہ سے توڑنا پڑجائے ؟
جواب : اگر ہم کوئی نفلی روزہ رکھیں تو اسے پورا کریں اور اس نیت سے کبھی کوئی روزہ نہیں رکھیں کہ دل کیا تو توڑ دیں گے ، اس سے عبادت آپ کی نظر میں ہلکی ہوجائے گی اور شیطان اس راستے سے آپ کو بہکانے کی کوشش کرے گا۔ ہاں اگر آپ نے نفلی روزہ رکھا اور اچانک کوئی عذر پیش آگیا اور کوئی عذر نہ بھی ہو اچانک روزہ توڑنے کا خیال پیداہوگیا تو روزہ توڑ سکتے ہیں ، کوئی حرج نہیں ہے اور نفلی روزہ توڑ دیں تو اس کی قضا کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ فرض روزہ نہیں ہے تاہم قضا کرلیں تو اچھی بات ہے ۔
سوال (۳):نکاح کے لئے گواہ بنانا ضروری ہے اور اگر ضروری ہے تولڑکے کی طرف سے لڑکی کے والد یا لڑکے کا باپ یا مامو گواہ بن سکتا ہے ؟
جواب : نکاح صحیح ہونے کے لئے ولی اور دوعادل گواہ ضروری ہے ورنہ نکاح نہیں ہوگا، نبی ﷺ کافرمان ہے :
لا نكاحَ إلا بوَلِيٍّ،وشاهِدَيْنِ(صحيح الجامع:7558)
ترجمہ: ولی اور دوگواہ کے بغیرنکاح نہیں ہے ۔
اپنے سماج میں نکاح نامہ میں لکھا جاتا ہےکہ گواہی کے طورپر لڑکا کی طرف سے فلاں اور لڑکی کی طرف سے فلاں گواہ ہوگا ۔اِس کی طرف سے یا اُس کی طرف سے کہنے اورلکھنےکی ضرورت نہیں ہے ،گواہی کا مقصد اعلان نکاح اوراس کی توثیق ہے ،جو عقد نکاح منعقد کرائے اس کے ذمہ ہے کہ نکاح سے قبل لڑکی کےولی ، اس کے ہونے والے شوہراورنکاح میں گواہی کے طورپردوعادل مسلمان کو حاضر کروائے اور نکاح پڑھادے ۔لڑکی کے ولی گواہ نہیں بن سکتے البتہ لڑکے کا باپ اور دیگر کوئی بھی دوعادل مسلمان گواہ بن سکتے ہیں۔

سوال (۴):جیساکہ عموما رات میں روٹیاں بنانی ہوتی ہیں اور پھر عشاء کی نماز پڑھنی ہوتی ہے ، اس لئے اس سے متعلق میرا سوال ہے کہ اگر ناخن یا ہاتھ پر آٹا لگا رہ جائے اور ہم وضو کرکے نماز پڑھ لیں اور بعد میں وہ آٹا نظر آئے تو کیا میری نماز نہیں ہوئی ؟
جواب :ہاں آپ کی نماز ہوجائے گی کیونکہ آٹا لگنے سے وضو میں کوئی خلل نہیں ہوتا ۔ وضو میں خلل ایسی چیز سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے پانی جلد پر نہ پہنچ سکے جبکہ ہاتھ پر آٹا لگا ہو تو وضو کرتے وقت پانی اندر سرایت کرسکتا ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ آٹا ہاتھ میں یا اعضائے وضو میں لگ کر بالکل سوکھ گیا ہو اور آپ اچھی طرح وضو نہ کریں ، جھٹ پٹ وضو کریں تو اس صورت میں پانی جلد میں سرایت کرنے سے رہ سکتا ہے لہذا احتیاط کی ضرورت ہے۔
سوال (۵):ولادت سے قبل آنے والا خون کس حکم میں ہے اور اس میں نماز کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اگر ولادت سے دوتین روز قبل دردزہ اور ولادت کے آثارکے ساتھ خون آئے تو یہ نفاس کے حکم میں ہے اس وجہ سے عورت نماز وروزہ ترک کردے گی لیکن ولادت سے زیادہ دن پہلے ہو یا ولادت کی کوئی علامت نہ ہو تو یہ خون فاسد ہوگا ایسی حالت میں عورت کو نمازی جاری رکھنا ہے۔ بسااوقات حاملہ کو حیض کا بھی خون آسکتا ہے لیکن یہ نادرہی ہوتا ہےجیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اوردیگر اہل علم نے ذکر کیا ہے۔
سوال (۶):مسجد میں اجتماعی طور پر رقیہ کرنا کیسا ہے جبکہ عورت ومرد سبھی ہوں اور بیٹھنے کا علاحدہ انتظام بھی ہو؟
جواب :گوکہ بعض علماء نے اجتماعی رقیہ کو جائز قرار دیا ہے مگر درست بات یہ ہے کہ اجتماعی طورپر رقیہ کرنا دین میں نئی ایجاد ہے ، اس کی کوئی اصل موجود نہیں ہے ۔ یہ طریقہ دراصل کم وقت میں زیادہ مال کمانے کی غرض سے ایجاد کیا گیا ہے جیساکہ شیخ صالح فوزان نے ذکر کیا کہ اجتماعی طورپر رقیہ کرنے کی دین میں کوئی اصل نہیں ہے ،یہ بدعت ہے۔ یہ لوگ مال کے حرص میں ایسا کرتے ہیں تاکہ زیادہ لوگوں پر پھونک ماریں اور زیادہ مال کمائیں ۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ رقیہ سنٹرکھولنا جائز نہیں ہے ، یہ دین میں ایسی گمراہی ہےجس سے سماج میں متعدد قسم کے شروفساد ظاہر ہوتے ہیں اور اجتماعی رقیہ بھی رقیہ سنٹر اور اس کی معیشت سے جڑا ہوا ہے ۔ پیسے کی ہوس میں اجتماعی رقیہ کی نئی نئی شکلیں پیدا ہورہی ہیں ،کوئی مساجد کو ڈھال بنا رہا ہے تو مائیکروفون استعمال کررہاہے ، کوئی ہوامیں تو کوئی موبائل فون میں پھونک مار رہاہے حتی کہ بعض لوگ انٹرنیٹ پہ آن لائن اجتماعی رقیہ کرتے نظر آتے ہیں ، یہ سب گمراہی اور بدعت کے راستے ہیں۔رقیہ کی جائز شکل انفرادی ہے وہ بھی بغیر سنٹر کھولےیعنی انفرادی طورپر ہر کسی کے لئے علاحدہ رقیہ کیا جائے گاحتی کہ اس پر اجرت بھی لی جاسکتی ہے تاہم اس کام کے لئے سنٹرنہیں کھول سکتے ہیں ۔

سوال (۷):اپنے محرم رشتہ داروں کو بوسہ دینے کا کیا حکم ہے ؟
جواب :مرد کا اپنی محرمات کو بوسہ لینا جائز ہے بشرطیکہ فتنے کا خوف نہ ہواور بوسہ بھی پیشانی یا سر کا ہی لیا جاسکتا ہے،رخساروں اور ہونٹوں کا نہیں تاہم باپ اپنی بیٹی یابیٹااپنی ماں کے رخسار کا بوسہ لے سکتا ہے ، حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رخسار کا بوسہ لیا تھا۔ جب فتنے کا خوف ہو مثلا جوانی یا خوبصورتی وغیرہ سےتو بوسہ لینا جائز نہیں بطور خاص رضاعی اور سسرالی محرمات میں ۔
سوال (۸):کیا بہو سسر کی اس قسم کی خدمت کرسکتی ہے مثلا بدن دبانا، تیل مالش ، کپڑے کی تبدیلی وغیرہ ؟
جواب : سسر کی خدمت کی ذمہ داری اس کی اولاد یعنی بیٹا اور بیٹی پر ہے تاہم احسان کے جذبہ کے تحت بہو بھی اپنے سسر کی خدمت کرسکتی ہے ۔ سسر بہو کے لئے محرم ہے اس وجہ سے اس کے پاس آجاسکتی ہے ۔ فتنہ کا خوف نہ ہو تو سسر کی ضروری خدمت مثلا مالش کرنا،بدن دباناا اور کپڑا تبدیل کرنا صحیح ہے اور فتنہ کا خوف ہے تو نہیں صحیح ہے۔
سوال (9):میں نے یہ ارادہ کی تھی کہ اگر لڑکا ہوا تو اس کا نام عبد اللہ رکھوں گی اورپہلے اولاد لڑکا ہوئی بھی لیکن بچہ اللہ کو پیارا ہوگیا یعنی اس کاانتقال ہوگیا۔ اب اللہ پاک نے پھر اولاد کی نعمت سے نوازا ہے، میں چاہتی ہوں کہ اس کا نام عبداللہ رکھو لیکن کچھ لوگ منع کررہےہیں، اس حال میں کیا جائے ؟
جواب: اصل میں لوگوں کے منع کرنے کی وجہ یہ غلط فہمی ہے کہ جس نام کا بچہ مرجائے وہی نام دوسرے بچے کا رکھنے سے اس بچے پر بھی اثر پڑتاہے، یہ سراسر جہالت اور ضعیف الاعتقادی ہے۔زندگی اور موت کا مالک اللہ رب العالمین ہے ، وہ جسے چاہتا ہے زندگی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے موت دیتا ہے ، نام سے زندگی اور موت کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
آپ بلاتردد اپنے بچے کا نام عبداللہ رکھ سکتی ہیں بلکہ یہ نام رکھیں اور سماج والوں کو تعلیم دیں کہ زندگی اورموت کا مالک اکیلا اللہ ہے ، اس کے حکم کے بغیر کسی کو موت نہیں آسکتی ہے۔

سوال (۱۰):اسکین کو خوبصورت کرنے کے لئے وائٹنگ انجکشن لگائے جاتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : آج زمانہ اس قدر ترقی کرچکا ہے کہ بدصورت جسم وچہرہ کو خوبصورت بنا دیا جاتا ہے ، لوگوں کا خصوصاعورتوں کااس جانب کافی رجحان ہوگیا ہے ، اس بارے میں شریعت کا موقف یہ ہے کہ اگر خوبصورتی چندلمحے یا چند ایام کے لئے اختیار کی جاتی ہے مثلا مہندی یا زینت والے کریم وپاؤڈر تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہےکیونکہ یہ زائل ہونے والی اور عارضی زینت کی چیز ہے لیکن اگر آپریشن یا انجکشن کے ذریعہ مستقل طور پر جسم یا جسم کے کسی عضوچہرہ یا ہاتھ وپیر کی رنگت تبدیل کردی جائےتو یہ جائز نہیں ہے خواہ چند ماہ یا چند سال کے لئے ہی کیوں نہ ہوکیونکہ یہ فطرت کی تبدیلی میں شامل ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے ، اللہ کا فرمان ہے:
وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ
ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا (النساء:119)
ترجمہ:اورانہیں راہ سے بہکاتا رہوں گا اور باطل امیدیں دلاتا رہوں گا اور انہیں سکھاؤں گا کہ جانوروں کے کان چیر دیں اور ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالٰی کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں ، سنو! جو شخص اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنائے گا وہ صریح نقصان میں ڈوبے گا ۔
سیدنا ابو حجیفہ ؓ سے روایت ہے:
لَعَنَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ الوَاشِمَةَ والمُسْتَوْشِمَةَ، وآكِلَ الرِّبَا ومُوكِلَهُ، ونَهَى عن ثَمَنِ الكَلْبِ، وكَسْبِ البَغِيِّ، ولَعَنَ المُصَوِّرِينَ(صحيح البخاري:5347)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گودنے والی اور گدوانے والی، سود کھانے والے اور کھلانے والے پر لعنت بھیجی اور آپ نے کتے کی قیمت اور زانیہ کی کمائی کھانے سے منع فرمایا اور تصویر بنانے والوں پر لعنت کی۔
اس حدیث میں لفظ"الوَاشِمَةَ والمُسْتَوْشِمَةَ" وارد ہے جو وشم سے بنا ہے اور الوشم کہتے ہیں جسم گدوانے کو یعنی جسم میں سوئی چبھوکر اس کی رنگت بدل لینا ۔ یہ گودنا مستقل طورپرانجکشن سے ہو یا آپریشن سے ہو یا کسی الکٹرانک آلے سے ہو تمام اقسام ناجائز ہیں، ایسی حرکت کرنے والی اور کروانےوالی عورتوں پر لعنت بھیجی گئی ہے لہذا مسلمان عورتوں کو اس ملعون کام سے بچنا چاہئے۔

سوال (۱۱):کیا میں بچوں کو پانی یا شہد پلانے کے لئے چاندی کا برتن استعمال کرسکتی ہوں ؟
جواب : بچے ہوں یامرد ہو یا عورت ہو کسی کے لئے سونے اور چاندی کے برتن کا استعمال جائز نہیں ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
لا تَشْرَبُوا في آنِيَةِ الذَّهَبِ والفِضَّةِ، ولَا تَلْبَسُوا الحَرِيرَ والدِّيبَاجَ، فإنَّهَا لهمْ في الدُّنْيَا ولَكُمْ في الآخِرَةِ(صحيح البخاري:5633)
ترجمہ:سونے اور چاندی کے پیالہ میں نہ پیا کرو اور نہ ریشم و دیبا پہنا کرو کیونکہ یہ چیزیں ان کے لیے دینا میں ہیں اور تمہارے لیے آخرت میں ہیں۔
اسی طرح آپ ﷺ کا فرمان ہے:
الَّذِي يَشْرَبُ في إناءِ الفِضَّةِ إنَّما يُجَرْجِرُ في بَطْنِهِ نارَ جَهَنَّمَ(صحيح البخاري:5634)
ترجمہ: جو شخص چاندی کے برتن میں کوئی چیز پیتا ہے تو وہ شخص اپنے پیٹ میں دوزخ کی آگ بھڑکا رہا ہے۔
اس قدر شدید وعید آجانے کے بعد کیا کوئی مسلمان سونے اور چاندی کے برتن میں کھانا کھا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ ان تمام برتنوں سے بھی بچے گا جن میں سونا یا چاندی کی ملاوٹ ہو۔

سوال (۱۲): کیا دسترخوان پر کھانا کھانا سنت ہے ؟
جواب : نبی ﷺ زمین پر بیٹھ کر اور دسترخوان پر کھانا رکھ کر کھاتے تھے ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
ما عَلِمْتُ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أكَلَ علَى سُكْرُجَةٍ قَطُّ، ولَا خُبِزَ له مُرَقَّقٌ قَطُّ، ولَا أكَلَ علَى خِوَانٍ قَطُّ قيلَ لِقَتَادَةَ: فَعَلَامَ كَانُوا يَأْكُلُونَ؟ قالَ: علَى السُّفَرِ(صحيح البخاري:5386)
ترجمہ: میں نہیں جانتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تشتری رکھ کر (ایک وقت مختلف قسم کا) کھانا کھایا ہو اور نہ کبھی آپ نے پتلی روٹیاں کھائیں اور نہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میز پر کھایا۔ قتادہ سے پوچھا گیا کہ پھر کس چیز پر آپ کھاتے تھے؟ کہا کہ آپ دستر خوان پر کھانا کھایا کرتے تھے۔
ہمارے لئے بہتر وافضل یہی ہے کہ نبی ﷺ کی اقتدا میں زمین پر بیٹھ کرکھانا چاہیں تاہم کوئی کھانے کے لئے میز کا استعمال کرے تو اس میں بھی حرج نہیں ہے، نبی ﷺ نے تواضع کے طور پر میز پر کھانا ترک کیا تھا۔

سوال (۱۳):میری آنکھیں نیلی ہیں اور مجھے دوسری خواتین کہتی ہیں نیلی آنکھوں والی بے وفا ہوتی ہیں کیایہ صحیح ہے ؟
جواب : اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ عورتوں کی جہالت وغلط فہمی پر مبنی ہے، اللہ نے جس کو چاہا جیسے بنایا ہے ، بناوٹ کا بے وفائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بے وفائی برے کردار سے تعلق رکھتی ہے بناوٹ سے نہیں یعنی عورت بری ہوگی تو وہ بے وفا ہوسکتی ہے لیکن اچھی عورت بے وفا نہیں ہوسکتی چاہے بھلے اس کی آنکھیں نیلی ہوں.
سوال(۱۴): کیا عورت احرام کی حالت میں بچے کا ڈائپر بدل سکتی ہے اور وائپس جس میں خوشبو ہوتی ہے اس سے صفائی کر سکتی ہے ؟
جواب : ہاں ، عورت احرام کی حالت میں بچے کا ڈائپربدل سکتی ہے لیکن صفائی کے لئے خوشبوداروائپس کا استعمال نہیں کرسکتی کیونکہ محرم کے لئے خوشبوکا استعمال ممنوع ہے، وائپس میں خوشبو نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال (۱۵): میں ایک خاتون ہوں کبھی کبھی نماز کے دوران پیٹ سے آواز آتی ہے کیا اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟
جواب : نہیں ، پیٹ سے آواز آنے پر وضو نہیں ٹوٹتا ،نہ ہی اگلی شرمگاہ سے ہوا نکلنے پر وضو ٹوٹتا ہے بلکہ وضو عورت کی پچھلی شرمگاہ(پاخانہ کی جگہ) سے ہوا نکلنے پر ٹوٹتا ہے کیونکہ یہ نجاست کی جگہ ہے ۔ نجاست کی جگہ سےہوا نکلنے پر وضو ٹوٹنے کی حکمت یہ ہے کہ ہوا بھی نجاست کا ایک حصہ ہے ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط-21)


جواب از مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرمسرہ –طائف

سوال(1): کیا عورت اپنے ہار میں کعبہ کی تصویر لگاسکتی ہے اور ایسا ہار لگاکر حمام جا سکتی ہے ؟
جواب: کعبہ مسلمانوں کا قبلہ اوربہت ہی مقدس جگہ ہے ،اس کی جانب تھوکنے سے بھی ہمیں منع کیا گیا ہے اور استنجاکے وقت پیٹھ یا چہرہ کرنا بھی منع ہے اس لئے ایسی مقدس چیز کو گلے میں لگاکر عورت حمام نہیں جاسکتی ہےبلکہ اسے اپنے ہار میں کعبہ کی تصویر ہی نہیں لگانی چاہئے تاکہ اللہ کے عظیم گھر کا تقدس نہ پائمال نہ ہو۔یہاں یہ بھی یاد رہے کعبہ کی تصویر سے برکت حاصل کرنا جائز نہیں ہے ۔

سوال(2): کیا عورت آوازکے ساتھ مختلف قسم کے کھانوں کی ویڈیوزبناکر یوٹیوب پر ڈال سکتی ہے ،اس میں ہاتھ کی بھی تصویر آئے گی مگر اس پردستانہ لگاہوگا،واضح رہے یوٹیوب پرویڈیوزڈالنے کا مقصد کمائی کرنا ہے۔
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ عورت کی آوازباعث فتنہ ہے اس لئے عورت کو اپنی آواز کی حفاظت کرنی چاہئے، دوسری بات یہ ہے کہ یوٹیوب پر لاکھوں کی تعداد میں ہر قسم کے کھانوں کی ویڈیوز پہلے سےموجود ہیں بلکہ لمحہ بہ لمحہ مزید لوڈہورہی ہیں ایسے میں یہ کام بلاضرورت اور فضول ہے ، تیسری بات یہ ہے کہ یوٹیوب کے ذریعہ حلال پیسے کمانا بہت مشکل ہے کیونکہ یہاں پر پیسے گوگل کے پرچار سے ملتے ہیں اور یہودی میڈیا کا پرچارجھوٹ، فریب، جوا، سود، موسیقی اور فحش وحرام چیزوں سے پاک ہو ناممکن نہیں ہے۔یوٹیوب کی کمائی پر میرامفصل مضمون ہے اسے پڑھنا مفید ہوگا۔ خلاصہ یہ ہواکہ عورت کا کھانا بنانے کی ویڈیوزبناناایک فضول کام ہے ، اس میں اپنی آوازڈالنا بھی فتنہ کا سبب ہے ، لوگ حسن صوت اورکیفیت پہ تعریفی کمنٹ کریں گے پھر اس کے ذریعہ حلال پیسہ کمانا بھی مشکل ہے اس لئے یہ کام نہ کیا جائے اس سے بہتر ہے قرآن وحدیث کا تحریری اسکرین لگاکر دین کی خدمت کریں ۔

سوال(3): کیا مسورکی دال میں ستر انبیاء کی برکات شامل ہیں؟
جواب:نہیں ، ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ طبرانی میں ایک حدیث ہے ،وائلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عليكُم بالقَرعِ فإنَّهُ يزيدُ بالدِّماغِ ، عليكُم بالعدَسِ فإنَّهُ قُدِّسَ علَى لسانِ سبعينَ نبيًّا۔
ترجمہ: کدو کو لازم پکڑو اس لئے کہ یہ دماغ کو بڑھاتا ہے اوردال کو لازم پکڑو کیونکہ اسے ستر انبیاءکی زبان پر لگنے کا شرف حاصل رہا ہے۔
یہ موضوع اور من گھرنت حدیث ہے ۔ دیکھیں :(السلسلة الضعيفة:510)

سوال(4): میں نے کبھی ابرو نہیں بنایامگر شادی کے موقع پر بناؤسنگار دیکھاجاتا ہے کیا ہم اس دن ابروبناسکتے ہیں؟
جواب: اللہ تعالی نے آپ کو شادی کی توفیق دی اوراس موقع پر صحت وتندرستی برقرار رکھی یہ اس کی بڑی توفیق ہے ایسے موقع سے رب کا شکریہ بجالانا چاہئے اور گناہوں کے کام سے بچنا چاہئے ۔ آپ نے کہا کہ میں نے زندگی میں کبھی ابرو نہیں بنائی مگر شادی کے موقع سے لوگوں اور شوہرکے واسطے بناسکتی ہوں تومیں آپ سے کہوں گا کہ یہ بھی آپ پر اللہ کا احسان ہے کہ ابھی تک ابروبناکر گنہگار نہیں ہوئیں جبکہ کتنی خواتین باربار یہ گناہ کرتی ہیں ،آپ آج بھی ابرونہ بناکر اس گناہ سے بچ جائیں ،ہوسکتا ہے یہی چھوٹی نیکی اللہ کو بہت پسند آجائے اوروہ آپ کی ازدواجی زندگی کو سنوار دے ۔ اس موقع پر ایک حدیث سےآپ بھی اور دوسری خواتیں بھی نصیحت حاصل کریں۔ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إلى النبيِّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، فَقالَتْ: يا رَسولَ اللهِ، إنَّ لي ابْنَةً عُرَيِّسًا أَصَابَتْهَا حَصْبَةٌ فَتَمَرَّقَ شَعْرُهَا أَفَأَصِلُهُ، فَقالَ: لَعَنَ اللَّهُ الوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوْصِلَةَ. وفي روايةٍ : فَتَمَرَّطَ شَعْرُهَا(صحيح مسلم:5565) ‏‏‏‏
ترجمہ:ایک عورت آئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور عرض کیا، یا رسول اللہ! میری بیٹی دلہن ہے اور اس کے چیچک نکلی ہے بال گر گئے ہیں۔ کیا میں جوڑ لگا دوں اس کے بالوں میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لعنت کی اللہ نے جوڑ لگانے والی اور لگوانے والی پر۔
ذرا غورکریں جس دلہن کے سرپہ بال نہ ہو وہ کتنی تکلیف میں ہوگی مگر رسول اللہ ﷺ نے اس تکلیف میں بھی مصنوعی بال لگانے سے منع کیا ، اس لئے آپ ابرو بنانے سے بچیں کیونکہ اللہ کے رسول نے ابرو کے بال بنانے والیوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ زینت کے بہت سارے حلال طریقے ہیں انہیں اپنائیں۔

سوال(5): کیا حیض والی عورت رقیہ کرسکتی ہے یا جو حالت حیض میں ہو اس پر رقیہ کیا جاسکتا ہے ؟
جواب: ہاں ، حیض والی عورت رقیہ کرسکتی ہے اور جس کو حیض آیا ہو اس عورت پر بھی رقیہ کیا جاسکتا ہے ۔ حالت حیض میں ذکر واذکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

سوال(6): بانجھ عورت سے شادی کرنا کیسا ہے ؟
جواب: بانجھ عورت سے شادی کرنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایاہے ، معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جاءَ رجلٌ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ ، فقالَ : إنِّي أصَبتُ امرأةً ذاتَ حسبٍ وجمالٍ ، وإنَّها لا تلِدُ ، أفأتزوَّجُها ، قالَ : لا ثمَّ أتاهُ الثَّانيةَ فنَهاهُ ، ثمَّ أتاهُ الثَّالثةَ ، فقالَ : تزوَّجوا الوَدودَ الولودَ فإنِّي مُكاثرٌ بِكُمُ الأُممَ(صحيح أبي داود:2050)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: مجھے ایک عورت ملی ہے جو اچھے خاندان والی ہے، خوبصورت ہے لیکن اس سے اولاد نہیں ہوتی تو کیا میں اس سے شادی کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پھر وہ آپ کے پاس دوسری بار آیا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منع فرمایا، پھر تیسری بار آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خوب محبت کرنے والی اور خوب جننے والی عورت سے شادی کرو، کیونکہ (بروز قیامت) میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔
اس لئے افضل یہی ہے کہ بچہ پیداکرنے والی عورت سے شادی کی جائے تاکہ جنسی خواہش کی تکمیل اور شرمگاہ کی حفاظت کے ساتھ اولاد کی نعمت بھی میسر ہو تاہم بانجھ سے بھی شادی کی جاسکتی ہے۔

سوال(7): کیا عورت مونچھ کے بال نکال سکتی ہے ؟
جواب:اگر عورت کو مونجھ کے بال نکل آئے تو اس کو صاف کر سکتی ہے۔

سوال(8): کیا عورت ہاتھ اور پیر کی ویکس کراسکتی ہے؟
جواب: جسم میں بالوں کی تین اقسام بنتی ہیں ایک قسم وہ ہے جس کو زائل کرنے کا حکم ہے مثلا بغل اور زیرناف، دوسری قسم وہ ہے جس کو زائل کرنا منع ہے مثلا ابرو اور داڑھی اور تیسری قسم وہ ہے جس کو زائل کرنے اور نہ کرنے کے متعلق شریعت خاموش ہےاس قسم کے مسائل کے متعلق نبی ﷺ کا یہ حکم ملتا ہے۔ الحلالُ ما أحلَّ اللَّهُ في كتابِهِ والحرامُ ما حرَّمَ اللَّهُ في كتابِهِ وما سَكتَ عنْهُ فَهوَ مِمَّا عفى عنْهُ(صحيح الترمذي:1726)
ترجمہ: حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کردیا، اور حرا م وہ ہے ، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کردیا اورجس چیزکے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کردیاہے۔
لہذا جسم کے اس حصے کا بال جس کے متعلق شریعت خاموش ہے مرد وعورت کاٹ سکتے ہیں۔

سوال(9): چھوٹی بچی کب سے پردہ کرنا شروع کرے گی ؟
جواب: کوئی بھی لڑکی بلوغت (حیض واحتلام)کے بعد ہی شریعت کا مکلف ہوتی ہے اس لئے پردہ بھی بالغ ہونے کے بعد ہی فرض ہوتا ہے تاہم اسلامی آداب وتربیت کے تحت بچپن سےاپنی بچیوں کو پردہ کرنا سکھانا چاہئے اس سے بچی میں حیا بڑھتی ہے اور آئندہ پردہ کرنے میں آسانی رہتی ہے ۔ سوال(10): کیا عورت عدت وفات میں بیمار ماں کی زیارت کرسکتی ہے اور بطورخدمت چند دن وہاں ٹھہر سکتی ہے؟
جواب:عدت وفات میں عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے گھر میں باقی رہے اور گھر سےکہیں باہر بغیر شدید ضرورت کے نہ نکلے ۔ معتدہ اپنی بیماروالدہ کی زیارت کے لئے بھی گھر سے نہیں نکلے گی سوائے اس کے کہ اس کی ماں کی خدمت کرنے والا کوئی نہ ہو تو وہاں جاکر خدمت کرسکتی ہے اور ضرورت ختم ہوتے ہی اپنے گھرلوٹ جائے گی ۔

سوال(11) کیا میرے لئے بھانجے اور بھتیجے محرم ہیں یا ان سے پردہ کرنا ہے؟
جواب :سگابھانجہ اور سگا بھتیجا محرم میں داخل ہیں اس لئے ان سے پردہ نہیں ہے۔

سوال(12): آجکل پھلوں والے حقے پائے جاتے ہیں جن میں نشہ نہیں ہوتا ایسے حقوں کا کیا حکم ہے ؟
جواب: حقہ حقہ ہی ہوتا ہے ، چاہے پھل اور پھول والا ہو یا کوئی اور؟ اس میں بھی نشہ کی کچھ مقدار ملائی جاتی ہے ، نشہ کچھ بھی نہ ہو تب بھی اس سے خارج ہونے والا دھواں طبی رپورٹ کے مطابق جسم وصحت کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ اور طویل المیعاد ہوتاہے بلکہ حقہ کو سگریٹ سے زیادہ ہلاکت خیز مانا جاتاہے۔ اس کی بدبو اپنی جگہ ۔ اسلام نے ہمیں جسم کو نقصان پہنچانے والی چیزوں کو استعمال کرنے سے منع کیا ہے اس لئے حقہ کا استعمال نہ کریں خواہ نشہ آور ہو یا خوشبودار وذائقہ دار۔

سوال(13): کیا بوڑھی عورت بھی عدت وفات گزارے گی ؟
جواب : ہاں ، اسلام نے کسی بھی عورت کو عدت وفات سے مستثنی نہیں کیاہے ، ہر قسم کی عورت اپنے شوہر کی وفات پہ چار ماہ اور دس دن عدت گزارے گی جیساکہ اللہ کا فرمان ہے :وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا(البقرة: 234)
ترجمہ: اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ۔

سوال(14): کیا عورت کے لئے بھی کسی سےبیعت لینا ضروری ہے؟
جواب : چونکہ حنفیوں اور دیوبندیوں کے یہاں مردوں کی طرح عورتوں کی بھی بیعت ہوتی ہے اس لئے عوام کی طرف سے یہ سوال آتا ہے کہ کیا عورتوں کو بھی بیعت لینا ضروری ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے ملکوں میں پیروں اور مرشدوں کے نام پر جو بیعت لی جاتی ہے وہ صوفیوں کا طریقہ ہے اوریہ دین میں نئی ایجاد ہے جسے بدعت کہیں گے ، صوفی پکا بدعتی ہوتا ہے اس کے پاس کبھی جانا ہی نہیں چاہئے۔ قرآن وحدیث میں عوام کے لئے اس طرح کی کسی بیعت کا ثبوت نہیں ہے ،نہ مردوں کے لئےاور نہ ہی عورتوں کے لئے ۔ بیعت صرف مخصوص لوگوں کے لئے ہے وہ بھی اس وقت جب مسلمانوں کا کوئی خلیفہ اور امام موجود ہو جبکہ ہمارے ملکوں میں کوئی خلیفہ اور امام نہیں ہے جمہوری نظام ہے اور مسلمان فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ایسی صورت میں مخصوص لوگوں کے لئے بھی کوئی بیعت نہیں اور عوام کے لئے تو ویسے بھی نہیں ہے۔

سوال(15): جس عورت کا بچہ مرجائے اس کے لئے کوئی اجر ہے ؟
جواب: جس عورت کا بچہ مر جائے اور وہ پہلی فرصت میں اللہ سے اجر کی امید کرتے ہوئے صبر کرےتو اس کے لئے اجر وثواب ہے اور صبر کا بدلہ اللہ کے یہاں جنت ہے ، ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يقولُ اللَّهُ سبحانَه ابنَ آدمَ إن صبرتَ واحتسبتَ عندَ الصَّدمةِ الأولى لم أرضَ لَك ثوابًا دونَ الجنَّةِ(صحيح ابن ماجه:۱۳۰۸)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے آدمی! اگر تم مصیبت پڑتے ہی صبر کرو، اور ثواب کی نیت رکھو، تو میں جنت سے کم ثواب پر تمہارے لیے راضی نہیں ہوں گا۔
اسی طرح اولاد کی وفات پر صبر کرنے سے عورتوں کو جنت کی بشارت دی گئی ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ، قالَ لِنِسْوَةٍ مِنَ الأنْصَارِ:لا يَمُوتُ لإِحْدَاكُنَّ ثَلَاثَةٌ مِنَ الوَلَدِ فَتَحْتَسِبَهُ، إلَّا دَخَلَتِ الجَنَّةَ فَقالتِ امْرَأَةٌ منهنَّ: أَوِ اثْنَيْنِ يا رَسُولَ اللهِ؟ قالَ: أَوِ اثْنَيْنِ(صحيح مسلم:2632)
‏‏‏‏ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی عورتو ں سے فرمایا:تم میں سے جس کے تین لڑکے مر جائیں اور وہ اللہ کی رضا مندی کے واسطے صبر کرے تو جنت میں جائے گی۔ ایک عورت بولی: یا رسول اللہ! اگر دو بچے مریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دو ہی سہی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
أَتَتِ امْرَأَةٌ النبيَّ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ بصَبِيٍّ لَهَا، فَقالَتْ: يا نَبِيَّ اللهِ ادْعُ اللَّهَ له، فَلقَدْ دَفَنْتُ ثَلَاثَةً، قالَ: دَفَنْتِ ثَلَاثَةً؟ قالَتْ: نَعَمْ، قالَ: لَقَدِ احْتَظَرْتِ بحِظَارٍ شَدِيدٍ مِنَ النَّارِ(صحيح مسلم:2636)
‏‏‏‏ ترجمہ:ایک عورت ایک بچہ لے کر آئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی، دعا کیجئیے اس کے لیے (عمر دراز ہو نے کی) کیونکہ میں تین بچوں کو دفنا چکی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:تو نے ایک مضبوط آڑ کر لی جہنم سے۔
جب کوئی بچہ بلوغت سے پہلے مرجاتا ہے تو وہ جنت میں جاتا ہے کیونکہ اس کی پیدائش فطرت اسلام پہ ہوتی ہے اور وہ اسی فطرت پہ مرجاتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ في الجنَّةِ والشَّهيدُ في الجنَّةِ والمولودُ في الجنَّةِ والوئيدُ في الجنَّةِ( صحيح أبي داود: 2521)
ترجمہ: نبی جنت میں ہوں گے ، شہید جنت میں جائے گا ، چھوٹا بچہ جنت میں جائے گا اور زندہ دفن کیا گیا بچہ جنت میں جائے گا ۔
اس بچہ کی وفات پہ جب والدین صبر کرتے ہیں تو جنت میں اس کے لئے بیت الحمد کے نام سے ایک گھر بنا دیا جاتا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا ماتَ ولَدُ العبدِ قالَ اللَّهُ لملائِكتِهِ قبضتم ولدَ عبدي فيقولونَ نعم فيقولُ قبضتُم ثمرةَ فؤادِهِ فيقولونَ نعم فيقولُ ماذا قالَ عبدي فيقولونَ حمِدَكَ واسترجعَ فيقولُ اللَّهُ ابنوا لعبدي بيتًا في الجنَّةِ وسمُّوهُ بيتَ الحمْدِ(صحيح الترمذي: 1021)
ترجمہ: جب کسی بندے کا بچہ فوت ہوجاتاہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتاہے: تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کر لی؟تووہ کہتے ہیں: ہاں، پھر فرماتاہے: تم نے اس کے دل کاپھل لے لیا؟ وہ کہتے ہیں: ہاں۔ تواللہ تعالیٰ پوچھتاہے: میرے بندے نے کیاکہا؟ وہ کہتے ہیں:اس نے تیری حمد بیان کی اور'إنا لله وإنا إليه راجعون ' پڑھاتو اللہ تعالیٰ فرماتاہے: میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنادو اور اس کانام بیت الحمد رکھّو۔
ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ فوت ہونے والا نابالغ بچہ جنت میں جائے گا اور اس کی موت پر صبر کرنے والی ماں کو اجر وثواب ملتا ہے اور جنت نصیب ہوتی ہے۔

سوال(16): شادی کے لئے لڑکی کی تصویر دی جاسکتی ہے؟
جواب: آج کے زمانے میں شادی کے لئے تصویر دکھانے سے کام نہیں چلتا، نہ تصویر پر بھروسہ ہوتا ہے یعنی بغیر دیکھے شادی نہیں ہوتی ہے اس لئے تصویر دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، اگر تصویرکا مطالبہ ہو تو کہیں کہ گھر آکر عورتیں یا وہ لڑکا جس کی شادی مقصود ہو دیکھ لے ۔ مخصوص طور پر تصویر لڑکے کو بھیجی جائے اور دیکھ لینے کے بعد واپس مانگ لی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال(17): جس کھانے کو ہم کھاتے ہیں کیا اس کو سونگھ سکتے ہیں؟
جواب : ضرورت پڑنے پر کھانے پینے کی چیز کو سونگھنے میں حرج نہیں ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں کیا ہے البتہ کھانے پینے کی چیزوں میں سانس لینے سے منع کیا ہے تو سونگھتے وقت برتن میں ہمیں سانس نہیں لینا ہےاور طبرانی کی معجم کبیر میں ایک حدیث ہے کہ سونگھ کر کھانا جانوروں کا طریقہ ہے وہ حدیث ضعیف ہے ۔ لا تَشُمُّوا الطعامَ ، كما تشُمُّهُ السباعُ(ضعيف الجامع:6236)
ترجمہ: سونگھ کر کھانا نہ کھاو جس طرح درندے(حیوان) سونگھ کر کھاتے ہیں۔

سوال(18): پردے میں رہتے ہوئے مصنوعی بال یا مصنوعی پلک لگانا اور ابروبنانا کیسا ہے؟
جواب: جو چیزفی نفسہ حرام ہو وہ پردے میں کریں یا مجمع عام میں حرام ہی ہوگی، اس لئے کسی عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ پردے میں یا پردے سے باہر مصنوعی بال اور مصنوعی پلک لگائےاور ابرو بنائے۔

سوال(19): بعض عورتیں رکارڈشدہ رقیہ پانی کو سناکر اسے دم کی نیت سے پیتی ہیں کیا یہ صحیح ہے؟
جواب: یہ صحیح نہیں ہے ، رقیہ کی اصل زبان سے پڑھنا ہے ، جو عورت دم کرنا چاہتی ہے وہ اپنی زبان سے مسنون اذکار پڑھ کر جسم پر دم کرے اور خود سے رقیہ نہ کرسکتی ہو تو کسی دوسری عورت سے دم کراسکتی ہے یا دوسرے سے دم کیا ہواپانی اور تیل استعمال کرسکتی ہے۔

سوال(20): خلع کی عدت میں صحیح بات کیا ہے ایک حیض ہے یا تین حیض ؟
جواب: جن علماء نے خلع کو طلاق مانا ہے ان کے نزدیک خلع کی عدت طلاق کی طرح تین حیض ہے جبکہ خلع کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ خلع طلاق نہیں ہے بلکہ فسخ نکاح ہے اور خلع کی عدت ایک حیض ہے اس بارے میں صریح حدیث ہے۔ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہا کہتی ہیں:
أنَّها اختلعت على عَهدِ النَّبيِّ صلى الله عليه وسلم فأمرَها النَّبيُّ صلى الله عليه وسلم، أو أمرت أن تعتدَّ بحيضةٍ(صحيح الترمذي:1185)
ترجمہ:انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خلع لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا (یا انہیں حکم دیا گیا) کہ وہ ایک حیض عدت گزاریں۔
اس لئے خلع کی صحیح عدت ایک حیض ہے ، اگر خلع حالت حیض میں ہوا تو اگلےحیض تک عدت ہوگی اور حالت طہر میں خلع ہوا تو جب بھی پہلا حیض آئے اس کے اختتام تک عدت ہوگی۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
461
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (قسط:22)
جوابات از شیخ مقبول احمد سلفی اسلامک دعوۃ سنٹر، مسرہ- طائف​


سوال (1):جب میں گھر میں نمازپڑھتی ہوں تو کبھی کبھار گھر میں نامحرم آجاتے ہیں تو کیا نماز میں چہرےکاپردہ کرنا ہوگا اس بات کی جانکاری کے ساتھ کہ ہمارے یہاں مشہور ہے کہ نماز میں چہرے کاپردہ نہیں ہے ؟
جواب : جہاں بھی اجنبی اور نامحرم کا گزرہو وہاں عورتوں کو اپنے چہرے کا پردہ کرنا لازم ہے کیونکہ اللہ تعالی نے نامحرموں سے پردہ کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ حکم نمازوغیرنماز ، حج وعمرہ اور سفر وحضر تمام حالات کو شامل ہے ، اللہ کا فرمان ہے : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ[الأحزاب:59]
ترجمہ: اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں (جلباب ایسی بڑی چادر کو کہتےہیں جس سے چہرہ سمیت پورا بدن ڈھک جائے) ۔
اس لئے جب نماز پڑھتے ہوئے گھر میں نامحرم داخل ہوجائے تو آپ اپنا چہرہ ڈھک لیں اور عورتوں میں جو مشہورہے کہ نماز میں چہرے کا پردہ نہیں یہ حنفیوں کی بات ہے جو قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔

سوال(2): میک اپ کی چیزیں فروخت کرنا کیسا ہے ؟
جواب: میک اپ کی وہ چیزیں بیچنا جائز ہے جن کا استعمال اسلام میں جائز ہے اور وہ چیزیں بیچنا ناجائز ہے جن کا استعمال اسلام میں منع ہے۔ممنوع چیزوں میں عورتوں کے مصنوعی بال، مصنوعی پلکیں ،خنزیر کی چربی والی مصنوعات، کالا خضاب، ملون کونٹکٹ لینس، کافروں کی مشابہت والی چیزیں ا ور ناچنے گانے والی ، فسق وفجوروالی عورتوں کی مخصوص فحش چیزیں وغیرہ ۔

سوال(3): کیا کسی طوائف یا ناچنے گانے والیوں کا میک اپ کرنا جائز ہے؟
جواب: اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ(المائدہ:2) ترجمہ: ظلم اور گناہ کے کام پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
اللہ کے اس فرمان کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ کسی مسلم عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی طوائف ، زانیہ، ناچنے گانے والی اور اجنبی مردوں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار کرنے والی عورتوں کا میک اپ کرے کیونکہ ایسا کرنا گناہ کے کام پر تعاون ہوگا اور اللہ نے گناہ کے کام پر کسی کی مدد کرنے سے منع کیا ہے ۔

سوال (4) کیا خلع کے لئےلڑکی کو ولی کی اجازت لینا ضروری ہے؟
جواب: خلع لینے کے لئے عورت کو اپنے ولی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ شرعی وجہ کا ہونا کافی ہے یعنی عورت کے لئے اپنے شوہر سے خلع لینا اسی وقت جائز ہوگا جب کوئی معقول وجہ اور شرعی عذر ہوگا ۔بغیر عذر کے جیسے طلاق دینا گناہ ہے اسی طرح بغیرعذرکے خلع لینا بھی گناہ ہے۔

سوال(5): جدید ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اولاد کی جنس طے کرکے یعنی لڑکا یا لڑکی متعین کرکے پیدا کرنا کیساہے؟
جواب: ٹکنالوجی کی ترقیات میں ایک ترقی یہ بھی ہے کہ جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ جسےلڑکا چاہئےاسے لڑکا اور جسے لڑکی چاہئے اسے لڑکی پیداکرنے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے۔یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان بذریعہ جدید علاج اپنے لئے متعین جنس اختیار کرسکتا ہے تو اس کا جواب جاننے کے لئے پہلےیہ جاننے کی ضرورت ہے کہ جنس اختیار کرنے کا جدید طریقہ کیا ہے؟ جدید طریقہ یہ ہے کہ مردوعورت کا نطفہ حاصل کرکے عورت کے تولیدی انڈوں کا ملاپ منی کے ان ذرات سے کرایا جاتا ہےجوکہ مطلوبہ جنس کے حصول کے لئے کارآمد ہوتے ہیں پھر تلقیح کا عمل انجام دے کر اسے عورت کے رحم میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ تولید میں ایک شرعی خامی تو یہ ہے کہ مرد کو جلق کرنا پڑتا ہے اور دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ عورت کو اپنی شرمگاہ کھولنی پڑتی ہے،ظاہرسی بات ہے بغیرشدیدمجبوری کے یہ عمل جائز نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی سماجی اعتبار سے بھی اس کے بڑے مفاسد ہیں اس لئے عام حالات میں جنس اختیارکرناجائز نہیں ہے تاہم اشد ضرورت کے تحت کوئی جنس متعین کرنا چاہے تو جواز کا پہلو نکل سکتا ہے مثلا کسی کومتعدد بیٹیاں ہوں ،ایک لڑکا چاہے یا اس کے برعکس،مزید وضاحت کے لئےمیرامضمون" رحم مادر کی پیوندکاری اسلام کی نظر میں" کا مطالعہ کریں ۔ اس مسئلے میں افضل صورت یہ سمجھتا ہوں کہ اولاد کے لئے اللہ سے دعا کرے جس طرح انبیاء نے دعا کی اوربچے کی پیدائش اور اس کی جنس کا معاملہ اللہ کے سپرد کردے کیونکہ اولاد عطاکرنے والا ، اس سےمحروم کرنے والا وہی ہے اور جنس متعین کرنے والا اصلا وہی ہے،فرمان باری تعالی ہے : لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَن يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الذُّكُورَأَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ (الشوری:49-50)
ترجمہ : اللہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتاہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے۔
اگرایک بیوی سے اولاد نہ ہو تو دوسری شادی کرے، دوسری سے بھی اولاد نہ ہو تو تیسری شادی کرے اور تیسری سے اولاد نہ ہو تو چوتھی شادی کرے اور اگر چوتھی سے بھی اولاد نہ ہو تو تقدیر کے لکھے پہ صبر کرے اور اللہ کے فیصلے سے راضی ہوجائے۔

سوال(6): ایسی مہندی لگانے کا کیا حکم ہے جس میں الکوحل بھی شامل ہو؟
جواب: کوئی حرج نہیں ہے، الکوحل یہاں کھانے اورپینے کےقبیل سے نہیں ہےبلکہ استعمال کے لئے ہے اور یہ ایک قسم کا کیمیکل ہےجو ضرورت کے تحت مختلف قسم کی چیزوں میں استعمال کیا جاتا ہےالبتہ کھانے پینےمیں نشہ آور ہونے کے سبب ناجائز ہوگا۔اوریہ جو بیان کیا جاتا ہے کہ الکوحل نجس ہے تو اس بارے میں جان لینا چاہئے کہ منشیات حکما نجس ہے نہ کہ معنوی طور پرمثل مشرک کے کہ وہ حکما نجس ہے ، اس کو چھونے سے بدن ناپاک نہیں ہوتا۔

سوال(7): ہمارے یہاں سامان بیچنے والا ،عورتوں کا بال لیکر گھریلو سامان دیتا ہے کیا ہم یہ کام کرسکتے ہیں؟
جواب: سرسے لیکر پاؤں تک انسانی جسم کا کوئی عضویاحصہ بیچنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ کی ملکیت ہے اور پھر اللہ نے اسے تکریم بخشی ہےلہذا کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ عورتوں کا بال نقد یا سامان کے عوض بیچے ،ساتھ ہی ان بالوں کوشیطانی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا بھی خدشہ ہے ۔

سوال(8): کیا باپ کی جائیداد تقسیم کرنے کے لئے ماں کی وفات کا انتظار کرنا ہوگا؟
جواب: نہیں ، جس کی جائیداد تقسیم کرنی ہے بس اسی کا وفات پانا ضروری ہے ، اس لئے باپ کا انتقال ہوجائے تو ترکہ تقسیم کرنے کے لئے ماں کی وفات کا انتظار نہیں کیا جائے گابلکہ میت کی تدفین کے بعد بلاتاخیر وراثت تقسیم کردی جائے اور بیوی کو بھی حصہ ملے گاکیونکہ اسلام نے شوہر کے مال میں بیوی کا بھی حصہ مقررکیا ہے۔جب ماں کا انتقال ہوجائے تب اس کی نجی جائیداد اس کے وارثین میں تقسیم کی جائے گی ۔

سوال(9): بعض عورتیں اپنے گھروں میں برتھ ڈےاور دوسرے فنکشز کے لئے کیک بناکر بیچتی ہیں ، کیا یہ تجارت جائز ہے؟
جواب: گھروں میں کیک بناکر تجارت کرنا جائز ہے لیکن فسق وفجور اور کفرومعصیت والے فنکشنز کے لئے مخصوص طورپرکیک تیار کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی نے گناہ کے کاموں پر تعاون کرنے سے منع کیا ہے ۔اسلام میں سالگرہ منانا جائز نہیں ہے اس لئے اس کام کے لئے کیک تیار کرنا جائزنہیں ہوگا البتہ کیک کی عام تجارت یا جائزدعوتوں کے لئے کیک بنانا جائز ہے۔

سوال(10): کیا بیٹی فوت ہوجانے سے ساس کے لئے داماد نامحرم ہوجاتا ہے؟
جواب: ساس محرمات ابدیہ میں سے ہے یعنی بیوی فوت ہوجائے یا اسے طلاق دیدے پھر بھی داماد اپنی ساس سے شادی نہیں کرسکتا ہے۔

سوال(11): ہمارے یہاںسنارسےمستعمل سونا اورچاندی کے لین دین پر تیس فیصد کٹوٹی کی جاتی ہے کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب:سونا کا سونے سے اور چاندی کا چاندی سے لین دین پر کمی زیادتی کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی ادھاروتاخیر سے معاملہ کرنا جائز ہے ۔ اس معاملہ میں یہ تو طے ہے کہ جس سنار کے پاس جائیں گے وہ پرانا سونا اور چاندی کم ریٹ پر لے گاجوکہ اسلامی اعتبار سے ناجائز شکل ہے اس لئے مستعمل زیورات بدلنے سے بہتر ہے کہ اسےبیچ کر اسی پیسے سے نئے زیورات خرید لئے جائیں، یہ شکل جائز ہوگی ۔یاسونے کے زیورات سے چاندی اور چاندی کے زیورات سے سونا خریدلیں یہ شکل بھی جائز ہےکیونکہ یہاں جنس بدل رہا ہے اس لئے قیمت میں کمی بیشی جائز ہےساتھ ہی یہ بھی دھیان رہے کہ معاملہ نقدی اورفوری طے ہو۔

سوال(12): کیا حالت جنابت و حیض میں قرآن کریم اور دینی کتابوں کی صفائی کرنااور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا جائز ہے ؟
جواب:افضل صورت تویہی ہے کہ جو پاک ہووہی قرآن کی صفائی کرے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرے تاہم ضرورت کے وقت حیض والی عورت دستانہ لگاکر قرآن چھوسکتی ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ اسے منتقل کرسکتی ہے جیساکہ تلاوت کرنا بھی اس کے لئے جائز ہےلیکن جنبی کا معاملہ الگ ہے ، نبی ﷺ حالت جنابت میں تلاوت نہیں فرماتے ، جب اس حالت میں تلاوت ممنوع ہے تو مصحف چھونا بدرجہ اولی ممنوع ہوگا۔ رہا مسئلہ دینی کتابوں کا تو جنبی ہو یا حائضہ ان کی صفائی ستھرائی کر سکتے ہیں۔

سوال(13): کرائے والی ماں کی کیا حیثیت ہے یعنی کرائے پر کسی عورت کی کوکھ لے کر بچہ پیدا کرنا کیسا ہے؟
جواب: اس کو انگلش میں سروگیٹ مدرہوڈکہاجاتا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ میاں بیوی کا نطفہ حاصل کرکے اسے مصنوعی طریقہ سے باآور کرکے کسی دوسری عورت کے رحم میں رکھا جاتا ہے گویا ایک عورت کی کوکھ کرایہ پر ہوتی ہے جبکہ اس کوکھ میں نطفہ میاں بیوی کا ہوتا ہے۔ یہ سراسر حرام ہے۔ بعض علماء نے سروگیسی میں جواز کا ایک پہلو نکالاہے کہ ایک شخص کو دو بیویاں ہوں تو ایک بیوی اور شوہر کا نطفہ دوسری بیوی کےرحم میں اس کی اجازت سے رکھا جاسکتا ہےمثلا بانجھ بیوی کا بیضہ اور شوہر کا نطفہ لیکراولادجننے والی بیوی کے رحم میں رکھا جائے یا اولاد جننے والی بیوی کا بیضہ اور شوہرکا نطفہ لیکر بانجھ بیوی کے رحم میں رکھاجائے ۔ حقیقت میں جواز کافتوی غلط ہے اور کسی کے لئے ایک بیوی کا بیضہ دوسری بیوی کے رحم میں رکھنا جائز نہیں ہے۔اس مسئلہ پہ رابطہ عالم اسلامی کی اسلامک فقہ اکیڈمی کا سیمینا رہوچکاہےجس کا خلاصہ الاسلام سوال وجواب کے فتوی نمبر 23104میں مذکور ہے۔

سوال(14): دنیا میں جس عورت کی کسی وجہ سے شادی نہ ہوسکے اسے آخرت میں کیا ملے گا؟
جواب: اس بارے میں اہل علم نے لکھا ہے کہ جنت میں اس کی شادی ایسے مرد سے کردی جائے گی جس سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچے گی۔

سوال(15): کیا یہ بات صحیح ہے کہ اللہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی روح خود ہی قبض کی؟
جواب : نہیں ، ایسی کوئی بات کسی نص سے ثابت نہیں ہے ،یہ لوگوں میں غلط مشہور ہے ۔تفسیرروح البیان میں یہ بات بلاسند منقول ہے اس لئےاس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔

سوال(16): عورتوں میں سب سے افضل کون ہے؟
جواب: شیخ ابن باز سے سوال کیا گیا کہ عورتوں میں علی الاطلاق سب سے افضل کون ہے تو شیخ نے جواب دیا کہ پانچ عورتوں کو افضلیت حاصل ہے ، وہ ہیں خدیجہ، عائشہ، فاطمہ بنت محمد،آسیہ اور مریم۔ان پانچوں میں حضرت عائشہ کو افضلیت حاصل ہے کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ تمام عورتوں میں عائشہ کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوپر۔

سوال(17):ایک جگہ میری بیٹی کا رشتہ لگاہے مگر اس میں مسئلہ یہ ہے کہ لڑکا والے نکاح کرکے تین سال تک رخصتی کرنا نہیں چاہتےاوراس بارے میں ایک مولانا نے بتایا کہ نکاح کرکے چھ ماہ تک رخصتی نہ کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے کیا واقعی دین اسلام میں ایسی بات ہے؟
جواب: آپ اپنی بیٹی کا عقد کرلیں اور تین سال بغیر رخصتی کے اپنے گھر رکھنا چاہیں تو رکھ سکتے ہیں ،اس سے نکاح نہیں ختم ہوگا ۔ صحیح بخاری میں ہے سیدہ عائشہ سے مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں : أنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ تَزَوَّجَهَا وهي بنْتُ سِتِّ سِنِينَ، وبَنَى بهَا وهي بنْتُ تِسْعِ سِنِينَ(صحيح البخاري:5134) ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تو ان کی عمر چھ سال تھی اور جب ان سے صحبت کی تو ان کی عمر نو سال تھی۔
اس حدیث سے پتہ چلا کہ نبی ﷺ نے سیدہ عائشہ سے نکاح کے تین سال بعد رخصتی کرائی ، یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ نکاح کرکے رخصتی نہ کرانے سے نکاح نہیں ختم ہوتاچاہےنکاح پہ کئی سال گزرجائے۔

سوال(18):حیض کی حالت میں اجر کی نیت سے وضو کرنا یا سونے سے پہلے وضوکرکے سونا کیسا ہے؟
جواب: نبی ﷺ سے کھانے اور سونے سے قبل حالت جنابت میں وضو کرنا ثابت ہے اور اسی طرح بعض اثر سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام حالت جنابت میں وضو کرکے مسجد میں ٹھہرا کرتے تھے ۔ حالت جنابت میں وضو کرنے سے نجاست میں کمی واقع ہوتی ہے جبکہ حیض میں مسلسل خون جاری رہتا ہے اس وجہ سے اس حالت میں وضو کرنے سے نجاست میں خفت کا امکان نہیں ہے بنابریں حیض کی حالت میں وضو کرنا مفید نہیں ہے اور نہ شریعت میں حیض والی کا وضو کرنا ثابت ہے ۔

سوال(19):پیٹ آپریشن کی وجہ سے باربارہمبستری کرنے سے پیٹ درد کرتا ہے کیا ایسی صورت میں شوہر کا ہاتھ سے منی خارج کرنا جائز ہے جبکہ بیوی نہ بار بار جماع کرنے دے اور نہ ہی دوسری شادی کی اجازت دے ؟
جواب: اللہ تعالی فرماتا ہے تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو آؤ۔ اس آیت کا مطلب ہے کہ بیوی سے ہمبستری کرنے میں کوئی بھی طریقہ استعمال کرسکتے ہیں جس سے بیوی کا پیٹ درد نہ کرےلیکن جلق (خودلذتی/مشت زنی)کرنا جائز نہیں ہے اور دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔

سوال(20): کیا بیٹی اپنے باپ کے سر کا بوسہ لے سکتی ہے ؟
جواب: جس طرح باپ اپنی بیٹی کے سر کا بوسہ لے سکتا ہے اسی طرح بیٹی بھی اپنے باپ کے سر کا بوسہ لے سکتی ہے ، اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے ۔
 
Top