• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل

جواب ازمقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

سوال(1): میں ایک باپردہ خاتون ہوں ، شوہر پچھلے تین سالوں سے کفالت نہیں کر رہے نہ میرے والدین ان پہ زور ڈال سکتے اور نہ ہی میرے سسرال والے کوئی نوٹس لیتے ہیں،یہ میرا دوسرا نکاح ہے۔ سوال یہ ہے کہ حالات سے مجبور ہو کر مجھے جاب کرنی ہے اور اپنےبھائی کا ہاتھ بھی بٹانا ہے جس کے لئے مجھے چہرے کا پردہ نہیں کرنا ہوگا کیونکہ باقی جاب بہت کم معاوضہ والاہے اور اس سے گھر والوں کی میں کفالت نہیں کر پاؤں گی۔ دعا کے ساتھ میری رہنمائی کر دیں۔
جواب: اولا :عورت گھر کی زینت ہے ، اپنے بچوں کی تربیت، شوہر کی خدمت اور گھر کی ذمہ داریاں اس کے سرہیں ، اس وجہ سے اسلام نے عورت کو معاشی تگ ودو سے نجات دیدی ہے ۔ اگر عورت گھر چھوڑ دے اور باہر کی ذمہ داری ادا کرنے لگ جائے تو گھرویران بلکہ بسااوقات برباد ہوجاتاہے مگر جو صورت حالات آپ نے ذکر کی ایسی صورت میں آپ کسی ادارہ یا بااثرلوگوں کے ذریعہ شوہر پر اخراجات کا دباؤ ڈالیں ،اگر پھربھی وہ نفقہ برداشت کرنے پر راضی نہ ہو تو طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہیں یا خلع لے سکتی ہیں۔ پھر عدت کے بعد کسی تیسرے صالح مرد سے نکاح کرکے اللہ کے فضل سے اپنی زندگی خوشگوار بناسکتی ہیں۔ ان سب چیزوں کے باوجود بھی نوکری کی ضرورت پڑے تو جان لیں اسلام نے عورتوں کو نوکری کرنے سے منع نہیں کیا ہے ، ایک عورت شرعی حدود میں رہ کر اس کے لئے جو وظیفہ جائز ہے انجام دے سکتی ہے اور اس کے ذریعہ وہ اپنے اور اہل خانہ کی پرورش کرسکتی ہے مثلا سلائی ، کڑھائی ، صفائی ، امور خانہ داری ، کمپنیوں اور تعلیمی اداروں میں مزدوری وغیر ہ ۔ نوکری کے لئے شرعی حدود یعنی حجاب کی پابندی، اختلاط سے اجتناب، عفت وعصمت کی حفاظت ، محرم کے ساتھ سفر اور خلوت سے دوری ضروری ہے۔اسلام میں ایسے کسی جاب کی اجازت نہیں ہے جس سے پردہ ہٹانا پڑے ، اگر حجاب کے ساتھ تھوڑا ہی معاوضہ ملے وہی اختیار کریں اور صبروقناعت سے زندگی گزاریں ساتھ ہی اللہ سے مزید بہتری اور مال میں برکت کی بکثرت دعا کریں،وہی مشکل دور کرنے والا اور سارے جہان کو پالنے والا ہے۔
سوال(2): سورہ کہف پڑھنے سے سکینت نازل ہوتی ہے اس کا کیا معنی ہے ؟ کیا اس کے پڑھنے سے گھریلو مسائل حل ہوجاتے ہیں یا گھر میں سکون آتاہے ؟
جواب : سکینت کا نزول سورہ کہف کی قرات کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ مکمل قرآن کے لئے عام ہے گوکہ پس منظر میں ایک صحابی رسول کا سورہ کہف پڑھنے کا ذکر ہے تاہم فرمان رسول بخاری میں ان الفاط میں ہے:
اقرَأْ فُلانُ، فإنها السكينةُ نزلَتْ للقرآنِ، أو تنزَّلَتْ للقرآنِ(صحيح البخاري:3614)
ترجمہ:قرآن پڑھتا ہی رہ کیونکہ یہ «سكينة» ہے جو قرآن کی وجہ سے نازل ہوئی یا (اس کے بجائے راوی نے) «تنزلت للقرآن» کے الفاظ کہے۔
اور صحیح مسلم میں ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے۔
فإنها السكينةُ تنزلت عند القرآنِ . أو تنزلت للقرآنِ( صحيح مسلم:794)
ترجمہ:یہ سکینت (اطمینان اوررحمت)تھی جو قرآن (کی قراءت) کی بنا پر (بدلی کی صورت میں) اتری۔
اللہ کی رحمتوں کی کوئی انتہا نہیں ، قرآن کی قرات سے ایسا بھی ممکن ہے کہ گھر کے فتنے، تنازع، اور مسائل ختم ہوجائیں یا بے چین دل کو اس سے ٹھنڈک وسکون پہنچے ،رحمت کے فرشتوں کا نزول ہو تاہم قرات کے ساتھ قرآن کے دیگر حقوق بھی اداکئے جائیں مثلا اس کے معانی پہ غوروخوض، آیات سے عبرت ونصیحت ، دعوت وعمل کا جذبہ وغیرہ ۔

سوال(3): ہم اپنے یہاں دعوت وتبلیغ کا کام کرتے ہیں اور مشارکین میں اکثر لوگ میلاد منانے والے ہیں۔ پہلے لوگ قرآن کلاس اور دیگر دروس میں آتے تھے پر جب سے انکو پتہ لگا ہم میلاد نہیں مناتے تو قرآن کلاس میں نہیں آرہے ہیں۔ ایسے میں کیا کریں ؟کھلے عام ہم میلاد کا انکار کرتے رہیں یا حکمت کے تحت پہلے لوگوں کو قرآن سے جوڑیں اور پھر آہستہ آہستہ انہیں ان بدعات کے بارے میں بتائیں ، سمجھ نہیں آرہا پلیز جلد رہنمائی کریں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
جواب : دعوت میں حکمت وبصیرت اپنانا چاہئے مگر دعوت کے لئے خود کو میلادی منوانایا ظاہرکرنابدعت اور اہل بدعت کا تعاون ہے ۔ بلاشبہ دعوت کا کام حکمت کے ساتھ کریں یہ بڑے اجر کا کام ہے مگر خود کو بدعتى کا معاون نہ ظاہر کریں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منکر ات پہ خاموشی اختیار کرنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ اولا ہاتھ سے مٹانے ، ثانیا زبان سے نصیحت کرنے اور ثالثا دل میں اسے برا جاننے کا حکم دیا ہے۔ بھلے آپ کے درس میں لوگوں کی قلت ہو مگر حق کی تعلیم دیں ، میلادیوں سے غصے میں نہیں ، حکمت سے بات کریں تاہم میلاد منانے والے بھی ٹھیک اور نہ منانے والے بھی ٹھیک ایسی پالیسی نہ اپنائیں ۔ یاد رکھیں حق كى پیروی کرنے والے اور حق قبول کرنے والے ہردور میں کم رہے ہیں ۔ دعوت کا مقصد بھیڑ جمع کرنا نہیں حق بات پہنچانا ہو خواہ اس کے قبول کرنے والے تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں ۔
سوال(4): اگر میاں بیوی بوس و کنار کر رہے ہوں اوراذان ہونے لگے تو اذان کے احترام کے لئے یہ عمل چھوڑ دینا چائیے یا نہیں ؟ اور اگر نہیں چھوڑنا چائیے تو کیااذان کا جواب دینا ضروری ہے؟ نیز اگر حالت جماع ہو اور اس دوران جماعت کھڑی ہو جائے تو کیا اس عمل کو روک دینا چائیے یا کھانے پر قیاس کیا جا سکتا ہے جس طرح ایک حدیث ہے کہ اگر کھانا سامنے رکھا ہو تو پہلے کھانا کھائیں مہربانی ہوگی رہنمائی فرمائیں۔
جواب : اذان کا مقصدلوگوں کو نماز کی طرف بلانا ہوتا ہے ۔ جب مسجد میں اذان ہونے لگے تو سارے کام کاج چھوڑ کر نماز کے لئے تیار ہونا چاہئے اور اول وقت پہ نماز ادا کرنا چاہئے کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے: أفضلُ الأعمالِ الصَّلاةُ في أوَّلِ وقتِها(صحيح الجامع:1093)
ترجمہ:بہترین عمل نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرنا ہے۔
اور جب جماع کی حالت میں اذان ہونے لگے یا اقامت کی آواز سنائی دے تو اس عمل کو جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں تاہم اس سے جلد فراغت حاصل کرکے اور غسل کرکے نمازادا کریں۔یاد رہے اذان سننے کے بعد بھی قصدا بستر پر لیٹے رہنا حتی کہ اقامت ہونے لگے تب جماع کرنا ہماری کوتاہی اور نماز سے غفلت ہے۔جہاں تک اذان کے جواب کا مسئلہ ہے تو یہ سب پر واجب نہیں بلکہ فرض کفایہ اوربڑے اجر وثواب کا حامل ہے اس لئے میاں بیوی سے بات چیت یابوس وکنار کے دوران جواب دینا چاہیں تو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جماع کے وقت اذان کا جواب دینے سے علماء نے منع کیا ہے ،جب اس عمل سے فارغ ہوجائیں تو بقیہ کلمات کا جواب دے سکتے ہیں ۔

سوال(5): کیا گھر میں طوطا اور پرنده رکھنا جائز ہے ؟
جواب : ہاں گھر میں طوطا یا خوبصورت وخوشالحان پرندہ رکھنا ، اسے پالنا اور پنجڑے میں بند کرنا جائز ہے اس شرط کے ساتھ کہ اس کی دیکھ ریکھ کی جائے اور اس کی خوراک کا انتظام کیا جائے ۔ نبی ﷺ کے زمانے میں ابوعمیر نامی بچہ ایک چڑیا سے کھیلا کرتا ،آپ نے اسے آزاد کردینے یا نہ کھیلنے کا حکم نہیں دیا ۔
سوال(6):غیر مسلم ہندو اور کفار کے ہوٹل میں کھانا کیسا ہے وہ لوگ نجس ہوتے ہیں اور انکی کمائی حرام کی ہوتی ہے؟
جواب : یقینا کافر نجس ہوتے ہیں مگر اس کے ہاتھ کا پکایا ہوا حلال کھانا نجس کے حکم میں نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ یہوی کا پیش کیا کھانا کبھی نہیں کھاتے ۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کفار کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا جو ہمارے لئے شرعا حلال ہو اس کے ہوٹل میں کھاسکتے ہیں تاہم جس جگہ شراب وکباب عام ہوایسی جگہ کھانے سے پرہیز کریں خصوصا جب خنزیروغیرہ پکایا جاتا ہوکیونکہ بنائے اور کھائے گئے ایسے برتن میں آپ بھی کھائیں گے نیز یہ علم رہے کہ کفار کے ہوٹل سے اجتناب کرسکیں تو بہتر ہی ہے اور ضرورت پڑجائے تو حرج نہیں اور کفار کی ہر کمائی حرام نہیں ہے مثلا ہوٹل کی کمائی حرام نہیں ہے الا یہ کہ اس میں بھی حرام کاری کرتا ہو۔ یہاں ہوٹل میں ہمیں اس کی حرام کمائی سے سروکار نہیں ہے حلال فوڈ سے مطلب ہے۔
سوال(7): کیا دوران وضو باتیں کرنا منع ہے بہت ساری مساجد میں وضو والی جگہ لکھا ہوتا ہے کہ دوران وضو باتیں نہ کریں کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب : میں نے آج تک کہیں کسی مسجد کے وضوخانہ میں ایسا لکھا نہیں دیکھا البتہ وضو میں اسراف نہ کریں اس قسم کا جملہ عموما لکھا ہوتا ہے ۔ ممکن ہے عورتوں والے وضوخانوں میں ایسا کہیں لکھا ہوتا ہو کیونکہ عورتیں باتیں زیادہ کرتی ہیں اور بات کرتے کرتے وضو بنانے میں پانی زیادہ خرچ ہوگا ۔ بہرکیف! وضو کے دوران بات کرنا شریعت کی طرف سے منع نہیں ہے ۔
سوال(8): آج کل مساجد میں مریضوں کے لئے نماز کی ادائیگی کی خاطر کرسیاں رکھی ہوتی ہیں اوراس کے آگے تختی لگی ہوتی ہے، نمازی جب سجدہ کرتا ہے تو وہ اس تختی پرسجدہ کر لیتا ہے,اس عمل کی شرعی حثیت کیا ہے؟
جواب: شیخ صالح فوزان نے ایسی کرسی پر سجدہ کرنا ناجائز کہا ہے جس میں سجدہ کے لئے آگے تختی لگی ہو۔ ان کا استدلال ہے کہ نبی ﷺنے ایک مریض کو تکیہ پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اسے پھینک دیا ۔ اس لئے کرسی پر نماز پڑھنے والے مریض کو چاہئے کہ اگر زمین پر سجدہ کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو زمین پر سجدہ کرے ورنہ کرسی پر ہی رکوع کے مقابلے میں ذرا زیادہ جھک کر سجدہ کرے ۔
سوال(9):نماز کے دوران اگرکسی کاوضو ٹوٹ جائے تو کیا اس پر نماز چھوڑ کر وضو کرنا لازمی ہے؟
جواب : اگر نماز کے دوران کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو اسے نماز توڑ کر پھر سے وضو بنانا ضروری ہے اور ازسرے نو نماز شروع کرناہے ۔
سوال(10):اگر لفظ بلفظ سیکھنے کا معاملہ ہو تو کیا حائضہ عورت اپنے ہاتھوں میں قرآن لے سکتی ہے ؟
جواب : صحیح قول کی روشنی میں حیض والی عورت بغیر چھوئے قرآن مجید کی تلاوت کرسکتی ہے کیونکہ ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے البتہ جہاں تک چھونے کا مسئلہ ہے تو ہاتھوں میں دستانے لگاکر مصحف پکڑے یعنی سیکھنے یا سکھانے یا تلاوت کی غرض سے جب قرآن اٹھانے کی ضرورت ہو تو اپنے ہاتھوں میں دستانے لگالے ۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں "كِتَابُ الحَيْض "(بَابُ قِرَاءَةِ الرَّجُلِ فِي حَجْرِ امْرَأَتِهِ وَهِيَ حَائِضٌ) کے تحت ترجمہ الباب کے طورپر ایک اثر ذکر کیا ہے: وَكَانَ أَبُو وَائِلٍ: «يُرْسِلُ خَادِمَهُ وَهِيَ حَائِضٌ إِلَى أَبِي رَزِينٍ، فَتَأْتِيهِ بِالْمُصْحَفِ، فَتُمْسِكُهُ بِعِلاَقَتِهِ»
ترجمہ:ابووائل اپنی خادمہ کو حیض کی حالت میں ابورزین کے پاس بھیجتے تھے اور وہ ان کے یہاں سے قرآن مجید جزدان میں لپٹا ہوا اپنے ہاتھ سے پکڑ کر لاتی تھی۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (دوسری قسط)

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹرطائف

سوال(1):عورت توعموما گھر میں ہی فرض نماز ادا کرتی ہے اور وہ فرائض میں قرآن کی تلاوت اونچی قرات سے کرنا چاہتی ہو تو کیا فجرو مغرب اورعشاء کی نماز میں وہ اونچی قرات کر کے نماز کی ادائیگی کر سکتی ہے؟
جواب : نماز عورتوں پر بھی ویسے ہی فرض ہے جیسے مردوں پر البتہ جہاں نماز میں عورتوں کے لئے خصوصیت ہے وہ حالت ان کے لئے مستثنی ہوگی ۔ جہری نمازیں یعنی فجر ، مغرب اور عشاء مردوں کی طرح عورتوں کے حق بھی میں جہرا مسنون ہیں لہذا وہ گھر میں ان نمازوں کی ادائیگی جہرا کرسکتی ہیں البتہ اگر ان کی آواز کوئی اجنبی مرد سننے والا ہو تو فتنے سے بچنے کے لئے سرا پڑھے ۔
سوال (2): اس جملے کا مجھے ترجمہ معلوم کرنا ہے : مَا أَعَانَ عَلَى نَظْمِ مُرُوءَاتِ الرِّجَالِ كَالنِّسَاءِ الصَّوَالِحِ۔
جواب: تاریخ دمشق لابن عساکر اور المجالسة وجواهر العلم للدينوري میں مذکور ہے کہ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ نے ذکر کیا ہے کہ عرب کے بعض حکماء کا کہنا ہے : "مَا أَعَانَ عَلَى نَظْمِ مُرُوءَاتِ الرِّجَالِ كَالنِّسَاءِ الصَّوَالِحِ ".یعنی مردوں کی مروت کی تنظیم و حفاظت میں نیک عورتوں نے جتنی مدد کی اتنی کسی نے نہیں کی ۔
اس قول میں نیک عورتوں کی تعریف کی گئی ہے کہ ان کی وجہ سے مردوں کی اصلاح ہوتی ہے اور ان کے اخلاق ومروت کی حفاظت ہوتی ہے ۔

سوال (3):دوران طواف نماز کے وقت کچھ عورتیں اپنے مردوں کے ساتھ نماز کے لئے مردوں کی صف میں کھڑی ہو جاتی ہیں اس کے بارے میں کیا حکم ہے اوراسی طرح عید ین کی نمازوں میں بعض مقامات پر گلیوں میں رش کی وجہ سے اکثر عورتیں اور مرد آگے پیچھے ایک ساتھ نماز میں کھڑے ہو جاتے ہیں ، اس کا بھی کیا حکم ہے ؟
جواب : عورتوں کی صف مردوں سے الگ اور آخر میں ہونی چاہئے اس وجہ سے عورتوں کو حرم میں نماز پڑھتے وقت، یا عیدین ، نماز جمعہ اور فرائض مردوں کے ساتھ ادا کرتے وقت سب سے آخر میں مردوں سے الگ صف بناکر نما زادا کرنا چاہئے اور عموما عورتوں کے لئے مساجدومصلی میں جگہیں مخصوص کردی جاتی ہیں ان میں ہی نماز پڑھنا چاہئے لیکن اگر کبھی رش کی وجہ سے مردوں سے آگے نماز پڑھنا پڑجائے اس حال میں کہ نکلنے کا اختیار نہیں تو اس حالت میں پڑھی گئی نماز درست ہےلیکن ایک ہی صف میں مردوں کے ساتھ مل کر کھڑا ہونا جائز نہیں ہے ، ہاں کافی رش ہو اور مردوں کے دائیں بائیں ذرا ہٹ کے نماز پڑھ لی گئی تو بھی درست ہے ۔ اختلاط(رش کی وجہ سےمرد کے ساتھ کھڑا ہونا پڑجائے) کی وجہ سے عورت جماعت سے نماز چھوڑ دیتی ہے تو جائز ہے ۔
سوال (4): کسی نے پیانو(Piano) بجانے کے لئےخریدا اور بعد میں اسے اپنے گناہ کا احساس ہوا تو كیا اسے بیچ کر اس کا پیسہ حلال ہوگا؟
جواب : اگر پیانو اس دوکان والے کو لوٹا سکتا ہے جس سے خریدا ہے تو بہتر ہے اور واپس لیا گیا پیسہ بھی حلال ہے اور دوکاندار واپس نہ لے تو کسی دوسرے شخص کے ہاتھوں بیچنے پر اس شخص کے گناہ میں شریک ہوجائے گا اس لئے کسی دوسرے شخص کے ہاتھوں بیچنے سے بہتر ہے کہ اسے توڑ کر ناقابل استعمال بنادے ۔
سوال (5):کیا ریاض الجنہ میں نماز پڑھنے کی کوئی خصوصیت ہے ؟
جواب : ریاض الجنہ یہ وہ مبارک جگہ ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر یعنی حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے منبر شریف کے درمیان میں ہے، اس کا نام ریاض الجنۃ یعنی جنت کا باغیچہ ہے ، یہ نام اس لئے پڑا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ہے:
ما بين بيتي ومِنبَري رَوضَةٌ من رياضِ الجنةِ ، ومِنبَري على حَوضي(صحيح البخاري:1196,صحيح مسلم:1391)
ترجمہ: میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا ممبر قیامت کے دن میرے حوض پر ہوگا۔
اس حدیث کی روشنی میں اس مقام کی بڑی فضیلت معلوم ہوتی ہے ، یہ دنیا کا مبارک مقام اور زمیں کا مبارک ٹکڑا ہے لہذا اگر کسی کو مسجد نبوی ﷺ آنے کا موقع ملے تو یہاں عبادت ، ذکر، اللہ سے دعا اور اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا چاہئے ۔ اس جگہ پہ نبی ﷺ سے بھی خاص طور سے عبادت کرنا ثابت ہے ۔یزید بن ابی عبید بیان کرتے ہیں کہ میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے ساتھ (مسجد نبوی میں) حاضر ہوا کرتا تھا۔ سلمہ رضی اللہ عنہ ہمیشہ اس ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے جہاں قرآن شریف رکھا رہتا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابومسلم! میں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے ہیں، انہوں نے کہا: إِنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَرَّى الصَّلَاةَ عِنْدَهَا (صحيح البخاري:502)
ترجمہ: میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بھی یہاں خاص کرنماز ادا کیا کرتے تھے ۔
کنزل العمال (34950) اور مسند الفردوس (5676) میں ضعیف سند سے ایک روایت ہے :من سره أن يصلي في روضة من رياض الجنة فليصل بين قبري ومنبري۔
ترجمہ: جسے ریاض الجنہ کی کیاری میں نماز ادا کرنا پسند آئے وہ میری قبر اور میرے ممبر کے درمیان نماز پڑھے۔

سوال (6):"لاحول ولاقوة الاباللہ " کا صحیح ترجمہ بتا دیں اوراس کے ساتھ "ما شاء اللہ لاقوة الاباللہ" بھی پڑھ سکتے یا صرف "لا قوة الا بالله" پڑھنا کیسا ہے؟ نیزتینوں میں زیادہ اجر کس کلمہ میں ہے ؟
جواب : "لاحول ولاقوة الاباللہ " کو حوقلہ کہا جاتا ہے ، یہ اذان میں حیعلتین کا جواب ہے اور نبی ﷺ کے فرمان میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے ۔ اس کا معنی ہے :[نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ کے بغیر ممکن نہیں] ۔
نبی ﷺ نے فرمایا:يا عبدَ اللهَ بنَ قيسٍ، قُلْ لا حولَ ولا قوةَ إلا باللهِ، فإنها كنزٌ من كُنوزِ الجنةِ (صحيح البخاري:7386)
ترجمہ:عبداللہ بن قیس! «لا حول ولا قوة إلا بالله» کہا کرو کہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
اس لئے اس عظیم ذکر کا کثرت سے ورد کرنا چاہئے اور"ما شاء اللہ لاقوة الاباللہ" بھی ایک ذکر ہے ، یہ سورہ کہف کی (39) آیت میں آیا ہے ۔ ان الفاظ کے ذریعہ اللہ کا شکر بجا لاسکتے ہیں اور اسی طرح کسی کو کسی کا مال، اولاد یا کسی کا حال اچھا لگے تو یہ کلمہ کہہ سکتے ہیں ، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ نظر بد سے حفاظت ہوگی ۔ اور محض "لاقوۃ الاباللہ" کا ذکر نہیں ملتا اس لئے نظر بد سے بچنے کے لئے "ما شاء اللہ لاقوة الاباللہ" اور ذکر کے طورپر "لاحول ولاقوة الاباللہ " کہا جائے ۔

سوال(7)میں بسااوقات بچوں کو سلانے کے لئے سونے کے اذکار پڑھاتی ہوں مگر اس وقت سوتی نہیں ہوں کیا مجھے سونے کے وقت اذکاردوبارہ پڑھنے ہیں ؟
جواب : سونے کے اذکار سونے سے قبل پڑھنا ہے، اگر کوئی بچے کو سلانے کے لئے اسے اذکار پڑھائے تو بلاشبہ پڑھنے والی کو بھی فائدہ ہوگا تاہم جب خود بستر پر سونے کے لئے جائیں تو اس سے قبل دوبارہ اذکار پڑھ لیں کیونکہ یہ اذکار بستر پر جانے کے وقت سونے سے قبل کے ہیں جب انسان سونے کی نیت سے اس سے ماقبل پڑھے ۔ ہاں اگر بچوں کے سوتے وقت انہیں اذکار پڑھائے نیز خود بھی وہ اسی وقت سونے لگیں تو اپنی طرف سے بھی نیت کرلیں یہ ایک مرتبہ بھی کفایت کرجائے گا۔
سوال(8): میں چند مہینے پہلے میں عمرہ کرکے آئی ہو اوردوران طواف کعبہ ہی کو ہی دیکھتی رہی ، جب واپس گھر آئی ہو تو معلوم ہوا کہ طواف کے دوران کعبہ کی طرف دیکھنا سخت منع ہے کیا واقعی یہ بات سچ ہے ؟
جواب : کعبہ کی طرف دیکھنا منع نہیں ہے خواہ طواف میں ہو یا بغیر طواف کے ۔اصل میں لوگوں میں یہ اعتقاد مشہور ہے کہ کعبہ کی طرف پہلی نظر پڑنے پر دعا کرنےسے قبول ہوتی ہے لیکن اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، ہاں ایک ضعیف حدیث میں چار مقامات پر آسمان کا دروازہ کھلنے اور دعا قبول ہونے کا ذکر ہے ، ان میں سے ایک خانہ کعبہ کی دیدار کے وقت ہے۔ یہ ضعیف حدیث ہے اس لئے دلیل نہیں پکڑی جائے گی ۔ (دیکھیں : سلسلہ ضعیفہ : 3410)
بہرکیف! آپ کا طواف صحیح ہے ، آئندہ یہ ذہن میں رہے کہ طواف میں کعبہ کی طرف دیکھنا نہ ضروری ہے اور نہ ہی ہے عبادت ، چلتے ہوئے نظر پڑجائے یا اس کی عظمت کا خیال کرکے اسے دیکھنے لگیں تو کوئی حرج نہیں ہے مگر یہ اعتقاد نہ رکھیں کہ اس پہ نظر کرکے دعا کرنے سے دعا قبول ہوگی ورنہ نہیں ۔

سوال(9):ایک شخص دن میں سوتا ہے تو کیا وہ رات کے اذکار پڑھے گا ؟
جواب: اس سلسلے میں علماء کے متعدد اقوال ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ یہ رات کے ساتھ ہی خاص ہے اور بعض نے کہا کہ دن میں سونے کے وقت بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ ایک تیسرا قول جو مناسب معلوم ہوتا ہے جسے شیخ ابن باز نے اختیار کیا ہے کہ جو اذکار رات میں سونے کے ساتھ خاص ہیں وہ رات میں پڑھے جائیں مثلا مَن قرَأ بالآيتَينِ مِن آخرِ سورةِ البقرةِ في ليلةٍ كفَتاه(صحيح البخاري:5008)
ترجمہ: جس نے سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں رات میں پڑھ لیں وہ اسے ہر آفت سے بچانے کے لئے کافی ہوجائیں گی ۔
یہ رات میں سونے کے ساتھ خاص ہے اور نبی ﷺکا یہ فرمان کہ جب تم میں سے کوئی اپنے پستر پر لیٹنے کا ارادہ کرے تو پہلے اسے اپنی چادر کے کنارے سے جھاڑ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد کیا چیز داخل ہوگئی ہے۔ پھر یہ دعا پڑھے:
باسمِكَ ربِّي وَضعتُ جَنبي وبِكَ أرفعُهُ ، إن أمسَكْتَ نفسي فارحَمها ، وإن أرسلتَها فاحفَظها بما تحفَظُ بِهِ عبادَكَ الصَّالحينَ(صحيح البخاري:6320)
ترجمہ: اے میرے رب! تیرے نام سے میں نے اپنا پہلو رکھا ہے اور تیری قوت سے میں اسے اٹھاؤں گا۔ اگر تو نے میری جان کو روک لیا تو اس پر رحم کرنا اور اگر اسے چھوڑ دیا تو اس کی حفاظت کرنا جس طرح تو اپنے لوگوں کی حفاظت کرتا ہے۔
یہ عام ہے، دن اور رات دونوں وقت سونے سے قبل پڑھ سکتے ہیں ۔

سوال(10): مجھے کہیں سے ایک واقعہ ملا ہے اس کی حقیقت واضح کریں : ایک شخض اپنی بیوی کو صرف اس وجہ سے چھوڑنا چاہتا تھا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا۔ اس کے جواب میں یہ الفاظ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمائے تھے‘ کیا ضروری ہے کہ ہر گھر کی بنیاد محبت پہ ہی ہو؟ تو پھر وفاداری اور قدردانی کا کیا؟ (بحوالہ البیان والتابعین 2/101 فرائض الکلام صفحہ 113)
جواب : سید قطب نے فی ظلال القرآن (1/606) میں یہ قول ذکر کیا ہے :
وما أعظم قول عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - لرجل أراد أن يطلق زوجه؛ لأنه لا يحبها- "ويحك! ألم تبن البيوت إلا على الحب؟! فأين الرعاية وأين التذمم؟
ترجمہ: اور عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے عظیم قول میں سے ہے کہ ایک آدمی اپنی بیوی کو اس وجہ سے طلاق دینا چاہ رہاتھا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا تو حضرت عمر نے اس سے کہا کہ کیا ضروری ہے کہ ہر گھر کی بنیاد محبت پہ ہی ہو؟ تو پھر وفاداری اور قدردانی کا کیا؟
اس معنی کے الفاظ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کنزالعمال میں ملتے ہیں :
فليس كل البيوت تبنى على الحب، ولكن معاشرة على الأحساب والإسلام(كنز العمال:16/554،رقم :45859)
ترجمہ: ضروری نہیں کہ ہر گھر کی بنیاد محبت پر قائم ہو بلکہ دینداری اور خاندانی شرافت بھی گھروں کو سنوارنے کا ذریعہ ہوا کرتی ہیں ۔
یہ ایک عمدہ بات ہے کہ جہاں میاں بیوی میں محبت میں کمی یا الفت کا فقدان ہو وہا ں صرف محبت کی کمی وجہ سے گھر توڑ دینا صحیح نہیں ہے بلکہ اخلاق ومروت ،غیرت وحمیت ،عزت وشرافت ،مذہبی روایات اورتہذیبی اقدار کی بنیادپر اپنا گھر قائم رکھ سکتے ہیں ۔

سوال(11):ایک عورت اگر شریعت کی پابند ہے جبکہ اس کے گھرکےمردحضرات بے دین ہیں مثلا بے نمازی، سود خور، شراب خور،جواڑی، عورتوں کی بےعزتی کرنےوالے اورانہیں مارنے پیٹنے والےتو کیا ایسے باپ، بھائی، چچا اس دیندارعورت کے ولی ہوسکتے ہیں جو زبردستی اس کی شادی کسی شرابی یا جواڑی سے کرنا چاہتے ہیں؟
جواب: اللہ نے عورت کی عفت وعصمت کی خاطر ہی ولی کا اہتمام کیا ہے لیکن ولی بے دین اور کفراکبرکا مرتکب ہو تو اس کی ولایت اس کے بعد والے ولی میں منتقل ہوجاتی ہے مثلا باپ بے دین ہے تو بھائی ولی بنے گا اور اگر بھائی بے دین ہے تو چچا میں سے جو دیندار ہو اسے ولایت کا حق ہوگا۔ اگرباپ نمازکا منکر نہیں ، کبھی ادا کرنے والا اور کبھی چھوڑ دینے والاہو تو مسلمان ہی مانا جائے گا اور نماز کے علاوہ دیگر گناہ شراب نوشی ، قماربازی اور سودخوری وغیرہ گناہ کبیرہ ہے مگر ان کاموں سے کوئی اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ ایسا آدمی فاسق مانا جائے گا ، اگر کوئی فاسق آدمی اپنی لڑکی کی شادی بے دین اور شرابی کبابی آدمی سے کرے تو لڑکی کو حق حاصل ہے کہ وہ اس شادی سے انکار کردے اور ولی کو بھی اختیار نہیں کہ وہ جبرا لڑکی کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کسی بے دین سے کرائے ۔ بعض علماء نے ولی کے لئے عدالت کی بھی شرط لگائی اس صورت میں فاسق ولی نہیں بن سکتا مگر صحیح قول کی روشنی میں فاسق ولی بن سکتا ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ذکر کیاہے : النكاح بولاية الفاسق يصح عند جماهير الأئمة (مجموع الفتاوى:32/101) کہ جمہور ائمہ کے نزدیک فاسق کی ولایت نکاح میں صحیح ہے۔
سوال(12):کیا رمضان میں اعتکاف میں عورت طواف کر سکتی ہے کیونکہ ہم کتنا ہی دور سے طواف کریں نامحرم سے ضرور ٹکراتے ہیں اوررمضان میں رش بھی بہت ہوتا ہے؟
جواب: اعتکاف کی حالت میں بلاضرورت مسجد سے باہر جانا منع ہے اور مسجدحرام میں اعتکاف کرنے والی عورت کے لئے نفلی طواف کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے، یہ مسجد ہی کا حصہ ہے ۔ جس طرح مسجد حرام کے کسی حصہ میں معتکف عبادت کرسکتا ہے اسی طرح اس مسجد کے دوسرے حصہ مطاف میں آکر طواف کرسکتا ہے بلکہ بعض علماء نے اعتکاف کی حالت میں نفلی عبادت سے افضل طواف کرنا قرار دیا ہے۔ دوران طواف عورت مردوں سے ہٹ کر چلنے کی کوشش کرے ، لاشعوری طور پر یا رش کی وجہ سے مردوں سے ٹکرا جانے پر کوئی گناہ نہیں ہے اور اعتکاف یا طواف میں کوئی نقص نہیں آئے گا۔
سوال(13): عورتوں میں برص کا مرض کثرت سے پایا جاتا ہے ،یہ علاج سے بھی اکثر ٹھیک نہیں ہوتا ، اس مرض کی وجہ سے عورتوں کی شادی میں کافی دشواری پیدا ہورہی ہے آپ اس سلسلے میں قرآن وحدیث سے رہنمائی فرمائیں۔
جواب : برص سے نبی ﷺ نے پناہ مانگی ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے: «اللهم إني أعوذُ بك من الجنونِ والجُذامِ ، والبرصِ وسيِّئِ الأسقامِ»(صحيح النسائي:5508)
ترجمہ:اے اللہ! پاگل پن، کوڑھ، برص اور برے امراض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
یہ ایک بیماری ہے اس وجہ سے اللہ کے رسول نے اس سے پناہ مانگی ہے ، اویس قرنی رحمہ اللہ کو بھی یہ بیماری تھی اللہ سے دعا کی اکثر ختم ہوگئی سوائے ایک درہم یا دینار کے برابر ۔ اسے شادی بیاہ میں عیب سمجھا جاتا ہے اور متعدی بھی تصور کیا جاتا ہے اس وجہ سے برص والے مرد یا برص والی عورت کی جلدی شادی نہیں ہوتی ہے ۔ لوگ اس بیماری کو لاعلاج بھی سمجھتے ہیں اور کہتےہیں کہ اس کا علاج صرف عیسی علیہ السلام ہی کرسکتے تھے ،ان کے بعد اب کسی کی یہ بیماری ٹھیک نہیں ہوگی جبکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے : ما أنزَلَ اللَّهُ داءً إلَّا أنزلَ لَه شفاءً(صحيح البخاري:5678)
ترجمہ: اللہ نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کا کوئی علاج(شفا) نہ ہو۔
اس لئے یہ بیماری جہاں لاعلاج نہیں ، وہیں اس مرض والے سے شادی کی ممانعت بھی کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے ۔ کوئی اگر برص والے یا برص والی سے شادی کرنا چاہے تو شرعا منع نہیں ہے اور شادی کے بعد اللہ پر توکل اور اس سے دعا کرتے ہوئے صحت مند اولاد کی امید کی جاسکتی ہے ۔
اہل علم نے یہ بات بھی ذکر کی ہے کہ شادی کے موقع پر جس میں یہ مرض ہو اس کو ظاہر کردینا چاہئے اور اگر کسی میں یہ مرض شادی کے بعد ظاہر ہوا تو دوسرے کونکاح فسخ کرنے کا اختیار ہے اور چاہے تو اکٹھے بھی رہ سکتے ہیں ۔
قبیلہ بنوغفار کی ایک عورت سے نبی ﷺ نے شادی کی ،جب اس عورت نے اپنا کپڑا نکالا تو برص کی بیماری معلوم ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اسے جدا کردیا ، یہ روایت ضعیف ہے اور اسی طرح سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ قول بھی ضعیف ہے: أيُّما امرأةٍ غُرَّ بها رجلٌ بها جنونٌ أو جذامٌ أو برصٌ فلها مهرُها بما أصاب منها وصداقُ الرجلِ على من غرَّه(إرواء الغليل:1913)
ترجمہ: ایسا کوئی مرد جو کسی ایسی عورت کے ذریعہ دھوکہ دی گئی جسے پاگل پن یا کوڑھ یا برص کی بیماری لاحق تھی تو اس کا مہر وہی ہے جو اس کے ذریعہ مرد کو لاحق ہوا اور مرد کا مہر اس پر ہے جس نے اسے دھوکہ دیا۔
مختصر یہ ہے کہ برص ایک بیماری اور انسانی عیب ہے جس سے تنفر ممکن ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ اس مرض میں مبتلا مرد/عورت کی شادی نہیں ہوسکتی ، جو کسی کا سہارا بن کراللہ سے اجر کا طالب ہو وہ شادی کرسکتا ہے اور دھوکہ میں برص زدہ سے شادی ہوجانے پر نکاح فسخ کرنا ہی ضروری نہیں ہے چاہے تو اسے باقی رکھ سکتا ہے۔

سوال(14): ایک عورت جنبی تھی اور اسی حالت میں ماہواری شروع ہوگئی تو جنابت کے لئےغسل کب کرے ، حیض سے پاک ہوکر یا اس سے پہلے ہی؟
جواب: جنابت ایک ناپاکی ہے اور حیض ایک دوسری ناپاکی ہے ،اگر عورت فورا غسل جنابت کرلیتی ہے تو اس سےجنابت کی ناپاکی ختم ہوجاتی ہے مگر نماز نہیں پڑھے گی اور نہ ہی روزہ رکھے گی کیونکہ وہ حیض کی حالت میں ہے۔جب حیض سے پاک ہوتب طہارت کے واسطے دوسرا غسل کرےاور نماز پڑھنا شروع کرے ۔ غسل جنابت بالفور کرنے سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ جنابت کی ناپاکی ختم ہوجائے گی اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ قرآن کی تلاوت کرسکتی ہے کیونکہ جنبی کے لئے قرآن کی تلاوت منع ہے جبکہ حائضہ کے لئے ممانعت کی کوئی صحیح اور صریح دلیل نہیں ہے ۔
سوال(15): کیا خاتون کو تھوڑے لمبے ناخن رکھنے میں شریعت اسلامیہ کی طرف سے کوئی قباحت ہے ؟
جواب: ناخن کاٹنے کا تعلق صفائی سے ہے اور یہ دس فطری امور میں سے ایک ہے۔ ناخن کاٹنے میں مرد وعورت دونوں برابر ہیں یعنی دونوں کو ناخن کاٹنے کا حکم ہوا ہے۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
وُقِّتَ لنا في قصِّ الشاربِ، وتقليمِ الأظفارِ، ونتفِ الإبطِ، وحلقِ العانةِ، أن لا نتركَ أكثرَ من أربعينَ ليلةً .(صحيح مسلم:258)
ترجمہ: ہمارے لیے مونچھیں کترنے ، ناخن تراشنے، بغل کے بال اکھیڑنے اور زیر ناف بال مونڈنے کے لیے وقت مقرر کر دیا گیا کہ ہم ان کو چالیس دن سےزیادہ نہ چھوڑیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد ہو یا عورت زیادہ سے زیادہ چالیس دن تک اپنے ناخن چھوڑ سکتا ہے ، اس سے زیادہ دن ہونے پر واجبی طورپر اپنا ناخن کاٹنا ہوگا ورنہ گنہگار ہوں گے ۔
کسی مسلمان عورت کے لئے لمبے ناخن رکھنا جائز نہیں ہے ، اس میں فطرت کی مخالفت ، فساق وفجار خواتین اور حیوانات کی مشابہت کے ساتھ اپنے اندر نجاست پالنا بھی ہے ۔ بھلا مومنہ عورت ، نماز و روزہ کا اہتمام کرنے والی اورطہارت وپاکیزگی کا پیکر اپنے ہاتھوں میں نجاست کیسے پالے گی ؟۔ لمبے ناخن کی تہ میں گندگی جمتی رہتی ہےاس لئے ہفتہ ہفتہ ہی اس کی صفائی بہتر ہے پھرلمبے ناخن رکھنے والیاں اپنے ہاتھوں کی نمائش بھی کرتی ہیں کیونکہ لمبے ناخن رکھے ہی جاتے ہیں نمائش کے لئے ،اس پر مستزاد اکثر اس پہ نیل پالش کی جاتی ہے جس سے وضو نہیں ہوتا ۔ گویا گناہ کے ساتھ یہ عمل عبادت میں بھی مخل ہے ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (تیسری قسط)

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)

سوال(1) تھکان کی وجہ سے شوہر کے بلاوے پر اس کی خواہش پوری نہ کرے تو کیا عورت گنہگار ہوگی ؟
جواب : میاں بیوی کی زندگی الفت ومحبت اور خلوص ووفا پر قائم ہے جہاں ایک دوسرے کی رعایت ، تعاون اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ نے مردوں کو بھلائی کے ساتھ رہنے کا حکم دیا ہے ، فرمان باری ہے:وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء:19)
ترجمہ:اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بودوباش رکھو۔
عورت کو اپنے شوہر کی اطاعت کا حکم دیا ہے ، اس کے حکم کی نافرمانی گناہ کے ساتھ باعث مواخذہ بھی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:
واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن واهجروهن في المضاجع واضربوهن فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا (النساء:34)
ترجمہ: اورجن عورتوں کی نافرمانی اوربددماغی کا تمہیں ڈر اورخدشہ ہوانہيں نصیحت کرواورانہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اورانہیں مار کی سزا دو ، پھر اگر وہ تمہاری بات تسلیم کرلیں تو ان پر کوئي راستہ تلاش نہ کرو ، بے شک اللہ تعالی بڑي بلندی اوربڑائي والا ہے۔
نشوزمیں یہ بھی داخل ہے کہ شوہر جماع کے لئے بلائے اور بیوی بغیرعذر کے انکار کردے۔شوہر کسی کام کے لئے بلائے یا جماع کے لئے بلائے عورت فورا سارا کام چھوڑ کر حکم کی تعمیل کے لئے دوڑ پڑے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :إذا الرَّجلُ دعا زوجتَهُ لحاجتِهِ فلتأتِهِ ، وإن كانت علَى التَّنُّورِ(صحيح الترمذي:1160)
ترجمہ: جب خاوند اپنی بیوی کواپنی حاجت پوری کرنے کے لیے بلائے تواسے آنا چاہیے ، اگرچہ وہ تنور پرہی کیوں نہ ہو ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے : إذا دعا الرجلُ امرأتَهُ إلى فراشِهِ فأَبَتْ ، فبات غضبانَ عليها ، لعنتها الملائكةُ حتى تُصبحَ(صحيح البخاري:3237)
ترجمہ:جب کوئي شخص اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی آنے سے انکار کردے اورخاوند اس پر ناراضگی کی حالت میں ہی رات بسر کردے تو اس عورت پر صبح ہونے تک فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رات میں جیسے ہی شوہر بستر پر بلائے یا جماع کی خواہش ظاہر کرےبیوی اپنے شوہر کی اطاعت کرے اور فرمانبرداری میں آناکانی سے پرہیز کرے۔ تھکا ہوا ہونا جماع میں رکاوٹ نہیں ہے ، ممکن ہے شوہر بیوی سے زیادہ تھکا ہوا وروہ اپنی تھکان دور کرنے کے لئے بیوی سے قربت چاہتا ہو ایسے میں عورت اپنے آپ کو شوہر کے حوالے کردے ۔ ہاں کوئی مرض ہو ، کوئی شرعی رکاوٹ(حیض ونفاس) ہو یا کوئی دوسرا عذر ہو تو جماع سے انکار کرنے پر عورت کے لئے کوئی گناہ نہیں ۔
عورت کو ایک بات کا بہت ہی خیال رکھنا چاہئے کہ مباشرت کے معاملے میں مردوں میں صبر کی کمی ہے لہذا جب بھی آپ کے شوہرمیں اس بات کی خواہش پیدا ہو آپ رضامندی کا اظہار کریں البتہ شوہر کثرت جماع پہ مجبور کرے، غیرفطری طریقے سے اس کے پاس آئے، یا ایسے وقت میں جماع کا ارادہ کرے جب عبادت سے غفلت کا امکان ہو تو پھراسے انکار کرنے کا حق ہے ۔

سوال(2) شوہر پر بیوی کے لئے کس مقدار میں خرچ کرنا ضروری ہے ، کیا اپنی حیثیت کے مطابق یا محض اس کی ضرورت پوری کرنا کافی ہے؟
جواب : اسلام نے شوہر کے ذمہ بیوی اور بال بچوں کا خرچ (روٹی، کپڑا، مکان اور معالجہ وغیرہ)واجب کیا ہے مگر اس کی مقدار متعین نہیں کی ہے تاہم قرآن وحدیث کے نصوص سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مرد پر عورت کی ضروریات کے بقدر اخراجات واجب ہیں جیساکہ سیدہ عائشہ ؓسےروایت ہے کہ سیدنا ہند بنت عتبہ ؓنےعرض کی،اللہ کے رسول!
إنَّ أبا سفيانَ رجلٌ شحِيحٌ ، وليسَ يُعْطيني ما يَكفيني وولدي إلا ما أخذتُ منهُ ، وهو لا يعلمُ ، فقالَ :خُذي ما يكفيكِ وولدَكِ بالمعروفِ.(صحيح البخاري:5364)
ترجمہ: بلاشبہ ابو سفیان ؓ بخیل آدمی ہیں اور مجھے اتنا مال نہیں دیتے جو مجھے اور میری اولاد کو کافی ہوالایہ کہ میں کچھ مال لاعلمی میں لے لوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: د ستور کے مطابق اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہاری اولاد کو کافی ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کی ضروریات پوری کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے ، اگر شوہر اس ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو بیوی بغیربتائے شوہر کے مال میں بقدر حاجت لے سکتی ہے ۔
مرد کے لئے نفقہ میں بخیلی کرنا یا روک رکھنا جائز نہیں ہے ، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:كفى بالمرء إثمًا أن يَحبِسَ ، عمن يملكُ ، قُوتَه(صحيح مسلم:996)
ترجمہ: انسان کے لیے اتنا گناہ ہی کا فی ہے کہ وہ جن (اہل وعیال)کی خوراک کا مالک ہے انھیں نہ دے ۔
مرد کی حیثیت زیادہ ہے مگر عورت کی ضروریات زندگی پوری کردیتا ہے تو وہ گنہگار نہیں ہے اوراسراف سے بچتے ہوئے اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتا ہے تو اس میں بھی کوئی ممانعت نہیں ہے بشرطیکہ مال اور دیگر اہل حقوق کی بھی حق تلفی نہ کررہاہو۔

سوال(3) برف سے تیمم کرنا کفایت کرجائے گا؟
جواب: برف کا پانی پاک ہے اور پاک کرنے والا بھی ہے ، بخاری و مسلم میں دعا ہے کہ اے اللہ میرے دل کو اولے اور برف کے پانی سے دھو دے ۔
اللَّهمَّ اغسل قلبي بماءِ الثَّلجِ والبَرَدِ (صحيح البخاري:6377)
اے اللہ! میرے دل کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے۔
اللهمَّ طهِّرْني بالثَّلجِ والبَرَدِ والماءِ البارِدِ( صحيح مسلم:476)
ترجمہ: اے اللہ ! مجھے برف ، اولے اور ٹھنڈے پانی سے پاک کردے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ برف کے بہتے پانی سے وضو اور غسل کرسکتے ہیں لیکن جمی ہوئی برف سے تیمم کرنے کے متعلق جواز وعدم جواز میں اختلاف ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا(النساء:43)
ترجمہ:اگر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرو۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے پاک مٹی سے تیمم کا حکم دیا ہے اور یہ مٹی زمین کا حصہ ہے اس وجہ سے مٹی یا اس کی دوسری اجناس ریت،غبار، کنکری، پتھر، مٹی کی ٹھیکری ، کچی اینٹ، مٹی کی دیوار، مٹی کا پلسٹروغیرہ سے تیمم کرسکتے ہیں مگر جو مٹی کی جنس نہیں ہے اس سے تیمم نہیں کرسکتے اور برف مٹی کی جنس سے نہیں ہے لہذا اس سے تیمم کفایت نہیں کرے گا۔
فتح الباری میں عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے :" إنَّ الثَّلجَ لا يُتيمَّمُ به" کہ برف سے تیمم نہیں ہوگا مگر ابن رجب نے اس کی سند میں ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (فتح الباري لابن رجب:2/233)

سوال(4) آج کل عورتوں کا اسٹیج پروگرام ویڈیو کی شکل میں آتا ہے یہ کام شرعا کہاں تک درست ہے ؟
جواب:عورت کی آواز کا پردہ نہیں ہے اس وجہ سے جس طرح عورت ضرورت کے تحت مردوں سے بات کرسکتی ہے اسی طرح دعوتی مقصد سے اس کی آواز کو رکارڈ بھی کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس کی آواز میں لچک،نرمی، تصنع،خوش الحانی نہ ہو جس سے فتنے کا اندیشہ ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے:
يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا(الأحزاب:32) .
ترجمہ:اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو ۔
آواز کے ساتھ دعوتی ویڈیوز بنانے میں بھی حرج نہیں ہے مگر یہاں بھی فتنے کے امور سے بچنا ہوگا ۔ اسٹیج پروگرام میں فتنہ سامانی ہے، یہاں عورت کا مکمل بدن (چہ جائیکہ حجاب میں ہو)نقل وحرکت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اسٹیج کی دیگر خواتین حتی کہ پروگرام میں موجود تمام خواتین کو کیمرے میں دکھایا جاتا ہے ۔ظاہر سی بات ہے کہ ویڈیو بننے پہ اجنبی مرد بھی یہ پروگرام دیکھیں گے اس لئے عورتوں کے اسٹیج پروگرام کی صرف آواز رکارڈ کی جائے توفتنے سے حفاظت ہوگی ۔

سوال(5) شوہر کے مال سے خرچ کرنا یا صدقہ کرنے کی نوعیت کیا ہوگی ؟
جواب : عورت شوہر کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر اپنی اور اپنے بچوں کی ضرورت کی تکمیل کے لئے بقدر ضرورت لے سکتی ہے اور اسی طرح صدقہ بھی کرسکتی ہے اگر شوہر نے اس کی اجازت دے رکھی ہو۔
اجازت دو طرح کی ہوسکتی ہیں ۔ ایک اجازت صراحت کے ساتھ کہ تمہیں میرے مال سے صدقہ کرنے کی اجازت ہے اور ایک اجازت عرفا رضامندی والی ہو یعنی صدقہ کرنے پر شوہر کو کوئی اعتراض نہ ہو۔
اگر شوہرنے اپنی اجازت کے بغیر کچھ بھی صدقہ کرنے کی اجازت نہ دی ہو توضرورت کے علاوہ شوہر کے مال سے لینا جائز نہیں ہوگا خواہ صدقہ کی نیت سے ہو یا لوگوں(والدین وغیرہ) کا تعاون کرنے کی نیت سے ہو۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ولا تُنفِقُ المرأةُ شيئًا مِن بيتِها إلَّا بإذنِ زوجِها، فقيل: يا رسولَ اللهِ، ولا الطَّعامَ؟ قال: ذاكَ أفضَلُ أموالِنا(صحيح أبي داود:3565)
ترجمہ: اور کوئی عورت اپنے گھر میں سے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر کوئی چیز خرچ نہ کرے ۔ کہا گیا : اے اللہ کے رسول ! کھانا بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو ہمارے افضل اموال میں سے ہوتا ہے ۔
بعض احادیث میں اجازت کی صراحت نہیں ہے مگر وہاں بھی اجازت کی قید مانی جائے گی جیسے نبی ﷺ کا یہ فرمان:
إذا أطعمتِ المرأةُ من بيتِ زوجِها، غير مفسدةٍ، لها أجرها، وله مثله، وللخازنِ مثلُ ذلك، له بما اكتسب، ولها بما أنفقتْ .(صحيح البخاري:1440)
ترجمہ: جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے کھانا کھلائے جبکہ وہ گھر کی تباہی کا ارادہ نہ رکھتی ہو تو اسے اجر ملے گا،اس کے شوہر کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا اور خازن کو بھی ثواب ملے گا،مرد کی کمائی کرنے کا اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے اجر دیاجائے گا۔

سوال(6) شوہر سے پوچھے بغیرعورت اپنے مال کو جہاں چاہے صرف کرسکتی ہے اور جسے چاہے دے سکتی ہے یعنی اپنے والدین ، بھائی بہن کو؟ اور شوہر پر بھی خرچ کرسکتی ہے؟
جواب : عورت اپنے ذاتی مال میں خود مختار ہے جہاں چاہے بھلائی کے ساتھ خرچ کرسکتی ہے ۔فقراء ومساکین ہوں ، والدین ہوں ، بھائی بہن ہوں، کوئی اور رشتہ دارہوں یا نیکی کا کوئی کام ہو تمام جگہوں پر بغیر شوہر کی اجازت کے خرچ کرسکتی ہے۔ عہد رسول میں بھی صحابیات بغیر پوچھے صدقہ وخیرات کرتی تھیں بلکہ نبی ﷺ خود ہی عورتوں کو خصوصی طورپرصدقہ کی ترغیب دیتے تھے ، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی یا عید الفطر کے لئے عید گاہ کی طرف نکلے اور عورتوں کے پاس گزرے تو فرمانے لگے :
يا معشر النساء تصدقن، فإني رأيتكن أكثر أهل النار .(صحيح البخاري:1462)
ترجمہ:اے عورتوں کی جماعت! صدقہ و خیرات کیا کرو بیشک مجھے دکھایا گیا ہے کہ جہنم میں تمہاری اکثریت ہے۔
حسن معاشرت اور شوہر کو خوش رکھتے ہوئے ان سے اپنے مال سے خرچ کرنے کی اجازت لے لیتی ہے تو یہ میاں بیوی کے درمیان خوشگوارزندگی اور سازگار ماحول کے لئے بہت بہتر ہے خصوصا آج کے پرفتن دور میں ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے:
قيل لرسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أيُّ النساءِ خيرٌ ؟ قال : التي تسرُّه إذا نظر ، وتطيعُه إذا أمر ، ولا تخالفُه في نفسِها ومالها بما يكره(صحيح النسائي:3231)
ترجمہ: رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی عورت بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ عورت کہ جب خاوند اسے دیکھے تو وہ اسے خوش کردے اور جب اسے کوئی حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنے نفس اور مال میں اس کی مخالفت نہ کرے جسے وہ ناپسند کرتا ہو۔
اس حدیث میں بہترین عورت اسے کہا گیا ہے جو ذاتی مال کے تصرف میں بھی شوہر کی خوشی چاہے گوکہ شوہر سے اجازت کی ضرورت نہیں ہے پھربھی محض حسن معاشرت کا خیال کرتے ہوئے اجازت بہتر ہے جیساکہ نبی ﷺ کا یہ فرمان بھی اسی حسن معاشرت پہ ابھارتا ہے ۔
لا يجوزُ لامرأةٍ ، هبةٌ في مالِها ، إذا ملكَ زوجُها عصمتَها(صحيح النسائي:3765)
ترجمہ: جب خاوند بیوی کی عصمت کا مالک بن جائے تواس کے لیے اپنے مال میں کچھ بھی جائز نہيں۔
امام سندھی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ حدیث حسن معاشرت اور شوہر کوخوش کرنے کے معنی پر محمول ہے۔
جہاں تک شوہر پر اپنا مال صرف کرنے کی بات ہے تو یہ بھی خیر کا کام ہے اور شوہر محتاج ہو تو اس کو زکوۃ بھی دے سکتی ہے۔

سوال(7) میں اپنے بیٹے کا نام فاطر احمد رکھنا چاہتی ہوں کیا اس نام کے رکھنے کی ممانعت ہے ؟
جواب : قرآن میں فاطر کا لفظ چھ جگہوں پہ آیا ہے اور تمام جگہوں پر" فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ" کے الفاظ کے ساتھ وارد ہے حتی کہ صحیح احادیث میں بھی کہیں پر اکیلے الفاطر کا لفظ نہیں آیا ہے، ہر جگہ اضافت کے ساتھ ہی آیا ہے ۔ ننانوے اسمائے حسنی سے متعلق بعض حدیث میں الفاطر کا لفظ آیا ہے وہ ضعیف ہیں ۔
جب فاطر اضافت کے ساتھ آیا ہے تو ہم اسے اللہ کی صفت کہیں گے اسمائے حسنی نہیں کہیں گے جیسے نور کا لفظ قرآن میں جہاں بھی اللہ کے لئے آیا ہے اضافت کے ساتھ آیا ہے جیسے نوراللہ،نورہ،نورالسماوات اورنورمن ربہ وغیرہ مستقل طور پراللہ کے لئے النورکا لفظ نہیں آیا ہے اس لئے نور بھی اللہ کی صفت کہی جائے گی اسمائے حسنی میں سے نہیں ۔
شیخ ابن باز اور شیخ ابن عثیمین رحمھما اللہ نے اسمائے حسنی کا ذکر کیا ہے ، قرآن کریم سے اکاسی نام ذکر کئے ہیں ان میں فاطر کا لفظ نہیں ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ بچے کا نام فاطر احمد رکھنے میں حرج نہیں ہے، یاد رہے عبدالفاطر نہیں کہیں گے ۔ یہ نام اس صورت میں صحیح ہوتا جب یہ اللہ کے لئے اسمائے حسنی میں سے ہونا ثابت ہوجاتا۔

سوال(8) گھر میں نماز پڑھتے وقت بچہ بیڈ پر رو رہا ہو یا گرنے کا خطرہ ہوایسی صورت میں نماز توڑ دینی چاہئے یا کیا کرنا چاہئے ؟
جواب: اگر آپ نماز میں ہیں اور بچہ رو رہاہے یا بیڈ سے گرنے کا خطرہ ہے تو دو صورتوں میں سے جو مناسب ہو اختیار کرسکتی ہیں ۔ یا تو نماز توڑ کر بچہ چپ کرائیں اوراسے گرنے سے بچائیں یا پھر بچہ قریب ہی ہو تو اسے گود اٹھاکر نماز جاری رکھیں یعنی اپنی نماز توڑنے کی ضرورت نہیں ہے جب بچہ قریب ہی ہو۔ اس طرح ایک دو قدم چلنے ، حرکت کرنے اور نماز کی جگہ واپس آکر اپنی نماز جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
عن أبي قتادةَ قال بينا نحنُ في المسجدِ جلوسٌ خرجَ علينا رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ يحملُ أمامةَ بنتَ أبي العاصِ بنِ الرَّبيعِ وأمُّها زينبُ بنتُ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ وَهيَ صبيَّةٌ يحملُها على عاتقِهِ فصلَّى رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ وَهيَ على عاتقِهِ يضعُها إذا رَكعَ ويعيدُها إذا قامَ حتَّى قضى صلاتَهُ يفعلُ ذلِكَ بِها(صحيح أبي داود:918)
ترجمہ: سیدنا ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے ۔ آپ امامہ بنت ابی العاص بن ربیع کو اٹھائے ہوئے تھے ۔ اور اس کی والدہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی سیدہ زینب تھیں ، یہ چھوٹی بچی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا ۔ آپ ﷺ نے نماز پڑھائی اور یہ آپ ﷺ کے کندھے پر تھی ، آپ ﷺ جب رکوع کرتے تو اسے نیچے بٹھا دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اسے اٹھا لیتے ۔ آپ ﷺ نے ( اسی طرح ) نماز مکمل کی اور اس دوران اسے اٹھاتے اور بٹھاتے رہے ۔
ام المومنین عائشہ ؓ کہتی ہیں:
جئتُ ورسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي في البيتِ ، والبابُ عليه مغلقٌ ، فمشِىَ حتى فَتَحَ لي ، ثم رَجَعَ إلى مكانِه ، ووَصَفَتِ البابَ في القِبْلَةِ.(صحيح الترمذي:601)
ترجمہ:میں گھرآئی رسول اللہﷺ نمازپڑھ رہے تھے اوردروازہ بند تھا،تو آپ چل کرآئے اور میرے لیے دروازہ کھولا پھر اپنی جگہ لوٹ گئے اور انہوں نے بیان کیاکہ دروازہ قبلے کی طرف تھا۔
بچہ اگر دوری پر ہو یا زیادہ رو رہا ہو،اسے چپ کرانے میں بہلانے اور لوری دینے کی ضرورت ہو تو نماز توڑ دیں اور جب آپ نماز توڑ دیں گی تو بعد میں ازسرے نو نماز پڑھنی ہوگی ۔

سوال(9) رات میں سونے ، عبادت کرنے اور جاگنے کا کیا روٹین ہونا چاہئے ؟
جواب: رات کو اللہ تعالی نے آرام حاصل کرنے کے لئے اور دن کو روزی حاصل کرنے کے لئے بنایا ہے ، صحیحین میں ہےنبی ﷺ عشاء سے پہلے سونے اور عشاء کے بعد بات کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ رات کو عشاء کی نماز کے بعد فورا سوجانا چاہئے تاکہ قیام اللیل کے لئے بیدار ہونا ہو تو قیام اللیل کرسکیں اور فجر کی نماز کے لئے وقت پہ بیدار ہوسکیں ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
أَحَبُّ الصلاةِ إلى اللهِ صلاةُ داودَ : كان ينامُ نصفَ الليلِ ويقومُ ثُلُثَهُ ، وينامُ سُدُسَهُ(صحيح البخاري:3420)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ نماز حضرت داود علیہ السلام کی نماز ہے۔ وہ آدھی رات تک سوتے تھے اور پھر ایک تہائی رات کی عبادت کرتے اور آخری چھٹا حصہ پھر سو جاتے تھے۔
اس عمل میں نفس پر مشقت ہے مگریہ سب سے بہتر سونے اور عبادت کرنے کا روٹین ہے کہ بندہ آدھی رات تک سوئے پھر بیدار ہوکر تہجد پڑھے پھر سوجائے اور نمازفجر کے لئے بیدار ہو۔ بہرکیف! سونے کے لئے وقت متعین نہیں ہے تاہم نہ کم نیند لینا ہے جس سے صحت کو ضرر لاحق ہو اور نہ ہی زیادہ نیند لینا ہے جس سے واجبات میں کوتاہی ہو۔

سوال(10) بیٹایا بیٹی اگر ماں کو مال دیتے ہیں اور ماں نیکی کے راستے میں خرچ کرتی ہے تو کیا دونوں کو اجر ملے گا؟
جواب: والدین اگر محتاج ہوں تو اولاد کو اپنے والدین پر خرچ کرنا واجب ہے اور بغیر محتاجگی کے بھی والدین کو دے سکتے ہیں۔ جب بیٹا یا بیٹی اپنی والدہ کو مال دے اور والدہ نیکی کے کاموں میں صرف کرے یا اپنی ضرورت پوری کرے ہردونوں صورت میں اولاد کو اجر ملے گا۔ اہل وعیال پر خرچ کرنا افضل نفقہ ہے اور اسے صدقہ قرار دیا گیا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : أَفْضَلُ دِينَارٍ يُنْفِقُهُ الرَّجُلُ دِينَارٌ يُنْفِقُهُ عَلَى عِيَالِهِ(صحيح مسلم:955)
ترجمہ: ان میں سے سب سے زيادہ اجرو ثواب والا وہ ہے جوآپ نے اپنے اہل وعیال پرخرچ کیا ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:إذا أنفَق الرجلُ على أهلِه يحتَسِبُها فهو له صدقةٌ(صحيح البخاري:55)
ترجمہ: جب مرد اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتے ہے تو وہ اس کے حق میں صدقہ بن جاتا ہے۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل (چوتھی قسط)

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)

سوال(1) رات میں وضو کرکے سونے گئی مگر دیر تک نیند نہیں آئی اور وضو ٹوٹ گیا تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھے دوربارہ وضو کرنا چاہئے ؟
جواب : سونے سے قبل وضو کی بڑی فضیلت ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:إذا أتيتَ مضجعَكَ ، فتوضَّأْ وضوءَكَ للصَّلاةِ(صحيح البخاري:6311)
ترجمہ: جب تو بستر پر آنے کا ارادہ کرے تو وضو کر جیسے نماز کے لیے نماز وضو کرتا ہے۔
اسی حدیث میں مذکور ہے کہ وضو کرکے دائیں کروٹ سوجائے تو کہے "اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَهْبَةً وَرَغْبَةً إِلَيْكَ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ" اس کے بعد اگر مرجائے تو دین اسلام پر خاتمہ ہوگا۔
نبی ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے:
مَنْ باتَ طَاهِرًا باتَ في شِعَارِهِ مَلَكٌ ، لا يَسْتَيْقِظُ ساعَةً مِنَ الليلِ إلَّا قال المَلَكُ : اللهمَّ اغفرْ لِعَبْدِكَ فلانًا ، فإنَّهُ باتَ طَاهِرًا(السلسلة الصحيحة:2539)
ترجمہ: جو شخص رات کو وضو کرکے سوئے تو ایک فرشتہ اس کے پاس رات گزارتا ہے جب وہ شخص اٹھتا ہے تو وہ فرشتہ کہتا ہے،اے اللہ! اپنے اس فلاں بندے کی مغفرت فرما کیونکہ وہ وضو کرکے سویا ہے۔
عشاء کی نماز والا وضو باقی ہے تو پھر سے وضو بنانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن جس کا وضو ٹوٹ گیا ہے وہ نیا وضو بنالے اوربا وضو بستر پر آئے ، سونے سے پہلے وضو ٹوٹ جائے تو پھر سے بستر چھوڑنے اور وضو بنانے میں مشقت ہے ، نیند کا غلبہ بھی ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔ اللہ نے انسان کو مشقت میں نہیں ڈالا ہے ۔ وضو کرنے والے کو اس کی نیت کے مطابق اللہ اجر دے گا۔ نیند بھی ناقض وضو ہے ، سونے سے آخر کار وضو ٹوٹ ہی جاتا ہے کیونکہ نیند ناقض وضو ہے پھر بھی اللہ اجر پوری رات کا دیتا ہے ۔

سوال(2) قرآن پڑھتے پڑھتے اونگھ آنے لگے تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا؟
جواب : تلاوت کے لئے باوضو ہونا افضل ہے مگر ضروری نہیں ہے ۔ بغیر وضو کے بھی آپ قرآن کی تلاوت کرسکتی ہیں ، رسول اللہ ﷺنے بھی بغیر وضو کے ایک مرتبہ نیند سے بیدار ہوکر سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت کی تھیں ۔ آپ نے کافر بادشاہوں کے نام خطوط لکھے جن میں قرآنی آیات لکھی تھیں ۔ یہاں تک کہ حیض ونفاس والی عورتیں بھی قرآن کی تلاوت کرسکتی ہیں ، رسول اکرم ﷺ نے ایسی خواتین کو قرآن کی تلاوت سے منع نہیں کیا۔ ان ساری باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پڑھتے ہوئے وضو ٹوٹ جائے یا بلا وضو قرآن پڑھ رہی ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اونگھ سے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔ صحيح مسلم( 376 ) میں ہے کہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں صحابہ كرام رضى اللہ عنہم عشاء كى نماز ادا كرنے كے ليے انتظار كرتے حتى كہ ان كے سر جھك جاتے اور پھر وضوء كيے بغير ہى نماز ادا كرتے تھے۔
سوال(3) ایام بیض کے روزے کی فضیلت اور اس روزہ کو کب رکھا جائے گا ہمیں بتلائیں۔
جواب : ایام بیض کے روزوں کی بڑی فضیلت ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے:
صومُ ثلاثةِ أيامٍ صومُ الدهرِ كلِّه(صحيح البخاري:1979)
ترجمہ: ہرمہینے میں تین دن روزے رکھ لینا اس سے زمانے بھر کے روزے رکھنے کا ثواب ملتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ صحابہ کو ایام بیض کے تین روزے رکھنے کی تاکید کرتے اور خود بھی سفر ہو یا حضر کبھی اسے ترک نہیں کرتے ۔(سلسلہ صحیحہ:580)
ایام بیض کے روزے قمری تاریخ کے حساب سے ہرماہ تیسرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو رکھنا ہے، آپ ﷺ نے ابوذررضی اللہ سے فرمایا:يا أبا ذرٍّ إذا صُمتَ منَ الشَّهرِ ثلاثةَ أيَّامٍ ، فصُم ثلاثَ عشرةَ ، وأربعَ عشرةَ وخمسَ عشرةَ(صحيح الترمذي:761)
ترجمہ:ابوذر!جب تم ہرماہ کے تین دن کے صیام رکھو تو تیرہویں ، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو رکھو۔
بعض عورتوں کو وسط ماہ میں حیض آجاتا ہے،ایسی عورتیں شروع یا آخر ماہ میں بھی تین روزے اکٹھے یا متفرق طور پر رکھ لیں تو مذکورہ اجر ملے گا۔ ان شاء اللہ

سوال(4) سجدہ سہو میں اپنی مرضی سے زیادہ سے زیادہ دعائیں کرسکتی ہوں ؟
جواب : ذکوان نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
أقرَبُ ما يكونُ العبدُ من ربِّه وهو ساجِدٌ؛ فأكثِروا الدُّعاءَ.( صحيح مسلم:482)
ترجمہ: بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس حالت میں ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے، لہٰذا اس میں کثرت سے دعا کرو۔
یہ حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ سجدے کی حالت میں کثرت سے دعائیں کرنی چاہئے خواہ فرض نماز ہو یا سنت ونوافل یا سجدہ سہو ۔ فرض نماز کے سجدسہو میں مسنون دعاؤں پر اکتفا کرنا چاہئے یعنی جو دعائیں قرآن میں وارد ہیں یا نبی ﷺ نے جو ہمیں بتلائی ہیں، انہیں میں سے جو مرضی ہو پڑھنی چاہئے اور نوافل کے سجدوں میں اپنی مادری زبان میں بھی دعائیں کرسکتی ہیں ۔

سوال(5) مجھ سے رمضان کے کچھ روزے چھوٹ گئے اورمیں اس کی تعداد بھول گئی اس صورت میں مجھے کتنا روزہ رکھنا پڑے گا؟
جواب : اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ(البقرة:184)
ترجمہ: جو كوئى بھى تم ميں سے بيمار ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس عورت نے عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑی ہے اسے اپنی گنتی معلوم رکھ کر اتنے دنوں کی قضا کرے ۔ اگر روزہ ترک کرنے میں اس سے غفلت ہوئی ہے تو اولا سچی توبہ کرے اور آئندہ اس غفلت سے بچنے کا اللہ سے وعدہ کرے۔ روزوں کی تعداد بھولنے میں غفلت نہیں بلکہ یاد داشت کی کمی ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے ۔ ایسی عورت اپنی یاد داشت پہ زور دے اورایام حیض یا جس عذر کی وجہ سے روزہ ترک کیا ان ایام سے اندازہ لگائے اور دیکھے کہ کس پر اطمینان ہوتا ہے؟ جس عدد پر اطمینان ہوجائے اتنے کی قضا کرے اور اگر اسے شک ہو کہ چار چھوٹا یا پانچ تو پانچ رکھے یعنی زیادہ والا تاکہ وہ بری الذمہ ہوجائے۔

سوال(6) کیا عورت احرام کی حالت میں موزہ پہن سکتی ہے اور کیا مرد ٹخنے سے نیچے والا موزہ پہن سکتا ہے ؟
جواب : عورت کے لئے احرام کی حالت میں موزہ پہننا جائز ہی نہیں بہت اچھا ہےکیونکہ عورت کاجسم مکمل ستر میں داخل ہے اس لئے عورت سر سے لیکر پاؤں تک مکمل جسم کو اجنبی مردوں سے چھپائے گی خواہ حج وعمرہ ہو یا سفر ہو یا کوئی اور جگہ مگر بعض خواتین کو احرام کی حالت میں دیکھا جاتا ہے کہ ان کی شلواربھی ٹخنے سے اوپر ہوتی ہے اور پیر میں ہوائی چپل ہوتی ہے۔ یہ بالکل ہی غلط ہے۔
احرام کی حالت میں عورت موزہ پہن سکتی ہے ، جوتی پہن سکتی ہے اور مردوں کے لئے ٹخنے سے نیچے والا موزہ علماء جائز قرار دیا ہے،صحیح بخاری میں ہے کہ جسے چپل نہ ملے وہ موزہ پہن لے اور اسے کاٹ کر ٹخنے سے نیچے کرلے۔

سوال(7) ایسی عورت جسے میں نے قرض دیا ہو یا جو مسکین ہو وہ جب ہمیں دعوت کرے تو اس کی دعوت قبول کرنی چاہئے ؟
جواب : دعوت قبول کرنا مسنون ہے مگر کوئی مسکین مجبوری میں کسی کا دل رکھنے کے لئے دعوت دے اور یہ بات ہمیں معلوم ہو تو محبت سے سمجھادیں کہ دعوت کی ضرورت نہیں ہے تاکہ دلی محبت قائم رہے اور مقروض یا کوئی غریب آدمی خوش دلی سے دعوت کرے اس حال میں کہ اسے کھلانے کی وسعت ہوتو دعوت قبول کرنا چاہئے خواہ معمولی چیز کی ہی دعوت کیوں نہ کرے اور کھانے میں عیب نہیں نکالنا چاہئے۔ دعوت کے بدلے ہم کچھ تحائف پیش کردیں تو اچھا ہوجائے گا ۔ اللہ تعالی مومن کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ (الحشر:9)
ترجمہ: اور وه اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ خود ہی سخت تنگی میں ہوتے ہیں ۔
اس آیت کی شان نزول میں ایک صحابی کا واقعہ کا ہے جو خود بیوی بچوں سمیت بھوکے رہ کر مہمان کی دعوت کرتے ہیں ۔

سوال(8) کیا میں زکوہ کی رقم نکال کر الگ سے رکھ سکتی ہوں تاکہ اس میں سے تھوڑا تھوڑا کرکے حاجت مندوں کو وقتا فوقتا دیتی رہوں؟
جواب : مال میں جب زکوۃ واجب ہوجائے اسی وقت مال کی زکوۃ نکال کر فقراء ومساکین اور حاجتمندوں میں تقسیم کردی جائے ، زکوۃ کے مال کو جمع کرکے رکھنا اور تھوڑا تھوڑا کرکے مانگنے والوںو حاجتمندوں میں تقسیم کرتے رہنا جائز نہیں ہے ۔ ہاں کوئی خاص محتاج ہو جس کو کچھ کچھ وقفہ سے دینا مصلحت کے تئیں ہو تو چند ایک قسطوں میں دینا حرج کی بات نہیں ہے ۔ نفلی صدقات نکال کر رکھ سکتی ہیں جسے سال بھر تقسیم کریں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال(9) ایک مسجد میں نچلے حصے میں عورتوں کے لئے نماز اور تعلیم کے واسطے کمرہ خاص ہے کیا اس کمرے میں تعلیم کی غرض سے حائضہ عورت داخل ہوسکتی ہے ؟
جواب : اگر وہ کمرہ اصلا نماز کے لئے بنایا گیا ہے اور کبھی کبھار خواتین اس میں درس وغیر ہ دے دیا کرتی ہیں تو پھر اس میں حیض والی عورت کا داخل ہونا اور اس کمرہ میں ٹھہرنا جائز نہیں ہے لیکن اگر یہ کمرہ شروع سے تعلیم کی نیت سے بنایا گیا اور اس میں عورتیں نماز بھی ادا کرلیا کرتی ہیں تو پھر اس صورت میں حیض والی کا اس میں دخول ممنوع نہیں ہے جیسے مسجد کے نچلے حصے میں کوئی کمرہ لائبریری، کوئی کمرہ اسٹور اور کوئی کمرہ امام کی رہائش کے لئے مخصوص کردیا جاتا ہے یہ کمرے اصلا مسجد کے حکم میں نہیں ہیں ،ان میں جنبی اور حائضہ کا دخول یا وقوف ممنوع نہیں ہے ۔
سوال(10) شوہر غیرفطری طریقے سے عورت کو مباشرت پہ مجبور کرے تو ایک نیک بیوی کا کیا فریضہ بنتا ہے ؟
جواب : بیوی کو مردوں کے لئے کھیتی قرار دیا گیاہے وہ جس طرح چاہیں اپنی بیوی سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں مگر جماع کے لئے اسلام نے پاکیزہ اصول بتلائے ہیں ۔ پچھلی شرمگاہ میں جماع حرام ہے ایسے فعل کا مرتکب شخص ملعون ہے ، جماع اگلی شرمگاہ میں حلال ہے اور حیض ونفاس میں اگلی شرمگاہ میں بھی جماع ممنوع ہے ۔ لہذا مومن مرد کو بیوی کے پاس جائز طریقے سے آنا چاہئے اور حرام وممنوع طریقوں سے اللہ کا خوف کھانا چاہئے ۔ مومنہ کے ذمہ ہے کہ شوہر کی بھلی بات میں تابعداری کریں ، منکر اور حرام کاموں میں بات نہ مانیں ، بیہودہ کا م پراللہ کا خوف دلائیں ، نصیحت کریں ، باز نہ آئے تو ناراضگی کا اظہار کریں ۔ یقینا مردوں میں گندی حرکتیں ،گندی چیزوں کے دیکھنے ، رب کی بندگی سے غافل اور اس کی پکڑ سے بے خوف ہوجانے کی وجہ سے پائی جاتی ہیں ۔ نیک بیوی ایسے مردوں کو نماز کا پابند بنائے۔ گندی فلموں اورفحش ناچ گانوں سے بچائے اور ان کی آمدورفت کی محفل اور دوست واحبا ب بہتر بنوائے ۔علماء سے مربوط ہونے اور ان کے بیانات سے نصیحت حاصل کی طرف لگائے ۔ ان کاموں سے شوہر میں تبدیلی پیدا ہوگی ، تمام معاملات میں برے کاموں سے بچے گااور اللہ کا خوف کھائے گا۔
سوال(11) غسل جنابت، غسل حیض اور غسل نفاس کی دعا بتائیں ۔
جواب : غسل کا طریقہ جان لیں تو شروع اور بعد کی دعا بھی اچھے سے معلوم ہوجائے گی ۔ پہلے غسل طہارت کی نیت کریں یعنی دل میں یہ خیال کریں کہ ہم پاکی حاصل کرنے کے لئے غسل کررہے ہیں پھر بسم اللہ کہیں ، اس کے بعد نماز کی طرح وضو کریں ،اس کے بعد پورے بد ن پر پانی بہاکر تمام اعضائے بدن کو دھوئیں حتی کہ بالوں کی جڑاور بغل ہر جگہ پانی پہنچ جائے۔ غسل کے بعد حمام میں ہیں تو باہر نکل کر وضو کے بعد کی دعا پڑھیں ۔ اس کے علاوہ اور کوئی ذکر یا مخصوص دعا نہیں ہے ۔
سوال(12) اگر بچہ کی پیدائش کے وقت کوئی مرد نہ ہو تو کیا عورت نومولود کے کان میں اذان دے سکتی ہے ؟
جواب : نماز کے واسطے عورت کے لئےاذان واقامت مشروع نہیں ہے لیکن اگر بچے کی پیدائش کے وقت نومولو د کے کان میں کوئی اذان دینے والا مرد نہیں ہے تو کوئی خاتون وضو کرکے یا بغیر وضو کے نومولود کے کان میں اذان دے سکتی ہے ۔ گوکہ عورت کے حق میں نماز کے لئے اذان واقامت مشروع نہیں ہے مگر یہاں اذان نماز کے لئے نہیں بطور ذکر ہے ۔ اسی طرح معلمہ بچوں کو تعلیم دیتے وقت اذان واقامت کی تعلیم دے سکتی ہے۔
سوال(13) فیشن والے کپڑوں کی تجارت کرنا کیسا ہے ؟
جواب : تجارت میں اسلام نے ہمیں حرام ذرائع کو اپنانے سے منع کیا ہے اور کوئی بھی معاملہ ہو گناہ اور برائی کے کاموں پر تعاون کرنے سے بھی منع کیا ہے ۔ کپڑوں کی تجارت حلال ہے مگر وہ کپڑے جو معصیت کے لئے استعمال کئے جائیں مثلا ناچ گانے وغیرہ ان کا بیچنا قطعا جائز نہیں ہے اور اسی طرح فیشن کے نام پہ وہ عریاں لباس بیچنا بھی حرام ہے جس سے ستر پوشی نہیں ہوتی یا کفار کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ محض ایسے ہی کپڑوں اور لباس کی فروخت جائز ہے جن کے بارے میں غالب گمان ہو کہ یہ جائز اور مباح طریقے سے استعمال کئے جائیں گے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ شرح العمدۃ میں لکھتے ہیں :"كل لباس يغلب على الظن أن يستعان بلبسه على معصية فلا يجوز بيعه وخياطته لمن يستعين به على المعصية والظلم"۔
ترجمہ: ہر وہ لباس جس كے متعلق غالب گمان ہو كہ اسے پہن كر گناہ اورمعصيت کے کاموں ميں تعاون ليا جائيگا تو جو شخص اس سے معصيت اور ظلم ميں مدد اور معاونت حاصل كرے اس كے ليے اسے فروخت كرنا اور اسے سلائى كر كے دينا جائز نہيں۔
اگر غلطی سے ایسے کپڑے آگئے ہوں تو اسی جگہ واپس کردئے جائیں جہاں سے لائے گئے ہوں اور اگر واپسی کا امکان نہ ہو توتوبہ کرتے ہوئے اس معصیت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی نیت سے دوسرے کفار تاجر کے ہاتھوں بیچ دے۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت عمر کو ریشم کی قبا دی تو انہوں نے اسے پہن لیا، جب آپ ﷺ نے انہیں وہ قبا پہنے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ یہ لباس وہی پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ، میں نے تمہیں اسے پہننے کے لئے نہیں بلکہ(بیچ کر) اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے دیا تھا۔

سوال(14) بیوی رمضان کا روزہ قضا کررہی تھی شوہر نے روزہ کی حالت میں بیوی سے جماع کرلیا ایسی صورت میں میاں بیوی کا کیا حکم ہے ؟
جواب : یہ قضا روزہ فرض کے حکم میں ہے اس لئے نہ شوہر کو اس سے منع کرنے کا حق ہے اور نہ ہی بیوی کو اس معاملہ میں شوہر کی فرنبرداری کا فریضہ بنتا ہے ۔ اگر شوہر نے بیوی سے جبرا جماع کیا ہے تو بیوی بے قصورہے وہ اس روزہ کے بدلے پھر سے قضا کرے گی اورجماع میں بیوی کی بھی رضامندی ہے تو میاں بیوی دونوں توبہ کریں گے ۔ اس میں کوئی کفارہ نہیں ہے ۔
سوال(15) عورت ٹرین میں کس طرح نماز پڑھے میرا مطلب وضو ، حجاب اور قبلہ وغیرہ کے کیا احکام ہوں گے ؟
جواب : لمبے سفر میں نماز کا وقت فوت ہوجانے کا خطرہ ہو تو عورت ومرد تمام مسلمان پر واجب ہے کہ ٹرین میں ہی نماز ادا کریں لیکن معمولی دیر کے سفر میں یا تو اول وقت میں نماز پڑھ کے ٹرین میں سوار ہو ں یا پھر اتر کرنماز ادا کریں ۔ عورت جب ٹرین میں نماز کے لئے وضو کرے تو لوگوں کے سامنے وضو نہ کرے بلکہ باتھ روم میں پانی لیکر وضو کرے اور باہر نکل کر وضو کی دعا پڑھے اور قبلہ کی جو سمت غالب گمان میں ہونا معلوم ہو اسی سمت رخ کرے ، ذرا ٹیرھا ہونے یا نماز میں ٹرین کے غیرقبلہ ہوجانےکا کوئی مسئلہ نہیں ہے ، رسول اللہ ﷺ نے اہل مدینہ کو کہا کہ مشرق ومغرب کے درمیان سارا حصہ قبلہ ہے۔ پورے بدن کو سر سمیت پیروں تک چھپائے اور ڈبے میں اجنبی مرد ہو تو چہرہ بھی چھپائے اور آواز پست رکھے نیز کھڑے ہونے کی سہولت نہ ہو تو بیٹھے بیٹھے نماز ادا کرے ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(پانچویں قسط)

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)


سوال(1) کیا ایک عورت اپنی بہن کے داماد سے پردہ کرے گی ؟
جواب :ہاں عورت اپنی بہن کے داماد سے پردہ کرے گی کیونکہ وہ اس عورت کا محرم نہیں ہے ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں عورت کو اس کی خالہ یا پھوپھی کے ساتھ جمع کرنا حرام قراردیا گیاہے ۔ اس حدیث کی وجہ سے ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اپنی بہن کا داماد محرم ہوگیا ، نہیں ۔ دونوں آپس میں اجنبی ہی ہیں جیسے دو سگی بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا حرام ہے مگر سالی اپنے بہنوئی سے پردہ کردے گی ۔ عورت کے لئے صرف اپنے داماد سے پردہ نہیں ہے اور اپنا داماد عورت کہ رضاعی بیٹی کا شوہر ہے یا اپنی سگی بیٹی کا شوہر ۔ عورت کی پوتی ، پڑپوتی اور نواسی کا شوہر بھی داماد کے حکم میں ہے۔
سوال(2)کیا چھوٹی بچیوں کا رقص کرتے ہوئے نظم پڑھنا شریعت کی رو سے جائز ہے ؟
جواب : آجکل مسلمانوں کے یہاں اسٹیج پروگراموں میں بچیاں بدن کو حرکت دیتے ہوئے نظم پڑھتی ہیں ، بعض مقامات پر ایسی حرکات کے ساتھ قرآ ن بھی تلاوت کرتے ہوئے نظر آتی ہیں ۔ رقص کوئی اچھی چیز نہیں ہے کہ ہم مدرسوں اور اسکولوں میں مسلم بچیوں کو تلاوت اور اناشید کے ساتھ رقص بھی کروائیں ۔یہ چیز ناظرین کو بھاتی ہے مگر اس میں غیروں کی نقالی اور فتنے کا سبب ہے ۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأما الرقص من النساء فهو قبيح لا نفتي بجوازه لما بلغنا من الأحداث التي تقع بين النساء بسببه ، وأما إن كان من الرجال فهو أقبح ، وهو من تشبه الرجال بالنساء ، ولا يخفى ما فيه ، وأما إن كان بين الرجال والنساء مختلطين كما يفعله بعض السفهاء : فهو أعظم وأقبح لما فيه من الاختلاط والفتنة العظيمة لا سيما وأن المناسبة مناسبة نكاح ونشوة عرس (فتاوى إسلامية: 3/187).
اس عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ رقص کرنے میں قباحت ہے اس وجہ سے ہم اس کے جواز کا فتوی نہیں دے سکتے اور ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اس کے سبب عورتوں میں فتنہ برپا ہوا ہے ۔ اگر مرد رقص کرے توعورت کے رقص سے بھی قبیح ہے کیونکہ اس میں عورتوں کی مشابہت ہے اور اس کی قباحت سب پر عیاں ہے۔ اگر مردوعورت کے ساتھ مخلوط رقص ہو جیساکہ بعض بے وقوف کرتے ہیں تو یہ مردوں کے رقص سے بھی قبیح اور عظیم گناہ ہے کیونکہ اس میں اختلاط کے ساتھ بڑا فتنہ پایا جاتا ہے بطور خاص نکاح اور شادی کی مناسبت سے ہو۔
اس لئے ذمہ داران ادارہ و تنظیم سے گزارش ہے کہ بچیوں کا مستقبل خراب نہ کریں ، یہ کل گھروں کی مالکن بنیں گی ، اگر اس نہج پہ بچیوں کی تربیت کی گئی تو اپنے گھروں میں اور معاشرہ میں یہی چیز پھیلائے گی اور فتنے کا سبب بنیں گی ، اس وقت فتنے کا اصل ذمہ دار مربی ہوں گے ۔

سوال(3)جس طرح بیوی کے لئے بستر پہ بلانے سے انکارکرنے پر سخت وعید ہے ، اس کے برعکس اگر شوہر بیوی کی خواہش پوری کرنے سے انکار کرے تو کیا حکم ہے ؟
جواب: صحیح بخاری(3237) میں فرمان رسول ﷺ ہے : جب کوئي شخص اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی آنے سے انکار کردے اورخاوند اس پر ناراضگی کی حالت میں ہی رات بسر کردے تو اس عورت پر صبح ہونے تک فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں۔ اس حدیث میں مذکور لعنت عورت کے ساتھ خاص ہے ،ایسی کوئی خاص وعید مردوں کے سلسلے میں نہیں ہے ۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ عموما جماع کا مطالبہ شوہر کی طرف سے ہوتا ہے اور جماع پہ کنٹرول مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ پھر بھی اللہ کے رسول ﷺ نے مردوں کو عورتوں کے متعلق ڈرنے کا حکم دیا ہے ۔
مسلم شریف کی حدیث ہے :فاتقوا اللهَ في النِّساءِ(مسلم :1218)
ترجمہ : اے لوگو! تم عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔
شوہر پر بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ اس کا شوہر حسب ضرورت بیوی کی خواہش پوری کرے ،اگر وہ بلاعذر بیوی کی خواہش پوری نہیں کرتا تو ایسا شوہر ظالم ہے اور بیوی مظلوم ہے ۔ مظلوم اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا ،اس وجہ سے نبی ﷺ نے مظلوم کی بددعا سے بچنے کا حکم دیا ہے ۔ اگر مظلوم بددعا نہ بھی کرے پھر بھی اللہ کےیہاں اس کے لئے دردر ناک عذاب رکھا ہے ۔ فرمان الہی ہے : وَمَن يَظْلِم مِّنكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا(الفرقان:19).
ترجمہ: تم میں سے جس نے بھی ظلم کیا ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے ۔
عورتوں کو اس معاملے میں صبر سے کام لینا چاہئے ، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

سوال(4)حرم شریف میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ ہے کیا یہ فرض نماز کے ساتھ خاص ہے ؟
جواب : اس سلسلے میں نبی ﷺ کی جو حدیث ہے وہ عام ہے،ہر نماز کو شامل ہے ۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں :
صلاةٌ في مسجِدي أفضلُ من ألفِ صلاةٍ فيما سواهُ إلَّا المسجدَ الحرامَ وصلاةٌ في المسجدِ الحرامِ أفضلُ من مائةِ ألفِ صلاةٍ فيما سواهُ(صحيح ابن ماجه:1163)
ترجمہ:میری مسجد میں نماز مسجد حرام کے سوا کسی بھی مسجد کی ہزاروں نمازوں سے افضل ہے۔ اور مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنا کسی دوسری مسجد کی ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔
یہاں "صلاۃ" کا لفظ وارد ہے جو فرض، سنت اور نفل تمام نمازوں کو شامل ہے لہذا مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب فرض کے ساتھ تمام نمازوں کوبھی شامل ہے ۔

سوال(5)کسی سہیلی نے مجھ سے پوچھا ہے کہ آدم علیہ السلام نے حوا کو مہر میں کیا دیا تھا؟
جواب : مختلف کتب سیراور قصص ومواعظ کی کتابوں میں حوا کا مہر نبی ﷺ پر درود پڑھنا ہے۔ درود پڑھنے کی تعداد بھی مذکور ہے ، یہ تعداد بعض جگہ تین مرتبہ ، بعض جگہ دس مرتبہ، بعض جگہ بیس مرتبہ، بعض جگہ سو مرتبہ اور بعض جگہ ہزار مرتبہ آیا ہے ۔ ان ساری روایات کا حکم یہ ہے کہ حوا کے مہر کے طور پر آدم علیہ السلام کا نبی ﷺ پر درود پڑھنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔
سوال(6)کسی کا باپ مرجائے اور اس کے ذمہ قرض ہو تو کیا اس کی اولاد زکوۃ سے قرض کی ادائیگی کر سکتی ہے ؟
جواب : میت کے ذمہ قرض ہو تو اس کے وارثین کی ذمہ داری ہے کہ میت کے ترکہ سے قرض کی ادائیگی کریں۔ اگرمیت نے مال نہیں چھوڑا ہو تو جو بھی ترکہ میں چھوڑا ہو اسے بیچ کر ادا کیا جائے ۔ بالکل ترکہ نہ ہو تو اولاد زکوۃکے علاوہ مال سےقرض ادا کرسکتی ہے یا قرض خواہ خود ہی معاف کردے ۔ قرض کی ادائیگی کے لئے اولاد کے پاس زکوۃ کے علاوہ رقم نہ ہو تو اس صورت میں زکوۃ کی رقم میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی کے لئے دی جاسکتی ہے۔
سوال(7)ایک خاتون کئی سالوں تک بال ڈائی کراتی رہی ، اور نماز بھی پڑھتی تھی اسے اب معلوم ہوا کہ بال ڈائی نہیں کرانا چاہئے تو اس کی پچھلی نماز کا کیا حکم ہے کیونکہ اس سے تو وضو نہیں ہوتا؟
جواب : مردوں اور عورتوں کے لئے صرف کالے رنگ سے بال رنگنامنع ہے ، کالے رنگ کے علاوہ دوسرے رنگ سے بال رنگنا منع نہیں ہے ۔ وضو کے وقت بالوں پر پرت جمی ہو اس طورپر کہ وضومیں مسح کا پانی بال تک نہیں پہنچ پاتا ہو تو اس صورت میں وضو نہیں ہوگا اور اس طرح وضوکرکے پڑھی گئی نماز نہیں ہوگی ۔ اگر عورت کالے رنگ سے بال رنگتی تھی اور اس کے بال پر وضو کے وقت پرت جمی ہوتی اس حالت میں وضو کرتی اور نماز پڑھتی تو یہ عورت کی شریعت کے حکم سے نادانی اور جہالت ہے ، وہ سابقہ عمل سے سچی توبہ کرے اور آئندہ اس عمل سے پرہیز کرے ۔ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔
سوال(8)جوعورت احرام کی حالت میں وفات پاجائے اس کے غسل اور تکفین کی کیا صورت ہوگی ؟
جواب: دوران حج وفات پانے والے مرد کو بیری ، پانی اور غیرخوشبو والے صابون سے غسل دیا جائے گا اور احرام کے کپڑے میں ہی کفن دیا جائے گا ۔ نہ اس کا بال کاٹاجائے گا، نہ اس کا ناخن کاٹا جائے گا اور نہ ہی اسے خوشبو لگائی جائے گی ۔ محرم کی طرح اس کا سر بھی کھلارہے گا اور کھلے سر، ایک چادر، ایک ازارمیں نماز جنازہ پڑھ کر دفن کردیا جائے گا۔
محرمہ میت کو بھی غسل دیتے وقت بیری اور پانی سے غسل دیا جائے اور ہرقسم کی خوشبو سے پرہیز کیا جائے گا حتی کہ کفن میں بھی خوشبونہیں لگائی جائے گی ۔عام عورتوں کی طرح تین کپڑوں میں تدفین ہوگی اورسر و چہرہ بھی ڈھکا جائے گا مگر نقاب سے نہیں بلکہ دوسرے کپڑے سے ۔

سوال(9) کیا عورت اپنی مرضی سے والد کی میراث کا حصہ چھوڑ سکتی ہے ؟
جواب: اگر عورت بغیرمجبوری ، خوشی خوشی اپنے ہوش وحواش میں اپنا حصہ دیگر وارثین کے لئے چھوڑ دیتی ہے تو اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہاں ایک امر کی وضاحت ضروری ہے کہ بسا اوقات وارثین تقسیم میراث میں عورتوں کو جان بوجھ کر محروم کرتے ہیں یا اپنا حصہ چھوڑدینے کا مطالبہ اور اس مطالبے پر جبر کرتے ہیں یا حصہ مانگنے پر عورتوں سے رشتہ توڑ لیتے ہیں ایسی صورتوں میں مجبورا عورتیں اپنا حصہ چھوڑ دیتی ہیں ۔ میراث کی غیرمنصفانہ تقسیم کرنے والے لوگ اپنی آخرت بربادکرتے ہیں ، کل قیامت میں انہیں بندوں کی حق تلفی کی بدترین سزا ملے گی ۔ اس سزا سے بچنے کا راستہ دنیا میں حق والوں کا حق دینا ہے ۔
سوال(10)اپنی سہیلی کی کوئی خوبی پسند آئے تو کیا میں اس سے بیان کرسکتی ہوں؟
جواب: منہ پر کسی کی تعریف کرنے سے منع کیا گیا ہے تاکہ وہ کبروغرور میں نہ مبتلا ہوجائے لیکن اگر ممدوح کی بجا تعریف کرنے میں غرور کا اندیشہ نہ ہو تو مناسب الفاظ میں سامنے بھی تعریف کی جاسکتی ہے جیساکہ بعض احادیث سے جواز کا پہلو نکلتا ہے۔ تاہم خوشامدی الفاظ، بے جاتعریف، جھوٹےالقاب،مطلبی کلمات، غلو اور چاپلوسی کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ اللہ اس مرض سے ہمیں بچائے ۔
 
Last edited:

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
بنت حوا کے چند مسائل اور ان کا شرعی حل

سائلہ : بنت حوا کے شرعی مسائل کا حل
جواب : شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

سوال(1):نبی کا نام آنے پر درود پڑھنے کی کیا دلیل ہے ؟
جواب: نبی ﷺ کا فرمان ہے : البخيلُ الذي من ذُكِرْتُ عندَه فلم يُصَلِّ عليَّ(صحيح الترمذي:3546)
ترجمہ: بخیل وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور پھر بھی وہ مجھ پر درود نہ بھیجے ۔
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب نبی کا نام آئے تو ہمیں آپ پر درود پڑھنا چاہئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بغیر ذکر کے آپ پر درود نہیں پڑھ سکتے ۔ آپ پر درود پڑھنا تو بڑے اجر کا کام ہے اس لئے ایک مسلمان سے جس قدر ہوسکے آپ پر درود وسلام پڑھتا رہے۔

سوال(2): رمضان میں آٹھ رکعت سے زیادہ پڑھتے ہیں کیا یہ صحابہ یا ان کے بعد والوں سے ثابت ہے ؟
جواب: رمضان ہو یا غیر رمضان نبی ﷺ اکثروبیشتر آٹھ رکعت ہی پڑھا کرتے اور ساتھ ہی تین رکعت وتر بھی پڑھتےجیساکہ صحیحین میں موجود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول سے معلوم ہوتا ہے تاہم کوئی کبھی کبھار اس سے زائد بھی پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔ رات کی نماز دودو رکعت ہے اگر کسی کو طاقت ہو تو جتنا چاہے دو دو کرکے پڑھ سکتا ہے ، آخر میں ایک وتر پڑھ لے۔نبی ﷺ کا فرمان ہے:
صلاةُ الليلِ مثنى مثنى ، فإذا خشي أحدُكم الصبحَ صلى ركعةً واحدةً ، توتِرُ له ما قد صلى.(صحيح البخاري:990 و صحيح مسلم:749)
ترجمہ : رات کی نماز دو دو رکعت ہے، اور اگر تم میں کسی کو صبح ہوجانے کا اندیشہ ہو، اور وہ ایک رکعت پڑھ لے، تو یہ اس کی پڑھی ہوئی نماز کے لئے وتر ہوجائیگی۔
حدیث رسول آجانے کے بعد کسی صحابی یا تابعی کے قول وفعل کی طرف التفات کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال(3): عشاء سے پہلے چار سنت کا ثواب شب قدر کی طرح ہے کیا یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے ؟
جواب: عشاء سے پہلے نہیں بلکہ عشاء کے بعد چار رکعت پڑھنے کا اجر شب قدر کے برابر ملنے کا ذکر ہے مگر یہ کسی مرفوع روایت سے ثابت نہیں ہوتا تاہم اس سلسلے میں بعض آثار ملتے ہیں جو سندا صحیح ہیں ۔شیخ البانی نے ان آثار کے متعلق کہا ہے کہ گویا یہ موقوف روایات ہیں مگر مرفوع کے حکم میں ہیں کیونکہ یہ بات اجتہاد سے نہیں کہی جاسکتی ہے جیساکہ ظاہر ہے۔
میں نےاس سوال کا جواب ایک اور جگہ آثارذکر کرکے دیا ہےجو میرے بلاگ پر دیکھ سکتے ہیں۔

سوال(4): کیا باب الریان سے داخل ہونے والے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے کبھی روزہ نہیں توڑا ، ہم جیسی خاتون نہیں ہوں گی جنہیں حیض ونفاس کی وجہ سے اپنا روزہ توڑنا پڑتا ہے یا اسی طرح فدیہ دینے والی ؟
جواب: نبی ﷺ کا فرمان ہے: إذا صلَّتِ المرأةُ خَمْسَها ، و صامَت شهرَها ، و حصَّنَتْ فرجَها ، وأطاعَت زوجَها ، قيلَ لها : ادخُلي الجنَّةَ مِن أيِّ أبوابِ الجنَّةِ شِئتِ(صحيح الجامع:660)
ترجمہ: ترجمہ :جب عورت اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھ لے ، اپنے ماہ {رمضان } کا روزہ رکھ لے ، اپنی شرمگاہ کی ‏حفاظت کرلے ، اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں اسکے جس دروازے سے داخل ‏ہونا چاہے داخل ہوجا ۔
نبی ﷺ کو معلوم ہے کہ خاتون کو حیض ونفاس آتا ہے جس کی وجہ سے ان کے روزے قضا ہوجاتے ہیں پھر بھی آپ نے انہیں جنت کی بشارت دی ہے اور یہاں تک فرمادیا کہ جنت کے دروازوں میں سے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے چاہے وہ دروازہ الریان ہی کیوں نہ ہو۔ خاص بات یہ ہے کہ عورت نے فرض روزہ عذر کے سبب چھوڑی ہو اور چھوڑے ہوئے روزوں کی وقت پر قضا کرلی ہو ۔ جس نے قضا کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے فدیہ دے دیا اس نے بھی روزہ کا حق ادا کردیا۔

سوال(5): امہات المومنین نے رسول اللہ ﷺ سے تھوڑا سا خرچہ بڑھانے کی مانگ کی تو آیت نازل ہوگئی ، اس کی وضاحت فرمائیں ۔
جواب: جب مسلمانوں میں فتوحات کی وجہ سے مالداری آئی تو امہات المومنین نے انصارومہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ سے نفقہ کی شکایت کیں اور اس میں اضافے کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالی نے سورہ احزاب کی یہ آیات نازل فرمائی:يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا * وَإِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا(الأحزاب:28، 29)
ترجمہ:اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کردوں ۔ اوراگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو (یقین مانو کہ) تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لئے اللہ تعالٰی نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں ۔
مذکورہ آیت کی شان نزول سے متعلق صحیحین کے علاوہ نسائی،ترمذی،ابن ماجہ اور مسند احمد وغیرہ میں حدیث مذکور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ازواج مطہرات کی جانب سے نفقہ کی شکایت آئی تو آپ کو بیحد صدمہ ہوا حتی کہ آپ نے بیویوں سے علاحدگی اختیار کرلی ، ایک ماہ بعد یہ آیات نازل ہوئیں، آپ نے بیویوں پر پیش کیا اور انہیں اپنے ساتھ یا علاحدہ ہوجانے کا اختیار دیا تو تمام بیویوں نے آپ کو ہی اختیار کیا۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل ( چھٹی قسط)

جواب از شیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف
ـمسرہ

سوال(1): ایک شخص کو اکلوتی بیٹی تھی اس نے ایک لڑکا گود لیا ، جب یہ دونوں بچے بالغ ہوگئےکیا اس وقت لڑکی اپنے منہ بولے بھائی سے پردہ کرے گی؟
جواب : منہ بولے بہن بھائی کی اسلام میں کوئی حقیقت نہیں ہے ، بھائی وہی ہیں جو سگے ہوں خواہ نسب سے ہوں یا رضاعت سے ۔ اگر لڑکی کی ماں نے لے پالک کو شیرخواری میں اپنا دودھ نہیں پلایا توبلوغت کے بعد اس لے پالک سے نہ صرف لڑکی پردہ کرے گی بلکہ اس کی ماں کو بھی پردہ کرنا لازم ہےاور اگرلے پالک لڑکی ہے تووہ منہ بولےباپ سے بھی پردہ کرےگی۔جب لے پالک(لڑکا/لڑکی) کا بلوغت کے بعد منہ بولےماں باپ سے پردہ ہےتو منہ بولے بہن بھائی کے درمیان بدرجہ اولی پردہ ہوگااس لئےلڑکی کو چاہئے کہ اپنے منہ بولے بھائی سے خلوت نہ کرے، مصافحہ نہ کرے،اس کے ساتھ سفر نہ کرے، بلاضرورت اور بلاحجاب بات چیت نہ کرے ، نہ ننگے سر آئےاور نہ اس کے سامنے اپنی زینت کا اظہار کرے کیونکہ یہ متبنی اس لڑکی کے لئے غیرمحرم ہے۔ آج کل انٹرنیٹ پہ بھی منہ بولے بہن بھائی بنائے جاتے ہیں ، دوران حج میدان عرفات میں عورتیں اجنبی لڑکے کوعرفاتی بھائی بنالیتی ہیں ۔ یاد رہے اس طرح بھائی بنالینے سے آپس میں پردہ نہیں اٹھ جاتا ہے، اجنبی ان احوال میں بھی اجنبی ہی رہیں گے ، آپس میں پردہ کرنا ہوگا اوراسی طرح آپس میں نکاح بھی جائز ہے ۔
سوال(2):ایسے پھل کھانے کا کیا حکم ہے جو نجس پانی سے پٹایا گیا ہو؟
جواب : اگر نجس پانی سے کوئی درخت سیراب ہوا ہو تو اس کا پھل کھانا جائز ہے کیونکہ وہ درخت، اس کی ڈالی، اس کا پتہ اور اس کا پھل سب کچھ پاک ہیں ۔ جب پاک چیز سے مل کر نجس چیز کا وصف بدل جائے تو وہ پاکی کے حکم میں ہے، اسے استحالہ کہتے ہیں ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے استحالہ سے متعلق یہی موقف اختیار کیا ہے ۔ آپ خنزیر فرائی کئے تنور کی پاکی پر دوسرا قول ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وهو مذهب أبي حنيفة ، وأحد قولي المالكية وغيرهم ، أنها لا تبقى نجسة . وهذا هو الصواب ، فإن هذه الأعيان لم يتناولها نص التحريم لا لفظا ولا معنى ، وليست في معنى النصوص ، بل هي أعيان طيبة فيتناولها نص التحليل(مجموع الفتاوى:21/ 610 –611) .
یعنی دوسرا مذہب جوکہ ابوحنیفہ اور مالکیہ وغیرہ کا ہے کہ نجس چیزیں اپنی کیفیت بدلنے سے نجس نہیں رہتیں اور یہی قول درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کو حرمت شامل نہیں ہے ، نہ لفظی طور پر اور نہ ہی معنوی طورپر بلکہ یہ چیزیں پاک ہیں اور حلال چیزوں کے نصوص میں شامل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام نے نجس فضلات خشک ہوکر مٹی میں مل کر مٹی ہوجانے پراس جگہ کو پاک کہا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ نجس پانی سے سیراب ہوئے درخت کا پھل کھانا جائز ہے۔

سوال(3):پانی کا کاروبار کرنا کیسا ہے جبکہ میں نے سنا ہے کہ پانی بیچنا حرام ہے ؟
جواب : متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی بیچنا منع ہے ، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
نهى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ عن بيعِ فضلِ الماءِ .( أخرجه مسلم :1565، والنسائي :4670 مطولاً، وابن ماجه :2477، وأحمد:14639)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے بچ جانے والے پانی کو فروخت کرنے سے منع فرمایا۔
بظاہر اس حدیث سے پانی بیچنا ممنوع معلوم ہوتا ہے مگر علماء نے کہا ہے کہ یہاں پانی سے مراد نہروں اور چشموں کا پانی ہے جس پہ کسی کی ملکیت نہ ہو۔ جب پانی کو جمع کرلیا جائے اور اپنی ملکیت میں لے آیا جائے تو اس کا بیچنا جائز ہے ۔

سوال(4):نکاح کن کن باتوں سے ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب : ان باتوں سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے ۔طلاق سےیا خلع سےیا ارتداد سےیا شوہر کے لاپتہ ہونے پر عدالت کے ذریعہ فسخ نکاح سے۔ احناف کے یہاں بیٹی یا ساس کو شہوت سے چھولینے یا سسر کا بہو سے زنا کرنے یا شہوت کے ساتھ چھولینے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے ۔ احناف کا یہ مسئلہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے ۔ حدیث میں وارد ہے کہ حرام کام کسی حلال کو حرام نہیں کرسکتا (ابن ماجہ: 2015) گوکہ اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے مگر کئی آثار سے یہ بات منقول ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی صحیح اثر میں مذکور ہے :عنِ ابنِ عباسٍ أنَّ وطءَ الحرامِ لا يُحرِّمُ۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حرام وطی (مباشرت) سے (کوئی حلال چیز) حرام نہیں ہوجاتی ۔
احناف سے گئے گزرے بریلوی ہیں جو اپنے مخالف مذہب والوں سے سلام ومصافحہ تک کرنے سے عورتوں کا نکاح توڑ دیتے ہیں بلکہ بسااوقات پورے پورے گاؤں کی عورتوں کا نکاح توڑ دیا جاتا ہے ۔ ایک جگہ ایک دیوبندی نے بریلویوں کو جنازہ کی نماز پڑھائی ، جب بریلوی ملاؤں کو معلوم ہوا تو پورے گاؤں کا نکاح ٹوٹ جانے کا اعلان کیا ۔ پھر تجدید نکاح کے نام پہ فیسوں سے جیب گرم کی جاتی ہے۔ چند باتیں عوام میں نکاح ٹوٹنے سے متعلق غلط مشہور ہوگئی ہیں ۔ ان میں بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں وطی کرنے ،بیوی کا دودھ پینے، سالی سے زنا کرنے، بیوی سے کئی سال لاتعلق اور باپ چیت نہ کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان باتوں سے نکاح نہیں ٹوٹتا۔

سوال(5):کیا خواب کی تعبیر جاننا ضروری ہے اور اگر کسی نے برا خواب دیکھ لیا اسے کسی سے بیان کردیا تو اس کے شر سے بچنے کی تدبیر کیا ہوگی؟
جواب : حضرت ابو سلمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایسے خوفناک خواب دیکھتا تھا جو مجھے بیمار کردیتے یہاں تک کہ میں نے حضرت ابو قتادہ ؓ کو فرماتے سنا: میں ایسے خواب دیکھتا جو مجھے بیمار کردیتے حتیٰ کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا:
الرؤيا الحسنةُ مِن الله ، فإذا رأى أحدُكم ما يُحِبُّ فلا يُحدِّثُ به إلا مَن يُحِبُّ ، وإذا رأى ما يَكرَهُ فلْيَتعوَّذْ باللهِ مِن شرِّها ، ومِن شرِّ الشيطانِ ، ولْيَتفُلْ ثلاثًا ، ولا يُحدِّثُ بها أحدًا ، فإنها لن تَضُرَه .(صحيح البخاري:7044)
ترجمہ: اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، اس لیے جب تم میں سے کوئی اچھا خواب دیکھے تو وہ صرف اس سے بیان کرے جس سے وہ محبت کرتا ہے اور جب کوئی ناپسند خواب دیکھے تو اس کے شر اور شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے، تین بار تھو تھو کرے اور کسی سے بیان نہ کرے۔ ایسا کرنے سے وہ اسے کوئی نقصان نہیں دے سکے گا۔
ایک دوسری روایت میں ہے ، نبی ﷺ فرماتے ہیں :إِذَا حَلَمَ أَحَدُكُمْ فَلَا يُخْبِرْ أَحَدًا بِتَلَعُّبِ الشَّيْطَانِ بِهِ فِي الْمَنَامِ(صحيح مسلم:2268)
ترجمہ:جب تم میں سے کوئی شخص برا خواب دیکھے تو وہ نیند کے عالم میں اپنے ساتھ شیطان کے کھیلنے کی کسی دوسرے کوخبر نہ دے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:فمَن رأى شيئًا يَكْرَهُهُ فلا يَقُصَّهُ على أحدٍ ولْيَقُمْ فلْيُصَلِّ(صحيح البخاري:7017)
ترجمہ:جس نے خواب میں کسی بری چیز کو دیکھا تو چاہیے کہ اسے کسی سے بیان نہ کرے اور کھڑا ہوکر نماز پڑھنے لگے۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اچھے خواب صرف اچھے لوگوں سے بیان کیا جائے تاکہ اس کے اندر حسد نہ ہو اور برے خواب کسی سے بھی نہ بیان کیا جائے کیونکہ اس کے بیان کرنے سے پریشانی کا اندیشہ ہے ۔
اگر کسی نے انجانے میں یا دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے کسی سے اپنا برا خواب بیان کردیا ہے تو اسے چاہئے کہ برے خواب اور شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے کیونکہ کسی کے برا چاہنے سے بھی کچھ نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ نہ چاہے اورنماز پڑھ کراللہ سے دعائیں کرے تاکہ برے خواب کے شر سے اللہ بچائے ۔آئندہ کسی سے برا خواب بیان نہ کرے ۔

سوال(6):کسی نے اپنے موزہ پر مسح کرکے نماز پڑھی ، نماز کے بعد معلوم ہوا کہ مسح کی مدت ختم ہوگئی تو کیا اپنی نماز پھر سے لوٹائے گا؟
جواب :اس میں چند مسائل ہیں ۔ اگر کبهی ایسا ہو کہ بهول کر بغیر وضو کے موزہ پہن لیا اور اسی حالت میں موزے پہ مسح بهی کرلیا یا مسح کی مدت ختم ہونے کے بعد مسح کرکے نماز ادا کرلی تو ان صورتوں میں نماز باطل ہے، اس نماز کو دہرانی ہوگی کیونکہ یہ معاملہ ایسے ہی ہے جیساکہ کوئی بلا وضو نماز پڑهے اورمسلم شریف کی حدیث ہے کہ بغیر وضو کے نماز قبول نہیں ہوتی۔
دوران نماز امام (کسی کو امامت کے لئے بڑھادے)ہو یا مقتدی اگر اسے اس بات کا علم ہوجائے کہ مسح کی مدت ختم ہوگئی تھی پھر بھی مسح کرکے نماز ادا کررہاہے تو نماز توڑ دے اور نیا وضو کرکے پھر سے نماز پڑھے ۔
اگر امام نے ایسی حالت میں نماز پڑھایا کہ اس نے مسح کی مدت ختم ہونے کے بعد مسح کیا تھا تو صرف امام کو نماز دہرانی ہوگی بقیہ لوگوں کی نماز درست ہے الا یہ کہ اگر مقتدی کو شروع میں ہی معلوم ہوگیا ہو تو وہ بھی اپنی نماز دہرالے ۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ مسح کی مدت تو ختم ہوگئی تھی مگر آدمی کا وضو باقی تھا تو ایسی صورت میں پڑھی گئی نماز صحیح ہے۔

سوال(7):عقیقہ کے موقع سے مہندی لگانے کا شرعی حکم کیا ہے ، آجکل اس کا رواج بڑھنے لگا ہے ؟
جواب: عورتیں کبھی بھی مہندی لگاسکتی ہیں مگر کسی وقت کو متعین کرلینا رسم ورواج میں داخل ہے۔ایسے رسم ورواج سے بچنا چاہئے جس سے شر پھیلنے کا اندیشہ ہو۔ عقیقہ نومولود کے نام سے خون بہانے کا نام ہے ،اس عقیقہ سے عورت کے مہندی لگانے کا کیا تعلق ہے ؟ یاد رہے اگر عورتیں اجنبی مردوں سے مہندی لگواتی ہیں یا مہندی لگاکر اجنبی مردوں پر اپنی زینت ظاہر کرتی ہیں تو گناہگار ہوں گی ۔
سوال(8):کیاعورتوں کے بالوں کو جو زمین پر گرجائیں انہیں دفن کردینا چاہئے تاکہ لوگ انہیں غلط مقاصد کے لئے استعمال نہ کریں ؟
جواب: بالوں کو دفن کرنے سے متعلق کوئی نص موجود نہیں ہے تاہم بعض اہل علم اسے دفن کرنے کو اچھا خیال کرتے ہیں ۔اگر جادو ٹونا کا اندیشہ ہو جیساکہ آج کل اس کا بڑا رواج ہے تو پھر کسی محفوظ جگہ دفن کردینا چاہئے ۔اجنبی مردوں کی نظر نہ پڑے اس مقصد سے بھی بال زمین میں چھپایا جاسکتا ہے۔اکثرعورتیں توہمات کا شکار ہوتی ہیں اور ہربات کو جناتی اثرات سے منسوب کرتی ہیں ۔ میں ان عورتوں کو پابندی سے نماز ادا کرنے، کثرت سے استغفارپڑھنے اورطہارت واذکار پہ ہمیشگی برتنے کی نصیحت کرتا ہوں ۔ اللہ کی توفیق سے نہ کسی انسان کا جادو آپ پر اثر کرے گا اور نہ ہی کوئی شیطان آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
سوال(9):کیا عورت اپنے میکے میں قصر کرے گی ؟
جواب: جب عورت اپنے شوہر کے ساتھ اس کے گھر میں سکونت پذیر ہو اور والدین کی زیارت کے لئے میکے جایا کرے تو دو شرطوں کے ساتھ قصر کرے گی ۔ پہلی شرط یہ ہے کہ میکے کی مسافت پیدل یا اونٹ کے ذریعہ ایک دن اور ایک رات یعنی تقریبا اسی کلومیٹرہو ۔ دوسری شرط یہ ہے کہ چاردن یا اس سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو ۔ اگر عورت میکے میں چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرتی ہے تو پوری نماز پڑھے گی یا مسافت اسی کلومیٹر سے کم ہے تب بھی میکے میں مکمل نماز پڑھے گی ۔
سوال(10):اگر شوہر مجھے بال کٹانے، ابرو بنانے، ناخن بڑے رکھنے کا حکم دے تو میں کیا کروں ؟
جواب : نبی ﷺ کا فرمان ہے :لا طاعةَ في مَعصيةِ اللَّهِ إنَّما الطَّاعةُ في المَعروفِ(صحيح أبي داود:2625)
ترجمہ:اللہ کی معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں ، اطاعت تو بس نیکی کے کام میں ہے۔
اگر والدین اپنی اولاد کو کفر کرنے کا حکم دیں، یا شوہر بیوی کو معصیت کے کاموں پر مجبور کرے یا حاکم رعایا کو ظلم وجور پر ابھارے تو ایسی صورت میں نہ والدین کی اولاد پر، نہ شوہر کی بیوی پر اورنہ حاکم کی رعایا پر اطاعت واجب ہے ۔ اللہ کی معصیت اور نافرمانی کے کاموں میں کسی کی بات نہیں مانی جائے گی ۔
لہذا بیویاں اپنے شوہر وں کی اطاعت صرف بھلی باتوں میں کریں اور بال کٹانے، ابروبنانےاوربڑے ناخن رکھنے کا حکم دیں تو ان کی بات ٹھکرادیں ۔

سوال(11):مجھے شوہر حمل روکنے کی دوا کھانے پر مجبور کرتا ہے ، ایسی صورت میں شوہر کی اطاعت کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اگر شوہر کسی ضرورت ومصلحت اورشرعی عذر کی وجہ سے بیوی کو مانع حمل گولی کھانے کا حکم دے تو بیوی شوہر کی اطاعت کرےلیکن شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کا مانع حمل دوا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ صرف شوقیہ طورپر اولاد سے بچنا نہ صرف شادی کے مقصد کے خلاف ہے بلکہ رسول اللہ ﷺکے اس فرمان کے بھی خلاف ہے جس میں کثرت سے بچہ جننے والی عورت سے شادی کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بھی یاد رہےکہ کثرت سے مانع حمل گولی استعمال کرنے سے ،بعد میں اولاد سے محرومی ہوتی ہے کیونکہ اس کے برے اثرات ہیں جو حیض اور رحم مادر پر مرتب ہوتے ہیں ۔
سوال (12):آج کل عورتیں باریک موزے پہنتی ہیں کیا اس پر مسح کیا جاسکتا ہے ؟
جواب: بعض علماء نے باریک موزوں پر مسح کرناجائز کہنا ہے ، اس سلسلے میں زیادہ قوی بات یہ ہے کہ ایسے باریک موزے جس کے اندر سے قدم کی چمڑی اور رنگ دکھائی دے ان پرمسح کرنا جائز نہیں ہے ۔ایسی صورت میں وضو کرتے وقت موزہ اتار کر قدم دھونا ضروری ہے ورنہ وضو نہیں ہوگا۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں: من شرط المسح على الجوارب أن يكون صفيقا ساتراً ، فإن كان شفافاً لم يجز المسح عليه ؛ لأن القدم والحال ما ذكر في حكم المكشوفة ۔(فتاوى الشيخ ابن باز:10/110).
ترجمہ: جرابوں پر مسح کرنے کی شرط یہ ہے کہ جرابیں موٹی ہوں اور پورے قدم کو ڈھانپتی ہوں،اگر جرابیں شفاف(باریک) ہوں تو اس پر مسح کرنا جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس صورت میں پاؤں ننگا ہونے کے حکم میں ہوگا۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(ساتویں قسط)

جواب ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)

سوال(1):کیاخواتین کے لئے عمر کے کسی مرحلےمیں پہنچ کرپردہ کی پابندی ختم ہوجاتی ہے؟
جواب : پردہ کی پاپندی کسی بھی مرحلے میں ختم نہیں ہوتی ہے تاہم جب عورت عمر رسیدہ ہوجائے تو اس کے لئے حجاب میں تخفیف ہے یعنی اپنے چہرہ اور ہتھیلی کو مردوں پر ظاہر کرسکتی ہےمگر ستر کے وہی احکام ہوں گے یعنی چہرہ اور ہتھیلی کے سوا سر سے لیکر پیر تک بالوں سمیت ہاتھ وپیروغیرہ مردوں سے چھپائے گی ۔اللہ کا فرمان ہے :
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ
ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (النور:60)
ترجمہ:بڑی بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی امید (اورخواہش ہی ) نہ رہی ہو وہ اگر اپنے کپڑے اتار رکھیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں بشرطیکہ وہ اپنا بناؤ سنگار ظاہر کرنے والیاں نہ ہوں تاہم اگر ان سے بھی احتیاط رکھیں تو ان کے لئے بہت افضل ہے اور اللہ تعالٰی سنتا جانتا ہے ۔
ایسی بوڑھی عورت جسے حیض آنا بند ہوگیا ہو اور اس میں نکاح کی رغبت ختم ہوگئی ہو اسے اپنے حجاب وبرقع اتارنے یعنی شلواروقمیص کے اوپر بطور حجاب استعمال کئے جانے والی چادر کو اتار نے کی اجازت ہے ۔یہ اجازت ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے وہ ہے زیب وزینت اور بناؤ سنگار کا ظاہر نہ کرنا ۔ اگر بوڑھی عورت بناؤسنگار ظاہر کرے مثلا زرق برق لباس،میک اپ، سرمہ، لیپ اسٹک ، کھنکھناتی خوبصورت چوڑیاں، خوبصورت انگوٹھی اور مائل کرنے والی گھڑیاں استعمال کریں تو پھرلباس کے ساتھ چہرے اور ہاتھوں کا بھی حجاب کرنا لازم ہوگا۔بوڑھی عورت بناؤ سنگار کا اظہار نہ کرے اور حجاب اتارنے سے فتنہ کا ڈر ہو تب بھی حجاب لازم ہےحتی کہ فتنے کا ڈر نہ ہو اور بوڑھی عورت عفت کی خاطر حجاب کرتی رہے تو ایسا کرنا اللہ تعالی نے بوڑھی عورت کے حق میں خیروفضل کا باعث قرار دیا ہے ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ عورت کی عمر کے تمام مراحل میں حجاب کرنا افضل ہے تاہم بوڑھی عورت کے لئے جب فتنے کا ڈر نہ ہو اور زینت کا بھی اظہار نہ کریں تو اپنا چہرہ اور ہتھیلی کھولنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

سوال(2): کیاسن رسیدہ (آئسہ)خواتین کےلئےبھی عدت گذارنا ضروری ہے؟
جواب : عمر رسیدہ عورتوں کے لئے بھی طلاق، خلع اوروفات کی عدت ہےتاہم عدت کے احکام مختلف ہیں ۔
بیوہ کو عدت کے طور پر چار مہینے اور دس دن گزارنے ہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا(البقرة: 234)
ترجمہ: اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن عدت میں رکھیں ۔
یہ عدت چار مہینے دس دن (ایک سو تیس دن تقریبا)ان تمام بیوہ عورت کی ہے جو بڑی عمر کی ہو یا چھوٹی عمر کی خواہ حیض والی ہو یا غیر حیض والی اور مدخولہ ہو یا غیرمدخولہ البتہ اگر حاملہ ہے تو پھر وفات یا طلاق دونوں صورت میں عدت وضع حمل ہوگی یعنی عورت حمل وضع کرتے ہی عدت پوری ہوجائے گی جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ
ۚ(الطلاق:4)
ترجمہ: اورحمل والیوں کی عدت ان کا وضع حمل ہے۔
اگر چار ماہ دس دن سے پہلے ہی وضع حمل ہوجائے تو بعض اہل علم نے چار ماہ دس دن کی عدت مکمل کرنے کو کہا مگر صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حاملہ جیسے ہی بچہ جن دے تو نفاس سے پاک ہوکر شادی کرسکتی ہے خواہ یہ مدت کتنی بھی ہو۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: میں اپنے بھتیجے یعنی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں۔ پھر ان لوگوں نے ( ایک شخص کو) ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس (مسئلہ معلوم کرنے کے لیے) بھیجا، تو انہوں نے کہا:
قد وضعت سبيعةُ الأسلميَّةُ بعدَ وفاةِ زوجِها بيسيرٍ فاستفتت رسولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فأمرَها أن تتزوَّج.(صحيح الترمذي:1194)
ترجمہ:سبیعہ اسلمیہ نے اپنے شوہر کی وفات کے کچھ ہی دنوں بعد بچہ جنا۔ پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( شادی کے سلسلے میں) مسئلہ پوچھا تو آپ نے اسے ( دم نفاس ختم ہوتے ہی) شادی کرنے کی اجازت دے دی۔
طلاق کی عدت عمررسیدہ عورت کے لئے جس کو حیض آنا بند ہوگیا ہے تین ماہ ہے ، یہی حکم مستحاضہ کا بھی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ(الطلاق:4)
ترجمہ: تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے نا امید ہوگئی ہوں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کےوضع حمل ہے اور جو شخص اللہ تعالٰی سے ڈرے گا اللہ اس کے ( ہر) کام میں آسانی کر دے گا ۔
اس آیت کو سامنے رکھتے ہوئے خلع والی بوڑھی عورت کی عدت ایک ماہ ہوگی کیونکہ حیض والیوں کی عدت خلع ایک حیض ہے ۔

سوال(3):کیا ایسی کوئی حدیث ہے کہ جب بچہ بولنے لگے تو کلمہ سکھاؤ؟
جواب: بعض روایات اس تعلق سے آئی ہیں کہ جب بچہ بولنے لگے تو لاالہ الا اللہ سکھا ؤ، مگر اس سلسلے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ۔
ایک روایت یہ ہے: إذا أفصحَ أولادُكم فعلِّمُوهُم لا إلهَ إلَّا اللهُ(عمل اليوم والليلة لابن السني)
ترجمہ: جب بچہ بولنے لگے تو اسے لاالہ الا اللہ کی تعلیم دو۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے۔(ضعيف الجامع:388)
دوسری روایت ہے:افتحوا على صبيانِكم أولَ كلمةٍ ب لا إلهَ إلَّا اللهُ(شعب الإيمان)
ترجمہ: اپنے بچوں کی پہلی تعلیم لاالہ الا اللہ سے شروع کرو۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے باطل کہا ہے۔(السلسلة الضعيفة:6146)
تیسری روایت ہے:من ربى صغيرا حتى يقول لا إله إلا الله لم يحاسبه الله(المعجم الأوسط، مجمع الزوائد)
ترجمہ: جسے بچپن میں لاالہ الا اللہ کی تعلیم دی گئی یہاں تک کہ وہ یہ کلمہ بولنے لگے تو اللہ اس کا محاسبہ نہیں کرے گا۔
اس روایت کو شیخ البانی نے موضوع کہا ہے۔(ضعيف الجامع:5595)
چوتھی روایت اس طرح سے ہے: كانَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليه وسلَّم إذا أفصَحَ الغلامُ مِن بني عبدِ المطَّلِبِ عَلَّمَهُ هذه الآيةَ { وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا . . . } إلى آخِرِها۔
ترجمہ: بنی عبدالمطلب کا بچہ جب بولنے لگتا تو نبی ﷺ اسے یہ آیت { وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا . . . } سکھلاتے۔
اس روایت کو زیلعی نے معضل قرار دیا ہے۔(تخريج الكشاف:2/296)
خلاصہ یہ ہوا کہ بچے کو سب سے پہلے کلمہ کی تعلیم دی جائے ایسی کوئی بات صحیح حدیث میں نہیں ہے لیکن چونکہ اسلام کی پہلی بنیاد کلمہ ہی ہے اس وجہ سے بچوں کو شروع سے کلمہ سکھایا جائے۔ ابن القیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب بچہ بولنے لگے تو اسے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی تلقین کی جائے۔[تحفة المودود:231] انہوں نے یہ بات نبی ﷺ کی طرف منسوب نہیں کی ہے تاہم یہ اچھی بات ہے کہ اپنے بچوں کو آیت،حدیث، کلمہ، ذکر وغیرہ کی تعلیم دیں۔ مسند احمد میں ایک یہودی لڑکا کا ذکر ہے جو نبی ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا جب وہ بیمار پڑا تو نبی ﷺ اس کے پاس آئے اور کلمہ پڑھنے کو کہا تو وہ اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگا۔ باپ نے کہا کہ ابوالقاسم کی اطاعت کروپھر بیٹے نے کہا: أشهَدُ أنْ لا إلهَ إلَّا اللهُ، وأنَّكَ رسولُ اللهِ۔ اس حدیث کو شعیب ارناؤط نے صحیح کہا ہے(تخريج المسند:12792)۔ اس طرح ہماری کوشش یہ ہو کہ ابتداء بھی لاالہ الا اللہ سے کریں ، زندگی اسی کے مطابق گزاریں اور اسی پر انتہا ہو ،اللہ سے اس کی توفیق طلب کریں اور خوب دعا ئیں کریں ۔

سوال(4):کیا ازواج مطہرات آل بیت میں داخل ہیں ؟
جواب: مسلم شریف میں ایک روایت ہے جس سے شیعہ ،عوام کو یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ ازواج مطہرات آل بیت میں سے نہیں ہیں ۔ وہ روایت اس طرح سے آئی ہے ۔فَقُلْنَا: مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ نِسَاؤُهُ؟ قَالَ: لَا(مسلم:2408)
اس ٹکڑے کا ترجمہ کیا جاتا ہے "ہم نے کہا آل بیت کون لوگ ہیں، نبی ﷺ کی بیویاں ؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں ۔
اس کا اصل ترجمہ اور مفہوم اس طرح ہے کہ ہم نے ان سے پوچھا:آپ کے اہل بیت کون ہیں؟(صرف) آپ کی ازواج؟ توانھوں نے کہا کہ (صرف آپ کی ازواج)نہیں۔ یعنی آپ ﷺ کی ازواج کے علاوہ اور دوسرے بھی آل بیت میں شامل ہیں چنانچہ صحیح مسلم میں ہی اس سے پہلے والی حدیث کے کے الفاظ ہیں۔"فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ يَا زَيْدُ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ: نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ " یعنی اور حصین نے کہا کہ اے زید! آپ ﷺ کے اہل بیت کون سے ہیں، کیا آپ ﷺ کی ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زید ؓ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں۔
اس کے علاوہ قرآن کی آیت اور دوسری احادیث سے بھی ازواج مطہرات کا آل بیت میں سے ہونا ثابت ہے۔

سوال(5):ہمارے علاقہ میں مسلمان عورتوں کا جوتی پہننا معیوب سمجھا جاتا ہے تو کیا یہ بات صحیح ہے ؟
جواب: ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے کہا گیا:
إنَّ امرأةً تلبسُ النعلَ ، فقالت : لعن رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ الرَّجُلةَ من النساءِ(صحيح أبي داود:4099)
ترجمہ: (جو) عورت (مردوں کے لیے مخصوص) جوتا پہنتی ہے ،( اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟) تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کی طرح بننے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ۔
اس حدیث سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ عورت جوتا پہن سکتی ہے ، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جو جوتا مردوں کے لئے خاص ہو اسے عورت نہیں پہن سکتی ہے، لہذا عورتوں کے لئے مخصوص طورپربنے جوتے پہننے میں عورتوں کے لئے کوئی عیب نہیں ہے ۔ ہاں ایک بات کا یہ بھی خیال رہے کہ بعض جوتےبڑے بھڑکیلے ہوتے ہیں اسے پہن کر اور کپڑوں سے باہرکرکے گھر سے نکلنا فتنے کا باعث ہے ۔ اس سے پرہیز کیا جائے ، چھپاکر پہننے یا شوہر کے سامنے اور گھر میں استعمال کرنے میں کوئی حر ج نہیں ہے۔

سوال(6):دوسری ذات وبرادری میں شادی کرنا کیسا ہے اور کفو سے کیا مراد ہے؟
جواب: اسلام نے شادی کا معیار دین ٹھہرایا ہےجیساکہ نبی ﷺ کافرمان ہے :
تُنكَحُ المرأةُ لأربَعٍ : لمالِها ولحَسَبِها وجَمالِها ولدينها، فاظفَرْ بذاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَداكَ (صحيح البخاري:5090)
ترجمہ: عورت سے چار خصلتوں کے پیش نظر نکاح کیا جاتا ہے : مال، نسب، خوبصورتی اور دینداری۔ تمہارے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں! تم دیندار عورت سے شادی کرکے کامیابی حاصل کرو۔
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ذات وبرادری کی بنیاد پرہونے والی شادی کی تردید فرمائی ہے اور اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ دین ملنے کے بعد شادی میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہئے یعنی دیندار عورتوں سے ہی شادی کرنا چاہئے ۔ شادی میں ذات وبرادری اور حسب ونسب کا کوئی دخل نہیں ہے۔ آپ ﷺنے امت کو اس بات کی نہ صرف تعلیم دی بلکہ اس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ اپنی بیٹی رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا نکاح یکے بعد دیگرےعثمان رضی اللہ عنہ سے کیا جو اموی خاندان سے تھے جبکہ آپ ﷺ ہاشمی خاندان سے۔
دین ہی کفو اور برابری کا نام ہے کیونکہ شادی میں اسلام نے دین کو ہی معیار بنایا ہے، اسی لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو"بَابُ الأَكْفَاءِ فِي الدِّينِ " یعنی (باب: کفائت میں دینداری کا لحاظ ہونا) کے تحت ذکر کیا ہے۔
قبائل کا وجود آپس میں محض ایک دوسرے کے تعارف کے لئے ہے ورنہ سارے بنی آدم کی اولاد ہیں، اور سارے مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں ، کسی اونچی ذات کو نیچی ذات پر کوئی فخر نہیں ہے ، اگر اللہ کے نزدیک کوئی حیثیت والا ہے تو تقوی کی بنیاد پر۔ آج شادی میں رنگ ونسل، ذات وبرادری اور دنیاوی غرض وغایت کی وجہ سے امت مسلمہ پر تباہی آئی ہوئی ہے، اگر ہم نے شادی میں دین کومعیار بنالیا تو زمین سے سارے فتنے ختم ہوجائیں گے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا خطبَ إليكم مَن ترضَونَ دينَه وخلقَه ، فزوِّجوهُ إلَّا تفعلوا تَكن فتنةٌ في الأرضِ وفسادٌ عريضٌ(صحيح الترمذي:1084)
ترجمہ:اگر تمہارے ہاں کوئی ایسا آدمی نکاح کا پیغام بھیجے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس کے ساتھ (اپنی ولیہ) کی شادی کر دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ اور فساد پھیلے گا۔

سوال(7):ربیبہ کسے کہتے ہیں اور اس کے کیا احکام ہیں ؟
جواب:ربیبہ کہتے ہیں گود میں پلنے والی وہ بچی جو بیوی کے پہلے شوہر سے پیدا ہوئی ہو۔ یہ ربیبہ خاوند کے محرمات میں شامل ہے جب خاوند بیوی سے جماع کرلیا ہو۔ اللہ کا فرمان ہے: وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ (النساء:23)
ترجمہ: (حرام کی گئی تم پر) تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ۔
جماع کے بعد ربیبہ مرد(خاوند) پر حرام ہوجاتی ہے، اس لئے اس سے پردہ نہیں ہے ۔ مرد کی حقیقی اولاد میں سے نہیں ہونے کے سبب نفقہ مرد پر واجب نہیں ہے تاہم احسان وسلوک کا تقاضہ ہے کہ اچھی طرح اس کی پرورش کی جائے، امید ہے کہ بیٹیوں کی پرورش کا اجر ملے گا۔ خاوند کی ربیبہ سے اس کے اپنے بیٹے کا نکاح جائز ہے اس وجہ سے بلوغت کے بعد بیٹے اور ربیبہ کے درمیان پردہ کا حکم دیا جائے۔

سوال (8): اگر کوئی عورت پست قد ہو تو کیا اونچی ہیل والی چپل پہن سکتی ہے بطور خاص شوہر کے سامنے تاکہ اسے خوش کیا جاسکے؟
جواب: صحیح مسلم میں نبی اسرائیل کی عورت کا ایک واقعہ ہے جسے نبی ﷺ نے بیان فرمایا ہے :
كانت امرأةٌ ، من بني إسرائيلَ ، قصيرةً تمشي مع امرأتَين طويلتَين . فاتَّخذت رِجلَين من خشبٍ(صحيح مسلم:2252)
ترجمہ: بنی اسرا ئیل میں ایک پستہ قامت عورت دولمبے قد کی عورتوں کے ساتھ چلا کرتی تھی ۔اس نے لکڑی کی دو ٹانگیں (ایسے جوتے یا موزے جن کے تلووں والا حصہ بہت اونچا تھا) بنوائیں۔
مقصد خود کو لوگوں سے چھپانا تھا کہ اسے پہچان نہ سکیں اور کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچا سکیں، اس حدیث کی بنیاد پر صحیح مقصد کے لئے ہیل والی اونچی جوتی یا چپل کا پہننا جائز ہے مگر آج کا زمانہ فتنے سے بھرا ہواہے اور ایسی ایمان والی بھی کہاں جو عفت کے لئے ہیل والی چپل پہن کر حجاب میں چلے سوائے اس کے جس پر اللہ کی رحمت ہو ۔ عموما فاحشہ عورتوں کی نقالی، شہرت ، تکبر اور زینت کے اظہار کی خاطر ایسی چیزیں استعمال کی جاتی ہیں اور نبی ﷺ نے شہرت کا لباس پہننے پہ سخت وعید سنائی ہے: مَن لبسَ ثوبَ شُهْرةٍ ألبسَهُ اللَّهُ يومَ القيامةِ ثَوبَ مَذلَّةٍ(صحيح ابن ماجه:2921)
ترجمہ: جو شخص شہرت والا لباس پہنے گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ذلت کا لباس پہنائے گا۔
جہاں فتنے کا خوف نہ ہو مثلا عورتوں کے درمیان یا شوہر کے پاس یا اپنے گھر میں تو پھر وہاں ہیل والی جوتی یا چپل پہننے میں حرج نہیں ہے، یاد رہے اس میں اطباء نے جسمانی نقصان بتلایا ہے اس وجہ سے اس سےسدا بچنا ہی اولی ہے۔

سوال(9): مرتے وقت جس کی زبان سے کلمہ نکلے کیا اسے ہم جنتی کہہ سکتے ہیں ؟
جواب: نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس کی زبان سے آخری کلمہ لاالہ الا اللہ نکلے بشرطیکہ دل کی سچائی کے ساتھ کہا ہووہ جنت میں جائے گا اور بھی دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس پہ خاتمہ ہوتا ہے اس کے مطابق بدلہ ملے گا۔ ان احادیث کے ہوتے ہوئے بھی ہم کسی کو خاص کرکےجنتی نہیں کہہ سکتے ہیں، جنتی ہونے کی امید جتائی جاسکتی ہے کیونکہ یہ حسن خاتمہ کی علامت ہے ۔ بہتر ہے کہ ہم کہیں فلاں کو خاتمہ بالخیر نصیب ہوا۔شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس حدیث" من كان آخر كلامه من الدنيا لا إله إلا الله دخل الجنة" (دنیا میں جس کی زبان سے آخری کلمہ لا الہ الا اللہ نکلے وہ جنت میں داخل ہوگا) کے تحت لکھتے ہیں کہ اگر ہمیں کسی آدمی کے متعلق معلوم ہو کہ دنیا میں اس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ تھا تو ہم کہیں گے کہ جنتی میں سے ہونے کی امید کی جاسکتی ہے لیکن متعین طور پر یقین کے ساتھ اسے جنتی نہیں کہیں گے ۔ (فتاوى نور على الدرب>الشريط رقم:352)
سوال(10): ایک شادی شدہ عورت نے پہلے شوہر سے طلاق لئے بغیر دوسری جگہ نکاح کرلیا ہے اس نکاح پر شرعا کیا حکم لگے گا؟
جواب : جب کوئی عورت ایک مرد کے نکاح کے میں ہو اور اس کا شوہر زندہ بھی ہوتو اس کے لئے کسی دوسرے مرد سے شادی کرنا حرام ہے ۔ لہذا مذکورہ صورت میں عورت کا نکاح ثانی باطل ہےمردوعورت کا اس طرح اکٹھا ہونا حرام کاری شمار ہوگی ۔ عورت فوری طور پر اس مرد سے الگ ہوجائے،اس میں طلاق یا خلع کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ طلاق یا خلع نکاح شرعی میں ہوتا ہے اور یہاں تو اصلا نکاح ہوا ہی نہیں ہے ۔ حالیہ مرد سے الگ ہوکر اللہ سے توبہ بھی کرےاور شوہر اول کے پاس رہنا چاہتی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس سے طلاق لے لے یا خلع حاصل کرلے پھر عدت گزار کر کہیں دوسرےمرد سے ولی کی رضامندی کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے ۔ یاد رہے بغیر سبب کے طلاق کا مطالبہ یا خلع کا حصول گناہ کا باعث ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أيُّمَا امرأةٍ سألت زوجَها طلاقًا في غيرِ ما بأسٍ فحرامٌ عليها رائحةُ الجنةِ(صحيح أبي داود:2226)
ترجمہ:جوعورت بھی بغیر کسی وجہ کے طلاق کا مطالبہ کرے تواس پر جنت کی خوشبو تک حرام ہے۔
ہاں اگر بیوی اپنے شوہر میں دینداری کی کمی پائے، حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والا پائے اوربلاوجہ ظلم وزیادتی کرے تو پہلے اصلاح کی کوشش کرے اور اصلاح کی صورت نظر آئے اور اس کے ساتھ زندگی گزارنا دشوار ہوجائے تو طلاق کا مطالبہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
بنت حوا کے مسائل اور ان کا شرعی حل(آٹھویں قسط)

جواب ازشیخ مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف (مسرہ)

سوال(1): بیوہ عورت جواپنے بچوں کی خاطردوسری شادی نہ کرے تو کیا وہ قیامت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو گی ؟
جواب : ایسی ایک حدیث ابوداؤد ، مسند احمد ،الادب المفرد، المعجم الکبیراور الجامع الصغیر میں موجود ہے ،ان الفاظ کے ساتھ ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أنا وامرأةٌ سفعاءُ الخدَّينِ كَهاتينِ يومَ القيامة وأومأ يزيدُ :بالوسطى والسَّبَّابةِ امرأةٌ آمت من زوجِها ذاتُ منصبٍ وجمالٍ حبست نفسَها علَى يتاماها حتَّى بانوا أو ماتوا.
ترجمہ:میں اور بیوہ عورت جس کے چہرے کی رنگت زیب و زینت سے محرومی کے باعث بدل گئی ہو دونوں قیامت کے دن اس طرح ہوں گے(یزید نے کلمے کی اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کیا) عورت جو اپنے شوہر سے محروم ہو گئی ہو، منصب اور جمال والی ہو اور اپنے بچوں کی حفاظت و پرورش کی خاطر دوسری شادی نہ کرے یہاں تک کہ وہ بڑے ہو جائیں یا وفات پا جائیں۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے متعدد جگہ پر ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة:1222، ضعيف أبي داود:5149، ضعيف الترغيب:1511، نقد النصوص:13)
یہاں یہ بتانا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ بیوہ کا اپنے بچوں کی پرورش اور شادی نہ کرنے کے سلسلے میں اور بھی روایات آئی ہیں مگر کوئی بھی صحیح نہیں ہے ،
ایک روایت یہ ہے :
أنا أولُ من يفتح بابَ الجنةِ ؛ إلا أني تأتي امرأةٌ تبادرني، فأقول لها : ما لكِ، ومن أنتِ ؟ ! فتقول : أنا امرأةٌ قعدتُ على أيتامٍ لي .
ترجمہ: میں سب سے پہلے جنت کو دروازہ کھولوں گا سوائے ایک عورت کے جو مجھ سے پہل کرے گی ، میں اس سے پوچھوں گا تم کون ہو؟ تو وہ کہے گی کہ میں وہ عورت ہوں جو بچوں کی وجہ سے بیٹھی رہی ۔
اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔(السلسلة الضعيفة:5374)
دوسری روایت میں عرش کا سایہ پانے کی فضیلت بیان ہوئی ہے:
ثلاثة في ظل العرش يوم القيامة يوم لا ظل إلا ظله : واصل الرحم ، يزيد الله في رزقه ويمد في أجله ، وامرأة مات زوجها وترك عليها أيتاما صغارا ، فقالت : لا أتزوج ، أقيم على أيتامي حتى يموتوا أو يغنيهم الله الخ۔۔
ترجمہ: تین طرح کے لوگ قیامت میں عرش کے سایہ تلے ہوں گے جب اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔ صلہ رحمی کرنے والا ، اللہ اس کے رزق میں زیادتی کرتا ہے اور اس کی عمر میں درازی دیتا ہے ۔ اور وہ عورت جس کا شوہر وفات پاجائے اور چھوٹے یتیم بچے چھوڑ جائے تو عورت کہے کہ میں شادی نہیں کروں گی ، یتیم بچوں کے ساتھ رہوں گی یہاں تک کہ مرجائیں یا انہیں اللہ اپنے فضل سے غنی کردے ۔
اس روایت کو شیخ البانی نے بہت ہی ضعیف کہا ہے ۔(ضعيف الجامع:2580)
لہذا معلوم یہ ہوا کہ بیوہ کا بغیر شادی کے رکی رہنےیا بچوں کی وجہ سے شادی نہ کرنے کی فضیلت سے متعلق کوئی حدیث صحیح نہیں ہے البتہ ایسی عورت کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ مناسب رشتہ ملے تو شادی کرلیں، اس سے عزت نفس، پاکدامنی ، مالداری اور تعاون جیسے بڑے فوائد حاصل ہوں گے ۔ شوہر کی وفات پہ صبرکرنے سے صبر کا بدلہ اوربچوں کی کفالت کا ثواب اپنی جگہ ثابت ہے ،عنداللہ وہ اس کا مستحق ہو گی۔

سوال(2): اگر والد مجبورا بیٹی کی شادی بے دین لڑکا سے کرے تو بیٹی کو کیا کرنا چاہئے اور اسی طرح اگر شادی کے بعد لڑکی کو معلوم ہوکہ لڑکا بے دین ہے سمجھنے سے بھی نہیں سمجھتا تو ایسی صورت میں کیا کرے جبکہ دوسری طرف دونوں سوالوں میں باپ کی عزت کا بھی سوال ہے ؟
جواب: مسلم سماج کا یہ بڑا المیہ ہے کہ بہت سے باپ اپنی لڑکیوں کی شادی جبرا ایسے لڑکے سے کردیتے ہیں جوبے دین ہوتا ہے یاجسے لڑکی بے دینی کی وجہ سے ناپسند کرتی ہے ۔ایسے باپ اولاد کےحق میں ظالم ہیں انہیں اللہ کے یہاں حساب دینا ہوگا اور یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے جن کا محاسبہ شدید ہےلہذا باپ کو اپنی اولاد کے حق میں اللہ سے ڈرنا چاہئے ۔ لڑکیوں کو چاہئے کہ شادی سے پہلے جب لڑکے کے بے دین ہونا کا علم ہو تو اس شادی سے انکار کرے اور اگر جبرا والد شادی کرادیتے ہیں تو اس شوہر کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرے ۔ اللہ سے ہدایت کی خوب دعا ئیں کرے ۔ معمولی دین واخلاق کی کمی ہو تو اس کے ساتھ نباہ کی کوشش کرے ، اس کی تکلیف پر صبر کرے اور جب تک وہ مسلمان کہلائے جانے کے لائق ہے اس کے ساتھ زندگی گزارسکتی ہے مگر ایسی غلطیاں (شرک وبدعت ) کرے جن سے اسلام سے باہر ہوجاتا ہے تو اس وقت علماء سے اپنی صورت حال کا ذکر کرکے اس کے ساتھ رہنا جائز ہے یا نہیں معلوم کرکے پھر اپنی زندگی کا فیصلہ کرے ۔
سوال(3): ایک مسلمان آدمی پہلے شرک کیا کرتا ہے پھر سچی توبہ کرلیا یہاں پوچھنا یہ ہے کہ پہلے والا سارا عمل ضائع ہوگیا یا باقی رہے گا؟
جواب : متعدد نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک سارے اعمال کو ضائع کردیتا ہے اور توبہ سارے گناہوں کو مٹا دیتى ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ(الشورى: 25)
ترجمہ: وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور (ان کی) برائیوں کو معاف کرتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو وہ اسے جانتا ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :التائبُ من الذنبِ كمن لا ذنبَ لهُ(صحيح ابن ماجه:3446)
ترجمہ: گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے کہ گویا اس نے سرے سے کوئی گناہ ہی نہیں کیا۔
جب بندےنے سچی توبہ کرلی ہے تو اللہ سے حسن ظن رکھے اور اللہ بندوں کے گمان کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اس نے شرک کرکے جو گناہ اکٹھا کئے تھے اللہ نے سب معاف فرمادیا ہے اور جب سارے گناہ معاف ہوگئے تو اسے گزشتہ احوال کے متعلق فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ،ہاں آئندہ ہمیشہ شرک وبدعت سے بچنے کی کوشش وفکر کرے ۔

سوال(4): جو بچہ مرا ہوا پیدا ہو اس کا نام رکھ کردفن کرنا چاہئے یا بغیر نام کے کفن دفن کردینا چاہئے ؟
جواب : نبی ﷺ نے نومولود کا نام ساتویں دن رکھنے کا حکم دیاہے لہذا جو بچہ سات دن سے پہلے وفات پاجائے یا مردہ حالت میں پیدا ہو ایسی صورت میں نہ اس کا عقیقہ ہوگا اورنہ ہی اس کا نام رکھا جائے گا۔ غسل وکفن دے کر اور نماز جنازہ ادا کرکے دفن کردیا جائے گا ۔ جب بچے کا کسی سبب آپ خود اسقاط ہوجاتا ہے ایسے بچے اگر چار ماہ بعد گرجائیں تو ان کا بھی غسل وکفن کے ساتھ نماز جنازہ ہے لیکن جو چار ماہ سے قبل ہی گرجائیں تو انہیں بغیر غسل کے کپڑے میں لپیٹ کر بغیر جنازہ پڑھے دفن کردیا جائے ۔
سوال(5): ایک عورت کا ایک بیٹاتھا جو اس کی زندگی میں ہی وفات پاگیا،اور دوبیٹیاں زندہ ہیں ،ایسی صورت میں وفات پافتہ بیٹے کی اولاد (ایک بیٹا ،تین بیٹی) یعنی پوتے پوتیاں دادی کی جائیداد میں حصہ دار ہوں گی ؟
جواب : ہاں ایسی صورت میں بیٹیوں کا بھی حصہ ہے اور پوتے اور پوتیوں کا بھی حصہ ہے۔ بیٹی کو دوثلث ملے گا اور بقیہ میراث پوتے پوتی میں "مثل حظ الانثین کے تحت تقسیم ہوگی یعنی لڑکے کو دہرا اور لڑکی کو اکہرا۔
سوال(6): ہندوستانی حکومت کی طرف سے کنیا دان کی ایک اسکیم چل رہی ہے کہ بارہ سال تک ہرماہ ایک ایک ہزار روپئے پیسہ جمع کرنا ہے پھر مدت مکمل ہونے پر شادی کے نام سے لڑکی کے اکاؤنٹ میں پانچ یا چھ لاکھ روپئے آجائیں گے تو ایسی اسکیم میں حصہ لینا جائز ہے ؟
جواب : کنیا دان کی مذکورہ اسکیم انشورنس کا حصہ ہے اور تمام قسم کی تجارتی اسکیم ناجائز اور حرام ہیں ۔ آپ جب اس اسکیم میں حصہ لیں گے تو اس کی اسکیم یعنی گائڈ بک سے معلوم ہوگا کہ جب بچی کے باپ کی وفات ہوجائے یا اکسڈنٹ ہوجائے تو فوری طورپر معاوضہ ملتا ہے بلکہ باقاعدہ کاغذات میں ایل آئی سی کنیادان پالیسی بھی لکھا ہوگاگویا یہ بیمہ کی ہی قسم ہے اور یہ ناجائز ہے مسلمانوں کواس میں حصہ لینا جائز نہیں ہے ۔
سوال(7): بیٹی کا عقیقہ ہے میں نے دو جانور خریدا ہے کیا ان دونوں کو ذبح کرتے وقت عقیقہ کی دعا کرنی ہے ؟
جواب : لڑکی کی جانب سے ایک بکرا ذبح کرنا مسنون اور کافی ہے،دوسرا بکرا ذبح کرنا بطور فخر ہو تو آدمی گناہگار ہوگا اور عقیقہ میں دعوت کھلانے کے مقصد سے ہو تاکہ کھانے والوں کا صحیح سے انتظام ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔دونوں جانورذبح کرتے وقت اللہ کا نام لے لینا یعنی بسم اللہ اکبر کہہ دینا کافی ہےیا یہ دعا پڑھیں :"بسم اللهِ والله أكبرُ ، اللهم لك وإليكَ ، هذه عقيقَةُ فلانٍ"۔
سوال(8): دیت کی تقسیم کیسے ہوگی ؟
جواب : نبی ﷺ کا فرمان ہے :إنَّ العقلَ ميراثٌ بينَ ورثةِ القتيلِ على قرابتِهم، فما فضلَ فللعصبةِ (صحيح أبي داود:4564)
ترجمہ: دیت کا مال مقتول کے وارثین کے درمیان ان کی قرابت کے مطابق تقسیم ہو گا، اب اگر اس سے کچھ بچ رہے تو وہ عصبہ کا ہے۔
یہاں عقل سے مراد دیت ہے۔یہ حدیث دلیل ہے کہ دیت بھی بقیہ ترکہ کی طرح ہی میراث کے اصول کے تحت تقسیم ہوگی یعنی پہلے میت کا قرض چکایا جائے گا اور اس نے کسی غیروارث کے لئے کچھ وصیت کی ہو تو اس کا نفاذ عمل میں لایا جائے پھر وارثین پر تقسیم کی جائے گی ۔

سوال(9): کیا عورت اپنے اپنے گھروں میں اسپیکر سے آنے والی آواز کے تحت امام کی متابعت میں نماز ادا کرسکتی ہے یا کسی جگہ تمام عورتیں جمع ہوجائیں اورامام کی متابعت میں نماز ادا کریں تو درست ہے؟ ۔
جواب : یہ مسئلہ اختلافی ہے ، بعض علماء مثلا شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ وغیرہ نے اس شرط کے ساتھ گھر میں امام کی متابعت میں نماز ادا کرنے کو درست کہا ہے جب مسجد سے لیکر گھر تک صفیں متصل ہوں ورنہ امام کی اقتداء درست نہیں ہے ۔ مردوں کو نبی ﷺ نے مسجد میں آکر نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور ازواج مطہرات کا گھر مسجد نبوی سے متصل تھا پھر بھی انہوں نے آپ ﷺ کی اقتداء میں اپنے گھروں میں نماز نہیں ادا کیں جس سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی امام کی متابعت میں اپنے گھروں میں نماز نہیں پڑھ سکتا، نہ مرد اور نہ ہی عورت ۔ عورت کی نمازاپنے گھر میں افضل ہے وہ اپنے گھر میں خود سے نماز ادا کرے یاکسی جگہ چند عورتیں جمع ہوجاتی ہوں تو کوئی عورت جماعت سے نماز پڑھاسکتی ہے ۔
سوال(10): کیا شوہر اپنی بیوی کی نانی کے لئے محرم ہے ؟
جواب : سورہ نساء آیت نمبر تئیس میں محرمات کا ذکر ہے ،ان میں ساس بھی ہے اور ساس کے ہی تابع لڑکی کی نانی اور دادی بھی ہے لہذا شوہر اپنی بیوی کی نانی کے لئے محرم ہے۔
سوال(11): شوہر بے دین ہے ، ایسی صورت میں میرے لئے اللہ سے دعا کرنا کہ مجھے دیندار شوہردے کیسا ہے؟
جواب :ایک وقت میں عورت ایک ہی مرد کے ساتھ زندگی گزارسکتی ہے اس کے لئے بیک وقت دو مرد سے شادی کرنا حرام ہے ، اس بناپر جو دعا پوچھی جارہی ہے اس میں دوسرے مرد یا دوسری شادی کا ذکر ہے جبکہ موجودہ شوہر کے ہوتے ہوئے ایسی دعا کرنا صحیح نہیں ہے ۔ ہاں اس دعا سے مراد یہ ہو کہ اللہ اس کے شوہر کو نیک بنادے تو کوئی مسئلہ نہیں تاہم دعائیہ جملے بھی درست کرلئے جائیں کہ اے اللہ میرے شوہر کو دیندار وصالح بنادے ۔
سوال(12): کسی کی ایک ماں اور دو باپ ہے پہلا باپ سے ایک لڑکی پیدا ہوئی اور دوسرا باپ سے لڑکا، اب سوال یہ ہے کہ کیا ان دونوں میں شادی ہو سکتی ہے؟
جواب :لڑکا اور لڑکی دونوں ایک ماں سے ہیں ، یہ دونوں آپس میں سگے بھائی بہن ہیں اور سگے بھائی بہن کا آپس میں نکاح حرام ہے ۔
سوال(13): کیا یہ بات صحیح ہے کہ سفید بالوں کو اکھیڑنے سے منع کیا گیا ہے اور عورت بھی اس میں شامل ہے ؟
جواب : ہاں سفید بالوں کو اکھیڑنا منع ہے مردوں کے لئے بھی اورعورتوں کے لئے بھی ،نبی ﷺ کافرمان ہے :
لا تنتِفوا الشَّيبَ ما من مسلِمٍ يشيبُ شيبةً في الإسلامِ إلَّا كانت لَهُ نورًا يومَ القيامةِ إلَّا كتبَ اللَّهُ لَهُ بِها حسنةً وحطَّ عنهُ بِها خطيئةً(صحيح أبي داود:4202)
ترجمہ: سفید بال نہ اکھیڑو،اس لئے کہ جس مسلمان کا کوئی بال حالت اسلام میں سفید ہوا ہو تو وہ اس کے لئے قیامت کے دن نور ہو گا اور اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھے گا اور اس سے ایک گناہ مٹا دے گا۔
لہذا کوئی مرد یا عورت اپنے سر کے بال نہ اکھیڑے بلکہ سفیدی ظاہر ہونے پر اسلام نے ہمیں کالے خضاب کے علاوہ دوسرے رنگ سے بدلنے کا حکم دیا ہے۔

سوال(14):فاطمہ رضی اللہ عنہا رات میں دفن کی گئیں اور اس کی وجہ کیا تھی؟
جواب : صحیح مسلم میں مذکور ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ان کے شوہر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رات میں دفن کیا تھا ۔
فلما تُوُفِّيَتْ دفنَها زوجُها عليُّ بنُ أبي طالبٍ ليلًا(صحيح مسلم:1759)
ترجمہ: جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے خاوند سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے ان کو رات کو دفن کیا۔
تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ فاطمہ نے شدت حیا کی وجہ سے اسماء بنت عمیس کو پردہ پوش چارپائی تیار کرنے کی وصیت کی تھی اور رات میں دفن کرنا بھی حیا کے باعث تھا تاکہ ان کی وصیت کے مطابق کوئی انہیں دیکھ نہ سکے جوکہ اس ٹکڑے سے واضح ہوتا ہے۔
وجعلَتِ لها مثلَ هودجِ العروسِ فقالتْ أمرَتْني أنْ لا يدخلَ عليها أحدٌ وأَريْتُها هذا الذي صنعتُ وهيَ حيةٌ فأمرَتني أنْ أصنعَ ذلكَ عليها.
ترجمہ: اور انہوں نے دلہن کی ڈولی کی طر(ایک پردہ پوش چادر چارپائی تیار) تیار کیں اور فرمایاکہ مجھے (فاطمہ) نے اس کا حکم دیا کہ کوئی اس کے قریب نہ آئے اور یہ جو چارپائی تیار کی ہوں اس کے بنانے کی وصیت مجھ سے انہوں نے اپنی زندگی میں کی تھیں ۔
اس روایت کو جورقانی نے مشہور حسن کہا ہے ۔(الأباطيل والمناكير:2/81 )

سوال(15): کیا فرشتے قرآن نہیں پڑھتے ؟
جواب : فرشتے بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں ۔ فرشتوں کے متعلق ذکر کرنا اور نماز پڑھنا وارد ہے جو قرآن کی تلاوت پر دلیل ہے ۔ جبریل علیہ السلام اللہ کی وحی قرآن لیکر آتے تو محمد ﷺپر پڑھتے اور آپ اسے حفظ کرتے ، اس کا بھی ذکر قرآن میں ہےبلکہ پہلی وحی اقرا کے سلسلے میں تو تفصیل وارد ہے اور رسول اللہ ﷺ کا جبریل کے ساتھ رمضان میں قرآن کا دورہ کرنا بھی مذکور ہے ۔ فرشتے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اس بات کی قرآن سے چند دلائل دیکھیں :
اللہ کا فرمان ہے :فَالتَّالِيَاتِ ذِكْرًا(الصافات:3)
ترجمہ: پھر ذکر اللہ کی تلاوت کرنے والوں کی ۔
اس آیت کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ فرشتے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں ۔
اللہ کا فرمان ہے :فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ(القيامة:18)
ترجمہ: جب ہم اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں ۔
یہاں "قراناہ" سے مراد یہ ہے کہ جب جبریل علیہ السلام اللہ کی جانب سے قرات پوری کردیں تب اس قرات کی اتباع کریں یعنی اس کے احکام وشرائع کی پیروی کریں اور لوگوں کو بھی بتلائیں ۔
اللہ کا فرمان ہے :عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى(النجم:5)
ترجمہ: اسے پوری طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے :سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى(الأعلى:6)
ترجمہ: ہم تجھے پڑھائیں گے پھر تو نہ بھولے گا۔
یعنی اللہ فرشتے کے ذریعہ محمد ﷺ کو ایسا پڑھوائیں کہ زبان پر جاری کردیں گے پھر اسے کبھی نہ بھولیں گے ۔

سوال(16): کوئی عورت ظہر کے وقت حائضہ ہوجائے اور اسی طرح مغرب کے وقت پاک ہو تو اس کی نماز کی قضا کا کیا حکم ہوگا؟
جواب : عورت جس نماز کے وقت میں حیض سے ہوئی ہے پاک ہونے پر اس کی قضا دے گی مثلا ظہر کے وقت حیض آیا ہے تو جب پاک ہوگی ظہر کی قضا کرے گی اور جس نمازکے وقت حیض سے پاکی حاصل ہورہی ہے عورت اس وقت کی نماز ادا کرے گی ساتھ ساتھ وہ نماز بھی پڑھنی ہوگی جس کے ساتھ دوسری نماز جمع کی جاتی ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ اگر عصر کے وقت پاک ہوئی ہے تو ظہر بھی پڑھے گی ۔
سوال(17): کافر کی غیبت کرنا کیسا ہے ؟
جواب: ہمیں اپنے مسلمان بھائی کی غیبت سے منع کیا گیا ہے اور کافر کے کفر وشرک اور فسق وفجور کوبیان کرنا غیبت نہیں ہے تاکہ اس کے کفر وشرک اور فسق وفجورسے دوسروں کو بچایا جاسکے اور کافر کی ہدایت کے لئے راستہ ہموار کیا جائے البتہ ذمی کافر کی غیبت سے علماء نےمنع کیا ہے ۔
سوال(18):کیا نظر لگنے والے کا علم نہ ہو تو نیک آدمی کے وضو کے پانی سے غسل دیا جا سکتا ہے ؟
جواب : نظر بد اتارنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جس کی نظر لگی ہو اسے کسی برتن میں وضوکراکر اور کمر تک کے حصے کو دھوکر اس پانی کو مریض کے سر پرپچھلی طرف سے انڈیل دیا جائے ۔جب سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو عامر بن ربیعہ کی نظر لگ گئی تو آپ ﷺ نے عامر کوغسل کرنے کا حکم دیا اور اس کے غسل کے پانی کوسہل کے جسم پر انڈیل دیا گیا جس سے وہ ٹھیک ہوگئے ۔ جس کی نظر لگی ہو اس کا علم نہ ہو تو کسی بزرگ کے وضو کے پانی سے مریض کو غسل نہیں دیا جائے گا بلکہ ایسی صورت میں رقیہ شرعیہ سے دم کیا جائے گا۔
سوال(19):کیا عورتوں کو جمعہ کے دن اذان اور خطبہ ختم ہونے کے بعد نماز پڑھنی چاہئے ؟
جواب : عورتوں پر نمازجمعہ فرض نہیں ہے لیکن مردوں کے ساتھ مسجد میں ادا کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ جب عورت جمعہ کے دن اپنے گھر میں نماز پڑھے تو ظہر کی نماز ادا کرے گی اور نماز کا وقت ہوتے ہیں اول وقت میں نمازظہر ادا کرلے اسے اذان یا خطبہ ختم ہونے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم عورت اگر اذان کا جواب دیتی ہے تو اس میں اجر ہے ۔
سوال(20) فرحت ہاشمی صاحبہ بیان کررہی تھی کہ قیامت میں ہرمومن کا سایہ ہوگا جبکہ لوگوں میں مشہور تو سات قسم کے لوگوں کا سایہ ہے اس کی کیا حقیقت ہے ؟
جواب : مجھے نہیں معلوم کہ یہ بات فرحت ہاشمی صاحبہ نے کہی ہے یا نہیں لیکن اگر کسی نے کہی ہے تو اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے ۔آئیے دیکھتے ہیں اس بات کی حقیقت۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يعرَقُ النَّاسُ يومَ القيامةِ حتَّى يذهبَ عرقُهم في الأرضِ سبعين ذراعًا ، ويُلجِمُهم حتَّى يبلُغَ آذانَهم(صحيح البخاري:6532)
ترجمہ:قیامت کے دن لوگ پسینے میں شرابور ہو جائیں گے اور حالت یہ ہو جائے گی کہ تم میں سے ہر کسی کا پسینہ زمین پر ستر ہاتھ تک پھیل جائے گا اور منہ تک پہنچ کر کانوں کو چھونے لگے گا۔
ایسی حالت میں سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ ان سات قسم کے لوگوں میں ایک صدقہ کرنے والا بھی ہوگا۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں :ورجلٌ تصدَّقَ بصدقةٍ ، فأخفاها حتى لا تعلمَ شمالُهُ ما تُنْفِقْ يمينُهُ(صحيح البخاري:1423)
ترجمہ:اوروہ انسان جو صدقہ کرے اور اسے اس درجہ چھپائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔
یعنی صدقہ عرش الہی کے سایہ کا سبب ہے اسی بات کو دوسری احادیث میں اس طرح بھی بیان کیا گیا ہے ۔
كُلُّ امرِئٍ في ظِلِّ صَدَقَتِه حتى يُفْصَلَ بينَ الناسِ ، أو قال حتى يُحْكمَ بينَ الناسِ و في رواية حتى يُقْضَى بين الناسِ.(صحيح ابن خزيمة:2431، قال البانی إسناده صحيح على شرط مسلم)
ترجمہ:قیامت کے دن ہرمومن لوگوں کا فیصلہ ہونے تک اپنے صدقہ کے سایہ تلے ہوگا۔
إنَّ الصَّدقةَ لتُطفيءُ عَن أهلِها حرَّ القبورِ ، وإنَّما يَستَظلُّ المؤمِنُ يومَ القيامةِ في ظلِّ صدقتِهِ(صحيح الترغيب:873)
ترجمہ: بے شک صدقہ اپنے صاحب کو قبر کی گرمی سے بچائے گا اور بے شک مومن قیامت کے دن اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا۔
ان احادیث کا مطلب یہ نہیں کہ قیامت کے دن ہرمومن کا سایہ ہوگا بلکہ مطلب یہ ہے کہ صدقہ عرش الہی کے سایہ کا سبب ہے یعنی جو مومن صدقہ دے گا وہ صدقہ کی وجہ سے سایہ کا مستحق ہوگا اورصدقہ کرنے والا سات قسم کے لوگوں میں سے ایک ہے جسے عرش الہی کا سایہ نصیب ہوگا ۔
سات قسم کے لوگوں کے علاوہ ایک اور حدیث ملتی ہے ، رسول اللہ کا فرمان ہے:من أنظرَ معسرًا ، أو وضع عنهُ ، أظلَّهُ اللهُ في ظلِّهِ (صحيح مسلم:3006)
ترجمہ: جو شخص کسی تنگدست کو مہلت دے یا اس کو معاف کر دے اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایہ میں رکھے گا۔
 
شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
اللهم زد فزد.

شیخ محترم ،میرا سوال ہے کہ؛
بدزبان عورت کے شر و بدزبانی سے کیسے بچا جائے جبکہ چوبیس گھنٹے کا واسطہ ہو؟ اور ایسی بدزبان عورت نصیحت و وعظ جذب کرنے سے بھی محروم ہو.؟
 
Top