ثبوت نمبر 5:
ابن عساکر نے تاریخ مدینہ الدمشق میں لکھتے ہیں:
اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا الحسين بن محمد بن سعد أنا أبو عبيد عن مجالد عن الشعبي وعن يونس بن أبي إسحاق عن أبيه وعن أبي السفر وغيرهم ۔۔۔۔۔۔۔ ولا يسب علي وهو يسمع وان يحمل إليه خراج فسا ( 3 ) ودار ابجرد ( 4 ) من ارض فارس كل عام
ترجمہ:
یعنی حسن بن علی نے جب معاویہ سے صلح کی تھی تو اس میں جو شرائط تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ "۔۔۔۔۔ اور علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا] نہیں کیا جائے گا جب کہ وہ سن رہے ہوں۔۔۔۔۔
ابن عساکر نے یہ اس شرط کا ذکر تین روایات میں کیا ہے، جس میں سے دوسری روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ صحیح روایت ہے۔
1۔ أبو بكر محمد بن عبد الباقي: ابن جوزی [ثقہ]، الذھبی [عادل]
2۔ محمد بن العباس: البغدادی [ثقہ]، الذھبی [صدوق]
3۔ احمد بن معروف: بغدادی [ثقہ]، آلذھبی [ثقہ]
4۔ الحسين بن محمد: البغدادی [ثقہ]، الذھبی [حافظ]
5۔ محمد بن عبید: ابن حجر العسقلانی [ثقہ]، الذھبی [ثقہ]
6۔ يونس بن أبي إسحاق: ابن حجر العسقلانی [ثقہ]، الذھبی [ثقہ]
7۔ ابن اسحق الشعبہ: ابن حجر [ثقہ]، الذھبی [ثقہ، حجۃ]
الذھبی نے یہی شرط دو روایات میں ذکر کی ہے۔ مثلا محمد ابن عبید، مجلد، الشعبی، یونس اور پھر اس نے اپے والد سے۔
آنلائن لنک
امام جمال الدین المزی نے بھی یہ روایت تین اوپر والی اسناد سے نقل کی ہے۔
آنلائن لنک
تحریف کیس:
ان تینوں علماء ابن عساکر، الذھبی اور جمال الدین مزی اور انکی اسناد کا ذکر اس لیے ہے کہ ان تینوں نے یہ روایات اپنے سے پہلے آنے والے مشہور عالم علامہ ابن سعد کی مشہور کتاب "طبقات الکبری" سے نقل کی ہیں۔
مگر آج چھپنے والی طبقات میں ہمیں یہ تینوں اسناد والی روایات نظر نہیں آتیں اور تعصب میں مبتلا لوگوں نے ان علماء کے کتب میں من مانی تحریف شروع کر رکھی ہے اور یہ سنت بنی اسرائیل میں مبتلا ہیں کہ جب انہوں نے اپنی کتابوں سے اُن تمام چیزوں کی تحریف کر دی جو ان کی خواہشات اور خود ساختہ عقائد کے خلاف تھیں۔
یہ روایت بھی باطل اور مردود ہے۔
تاریخ ابن عساکرسے پوری روایت ملاحظہ ہو:
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا الحسين بن محمد بن سعد أنا أبو عبيد عن مجالد عن الشعبي
وعن يونس بن أبي إسحاق عن أبيه
وعن أبي السفر
وغيرهم
قالوا بايع أهل العراق بعد علي بن أبي طالب الحسن بن علي ثم قالوا له سر إلى هؤلاء القوم الذين عصوا الله ورسوله وارتكبوا العظيم وابتزوا الناس امورهم فأنا نرجو أن يمكن الله منهم فسار الحسن إلى أهل الشام وجعل على مقدمته قيس بن سعد بن عبادة في اثنى عشر ألفا وكانوا يسمون شرطة الخميس وقال غيره وجه إلى الشام عبيد الله بن العباس ومعه قيس بن سعد فسار فيهم قيس حتى نزل مسكن والانبار وناحيتها وسار الحسن حتى نزل بالمدائن واقبل معاوية في أهل الشام يريد الحسن حتى نزل جسر منبج فبينا الحسن بالمدائن إذ نادى مناد في عسكره إلا أن قيس بن سعد قد قتل قال فشد الناس على حجرة الحسن فانتهبوها حتى انتهبت بسطه وجواريه واخذوا رداءه من ظهره وطعنه رجل من بني أسد يقال له ابن أقيصر بخنجر مسموم في إليته فتحول من مكانه الذي انتهب فيه متاعه ونزل الأبيض قصر كسرى وقال عليكم لعنة الله من أهل قرية فقد علمت انه لا خير فيكم قتلتم أبي بالامس واليوم تفعلون بي هذا ثم دعا عمرو بن سلمة الارحبي فأرسله وكتب معه إلى معاوية بن أبي سفيان يسأله الصلح ويسلم له الأمر على أن يسلم له ثلاث خصال يسلم له بيت المال فيقضي منه دينه ومواعيده التي عليه ويتحمل منه هو ومن معه عيال أهل أبيه وولده وأهل بيته ولا يسب علي وهو يسمع وان يحمل إليه خراج فسا ودار ابجرد من ارض فارس كل عام إلى المدينة ما بقي فأجابه معاوية إلى ذلك واعطاه ما سأل
[تاريخ دمشق لابن عساكر: 13/ 264]
سب سے پہلے تو یہ واضح ہو کہ مضمون نگارنے طبقات ابن سعد میں جو تحریف کاالزام لگایا ہے وہ باطل ہے کیونکہ طبقات کے بعض نسخوں میں یہ روایت موجود ہے ۔چناں چہ ملاحظہ ہو:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
قال: أَخبَرنا أبو عبيد، عن مجالد، عن الشعبي
(ح) وعن يونس بن أبي إسحاق، عن أبيه
(ح) وعن أبي السفر،
وغيرهم،
قالوا: بايع أهل العراق بعد علي بن أبي طالب: الحسن بن علي، ثم قالوا له: سِر إلى هؤلاء القوم الذين عصوا الله ورسوله، وارتكبوا العظيم, وابتزوا الناس أمورهم، فإنا نرجوا أن يُمكّن الله منهم، فسار الحسن إلى أهل الشام, وجعل على مقدمته: قيس بن سعد بن عبادة، في اثني عشر ألفًا، وكانوا يسمون شرطة الخميس.
وقال غيره: وجَّه إلى الشام: عُبيد الله بن العباس, ومعه قيس بن سعد، فسار فيهم قيس, حتى نزل مسكن, والأنبار, وناحيتها. وسار الحسن حتى نزل المدائن؛ وأقبل معاوية في أهل الشام يريد الحسن, حتى نزل جسر منبج, فبينا الحسن بالمدائن, إذ نادى مناديه في عسكره: ألا إن قيس بن سعد قد قتل, قال: فشدّ الناس على حجرة الحسن, فانتهبوها, حتى انتهبت بُسُطه وجواريه، وأخذوا رداءه من ظهره، وطعنه رجل من بني أسد, يقال له: ابن أقيصر, بخنجر مسموم في أليَته، فتحول من مكانه الذي انتهب فيه متاعه، ونزل الأبيض قصر كسرى، وقال: عليكم لعنة الله من أهل قرية، فقد علمت أن لا خير فيكم، قتلتم أبي بالأمس، واليوم تفعلون بي هذا؟!ثم دعا عمرو بن سلمة الأرحبي، فأرسله, وكتب معه إلى معاوية بن أبي سفيان يسأله الصلح, ويُسَلِّم له الأمر, على أن يسلم له ثلاث خصال: يُسَلم له بيت المال, فيقضي منه دينه, ومواعيده التي عليه، ويتحمل منه هو ومن معه من عيال أبيه وولده وأهل بيته، ولا يُسَبُّ علي وهو يسمع, وأن يُحمل إليه خراج فَسا ودَرابِجَرد من أرض فارس كل عام إلى المدينة ما بقي، فأجابه معاوية إلى ذلك وأعطاه ما سأل.
[الطبقات الكبير لابن سعد ت عمر: 6/ 381]
اب اس کی سند دیکھئے۔
امام ابن سعد رحمہ اللہ نے اس روایت کے اپنے شیخ ابوعبیدسے نقل کیا ہے۔اورابوعبید نے اس روایت کوچارسے زائد طرق سے نقل کیاہے۔
پہلا طریق: عن مجالد، عن الشعبي
دوسرا طریق:عن يونس بن أبي إسحاق، عن أبيه
تیسراطریق:عن أبي السفر
چوتھا اوراس سے زائد نام معلوم طرق: وغيرهم
ان میں سے کسی بھی طریق کی سند صحیح نہیں ہے۔
تمام سندوں میں مرکزی راوی ’’ابوعبید‘‘ اور یہ معلوم نہیں کون ہیں ۔
وضح رہے کہ یہ قاسم بن سلام نہیں کیونکہ یہ مجالد کے شاگرد نہیں ہیں ،مجالد سے ان کی روایات ایک واسطے سے ہیں جیساکہ قاسم بن سلام کی کتب سے واضح ہے۔
اوراگرفرض کرلیں کرلیں کہ یہ قاسم بن سلام ہی ہیں تو مجالد سے ان کی روایت منقطع ہے کیونکہ یہ مجالد کے شاگرد نہیں ۔میرے ناقص علم کے مطابق کسی نے مجالد کے شاگردوں میں ان کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کے مشائخ میں مجالد کا ذکر ہے اور نہ ہی کوئی خارجی قرینہ یہاں موجود ہے۔
لہٰذا اس مرکزی ضعف کے سبب سارے طرق مردود وغیرمقبول ٹہرے۔
اس کے علاوہ ہرطریق ابوعبید کے اوپربھی ضعف موجود ہے۔چناں چہ:
پہلے طریق میں’’مجالد بن سعید‘‘ ہے جوضعیف ہے۔
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
مجالد ليس بشيء. [الضعفاء للبخاري ص: 130]۔
امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
لا يحتج بحديثه [الجرح والتعديل 8/ 361]۔
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
مجالد بن سعيد كوفي ضعيف [الضعفاء والمتروكين ص: 95]۔
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
لا يحتج بحديثه [الجرح والتعديل 8/ 361]۔
امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
وَكَانَ رَدِيء الْحِفْظ يقلب الْأَسَانِيد وَيرْفَع الْمَرَاسِيل لَا يجوز الِاحْتِجَاج بِهِ[المجروحين لابن حبان 3/ 10]۔
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
الكوفي ليس بثقة [سؤالات البرقاني ص: 64]۔
دوسرا طریق منقطع ہے ۔
مضمون نگارنے دعوی کیا ہے دوسری سند صحیح ہے۔اورمضمون نگار نے دوسری سند ابن سعدسے اوپریہ سند پیش کی ہے:
5۔ محمد بن عبید: ابن حجر العسقلانی [ثقہ]، الذھبی [ثقہ]
6۔ يونس بن أبي إسحاق: ابن حجر العسقلانی [ثقہ]، الذھبی [ثقہ]
7۔ ابن اسحق الشعبہ: ابن حجر [ثقہ]، الذھبی [ثقہ، حجۃ]
سوال یہ ہے کہ ابن سعد سے اوپران کے استاذ کہ جگہ ’’محمدبن عبید‘‘ کہاں سے آگئے؟
مضمون نگار نے خود ابن عساکرکی جو سند شروع میں درج کی ہے وہاں بھی اس جگہ ’’ابوعبید‘‘ہے ۔اسی طرح ہم نے براہ راست ابن سعد کی طبقات سے جو سند درج کی ہے اس میں بھی اس جگہ ’’ابوعبید‘‘ ہے۔
اس لئے ظاہر ہے کہ یہاں یہی نام صحیح ہے کیونکہ یہ اصل مصدر میں ہے ۔رہی امام مزی کی کتاب میں محمدبن عبید کا نام تو یہ اصل کے خلاف ہے اوریہیں سے امام ذہبی نے بھی نقل کیا ہے۔لہٰذا یہ دونوں حوالے ابن سعد کی اصل کتاب اورابن عساکر کی کتاب کے خلاف ہونے کے سبب غیرمقبول ہیں۔
اورجب یہ ’’ابوعبید‘‘ ہی ہے تو اس کے اور ’’یونس بن ابی اسحاق ‘‘ کے بیچ واسطہ معلوم نہیں اس لئے اس سند کی یہ دوسری خرابی ہے۔کسی بھی کتاب میں ’’یونس بن ابی اسحاق ‘‘ کے تلامذہ میں ’’ابوعبید‘‘ کاذکر نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کوئی قرینہ موجود ہے۔
اوران کے والد’’ابن اسحق الشعبہ‘‘ نہیں جیساکہ مضمون نگار نے لگاہے بلکہ ’’ابواسحاق السبیعی ‘‘ ہیں ۔اوریہ مدلس ہیں حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں تیسرے طبقہ میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
عمرو بن عبد الله السبيعي الكوفي مشهور بالتدليس وهو تابعي ثقة وصفه النسائي وغيره بذلك[طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 42]
اوریہاں ان کے سماع یاتحدیث کا ذکر نہیں اس لئے اس سند کی یہ تیسری خرابی ہے۔
اتنی ساری خرابیوں کے باوجود مضمون نگار نے بڑی ڈھٹائی سے اسے صحیح کہہ دیا ہے۔اورسند میں غلط راویوں کا نام ڈال کرعوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔
تیسرا طریق انتہائی ضعیف ہے۔
خود مضمن نگار نے اسے صحیح نہیں کہا ہے ۔
یہاں بھی ابوعبید اورابی السفرکے درمیان کے واسطے معلوم نہیں یہ اس سند کو دوسری بڑی کمزوری ہے۔
چھوتا طریق تو مکمل طورپر گمنام ہے۔
یہاں ابوعبید سے اوپر کسی بھی راوی کا ذکر نہیں بلکہ ابہام کے ساتھ ’’وغیرہم ‘‘ کہہ نام معلوم لوگوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا ہرطریق ضعیف ہے اور یہ روایت مردود وباطل ہے۔
ان سب کے ساتھ ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ تمام طریق کے تمام الفاظ کو ’’قالوا‘‘ کہہ کرایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
یہ واقدی جیسے کذابوں کا طریقہ کار ہے ۔اورنا ممکن ہے اتنے طرق سے کوئی روایت عین ایک ہی الفاظ اور ایک ہی سیاق میں وارد ہو ایک دوطریق کامسئلہ ہوتا تو بات الگ تھی لیکن یہاں ’’وغیرہم ‘‘ کہہ کرنہ جانے کتنے پرتاریک طرق کاسلسلہ ہے ۔اس لئے یہ بھی پتہ نہیں کہ مذکورہ روایت کا کون حصہ کس طریق سے ہیں ۔صرف یہی ایک بات اس روایت کے مردود ہونے کے لئے کافی ہے۔