• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بنی امیہ اہل بیت کو گالیاں دینے پر کافر کیوں نہ ہوئے؟

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
یہاں اہل تشیع نے بنو امیہ خاندان سے اپنی ازلی دنشمنی کا ثبوت دیتے ہوے - حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ (کاتب وحی ) پر انتہائی لغو اعتراضات کیے ہیں- کیا نبی کریم صل اللہ علیہ و آ لہ وسلم اپنے کسی ایسے صحابی کو کاتب وحی کے منصب پر برجمان کر سکتے تھے جس کا کام دوسرے جلیل القدرصحابہ (حضرت علی رضی الله عنہ وغیرہ) پر لعنت و ملامت کرنا ہو؟؟؟ -
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
دلائل کا جواب ہمیں دلائل سے دینا چاہیے یہاں کوئی اہل علم آکر راہنمائی کر سکتا ہے
محترم کفایت اللہ، محمد ارسلان
، بشیر احمد عسکری،خضر حیات،انس نضر،شاہد نذیر،کلیم حیدر،عبدہ،ابوالحسن علوی،بشیر الحسینوی

@کفایت اللہ،@محمد ارسلان،@خضر حیات، @عبدہ ،@شاہد نذیر،@کلیم حیدر،@ابوالحسن علوی،@انس ، @بشیراحمد عسکری

@کفایت اللہ،،@ محمد ارسلان، @شاہد نذیر، @انس @ابوالحسن علوی، @بشیراحمدعسکری
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
بھائی اگر آپ شیعہ نہیں ہیں تو ناراض ہونے کی کیا ضرورت ہے بس کہ دیں میں شیعہ نہیں مان لیں گے
یہ دیکھیں عربی الفاظ کیا ہیں جو آپ نے نقل کیئے
وعند أبي يعلى عن سعد من وجه آخر لا بأس به قال لو وضع المنشار على مفرقي على أن أسب عليا ما سببته أبدا
اب اس میں دکھائیں کہ تم رکھ دو کس کا ترجمہ ہے یہ وضع ماضی مجھول ہے اگر رکھ دیا جائے یہ لکھنے والے کی ہوشیاری ہے کہ بریکٹس میں زائد الفاظ لا کے یہ دھوکہ دے رہا ہے کہ جو بریکٹ سے باہر ہیں وہ متن کے حروف کا ترجمہ ہے لھذا جب مخاطب کی ضمیر نہیں تو یہ احتمال کیسے ہو گیا کہ حکم گالی دینے کا دیا
اور جو آپ نے لکھا کہ یعنی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم علی رضی اللہ عنہ کو سب کیوں نہیں کرتے سبھی کر رہے ہیں تو اُسکے جواب میں سعد رصی اللہ عنہ نے اُنھیں یہ جواب دیا
اس میں آپ نے بھی یہی لکھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے صرف وجہ پوچھی کہ تم کیوں نہیں کرےت یہ نہیں کہا کہ چلو سب کرو
اگر تشفی ہو گئی تو آگے چلیں سب پر نہیں تو مزید کچھ شبہ ہے تو بتائیے اس کو حل کریں
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
نوٹ:
قاہرالارجاء بھائی کی طرف سے شروع کے دو ثبوت پر بات ہوچکی ہے ۔اب اگلے ثبوتوں کی حقیقت ملاحظہ کریں:



ثبوت نمبر 3:
ابن کثیر الدمشقی، کتاب البدایہ و النہایہ، حلد 7، صفحہ 341، باب فضائل علی ابن ابی طالب
وقال أبو زرعة الدمشقي‏:‏ ثنا أحمد بن خالد الذهبي أبو سعيد، ثنا محمد بن إسحاق، عن عبد الله بن أبي نجيح، عن أبيه قال‏:‏ لما حج معاوية أخذ بيد سعد بن أبي وقاص‏.‏فقال‏:‏ يا أبا إسحاق إنا قوم قد أجفانا هذا الغزو عن الحج حتى كدنا أن ننسى بعض سننه فطف نطف بطوافك‏.‏قال‏:‏ فلما فرغ أدخله دار الندوة فأجلسه معه على سريره، ثم ذكر علي بن أبي طالب فوقع فيه‏.‏فقال‏:‏ أدخلتني دارك وأجلستني على سريرك،ثم وقعت في علي تشتمه ‏؟‏والله لأن يكون في إحدى خلاله الثلاث أحب إلي من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال حين غزا تبوكاً ‏(‏‏(‏إلا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي ‏؟‏‏)‏‏)‏أحب إلي مما طلعت عليه الشمس، ولأن يكون لي ما قال له يوم خيبر‏:‏ ‏(‏‏(‏لأعطين الراية رجلاً يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله يفتح الله على يديه، ليس بفرار‏)‏‏)‏ ‏(‏ج/ص‏:‏ 7/377‏)‏أحب إليّ مما طلعت عليه الشمس، ولأن أكون صهره على ابنته ولي منها الولد ماله أحب إليّ من أن يكون لي ما طلعت عليه الشمس، لا أدخل عليك داراً بعد هذا اليوم، ثم نفض رداءه ثم خرج‏.‏

ترجمہ:
ابو زرعہ الدمشقی عبداللہ بن ابی نجیح کے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب معاویہ نے حج کیا تو وہ سعد بن ابی وقاص کا ہاتھ پکڑ کر دارالندوہ میں لے گیا اور اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ پھر علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہوئے انکی عیب جوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص نے جواب دیا: "آپ نے مجھے اپنے گھر میں داخل کیا، اپنے تخت پر بٹھایا،پھر آپ نے علی ابن ابی طالب کے حق میں بدگوئی اور سب و شتم شروع کر دیا۔خدا کی قسم، اگر مجھے علی کے تین خصائص و فضائل میں سے ایک بھی ہو تو وہ مجھے اس کائنات سے زیادہ عزیز ہو جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔ کاش کہ نبی اللہ ص نے میرے حق میں یہ فرمایا ہوتا جب کہ آنحضور ص غزوہ تبوک پر تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے علی کے حق میں فرمایا:"کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون کو موسی سے تھی سوائے ایک چیز کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ یہ ارشاد میرے نزدیک دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب تر ہے۔ پھر کاش کہ میرے حق میں وہ بات ہوتی جو آنحضور ص نے خیبر کے روز علی کے حق میں فرمائی تھی کہ "میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اسکا رسول ص اس سے محبت رکھتے ہیں۔ اللہ اسکے ہاتھ پر فتح دے گا اور یہ بھاگنے والا نہیں [غیر فرار]۔ یہ ارشاد بھی مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز تر ہے۔ اور کاش کہ مجھے رسول ص کی دامادی کا شرف نصیب ہوتا اور آنحضور ص کی صاحبزادی سے میرے ہاں اولاد ہوتی جو علی کو حاصل ہے، تو یہ چیز بھی میرے لیے دنیا و مافیہا سے عزیز تر ہوتی۔ آج کے بعد میں تمہارے گھر کبھی داخل نہ ہوں گا۔ پھر سعد بن ابی وقاص نے اپنی چادر جھٹکی اور وہاں سے نکل گئے۔"
نوٹ:
یہ صحیح روایت ہے۔ مخالفین نے پھر بھی اس میں شک ڈالنے کے لیے ایک راوی احمد بن خالد پر اعتراض کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہ راوی احمد بن خالد انتہائی ثقہ ہیں اور ان کی ضعیف ثابت کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انکے متعلق ائمہ رجال کے اقوال:
الذھبی: امام، محدث، ثقہ [سر اعلام النبلاء جلد 9، صفحہ 539]
امام یحیی ابن معین: ثقہ [تہذیب الکمال جلد 1، صفحہ 301]
امام ابن حبان نے ان کا اپنی کتاب "الثقات" میں شامل کیا ہے [جلد 8، صفحہ 6]
امام ابن ماجہ نے احمد بن خالد سے روایات نقل کی ہیں اور سعودیہ کے شیخ البانی نے ان احادیث کو صحیح قرار دیا ہے [سنن ابن ماجہ، جلد 2، حدیث 3188]
احمدبن خالد کے دفاع کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کی سند میں محمدبن اسحاق ہیں ، یہ ’’عن‘‘ سے روایت کررہے ہیں اور یہ مدلس ہیں ۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں طبقات المدلسین میں چوتھے طبقہ میں گناتے ہوئے کہا:
محمد بن إسحاق بن يسار المطلبي المدني صاحب المغازي صدوق مشهور بالتدليس عن الضعفاء والمجهولين وعن شر منهم وصفه بذلك أحمد والدارقطني وغيرهما

واضح رہے کہ چوتھے طبقہ کے مدلسین کا عنعنہ بالاتفاق مردود ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ روایت مردود وباطل ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
ثبوت نمبر 4:
سنن ابن ماجہ، جلد اول :
حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو معاوية حدثنا موسى بن مسلم عن ابن سابط وهو عبد الرحمن عن سعد بن أبي وقاص قال قدم معاوية في بعض حجاته فدخل عليه سعد فذكروا عليا فنال منه فغضب سعدوقال تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول من كنت مولاه فعلي مولاه وسمعته يقول أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي وسمعته يقول لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله


ترجمہ:
یعنی حج پر جاتے ہوئے سعد بن ابی وقاص کی ملاقات معاویہ سے ہوئی اور جب کچھ لوگوں نے علی کا ذکر کیا تو اس پر معاویہ نے علی کی بدگوئی کی۔ اس پر سعد بن ابی وقاص غضبناک ہو گئے اور کہا کہ تم علی کے متعلق ایسی بات کیوں کہتے ہو۔ میں نے رسول اللہ ص کو کہتے سنا ہے کہ جس جس کا میں مولا، اُس اُس کا یہ علی مولا، اور یہ کہ اے علی آپکو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ ہارون ع کو موسی ع سے تھی سوائے ایک چیز کہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا، اور میں نے [رسول اللہ ص] سے یہ بھی سنا ہے کہ کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے۔
یہ بالکل صحیح الاسناد روایت ہے اور البانی صاحب نے اسے "سلسلة الأحاديث الصحيحة" میں ذکر کیا ہے۔
لنک :
روایت بھی ضعیف ومردود ہے ۔
ابن باسط کاسعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ۔
امام ابن معین رحمہ اللہ نے پوری صراحت کے ساتھ اس کا انکار کیا ہے۔

عباس الدورى رحمه الله (المتوفى271) کہتے ہیں:
سمعت يحيى يقول قال بن جريج حدثني عبد الرحمن بن سابط قيل ليحيى سمع عبد الرحمن بن سابط من سعد قال من سعد بن إبراهيم قالوا لا من سعد بن أبى وقاص قال لا قيل ليحيى سمع من أبى أمامة قال لا قيل ليحيى سمع من جابر قال لا هو مرسل كان مذهب يحيى أن عبد الرحمن بن سابط يرسل عنهم ولم يسمع منهم [تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 3/ 87]

بلکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
لا يصح له سماع من صحابي
یعنی کسی بھی صحابی سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے۔[الإصابة لابن حجر، ت تركي: 8/ 337]

رہی بات شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کی تو شیخ البانی رحمہ اللہ کی یہ تصحیح دلائل کے خلاف ہے اس لئے غیرمسموع ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
ثبوت نمبر 5:
ابن عساکر نے تاریخ مدینہ الدمشق میں لکھتے ہیں:
اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا الحسين بن محمد بن سعد أنا أبو عبيد عن مجالد عن الشعبي وعن يونس بن أبي إسحاق عن أبيه وعن أبي السفر وغيرهم ۔۔۔۔۔۔۔ ولا يسب علي وهو يسمع وان يحمل إليه خراج فسا ( 3 ) ودار ابجرد ( 4 ) من ارض فارس كل عام


ترجمہ:
یعنی حسن بن علی نے جب معاویہ سے صلح کی تھی تو اس میں جو شرائط تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ "۔۔۔۔۔ اور علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا ، برا بھلا کہنا] نہیں کیا جائے گا جب کہ وہ سن رہے ہوں۔۔۔۔۔
ابن عساکر نے یہ اس شرط کا ذکر تین روایات میں کیا ہے، جس میں سے دوسری روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ صحیح روایت ہے۔
1۔ أبو بكر محمد بن عبد الباقي: ابن جوزی [ثقہ]، الذھبی [عادل]
2۔ محمد بن العباس: البغدادی [ثقہ]، الذھبی [صدوق]
3۔ احمد بن معروف: بغدادی [ثقہ]، آلذھبی [ثقہ]
4۔ الحسين بن محمد: البغدادی [ثقہ]، الذھبی [حافظ]
5۔ محمد بن عبید: ابن حجر العسقلانی [ثقہ]، الذھبی [ثقہ]
6۔ يونس بن أبي إسحاق: ابن حجر العسقلانی [ثقہ]، الذھبی [ثقہ]
7۔ ابن اسحق الشعبہ: ابن حجر [ثقہ]، الذھبی [ثقہ، حجۃ]


الذھبی نے یہی شرط دو روایات میں ذکر کی ہے۔ مثلا محمد ابن عبید، مجلد، الشعبی، یونس اور پھر اس نے اپے والد سے۔
آنلائن لنک
امام جمال الدین المزی نے بھی یہ روایت تین اوپر والی اسناد سے نقل کی ہے۔
آنلائن لنک
تحریف کیس:
ان تینوں علماء ابن عساکر، الذھبی اور جمال الدین مزی اور انکی اسناد کا ذکر اس لیے ہے کہ ان تینوں نے یہ روایات اپنے سے پہلے آنے والے مشہور عالم علامہ ابن سعد کی مشہور کتاب "طبقات الکبری" سے نقل کی ہیں۔
مگر آج چھپنے والی طبقات میں ہمیں یہ تینوں اسناد والی روایات نظر نہیں آتیں اور تعصب میں مبتلا لوگوں نے ان علماء کے کتب میں من مانی تحریف شروع کر رکھی ہے اور یہ سنت بنی اسرائیل میں مبتلا ہیں کہ جب انہوں نے اپنی کتابوں سے اُن تمام چیزوں کی تحریف کر دی جو ان کی خواہشات اور خود ساختہ عقائد کے خلاف تھیں۔
یہ روایت بھی باطل اور مردود ہے۔
تاریخ ابن عساکرسے پوری روایت ملاحظہ ہو:

امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
اخبرنا أبو بكر محمد بن عبد الباقي أنا الحسن بن علي أنا محمد بن العباس أنا احمد بن معروف نا الحسين بن محمد بن سعد أنا أبو عبيد عن مجالد عن الشعبي
وعن يونس بن أبي إسحاق عن أبيه
وعن أبي السفر
وغيرهم
قالوا بايع أهل العراق بعد علي بن أبي طالب الحسن بن علي ثم قالوا له سر إلى هؤلاء القوم الذين عصوا الله ورسوله وارتكبوا العظيم وابتزوا الناس امورهم فأنا نرجو أن يمكن الله منهم فسار الحسن إلى أهل الشام وجعل على مقدمته قيس بن سعد بن عبادة في اثنى عشر ألفا وكانوا يسمون شرطة الخميس وقال غيره وجه إلى الشام عبيد الله بن العباس ومعه قيس بن سعد فسار فيهم قيس حتى نزل مسكن والانبار وناحيتها وسار الحسن حتى نزل بالمدائن واقبل معاوية في أهل الشام يريد الحسن حتى نزل جسر منبج فبينا الحسن بالمدائن إذ نادى مناد في عسكره إلا أن قيس بن سعد قد قتل قال فشد الناس على حجرة الحسن فانتهبوها حتى انتهبت بسطه وجواريه واخذوا رداءه من ظهره وطعنه رجل من بني أسد يقال له ابن أقيصر بخنجر مسموم في إليته فتحول من مكانه الذي انتهب فيه متاعه ونزل الأبيض قصر كسرى وقال عليكم لعنة الله من أهل قرية فقد علمت انه لا خير فيكم قتلتم أبي بالامس واليوم تفعلون بي هذا ثم دعا عمرو بن سلمة الارحبي فأرسله وكتب معه إلى معاوية بن أبي سفيان يسأله الصلح ويسلم له الأمر على أن يسلم له ثلاث خصال يسلم له بيت المال فيقضي منه دينه ومواعيده التي عليه ويتحمل منه هو ومن معه عيال أهل أبيه وولده وأهل بيته ولا يسب علي وهو يسمع وان يحمل إليه خراج فسا ودار ابجرد من ارض فارس كل عام إلى المدينة ما بقي فأجابه معاوية إلى ذلك واعطاه ما سأل

[تاريخ دمشق لابن عساكر: 13/ 264]


سب سے پہلے تو یہ واضح ہو کہ مضمون نگارنے طبقات ابن سعد میں جو تحریف کاالزام لگایا ہے وہ باطل ہے کیونکہ طبقات کے بعض نسخوں میں یہ روایت موجود ہے ۔چناں چہ ملاحظہ ہو:

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
قال: أَخبَرنا أبو عبيد، عن مجالد، عن الشعبي
(ح) وعن يونس بن أبي إسحاق، عن أبيه
(ح) وعن أبي السفر،
وغيرهم،
قالوا: بايع أهل العراق بعد علي بن أبي طالب: الحسن بن علي، ثم قالوا له: سِر إلى هؤلاء القوم الذين عصوا الله ورسوله، وارتكبوا العظيم, وابتزوا الناس أمورهم، فإنا نرجوا أن يُمكّن الله منهم، فسار الحسن إلى أهل الشام, وجعل على مقدمته: قيس بن سعد بن عبادة، في اثني عشر ألفًا، وكانوا يسمون شرطة الخميس.
وقال غيره: وجَّه إلى الشام: عُبيد الله بن العباس, ومعه قيس بن سعد، فسار فيهم قيس, حتى نزل مسكن, والأنبار, وناحيتها. وسار الحسن حتى نزل المدائن؛ وأقبل معاوية في أهل الشام يريد الحسن, حتى نزل جسر منبج, فبينا الحسن بالمدائن, إذ نادى مناديه في عسكره: ألا إن قيس بن سعد قد قتل, قال: فشدّ الناس على حجرة الحسن, فانتهبوها, حتى انتهبت بُسُطه وجواريه، وأخذوا رداءه من ظهره، وطعنه رجل من بني أسد, يقال له: ابن أقيصر, بخنجر مسموم في أليَته، فتحول من مكانه الذي انتهب فيه متاعه، ونزل الأبيض قصر كسرى، وقال: عليكم لعنة الله من أهل قرية، فقد علمت أن لا خير فيكم، قتلتم أبي بالأمس، واليوم تفعلون بي هذا؟!ثم دعا عمرو بن سلمة الأرحبي، فأرسله, وكتب معه إلى معاوية بن أبي سفيان يسأله الصلح, ويُسَلِّم له الأمر, على أن يسلم له ثلاث خصال: يُسَلم له بيت المال, فيقضي منه دينه, ومواعيده التي عليه، ويتحمل منه هو ومن معه من عيال أبيه وولده وأهل بيته، ولا يُسَبُّ علي وهو يسمع, وأن يُحمل إليه خراج فَسا ودَرابِجَرد من أرض فارس كل عام إلى المدينة ما بقي، فأجابه معاوية إلى ذلك وأعطاه ما سأل.

[الطبقات الكبير لابن سعد ت عمر: 6/ 381]

اب اس کی سند دیکھئے۔
امام ابن سعد رحمہ اللہ نے اس روایت کے اپنے شیخ ابوعبیدسے نقل کیا ہے۔اورابوعبید نے اس روایت کوچارسے زائد طرق سے نقل کیاہے۔

پہلا طریق: عن مجالد، عن الشعبي

دوسرا طریق:عن يونس بن أبي إسحاق، عن أبيه

تیسراطریق:عن أبي السفر

چوتھا اوراس سے زائد نام معلوم طرق: وغيرهم

ان میں سے کسی بھی طریق کی سند صحیح نہیں ہے۔
تمام سندوں میں مرکزی راوی ’’ابوعبید‘‘ اور یہ معلوم نہیں کون ہیں ۔
وضح رہے کہ یہ قاسم بن سلام نہیں کیونکہ یہ مجالد کے شاگرد نہیں ہیں ،مجالد سے ان کی روایات ایک واسطے سے ہیں جیساکہ قاسم بن سلام کی کتب سے واضح ہے۔
اوراگرفرض کرلیں کرلیں کہ یہ قاسم بن سلام ہی ہیں تو مجالد سے ان کی روایت منقطع ہے کیونکہ یہ مجالد کے شاگرد نہیں ۔میرے ناقص علم کے مطابق کسی نے مجالد کے شاگردوں میں ان کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کے مشائخ میں مجالد کا ذکر ہے اور نہ ہی کوئی خارجی قرینہ یہاں موجود ہے۔
لہٰذا اس مرکزی ضعف کے سبب سارے طرق مردود وغیرمقبول ٹہرے۔

اس کے علاوہ ہرطریق ابوعبید کے اوپربھی ضعف موجود ہے۔چناں چہ:

پہلے طریق میں’’مجالد بن سعید‘‘ ہے جوضعیف ہے۔

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
مجالد ليس بشيء. [الضعفاء للبخاري ص: 130]۔

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
لا يحتج بحديثه [الجرح والتعديل 8/ 361]۔

امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
مجالد بن سعيد كوفي ضعيف [الضعفاء والمتروكين ص: 95]۔

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
لا يحتج بحديثه [الجرح والتعديل 8/ 361]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
وَكَانَ رَدِيء الْحِفْظ يقلب الْأَسَانِيد وَيرْفَع الْمَرَاسِيل لَا يجوز الِاحْتِجَاج بِهِ[المجروحين لابن حبان 3/ 10]۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
الكوفي ليس بثقة [سؤالات البرقاني ص: 64]۔

دوسرا طریق منقطع ہے ۔
مضمون نگارنے دعوی کیا ہے دوسری سند صحیح ہے۔اورمضمون نگار نے دوسری سند ابن سعدسے اوپریہ سند پیش کی ہے:

5۔ محمد بن عبید: ابن حجر العسقلانی [ثقہ]، الذھبی [ثقہ]
6۔ يونس بن أبي إسحاق: ابن حجر العسقلانی [ثقہ]، الذھبی [ثقہ]
7۔ ابن اسحق الشعبہ: ابن حجر [ثقہ]، الذھبی [ثقہ، حجۃ]


سوال یہ ہے کہ ابن سعد سے اوپران کے استاذ کہ جگہ ’’محمدبن عبید‘‘ کہاں سے آگئے؟
مضمون نگار نے خود ابن عساکرکی جو سند شروع میں درج کی ہے وہاں بھی اس جگہ ’’ابوعبید‘‘ہے ۔اسی طرح ہم نے براہ راست ابن سعد کی طبقات سے جو سند درج کی ہے اس میں بھی اس جگہ ’’ابوعبید‘‘ ہے۔
اس لئے ظاہر ہے کہ یہاں یہی نام صحیح ہے کیونکہ یہ اصل مصدر میں ہے ۔رہی امام مزی کی کتاب میں محمدبن عبید کا نام تو یہ اصل کے خلاف ہے اوریہیں سے امام ذہبی نے بھی نقل کیا ہے۔لہٰذا یہ دونوں حوالے ابن سعد کی اصل کتاب اورابن عساکر کی کتاب کے خلاف ہونے کے سبب غیرمقبول ہیں۔
اورجب یہ ’’ابوعبید‘‘ ہی ہے تو اس کے اور ’’یونس بن ابی اسحاق ‘‘ کے بیچ واسطہ معلوم نہیں اس لئے اس سند کی یہ دوسری خرابی ہے۔کسی بھی کتاب میں ’’یونس بن ابی اسحاق ‘‘ کے تلامذہ میں ’’ابوعبید‘‘ کاذکر نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کوئی قرینہ موجود ہے۔
اوران کے والد’’ابن اسحق الشعبہ‘‘ نہیں جیساکہ مضمون نگار نے لگاہے بلکہ ’’ابواسحاق السبیعی ‘‘ ہیں ۔اوریہ مدلس ہیں حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں تیسرے طبقہ میں ذکر کرتے ہوئے کہا:
عمرو بن عبد الله السبيعي الكوفي مشهور بالتدليس وهو تابعي ثقة وصفه النسائي وغيره بذلك[طبقات المدلسين لابن حجر ت القريوتي: ص: 42]
اوریہاں ان کے سماع یاتحدیث کا ذکر نہیں اس لئے اس سند کی یہ تیسری خرابی ہے۔
اتنی ساری خرابیوں کے باوجود مضمون نگار نے بڑی ڈھٹائی سے اسے صحیح کہہ دیا ہے۔اورسند میں غلط راویوں کا نام ڈال کرعوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔

تیسرا طریق انتہائی ضعیف ہے۔
خود مضمن نگار نے اسے صحیح نہیں کہا ہے ۔
یہاں بھی ابوعبید اورابی السفرکے درمیان کے واسطے معلوم نہیں یہ اس سند کو دوسری بڑی کمزوری ہے۔

چھوتا طریق تو مکمل طورپر گمنام ہے۔
یہاں ابوعبید سے اوپر کسی بھی راوی کا ذکر نہیں بلکہ ابہام کے ساتھ ’’وغیرہم ‘‘ کہہ نام معلوم لوگوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس روایت کا ہرطریق ضعیف ہے اور یہ روایت مردود وباطل ہے۔

ان سب کے ساتھ ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ تمام طریق کے تمام الفاظ کو ’’قالوا‘‘ کہہ کرایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
یہ واقدی جیسے کذابوں کا طریقہ کار ہے ۔اورنا ممکن ہے اتنے طرق سے کوئی روایت عین ایک ہی الفاظ اور ایک ہی سیاق میں وارد ہو ایک دوطریق کامسئلہ ہوتا تو بات الگ تھی لیکن یہاں ’’وغیرہم ‘‘ کہہ کرنہ جانے کتنے پرتاریک طرق کاسلسلہ ہے ۔اس لئے یہ بھی پتہ نہیں کہ مذکورہ روایت کا کون حصہ کس طریق سے ہیں ۔صرف یہی ایک بات اس روایت کے مردود ہونے کے لئے کافی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
ثبوت نمبر 6:
ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ و النہایہ میں لکھتے ہیں :
فاشترط أن يأخذ من بيت مال الكوفة خمسة آلاف ألف درهم، وأن يكون خراج دار أبجرد له، وأن لا يسب علي وهو يسمع
ترجمہ:
[الحسن] نے یہ شرائط رکھیں کہ کوفہ کے بیت المال سے پچاس لاکھ درھم کا خراج انہیں [اور انکی فوج] کے حوالے رکھا جائے اور دار ابجرد کا خراج بھی انہیں کو ملے اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب [گالیاں دینا، برا بھلا کہنا] نہ کیا جائے جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
تحریف کیس2:
یہ روایت بھی معتصب حضرات کو ہضم نہیں ہوئی اور بہت سی دیگر نیٹ ویب سائیٹ پر اس روایت کی تحریف کر دی گئِ ہے اور آپ کو اُن میں یہ روایت ملے گی ہی نہیں۔
تحریف کاالزام بکواس ہے یہ روایت ابن کثیر رحمہ اللہ کی کتاب میں موجودہے پھرتحریف کی رٹ لگانا کیا معنی رکھتاہے۔

امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
خلافة الحسن بن على رضى الله عنه
قد ذكرنا أن عليا رضى الله عنه لما ضربه ابن ملجم قالوا له استخلف يا أمير المؤمنين فقال ولكن أدعكم كما ترككم رسول الله ص يعنى بغير استخلاف فان يرد الله بكم خيرا يجمعكم على خيركم كما جمعكم على خيركم بعد رسول الله ص فلما توفى وصلى عليه ابنه الحسن لأنه أكبر بنيه رضى الله عنهم ودفن كما ذكرنا بدار الإمارة على الصحيح من أقوال الناس فلما فرغ من شأنه كان أول من تقدم إلى الحسن بن على رضى الله عنه قيس بن سعد بن عبادة فقال له ابسط يدك أبايعك على كتاب الله وسنة نبيه فسكت الحسن فبايعه ثم بايعه الناس بعده وكان ذلك يوم مات على وكان موته يوم ضرب على قول وهو يوم الجمعة السابع عشر من رمضان سنة أربعين وقيل إنما مات بعد الطعنة بيومين وقيل مات فى العشر الأخير من رمضان ومن يومئذ ولى الحسن ابن على وكان قيس بن سعد على إمرة أذربيجان تحت يده أربعون الف مقاتل قد بايعوا عليا على الموت فلما مات على ألح قيس بن سعد على الحسن فى النفير لقتال أهل الشام فعزل قيسا عن إمرة أذربيجان وولى عبيد الله بن عباس عليها ولم يكن فى نية الحسن أن يقاتل أحدا ولكن غلبوه على رأيه فاجتمعوا اجتماعا عظيما لم يسمع بمثله فأمر الحسن بن على قيس بن سعد بن عبادة على المقدمة فى اثنى عشر ألفا بين يديه وسار هو بالجيوش فى أثره قاصدا بلاد الشام ليقاتل معاوية وأهل الشام فلما اجتاز بالمدائن نزلها وقدم المقدمة بين يديه فبينما هو فى المدائن معسكرا بظاهرها إذ صرخ فى الناس صارخ ألا إن قيس بن سعد بن عبادة قد قتل فثار الناس فانتهبوا أمتعة بعضهم بعضا حتى انتهبوا سرادق الحسن حتى نازعوه بساطا كان جالسا عليه وطعنه بعضهم حين ركب طعنة أثبتوه وأشرته فكرههم الحسن كراهية شديدة وركب فدخل القصر الأبيض من المدائن فنزله وهو جريح وكان عامله على المدائن سعد بن مسعود الثقفى أخو أبى عبيد صاحب يوم الجسر فلما استقر الجيش بالقصر قال المختار بن أبى عبيد قبحه الله لعمه سعد بن مسعود هل لك فى الشرف والغنى قال ماذا قال تأخذ الحسن بن على فتقيده وتبعثه إلى معاوية فقال له عمه قبحكم الله وقبح ما جئت به أغدر بابن بنت رسول الله ص ولما رأى الحسن بن على تفرق جيشه عليه مقتهم وكتب عند ذلك إلى معاوية بن أبى سفيان وكان قد ركب فى أهل الشام فنزل مسكن يراوضه على الصلح بينهما فبعث إليه معاوية عبد الله بن عامر وعبد الرحمن بن سمرة فقدما عليه الكوفة فبذلا له ما أراد من الأموال فاشترط أن ياخذ من بيت مال الكوفة خمسة آلاف ألف درهم وأن يكون خراج دار أبجرد له وأن لا يسب على وهو يسمع

[البداية والنهاية، مكتبة المعارف: 8/ 14]

امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہاں کوئی سند ذکر نہیں کی بے سند باتوں پر کسی پرگالیوں کا الزام نہیں لگتا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
ثبوت نمبر 7:
علامہ ابن اثیر اپنی کتاب تاریخ الکامل میں لکھتے ہیں:
وكان الذي طلب الحسن من معاوية أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة، ومبلغه خمسة آلاف ألف، وخراج دار ابجرد من فارسن وأن لا يشتم علياً، فلم يجبه إلى الكف عن شتم علي، فطلب أن لا يشتم وهو يسمع، فأجابه إلى ذلك ثم لم يف له به أيضاً، وأما خراج دار ابجرد فإن أهل البصرة منعوه منه وقالوا: هو فيئنا لا نعطيه أحداً، وكان منعهم بأمر معاوية أيضاً.

ترجمہ:
امام حسن نے امیر معاویہ سے جو امور طلب کئے تھے وہ یہ تھے کہ کوفے کے بیت المال کی تمام رقم جسکی مقدار پچاس لاکھ تھی اور فارس کے دار ابجرد کا خراج انہیں دیا جائے [تاکہ وہ اپنی فوج کا خرچ ادا کر سکیں]اور یہ کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔ معاویہ نے سب و شتم سے باز رہنے کو منظور نہیں کیا۔ اسپر امام حسن نے پھر طلب کیا کہ انکو ایسے وقت میں سب و شتم نہ کیا کریں کہ وہ ا سکو سن سکتے ہوں۔ اسکو معاویہ نے قبول کیا مگر بعد میں یہ شرط بھی پوری نہ کی۔ باقی رہا دار الابجرد کا خراج تو اسے اہل بصرہ نے یہ کہہ کر روک لیا کہ وہ ہمارے مال غنیمت میں سے ہے اور وہ ہم کسی کو نہ دینگے۔ انہوں نے اس میں بھی معاویہ کے حکم سے ہی رکاوٹ ڈالی۔
امام الذھبی اپنی کتاب "العبر في خبر من غبر " میں یہی روایت نقل کرتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے۔
ثم كتب إلى معاوية على أن يسلم إليه بيت المال وأن لا يسب عليًا بحضرته وأن يحمل إليه خراج فسا ودارابجرد كل سنة‏.‏

آنلائن لنک
امام ابن جریر طبری بھی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ امام حسن نے معاویہ سے اس شرط پر صلح کی کہ علی ابن ابی طالب پر سب و شتم نہ کیا جائے گا ایسے وقت میں جبکہ وہ اسے سن رہے ہوں۔
آنلائن لنک
امام طبری نے یہ روایت عوانہ ابن حکم [متوفی 147 ہجری] سے لی ہے۔ عوانہ نے معاویہ ابن ابی سفیان اور بنی امیہ پر دو تاریخی کتابیں لکھی تھیں۔ ان عوانہ کے متعلق ائمہ رجال کی آراء:
الذھبی: عوانہ روایات بیان کرنے میں صدوق ہیں [سر العلام النبلاء جلد 7، صفحہ 201]
امام عجلی: انہوں نے عوانہ کو اپنی کتاب "معارف الثقات" جلد 2، صفحہ 196 پر شامل کیا ہے۔
یاقوت حموی: عوانہ تاریخ اور روایات کے عالم ہیں اور ثقہ ہیں
حتی کہ ابن خلدون [جن میں کہ علی کے خلاف ناصبیت تک پائی جاتی ہے اور اس لیے مخالفین کے پسندیدہ مورخ ہیں] لکھتے ہیں [تاریخ ابن خلدون، جلد 2، صفحہ 648]:
آنلائن لنک
فكتب إلى معاوية يذكر له النزول عن الأمر على أن يعطيه ما في بيت المال بالكوفة و مبلغه خمسة آلاف ألف و يعطيه خراج دار ابجرد من فارس و ألا يشتم عليا و هو يسمع

ترجمہ:
یعنی امام حسن نے شرط رکھی کہ علی ابن ابی طالب کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
علامہ اسمعیل بن ابو الفداء اپنی تاریخ ابوالفداء جلد اول، صفحہ 648 پر لکھتے ہیں:آنلائن لنک
وكان الذي طلبه الحسن أن يعطيه ما في بيت مال الكوفة وخراج دارا بجرد من فارس وأن لا يسب علياً فلم يجبه إلى الكف عن سبّ علي فطلب الحسن أن لا يشتم علياً وهو يسمع فأجابه إِلى ذلكَ ثم لم يف له به

ترجمہ:
یعنی علی ابن ابی طالب کو گالیاں نہیں دی جائیں گی جبکہ وہ اسے سن سکتے ہوں۔
یہ تمام کی تمام باتیں بے سند ہیں ۔اوربے سند باتوں سے کسی پرگالی دینے کی تہمت نہیں لگائی جاسکتی ۔

عوانہ بن حکم کی ثوثیق پیش کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوجاتا عوانہ سے اوپرسند کون پیش کرے گا؟؟
واضح رہے کہ عوانہ مختلف فیہ راوی ہے بعض نے اسے متہم کہا ہے تفصیل ہماری کتاب : یزید بن معاویہ پرالزامات کاتحقیق جائزہ :ص 392 پرملے گی۔
مزید یہ کہ عوانہ عام طور سے ’’الھیثم بن عدی ‘‘ سے روایات نقل کرتا ہے اور یہ کذاب اور بہت بڑا جھوٹا شخص ہے۔ دیکھئے : یزید بن معاویہ پرالزامات کا تحقیقی جائزہ :ص 329 ۔
بہرحال ان باتوں کی مکمل سند نہیں ہے اس لئے یہ سب باتیں سبائی ٹولے کی بنائی ہوئی ہیں ۔
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
پہلی بات کہ اس سوالیہ مضمون کئ ابتدا ہی غلط ہے ، شیعوں کو کافر صحابہ پر بد شد بکنے کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے عقائد کے بنیاد پر کہا جاتا ہے۔۔ جس میں سب سے خطرناک عقیدہ تحریف قرآن کریم ہے اور یہ عقیدہ شیعوں کے نامور علماء نے بڑھ چڑھ کر پیش کیا ہے ملان مجلسی نے تو وہ الفاظ اور سورتیں بھی پیش کئے ہیں جو شیعوں کے مطابق قرآن کریم سے نکالے گئے یا ڈالے گئے ہیں ۔۔ اس سے بڑھ کر اماموں کا کائنات کا مالک ہونا ، اماموں کی مرضی سے انبیاء کو نبوت ملنا ۔ اماموں کی مرضی سے بارش برسنا اور ان کی مرضی کے خلاف کائنات کا کوئی کام نہیں ہونا ۔جنت و جھنم کا مالک علی رضہ کو کہنا ۔۔۔۔۔ یہ ایسے عقائد ہیں جس کی بنیاد پر علماء شیعوں کو جنس و کافر کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top