ذرا غور کریں
مسند احمد بن حنبل اہل سنت کی مسانید وجوامع اور کتب حدیث کی معتبر ترین کتاب شمار کی جاتی ہے، احمد بن حنبل نے ایک روایت اپنے اسناد کے ساتھ پیغمبرﷺکے مشہور صحابی جابر بن سمرہ سے نقل کی ہے، جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ ’’میں نے پیغمبرﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’یکون لہٰذہ الامۃ اثنا عشر خلیفۃ‘‘(بحوالہ منتخب الاثر، ص۱۲)
’’اس امت میں بارہ افراد (میرے) خلیفہ ہوں گے۔‘‘
اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ صرف مذہب شیعہ اثنا عشری کا ہی یہ نظریہ ہے۔
۲۔ ابن عدی نے کامل میں اور ابن عساکر نے ابن مسعود سے یہ روایت نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرمﷺنے فرمایا:
’’انّ عدّۃ الخلفاء بعديعِدّۃُ نقباء موسی(ع)‘‘( الجامع الصغیر،ج۱ص۹۱طبع چہارم) ’’میرے جانشینوں کی تعداد نقباء موسیٰ (ع)کی تعداد کے برابر ہے،، جنکی تعداد متفقہ طور پر بارہ تھی
۳۔ طبرانی نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرمﷺنے فرمایا:
(یکون من بعدي اثنیٰ عشر خلیفۃ کلّہم من قریش)( کنز العمال، ج۱ص۳۳۸،ج۶ص۲۰۱۔)
’’میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے۔‘‘
۴۔ابن نجار نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرمﷺنے فرمایا:
’’لن یزال ھٰذا الدینُ قائماً الی اثنی عشر من قریش فاذا ھلکوا ماجت الارض بأہلھا‘‘(کنز العمال،ج۶ص۲۰۱ ح ۳۴۸۳۔)
’’یہ دین اس وقت تک قائم رہے گاجب تک قریش کے بارہ خلیفہ نہ ہوجائیں جب ان کی رحلت ہوجائے گی توزمین اپنے اہل کے ساتھ مضطرب ہوجائے گی۔‘‘
۵۔دیلمی نے فردوس الاخبار میں ابوسعید خدری سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرمﷺہم لوگوں کے ساتھ پہلی نماز اداکرنے کے بعد ہم لوگوں کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے گروہ اصحاب!
بے شک تمہارے درمیان میرے اہل بیت (غ) کی مثال کشتی نوحؑ اور باب حطۂ بنی اسرائیل کی ہے پس میرے بعد میرے اہل بیت (غ)سے متمسک رہنا جو راشدو رہبر میری ذریت سے ہیں (اگرتم نے ایسا کیا) تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔‘‘
’’فقیل: یا رسول اللہ کم الائمۃُ بعدک؟ قال اثنا عشر من اھل بیتي(اوقال) من عترتي‘‘
سوال کیا گیا: اے رسولصلی اللہ علیہ وآلہآپ کے بعد کتنے ائمہ ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا:بارہ افراد میرے اہل بیت میں سے‘‘ یا فرمایا ’’میری عترت میں سے‘‘(عبقات الانوار، ج۲ص۲۴۶۔)
۶۔غایۃ الاحکام کے شارح نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوقتادہ سے حدیث نقل کی ہے کہ ابوقتادہ نے کہا :’’میں نے پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ وآلہکو کہتے ہوئے سنا‘‘
’’الائمۃ بعدي اثنا عَشَرَعد داً نقباءِ بني اسرائیل وحوا ري عیسیٰؑ ‘‘(کشف الاستار،ص۷۴۔)
اس قسم کی روایات کتب اہلسنت میں بہت ہیں بطور نمونہ یہی روایات کافی ہیں۔
۷۔فاضل قندوزی نے ابوالفضیل عامر بن واثلہ سے، انہوں نے حضرت علی ؑ سے اورآپؑ نے پیغمبراکرمصلی اللہ علیہ وآلہسے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : ’’اے علی (غ) تم میرے وصی ہو، تمہاری جنگ میری جنگ اور تمہاری صلح میری صلح ہے،تم امام اور والد امام ہو، گیارہ اماموں کے والدہو، جو سب کے سب پاک اور معصوم ہیں انھیں میں سے مہدی (ع) بھی ہیں جو زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے‘‘(ینابیع المودۃ،ص۵۔)
۸۔فاضل قندوزی نے ہی یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ وآلہنے فرمایا ’’میرے بعد بارہ امام ہوں گے اے علی (ع)جن میں سے پہلے امام تم ہو اور آخری امام( قائم (ع) ہے جس کے ہاتھوں پر خدا مشرق ومغرب کی فتح عطا کرے گا‘‘(ینابیع المودۃ،ص۴۹۳۔)
۹۔حموئی نے ’’فرائد السمطین‘‘ اور سید علی ہمدانی نے ’’مودۃ القربیٰ‘‘ میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:
’’انا سید النبیین وعلي بن ابیِ طالب سید الوصیین وانّ اوصیائیِ اثنا عشر اولہم علي بن ابیِ طالب وآخرہم القائم‘‘(ینابیع المودۃ، ص۲۵۸؍۴۴۵، کشف الاستار،ص۷۴۔)
’’میں سید الانبیاءصلی اللہ علیہ وآلہہوں اور علی(ع) سید الاوصیاء ہیں اور میرے بارہ جانشین ہیں جن میں پہلے علی (ع) اور آخری قائم( عجل اللہ تعالیٰ فرجہ)ہیں۔
۱۰۔روضۃ الاحباب اور فرائد السمطین میں ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ وآلہنے فرمایا: میرے اوصیاء اور جانشین اور میرے بعد مخلوق پر حجت خدا بارہ افراد ہیں جن میں پہلا میرا بھائی اور آخری میرا فرزند ہے۔
سوال کیا گیا: یا رسول ؐاللہ آپ کا بھائی کون ہے؟
آپ نے فرمایا: علی بن ابی طالبؑ
سوال کیا گیا: آپ کا فرزند کون ہے؟
آپ ؐنے فرمایا: مہدی ؑ ،جو زمین کو اسی طرح عدل وانصاف سے بھر دے گا جیسے وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی۔ قسم اس ذات کی جس نے مجھے بشیر(بشارت دینے والا) بناکر مبعوث کیا اگر دنیا کی زندگی کا صرف ایک دن باقی رہ جائے گا توبھی خدااس دن کو اتنا طویل بنادے گا کہ میرا فرزند مہدی ؑ ظاہر ہو ،اور عیسیٰ بن مریمؑ آسمان سے نازل ہوکر ان کی اقتدا میں نماز ادا کریں، مہدیؑ کے نور سے زمین منورہوجائے اور مشرق ومغرب تک اس کی حکومت پھیل جائے (ینابیع المودۃ،ص۴۴۷، عبقات،ج۲ص۲۳۷ج۱۲)
۱۱۔غایۃ الاحکام کے شارح نے امام حسین (ع)سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ہم میں بارہ مہدی ؑ ہیں جن میں پہلے علی ؑ بن ابی طالب(ع)اور آخری قائم ؑ ہیں‘‘(کشف الاستار،ص۷۴، عبقات،ج۲ج۱۲ص۲۴۰)
۱۲۔حموئی او رہمدانی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ وآلہنے فرمایا:
’’انا وعلی والحسن والحسین وتسعۃ من ولد الحسین مطہرون معصومون‘‘(ینابیع المودۃ،ص۲۵۸، ۴۵۵)
’’میں اور علی(ع)اور حسن(ع)وحسین(ع)اورحسین(ع)کی نسل سے نو فرزند معصوم ومطہر ہیں‘‘۔
۱۳۔خوارزمی نے ’’مقتل الحسین ؑ ‘‘اور ’’مناقب‘‘ میں نیز ہمدانی نے ’’مودۃ القربیٰ‘‘ میں جناب سلمانؓ سے روایت نقل کی ہے کہ میں ایک روز پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ حسین ؑ آپ ؐکے زانو پر ہیں اور آپ کبھی حسین ؑ کی آنکھوں کا بوسہ لے رہے تھے کبھی ہونٹ چوم رہے تھے اور فرمایا تم مولیٰ، فرزند مولیٰ ہو، تم امام فرزند امام برادر امام او رپدر امام ہو تم حجت خدا بھی ہو اور حجت خدا کے فرزند بھی اور تمہاری نسل میں نو حجت خدا ہیں ان میں سے نواں’’قائم ؑ ‘‘ ہے۔( مقتل الحسینؑ ،ج۱ص۹۴، ینابیع ا لمودۃ،ص۲۵۸،۴۹۲)
مذکورہ روایت سے زیادہ مفصل وہ احادیث ہیں جن میں حضرت علی ؑ سے لے کر حضرت مہدی ؑ تک تمام بارہ ائمہ کے نام بیان کئے گئے ہیں اور ان تفصیلی روایات سے ان روایات کا مقصود واضح ہوجاتا ہے جن میں صرف بارہ کی عدد بیان ہوئی ہے۔
شیعہ ذرائع کے لحاظ سے تو یہ روایتیں بہت زیادہ بلکہ متوا ترہیں،اہل سنت نے اپنے ذریعوں سے بھی انھیں نقل کیا ہے،اور اہل سنت کی روش کے مطابق بھی بارہ کی تعداد والی ،اُن روایات سے اِن روایتوں کی تائید وتصدیق ہوتی ہے جو ان کی صحیح کتب میں موجود ہیں۔
۱۴۔جناب جابر کی روایت جو روضۃ الاحباب اور مناقب میں نقل ہوئی ہے(عبقات،ص۲۳۸ج۲ج۱۲، ینابیع المودۃ،ص۴۹۴۔)
۱۵۔ابوسلمیٰ (پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہکے اونٹ کے رکھوالے)کی روایت جسے خوارزمی اورقندوزی نے نقل کیا ہے (مقتل الحسینؑ ،ج۱ص۹۵، ینابیع المودۃ،ص۴۸۶، فرائد السمطین،ج۲۔)
۱۶۔امیرالمومنین حضرت علی ؑ کی روایت جسے خوارزمی نے نقل کیا ہے(مقتل الحسینؑ ،ج۱ص۹۴فصل۶۔)
۱۷۔وہ روایت جسے حافظ ابوالفتح محمدبن احمد بن ابی الفوارس (متوفی۴۱۲)نے اپنی اسناد کے ساتھ اپنی کتاب اربعین میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہسے نقل کیا ہے، اربعین کی اس حدیث میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہنے امیرالمومنین ؑ سے لے کر امام علی ؑ نقی تک تمام ائمہ کا نام ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
’’ومَن أحبّ ان یلقی اللہ عزّوجلّ وھو من الفائزین فلیتولّ ابنہ الحسن العسکري ومَن احبّ ان یلقی اللہ عزوجل’’ومَن أحبّ ان یلقی اللہ عزّوجلّ وھو من الفائزین فلیتولّ ابنہ الحسن العسکري ومَن احبّ ان یلقی اللہ عزوجل وقدکمل ایمانہ وحَسُنَ اسلامہ فلیتول ابنہ المنتظر محمداً صاحب الزمان المہدي فہولاء مصابیح الدجیٰ وائمۃ ٰالھدی واعلام التقیٰ فمن احبّھم وتولّاھم کنت ضامناً لہ علیٰ الجنۃ‘‘(عبقات ج ۲ ج ۱۲ ص ۲۵۳و ۲۵۴،کشف الاستارص۲۷و۲۹،اربعین کاخطی نسخہ حدیث۴)
’’جو شخص خدائے عزوجل سے اس عالم میں ملاقات کرنا چاہتا ہے کہ وہ فائزین میں سے ہو تو ان کے فرزند حسن عسکریؑ کی محبت اس کے دل میں ہونا چاہئے اور جو اس انداز میں خدائے عزوجل سے ملاقات کا خواہاں ہے کہ اس کا ایمان کامل اور اسلام بہترین ہو تو اسے ان کے فرزند منتظر ؑ ، محمد ، صاحب الزمان مہدی ؑ کی ولایت سے سرشار ہونا چاہئے، یہی حضرات ہدایت کے روشن چراغ، ائمۂ ہدیٰ اور تقویٰ کی علامت ہیں، جو ان سے محبت کرے ان کی ولایت کا اقرار کرے،میں اس کی جنت کا ضامن ہوں۔‘‘
جن روایات کا تذکرہ ہم نے کیا ہے اگر ان میں ائمہ کے اسمائے مبارکہ نہ بھی ہوتے اور
صرف بارہ ائمہ کے عددپر ہی اکتفا کی گئی ہوتی تب بھی کافی تھا کیوں کہ ان ائمہ ھدیٰ علیہم السلام اور مذہب شیعہ اثنا عشری کے علاوہ کسی اور مذہب ومسلک سے یہ روایات مطابقت نہیں رکھتیں، یہ روایات اتنی قوی، معتبر اور متواتر ہیں کہ اہل سنت کی جانب سے بے جا توجیہ وتفسیر کی کوشش تو کی گئی مگر کسی نے بھی ان کی صحت کے بارے میں شک وشبہ کا اظہار نہیں کیا، ہم نے اپنی کتاب منتخب الاثر کے حاشیہ پر بھی یہ ثابت کیا ہے کہ بیحد کوششوں کے باوجود ان کی جانب سے اس کی کوئی قابل قبول توجیہ پیش نہیں کی جاسکی ہے،چنانچہ یہ احادیث براہ راست مذہب شیعہ کی صداقت وحقانیت کا اعلان کرتی ہیں۔
اسی لئے اہل سنت کے بہت سے علماء مثلا علامہ کبیر شیخ ؒ ،نفیس کتاب ’’اظہارالحق‘‘ اور دیگر کتب کے مولف، ینابیع المودۃ کے مولف فاضل قندوزی، دراسات اللبیب اور مواہب سید البشر فی حدیث الائمۃ الاثنی عشر‘‘ کے مولف علامہ محمد معین بن محمد امین سندی، ’’روضۃ الاحباب‘‘ کے مولف سید جمال الدین ’’الفصول المہمۃ‘‘ کے مولف ابن الصباغ مالکی، ’’تذکرۃ الخواص‘‘ کے مولف سبط ابن جوزی، ’’شواہد النبوہ‘‘ کے مولف نورالدین عبدالرحمن جامی، ’’کفایۃ الطالب‘‘ اور ’’البیان‘‘ کے مولف حافظ ابی عبداللہ گنجی شافعی، ’’مطالب السؤل‘‘ کے مولف کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی، ’’ابطال نہج الباطل‘‘ کے مولف اور ’’الشمائل‘‘ کے شارح قاضی روزبہان، ابن خشاب مولفِ موا لید الائمہ، شیخ سعد الدین حموئی، خواجہ محمد پارسا، حافظ ابو الفتح، محمد بن ابی الفوارس، عبدالحق دہلوی، صلاح الدین صفدی، جلال الدین رومی، شیخ عبدالرحمن صاحب ’’مرآۃ الاسرار‘‘ قاضی شہاب الدین دولت آبادی صاحب تفسیر ’’البحرالمواج‘‘ و’’ہدایۃ السعداء‘‘ عبداللہ بن محمد المطیری مدنی صاحب ’’الریاض الزاہرۃ‘‘ محمدبن ابراہیم حموینی شافعی صاحب ’’فرائد السمطین‘‘ قاضی بہلول بہجت آفندی، شمس الدین زرندی، جامعۂ ازہر کے وائس چانسلر اور ’’الاتحاف‘‘ کے مولف شبراوی، لوامع العقول کے مولف شیخ ضیاء الدین احمد کشمخانوی جیسے بہت سے علماء نے صراحت کے ساتھ بارہ اماموں کی امامت کا اعتراف کیا ہے اور ان کے فضائل ومناقب اپنی کتب میں تحریر فرمائے ہیں
بارہ اماموں سے متعلق مذکورہ روایات واحادیث سے مذہب شیعہ کی حقانیت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے۔ ان روایات سے حضرت مہدی ؑ کی امامت کا ثبوت اتنا واضح اور مسلم ہے کہ امام ابوداؤد نے بارہ اماموں سے متعلق روایات کو کتاب ’’المہدی‘‘ میں نقل کیا ہے ،واضح رہے کہ امام ابوداؤد کا شمار اہل سنت کے معتبر ترین اور معروف ترین افراد میں ہوتا ہے اور ان کی کتاب(سنن) ’’صحاح ستہ‘‘ میں شامل ہے۔
مزید وضاحت کے لئے ہم اپنی کتاب منتخب الاثر سے چند اعداد وشمار پیش کررہے ہیں ہر چند ہمیں اعتراف ہے کہ ابھی بھی ہم تمام کتب کا احاطہ نہیں کرسکے ہیں۔
خ ۲۷۱ ،احادیث بارہ ائمہ کی امامت پر دلالت کرتی ہیں۔
خ۹۴،احادیث میں مذکور ہے کہ حضرت مہدیؑ ان ائمہ کی آخری فردہیں۔
خ ۹۱، احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علی (ع)ان میں سب سے پہلے اور مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ بارہویں فرد ہیں۔
خ۱۰۷، روایات میں مذکور ہے کہ امام بارہ ہوں گے جن میں سے نو ائمہ امام حسین ؑ کی نسل سے ہوں گے اور ان میں نویں حضرت قائم عج ہیں۔
خ ۵۰، احادیث میں بارہ ائمہ کے نام صراحت کے ساتھ موجود ہیں۔
اس مقام پر جو اعداد وشمار پیش کئے گئے ہیں وہ ’’منتخب الاثر‘‘ کی بنیا د پر ہیں جب کہ ان موضوعات سے متعلق روایات ان سے کئی گنا زیادہ ہیں.