ہاں بہن بہت تلخ ہوتا ہے۔
جب گھر میں دودھ ختم ہو جائے اور بابادودھ لینے گئے ہوئے ہوں اور رو رو کے گلا خشک ہو جائے۔
جب کروٹ لینا سیکھیں تو دن میں دس بار بیڈ سے نیچے جا پڑیں،
بہت تلخ ہوتا ہے جب گھٹنوں کے بل چلنا سیکھیں اور سیڑھیوں سے منہ کے بل نیچے آ ٓ جائیں،
جب سب سو رہے ہوں اور ہمیں زبردستی سکول بھیج دیا جائے،
بہت تلخ ہوتا ہےجب ٹیچر بلاوجہ سزا دیں،
جب بڑے بہن بھائی ڈانٹ کے ساتھ ساتھ دو چپیڑیں بھی لگا دیں،
جب اپنی سنہری یادیں ،دوست احباب چھوڑ کر شفٹ ہونا پڑے،
اور سب سے تلخ لمحہ وہ جب ہم سوچتے تھے کہ جلدی جلدی بڑے ہو جائیں اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے سسٹر خوشیاں ہی باٹیں۔۔۔تلخیاں تو سب کے پاس اپنی بہت ہوتی ہیں۔۔۔
بہن!بالکل بجا فرمایا آپ نے۔۔۔مزید تائید کے لئے ‘بچپن کے دکھ‘ حاضر خدمت ہے
بچپن کے دکھ بھی کتنے اچھے ہوتے تھے
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے
وہ خوشیاں بھی جانے کیسی خوشیاں تھیں
تتلی کے پر نوچ کر اچھلا کرتے تھے
آپ ہی پاوں مار کے بارش کے پانی میں
اپنی ناو آپ ڈبویا کرتے تھے
اب سوچیں تو چوٹ سی پڑتی ہے دل پر
آپ بنا کر گھروندے آپ ہی توڑاکرتے تھے
چھوٹے تھے تومکر و فریب بھی چھوٹے تھے
دانہ ڈال کر چڑیاں پکڑا کرتے تھے
اپنے جل جانے کا احساس بھی نہ تھا
جلتے شعلوں کو چھیڑا کرتے تھے
خوشبو کے اڑ تے ہی کیوں مرجھایا پھول
کتنے بھول پن سے پوچھا کرتے تھے
آج بھی وہ تصوّر لہو رلاتا ہے
پچپن میں جو سپنے ہم نے دیکھے تھے
اب تو ایک آنسو بھی رسوا کرتا ہے
پچپن میں جی بھر کےرویا کرتے تھے!