بہنو!
مجھے لگتا ہے آپ میری بات تک رسائی نہیں کر سکیں۔
بچپن کا عرصہ تب تک شمار کیا جاتا ہے جب تک بلوغت کا آغاز نہیں ہوتا۔ میرے کہنے کا مطلب تھا کہ ہمارے درمیان ایسے بے شمار بچے ہیں جن کا بچپن مختلف حادثات کی نظر ہو جاتا ہے ، تھیلیسیمیا ،کینسر ،اور دوسری بڑی بیماریوں میں مبتلا ان بچوں کا بچپن بھی بچپن ہی ہے۔بغیر ماں باپ کے پلنے والے بچے بھی بچپن کے وہی ادوار دیکھتے ہیں جو کہ خوشحال اور نارمل وقت گزارنے والے۔اور وہ بچے بھی جن کے ہاتھوں میں کھلونے کی جگہ کشکول تھما دیئے جائیں۔
اور بہن خوشی میں تو سبھی ساتھ دیتے ہیں ، احساس تو یہ ہے کہ کوئی دکھ میں بھی ساتھ دے۔نبی کریم ﷺ بچوں سے بے پناہ شفقت سے پیش آتے ، معصومیت کے تحفظ کی اس سے بہتر نظیر اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
کچھ وقت میسر ہوا تو تفصیلا اس پر تحریر کروں گی ان شاء اللہ۔
پیاری بہن آپ کا کہنا بجا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آگہی کی تلخی بچپن میں وارد نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھوٹے بچے تو ٹافی کا خالی ریپر پکڑا دینے سے ہی خوش ہو جاتے ہیں ۔کیا آپ کو دورِفاروقی کا وہ واقعہ یاد نہیں جس میں بچے ماں کے جھوٹے بہلاوے پر بھوکے ہی سونے پر تیّار ہو گئے تھے ۔۔۔میں ایسے بچے کو جانتی ہوں جو ماں کے فوت ہونےپر پھوپھی کے بہلانےپراس کو ماں ماننے پرراضی ہوگیا۔ میری بھتیجی کوایک موذی مرض لاحق ہے لیکن وہ اس کی سنگینی سے بےخبر ہنستی کھیلتی رہتی ہے۔
بے خبری ایک دولت ہے اوربچےاس دولت سے مالامال ہوتے ہیں۔
بھلےمجھ سے لے لو یہ دولت، جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کے وہ دن
وہ کاغذکی کشتی وہ بارش کا پانی