• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بھائی بیٹے کے لئے لڑکی ”دیکھنے “ جانا

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
شوہروں کے لئے بالواسطہ اور بلا واسطہ ہدایات، احادیث کی روشنی میں

٭تم پاک دامنی کے ساتھ رہو تو تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی۔ (طبرانی)

٭عورت پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے اور مرد پر سب سے بڑا حق اس کی ماں کا ہے۔ (مستدرک حاکم)

٭لوگو! اپنی بیویوں کے بارے میں اﷲ سے ڈرو۔۔ ۔تمہارے ذمہ مناسب طریقے پر ان کے کھانے کپڑے کی ضروریات کا بدوبست کرنا ہے (مسلم)

٭عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا کیونکہ عورتوں کی پیدائش پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی اوپر ہی کی طرف سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے۔

٭ بخیل شوہر کے مال سے بقدر ضرورت پوشیدہ طور پر کچھ لے لینا جائز ہے (بیوع، بخاری)

٭ عرصہ دراز تک دور رہنے کے بعد رات کو گھر واپس نہ آیا کرو٭ ٭کوئی مومن اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح کوڑے سے نہ مارے(تفسیر، بخاری)

٭جو اپنی بیویوں کے ساتھ عدل نہ کرے تو قیامت کے دن اس کا ایک دھڑگرا ہوا ہوگا( ترمذی، نسائی )


٭جو نکاح کی قدرت رکھتا ہو تو وہ نکاح کرلے ۔ نکاح نظر کونیچی رکھنے اور شر مگاہ کو محفوظ رکھنے کا باعث ہے٭جو نکاح کرنے پر قدرت نہ رکھتا ہو اسے چاہےے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ سے شہوت ختم ہوجاتی ہے(الصوم، بخاری)

٭کسی عورت کا رشتہ طے ہوجانے کے بعد اُسی عورت کو اپنا رشتہ نہ بھجوا ؤ(بیوع، بخاری)

٭ نکاح کے وقت عورتوں کے مال، نسب یا خوبصورتی کی بجائے اس کی دینداری کو فوقیت دینی چاہئے٭ مَردوں پر کوئی فتنہ عورتوں سے زیادہ ضرر رساں نہیں ہے٭

٭جب کوئی بیوہ عورت پر کنواری سے نکاح کرے تو اُس کے پاس سات دن رہے پھر باری باری رہے٭ جب کسی کنواری پر بیوہ عورت سے نکاح کرے تو اُس کے پاس تین دن رہے پھر باری باری سے رہے(نکاح، بخاری)

٭ تین کام ایسے ہیں جن میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ نماز جب اس کا وقت آجائے۔ جنازہ جب تیار ہوکر آجائے اور بے شوہر والی کا نکاح جب اس کے لےے مناسب جوڑ مل جائے (جامع ترمذی)

٭کسی عورت کو نکاح کا پیغام دینا ہو تو اسے ایک نظر دیکھ لےنا گناہ نہیں۔ (مسند احمد، سنن ابن ماجہ)

٭شوہر دیدہ (بیوہ یا مطلقہ )عورت کو اپنے نفس پر اپنے ولی سے زیادہ حق اور اختیار ہے۔ (صحیح مسلم)٭کنواری کے نکاح سے قبل اس سے اجازت حاصل کی جائے، خاموشی بھی اجازت ہے۔ (صحیح مسلم)

٭ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کا مہر پانچ سو درہم (تقریباً چالیس پچاس بکریوں کی قیمت ) مقرر فرمایا تھا (مسلم)٭عورت اپنی مرضی سے طلاق لینا چاہے تو اُسے مہر واپس کرنا ہوگا(طلاق، بخاری

٭ اﷲ کے ہاں وہ بدترین درجہ میں ہوگا جو بیوی سے ہم بستری کے بعد اس کا راز فاش کرے(مسلم)

٭حلال اور جائز چیزوں میں اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیزطلاق ہے ( ابی داؤد)

٭عورتوں کو طلاق نہ دو ا لّایہ کہ چال چلن مشتبہ ہو۔ ذائقہ چکھنے کے شوقین مردو زن نا پسندیدہ ہیں (طبرانی)
 

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
679
ری ایکشن اسکور
743
پوائنٹ
301
حافظ صاحب یہ بات تو اپنی جگہ سو فیصد درست ہے گو کہ ہم مسلمان ہونے کے باوجود اپنے نبی کریمﷺ کی اس ہدایت پر شاز و نادر ہی عمل کرتے ہیں۔
لیکن اس زمرے کا اصل موضوع یہ نہیں ہے۔بلکہ اصل موضوع یہ ہے کہ ”رشتہ دیکھنے کا طریقہ کار“ کیسا ہونا چاہئے۔
اگرچہ یہ بھی رشتہ دیکھنے کے متعلق ہی ہے کہ رشتہ دیکھنے میں دینداری کو سامنے رکھا جاءے،باقی رہی آپکی طریقہ کار کی بات تو اس میں ہمیں اسلامی پردہ کے آداب کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہءے،اور غیر محرم کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھ کر ہی بات کرنی چاہءے،اگر آپ اپنے بھاءی یا بیٹے کے لءے کوءی رشتہ دیکھنے جارہے ہیں اور وہ لڑکی آپ کی محرم رشتہ دار نہیں ہے تو اس پر آپ سے پردہ کرنا ضروری ہے۔
 

ضدی

رکن
شمولیت
اگست 23، 2013
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
275
پوائنٹ
76
یہ وجوہات ہیں جس وجہ سے معاشرے میں محبت کی شادی کا رجحان فروغ پا رہا ہے کہ لڑکی کو دیکھنے آنے والے والدین جب اس کو ناپسند کرکےچلے جاتے ہیں تو انسانی فطرت رسم ورواج سے بغاوت پر اتر آتے ہیں اور پھر نوبت گھر سے بھاگ کر شادی کرنے تک پہنچ جاتی ہے ویسے اگر محبت کی شادی کوئی لڑکی کرنا چاہے تو شریعت اس بارے میں کیا حکم جاری کرتی ہے کیا یہ شرعا جائز ہے یا اگر کوئی لڑکا اپنی پسند سے کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہو
 

قاری مصطفی راسخ

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 07، 2012
پیغامات
679
ری ایکشن اسکور
743
پوائنٹ
301
یہ وجوہات ہیں جس وجہ سے معاشرے میں محبت کی شادی کا رجحان فروغ پا رہا ہے کہ لڑکی کو دیکھنے آنے والے والدین جب اس کو ناپسند کرکےچلے جاتے ہیں تو انسانی فطرت رسم ورواج سے بغاوت پر اتر آتے ہیں اور پھر نوبت گھر سے بھاگ کر شادی کرنے تک پہنچ جاتی ہے ویسے اگر محبت کی شادی کوئی لڑکی کرنا چاہے تو شریعت اس بارے میں کیا حکم جاری کرتی ہے کیا یہ شرعا جائز ہے یا اگر کوئی لڑکا اپنی پسند سے کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہو
بچوں کے بغاوت پر اترنے کا بنیادی سبب والدین کیجانب سے درست تربیت نہ کرنا ہے،جب ہم اپنے بچوں کو اللہ کا فرمانبردار نہیں بناتے تو پھر وہ ہمارے کیسے فرمانبردار بن سکتے ہیں۔
محبت کی شادی شرعی طور حرام ہے۔اور عموما ناکام ہوتی ہے۔
شیخ صالح المنجد ایسے ہی ایک سوال کا جواب دیتے ہوءے فرماتے ہیں۔
محبت کی شادی مختلف ہے ، اگرتوطرفین کی محبت میں اللہ تعالی کی شرعی حدود نہیں توڑی گئيں اورمحبت کرنے والوں نے کسی معصیت کا ارتکاب نہیں کیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ ایسی محبت سے انجام پانے والی شادی زيادہ کامیاب ہوگي ، کیونکہ یہ دونوں کی ایک دوسرے میں رغبت کی وجہ سے انجام پائي ہے ۔جب کسی مرد کا دل کسی لڑکی سے معلق ہو جس کا اس کا نکاح کرنا جائز ہے یا کسی لڑکی نےکسی لڑکے کو پسند کرلیا ہو تو اس کا حل شادی کے علاوہ کچھ نہيں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے ) ۔
سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1847 ) بوصیری رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح کہا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے بھی السلسلۃ الصحیحۃ ( 624 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
سنن ابن ماجہ کے حاشیہ میں سندھی رحمہ اللہ تعالی کا کہتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان :
( دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے )
یہاں پر لفظ " متحابین " تثنیہ اورجمع دونوں کا احتمال رکھتا ہے ، اورمنعی یہ ہوگا : اگرمحبت دو کے مابین ہو تو نکاح جیسے تعلق کے علاوہ ان کے مابین کوئي اورتعلق اوردائمی قرب نہیں ہوسکتا ، اس لیے اگر اس محبت کے ساتھ ان کے مابین نکاح ہو تو یہ محبت ہر دن قوی اور زيادہ ہوگی ۔ انتھی ۔
اوراگرمحبت کی شادی ایسی محبت کے نتیجہ میں انجام پائي ہو جو غیرشرعی تعلقات کی بناپرہو مثلا اس میں لڑکا اورلڑکی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کریں ایک دوسرے سے خلوت کرتے رہیں اوربوس وکنار کریں اوراس طرح کے دوسرے حرام کام کے مرتکب ہوں ، تویہ اس کا انجام برا ہی ہوگا اوریہ شادی زيادہ دیر نہیں چل پائے گی ۔
کیونکہ ایسی محبت کرنے والوں نے شرعی مخالفات کا ارتکاب کرتےہوئے اپنی زندگی کی بنیاد ہی اس مخالفت پررکھی ہے جس کا ان کی ازدواجی زندگي پر اثر ہوگا اوراللہ تعالی کی طرف سے برکت اورتوفیق نہیں ہوگی ، کیونکہ معاصی کی وجہ سے برکت جاتی رہتی ہے ۔
اگرچہ شیطان نے بہت سے لوگوں کو یہ سبز باغ دکھا رکھے ہیں کہ اس طرح کی محبت جس میں شرعی مخالفات پائي جائيں کرنے سے شادی زيادہ کامیاب اور دیرپا ثابت ہوتی ہے ۔
پھر یہ بھی ہے کہ دونوں کے مابین شادی سے قبل جو حرام تعلقات قائم تھے وہ ایک دوسرے کو شک اورشبہ میں ڈالیں گے ، توخاوند یہ سوچے گا کہ ہوسکتا ہے جس طرح اس نے میرے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے کسی اورسے بھی تعلقات رکتھی ہو کیونکہ ایسا اس کے ساتھ ہوچکا ہے ۔
اوراسی طرح بیوی بھی یہ سوچے اورشک کرے گی کہ جس طرح میرے ساتھ اس کے تعلقات تھے کسی اورکسی لڑکی کے ساتھ بھی ہوسکتے ہیں اورایسا اس کے ساتھ ہوچکا ہے ۔
تو اس طرح خاوند اوربیوی دونوں ہی شک وشبہ اورسوء ظن میں زندگی بسر کریں گے جس کی بنا پر جلد یا دیر سے ان کے ازدواجی تعلقتا کشیدہ ہو کر رہیں گے ۔
اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ خاوند اپنی بیوی پریہ عیب لگائےاوراسے عار دلائے اوراس پر طعن کرے کہ شادی سے قبل اس نے میرے ساتھ تعلقات قائم کیے اوراس پر راضي رہی جواس پر طعن وتشنیع اورعارکاباعث ہو گا اوراس وجہ سے ان کے مابین حسن معاشرت کی بجائے سوء معاشرت پیدا ہوگی ۔
اس لیے ہمارے خیال میں جوبھی شادی غیر شرعی تعلقات کی بنا پر انجام پائے گي وہ غالبا اورزيادہ دیرکامیاب نہیں رہے گی اوراس میں استقرار نہیں ہوسکتا ۔
اوروالدین کا اختیار کردہ رشتہ نہ تو سارے کا سارا بہتر ہے اور نہ ہی مکمل طور پربرا ہے ، لیکن اگر گھروالے رشتہ اختیار کرتے ہوئے اچھے اوربہتر انداز کا مظاہرہ کریں اور عورت بھی دین اورخوبصورتی کی مالک ہو اورخاوند کی رضامندی سے یہ رشتہ طے ہو کہ وہ اس لڑکی سے رشتہ کرنا چاہے تو پھر یہ امید ہے کہ یہ شادی کامیاب اور دیرپا ہوگی ۔
اوراسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کو یہ اجازت دی اوروصیت کی ہے کہ اپنی ہونے والی منگیتر کو دیکھے :
مغیرہ بن شعبہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے منگنی کی تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
( اسے دیکھ لو کیونکہ ایسا کرنا تم دونوں کے مابین زيادہ استقرار کا با‏عث بنے گا )
سنن ترمذي حديث نمبر ( 1087 ) سنن نسائي حدیث نمبر ( 3235 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن کہا ہے ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں کہ ( ایسا کرنا تمہارے درمیان زيادہ استقرار کا با‏عث ہوگا ) کا معنی یہ ہے کہ اس سے تمہارے درمیان محبت میں استقرار پیدا ہوگا اورزيادہ ہوگي ۔
اوراگر گھروالوں نے رشتہ اختیار کرتے وقت غلطی کی اورصحیح رشتہ اختیار نہ کیا یا پھر رشتہ اختیار کرنے میں تو اچھا کام کیا لیکن خاوند اس پر رضامند نہیں تو یہ شادی بھی غالب طور پر ناکام رہے گی اوراس میں استقرار نہیں ہوگا ، کیونکہ جس کی بنیاد ہی مرغوب نہیں یعنی وہ شروع سے ہی اس میں رغبت نہیں رکھتا تو وہ چيز غالبا دیرپا ثابت نہیں گی ۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,297
پوائنٹ
326
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہمارے معاشرے میں تو ‘‘ٹی پارٹی ‘‘ہوتی ہے۔ ۔ ۔ ‘ملازمہ‘ پر نظر پڑنا ایک ثانوی بات ہے۔
بھائی کا رشتہ تلاش کرتے ہوئے صرف چار گھروں میں گئے تھے۔شائد پہلے تین کی نوبت بھی نہ آتی اگر والد محترم بھائی کو ‘‘بابا جی‘‘ نہ سمجھتے:)
جب والد محترم کو بھائی کی حقیقی عمر پتا چلی تو خود ہی مسئلہ حل ہو گیا۔امی نے انکار کر دیا تھا کہ اس گھر کے بعد میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ ۔ مجھے ‘‘لڑکی دیکھنے‘‘ کا کھیل پسند نہیں ہے۔یا تو والد خود رشتہ طے کریں گے یا پھر چاہے لڑکیاں اوور ایج ہیں۔ ۔ پہلے گھرانوں میں ہی بات چلے گی):
نیت صاف ہو تو اللہ سبحانہ وتعالٰٰی خود ہی آسانی فرما دیتے ہیں ۔۔ ۔نہیں تو ساری زندگی موٹے اور چھوٹے ہونٹ دیکھتے ہی گزر جاتی ہے!!!!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
اگرچہ یہ بھی رشتہ دیکھنے کے متعلق ہی ہے کہ رشتہ دیکھنے میں دینداری کو سامنے رکھا جاءے،باقی رہی آپکی طریقہ کار کی بات تو اس میں ہمیں اسلامی پردہ کے آداب کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہءے،اور غیر محرم کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو سامنے رکھ کر ہی بات کرنی چاہءے،اگر آپ اپنے بھاءی یا بیٹے کے لءے کوءی رشتہ دیکھنے جارہے ہیں اور وہ لڑکی آپ کی محرم رشتہ دار نہیں ہے تو اس پر آپ سے پردہ کرنا ضروری ہے۔
بجا ارشاد فرمایا
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
یہ وجوہات ہیں جس وجہ سے معاشرے میں محبت کی شادی کا رجحان فروغ پا رہا ہے کہ لڑکی کو دیکھنے آنے والے والدین جب اس کو ناپسند کرکےچلے جاتے ہیں تو انسانی فطرت رسم ورواج سے بغاوت پر اتر آتے ہیں اور پھر نوبت گھر سے بھاگ کر شادی کرنے تک پہنچ جاتی ہے ویسے اگر محبت کی شادی کوئی لڑکی کرنا چاہے تو شریعت اس بارے میں کیا حکم جاری کرتی ہے کیا یہ شرعا جائز ہے یا اگر کوئی لڑکا اپنی پسند سے کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہو
محبت کی شادی کاایک وسیع مفہوم ہے۔ محبت کی شادی اسلام میں جائز بھی ہے اور ناجائز بھی۔ اگر محبت کی شادی کے پراسس میں اسلامی تعلیمات کا ہر ممکن طریقہ سے خیال رکھا جاتا ہے تو یہ جائز ہے۔ اور اگر اسلامی تعلیمات کو کھلم کھلا توڑا جارہا ہو تو یہ ناجائز ہے۔
  1. ”مروجہ محبت کی شادی“ بلا شک و شبہ اسلام میں ناجائز ہے۔ اس قسم کی شادی سے قبل نامحرم لڑکے اور لڑکیاں اپنے والدین کو ”بائی پاس“ کرکے ایک دوسرے سے راہ و رسم پیدا کرتے ہیں۔ محبت کی پینگیں بڑھاتے ہیں۔ ڈیٹنگ کرتے ہیں۔ بذریعہ فون، انٹر نیٹ اور ملاقات کے ذریعہ ایک دوسرے سے محبت کرتے کرتے عشق کی حدود میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اپنے اپنے والدین سے کہتے ہیں کہ ہماری شادی کرادو ورنہ ۔ ۔ ۔ والدین کے نہ ماننے پر ازخود چھپ چھپا کر شادی کرلیتے ہیں۔ یا والدین کو بتلائے بغیر لڑکی کو اس کے گھر سے بھگا کر کورٹ میرج یا خفیہ میرج کرلی جاتی ہے۔ ”محبت کی شادی“ کے یہ سارے طریقے ناجائز اور حرام ہیں۔ بلکہ بہت سے فقہا کے نزدیک تو ولی کی شرکت و رضامندی کے بغیر لڑکی کا نکاح ہی نہیں ہوتا۔
  2. گو اسلام ایل بی ڈبلیو LBW یعنی لَو بی فور ویڈنگ Love Before Wedding کا قائل نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک فطری جذبہ ”محبت“ کا منکر بھی نہیں ہے، بشرطیکہ یہ شتر بے مہار کی طرح شرعی حدود و قیود کو نہ پھلانگے۔ مثلاً اگر کسی کو کوئی لڑکی پسند آجاتی ہےاور وہ اس کے لئے اپنے دل میں ”محبت“ کو موجزن پاتا ہے یا اس کے برعکس کسی لڑکی کو کوئی پسند آجاتا ہے اور وہ اس سے شادی کرنے کی خواہشمند ہوجاتی ہے ۔ ۔ ۔ ”محبت ہوجانے“ کا ایسا واقعہ شرعی پردہ کے حامل گھرانوں اور معاشروں میں تو شاذ ہی ہوتا ہے، لیکن ہوتا ضرور ہے کہ معاملات دنیوی کے دوران ہم پردہ میں رہنے کے باوجود ”ایک دوسرے“ سے باخبر ہوسکتے ہیں۔ اور کسی کا کوئی اچھا فعل، اس کی اچھی شہرت یا کامیابی ہمیں اس کا گرویدہ بھی بناسکتی ہے اور اس کی محبت میں ”گرفتار“ بھی کرسکتی ہے۔ جبکہ غیر اسلامی معاشرے میں تو اس کے بہت سے ”مواقع“ ملتے ہیں۔ ۔ ۔ لہذا جب کسی کو یہ یقین ہوجائے کہ اسے فلاں سے ”محبت“ ہوگئی ہے تو اسے چاہئے کہ یا تو پہلے کسی ”تیسرے“ کی معرفت اس تک اپنے جذبات پہنچاتے ہوئے اس کا عندیہ لے کہ کیا اس کے گھر رشتہ بھیجا جاسکتا ہے یانہیں۔ ”سخت انکار“ پر یہ راستہ ہی ترک کردیا جائے اور اقرار یا نیم رضامندی کی صورت میں اپنے گھر والوں کو رشتہ بھیج کر ”محبت“ کو شادی میں بدلنے کا پراسس شروع کردیا جائے۔ یہ بھی ایکطرح سے محبت کی شادی ہی ہے کہ محبت پہلے ہوئی، پھر شاد کرلی، درمیان میں کوئی غیر شرعی لَو افیئر چلائے بغیر۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
شوہر کہیں جسے ۔ ۔ ۔​
شوہر نما مَردوں کے بارے میں عجیب عجیب باتیں مشہور ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ مرد سارے ایک جیسے (خراب) ہوتے ہیں۔ مرد کو درد نہیں ہوتا۔ مرد روتے ہوئے اچھے نہیں لگتے، لہٰذا روتے ہوئے مرد بہت کم ”نظر“ آتے ہیں۔ ماہرین نفسیات (جو بالعموم مرد ہی ہوتے ہیں) کا کہنا ہے کہ چونکہ مرد عموماً اپنے درد کا اظہار نہیں کرتے، روتے اور (اظہار غم کے لئے) چیختے چلاتے نہیں ہیں، لہٰذا اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں۔ نتیجتاً عورتوں (بیویوں) کے مقابل میں مرد زیادہ تعداد میں پاگل ہوتے ہیں اور زیادہ تعداد میں خود کشیاں کرتے ہیں۔ ”مردوں کے مسائل“ پر کبھی کوئی سنجدہ مذاکرہ نہیں ہوتا۔ اخبارات و جرائد میں مردوں کے لئے صفحات مختص نہیں ہوتے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر ان کے لئے خصوصی پروگرام آن ایئر نہیں ہوتے۔ یوں سماج میں مردوں کے مسائل کی نہ تو نشاندہی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے ”حل“ کی طرف انفرادی یا اجتماعی کوششیں کی جاتی ہیں۔ کیونکہ ”سمجھا“ یہ جاتا ہے کہ مرد تو عورتوں (بیویوں) کے لئے مسائل پیدا کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان کا ”کام“ صرف اور صرف بیویوں کی دلداری اور ان کی جا و بے جا ضرورتیں پوری کرنا ہے۔

اصل میں ہوتا یہ ہے کہ شادی کے فوراً بعد آنے والی نئی نویلی دلہن (دلہا کبھی ”نیا نویلا“ نہیں کہلاتا) سب کی نظروں میں ”مرکز نگاہ“ بن جاتی ہے۔ دلہا تو اس گھر میں ویسے ہی ”پرانا“ ہوچکا ہوتا ہے، لہٰذا اس کی طرف کسی کی نگاہ جاتی ہی نہیں۔ اور جب کبھی دُلہا میاں کو ”دیکھا“ بھی جاتا ہے تو اس نظر سے کہ تم نے نئی نویلی دلہن کے لئے اب ”یہ اور وہ“ کرنا ہے۔ یا ابھی تک تم نے یہ اور وہ نہیں کیا، کیسے شوہر ہو وغیرہ وغیرہ۔ مرد پر پہلے ہی والدین اور بہن بھائیوں کی ذمہ داریوں کا ”بوجھ“ ہوتا ہے۔ نئی نویلی دلہن کے آنے سے اس کے ”بوجھ“ میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہی ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس کی شخصیت دو واضح حصوں میں ”تقسیم“ ہوجاتی ہے۔ اگر وہ پہلے کی طرح والدین اور بہن بھائیوں کا ”خیال“ رکھے تو بیوی اور بیوی کے میکہ والے اسے ”طعنہ“ دیتے ہیں کہ منے میاں تو ابھی تک ماں باپ کی گود میں کھیل رہے ہیں۔ انہیں بیوی کا ذرا بھی خیال نہیں ۔ اور اگر وہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ”خیال“ میں کچھ کمی کرکے یہ ”حصہ“ بیوی کو ادا کرنے کی کوشش کرے تو فوراً اسے ”زن مرید“ ہونے کا طعنہ مل جاتا ہے کہ موصوف اب تو بیوی کے ہوکر رہ گئے ہیں۔ گویا شادی کے بعد مرد کی حالت ۔۔۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ اِدھر کے رہے، نہ اُدھر کے رہے ع

اُدھر نئی نویلی دُلہن کا بھی کوئی ”قصور“ نہیں ہوتا کہ اُسے دنیا جہان کی تعلیم تو ملی ہوتی ہے لیکن وہ عموماً ازدواجیات کے مضمون میں صفر ہوتی ہے۔ وہ یہ سمجھتی ہےکہ جب میں اپنے ماں باپ بہن بھائی کو چھوڑ کر ”ساری کی ساری“ اس مَرد کی ہوگئی ہوں۔ جب میں دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں اپنی سو فیصد توجہ اسے دینے لگی ہوں تو آخر یہ ایسا کیوں نہیں کرتا۔ ایک تو صبح کا کام پہ گیا شام کو گھر آتا ہے۔ میں سارا دن اس کی راہ تکتی ہوں اور یہ دن بھر مجھے نہ تو یاد کرتا ہے، نہ فون کرتا ہے اور نہ درمیان میں دیکھنے کو آتا ہے۔ اور جب شام کو گھر آتا ہے تو حسب سابق ماں باپ اور بہن بھائیوں کے خیال میں وقت ”ضائع“ کرتا ہے اور رات گئے کمرے میں آتا ہے تو میری دن بھر کی روئیداد سنے بغیر، میرا احوال جانے بغیر کھا پی کر سو جاتا ہے۔ بھلا شوہر ایسے ہوتے ہیں۔ فلموں، ناولوں اور ڈراموں میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں تو ہیرو شادی سے پہلے بھی اور شادی کے بعد بھی ہیروئین کے ارد گرد ہی پھیرے لگاتا رہتا ہے۔ فرمائش تو یہ تھی کہ



اور لکھنے بھی یہی آیا تھا، لیکن آخر کو مَرد ہوں نا! مردوں کی ”ذمہ داریاں“ لکھتے لکھتے مردوں کے ”غم“ لکھ بیٹھا۔ دروغ بر گردن راوی، زمانہ قدیم میں بیویوں کو ”بے غم“ کہا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ مردوں کی زندگی میں آتے ہی مردوں کے غم بانٹ کر اسے غموں سے نجات دلا دیا کرتی تھیں۔ جب سے بیویوں نے یہ ”فریضہ“ ادا کرنا چھوڑ دیا ہے، شوہرون نے بھی اسے ”بے غم“ کہنا چھوڑ کر ”بیگم“ کہنا شروع کردیا ہے۔
شوہروں کی ”ذمہ داریوں“ کے بارے میں اگرچہ میں پہلے بھی، اس فورم میں بھی لکھتا رہا ہوں، تاہم مکرر عرض کئے دیتا ہوں۔ شوہر کی یہ تمام ذمہ داریاں قرآن و حدیث کی خالص تعلیمات پر مبنی ہیں ۔
السلام علیکم ،
تھریڈ میں تاخیر سے آنے کے لیے معذرت۔
بھائی میرا مقصد صرف اتنا تھا کہ تمام تر وجوہات ،ذمہ داریاں، بیوی پر ڈالنے کے بجائے اس معاملے کو دونوں اطراف سے بیان کیا جائے۔ تاکہ کم از کم ہمارے معاشرے کے مرد حضرات کو لاپرواہی،حقوق اور ذمہ داریوں سے فرار کی جراءت کا سبق تو نہ ملے۔کیونکہ ایسی تحریر انہیں مزید دلیر کرتی ہیں۔
 
Top