محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
فری میسن ایک بین الاقوامی یہودی تنظیم ہے۔ ہر ملک میںا س کے مراکز ہیں۔ جو لاج کہلاتے ہیں۔ اس کی رکنیت کے کئی مدارج ہیں جو ڈگری کہلاتے ہیں۔ ہر ڈگری کی رکنیت کے لئے کچھ شرائط ہیں اور ہر ڈگری کا رکن صرف اپنے برابر کی ڈگری والوں سے ربط ضبط رکھ سکتا ہے۔ اس درجہ بندی پر اس قدر سختی سے عمل کیا جاتا ہے کہ ایک ڈگری کا رکن دوسری ڈگری کے رکن کے رکن کے مقاصد اور خفیہ منصوبوں سے کسی طرح آگاہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اونچے درجے کے اراکین کے مقاصد دوسرے اراکین سے، خواہ ان کی پوری زندگی فری میسن تنظیم کے رکن کی حیثیت میں گزری ہو انتہائی خفیہ اور رازداری میں رکھے جاتے ہیں۔
اس تنظیم کا طریقہ کار اتنا خفیہ ہے کہ اس کے بارے میں معلوم کر لینا تقریباً ناممکن ہے۔ لاجوں کی روئدادیں غیر معمولی طور پر خفیہ اور انتہائی رازداری میں رکھی جاتی ہیں اور ان کے ارکین کے علاوہ کسی اور کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔
بہت چھان بین کرنے کے بعد مختلف ذرائع سے جو معلومات حاصل کر کے یکجا کی جا سکی ہیں ان کے مطابق لاج کے اراکین ایک دوسرے سے خفیہ کوڈمیں بات چیت کرتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو اپنے خفیہ اشاروں اور الفاظ کے ذریعہ پہچانتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اپنی برادری کے اراکین کے دروازوں پر دقل باب کرنے کا بھی ان کاایک مخصوص انداز ہے اور یہ دنیا کے کسی حصے میں بھی چلے جائیں ایک دوسرے کو بہ آسانی شناخت کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی فری میسن بیرون ملک سفر کرے تو اسے اپنے آدمی پہچاننے کے لئے کسی تعارف کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سوشل اجتماعات جلسوں یا تقریبات میں، مختلف ملکوں میں بھی یہ لوگ ایک دوسرے کو بغیر کسی دشواری اور بغیر کوئی لفظ منہ سے نکالے صرف اپنے ہاتھ یا جسم کے خفیہ اشاروں کی زبان سے پہچان جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا ایک عام اشارہ مثلث کا نشان ہے جسے آنکھ کہا جاتا ہے۔ اگر کسی اجنبی ماحول میں، کوئی فری میسن یہ معلوم کرنا چاہے کہ وہاں اس کی برادری کے اور کتنے افراد وہاں موج ہیں تو وہ صرف اپنے کوٹ یا واسکٹ کے بٹنوں کے درمیان رکھ کر ایک طرف اپنی انگلیوں سے مثلث بنائے اور دوسری طرف اپنے کوٹ کے دامن پر ایسا ہی مثلث بنائے تو برادری کے تمام اراکین جو اس جگہ موجود ہوں گے اسے فورًا شناخت کر لیں گے اور انہیں کوئی لفظ منہ سے نکالنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
فری میسن عام طور پر ملک کے افسران کو اپنا رکن بناتے ہیں یا غیر ملکی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان او رعہدیداروں کو۔ رکن بننے ک یلئے کسی خاص رنگ، مذہب، نسل یا قومیت کی قید نہیں ہے بلکہ اس ملک کے شہریوں کو رکن بنانے کی ہمت افزائی کی جاتی ہے اور اس کے بعد منصوبے کے مطابق انہیں اپنے ڈھب پر لایا جاتا ہے۔
ان لوگوں کو اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ انہیں یہ پتا بھی نہیں چلتا کہ انہیں کس مقصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ برادری کے اراکین کی درمیان زبردست جذبہ محبت اور ہمدردی پیدا کر دیاجاتا ہے۔ محض لاج کی رکنیت کسی سرکاری افسر کے لئے اس کا حقدار بنادیتی ہے کہ اسے دوسرے افسران کی مقابلے میں جلدی ترقی ملے۔
یہ عین ممکن ہے کہ لاج کے اراکین میں صرف ایک آدھ یہودی ہو یا ممکن ہے کہ اس میں ایک بھی یہودی نہ ہو لیکن اس کی تنظیم اس طرز پر کی گئی ہے کہ یہ بالآخر عالمی صیہونیت کے مقاصد کی خدمت کرتی ہیـ
یہ تنظیم سب سے پہلے ۱۷۱۷ء میں انگلستان میں قائم کی گئی تھی۔ بعد میں اس تنظیم کی چار انجمنوں (لاجوں) کا ایک گرینڈ لاج میں اتضمام کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی خفیہ اشاروں کا نیا نظام شروع کیا گیا۔ لندن کی گرینڈ لاج برطانیہ کی دوسری شاخوں کی سربراہ مقرر کی گئی۔
آئندہ صفحات میں صیہونیت کے دانا بزرگوں کی دستاویزات کے مطالعہ سے معلوم ہو گا کہ جہاں تک فری میسن کے ایک کام کی نوعیت کا تعلق ہے اس تنظیم کی قیادت صرف اور صرف یہودی ہاتھوں میں ہے۔
یہ دستاویزات بہت سے حقائق پر سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس خطرناک تنظیم کی جڑیں سرطان کی طرح ملکوں کی انتظامیہ میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ جس کا اندازہ لگایا ہی نہیں جا سکتا۔
عام طور پر لوگ اسے ایک عام سا کلب سمجھ کر اس کے رکن بن جاتے ہیں ۔ شروع شروع میں اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے اس کا شبہ بھی نہیں ہوتا کہ انہیں کن مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا ان کی نیک نیتی ی وفاداری پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر حبیب الرحمن (الٰہی) علوی اپنی کتاب ’’جادو کی حقیقت‘‘ میں فری میسن تنظیم پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کے تابع کچھ شیاطین بھی کئے تھے۔ یہودیوں نے تورات میں جہاں بیشمار معنوی اور لفظی تحریفیں کی ہیں وہاں ان بدبختوں نے حضرت سلیمان کو جادوگر لکھ کر شیطان کو تابع بنانے کا جواز بھی پیدا کر لیا ہے اور اس عقیدے کی بنا پر دنیا بھر میں فری میسن کا جال پھیلا رکھا ہے۔ فری میسن لاج کو اسی بنا پر ’’جادوگر‘‘ بھی کہتے ہیں۔
یہودیوں کی اس تنظیم کا اصل مقصد مختلف ممالک میں سازش اور جاسوسی کرانا ہے۔ اور مشہور یہ کیا جاتا ہے کہ یہ سماجی اور تفریحی کلب ہیں اور اس کے ممبر آپس میں ایک دوسرے کی بے انتہاء مدد اور خیال کرتے ہیں۔ اور یہ بات کسی کے اس تنظیم کا ممبر بننے کے لئے اپنے اندر بہت بڑی کشش رکھتی ہے۔ خصوصًا جب کہ بادشاہ، نواب، راجے مہاراجے، اعلیٰ فوجی اور شہری حکام کے پائے کے لوگ بھی اس کے رکن ہوں۔ معاشرے کے یہی لوگ اپنے اپنے ملکوں کے اہم رازوں سے واقف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ کے جارج پنجم (SUPREEM & GRAND WORSHIPFUL MASTER) تھے۔ افغانستان کے امیر حبیب اللہ خاں GRAND WORSHIPFUL MASTER)) تھے۔ مہاراجہ پٹیالہ اور نواب رام پور سر رضا علی خاں وغیرہ بھی اپنے اپنے لاجوں کے گرینڈ ورشپ فل ماسٹر رہے۔ لاج کی ممبروں کو شراب کے استعمال کی طرف خاص طور سے مائل کیا جاتا ہے۔ کیونکہ نشہ کی حالت میں بے تکلفی پیدا کر کے ہی راز اگلوائے جا سکتے ہیں۔
اس تنظیم کے عہدے دار اور ا علیٰ درجے کے ارکان کو (WORSHIPFUL MASTER) پرستش کے قابل آقا اور GRAND WORSHIPFUL MASTER)) عظیم پرستش کے قابل آقا وغیرہ عام اور زبان زد الفاظ کی وجہ سے نئے رکن کو جادو سیکھتے وقت شیطان کی پوجا کرنے میں کراہیت محسوس نہیں ہوتی۔ مختلف (TESTS) آزمائشوں سے گزرنے کے بعد جب کسی شخص کو لاج کا مستقل ممبر بناتے ہیں تو کسی شیطان ہمزاد کو اس کا تابع کیا جاتا ہے۔ (اس طریقہ کار کا جادو سیکھنے کے باب میں بیان ہوا ہے)۔ ہمزاد کو تابع کرتے وقت صرف یہی ایک کام اس کے سپرد کیا جاتا ہے کہ وہ اس رکن کی نگرانی کرنے کے لئے ہم وقت مسلط رہے گا کہ وہ لاج کا کوئی راز
افشا نہ کرنے پائے۔ فری میسن تاحیات اس شیطان سے نجات نہیں پا سکتا چاہے وہ کتنا ہی کہے کہ اب وہ فری میسن نہیں رہا‘‘۔ (جادو کی حقیقت صفحہ ۸۹ تا ۹۱)۔
پاکستان میں فری میسنری پر قانونی پابندی لگا کر اس کی لاجیں بند کر دی گئی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کے اراکین کہاں گئے؟ وہ اب بھی بالکل اسی طرح نہ صرف تاحیات اس کے رکن رہنے پر مجبور ہیں بلکہ نئی رکن سازی کا عمل بھی اسی طرح جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ فرمیسن لاجیں بند کر دی گئی ہیں اور اب یہ کام زیر زمین ہو رہاہی۔ دستاویزات میں ان کے طریقہ کار پر بھی تھوڑی سی روشنی ڈالی گئی ہے۔
اس تنظیم کا طریقہ کار اتنا خفیہ ہے کہ اس کے بارے میں معلوم کر لینا تقریباً ناممکن ہے۔ لاجوں کی روئدادیں غیر معمولی طور پر خفیہ اور انتہائی رازداری میں رکھی جاتی ہیں اور ان کے ارکین کے علاوہ کسی اور کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی جاتی۔
بہت چھان بین کرنے کے بعد مختلف ذرائع سے جو معلومات حاصل کر کے یکجا کی جا سکی ہیں ان کے مطابق لاج کے اراکین ایک دوسرے سے خفیہ کوڈمیں بات چیت کرتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو اپنے خفیہ اشاروں اور الفاظ کے ذریعہ پہچانتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اپنی برادری کے اراکین کے دروازوں پر دقل باب کرنے کا بھی ان کاایک مخصوص انداز ہے اور یہ دنیا کے کسی حصے میں بھی چلے جائیں ایک دوسرے کو بہ آسانی شناخت کر لیتے ہیں۔ اگر کوئی فری میسن بیرون ملک سفر کرے تو اسے اپنے آدمی پہچاننے کے لئے کسی تعارف کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سوشل اجتماعات جلسوں یا تقریبات میں، مختلف ملکوں میں بھی یہ لوگ ایک دوسرے کو بغیر کسی دشواری اور بغیر کوئی لفظ منہ سے نکالے صرف اپنے ہاتھ یا جسم کے خفیہ اشاروں کی زبان سے پہچان جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا ایک عام اشارہ مثلث کا نشان ہے جسے آنکھ کہا جاتا ہے۔ اگر کسی اجنبی ماحول میں، کوئی فری میسن یہ معلوم کرنا چاہے کہ وہاں اس کی برادری کے اور کتنے افراد وہاں موج ہیں تو وہ صرف اپنے کوٹ یا واسکٹ کے بٹنوں کے درمیان رکھ کر ایک طرف اپنی انگلیوں سے مثلث بنائے اور دوسری طرف اپنے کوٹ کے دامن پر ایسا ہی مثلث بنائے تو برادری کے تمام اراکین جو اس جگہ موجود ہوں گے اسے فورًا شناخت کر لیں گے اور انہیں کوئی لفظ منہ سے نکالنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
فری میسن عام طور پر ملک کے افسران کو اپنا رکن بناتے ہیں یا غیر ملکی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالکان او رعہدیداروں کو۔ رکن بننے ک یلئے کسی خاص رنگ، مذہب، نسل یا قومیت کی قید نہیں ہے بلکہ اس ملک کے شہریوں کو رکن بنانے کی ہمت افزائی کی جاتی ہے اور اس کے بعد منصوبے کے مطابق انہیں اپنے ڈھب پر لایا جاتا ہے۔
ان لوگوں کو اس طرح استعمال کیا جاتا ہے کہ انہیں یہ پتا بھی نہیں چلتا کہ انہیں کس مقصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ برادری کے اراکین کی درمیان زبردست جذبہ محبت اور ہمدردی پیدا کر دیاجاتا ہے۔ محض لاج کی رکنیت کسی سرکاری افسر کے لئے اس کا حقدار بنادیتی ہے کہ اسے دوسرے افسران کی مقابلے میں جلدی ترقی ملے۔
یہ عین ممکن ہے کہ لاج کے اراکین میں صرف ایک آدھ یہودی ہو یا ممکن ہے کہ اس میں ایک بھی یہودی نہ ہو لیکن اس کی تنظیم اس طرز پر کی گئی ہے کہ یہ بالآخر عالمی صیہونیت کے مقاصد کی خدمت کرتی ہیـ
یہ تنظیم سب سے پہلے ۱۷۱۷ء میں انگلستان میں قائم کی گئی تھی۔ بعد میں اس تنظیم کی چار انجمنوں (لاجوں) کا ایک گرینڈ لاج میں اتضمام کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی خفیہ اشاروں کا نیا نظام شروع کیا گیا۔ لندن کی گرینڈ لاج برطانیہ کی دوسری شاخوں کی سربراہ مقرر کی گئی۔
آئندہ صفحات میں صیہونیت کے دانا بزرگوں کی دستاویزات کے مطالعہ سے معلوم ہو گا کہ جہاں تک فری میسن کے ایک کام کی نوعیت کا تعلق ہے اس تنظیم کی قیادت صرف اور صرف یہودی ہاتھوں میں ہے۔
یہ دستاویزات بہت سے حقائق پر سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس خطرناک تنظیم کی جڑیں سرطان کی طرح ملکوں کی انتظامیہ میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ جس کا اندازہ لگایا ہی نہیں جا سکتا۔
عام طور پر لوگ اسے ایک عام سا کلب سمجھ کر اس کے رکن بن جاتے ہیں ۔ شروع شروع میں اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے اس کا شبہ بھی نہیں ہوتا کہ انہیں کن مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا ان کی نیک نیتی ی وفاداری پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر حبیب الرحمن (الٰہی) علوی اپنی کتاب ’’جادو کی حقیقت‘‘ میں فری میسن تنظیم پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمانؑ کے تابع کچھ شیاطین بھی کئے تھے۔ یہودیوں نے تورات میں جہاں بیشمار معنوی اور لفظی تحریفیں کی ہیں وہاں ان بدبختوں نے حضرت سلیمان کو جادوگر لکھ کر شیطان کو تابع بنانے کا جواز بھی پیدا کر لیا ہے اور اس عقیدے کی بنا پر دنیا بھر میں فری میسن کا جال پھیلا رکھا ہے۔ فری میسن لاج کو اسی بنا پر ’’جادوگر‘‘ بھی کہتے ہیں۔
یہودیوں کی اس تنظیم کا اصل مقصد مختلف ممالک میں سازش اور جاسوسی کرانا ہے۔ اور مشہور یہ کیا جاتا ہے کہ یہ سماجی اور تفریحی کلب ہیں اور اس کے ممبر آپس میں ایک دوسرے کی بے انتہاء مدد اور خیال کرتے ہیں۔ اور یہ بات کسی کے اس تنظیم کا ممبر بننے کے لئے اپنے اندر بہت بڑی کشش رکھتی ہے۔ خصوصًا جب کہ بادشاہ، نواب، راجے مہاراجے، اعلیٰ فوجی اور شہری حکام کے پائے کے لوگ بھی اس کے رکن ہوں۔ معاشرے کے یہی لوگ اپنے اپنے ملکوں کے اہم رازوں سے واقف ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر برطانیہ کے جارج پنجم (SUPREEM & GRAND WORSHIPFUL MASTER) تھے۔ افغانستان کے امیر حبیب اللہ خاں GRAND WORSHIPFUL MASTER)) تھے۔ مہاراجہ پٹیالہ اور نواب رام پور سر رضا علی خاں وغیرہ بھی اپنے اپنے لاجوں کے گرینڈ ورشپ فل ماسٹر رہے۔ لاج کی ممبروں کو شراب کے استعمال کی طرف خاص طور سے مائل کیا جاتا ہے۔ کیونکہ نشہ کی حالت میں بے تکلفی پیدا کر کے ہی راز اگلوائے جا سکتے ہیں۔
اس تنظیم کے عہدے دار اور ا علیٰ درجے کے ارکان کو (WORSHIPFUL MASTER) پرستش کے قابل آقا اور GRAND WORSHIPFUL MASTER)) عظیم پرستش کے قابل آقا وغیرہ عام اور زبان زد الفاظ کی وجہ سے نئے رکن کو جادو سیکھتے وقت شیطان کی پوجا کرنے میں کراہیت محسوس نہیں ہوتی۔ مختلف (TESTS) آزمائشوں سے گزرنے کے بعد جب کسی شخص کو لاج کا مستقل ممبر بناتے ہیں تو کسی شیطان ہمزاد کو اس کا تابع کیا جاتا ہے۔ (اس طریقہ کار کا جادو سیکھنے کے باب میں بیان ہوا ہے)۔ ہمزاد کو تابع کرتے وقت صرف یہی ایک کام اس کے سپرد کیا جاتا ہے کہ وہ اس رکن کی نگرانی کرنے کے لئے ہم وقت مسلط رہے گا کہ وہ لاج کا کوئی راز
افشا نہ کرنے پائے۔ فری میسن تاحیات اس شیطان سے نجات نہیں پا سکتا چاہے وہ کتنا ہی کہے کہ اب وہ فری میسن نہیں رہا‘‘۔ (جادو کی حقیقت صفحہ ۸۹ تا ۹۱)۔
پاکستان میں فری میسنری پر قانونی پابندی لگا کر اس کی لاجیں بند کر دی گئی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کے اراکین کہاں گئے؟ وہ اب بھی بالکل اسی طرح نہ صرف تاحیات اس کے رکن رہنے پر مجبور ہیں بلکہ نئی رکن سازی کا عمل بھی اسی طرح جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ فرمیسن لاجیں بند کر دی گئی ہیں اور اب یہ کام زیر زمین ہو رہاہی۔ دستاویزات میں ان کے طریقہ کار پر بھی تھوڑی سی روشنی ڈالی گئی ہے۔