• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

بے نمازکے متعلق سعودی علماء کے استدلال (مکمل کتاب یونیکوڈ میں)

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تارک نماز کا قیامت کے دن فرعون ، ہامان ، قارون اور ابی بن خلف کے ساتھ ہونا
عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرٍو: عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ اَنَّہُ ذَکَرَ الصَّلَاۃَ یَوْمًا فَقَالَ: '' مَنْ حَافَظَ عَلَیْھَا کَانَتْ لَہُ نُوْرًا وَبْرْہَانًا وَنَجَاۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَمَنْ لَمْ یَحَافِظُ عَلَیْھَا لَمْ یَکُنْ لَہُ بُرْھَانٌ وَلاَنُوْرٌ وَلاَنَجَۃٌ، وَکَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَعَ قَارُوْنَ وَھَامَانَ وَفِرْعَوْنَ وَاُبَیِّ بْنِ خَلَفٍ''۔
ایک دن رسول اللہ ﷺ نے نماز کے بارے میں گفتگوکی اور فرمایا: '' جس نے (پانچ) وقت نماز کی حفاظت کی، نماز قیامت کے دن اس کے لئے نور ، برہان اور (وسیلہ ) نجات ہوگی۔ اور جس کسی نے (پانچ وقت) نماز کی حفاظت نہ کی تو قیامت کے دن (نماز ) اس کے لئے نہ دلیل ، نہ ہور اور نہ ہی (باعث ) نجات ہوگی اور وہ (بے نماز ) قیامت کے دن قارون ، ہامان، فرعون، اور ابی خلف کے ساتھ (جہنم میں) ہوگا '' ۔​
یہ حدیث مسند احمد (۱۶۹) ، جارمی (۳۰۱) ، ابن حبان (۱۴۴۸) آجری کی الشریعہ (۱۳۵) ، محمد بن نصر کی کتاب الصلاۃ (۵۸) طبرانی کی المعجم الکبیر اور بیہقی کی شعب الایمان میں صحیح سند سے مروی ہے ۔​
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ''کتاب الصلاۃ '' نامی اپنی کتاب میں یہ حدیث نقل کرنے کے بعد یوں ذکر فرمایا ہے کہ تارک نماز کا خاص طور پر ان چار آدمیوں کے ساتھ ہونے کے ذکر کیے جانے کاسبب یہ ہے کہ یہ چاروں کفر کے سردار ہیں ۔ یہاں پر ایک واضح اشارہ ہے کہ تارک نما...مال، ملک اور ریاست یا تجارت کی مشکلات کی بناء پر نماز ترک کرتا ہے جو کوئی مال کے سبب نماز ترک کرے گا وہ قارون کے ساتھ ہوگا۔ (اتنا مالدار کہ اس کے خزانوں کی چابیاں اونٹوں کی ایک جماعت اٹھاتی تھی ۔ ملک (اور بادشاہی ) کی بناء پر نماز ترک کرنے والا فرعون کے ساتھ ہوگا ۔​
ریاستی (حکومت ) ذمہ داریوں کے سبب (یعنی سرکاری ڈیوٹی کے عذر بہانے ) نماز ترک کرنے والا (وزیر مملکت )ہامان کے ساتھ ہوگا ۔ تجارتی مجبوریوں کی خاطر(مشہور کافر عرب تاجر ) ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا ۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تارک نماز کا آیات قرآنیہ اور آخرت کو جھٹلانا
فَمَا لَہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ o وَاِذَاقُرِیئَ عَلَیْہِمُ الْقُرْاٰنُ لاَ یَسْجُدُوْنَ o بَلِ الَّذیْنَ کَفَرُوْا یُکَذِّبُوْنَ o وَﷲُ اَعْلَمُ بِمَایُوْعُوْنَ o فَبَشَِرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ o اِلاَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُوْالصّٰل ِحَاتِ لَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ (انشقاق 84:20,25)
'' اس حال میں انہیں کیا ہے کہ ایمان نہیں لا رہے ان پر جب قرآن (کی آیت اقیمو الصلاۃ) پڑھی جاتی ہے تو (اللہ کے حکم کو تسلیم کرنے کے باوجود ) سجدہ (نماز ) ادا نہیں کرتے۔صحیح بات یہی ہے کہ (نماز ترک کرکے ) کافر (حساب کے دن کو) جھٹلارہے ہیں ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کوخوب جانتا ہے جو وہ چھپارہے ہیں ۔ اس لئے (اے پیغمبر) آپ ﷺ انہیں دردناک عذاب کی خوش خبر ی سنا دیجئے ۔ تاہم ایمان لا کر صالح اعمال کرنے والے اس سے مستثنٰی ہیں ان کے لئے نہ ختم ہونے والا اور نہ ہی حسان جتلایا جانے والا ایک بدلہ ہے''۔
ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن سے نماز فرض ہونے کی آگاہی پر بھی ترک نماز سے کافر ہو کر قیامت (حساب و کتاب) کے دن کو مانتے ہی نہیں اگر چہ زبانی طور پر کتنا ہی ایمان کا دعویٰ کیوں نہ ہو ۔ اسی لئے تو اللہ عزوجل نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے ۔​
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاﷲِ وَبِالْیَوْمِ الاٰخِرِ وَمَاھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ (البقرۃ 2:8)
'' لوگوں میں سے ایسے کچھ بھی ہیں جو کہتے کہ ہم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان والے نہیں ہیں''۔​
سورۃ الانشقاق کی آیات میں مزید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے جو وہ چھپا رہے ہیں ۔ یعنی زبانی طور پر اللہ اور آخرت پر اقرار کے باوجود نماز ادا نہ کرنے والے مسلمان ہونے کا ثبوت مہیا نہیں کرتے ۔ اور مسلمانوں کو دھوکہ بھی نہیں دے سکتے ۔ ہاں اپنے آپ کو دھوکے میں ڈال سکتے ہیں جیسا کہ سورہ بقرہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ۔​
یَخٰدِعُوْنَ اﷲَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلاَّ اَنْفُسَہُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ (البقرۃ 2:9)
''(لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان والے نہیں ہیں ) وہ اس حالت میں گویا اللہ اور ایمان والوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ (اس حقیقت کو ) نہیں جانتے کہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں '' ۔​
وَاِذَاقِیْلَ لَہُمْ ارْکَعُوْا لاَیَرْکَعُوْنَ o وَیْلٌ یَوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ o فَبِاِیئِ حَدِیْثٍ بَعْدُہُ یَؤْمِنُوْنَ (المرسلات 77:48,50)
'' انہیں جب رکوع (یعنی نماز ادا) کرنے کا کہا جاتا ہے (تو اطاعت کرتے ہوئے ) وہ رکوع (نماز ادا ) نہیں کرتے (نماز ادا نہ کر کے قرآن کی آیات کو ) جھٹلانے والوں کے لئے اس (قیامت کے ) دن ویل (جہنم اور ہلاکت ) ہے آخر (یہ احکام ماننے کے لئے ) قرآن کی آیات کے بعد کس چیز پر وہ ایمان لائیں گے ''۔​
فَلاَ صَدَّقَ وَلاَ صَلّٰی o وَلٰکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی (القیامۃ 75:31,32)
'' نہ تصدیق کی نہ ہی نماز ادا کی بلکہ (قرآن کی آیات کو) جھٹلایا اور (عمل کرنے سے ) منہ پھیرا ''۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تارک نماز کا آخر ت میں شفاعت سے محروم ہونا
فِیْ جَنّٰتٍ یَّتَسَائَ لُوْنَ o عَنِ الْمُجْرِمِیْنَ o مَا سَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ o قَالُوْالَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِیْنَ o وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ o وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَائِضِیْنَ o وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنَ o حَتّٰی اَتٰنَا الْیَقِیْنُ o فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَ (المدثر 74:40,48)
'' جن خوش نصیبوں کو اعمال دائیں ہاتھ میں ملے گا وہ جنتوں میں ہوں گئے اور وہاں سے مجرموں سے پوچھیں گے تمہیں اس ''سقر'' (نامی جہنم ) میں کس چیز نے پہنچایا ہے ؟ وہ (لوگ جواباً ) پکاریں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے ، مفلس و کنگال لوگوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور فضول گو لوگوں کے ساتھ ہم بھی فضول گوئی میں مشغول رہتے تھے ۔ اور ہم حساب کتاب (قیامت ) کے دن کو جھوٹ گردانتے تھے ۔ بالآخر (انہی احوال میں ) ہم پر موت غالب آگئی ۔ پس (اس وقت ) شفاعت کاروں کی شفاعت انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گی ''۔
آیت کریمہ میں مذکور مجرموں کا آخرت میں شفاعت کاروں کی شفاعت سے محروم رہنا درج ذیل چار چیزوں کے سبب سے ہے ۔​
1۔ نماز پڑھنے والوں میں سے نہ ہونے کی وجہ سے​
2۔ محتاجوں کو کھانا نہ کھلانے کی وجہ سے ۔​
3۔ کافروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے ۔​
4۔ قیامت کے دن کو جھٹلانے کی وجہ سے​
ان چار صفات کے حامل مجرم آخرت میں اپنے لئے ہرگز کوئی سفارشی نہیں پائیں گے ۔ مذکورہ بالا ان چار صفات میں سب سے زیادہ خطرناک نماز کا ترک کرنا اور آخرت کے دن کو جھٹلانا ہے ، ان دونوں صفات میں سے ہر ایک کا مستقل حامل ہونا اسلام سے خارج کرنے والے خصائل ہیں کسی آدمی میں ان دونوں صفات میں سے کسی ایک کا پایا جانا اس کے اسلام سے خارج اور آخرت میں شفاعت کاروں کی شفاعت سے محروم ہونے کے لئے کافی ہے ۔ نیز ان دونوں صفات کا ایک ساتھ اکٹھا ہونا ضروری ہے ۔ اگر کوئی یہ کہنے والا نکلے کہ کسی آدمی میں یہ دونوں صفات کا ایک ساتھ موجود ہوں تو اس کے بعد ہی وہ اسلام سے نکلے گا اور شفاعت کاروں کی شفاعت سے محروم ہوگا ۔ ایسے آدمی سے ہم کہیں گے کہ چند ابواب بیشتر ہم ''تارک نماز کا آخرت کو جھٹلانا '' کے عنوان کے تحت تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں ۔ حقیقت یہی ہے کہ تارک نماز آخرت کو جھٹلا چکا ہے اسی وجہ سے شفاعت کاروں کی شفاعت سے محروم رہے گا۔ حالانکہ نبی کریم ﷺ کی شفاعت تو کبیرہ گنا ہ والوں کے لئے ہے ۔ اگر تارک نماز اسلام سے خارج نہیں ہوتا بلکہ صرف کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو آخرت میں شفاعت کاروں کی شفاعت سے محروم نہیھ ہونا چاہئے تھا ۔​
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: ''شَفَاعَتِیْ لاَھْلِ الْکَبَائِرِمِنْ اُمَّتِیْ۔​
نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ''میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہوں کے مرتکب لوگوں کے لئے ہے '' ۔​
یہ حدیث ابو داؤد (۴۷۳۹) ، ترمذی (۲۴۳۵) ، ابن ماجہ (۴۳۱۰) ، اور مسند احمد (۳/۲۱۳) میں صحیح سند سے مروی ہے ۔
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ: اَنَّ رَسُوْلَاﷲِ ﷺ خَطَبَ ۔ فَاَتٰی عَلَی ھٰذِہٖ الاٰیَۃِ اِنَّہُ مَنْ یَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَہُ یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰی o وَمَنْ یَّاْتِہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحَاتِ فَاُؤْلٰئِکَ لَہُمْ اَلْدّٰرَجَاتُ الْعٰلٰی۔ فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ: '' اَمَّا اَہْلُہَا الَّذِیْنَ ہُمْ اَہْلُہَا فَاِنَّہُمْ لاَ یَمُوْتُوْنَ وَلاَ یَحْیُوْنَ وَاَمَّاالَّذِیْنَ لَیْسُوْا مِنْ اَہْلِہَا فِاِنَّ النَّارِ تُمِیْتُہُمْ اِمَاتَہً۔ ثُمَّ یَقُوْمُالشُّفَعَائُ فَیَشْفَعُوْنَ کَمَا تُنْبِتُ الْغَشَائُ فِیْ حَمِیْلَۃِ السَّیْلِ ۔
رسول اللہ ﷺ نے(ایک دن ) دورا ن خطبہ یہ آیت پڑھی '' جو کوئی اللہ کے حضور مجرم بن کر پہنچے گا بلا شبہ اس کے لئے جہنم ہے ، وہاں نہ تو زندگی (آرام کی ) ہوگی اور نہ ہی موت (جان چھڑانے والی ) آئے گی ۔ اور جو کوئی مومن ہو کر صالح اعمال کرتا ہوا (رب کے حضور) حاضر ہوگا ، تو ان کے لئے انتہائی بلندو بالا درجات (والی جنتیں ) ہیں '' ۔ (طہ: 20:74,75)​
پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: '' اہل جہنم (یعنی دائمی طور پر وہاں رہنے والے ) اسی کے اہل ہیں وہ نہ مریں گے اور نہ ہی زندہ ہوں گے ۔ رہے وہ لوگ جو دائمی جہنمی نہیں ہوں گے ۔ ، جہنم انہیں ایک ہلکے عذاب سے ما ر ڈالے گی پھر (یعنی عذاب کی مدت ختم ہو نے پر ) شفاعت کا ر آئیں گے اور شفاعت کریں گے ۔ ان (جہنمیوں ) میں سے ایک گروہ کو لیا جائے گا اور ''حیوان'' یا ''حیاۃ'' نامی نہر پر لا یا جائے گا (وہاں انہیں غوطہ دیا جائے گا ) پھر سیلاب کے چھوڑے ہوئے خش و خاک میں اگنے والی جڑی بوٹی کی طرح (تیزی سے زندہ ہو کر عمدہ انسانی ) زندگی پائیں گے '' ۔​
یہ حدیث مسند احمد (۳/۲۰) اور ابن مندہ ، کتاب الایمان (۸۲۰) میں صحیح سند سے مروی ہے ۔​
اے اللہ کے بندے ! مذکورہ بالا روایت کو جیسے آپ نے پڑھا ہے کہ ''جو کوئی اپنے رب کے حضور مجرم بن کر حاضر ہوگا یعنی نماز اداکئے بغیر مرے گا اس کے لئے جہنم ہے جہاں وہ نہ مرے گا اور نہ ہی (پرسکون) زندگی گزارنے والا ہوگا آخر یہ مجرم وہاں جہنم میں اپنے لئے کیاکچھ تیار سوچتے ہیں ؟ '' کیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن میں یوں ارشاد نہیں فرماتے :​
اَفَنَجْعَلَ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ o ...یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ o خَاشِعَۃً اَبْصَارُھُمْ تَرْھَقُھُمْ ذِلَّۃٌ وَقَدْ کَانُوْ یُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ وَھُمْ سَالِمُوْنَ o فَذَرْنِیْ وَمَنْ یُّکَذِبُ بَہٰذَا الْحَدِیْثِ سَنَسْتَدْرِ جُھُمْ مِنْ حَیْثُ لاَ یَعَْلَمُوْنَ o وَاُمْلِیْ لَہُمْ اِنَّ کَیْدِیَ مَتِیْنٌ (القلم 68:35...45,46)
'' کیا مسلمانوں کے ساتھ ہم مجرموں جیسا ہی برتاؤکریں گے ... اس قیامت کے روز رب العزت کی پنڈلی عیاں ہوگی اور سارے مجرم سجدے کے لئے پکارے جائیں گے لیکن استطاعت (سجدہ کرنے کی قوت و ہمت ) نہیں پائیں گے ۔ آنکھیں جھکی ہوں گی اور ان پر ایک ذلت طاری ہوگی ۔ حالانکہ انہیں ایک وقت (دنیا میں ) جب ان کے دل دماغ سلامت تھے تو اس نماز کے لئے بلا یا جاتا تھا لیکن ادا نہیں کرتے تھے (آج قیامت کے دن سجدہ کی توفیق کیسے نصیب ہوجائے ) اس صورت حال میں (اے ہمارے رسول ﷺ ! جنہوں نے نماز ادا نہ کرتے ہوئے اس قرآن کو جھٹلایا ہے آپ انہیں ہمارے لئے چھوڑ دیں ۔ ہم ان پر درجہ بدرجہ یوں عذاب مسلط کریں گے کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوگی ۔ (ابھی ) میں انہیں مہلت دے رہاہوں تاہم میرا عذاب بڑا شدت والا ہے '' ۔​
کُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِیْلاً اِنَّکُمْ مُجْرِمِیْنَ o وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِبِیْنَ o وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ ارْکَعُوْا لَا یَرْکَعُوْنَ o وَیْلٌ یَّومَئِذٍ لِلْمُکَذِبِیْنَ o فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَّعْدَہُ یُؤْمِنُوْنَ (المرسلات 77:46,50)
'' بلا شبہ مجرم لوگ ہلاکت اور دھکتی آگ میں ہوں گے۔ اس (قیامت کے ) دن منہ کے بل آگ پر گھسیٹے جائیں گے ۔ (ان مجرموں سے کہا جائے گا)''سقر'' (نامی جہنم ) کے مزے چکھو ''​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نماز اسلام کا دوسرا نام ہے
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: بَیْنُمَنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲﷺ ذَاتَ یَوْمٍ ، اِذْ طَلَعَ عَلَیْنَا رَجُلٌ شَدِیْدُ بَیَاضِ الشِّیَابِ ، شَدِیْدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لاَ یُرٰی اِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَ وَضَعَ کَفَّیْہِ عَلَی فَخِذَیْہِ وَقَالَ: '' یَا مُحَمَّدُ اَخْبِرْنِیْ عَنے الاِسْلاَمٍ '' ۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ ایک دن ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے کہ اچانک ہمارے پاس سفید لباس ، سیاہ بالوںوالا آدمی آن ظاہر ہوا ۔ جس پر سفر کے اثرات دکھائی نہیں دیتے تھے اور ہم میں سے اسے کوئی بھی پہچانتا نہیں تھا ۔ حتٰی کہ نبی کریم ﷺ کے پاس یوں بیٹھ گیا کہ اپنے گھٹنے آپ ﷺ کے گھٹنوں سے ملا دئیے۔ اور اپنی دونوں ہتھیلیاں آپ ﷺ کی رانوں پر رکھ دیں ۔ اور کہنے لگا: ''
اے محمد ﷺ !مجھے اسلام کے بارے میں خبر دیجیئے ؟ ''​
فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ : '' اَلاِسْلَامُ اَنْ تَشْہَدَاَنْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ وَانَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ''٭
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اس (اللہ ) کے رسول ہونے کی گواہی دینے کا نام اسلام ہے ''۔​
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یوں منقول ہے ۔​
تَعْبُدُ اﷲَ لاَتُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا ۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''تو اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہراتے ہوئے اس کی عبادت کرے گا '' ۔​
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق '' اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں '' کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہراتے ہوئے اس کی عبادت کی جائے ۔اس کا مطلب ہے کہ کلمہ شہادت کا صرف زبانی اقرار قطعاً مفید نہیں ہے ۔ اس کے بارے میں مزید وضاحت آگے آئے گی ۔​
حدیث جبریل میں رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا:​
'' وَتُقْیْمَ الصَّلَاۃَ '' (وَفِیْ رِوَایَۃِ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ) ''وَ تُِیْمَ الصَّلاَۃَ الْمَکْتُوْبَۃَ '' ۔
اور تو نماز قائم کرے ، (سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ) تو فرض نماز قائم کرے '' ۔​
وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ وَتَصُوْمَ رَمَضَانَ ۔ وَتَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا ۔ قَالَ: صَدَقْتَ ۔ قَالَ: فَعَجِبْنَالَہُ یَسْاَلُہُ وَیُصَدِقُہُ...
اور تو زکوٰۃ اداکرے ، رمضان کے روزے رکھے اور اگر راستے کی توفیق پائے تو بیت اللہ کا حج کرے ۔ اس سوال کرنے والے (نامعلوم) شخص نے کہا آپ ﷺ نے درست فرمایا ۔(سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے کہا ) کہ ہم اس پر حیران ہوئے کہ ایک طرف (لاعلم کی طرح ) سوال کرتا ہے اور (دوسری طرف جاننے والے کی طرح ) آپ ﷺ کی تصدیق کرتا ہے ...​
یہ حدیث مسلم (۹۳،۱۰۷) نے روایت کی ہے ۔​
عَنْ بُسْرِ بْنِ مِحْجَنٍ عَنْ اَبِیْہِ مِحْجَنٍ اَنَّہُ کَانَ فِیْ مَجْلِسٍ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ ، فَاُذَنَ بِالصَّلَاَۃِ ، فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ ، فَصَلَّی وَرَجَعَ وَمِحْجَنٌ فِیْ مَجْلِسِہِ ، فَقَالَ لَہُ رَسُوْلَہُ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ: '' مَامَنَعَکَ اَنْ تُصَلِّی مَعَ النَّاسِ ، اَلَسْتَ بِرَجُلٍ مُسْلِمٍ ؟ '' قَالَ: بَلٰی یَارَسُوْلَ اﷲِ ، وَلٰکِنِّیْ قَدْ کُنْتُ صَلَّیْتُ فِیْ اَھْلِی ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ: '' اِذَا جِئْتَ فَصَلِّ مَعَ النَّاسِ ، وَ اِنْ کُنْتَ صَلَّیْتَ '' ۔
سیدنا محجن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں موجود تھے ۔ اسی دوران نماز کے لئے اذان کہی گئی ۔ رسول اللہ ﷺ نے (نماز ) پڑھائی پھر اپنی جگہ واپس آئے (تو دیکھا) کہ سیدنا محجن رضی اللہ عنہ تاحال اسی جگہ پر تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان (سیدنا محجن رضی اللہ عنہ ) سے کہا تمہیں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے سے کیا مانع ہوا ، آیاتم ایک مسلمان نہیں ہو ؟ سیدنا محجن رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ۔ ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ میں مسلمان ہوں لیکن میں نے نماز گھر میں ہی ادا کر لی تھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' جب تم آؤ (اور لوگ نماز با جماعت ادا کرنے والے ہوں ) تو تم لوگوں کے ساتھ (یعنی باجماعت ) نماز ادا کرو۔ اگر چہ تم نے (بلا جماعت) نمازادا کر رکھی ہو ۔​
یہ حدیث موطا امام مالک (۱/۱۳۲) ، مسند احمد (۴/۳۴) ، نسائی (۸۵۸) ، ابن حبان (۴۳۳) اور مستدرک حاکم (۲۴۴) میں صحیح سند سے مروی ہے ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ میں تخریج کی ہے ۔​
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: لاَ حَظَّ فِی الاِسْلَامِ لِمَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس نے نماز ترک کی اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے ۔​
مؤطا امام مالک (۴۰) ، دارقطنی (۵۲) ، مصنف عبدالرزاق (۵۰۱۰) ، مصنف ابن ابی شیبہ (۱۰۳) اور احمد ، احکام النساء (۲۲۵) میں صحیح سند سے مروی ہے ۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نماز اللہ پر ایمان لانے کا دوسرا نام ہے
عَنْ اَبِیْ جَمْرَۃَ: قَالَ: کُنْتُ اُتَرْجِمُ بَیْنَ یَدَیِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَبَیْنَ النَّاسِ ، فَاَتَتْہُ امْرْاَۃٌ تًسْاَلُہُ عَنْ نَبِیْذِ الْجَرِّ۔ فَقَالَ : اِنَّ وَفْدَ عَبْدِالْقَیْسِ الْقَوْمُ ؟'' قَالُوْا: رَبِیْعَۃُ ۔ قَالَ : ''مَرْحَبًا بِالُقَوْمِ '' اَؤ''بِالْوَفْدِ غَیْرَ خَزَایَا وَالاَ النَّدَامَی'' قَالَ : فَقَالُوْا : یَارَسُوْلَ اﷲِ ! اِنَّانَاْتِیْکَ مِنْ شُقَّۃٍ بَعِیْدَۃٍ وَاِنَّ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ ھٰذَا الْحَیَّ مِنْ کُفَّارِ مُضَرَ ۔ وَانِنَّا لاَ نَسْتَطِیْعُ اَنْ نَاْتِیَکَ اِلاَّ فِیْ شَہْرِ الْحَرَامِ ۔ فَمُرْنَا بِاَمْرٍ فَصْلٍ نُخْبِرُ بِہٖٖ مَنْ وَرَائَنَا ، وَنَدْخُلُ بِہٖ الْجَنَّۃَ ۔ قَالَ : فَاَمَرَھُمْ بَاَرْیَعٍ ۔ وَنَہَاھُمْ عَنْ اَرْبَعٍ ۔قَالَ: اَمَرَھُمْ بِالاِیْمَانِ بِاﷲِ وَحَدَہُ۔ قَالَ : ''شَہَادَۃُ اَنْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّاﷲُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ ، وَاِقَامُ الصَّلَاۃِ وَاِیْتَائُ الزَّکَاۃِ وَ صَوْمُ رَمَضَانَ وَاَنْ تُؤَدُّوْا خُمُسًامِنَالْمَغْنَمِ...' '
سیدنا ابو جمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور لوگوں کے درمیان ترجمانی کا فریضہ اداکررہا تھا ۔ ایک عورت آئی اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ''جر '' نامی برتن کے نبیذ کے بارے میں پوچھا آپ رضی اللہ عنہ نے جو اباً فرمایا عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا تم کون سا وفد ہو یا تم کون لوگ ؟ '' انہوں نے کہا : (ہم ) ربیعہ ( سے ہیں ) ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :'' اس وفد یا قوم کو خوش آمدید ، کسی قسم کی پشیمانی اور شرمندگی کے بغیر '' اس پر ان لوگوں نے کہا : '' اے اللہ کے رسول !ہم تو آپ ﷺ کے پاس بہت دور کی مسافت سے آئے ہیں ۔ نیز آپ ﷺ کے اور ہمارے درمیان کافروں کا '' مضر'' نامی قبیلہ ہے اس لئے ہم صرف حرمت والے مہینوں میں ہی آپ ﷺ کے پاس آسکتے ہیں پس آپ ﷺ ہمیں فیصلہ کن احکامات سے نوازیں جن کی ہم اپنے پیچھے والوں کو (وہاں جا کر ) خبر دیں اور (نتیجتاً ) ہم سب جنت میں داخل ہو جائیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے چار چیزوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے منع فرمایا ۔ آپ ﷺ نے انہیں اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیا اور پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر ایمان لانا کیا ہے ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا (اللہ پر ایمان کا مطلب ہے ) اس بات کی گواہی دینا ، کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا معبو د برحق نہیں ہے اور محمد ﷺ اس کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا ، زکوٰۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا اور مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنا (یہ سب کچھ کرنا اللہ پر ایمان لانے میں شامل ہے )...​
یہ حدیث مسلم (۱۱۶) اور بخاری (۵۳) نے روایت کی ہے ۔​
اے اللہ کے بندے ! مذکورہ بالا حدیث میں قابل استفادہ بہت سے مقامات ہیں ان پر بحث کیے بغیر اس مقام سے گذرجانا ایک علمی خیانت ہے اس سے چشم پوشی کی بجائے ہر ایک کے لیے قابل فہم اسلوب میں وضاحت کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے حدیث مبارکہ میں درج ذیل فوائدہیں ۔​
1۔اسلام کے بارے جاننے والے کو پہلا حکم ''ایک اللہ پر ایمان لانا '' ہے ۔​
2۔ یہ حدیث صرف ایک اللہ پر ایمان کا مطلب سکھاتی ہے ۔​
3۔''ایک اللہ پر ایمان میں '' صرف زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق ہی کافی نہیں بلکہ عمل بالجوارح بھی شامل ہے ۔​
4۔ خاص طور پرہمارے موضوع کے حوالے سے نماز کا اللہ پر ایمان میں داخل ہونا ۔ اس طرح سے ہم نے ''عمل ایمان میں سے نہیں ہے '' کے قاعدے کلیے کے ساتھ ''نماز ایمان میں سے نہیں '' کا فتوٰی دینے والے مرجیہ کے گروہ اور دور حاضر میں ان کے ہم نوالوگوں کو آواز باطل کر دیا ہے ہم اتباع کتاب وسنت کی توفیق بخشنے والے رب کریم کے حمد گذار ہیں ۔​
اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَیْھِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ وَ مِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ وَ مِنْ ذُرِّیَّۃٍ اِبْرَاہِیْمَ وَاِسْرَائِیْلَ وَ مَمَّنْ ھَدَیْنَا وَ اجْتَبَیْنَا اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِمْ اٰیَاتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَ بُکِیًّا o فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِھُمْ خَلْفً اَضَاعُوْا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوْا الشَّہَوَاتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا o مِنْ بَعْدِ ھِمْ خَلُفٌ اَضَاعَوْا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوْا الشَّھَوَاتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا o اِلاَّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعِمِلَ صَالِحًا فَاُؤلٰئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلاَ یُظْلِمُوْنَ شَیْئًا (مریم 19:58,60)
'' یہ پیغمبر (جن کے ناموں کا پہلے ذکر ہو چکا ہے ) وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کے انعامات واحسانات ہوئے یہ نسل آدم میں سے ہیں یہ نوع علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں اٹھائے جانے والے ہیں ۔ یہ ابراہیم علیہ السلام اور اسرائیل (یعقوب علیہ السلام ) کی اولاد میں سے ہیں ۔ ہم نے انہیں ہدایت بخشی اورہم نے انہیں اپنے لئے منتخب کر لیا ان پر جب رحمٰن (صفت والے اللہ ) کے آیات (مثلاً اقیموالصلوٰۃ ) پڑھی جاتیں ہیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں ۔​
پھر (ان پیغمبروں اور صالحین ) کے بعد (ایسی نالائق) نسل آئی جنہوں نے نماز ترک کر ڈالی خواہشات و شہوات کے پیچھے پڑگئے ۔ یہ لوگ جہنم کی ''غی'' نامی وادی میں ڈالے جائیں گے ۔ ہاں تویہ تائب ہو کر ایمان لانے کے بعد صالح اعمال کرنے والے اس سے مستثنٰی ہیں کیونکہ ان پر زرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا اور یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے '' ۔
اے اللہ کے بندے !تم دیکھ رہے ہو کہ پیغمبروں اور صالح لوگوں کے بعد نالائق نسل کی ترک کردہ واحد شے نماز ہے اگر '' تارک نماز کا ایمان ہوتا '' تو فوراً بعد والی آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ یہ نہ فرماتے کہ توبہ کر کے ایمان لا کر صالح اعمال کرنے والے (جہنم رسید ہونے سے ) مستثنٰی ہیں ۔ باقی رہا خواہشات کا معاملہ ، تو نماز کو ترک کرنے کے بعد کوئی برائی سے بچانے والی چیز تو ان کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرماتے ہیں :​
وَاَقِمِ الصَّلاَۃَ اِنَّ الصَّلاَۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ (العنکبوت 29:45)
'' اے میرے پیغمبر ! نماز ادا کیجئیے بے شک نماز برائی اور بے حیائی سے روکتی ہے '' ۔​
امام طبری اپنی تفسیر میں یوں کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل کی بیان کردہ نماز ترک کرنے والی بری نسل اگر مومن ہوتی تو اللہ عزوجل ایمان لانے والوں کو ان سے متثنٰی قرار نہ دیتے ۔ بلکہ یوں کہتے کہ یہ (تارک نماز ) بری نسل اس امت میں سے ہے اور آخری زمانہ میں ہوگی۔
عطاء ابن رباح رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں کہ '' یہ بری نسل اس امت محمدیہ میں سے ہے '' ۔(یعنی امت محمدیہ کے لوگوں پر نماز فرض کی گئی ہے ۔ اور یہ امت محمدیہ میں سے ہونے کے باوجود ترک نماز کا جرم کررہے ہیں )​
مجاہد رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں کہ '' یہ (ترک نماز والی ) بری نسل قیامت کے قریب امت محمدی کے صالح افراد کے رخصت ہوجانے کے بعد آئے گی '' (تفسیر طبری ۱۶/۹۹)​
اے اللہ کے بندے !اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی آیت میں ذکر کردہ بری نسل کو اگر تو نے پہچان لیا گویا دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کر لی ۔
یہی نسل (تارک نماز ) بری نسل نماز کا انکار کرکے نہیں صرف خواہشات نفس کی پیروی میں نماز چھوڑنے کے سبب '' وادی غی '' (جہنم کا حصہ ) میں ڈالی جائے گی ۔​
فَمَا لَہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ o وَاِذَا قُرِیئَ عَلَیْہُمُ الْقُرْاٰنُ لاَ یَسْجُدُوْنَ o بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُکَذِّبُوْنَ ...اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنَوْا وَاعَمِلُوْا الصّٰلِحَاتِ ...(الانشقاق 84:20,22,25)
'' انہیں کیا ہوا ہے کہ ایمان لاتے ہیں ۔ انہیں جب قرآن (یعنی اقیموا الصلوٰۃ ) کی آیت پڑھی جاتی ہے تو (اللہ کا حکم سننے کے باوجود ) سجدہ ( یعنی نماز ) ادا نہیں کرتے ۔ صحیح بات یہی ہے کہ (نماز ترک کر کے ) کافر ہو نے والے حساب کتاب (قیامت ) کے دن کو جھٹلا رہے ہین ۔ صرف ایمان لا کر صالح عمل کرنے والے مستثنٰی ہیں '' ۔​
اے اللہ کے بندے ! آپ یہاں بھی دیکھ رہے ہیں کہ نماز ترک کرنے والوں پر ایمان نہ لانے اور کفر (کے مرتکب ہونے ) کا الزام لگایا جارہا ہے ۔ اور اس کے بعد ایمان لانے والے ان سے مستثنٰی کئے جاتے ہیں ۔​
اے اللہ کے بندے ! مت خیال کر کہ یہ ہماری سوچ ہے بلکہ جن سے اللہ راضی ہو چکے وہ صحابی یوں بیان کرتے ہیں ۔​
عَنْ اَبِیِ الدَّرْدَائِ قَالَ: '' لاَ اِیْمَانَ لِمَنْ لاَ صَلاَۃَ لَہُ '' ۔
سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ یوں فرماتے ہیں کہ : '' جس کی نماز نہیں اس کا کوئی دین نہیں '' ۔
یہ اثر امام عبدالبر نے تمہید (۴/۲۲۵) میں صحیح سند کی ساتھ روایت کیا ہے نیز علامہ البانی رحمہ اللہ نے ترغیب (۵۷۴) میں تخریج کی ہے ۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تارک نماز اللہ سے نہیں ڈرتا
مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ وَاتَّقُوْہُ وَاَقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (الروم:31)
تمام تر رخ اللہ تعالیٰ کی طرف ہی کرتے ہوئے اس کی اطاعت کرو، اس سے ڈرو، نماز قائم (ادا) کرو اور مشرکین میں سے نہ ہو۔
اے اللہ کے بندے! آپ دیکھ رہے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے اوپر ایمان لانے والے بندوں کو اپنے سے ڈرنے اور نماز قائم کرنے کا حکم دے رہا ہے۔ ڈرنے والے بندے اپنے رب کی اطاعت کرتے ہوئے سجدہ بجا لاتے ہیں اس آیت کی توضیح کرنے والی ایک حدیث شریف میں یوں مروی ہے:​
عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ یَقُوْلُ: یَعْجَبُ رَبُّکَ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ رَاعِی غَنَمٍ فِی رَاْسِ شَظِیَّۃٍ بِحَبَلٍ، یُؤَدِّنُ لِلصَّلَاۃِ، وَ یُصَلِّی فَیَقُوْلُ اﷲُ عَزَّ وَ جَلَّ: اُنْظُرُوْا اِلٰی عَبْدِیْ ھٰذَا یُؤَذِّنُ وَ یُقِیْمُ لِلصَّلَاۃِ یَخَافُ مِنِّی قَدْ غَفَرْتُ لَعَبْدِیْ، وَاَدْخَلْتُہُ الْجَنَّۃَ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پہاڑ کی چوٹی پر بکریوں کے چرواہے پر اللہ عزوجل خوش ہوتے ہیں کیونکہ وہ نماز کے لئے اذان دیتا ہے اور پھر نماز ادا کرتا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے) فرماتے ہیں ''میرے اس بندے کو دیکھو، اذان پڑھ کر نماز ادا کر رہا ہے اور مجھ سے ڈر رہا ہے۔ میں نے بھی اپنے بندے کے گناہ معاف کر دیئے اور اسے جنت میں داخل کروں گا''۔
(یہ حدیث ابوداؤد 1203، نسائی 20/2، احمد 145/4، ابن حبان 260 اور طبرانی کبیر 833/17میں صحیح سند سے مروی ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ 41میں تخریج کی ہے)​
اے اللہ کے بندے! آپ دیکھ رہے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نماز ادا کرنے والے بندے کے بارے میں اپنے سے ڈرنے کی خبر دے رہے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا نماز ادا نہ کرنے والے کے بارے بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے؟ اگر یہی الفاظ نماز ادا نہ کرنے والے کے بارے میں کہے جا سکتے ہیں تو پھر نماز ادا کرنے اور ادا نہ کرنے والے میں کوئی فرق نہیں تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کی عدالت کے شایاں شان نہیں ہے۔ اسے بھی اچھی طرح جان لو کہ اللہ سے ڈرنا ''لا الٰہ اِلا اﷲ'' کے تقاضوں میں سے ہے۔​
لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنَا فَاتَّقُوْنِ (النحل:2)
میرے سوا اور کوئی الہ نہیں، پس مجھ ہی سے ڈرو۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایک وقت نماز ترک کرنے والے کے دیگر اعمال کا باطل ہونا
وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکَتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الزمر:65)
بیشک آپ ﷺ اور آپ سے پہلے (انبیاء کی) کی طرف یہی وحی کی گئی لہٰذا اگر (آپ ﷺ بھی) اللہ کا شریک ٹھہرائیں گے تو ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔​
وَمَنْ یَکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (المائدہ:5)
جو کوئی بھی کفر کرے گا (یعنی ایمان کے لئے ضروری اعمال ادا نہ کرتے ہوئے کافر ہو گیا) تو اس کے کردہ سارے اعمال برباد ہو جائیں گے اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔​
عَنْ بُرَیْدَۃَ الْاَسْلَمِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ: مَنْ تَرَکَ صَلَاۃَ الْعَصْرِ مُتَعَمِّدًا اَحْبَطَ اﷲُ عَمَلُہُ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی جانتے بوجھتے (ایک نماز عصر ترک کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے کردہ (دیگر تمام) اعمال بھی برباد کر دے گا​
یہ حدیث مسند احمد 360/5 میں مروی ہے۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کے راویوں کو صحیح قرار دیا ہے۔​
مذکورہ بالا آیات و احادیث میں اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے اور ایمان کا موجب بننے والے اعمال ادا نہ کر کے کافر ٹھہرنے والے کے کردہ دیگر اعمال بھی باطل اور بیکار ہو جاتے ہیں۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں رہتے)۔​
اے اللہ کے بندے! اچھی طرح جان لے کہ گذشتہ ابواب میں دلائل سے تاک نماز کو مشرک اور کافر ثابت کر چکے ہیں تکرار کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر آپ بھول گئے ہیں تو دوبارہ پڑھ لیں:​
عام معنی میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرنے والوں کے اعمال برباد ہونے پر دلالت کرنے والی بہت سی یدگر آیات ہیں۔ جو کہ ہمارے دعوی کی تائید کرتی ہیں۔​
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ شَاقُّوا الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمُ الْھُدٰی لَنْ یَّضُرُّوْا اﷲَ شَیْئًا وَ سَیُحْبِطُ اَعْمَالَھُمْ (محمد:32)
بلا شبہ جو لوگ کافر ہو کر اللہ کی راہ سے منہ پھیرتے ہیں اور حق واضح ہو جانے کے بعد (اللہ کے) رسول کی مخالفت کرتے ہیں تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کا کسی شے سے نقصان نہیں کر سکتے۔ ہاں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) ان کے تمام اعمال برباد کر دیئے جائیں گے۔
اے اللہ کے بندے! ترک نماز سے آدمی کافر ہو جاتا ہے۔ اللہ کی راہ سے بھٹک جاتا ہے۔ علاوہ ازیں کتاب و سنت کی رو سے تارک نماز کافر ہے یہ واضح ہو جانے کے باوجود اللہ کے رسول کی مخالفت کرتے رہنے سے اللہ کو ذرہ برابربھی نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا (بلکہ اپنی ہی بربادی کا سامان کیا جاتا ہے)۔​
ہمارے موضوع سے متعلقہ ایک آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ بڑی وضاحت سے یوں فرماتے ہیں:​
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ ارْکَعُوْا لَا یَرْکَعُوْنَ o وَیْلٌ یَؤْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ(المرسلا� �:49-48)
انہیں جب رکوع (نماز) ادا کرنے کے بارے میں کہا جاتا ہے تو رکوع (نماز) ادا نہیں کرتے ہیں ایسے جھٹلانے والوں کے لئے اس (قیامت کے) دن ہلاکت ہے۔​
اللہ کے اہم ترین احکامات میں سے نماز ہے جس آدمی کو (نماز کا) یہ اہم حکم پہنچ گیا لیکن اس نے اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے نماز ادا کرنے کی بجائے نافرمانی کی (یعنی نماز ادا نہ کی) تو اس کے دیگر تمام اعمال اس ایک نافرمانی کی وجہ سے باطل اور بیکار ہو جاتے ہیں کیونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے کردہ مخالفت (نافرمانی) دیگر تمام اعمال کو بھی برباد کر دیتی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن مجید میں یوں ارشاد فرماتا ہے:​
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَطِیْعُوْا اﷲَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا اَعْمَالَکُمْ (محمد:33)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو اور (انکار و مخالفت کر کے) اپنے اعمال برباد نہ کرو۔​
ہمارے مسئلے کو خاص کرنے والی ایک حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ یوں فرماتے ہیں:​
عَنْ اَبِی الْمَلِیْحِ قَالَ: کُنَّا مَعَ بُرَیْدَۃَ فِی غَزْوَۃٍ فِی یَوْمٍ ذِیْ غَیْمٍ فَقَالَ: بَکِّرُوْا بِصَلَاۃِ الْعَصْرِ، فَاِنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ: مَنْ تَرَکَ صَلَاۃَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہُ
ابو ملیح بیان کرتے ہیں کہ ایک ابر آلود دن میں ہم سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی معیت میں کسی غزوہ میں (برسرپیکار) تھے۔ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ نے (ہمیں مخاطب کر کے) فرمایا کہ نماز عصر کو اول وقت ادا کرو کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: جس کسی نے نماز عصر ترک کر دی بلا شبہ اس کے تمام اعمال برباد ہو گئے۔(یہ حدیث بخاری (533) نے روایت کی ہے)​
اے اللہ کے بندے! آپ دیکھ رہے ہیں کہ صرف نماز عصر چھوڑنے سے تمام اعمال برباد ہو رہے ہیں۔ عمر بھر ہر دن کی پانچ نمازیں ترک کرنے والے کا کیا حال ہو گا۔ کبھی اس پر آپ نے غور کیا؟​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ترک نماز پر دین کا خاتمہ ہے
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ؛ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: اَوَّلُ مَا تَفْقِدُوْنَ مِنْ دِیْنِکُمْ الاَمَانَۃ وَاٰخِرُہُ الصَّلَاۃ
نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: تمہارے دین میں سب سے پہلے ترک کی جانے والی چیز امانت ہے۔ اور سب سے آخر پر تم لوگ نماز چھوڑو گے۔​
یہ حدیث ابو نعیم، حلیہ 265/6، اخبار 213/2 اور طبرانی نے ابن مسعود سے المعجم الکبیر 9754 میں، خرائطی نے مکارم میں اور طبرانی نے اوسط 138/1 میں سیدنا عمر سے صحیح سند سے روایت کی ہے۔ علاوہ ازیں البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ 1739میں تخریج کی ہے۔​
جی ہاں، دین میں پہلی کی طرح سب سے آخری چیز بھی نماز ہے تارک نماز ہونے کے بعد کسی شخص کے دین میں سے کوئی چیز بھی باقی نہیں رہتی ہے۔ گذشتہ ابواب میں نقل کردہ احادیث کے مطابق نماز ادا نہ کرنے والے کا کوئی دین نہیں ہے۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نماز ادا نہ کرنے والے کی گردن مارنا
فَاِذَا انْسَلَخَ الاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوْا المُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ وَ خُذُوھُمْ وَاحْصُرُوْھُمْ وَاقْعُدُوْا لَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَبُوْا وَ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْ سَبِیْلَھُمْ اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ (التوبۃ:5)
حرمت والے مہینے گزرنے پر ان مشرکوں کو جہاں بھی پاؤ انہیں قتل کرو، انہیں پکڑو اور قید کرو، ان کی تاک میں ہر گھات میں بیٹھو۔ اگر توبہ کریں، نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں تو انہیں آزاد چھوڑ دو بیشک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔​
اللہ سبحانہ و تعالیٰ رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان کو مخاطب ہو کر حرمت والے مہینے گزر جانے پر مشرکوں سے قتل کرنے کا حکم دے رہے ہیں اللہ عزوجل مشرکوں کو قتل سے پہلے انہیں پکڑنے ان کی راہیں روکنے اور انہیں قید کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔ (یعنی ان کی بیویاں، ان کے بچے ان کے مال مسلمانوں کے لئے حلال ٹھہرا رہے ہیں) تاہم اس کے بعد اس سے نجات پانے کے لئے تین شرائط ذکر کی ہیں:​
1۔ شرک سے پلٹ کر توبہ کرنا، یعنی زبانی طور پر کلمہ شہادت کا اقرار کرنا۔​
2۔ نماز ادا کئے بغیر کردہ توبہ کی عملی تصدیق نہیں ہوتی اسی وجہ سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن میں یوں فرماتا ہے:​
فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰی o وَلٰکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰیo (القیامۃ32-31)
نہ تصدیق کی نہ ہی نماز ادا کی بلکہ جھٹلایا اور عمل کرنے سے منہ پھیرا​
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ ارْکَعُوْا لَا یَرْکَعُوْنَ o وَیْلٌ یَؤْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ (المرسلات:49-48)
اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رکوع (نماز) ادا کرو تو رکوع (نماز) ادا نہیں کرتے۔ جھٹلانے والوں کے لئے اس روز ہلاکت ہے۔
اے اللہ کے بندے! آیات کریمہ سے واضح ہے کہ اللہ عز وجل کے ''نماز ادا کرو'' نامی حکم کی اطاعت نہ کر کے اللہ کے نازل کردہ احکام کی تکذیب ہوتی ہے۔​
3۔ اللہ کی فرض کردہ زکوۃ بھی ادا کرنا ہے۔ ان شرائط کو پورا کرنے والے ہر آدمی کی جان، مال اور عزت و آبرو مسلمانوں پر حرام ہیں۔ ان کی خطاؤں کے لئے اللہ غفور رحیم ہے۔​
امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کی توضیح میں درج ذیل حدیث ذکر کرتے ہیں:​
عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ قَالَ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوا اَنْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ، وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ، وَیُقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوْا الزَّکَاۃَ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّی دِمَائَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ اِلَّا بِحَقِ الْاِسْلَامِ، وَ حِسَابُھُمْ عَلَی اﷲِ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود برحق نہ ہونے اور محمد ﷺ کے اللہ کے رسول ہونے، کی شہادت نہ دیں، نماز قائم نہ کریں اور زکوۃ ادا نہ کریں۔ جب وہ یہ کام کرنے لگ جائیں تب انہوں نے اپنے خون اور مال مجھ سے محفوظ کروا لئے تاہم اسلام کا حق باقی ہے اور ان کا حساب و کتاب اللہ کے ذمے ہے۔ (یہ حدیث بخاری:25اور مسلم:129نے روایت کی ہے)۔​
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوا اَنْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ، وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ، وَاَنْ یَسْتَقْبِلُوْا قِبْلَتَنَا وَاَنَّ یَاْکُلُوْا ذَبِیْحَتَنَا وَاَنَّ یُصَلُّوْا صَلاتَنَا فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ حُرُمَتْ عَلَیْنَا دِمَائُھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ اِلَّا بِحَقِّھَا لَھُمْ مَا لِلْمُسْلِمِیْنَ وَعَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے الٰہ نہ ہونے اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہونے کی شہادت نہ دیں ہمارے قبلے کی طرف رخ نہ کریں ہمارا ذبیحہ نہ کھائیں اور ہماری نماز ادا نہ کریں جب وہ یہ کریں گے تب ان کی جانیں اور مال ہمارے لئے حرام ہیں صرف (اسلام کا) حق مستثنیٰ ہے۔ (نیز اب) ان کے وہی حقوق ہیں جو مسلمانوں کے ہیں اور ان کے ذمے بھی وہی کچھ ہے جو مسلمانوں کے ذمے ہے۔​
یہ حدیث ابوداؤد 2641، ترمذی 2608، اور مسند احمد 269,61/2 میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔
عَنْ عَبْدِ الرَٗحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ نَعِیْمٍ قَالَ: سَمِعْتُ اَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ یَقُوْلُ: بَعَثَ عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ مِنَ الْیَمَنِ، بِذَھَبَۃٍ فِیْ اَدِیْمٍ مَقْرُوْظٍ۔ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِھَا۔ قَالَ: فَقَسَمَھَا بِیْنَ اَرْبَعَۃِ نَفَرٍ؛ بَیْنَ عُیَیْنَۃَ ابْنِ بَدْرٍ ، وَالْاَقْرَعَِ بْنِ حَابِسٍ ، وَزَیْدِ الْخَیْلِ ، وَالرَّابِعُ اِمَّا عَلْقَمَۃُ بْنُ عُلاَثَۃَ وَاِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ ۔ قَقَالَ رَجُلٌ مِّنْ اَصْحَابِہٖ : کُنیَّا نَحْنُ اَحَقَّ بِہٰذَا مِنْ ھٰؤُلَائِ ۔ قَالَ : فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَ : '' اَلاَ تَاْمَنُوْنِیْ ؟ وَاَنَ اَمِیْنُ مَنْ فِیْ السَّمَائِ ، یَاْتِیْنِیْ خَبَرُ السَّمَائِ صَبَا حًا وَمَسَائٌ '' ۔ قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَیْنَیْنِ ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَیْنِ نَاشِزُ الْجَیْھَۃِ ، کُثُّ الْلِحْیَۃِ ، مَحْلُوْقُ الرَّاْسِ ، مُشَمِّرُ الَاِزَارِ ۔ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اﷲِ ! اتَّقِ اﷲَ ۔ فَقَالَ :'' وَیْلَکَ اَوَلَسْتُ اَحَقَّ اَھْلِ الاَرْضِ اَنْ یَتیَّقِیَ اﷲَ '' قَالَ: ثُمَّ وَلَّی الرَّجُلُ ۔ فَقَالَ خَالِدُبْنُ الْوَلِیْدِ : یَا رَسُوْلَ اﷲِ ! اَلاَ اَضْرِبُ عُنُقَہُ ؟ فَقَالَ : '' لاَ ، لَعَلَّہُ اَنْ یَکُوْنَ یُصَلِّی '' ۔ قَالَ خَالِدٌ : وَکَمْ مِنْ مُصَلٍّ یَقُوْلُ بِلِسَانِہٖ مَالَیْسَ فِیْ قَلْبِہٖ ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ : ''اِنِّیْ لَمْ اُوْمَرْ اَنْ اَنْقُبَ عَنْ قُلُوْبِ النَّاسِ وَلاَ اَشُقَّ بُطُوْنَھُمْ ''
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا دباغت شدہ چمڑے میں بھیجا جو کہ تاحال مٹی سے جدا نہیں کیا گیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان چار آدمیوں میں اسے تقسیم فرمادیا ۔ عینیہ ابن بدر ، اقرع بن حابس ، زیدالخیل اور چوتھے علقمہ بن علاثہ تھے یا عامر بن طفیل ۔
اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے کسی ایک نے کہا ہم اس احسان کے ان کی نسبت زیادہ حق دار تھے ۔ یہ بات نبی کریم ﷺ تک پہنچنے پر نبی کریم ﷺنے فرمایا کیا تم مجھ پر اعتماد نہیں کرتے ہو ؟ میں تو سات آسمانوں کے اوپر والے رب العزت کاامین ہوں ۔ صبح و شام میرے پاس آسمان سے خبر (یعنی وحی) آتی ہے ۔ اس پر ایک آدمی کھڑا ہوتا ہے۔ جس کی دونوں آنکھیں گڑھی ہوئی تھیں ، دونوں گال (کپے کی طرح) پھولے ہوئے ، پیشانی ابھری ہوئی ، داڑھی گھنی ، سر منڈاہوا اور تہبند اوپر کو اٹھائے ہوا تھا ۔ وہ کہنے لگا۔ اے اللہ کے رسول ﷺ !اللہ سے ڈرو ''۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا تیرا ستیاناس ہو۔ کیا اس روئے زمین پر تمام انسانوں سے زیادہ اللہ سے ڈرنے کے لائق میں نہیں ہوں؟اس پر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا ۔​
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ۔ اے اللہ کے رسول ﷺ کیا میں اس کی گردن نہ اڑادوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' شاید نماز ادا کرتا ہو '' اس پر سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ۔ اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ کتنے ہی نمازی ایسے ہیں جو اپنی زبان سے وہ بات کہتے ہیں جوان کے دل میں نہیں ہوتی '' ۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''مجھے لوگوں کے دل چیرنے اور پیٹ پھاڑنے کا حکم نہیںدیا گیا ہے '' ۔​
یہ حدیث مسلم 2452نے روایت کی ہے ۔​
عَنْ عُبَیْدِاﷲِ بْنِ عَدِی بْنِ الْخِیَارِ اَنَّ عَبْدَاﷲِ بْنَ عَدِیْ حَدَّثُہُ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ بَیْنمَا ھُوَ جَالِسٌ بَیْنَ ظَھْرَانِیْ النَّاسِ ، اِذْ جَائَ ہُ رَجُلٌ یَسْتَاْذِنُہُ اَنْ یَسَارَّۃُ ، فَاَذِنَ لَہُ ، فَسَارَّہُ فِیْ قَتْلِ رَجُلٍ مَنَ الْمُنَافِقِیْنَ ، فَجَھَرَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ بِکَلاَمِہٖ وَقَالَ : '' اَلَیْسَ یَشْہَدُ اَنْ لاَ اِلٰہَ الاَّ اﷲُ ؟ '' قَالَ : بَلٰی ، یَارَسُوْلَ اﷲِ ، وَلاَشَھَادَۃَ لَہُ ۔قَالَ : '' اَلَیْسَ یُصَلِّی ؟'' قَالَ : بَلٰی یَارَسُوْلَ اﷲِ ، وَلاَ صَلاَۃَ لَہُ ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ : ''اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ نُہِیْتُ عَنْ قَتْلِہِمْ ''۔
ایک دن نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کے درمیان تشریف فرماتھے ۔ کہ ایک آدمی آیا ۔ آپ ﷺ سرگوشی کرنے کی اجازت چاہی ۔ آپ ﷺ نے اجازت دی تو اس نے (ایک منافق) کے قتل کے بارے میں سرگوشی کی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے بآواز بلند کہا ۔ '' کیا وہ لاالہ الا اﷲ کی شہادت نہیں دیتا ''؟ اس نے کہا جی ہاںاے اللہ کے رسول ﷺ ! لیکن اس کی کوئی شہادت نہیں دیتا '' ؟ اس نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول
ﷺ ! لیکن اس کی کوئی شہادت نہیں ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: '' کیا وہ نماز نہیں پڑھتا ہے '' ؟ اس آدمی نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ ! لیکن اس کی کوئی نماز نہیں ہے ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ یہی وہ (لا الہ الا اﷲ کی شہادت دینے اور نماز ادا کرنے والے ) لوگ ہیںجن کے قتل سے مجھے منع کیا گیا ہے ۔​
یہ حدیث ابن حبان 12اور بیہقی 8/196نے روایت کی ہے ۔​
اے اللہ کے بندے ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس باب کے شروع میں ہم نے آیات اور احادیث ذکر کی ہیں وہ​
1۔ کلمہ شہادت کا اقرار نہ کرنا​
2۔ نماز قائم نہ کرنے​
3۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کے مال ، جان اور عزت کے مسلمان کے لئے حلال ٹھہرانے کی خبر دیتے ہوئے قتل کرنے کا حکم دے رہی ہی
ہیں ۔​
مذکورہ احادیث میں صرف تارک نماز کے قتل کیے جانے کی بھی نشان دہی ہے ۔ اس بناء پر ایک آدمی کے قتل کیے جانے کے لئے مذکورہ بالا تینوں چیزوں کا ترک کرنا لاز م نہیں ہے کیونکہ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صرف (ایک زکوٰۃ ) ترک کرنے والوں کے خلاف اعلان جہاد کیا تھا ۔ اس جہاد کی تفصیلات ہمارے موضوع سے متعلق نہیں ہیں اس لئے یہاں تفصیلی ذکر نہیں کیا جارہا ہے ۔​
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
نومسلم کو سکھائی جانے والی پہلی چیز نماز ہے
عَنْ اَبِیْ مَالِکِ الْاَشْجَعِیِّ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ اِذَا اَسْلَمَ الرَّجُلُ کَانَ اَوَّلُ مَایُعَلِّمُنَا الصَّلَاۃَ اَوْقَالَ: عَلِّمُہُ الصَّلَاۃَ ۔
رسول اللہ ﷺ مسلمان ہونے والے شخص کو سب سے پہلے نماز سکھانے کا اہتمام کرتے ۔​
یہ حدیث طبرانی کبیر ، مسند ازار 338میں صحیح سند سے مروی ہے ۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد 1/293روایوں کو رجال الصحیح قرار دیا ہے ۔​
 
Top