نماز ادا نہ کرنے والے کی گردن مارنا
فَاِذَا انْسَلَخَ الاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوْا المُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ وَ خُذُوھُمْ وَاحْصُرُوْھُمْ وَاقْعُدُوْا لَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَبُوْا وَ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوْا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْ سَبِیْلَھُمْ اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ (التوبۃ:5)
حرمت والے مہینے گزرنے پر ان مشرکوں کو جہاں بھی پاؤ انہیں قتل کرو، انہیں پکڑو اور قید کرو، ان کی تاک میں ہر گھات میں بیٹھو۔ اگر توبہ کریں، نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں تو انہیں آزاد چھوڑ دو بیشک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان کو مخاطب ہو کر حرمت والے مہینے گزر جانے پر مشرکوں سے قتل کرنے کا حکم دے رہے ہیں اللہ عزوجل مشرکوں کو قتل سے پہلے انہیں پکڑنے ان کی راہیں روکنے اور انہیں قید کرنے کا حکم دے رہے ہیں۔ (یعنی ان کی بیویاں، ان کے بچے ان کے مال مسلمانوں کے لئے حلال ٹھہرا رہے ہیں) تاہم اس کے بعد اس سے نجات پانے کے لئے تین شرائط ذکر کی ہیں:
1۔ شرک سے پلٹ کر توبہ کرنا، یعنی زبانی طور پر کلمہ شہادت کا اقرار کرنا۔
2۔ نماز ادا کئے بغیر کردہ توبہ کی عملی تصدیق نہیں ہوتی اسی وجہ سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرآن میں یوں فرماتا ہے:
فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰی o وَلٰکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰیo (القیامۃ32-31)
نہ تصدیق کی نہ ہی نماز ادا کی بلکہ جھٹلایا اور عمل کرنے سے منہ پھیرا
وَاِذَا قِیْلَ لَھُمُ ارْکَعُوْا لَا یَرْکَعُوْنَ o وَیْلٌ یَؤْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ (المرسلات:49-48)
اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رکوع (نماز) ادا کرو تو رکوع (نماز) ادا نہیں کرتے۔ جھٹلانے والوں کے لئے اس روز ہلاکت ہے۔
اے اللہ کے بندے! آیات کریمہ سے واضح ہے کہ اللہ عز وجل کے ''نماز ادا کرو'' نامی حکم کی اطاعت نہ کر کے اللہ کے نازل کردہ احکام کی تکذیب ہوتی ہے۔
3۔ اللہ کی فرض کردہ زکوۃ بھی ادا کرنا ہے۔ ان شرائط کو پورا کرنے والے ہر آدمی کی جان، مال اور عزت و آبرو مسلمانوں پر حرام ہیں۔ ان کی خطاؤں کے لئے اللہ غفور رحیم ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت کی توضیح میں درج ذیل حدیث ذکر کرتے ہیں:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ قَالَ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوا اَنْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ، وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ، وَیُقِیْمُوْا الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُوْا الزَّکَاۃَ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّی دِمَائَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ اِلَّا بِحَقِ الْاِسْلَامِ، وَ حِسَابُھُمْ عَلَی اﷲِ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود برحق نہ ہونے اور محمد ﷺ کے اللہ کے رسول ہونے، کی شہادت نہ دیں، نماز قائم نہ کریں اور زکوۃ ادا نہ کریں۔ جب وہ یہ کام کرنے لگ جائیں تب انہوں نے اپنے خون اور مال مجھ سے محفوظ کروا لئے تاہم اسلام کا حق باقی ہے اور ان کا حساب و کتاب اللہ کے ذمے ہے۔ (یہ حدیث بخاری:25اور مسلم:129نے روایت کی ہے)۔
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ: اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَشْھَدُوا اَنْ لَا اِلٰـہَ اِلَّا اﷲُ، وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ، وَاَنْ یَسْتَقْبِلُوْا قِبْلَتَنَا وَاَنَّ یَاْکُلُوْا ذَبِیْحَتَنَا وَاَنَّ یُصَلُّوْا صَلاتَنَا فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ حُرُمَتْ عَلَیْنَا دِمَائُھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ اِلَّا بِحَقِّھَا لَھُمْ مَا لِلْمُسْلِمِیْنَ وَعَلَیْہِمْ مَا عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے الٰہ نہ ہونے اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہونے کی شہادت نہ دیں ہمارے قبلے کی طرف رخ نہ کریں ہمارا ذبیحہ نہ کھائیں اور ہماری نماز ادا نہ کریں جب وہ یہ کریں گے تب ان کی جانیں اور مال ہمارے لئے حرام ہیں صرف (اسلام کا) حق مستثنیٰ ہے۔ (نیز اب) ان کے وہی حقوق ہیں جو مسلمانوں کے ہیں اور ان کے ذمے بھی وہی کچھ ہے جو مسلمانوں کے ذمے ہے۔
یہ حدیث ابوداؤد 2641، ترمذی 2608، اور مسند احمد 269,61/2 میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔
عَنْ عَبْدِ الرَٗحْمٰنِ بْنِ اَبِیْ نَعِیْمٍ قَالَ: سَمِعْتُ اَبَا سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ یَقُوْلُ: بَعَثَ عَلِیُّ بْنُ اَبِی طَالِبٍ رَسُوْلِ اﷲِ ﷺ مِنَ الْیَمَنِ، بِذَھَبَۃٍ فِیْ اَدِیْمٍ مَقْرُوْظٍ۔ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِھَا۔ قَالَ: فَقَسَمَھَا بِیْنَ اَرْبَعَۃِ نَفَرٍ؛ بَیْنَ عُیَیْنَۃَ ابْنِ بَدْرٍ ، وَالْاَقْرَعَِ بْنِ حَابِسٍ ، وَزَیْدِ الْخَیْلِ ، وَالرَّابِعُ اِمَّا عَلْقَمَۃُ بْنُ عُلاَثَۃَ وَاِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَیْلِ ۔ قَقَالَ رَجُلٌ مِّنْ اَصْحَابِہٖ : کُنیَّا نَحْنُ اَحَقَّ بِہٰذَا مِنْ ھٰؤُلَائِ ۔ قَالَ : فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ ﷺ فَقَالَ : '' اَلاَ تَاْمَنُوْنِیْ ؟ وَاَنَ اَمِیْنُ مَنْ فِیْ السَّمَائِ ، یَاْتِیْنِیْ خَبَرُ السَّمَائِ صَبَا حًا وَمَسَائٌ '' ۔ قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَیْنَیْنِ ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَیْنِ نَاشِزُ الْجَیْھَۃِ ، کُثُّ الْلِحْیَۃِ ، مَحْلُوْقُ الرَّاْسِ ، مُشَمِّرُ الَاِزَارِ ۔ فَقَالَ یَارَسُوْلَ اﷲِ ! اتَّقِ اﷲَ ۔ فَقَالَ :'' وَیْلَکَ اَوَلَسْتُ اَحَقَّ اَھْلِ الاَرْضِ اَنْ یَتیَّقِیَ اﷲَ '' قَالَ: ثُمَّ وَلَّی الرَّجُلُ ۔ فَقَالَ خَالِدُبْنُ الْوَلِیْدِ : یَا رَسُوْلَ اﷲِ ! اَلاَ اَضْرِبُ عُنُقَہُ ؟ فَقَالَ : '' لاَ ، لَعَلَّہُ اَنْ یَکُوْنَ یُصَلِّی '' ۔ قَالَ خَالِدٌ : وَکَمْ مِنْ مُصَلٍّ یَقُوْلُ بِلِسَانِہٖ مَالَیْسَ فِیْ قَلْبِہٖ ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ : ''اِنِّیْ لَمْ اُوْمَرْ اَنْ اَنْقُبَ عَنْ قُلُوْبِ النَّاسِ وَلاَ اَشُقَّ بُطُوْنَھُمْ ''
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچھ سونا دباغت شدہ چمڑے میں بھیجا جو کہ تاحال مٹی سے جدا نہیں کیا گیا تھا ۔ رسول اللہ ﷺ نے ان چار آدمیوں میں اسے تقسیم فرمادیا ۔ عینیہ ابن بدر ، اقرع بن حابس ، زیدالخیل اور چوتھے علقمہ بن علاثہ تھے یا عامر بن طفیل ۔
اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے کسی ایک نے کہا ہم اس احسان کے ان کی نسبت زیادہ حق دار تھے ۔ یہ بات نبی کریم ﷺ تک پہنچنے پر نبی کریم ﷺنے فرمایا کیا تم مجھ پر اعتماد نہیں کرتے ہو ؟ میں تو سات آسمانوں کے اوپر والے رب العزت کاامین ہوں ۔ صبح و شام میرے پاس آسمان سے خبر (یعنی وحی) آتی ہے ۔ اس پر ایک آدمی کھڑا ہوتا ہے۔ جس کی دونوں آنکھیں گڑھی ہوئی تھیں ، دونوں گال (کپے کی طرح) پھولے ہوئے ، پیشانی ابھری ہوئی ، داڑھی گھنی ، سر منڈاہوا اور تہبند اوپر کو اٹھائے ہوا تھا ۔ وہ کہنے لگا۔ اے اللہ کے رسول ﷺ !اللہ سے ڈرو ''۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا تیرا ستیاناس ہو۔ کیا اس روئے زمین پر تمام انسانوں سے زیادہ اللہ سے ڈرنے کے لائق میں نہیں ہوں؟اس پر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چل دیا ۔
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ۔ اے اللہ کے رسول ﷺ کیا میں اس کی گردن نہ اڑادوں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: '' شاید نماز ادا کرتا ہو '' اس پر سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ۔ اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ کتنے ہی نمازی ایسے ہیں جو اپنی زبان سے وہ بات کہتے ہیں جوان کے دل میں نہیں ہوتی '' ۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''مجھے لوگوں کے دل چیرنے اور پیٹ پھاڑنے کا حکم نہیںدیا گیا ہے '' ۔
یہ حدیث مسلم 2452نے روایت کی ہے ۔
عَنْ عُبَیْدِاﷲِ بْنِ عَدِی بْنِ الْخِیَارِ اَنَّ عَبْدَاﷲِ بْنَ عَدِیْ حَدَّثُہُ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ بَیْنمَا ھُوَ جَالِسٌ بَیْنَ ظَھْرَانِیْ النَّاسِ ، اِذْ جَائَ ہُ رَجُلٌ یَسْتَاْذِنُہُ اَنْ یَسَارَّۃُ ، فَاَذِنَ لَہُ ، فَسَارَّہُ فِیْ قَتْلِ رَجُلٍ مَنَ الْمُنَافِقِیْنَ ، فَجَھَرَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ بِکَلاَمِہٖ وَقَالَ : '' اَلَیْسَ یَشْہَدُ اَنْ لاَ اِلٰہَ الاَّ اﷲُ ؟ '' قَالَ : بَلٰی ، یَارَسُوْلَ اﷲِ ، وَلاَشَھَادَۃَ لَہُ ۔قَالَ : '' اَلَیْسَ یُصَلِّی ؟'' قَالَ : بَلٰی یَارَسُوْلَ اﷲِ ، وَلاَ صَلاَۃَ لَہُ ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ : ''اُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ نُہِیْتُ عَنْ قَتْلِہِمْ ''۔
ایک دن نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کے درمیان تشریف فرماتھے ۔ کہ ایک آدمی آیا ۔ آپ ﷺ سرگوشی کرنے کی اجازت چاہی ۔ آپ ﷺ نے اجازت دی تو اس نے (ایک منافق) کے قتل کے بارے میں سرگوشی کی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے بآواز بلند کہا ۔ '' کیا وہ لاالہ الا اﷲ کی شہادت نہیں دیتا ''؟ اس نے کہا جی ہاںاے اللہ کے رسول ﷺ ! لیکن اس کی کوئی شہادت نہیں دیتا '' ؟ اس نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول
ﷺ ! لیکن اس کی کوئی شہادت نہیں ہے پھر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: '' کیا وہ نماز نہیں پڑھتا ہے '' ؟ اس آدمی نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول ﷺ ! لیکن اس کی کوئی نماز نہیں ہے ۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ یہی وہ (لا الہ الا اﷲ کی شہادت دینے اور نماز ادا کرنے والے ) لوگ ہیںجن کے قتل سے مجھے منع کیا گیا ہے ۔
یہ حدیث ابن حبان 12اور بیہقی 8/196نے روایت کی ہے ۔
اے اللہ کے بندے ! آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس باب کے شروع میں ہم نے آیات اور احادیث ذکر کی ہیں وہ
1۔ کلمہ شہادت کا اقرار نہ کرنا
2۔ نماز قائم نہ کرنے
3۔ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والے کے مال ، جان اور عزت کے مسلمان کے لئے حلال ٹھہرانے کی خبر دیتے ہوئے قتل کرنے کا حکم دے رہی ہی
ہیں ۔
مذکورہ احادیث میں صرف تارک نماز کے قتل کیے جانے کی بھی نشان دہی ہے ۔ اس بناء پر ایک آدمی کے قتل کیے جانے کے لئے مذکورہ بالا تینوں چیزوں کا ترک کرنا لاز م نہیں ہے کیونکہ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صرف (ایک زکوٰۃ ) ترک کرنے والوں کے خلاف اعلان جہاد کیا تھا ۔ اس جہاد کی تفصیلات ہمارے موضوع سے متعلق نہیں ہیں اس لئے یہاں تفصیلی ذکر نہیں کیا جارہا ہے ۔