جزاک اللہ خیرا
اس موضوع پر اس فورم پر میری بھی بحث ہوئی تھی، جس میں دونوں فریقین نے اپنے اپنے دلائل دئیے تھے، اس گفتگو کو آپ یہاں دیکھیں۔
بے نمازی کی تکفیر
میرا اور
حافظ عمران الٰہی کا موقف یہ تھا کہ بے نمازی کا کفر کفر اصغر ہے، جبکہ اس کے برعکس
محمد علی جواد بھائی اور طاہر اسلام عسکری بھائی کا موقف یہ تھا کہ بے نمازی کا کفر کفر اکبر ہے۔ مزید تفصیل کے لئے یہ گفتگو پڑھیں۔
پھر میں نے اس موضوع پر سرچنگ کی، تحقیق کی اور محدث فتویٰ ویب سائٹ بھی چیک کی۔ تو مجھے دونوں طرف کے دلائل ملے، البتہ کفر اصغر ہونے کے اور بھی ایسے دلائل ملے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بے نمازی کی بخشش ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم
کفر اصغر یا کفر اکبر میں واقع ہونے کی بحث میں نہیں جانا چاہوں گا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک بات (قول) اپنے پیارے استاذ محترم عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ سے سنی تھی ۔ صحابی فرماتے ہیں کہ تم ایسے ایسے کام کرتے ہو اور یوں محسوس کرتے ہو کہ ناک پر مکھی بیٹھی تھی سو اُڑا دی۔ حالانکہ ہم ایسے کام رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہلاکت خیز ہی گردانتے تھے۔
و ان امنوا بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدوا۔
چنانچہ معیارِ ایمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی ہیں۔
یہاں یہ بات بھی بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کر دیتا ہوں کہ
کسی شخص کی کسی انتہائی جسارت کی وجہ سے کوئی دوسرا شخص ایسی جسارت کرنے والے کو کافر و مشرک کہہ دیتا ہے تو اُسے ہمیشہ کے لئے نہیں سمجھنا چاہیئے بلکہ جس تناظر میں اُس نے کافر و مشرک کہا ہے اسے بھی نظر میں رکھنا چاہیئے۔ اگر فاعل ایسے کام سے باز آجائے اور اپنی اصلاح کر لے تو دوسرا شخص کبھی بھی اُسے کافر و مشرک نہیں گردانے گا بلکہ اُس کے متعلق حسن ظن ہی رکھے گا۔ لیکن اگر پہلا شخص توبہ و استغفار نہیں کرتا، اپنے عقیدے و عمل کی اصلاح نہیں کرتا، اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے تو
انما الاعمال بالخواتیم
کے تحت
اللہ کے ہاں اُس کا جو مقام ہے وہ تو خود اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے
ہمارے لئے اُس کا ظاہر ہی ہے
ظاہرا کسی کفر و شرک والے کام پر جان نکلے گی تو اُسے کافر و مشرک نہ گرداننا، ایمان اور ایمان والوں کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرامین کی بھی حق تلفی ہو گی۔ اور اللہ کی واضح اور روشن آیات کے ساتھ مذاق بھی ہو گا۔ اللہ کی نافرمانی بھی ہو گی۔
اور ان چیزوں کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔
اب ایک ایسی بات لکھوں گا جسے کوئی بھی شخص اپنے اوپر تنقید نہ سمجھے بلکہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچے۔ کیونکہ اگر جذبات کے تحت سوچیں تو یہ بہت بڑا فتوی ہو گا اور اللہ تعالیٰ مجھے ایسا کام کرنے کی توفیق نہ دے۔
بات یہ ہے کہ اگر جو شخص خود نماز میں کمی و کوتاہی کرتا ہو گا اور وہ دینی علم کا بھی حامل ہو گا تو اُس کی گفتگو کا محور ایسا ہی ہو گا کہ تارک نماز کفر اصغر کا مرتکب ہے۔
اس کے بر عکس
جو شخص خود نماز میں کمی کوتاہی نہیں کرتا ہو گا وہ اس مسئلہ پر بات کرتے ہوئے تارک نماز کو کفر اکبر کا ہی مرتکب گردانے گا۔
دوبارہ عرض کر دیتا ہوں کہ میری اس بات کو جذبات کے تحت فتوی نہ سمجھا جائے بلکہ یہ سمجھا جائے کہ اگر ایسے الفاظ لکھنے، بولنے اور ادا کرنے سے کسی کی یہ بدعادت ختم ہو جائے تو مقصود یہی ہے۔ ورنہ میں نے کسی دوسرے کا حساب نہیں دینا۔
اب آج کا ایک واقعہ بتاتا ہوں۔
میرے پاس ایک شاگرد آتا ہے۔ ماشاء اللہ حافظ قرآن ہے۔ اسکول کی نویں جماعت سے چھوڑ کر کمپیوٹر کمپوزنگ سیکھنے میرے پاس آتا ہے۔ اس کے والد صاحب میرے بہت گہرے اور اچھے دوست ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ نماز میں بہت سستی کرتا ہے۔ آج میں نے اُسے بہت زیادہ ڈانٹا ہے۔ وجہ صرف اور صرف آج کی عصر کی نماز میں سستی تھی۔
سوچئے میں نے اُسے سخت سست کیوں کہا؟ صرف اس لئے کہ حافظ قرآن ہو کر نماز میں سستی کرنا مجھ جیسے نالائق کی سستی سے زیادہ سنگین ہے۔ اس امید پر سختی کی کہ شاید وہ نماز ادا کرے تو اُس کو قرآن مجید کا حفظ کرنا فائدہ دے اور اس کے لئے خیر و برکت کا باعث بن جائے۔ اور اس بات کا خوف بھی مجھے دامن گیر ہے کہ ترک نماز اگر اس کی عادت بن گئی تو قرآن اُس کے سینے سے نکل جائے گا۔ کیونکہ میں نے بہت سے لوگوں کو ایسی مصیبت میں گرفتار دیکھا ہے کہ نماز نہ پڑھنے سے بہت پکا حفظ بھی جاتا رہا اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے اگر اس مسئلہ کو اس دردِ دِل کے ساتھ دیکھا جائے تو شاید ترک نماز کا کفر، کفر اصغر یا کفر اکبر ہونا، ہم بھول جائیں اور اصلاح کی طرف توجہ کرتے ہوئے تارک نماز کو نہی عن المنکر کرتے رہیں۔
اللہ تعالیٰ نیتوں کے حال سے واقف ہے۔
واللہ علیم بالذات الصدور۔